وہ بستر کے پاس کھڑی اس نیم مردہ وجود کو دیکھ رہی تھی - زرد چہرہ سیدھا اکڑہ وجود سفید پڑتے لب مشینوں میں جکڑا وجود - وہ جیسے جیسے دیکھ رہی تھی اس کی ہمت ختم ہو رہی تھی - جانے کب سے یہ وجود ایسے پڑا تھا - اس نے اپنے چہرے سے نقاب اتارا ہوا تھا اسے اس وجود پہ بہت ترس آیا- اتنا سب کچھ ہوکر بھی یہ سب کتنے بےبس ہیں - اور انسان اکڑتا ہے کہ میں ہوں- مال ودولت کی چاہ میں پڑ جاتا ہےاس رب کریم کو بھول جاتا- پر جب بھی وہ آزمائش ڈالتا ہے تو فورا سے اس کی جانب رجوع کرتا - سجدوں میں گر پڑتا ہے -گڑگڑاتا ہے اپنی خطائے یاد آتی ہیں - پر پھر وہ بھی وقتی طور پر
-اس کے گال سے آنسوں لڑھک کر سامنے پڑے وجود پہ گرے - تبھی کوئی اندر آیا - کون ہو تم لڑکی؟ آواز سن کر اس نے اپنے آنسو صاف کئے اور چہرے پہ نقاب کر کے پیچھے مڑی - جی وہ مجھے یہاں ان کا خیال رکھنے کے لئے بولا گیا ہے- کس نے رکھا ہے ؟ وہ ایک بزرگ ہیں انھو نے کہا تھا کسی ادارے میں تو وہاں کے مالک میرے بابا کے دوست ہیں اس لئے میں یہاں آئی ہوں -ہمم پر یہاں کسی بھی طرح کی کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی -
صبح تو ایک نرس آتی ہے یہاں پر بارہ بجے چلی جاتی ہے اس لئے تمہیں یہاں رک کر ان کا خیال رکھنا ہوگا - یہاں رک کر اس نے دھرایا ہاں کوئی مسلئہ ہے؟ پر مجھے تو بس شام چھے بجے تک کہا گیا تھا - ایسا ہوتا تو یہ جوب کوئی بھی کر سکتا تھا - اس لئے تو یتیم خانے میں اس جوب کا کہا گیا کہ انہیں کوئی مسئلہ نہی ہوگا - کشف سوچ میں پڑ گئی - کیا سوچ رہی ہو ?اگر نہی کرنی تو
Read Complete Novel Here
It's nice
ReplyDelete