Mujhy Roothny Na Dena By Nighat Abdullah

Mujhy Roothny Na Dena By Nighat Abdullah
 

اندر کسی محرومی کے احساس نے اچانک بیدار ہو کر ان کے چہرے اور لہجے کو بھی گرفت میں نے لیا تھا۔ جسے محسوس کر کے وہ کہنے لگے۔

ہر شخص ہی محروم ہے ۔ کسی نہ کسی پہلو سے ادھورا ہے

نہیں شہروز بھائی ۔ ہر شخص محروم نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو محرومی کا احساس کبھی نہ جاگتا۔ کسی کو اللہ میانے بساط سے بڑھ کر نواز دیا ہے تو کسی کو بساط بھر بھی نہیں ۔


وہ جو گھٹنوں میں چہرہ چھپائے بیٹھی تھی، چھوٹی آپا کی بات پر چونکی اور سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھنے لگی۔

وہ کہہ رہی تھیں ۔

انسانوں کے درمیان یہ تفریق گو کہ خود اس کی اپنی پیدا کردہ ہے لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہ دیا کہجو بلندی پر کھڑا ہے ، وہ بستی والے کو تھام لے اور ہم انسانوں نے اس تفریق کو تو قبول کر لیا  

لیکن ا س کی دوسری بات پر عمل نہیں کرتے ۔ بلندیوں کو چھونے والے پستیوں کی طرف حقارت سے دیکھتے ہیں۔

آپ کہیں گے شہروز بھائی کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے اور میں بھی مانتی ہوں کہ سب ایک جیسے نہیں

ہوتے لیکن زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی میں بات کر رہی ہوں ۔

مجھے آپ سے اتفاق ہے ۔ وہ کہنے لگے۔ لیکن یہ جو معاشرتی یا طبقاتی فرق کو آپ نے بلندی اور

پستی کا نام دے دیا ہے تو یہاں میں اختلاف کروں گا۔ پتا نہیں آپ کے تصویر میں بلندی کیا ہے۔میں توجب سر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو ہندی پر صرف آسمان ہی نظر آتا ہے جو بلا امتیاز سب پر سایہ فگن ہے اور جسے ہم میں سے کوئی بھی نہیں چھو سکتا۔


قدرے توقف کے بعد کہنے لگے ۔ اور گہرے پاتالوں کا نام پستی ہے ۔ میرے نزدیک پاتال یں وہی گرتاہے جو اپنے کردار کے ہر پہلو سے ادھورا ہو اور جو اپنی آبرو کی حفاظت نہ کر سکے۔ ایسا شخص جو خود اپنے ضمیر کی عدالت سے سرخرو نہ ہو سکے۔ اُسے کوئی دوسرا کیسے تھامے گا بھلا ہے۔



Post a Comment (0)
Previous Post Next Post