حبیب یزدانی نے عفت جہاں کو دیکھا جنہوں نے سنا تو سب کچھ تھا مگر اس قدر ہونق چہرہ بنایا ہواتھا گویا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جواب دے گئی ہو۔
نہیں نہیں، آپ مذاق کر رہے ہیں ناں حبیب ؟
حبیب صاحب جاتے جاتے لیئے ۔ ان کے قریب آئے جھک کر ان کی آنکھوں میں دیکھنے لگے۔
یہی حقیقت ہے it was not a joke
نہیں، تم لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔ کیا سوچ رکھا ہے آخرتم لوگوں نے میری معصوم بیٹی کے لیے؟"
صرف اس کی بھلائی۔ ڈونٹ دری
حبیب صاحب بیگم کی اندرونی کیفیت کو سمجھ رہے تھے مگر وہ کمزور مرد نہیں تھے کہ بیٹی یا بیویکے مطلب کے لیے بہائے گئے جھوٹے آنسوؤں میں بسر کر فیصلے بدل دیتے۔
حبیب ! ابھی میری بچی بہت چھوٹی ہے۔ اس پرکسی قسم کا برڈن ڈالنے کی ہر گزضرورت نہیں۔ ابھی وہ پڑھنا چاہتی ہے کچھ کرنا چاہتی ہے
حبیب صاحب ان کی بات پر مسکرادیے۔
بیگم صاحب کا ہم کیا چاہ رہے ہیں ابھی تو چاہ رہے ہیں کہ آپ کی بیٹی کو زندگی گزارنے کا قرینہ آ جائے بس اور یہ کوئی غلط بات تو نہیں۔
میں اور اماں جان اسے صرف پاکستانی مسلمان بچی کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں حبیب صاحب باہر نکل گئے ۔
" تو عفت نے غصے میں تکیہ اٹھا کر دیوار پر مارا تھا ا ونہوں یہ لوگ کبھی ترکی نہیں کر سکتے