Kuch bhi Na Kaha by Sumaira Hameed - PDF

 

Kuch bhi Na Kaha by Sumaira Hameed - PDF

وہ دوسری کتابوں کی باتیں کرنے لگتی
تھی۔ وہ اتنی شفیق ، نرم خو اور صاف نیت تھی کہ اس
سے بات کرنے میں کوئی جھجک نہ رہتی کسی ملازم کو
آواز دے کر بلاتی، سبز چائے منگوائی، اس کے
سامنے رکھواتی ، اور بات جاری رکھنے کے لیے کہتی۔
دو دن ایسے گزرے تھے کہ وہ صرف دو دن
نہیں لگتے تھے۔ اتنا تو وہ لاہور میں نہیں جیا تھا جتنا
یہاں جی لیا تھا۔
✩✩✩
وہ اسے پروفیسر صاحب کے طویل خطوط کے
کچھ حصّے  پڑھ کر سنانے لگا۔ یہ اس کا پہلا سفر تھا ، وہ
کچھ 
سنکی  ہو گیا تھا شاید۔ کتابوں کے ساتھ پروفیسر
صاحب کے خطوط بھی رکھ لایا تھا۔ یونان کے قصے
بڑی دلچسپی سے سنتی رہی۔ اور اس میں تھیٹر پلے پر دیر
تک سوال کرتی رہی۔
ٹھیٹر   تو لاہور میں بھی کلاس کا ہوتا ہے لیکن
یونان کی بات ہی اور ہے۔ اس نے خود ہی تبصرہ  کر
دیا۔
وہ افسوس سے سر ہلانے لگی۔ مجھے دونوں
سے مطلب نہیں رکھناچائیے 
وہ مسکرانا چاہتا تھا لیکن اسے دیکھ کر رہ گیا۔
آپ لاہورآئیے  گا۔“ کہہ نہ سکا۔


Read Complete Story Here




Post a Comment (0)
Previous Post Next Post