ڈائن کا انتقام
قسط:6
از_قلم_فاطمہ
ہیڈکوارٹر کے کمرے میں یاسر ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔
"بیٹھ جاؤ یاسر، اتنی ٹینشن لینا صحت کے لیے اچھا نہیں ہے،" بوس نے کہا۔
"کیا کروں بوس؟ ٹینشن ہو رہی ہے۔ ابھی تک کسی نے ہم سے رابطہ تک نہیں کیا،" یاسر نے بے چینی سے جواب دیا۔
"ہم وہاں جا تو رہے ہیں نہ؟" بوس نے اطمینان دلانے کی کوشش کی۔
"کب بوس، کب؟ جب ان کی موت کی خبر آئے گی تب؟" یاسر کے لہجے میں بے بسی واضح تھی۔
"یہ تم کیا کہہ رہے ہو، یاسر؟" بوس نے حیرت سے پوچھا۔
"میرا عمران کے سوا کوئی نہیں ہے، ڈیڈ،" یاسر نے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔
قاسم صاحب نے اپنے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے دلاسہ دینے لگے۔ کیوں کی وہ جاتنے تھے ان کا بڑا بیٹا عمران کو لے کر کتنا
possessive
تھا آخر عمران کو اس نے ماں بن کر جو پالا تھا
"آپ نہیں جانتے، ڈیڈ ، جو میں جانتا ہوں۔ سحر آباد گاؤں ایک عام گاؤں نہیں ہے، یہ موت کا گاؤں ہے۔ وہاں جانے والا کبھی واپس نہیں آیا،" یاسر نے سنجیدگی سے کہا۔
"کیا جانتے ہو تم اس کے بارے میں؟" قاسم صاحب نے تھوڑی سختی سے پوچھا۔ ان کی آواز کا لہجہ یاسر نے محسوس نہیں کیا۔
"یہی کہ ڈیڈ، وہاں جانے والا کبھی واپس نہیں آتا۔ نہ اس کا زندہ جسم، نہ ہی اس کا مردہ جسم،" یاسر نے وضاحت دی۔
"ٹھیک ہے، پھر ہم چلتے ہیں سحر آباد گاؤں،" قاسم صاحب نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ آخر وہ بھی تو ایک باپ تھے، آخر کتنا صبر کرتے۔
قاسم صاحب کے دو بیٹے تھے: پہلا یاسر اور دوسرا عمران۔ قاسم صاحب I.B کے چیف تھے۔ اپنے ڈیڈ کو دیکھ کر دونوں بھائیوں میں بھی وطن سے محبت کا جذبہ جاگ اٹھا تھا۔ اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دونوں بھائی بھی سیکریٹ ایجنٹ بن گئے تھے۔ یاسر کی ماں عمران کو جنم دیتے وقت ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئی تھی۔ باپ کی سخت ملازمت کے باعث دس سالہ یاسر نے ہی عمران کو ماں بن کر پالا تھا۔ عمران بھی اپنے بھائی سے زیادہ اٹیچ تھا اور اسی کو دیکھتے ہوئے وہ بھی ایجنٹ بن گیا تھا۔
جیسے ہی عمران کو ہوش آیا، اس نے خود کو ایک کمرے میں بند پایا۔
"پھر سے نہیں..." عمران آس پاس دیکھتے ہوئے کہا۔ مگر یہ کیا، وہ پر سوائے عمران کے کوئی نہیں تھا۔
"باقی سب کہاں ہیں؟" عمران بڑبڑایا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ جیسے ہی اس نے دروازہ چھوا، ایک زور دار جھٹکا لگا، وہ کسی بوری کی طرح اڑتا ہوا دیوار سے جا ٹکرایا۔ جیسے ہی عمران زمین پر گرا، زھریوں وہاں نمودار ہوا۔
"کیا ہوا؟ نہیں کھل سکے؟ نہ دروازہ؟ ہاہاہا! چھو بھی نہیں سکتے تم دروازے کو جب تک میں نہ چاہوں !" زھریوں نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا وہ وہان پر اپنی اصل شکل میں آیا تھا جیسے دیکھ کر عمران نہ تو ڈرا نہ تو گھبرایا ۔
"ہمیں یہاں قید کیوں کیا گیا ہے؟ کیا کرنا چاہتے ہو تم ہمارے ساتھ؟" عمران نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس جن کا گلا دبادے۔
"ہششش! آواز نیچے! مجھے زیادہ اونچا بولنے والے بالکل بھی پسند نہیں!" زھریوں نے کہا۔
"میرے باقی دوست کہاں ہیں؟"
"دیکھنا چاہتے ہو تمہارے دوستوں کو؟" زھریوں نے کہا تو عمران نے اثبات میں سر ہلایا۔ زھریوں نے ہوا میں ہاتھ ہلایا، وہاں ایک روشنی نمودار ہوئی اور ساتھ ہی وہاں ایک بڑی سی اسکرین بن گئی، جیسے بڑی
LED
ٹی وی ہو۔
"یہ کیا کر رہے ہو تم؟"
"تمہارے دوستوں کو دکھا رہا ہوں!" زھریوں نے کہا۔ اسی کے ساتھ اس بڑی سی اسکرین پر عالیہ، نور، طاہر، آیان دکھائی دینے لگے۔ انہیں گلے سے باندھ کر ایک بڑے سے درخت پر لٹکایا گیا تھا، سحر آباد گاؤں چاروں طرف سے آگ کی لپیٹ میں جل رہا تھا ۔
"یہ تم نے کیا کیا ہے ان کے ساتھ؟ چھوڑ دو انہیں!" عمران نے بولتے ہوئے زھریوں کی طرف بڑھا، لیکن وہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ اسے لگا جیسے کوئی ان دیکھی مخلوق نے اسے سختی سے جکڑ رکھا ہو۔
"مجھے مارنے کی سوچنا بھی مت! تم انسان بہت کمزور ہو، جو کمزور ہوتا ہے، وہ اپنے سے زیادہ طاقتور سے لڑنا نہیں چاہئے ، ورنہ انجام موت ہوگا!" زھریوں نے عمران کے بلکل سامنے آتے ہوئے کہا۔
"تم شاید بھول گئے ہو، جو جتنا طاقتور ہوتا ہے، اتنا ہی کمزور ہوتا ہے۔ کمزور کو کمزور سمجھنے کی غلطی مت کرنا، ورنہ اس کا انجام بھی بہت برا ہوگا!" عمران نے بھی اسی کے ٹون میں جواب دیا
"کافی نڈر انسان لگتے ہو! ورنہ میری اصل پہچان دیکھ کر بڑے سے بڑے طاقتور انسان بھی بے ہوش ہو جائے !"
"تمہیں دیکھ کر کیوں ڈروں؟ یہ مت بھولو کہ تم بھی اس پاک پروردگار کی بنائی ہوئی مخلوق ہو!" عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔ زھریوں نے اسے گھورا-
"تم نے کہا تھا تم سب سے زیادہ طاقتور ہو، مگر تمہارے زیادہ طاقتور مالک وہاں اوپر بیٹھا ہوا ہے۔ تم چلے تھے اس کے برابری کرنے؟" عمران نے کہا اور پھر زور زور سے آیت الکرسی کی تلاوت کرنے لگا۔ جیسے جیسے وہ آیت پڑھتا گیا، زھریوں چیختا جاتا۔
"بس کرو! بس کرو! روک جاؤ!" زھریوں نے چیختے ہوئے کہا۔ عمران نے بس نہیں کیا، وہ اور زور زور سے تلاوت کرتا جارہا تھا کیونکہ اس نے سنا تھا کہ شیطانی جن جتنے بھی طاقتور ہوں، وہ اللہ کے کلام کے سامنے ٹک نہیں پائیں گے۔
عمران اس ان دیکھی مخلوق سے آزاد ہو چکا تھا۔ وہ پڑھتے ہوئے زھریوں کے بلکل سامنے کھڑا ہو گیا۔ یہ دیکھ کر زھریوں پلک جھپکتے ہی وہاں سے غائب ہو چکا تھا۔ جیسے ہی وہ غائب ہوا، اسکرین بھی غائب ہو گئی تھی اور دروازہ بھی خود بخود کھل چکا تھا۔ یہ دیکھ کر عمران فوراً باہر نکلتا چلا گیا۔
عمران جیسے ہی باہر نکلا، اس نے دیکھا کہ گاؤں میں ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی۔ پورا گاؤں جل رہا تھا بلکل ویسے ہی جیسے بیس سال پہلے جالا تھا ۔ آگ کا دھواں آسمان تک پہنچ رہا تھا۔ عمران دوڑتا ہوا اپنے دوستوں کو ڈھونڈنے لگا۔
"طاہر، آیان، عالیہ، ہارون، نور!" عمران اپنے دوستوں کو آواز دینے لگا۔
جیسے ہی عمران ایک گلی میں داخل ہوا، اسے اپنے دوستوں کے چیخنے کی آواز سنائی دی۔ عمران تیزی سے اس سمت دوڑا۔ جب وہ وہاں پہنچا، تو اس نے دیکھا کہ اس کے تمام دوست ایک درخت پر رسی سے لٹکے ہوئے تھے۔
"عمران، بچاؤ ہمیں!" آیان نے چیختے ہوئے کہا۔
عمران کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ چاروں طرف آگ ہی آگ دکھائی دے رہی تھی۔ اگر اس نے جلدی سے کچھ نہیں کیا تو اس کے دوست جل سکتے تھے۔ عمران نے پریشانی کے عالم میں سر پر ہاتھ رکھا اور بے بسی سے اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ وہاں پانی بھی موجود نہیں تھا۔
"کیا کروں، کیا کروں؟" وہ بڑبڑاتے ہوئے ادھر ادھر ٹہل رہا تھا کہ اچانک اس کے دماغ میں کچھ کھٹکا۔ عمران نے نظر اٹھا کر آگ کی طرف دیکھا۔ جیسے ہی اس نے آگ کو دیکھا، اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی، اور وہ زور زور سے آیتہ الکرسی کی تلاوت کرنے لگا۔
جیسے جیسے عمران تلاوت کرتا گیا، آگ دھیرے دھیرے کم ہوتی گئی۔ آخرکار، آگ مکمل طور پر بجھ گئی۔ عمران نے تلاوت روک دی اور تیزی سے اپنے دوستوں کے پاس پہنچ کر ان کی رسی کاٹنے لگا۔
جیسے ہی رسی کاٹی گئی، سب ایک ایک کرکے زمین پر گرتے چلے گئے۔
"تم سب ٹھیک ہو؟" عمران نے پوچھا۔
"ہاں، ہم سب ٹھیک ہیں۔ تم ٹھیک ہو؟" طاہر نے جواب دیا۔
"ہاں، میں بھی ٹھیک ہوں۔" عمران نے کہا۔
"عمران، ہمیں یہاں سے جلدی نکلنا چاہیے!" طاہر نے مشورہ دیا۔
"مگر کیسے؟ وہ جن ہمیں نکلنے دے تب نا!" عمران نے تشویش ظاہر کی۔
"جب سے یہاں آئے ہیں، کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم مجرم پکڑنے نہیں بلکہ مجرم ہمیں پکڑ رہے ہیں۔ جب دیکھو بے ہوش کر دیتے ہیں، اور جب ہوش آتا ہے تو خود کو کسی اور جگہ پاتے ہیں!" آیان نے جھنجھلا کر کہا۔
"ہم یہاں سے تب تک نہیں نکل سکتے جب تک اس جن کو ختم نہ کر دیں۔" عمران نے پختگی سے کہا۔
"جن کو ختم کرنا؟ وہ کیسے ممکن ہے؟" طاہر نے حیرت سے پوچھا۔
"ویسے ہی، جیسے اس نے اتنے سارے لوگوں کو ختم کیا!" عمران نے جواب دیا۔
"عمران، وہ جن ہے۔ ہم انسان ہیں، ہم کبھی جن کا مقابلہ نہیں کر سکتے!" نور نے خوفزدہ ہو کر کہا۔
"کس نے کہا کہ انسان جن کا مقابلہ نہیں کر سکتے؟ ابھی تم نے دیکھا نہیں کہ جب میں نے قرآن کی آیت کی تلاوت کی، تو آگ ٹھنڈی پڑ گئی۔ یہ آگ جن نے اپنے جادو سے لگائی تھی۔ مجھے اب سمجھ آ گیا ہے کہ جن کی کمزوری کیا ہے: قرآنی آیات۔ یہ آیات شیطانی جن کی سب سے بڑی کمزوری ہیں، اور یہ ان کی جان بھی لے سکتی ہیں!" عمران نے اعتماد سے کہا۔
"مگر وہ ہے کہاں؟" آیان نے سوال کیا۔
"اب وہ واپس نہیں آئے گا۔ جب میں نے قرآن کی تلاوت کی، تو وہ بہت کمزور ہو گیا ہے۔ جب تک وہ دوبارہ طاقتور نہیں ہو جاتا، وہ نہیں آئے گا۔" عمران نے وضاحت کی۔
"تو ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے!" نور نے مشورہ دیا۔
"نہیں! مجھے یقین ہے کہ وہ جن یہیں کہیں ہے۔ ہمیں اسے پکڑنا ہوگا کیونکہ وہی ہمیں اصل باس کے بارے میں بتا سکتا ہے۔ اگر ہمیں اس تنظیم کا باس مل جائے، تو سمجھ لو کہ پورا کوبرا تنظیم ہماری مٹھی میں ہے!" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔
"مگر ہم اسے ڈھونڈیں گے کیسے؟ وہ کوئی انسان نہیں، ایک ان دیکھی مخلوق ہے۔ وہ صرف تب دکھائی دیتا ہے، جب خود دکھائی دینا چاہے!" آیان نے سوال کیا۔
ابھی وہ سب بات کر رہے تھے کہ اچانک آسمان کے اوپر سے ہیلی کاپٹر کی آواز سنائی دی۔ سب نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔
"یہ ہیلی کاپٹر ایجنسی کا لگتا ہے!" طاہر نے کہا۔
"لگتا ہے ہماری مدد کے لیے آ رہے ہیں!" عالیہ نے امید بھرے لہجے میں کہا۔
ہیلی کاپٹر کو دیکھ کر سب نے زور زور سے ہاتھ ہلایا۔ کچھ ہی دیر میں ہیلی کاپٹر زمین پر اترنے لگا۔ جیسے ہی وہ نیچے پہنچا، ایجنٹس لائن بنا کر نیچے اترنے لگے۔
سب سے آخر میں قاسم اور یاسر نمودار ہوئے۔
"بوس،" سب نے ایک ساتھ کہا اور ان کی طرف دوڑ پڑے۔
"تم سب ٹھیک ہو؟ ہمیں تمہاری بہت فکر ہو رہی تھی،" یاسر نے پوچھا۔
"ہاں بوس، ہم ٹھیک ہیں، لیکن اس گاؤں میں کوئی ٹھیک نہیں۔ یہاں قتل عام ہوا ہے، وہ بھی ایک دو نہیں بلکہ سو لوگوں کو مارا گیا ہے،" عمران نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
"آپ چلیں، حویلی چلتے ہیں، وہاں سب کچھ معلوم ہو جائے گا،" عمران نے کہا۔
سب لوگ حویلی کی طرف بڑھ گئے۔ جیسے ہی وہ وہاں پہنچے، منظر دیکھ کر سب دنگ رہ گئے۔
"یہ... یہ سب کیا ہے؟ یہ کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا،" قاسم نے حیرانی سے کہا۔
"نہیں بوس، یہ انسان کا کام نہیں ہے۔ یہ ایک جن کا کام ہے،" طاہر نے جواب دیا۔
"جن؟" قاسم نے حیرت سے دہرایا۔
"جی ہاں، سر۔ یہ قتل عام جن نے کیا ہے۔ انسان چاہے کتنا بھی درندہ ہو، اس طرح کی حرکت نہیں کر سکتا،" طاہر نے وضاحت کی۔
"کوئی زندہ بچا ہے؟" یاسر نے پوچھا۔
"نہیں، کوئی نہیں بچا،" عمران نے کہا۔
"نہیں، وہ بے ہوش شخص بچا ہے،" آیان نے یاد دلایا۔
"ہاں، اسی نے تو ہمیں وہاں بھیجا تھا،" ہارون نے کہا۔
"ٹھیک ہے، ہارون، تم کچھ لوگوں کو لے کر وہاں جاؤ اور دیکھو کہ وہ زندہ ہے یا نہیں،" یاسر نے ہدایت دی۔ ہارون نے سر ہلا کر کچھ لوگوں کو ساتھ لیا اور جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔
"باقی سب گاؤں میں پھیل جاؤ۔ ہر جگہ چھان مارو، کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی نظرانداز نہ کرنا،" یاسر نے باقی لوگوں کو ہدایت دی۔ سب لوگ گاؤں میں پھیل گئے اور یاسر و قاسم حویلی کے اندر چلے گئے۔
حویلی کے اندر داخل ہوتے ہی وہ دونوں اور بھی حیرت زدہ ہو گئے۔
"اتنی حیوانیت... یہ کس نے کیا ہو گا؟" قاسم نے بے یقینی سے کہا۔
"کہا تو ہے، یہ جن کا کام ہے،" عمران نے کہا۔
"لیکن جن بھلا ایسی حرکت کیوں کرے گا؟" یاسر نے سوال کیا۔
"جن نے ایسی حرکت نہیں کی، جس کے وش میں ہو، اس نے کریا ہے،" عمران نے کہا۔
"وش؟ ہاں، وش۔ وہ جن کسی کے قید میں تھا۔"
"دیکھو عمران، میں جن ون کو نہیں مانتا۔ ہمیں پوسٹ مارٹم کا انتظار کرنا پڑے گا۔"
"تو اس کا مطلب ہے آپ اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں؟" عمران نے طنزیہ انداز میں کہا۔
"میں نے ایسا نہیں کہا۔ جیسے اللہ نے انسان کو بنایا، جانوروں کو بنایا، اسی طرح جنوں کو بھی اللہ نے پیدا کیا ہے۔ میں اس کی کسی بھی بنائی ہوئی مخلوق کا انکار نہیں کر رہا۔ میں صرف سائنسی طور پر بات کر رہا ہوں۔"
"بھاڑ میں گئی آپ کی سائنس، بوس! جو حادثہ ہمارے ساتھ پیش آیا اور جس طرح ہم موت کے منہ سے نکل کر آئے ہیں، یہ ہمیں ہی پتا ہے۔ آپ لوگوں کو اس کے بارے میں کچھ نہیں پتا ہوگا، اور ہمارے بتانے سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ کیونکہ کچھ حادثے ایسے ہوتے ہیں جن پر انسان تب تک یقین نہیں کرتا جب تک وہ خود اس کا سامنا نہ کرے،" عمران نے کہا۔
سب سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ واقعی ان کے ساتھ جو حادثے ہوئے تھے، ان پر کوئی یقین کرنے والا نہیں تھا۔
"دیکھو عمران، میں حقیقت پسند انسان ہوں۔ جب تک اپنی آنکھوں سے کوئی چیز نہ دیکھ لوں، تب تک کسی بات پر یقین نہیں کرتا،" بوس نے کہا۔
"ہاں، صحیح کہا۔ اگر ہم مر جاتے اور ہماری لاش بھی ان میں شامل ہوتی، تو جب آپ لوگ یہاں آتے تب بھی آپ کو یہی لگتا کہ یہ کسی انسان کا کام ہے، جن کا نہیں،" عمران نے جواب دیا۔
"عمران، جو تمہارے ساتھ ہوا، وہ تم بول رہے ہو۔ لیکن ہم جو یہاں دیکھ رہے ہیں، وہ ہم بول رہے ہیں۔ یہاں کے حالات دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی بھوکے بھیڑئیے کے جھنڈ نے حملہ کیا ہو۔ یہاں کوئی بھی ہوگا، یہی تصور کرے گا،" یاسر نے کہا۔
"یہی میں بھی بول رہا ہوں۔ آپ یہاں نہیں تھے۔ کاش آپ بھی وہ بھیانک منظر دیکھتے،" عمران نے سر ہلاتے ہوئے کہا، کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ ان کے سامنے جن کی بات کرنا ایسا ہے جیسے بھینس کے سامنے بین بجانا۔ جبکہ وہ خود اس حقیقت کو تسلیم کر رہا تھا۔
عمران وہاں سے ہٹ گیا اور حویلی کے اندر بڑھ گیا، جہاں سب کچھ نہ کچھ سراغ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پیچھے قاسم صاحب اور یاسر اسے جاتا دیکھتے رہ گئے۔
ہارون جیسے ہی اس جگہ پہنچا جہاں وہ لوگ گئے تھے، تو دیکھا کہ وہ آدمی ویسے ہی بے ہوش پڑا تھا۔ ہارون جلدی سے اس کے پاس گیا اور اس کی نبض چیک کی، تو اس کی سانس چل رہی تھی۔ ہارون نے جھک کر اسے اٹھایا، اپنے کندھے پر ڈالا اور وہاں سے چلا گیا۔
دوسری طرف، عالیہ اور نور ایک گروپ بنا کر حویلی کو پھر سے دیکھ رہے تھے کہ تبھی انہیں ایک خفیہ دروازہ نظر آیا جس پر بڑا سا تالا لگا ہوا تھا۔
"یہ دروازہ؟"
"لگتا ہے یہ خفیہ دروازہ ہے۔"
"لگتا تو ہے، سالوں سے بند پڑا ہے، کسی نے کھولا نہیں۔"
"ہمیں اندر جانا چاہیے۔"
"مگر کیسے؟ یہ تالا بہت بڑا ہے، جیسے گاؤں کے گیٹ پر ہوتا ہے،" نور نے کہا۔ تبھی عالیہ کو کچھ یاد آیا، اور وہ اپنے بیگ میں کچھ ڈھونڈنے لگی۔
"کیا ڈھونڈ رہی ہو؟ چابی؟"
"چابی؟ ہاں، میں نے رکھ لی تھی۔"
"تمہیں پتا ہے نا، مجھے قدیم چیزیں جمع کرنے کا شوق ہے۔"
"ہاں، پتا ہے۔ آج تمہارا شوق ہمارے کام آگیا،" نور نے مسکراتے ہوئے کہا تو عالیہ بھی مسکرا دی۔ عالیہ نے چابی گھما کر تالا کھولا تو دروازہ کھلتا چلا گیا۔ بہت سالوں سے بند ہونے کی وجہ سے ہر طرف مکڑی کے جالے بند گئے تھے اور دھول اڑ رہی تھی۔
"اف، یہ دھول!" نور نے کھانستے ہوئے کہا۔ وہ دونوں اندر داخل ہوئیں۔
اندر کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔
"یہاں تو اندھیرا ہے،" نور نے کہا، تو عالیہ نے بیگ سے ٹارچ نکالی۔ ایک نور کی طرف بڑھائی اور دوسرا خود آن کر لیا۔ وہ دونوں ٹارچ کی روشنی میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ ہر طرف دھول اور مکڑی کے جالے ہی تھے۔ وہاں پر کچھ پرانے سامان تھے، جو زنگ آلود ہو چکے تھے، اور سارے سامان دھول سے بھرے ہوئے تھے۔ نور اور عالیہ ہر ایک چیز کا اچھے سے جائزہ لے رہی تھیں کہ تبھی ان کی نظر دیوار پر پڑی۔ دیوار پر ایک تصویر لٹکی ہوئی تھی، جو سفید چادر سے ڈھکی ہوئی تھی۔
"یہ کیا چیز ہو سکتی ہے؟" عالیہ نے کہا اور اس کی طرف بڑھی۔ جیسے ہی اس نے پردہ ہٹایا، وہاں ایک فیملی فوٹو تھی جس میں چار لوگ کھڑے تھے۔ دو لڑکیاں، دو لڑکے، ماں، باپ، بھائی، بہن۔ باپ کا چہرہ صاف نہیں دکھائی دے رہا تھا، مگر باقی سب کے چہرے واضح تھے۔ عالیہ باقیوں کو نہیں دیکھ رہی تھی۔ اس کی نظر ایک عورت پر ٹکی ہوئی تھی۔
"وہ دیکھو، عالیہ!" نور کی آواز نے عالیہ کو ہوش میں لا دیا۔
عالیہ نے نور کو دیکھا، جو کسی اور چیز کو دیکھ رہی تھی۔ عالیہ نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ تصویر نیچے اتاری اور اس کے اندر کی تصویر نکال لی۔ یہ کام اس نے جلد بازی میں کیا، جس کی وجہ سے وہ ایک اور تصویر دیکھ نہیں پائی۔ تصویر کو بیگ میں رکھتے ہوئے نور کی طرف بڑھ گئی۔
"کیا بات ہے، نور؟ کیا ہوا؟"
"یہ دیکھو، یہ فائل۔"
"کون سی فائل؟ لگتا ہے یہ بلیک کوبرا تنظیم کی ہے؟"
"کھولو اسے!" عالیہ نے کہا۔
"ٹھیک ہے، تم ٹارچ فائل پر ڈالو،" نور نے کہا۔ عالیہ نے ٹارچ فائل پر ڈالی۔ جیسے ہی نور نے فائل کھولی، وہاں ایک صفحے پر بڑا سا کوبرا سانپ بنا ہوا تھا، جو پھن نکالے ہوئے زہر اگل رہا تھا۔ جیسے جیسے وہ فائل پڑھتی گئیں، ان کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹی جا رہی تھیں۔
"یہ فائل ہمارے بہت کام آئے گی،" نور نے کہا۔
"ہاں، ہمیں یہ بوس کو دکھانی چاہیے،" عالیہ نے کہا۔ نور نے اثبات میں سر ہلایا، اور دونوں باہر کی طرف بڑھنے لگیں۔
جیسے ہی وہ دونوں باہر نکلنے کے آگے بڑی نور کا پیر کسی چیز سے ٹکرایا، اور وہ اسی جگہ گری جہاں عالیہ نے وہ فوٹو فریم چھپایا تھا۔
"یہ کیا ہے؟" نور نے دل میں سوچا۔ اس نے فریم کے پیچھے چھپے کاغذ کو کھینچ لیا۔ جیسے ہی اس نے کاغذ سیدھا کیا، اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں، کیونکہ وہ تصویر کسی اور کی نہیں، نور کی دادا کی تھی۔
"نور، کیا ہوا؟ تم ٹھیک ہو؟ دیکھ کر نہیں چل سکتی تھی؟" عالیہ نے کہا، مگر نور خاموش رہی۔
"تم ٹھیک ہو؟" عالیہ نے پھر سے پوچھا تو نور نے اثبات میں سر ہلایا۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے چلتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔ کیا وہ صرف کمرے سے نکل گئیں، یا کچھ ایسا راز بھی اپنے ساتھ لے گئیں، جو انہیں بھی نہیں معلوم تھا؟
عمران ان لوگوں سے الگ ہو کر آگے بڑھ گیا تھا۔ اس کے چہرے پر جھنجھلاہٹ واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی۔
"عجیب مصیبت ہے، کوئی میری بات پر یقین کیوں نہیں کر رہا!" عمران نے غصے سے کہا اور ساتھ ہی ایک کمرے کے دروازے کو زور سے لات مار دی۔ جیسے ہی عمران نے دروازے کو لات ماری، وہ دروازہ کھلتا چلا گیا۔ دروازہ کھلتے دیکھ کر عمران حیران رہ گیا۔
"ارے، یہ دروازہ کھلا ہوا تھا؟" عمران بڑبڑایا اور اندر داخل ہو گیا۔
اندر کمرے کی حالت بہت خراب تھی۔ ہر جگہ دھول اور مکڑی کے جالے بنے ہوئے تھے، اور کمرہ پوری طرح اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ عمران نے اپنی جیب ٹٹولی۔ اس کی جیب میں ایک چھوٹا سا منی ٹارچ تھا۔ عمران نے منی ٹارچ نکالی اور اس کی روشنی میں آگے بڑھنے لگا۔
کمرے کے کئی سالوں سے بند ہونے کی وجہ سے ایک عجیب سی بو اٹھ رہی تھی، جس سے عمران کو سانس لینے میں مشکل ہو رہی تھی۔ وہ بہت دھیان سے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہا تھا کہ اچانک اس کے پیچھے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔ عمران جیسے ہی مڑا، وہاں پر کوئی نہیں تھا۔
"کون ہے وہاں؟" عمران نے زور سے کہا، مگر کوئی جواب نہیں آیا۔
"دیکھو، تم جو بھی ہو، مجھے ڈرانے کی غلطی مت کرنا۔ میں ڈرنے والا نہیں ہوں۔ ہمت ہے تو سامنے آؤ! تم جو بھی ہو، چاہے ڈائن ہو، جن ہو یا زھریوں ، سامنے آؤ!" عمران چلایا، مگر کوئی جواب نہ آیا، نہ ہی کوئی آواز آئی۔
یہ دیکھ کر عمران آگے بڑھنے لگا۔ وہ ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ اس کی نظر ایک دیوار پر پڑی۔ عمران دیوار کے پاس جا کر اسے غور سے دیکھنے لگا۔ دور سے وہ دیوار عام سی نظر آ رہی تھی، لیکن قریب جا کر دیکھنے سے وہ کچھ اور ہی معلوم ہو رہی تھی، جیسے وہ اصلی نہ ہو بلکہ نقلی دیوار ہو۔ عمران نے دیوار کا بغور جائزہ لیا اور ارد گرد کچھ تلاش کرنے لگا۔ تبھی اس کی نظر ایک بُک شیلف کے نیچے بنی ہوئی ایک ہینڈل پر پڑی۔ یہ کوئی عام ہینڈل نہیں لگ رہی تھی وہ ایسی لگ رہی تھی جیسے کسی خفیہ کمرے کھولنے کا خفیہ چابی ہو عمران حیرت سے اس دیکھا بے اختیار اس پر ہاتھ رکھ دیا
جیسے ہی عمران نے اس ہینڈل کو چھوا، دیوار "سررر" کی آواز کے ساتھ کھلتی چلی گئی۔ اسی وقت ایک کالی پرچھائی عمران کو دھکیلتی ہوئی ہوا کی رفتار سے باہر نکل گئی۔ بیچارا عمران سمجھ ہی نہیں پایا کہ ابھی ابھی اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دوبارہ اندر بڑھ گیا۔
اندر کا منظر بہت ہی خوفناک تھا۔ ہر طرف انسانی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر عمران کے چہرے پر ایک خوف کا سایہ سا گزر ۔ وہ چھان بین کرتا ہوا اندر بڑھنے لگا۔ وہ اس جگہ کا بغور جائزہ لے ہی رہا تھا کہ اچانک دیوار بند ہونے کی آواز سنائی دی۔
اس سے پہلے کہ عمران دیوار پار کر پاتا، وہ بند ہو گئی، اور عمران اس خفیہ کمرے میں قید ہو گیا۔
ہارون اس بے ہوش شخص کو لے کر حویلی پہنچا۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا، اور جگہ جگہ زخم ہو چکے تھے۔
"کیا یہ زندہ ہے؟" بوس نے ہارون کے پاس آتے ہوئے کہا۔
"ہاں بوس، یہ صرف بے ہوش ہے۔"
"ٹھیک ہے، تم پہلے اس کی پٹی کرو، پھر اسے ہوش میں لے آؤ،" بوس نے کہا۔ تبھی وہاں نور اور عالیہ آتی ہوئی دکھائی دیں۔
"کچھ ملا؟" بوس نے نور اور عالیہ کو پرجوش انداز میں آتے دیکھ کر کہا۔
"ہاں بوس! ہمارے ہاتھ ایسا سراغ لگا ہے کہ ہم اس کیس کو آگے بڑھا سکتے ہیں،" نور نے کہا۔
"کیا واقعی؟" بوس نے کہا۔
"ہاں بوس، یہ دیکھو فائل!" عالیہ نے فائل بوس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ بوس نے فائل لے کر پڑھنا شروع کیا۔ جیسے جیسے وہ فائل پڑھ رہا تھا، اس کی آنکھیں خوف اور حیرت سے پھیلتی جا رہی تھیں۔
"یہ تنظیم کتنی خوفناک ہے! عمران صحیح کہہ رہا تھا، یہ صرف ایک گروہ نہیں، ایسے بہت سارے گروہ ہیں۔ اگر ہمیں اس گروپ کو ختم کرنا ہے، تو اس تنظیم کی جڑ تک جانا ہوگا۔ تبھی یہ تنظیم ختم ہوگی،" بوس نے کہا۔
تبھی وہاں ایک آفیسر آیا۔
"بوس، یہاں کا سارا سامان اٹھا لیا گیا ہے، سب لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ اب ہمیں یہاں سے نکلنا ہوگا،" آفیسر نے کہا۔
بوس نے اثبات میں سر ہلایا اور یاسر، آیان، ہارون، نور، طاہر، اور عالیہ کو دیکھتے ہوئے اچانک پوچھا:
"عمران... عمران کہاں ہے؟"
"کیا مطلب؟ ابھی تو یہیں تھا!" بوس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
"کہاں جا سکتا ہے؟" یاسر نے پریشانی سے کہا۔
"وہ کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہے، یاسر، جس کے غائب ہونے سے تم پریشان ہو رہے ہو۔ وہ ایک منجھا ہوا سیکرٹ ایجنٹ ہے، اسے اپنی حفاظت کرنا بہت اچھی طرح آتا ہے۔ دیکھو، وہ یہیں کہیں ہوگا،" بوس نے کہا۔
سب عمران کو ڈھونڈنے لگے۔
جیسے ہی دروازہ بند ہوا، عمران نے اسے کھولنے کی بہت کوشش کی، مگر کھول نہیں پایا۔ تبھی ایک بھیانک آواز میں کسی نے گانا شروع کیا:
"گم نام ہے کوئی...
بدنام ہے کوئی...
کسی کو خبر کون ہے وہ...
گم نام ہے کوئی... ہاہاہاہا!"
ساتھ ہی بھیانک انداز میں ہنسنے کی آواز بھی آئی۔
"کون ہے؟ کون ہو تم؟" عمران نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے بے خوف انداز میں کہا۔
"میں وہی... جسے تم ڈھونڈنا چاہتے تھے... ڈائن!"
اس عورت نے بھیانک آواز میں کہا اور عمران کے سامنے ظاہر ہوئی۔
اس کا حلیہ خوفناک تھا—لمبے، کھلے بال جو پاؤں تک آ رہے تھے، خنجر جیسے نوکیلے اور لمبے ناخن، خون کی طرح سرخ آنکھیں، جھریوں سے بھرا چہرہ۔ وہ عجیب نظروں سے عمران کو دیکھ رہی تھی۔ نہ اس کی آنکھوں میں غصہ تھا، نہ نفرت، اور نہ ہی کوئی احساسات۔
"کون ہو تم؟ مجھے یہاں کیوں قید کیا ہے؟" عمران نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
"سچ کا پتا لگانے کے لیے..." بھیانک نظر والی عورت نے کہا، جو ڈائن تھی۔
"سچ کا پتا لگانے کیسا سچ؟" عمران نے کہا۔
"اپنا سچ، اپنے ماضی کا سچ. اور ..." ڈائن نے کہا اور رک گئی۔
"اور... اور کیا؟" عمران نے جلدی سے پوچھا۔
"اس سحر آباد گاؤں میں بہت سارے راز دفن ہیں، کچھ ایسے راز جو دنیا کے سامنے آنا ضروری ہیں، لیکن ان رازوں میں تمہارے ایسے کچھ راز ہیں جو تمہیں خود ڈھونڈنا ہوں گے۔ یاد رکھو، جو دکھائی دے رہا ہے، وہ ویسا نہیں ہے..." ڈائن نے کہا۔
"کیا مطلب؟ کون سے راز؟ اور کون جو جیسا ہے، ویسا دکھائی نہیں دے رہا؟"
"یہ سب راز ہیں، وہی انسان ان رازوں کو کھول سکتا ہے، جو ان رازوں کو جانا چاہتا ہے..." ڈائن نے کہا۔
عمران حیرانی سے اسے دیکھتا رہا، اس کے چہرے پر بہت سارے سوالات کی چھاؤں تھی، اس کی کالی گھنی آنکھوں میں سوچ کی پرچھائیاں تھیں، اور اس کی پیشانی پر سوچ کی لکیریں ابھری ہوئی تھیں۔
"چلے جاؤ، یہاں سے، لیکن جب واپس آؤ، تو اکیلے آنا..." ڈائن نے عمران کو سوچتے دیکھ کر کہا۔
"کیسے راز ہیں؟ میں اکیلا کیوں آؤں؟ تم ہو کون؟ ڈائن ہو یا چڑیل؟" عمران نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ وہ اس کیس کو سلجھانے کے بدل، اور ابھی الجھتا جا رہا تھا—پہلے کوبرا گروپ کا سحر آباد گاؤں میں ہونے کی اطلاع ملنا، پھر وہ لوگ اس گاؤں میں آنا، پھر بھچڑ جانا، اور پھر ملانا، پھر یہ قتل عام ہونا، وہ جن زہریوں کا حملہ کرنا، اور پھر یہ ڈائن... اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
"تمہارے جانے کا وقت آ گیا ہے، لیکن تم واپس آؤ گے، راز جاننے کے لیے، کیونکہ تمہارے سوالات کے جوابات اسی گاؤں میں ہیں۔ اور ایک بات کا خیال رکھنا، جو جیسا ہے، ویسا نہیں ہے۔ ہر ایک سے بچ کر رہنا، اسی میں تمہاری بھلائی ہے..." ڈائن نے کہا اور وہ غائب ہو گئی۔ ساتھ ہی دروازہ بھی کھل گیا۔
عمران نے حیرانی سے کبھی دروازے کو دیکھا، تو کبھی اس جگہ کو جہاں سے وہ ڈائن ابھی ابھی نکلی تھی۔ وہ وہیں کھڑا کچھ سوچتا رہا، پھر کمرے سے نکلتا چلا گیا۔
عمران کمرے سے نکل کر سیدھا اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا، جہاں سب اسے ہی ڈھونڈ رہے تھے۔
"کہاں تھے عمران؟ تم ہمیں فکر ہو رہی تھی تمہاری..."
"پہلی بات، آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور دوسری بات، میں بچہ نہیں ہوں، میں بھی کچھ سراغ ڈھونڈنے حویلی کے اندر گیا تھا..." عمران نے کہا، اور اپنے ساتھ جو ہوا، اس بات کو گول کر دیا۔
"ٹھیک ہے، سب لوگ، عمران آ گیا، واپس چلتے ہیں..." بوس نے ٹرانسمٹر سے سب کو اطلاع دی۔ سب اس گاؤں سے نکلتے چلے گئے، یہ جانے بغیر کہ ایک بار پھر ان کی قسمت انہیں یہاں لے آنے والی تھی ۔
رات کا اندھیرا چاروں طرف چھا چکا تھا۔ کمرے کے اندر، نرم گرم بستر پر ایک شخص زور زور سے سانسیں لے رہا تھا۔ کمرے میں پنکھا چل رہا تھا، مگر پھر بھی وہ پسینے میں شرابور تھا۔ اس کا سر دائیں بائیں ہل رہا تھا، بیڈ کی چادر مٹھیوں میں بھیج کر سختی سے پکڑی ہوئی تھی۔ اچانک ایک زور دار چیخ کے ساتھ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
کمرے میں لائٹ آن تھی۔ وہ اٹھ کر لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔ سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا پانی کا جگ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں پورا پانی پی گیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، بچپن سے ہی وہ ڈراؤنے خوابوں کا شکار تھا۔ وہ کھڑکی کے قریب جا کر باہر دیکھنے لگا۔ بلاشبہ، وہ ایک وجیہہ مرد تھا۔ نیلی جھیل جیسی گہری آنکھیں، مگر ان میں خواب کے خوف کی جھلک نمایاں تھی۔ چھ فٹ چھ انچ قد، گوری رنگت، صاف شفاف چہرہ جس پر ہلکی ہلکی داڑھی تھی— وہ دیکھنے میں کسی یونانی دیوتا کی طرح خوبصورت لگتا تھا۔
"یہ کیسے خواب ہیں؟ ان کی تعبیر کیا ہے؟ اور کیوں آتے ہیں مجھے یہ خواب؟" وہ بڑبڑایا۔ آج تک وہ ان خوابوں کی حقیقت معلوم نہیں کر سکا تھا جو بچپن سے اس کا پیچھا کر رہے تھے۔
یہ شخص اور کوئی نہیں، بلکہ انڈیا کے ٹاپ بزنس مین میں شمار ہونے والا "یاسین احسن" تھا۔ یاسین احسن کا نام ہی ایک برانڈ تھا۔ صرف ستائیس سال کی عمر میں وہ بزنس ورلڈ میں ایک بڑا نام بن چکا تھا۔ اکثر لوگ اس سے پوچھتے کہ اتنی کم عمری میں اتنی بڑی کامیابی کیسے حاصل کی؟ اور وہ ہمیشہ یہی جواب دیتا:
"کامیابی دینا یا نہ دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کتنی محنت کرتا ہے۔ میں نے محنت کی، اور اللہ نے مجھے اس کا صلہ کامیابی کی صورت میں دیا۔"
یاسین کی عاجزی بھری باتیں لوگوں کے دل کو بھا جاتی تھیں۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ دنیا میں اس کا کوئی نہیں تھا۔ جب اس نے پہلی بار آنکھ کھولی، وہ یتیم خانے میں تھا۔ اس کی تعلیم و تربیت وہیں ہوئی، مگر آج وہ انڈیا کے امیر ترین افراد میں شامل تھا۔ اس کے پاس سب کچھ تھا— پیسہ، بنگلہ، گاڑیاں، شہرت، عزت— مگر نہیں تھا تو سکون، نہیں تھی تو فیملی، نہ ماں، نہ باپ، نہ بھائی، نہ بہن۔ یہی کمی اس کی زندگی میں ہمیشہ رہی۔
کھڑکی کے سامنے کھڑا وہ باہر کے نظارے دیکھ رہا تھا، جب اچانک اس کے ماضی کی فلم اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگی۔ اس نے گہری سانس لی اور بیڈ پر بیٹھ کر کل کا اخبار اٹھا لیا۔ اسے معلوم تھا کہ اب نیند نہیں آئے گی۔ وہ اکثر ایسا کرتا تھا، جب بھی ڈراؤنے خواب سے جاگتا، تو کوئی کتاب پڑھنے لگتا۔ آج بھی وہ اخبار پڑھنے لگا، مگر ہیڈ لائن دیکھ کر بری طرح چونک گیا۔
اخبار کی سرخی کچھ یوں تھی:
"سحر آباد میں نامعلوم طریقے سے سو لوگوں کا قتل عام ہو چکا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ لوگ انتہائی خفیہ تنظیم 'بلیک کوبرا' کے افراد تھے۔ اس تنظیم کے کئی گروہ پورے انڈیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔"
یہ پڑھ کر یاسین کا چہرہ یک دم دودھ کی طرح سفید ہو گیا۔ اس کا جسم پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔ اس نے اخبار تہہ کر کے ایک طرف رکھا اور فوراً کسی کو فون ملایا۔
جیسے ہی فون کنیکٹ ہوا، وہ کسی بھیڑیا کی طرح غرایا:
"میں نے کہا تھا کہ سحر آباد گاؤں میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی بھنک کسی کو بھی نہیں پڑنی چاہیے! تو پھر یہ سب کس نے کیا؟"
"ب۔۔۔ بوسس۔۔۔" دوسری طرف سے ہکلاتی آواز آئی۔
"بند کرو ہکلانا
، you baldy rascal!
میں نے اتنے سالوں سے جو تنظیم خفیہ رکھی ہوئی تھی، آج تمہاری نالائقی کی وجہ سے وہ سب کے سامنے آ گئی! نہ صرف ہمارا ٹھکانہ بے نقاب ہو گیا، بلکہ پوری تنظیم بھی! میں نے اپنے ہی گروہ کو اس لیے ختم کر دیا تھا کہ کوئی بھی راز لیک ہو کر باہر نہ جائے! اور میں احمق تھا، جو کروڑوں کا نقصان کر بیٹھا!" وہ غصے میں دھاڑا۔
"بوس! اس نے سب کو مار دیا تھا، بس ان چھ لوگوں کو نہیں مار سکا۔ وہ خود زخمی ہو کر میرے پاس آیا ہے!"
"کیا؟ زہریون زخمی ہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ زہریون کو کون زخمی کر سکتا ہے؟ کسی میں اتنی ہمت ہوئی؟ اور یہ چھ لوگ کون ہیں؟" یاسین حیرت اور غصے کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بولا۔
"بوس! اس بار ہمارا سامنا ایسے لوگوں سے ہوا ہے جو بہت طاقتور ہیں۔ زہریون کو قرآن کی آیات کے ذریعے زخمی کیا گیا ہے!" دوسرے شخص نے اطلاع دی۔
یاسین کا چہرہ تن گیا۔ اس نے دانت بھینچ کر کہا: "کون ہیں وہ لوگ؟"
"I.B کے سیکریٹ ایجنٹس!"
یاسین نے گہری سانس لی اور سرد لہجے میں بولا، "یہ لوگ کوئی بھی ہوں، مجھے فرق نہیں پڑتا۔ بس ایک گھنٹے کے اندر اندر ان سب کی مکمل انفارمیشن میرے پاس ہونی چاہیے!"
یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔
جاری ہے
Previous Episodes
👉Episode 01: Click Here
👉Episode 02: Click Here
👉Episode 03: Click Here
👉Episode 04: Click Here
👉Episode 05: Click Here