ٹھیک ہے میں جارہا تھا اسے اس بات کی خوشی تھی مگر کونسی کتاب میں لکھا ہے کہ میرے جانے کے بعد بیڈ پر اس کا حق ہوگا ؟ وه بےچارہ پہلے ہی ٹوٹا ہوا تھا بھئی ۔ ایک دن چھلانگ مار کر چڑھا تھا میں اس پر ، ٹڑک کی آواز آئی اور بیچ سے ایک لکڑی ٹوٹ گئی ۔ بمشکل اینٹیں رکھ کر سہارا دیا ہوا تھا میں نے اسے مگر اب جب وه موٹی حیا اس پر لیٹے گی تو آگے جو ہوگا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ غریب بندہ ہوں جاب اتنی اچھی تو ہے نہیں کہ نیا فرنیچر لوں ۔۔ ہہہ اسے میری غربت کا خیال کرنا چاہئے ۔ بیرون ملک تو مجھے آفس والے بس ایسے ہی بھیج رہے تھے ورنہ میں کونسا لینڈ لارڈ کا بیٹا لگا ہوں یہاں ۔۔۔ بدتمیز حیا !
خوشی کے مارے اسے نیند ہی نہیں آرہی ۔ کب سے صوفے پر کروٹیں بدل رہی ہے ۔ اللہ کرے پورے ماہ اسے نیند نہ آئے ۔ اکیلے کمرے میں اسے ” دی نن “ نظر آئے ۔ ڈریکولا اس کا خون پینے آجائے ۔ ( تازہ تازہ موویز دیکھنے کا مثبت فائده ۔ واو !! )
سوچ رہا ہوں اسے اس کے اپنے کمرے میں بھیج دوں مگر اماں میری نہیں سنیں گی ۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ شوہر کے بعد اکیلا كمره بیوی کو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے مگر ہائے رے قسمت ۔۔ کون سمجھے گا میرے جذبات کو ؟؟!
میں بےچارہ ہیرو ۔۔ نجانے کس موٹی حیا کو میرے متھے مار دیا گیا ہے ۔۔۔ ہہہ ۔۔ !
_________________________:-
فنالی فنالی شیر خان گیدڑ راجہ مہاراجہ آج صبح ہی اس پاک وطن سے جاچکے تھے ۔ ہائے کاش وه دنیا سے بھی چلا جاتا ۔۔ ( سوری اللہ جی غلطی سے منہ سے نکل گیا ۔۔ سوری سیریس مت لیجئے گا پلیز ۔ سیریس تو میں نے آج تک اپنی لائف کو بھی نہیں لیا آپ بھی برا مت مانئے گا ۔ ہاں ٹھیک ۔!! )
اس کا بیڈ کیا مزے کا تھا بھئی نرم نرم اف ۔۔ ایک اماں ہیں اکلوتی بیٹی کو کباڑ خانے سے اٹھوا کر دیا تھا بیڈ ہہہ سوتیلی ہوں ناں ان کی ۔۔ !
اسی خوشی میں میں یونیورسٹی نہیں گئی تھی ۔ اتنے عرصے بعد اتنے مزے کی جگہ پر مزے کی نیند آئی تھی اف ۔۔ !
اس کے جانے کا جہاں مجھے فائده ہوا تھا وہیں تھوڑا سا نقصان بھی ۔ میری فجر کی نمازیں چھوٹ رہی تھی ، مجھے وہی اٹھاتا تھا نماز میں ۔ الارم سے آنکھ نہیں کھلتی تھی میری مگر اب وه نہیں تھا ۔۔۔۔
یونیورسٹی جانے کے لئے بھائیوں کی منتیں کرنی پڑتی تھیں اور واپسی میں خود آنا پڑ رہا تھا کیونکہ بھائی آفس ہوتے تھے ۔ ہائے رے قسمت !
Read Do sar phiray Complete Novel Here