وہ اس کو نہیں سن رہی تھی وہ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس سے دور جارہی تھی اور وہ بھاگتاہوااس کے پیچھے آرہا تھا یار میں مزاق کر رہا تھا قسم سے اب معاف کر بھی دو نہیں پہلے مجھے دی ہیون سے پیچ کر واؤ اس نے لاڑ سے ہادی کو کہا تھا
یار وہ شہر کا سب سے مہنگار یسٹورنٹ ہے میں غریب وہ نہیں افورڈ کر سکتا جاؤ پھر مجھے بات نہیں کرنی تم سے یار شفق تم تو کروڑ پتی باپ کی بیٹی ہوں دی خان انڈسٹریز دی خان فیبرک کمپنیز اور فلا فلا آدھے سے زیادہ کمپنیز تو تمہارے والد صاحب کی ہیں
پاکستان اور دوسرے ممالک میں اور میں غریب ڈاکٹر کا بیٹا مہینے میں دولاکھ بڑی مشکل سے کماتے ہیں میرےپاپا اچھا ہادی تم تو شروع ہی ہو جاتے ہوں چلو مجھے یونیورسٹی کی کینٹین سے ہی کچھ کھلا دو اس نے معصوم سی شکل بنا کر کہا تھا
اچھا بوکھی چلو موٹی بھینس بنتی جارہی ہو کھا کھا کر شفق نے ہادی کو گھوری سے نوازا توساتھ ہی بادی نے کان پکڑ لیے اچھا بابا مزاق کر رہا تھا
اب پھر نہ منہ بنا لینا پلیز اور شفق کھلکھلا کر ہنسنے لگی