ڈائن کا انتقام - از_قلم_فاطمہ- قسط نمبر 1

 

Dyne ka inteqam novel by fatima episode 01

Novel Name: Dyne ka inteqam
Writer: Fatima
Status: on-going 
Genre : horror ,suspence and thiller -based novel

 

ڈائن کا انتقام" ایک ایسی لرزہ خیز کہانی ہے جو خوف، پراسراریت، اور انتقام کے گرد گھومتی ہے۔
ایک گاؤں، جہاں برسوں پہلے ایک ڈائن کو جلایا گیا تھا، اب ایک ممنوعہ جگہ بن چکا ہے۔ لوگ اس گاؤں کے قریب جانے سے بھی ڈرتے ہیں۔ لیکن حالات بدلتے ہیں جب کچھ بے خوف لوگ اس گاؤں میں داخل ہو جاتے ہیں، اور ان کی موجودگی ایک بھیانک راز کو زندہ کر دیتی ہے۔ ڈائن، جو کبھی قید میں تھی، اب آزاد ہے اور اپنے اوپر کیے گئے ظلم کا بدلہ لینے کے لیے تیار ہے۔

یہ کہانی انتقام کی اس آگ کو بیان کرتی ہے جو گاؤں کے ماضی کو نہ صرف جھلسا دیتی ہے بلکہ وہاں آنے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے 


ڈائن کا انتقام
قسط:1
از_قلم_فاطمہ

رات کی تاریکی ہر چیز کو ڈھانپ چکی تھی جنگل میں خاموشی کا راج تھا سواے جھنگروں کی آوازیں چاروں طرف گونج رہی تھی چاند آسمان پر پورے آب و تاب سے چمک رہا ہے لیکن اس کی روشنی زمیں پر نہیں پڑ ڑہی خاص کر اس جنگل والے حصہ میں لوگ کہتے ہیں وہ جنگل منحوس ہے وہاں ایک ڈائن رہتی ہے جو کالا جادو کرکے لوگوں کی زندگی, ان کاروبار, ان کے فصلیں ,سب برباد کررہی تھی اس جنگل کے ایک پرانے پیڑ کے نیچے جھونپڑی تھی اس جھونپڑی کے باہر ایک مٹی کا دائرہ بنا ہوتا جس کے بیچوں بیچ کالی موم بتیاں جل رہی تھی دائرے کے 
کنارے پر پرسرار علامتیں کھدی ہوئی تھی جیسے کسی قدیم زبان میں جادوئی الفاظ لکھے ہو

جھونپڑی کے اندر ایک عورت بھیٹی ہوئی تھی اس کے بال الجھے ہوے گھٹنوں تک لمبے تھے اس کی آنکھیں خون کی طرح سرخ تھی اس کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوتا اس کے اردگرد بہت ساری جڑی بوٹیاں, کھوپڑیاں, اور بہت سارے عجیب طرح کے پھتر رکھے ہوے تھے اس عورت نے موم بتی کے شعلے کی طرف دیکھا اور پھر عجیب زبان میں کچھ بولنا شروع کیا
"زولا مارا ,نکتش۔۔۔۔! روحا ملبتورن !"

یہ الفاظ جیسے ہی اس عورت منہ سے نکلے. موم بتی کا شعلہ نیلا ہوگیا
اس عورت نے پاس ہی رکھے صندوق سے ایک پرانی گڑیا نکالی وہ گڑیا ایک خاص شخص کی نمائندگی کرتی تھی جس پر وہ جادو کررہی تھی اس گڑیا کی پیٹ پر پہلے سے ہی ایک لوہے کی باریک سوئی چبھی ہوئی تھی اس کی اردگرد لال رنگ کا دھاگا بندھا ہو تھا
"تم نے میرے ساتھ بغاوت کی مجھے اس گاؤں سے نکالنا چاہتے ہو؟ اب دیکھو میں کیا کرتی ہو میں تمہیں اس دنیا سے نکال دوں گئ!"
یہ بولتے ساتھ ہی ایک اور سوئی چھبو دی

"ہا ہا ہا ہا "

ساتھ وہ عورت بھیانک اندز میں ہنس نے لگی
دوسری طرف گاؤں کی اندر ہل چل محسوس ہوئی جیسے ہی اس ڈائن نے گڑیا کے اندر سوئی چھبوئی اسی وقت گاؤں کے ایک گھر میں ایک شخص نیند سے بڑبڑا کر اٹھ بھیٹا اس دل بے تحاشہ ڈھڑک رہا تھا وہ پیسنے سے شرابو تھا ایسا لگ رہا تھا وہ میلوں دور سے بھاگ کر آیا ہو اچانک اس جسم درد محسوس ہونے لگا درد اتنا تھا کی وہ برداشت نہیں کرسکا وہ چیخنے لگا

"میری مدد کرو مجھے کچھ ہو رہا ہے! "
اس شخص بیوی اور بچے گھبرا کر اس کے پاس پہنچے لیکن کوئی سمجھ نہیں پایا اچانک اسے کیا ہوا ہے کی تبھی اس شخص کے منہ سے اوبکائی نکلی، خون کی اوبکائی ساتھ ہی اس نے ایک آخری ہچکی لی اور اس کی آنکھیں بند ہوگئ ہمیشہ کے لیے گہری نیند سو چکا تھا
دوسری طرف جنگل میں ڈائن کا قہقہ گونجا "ہاہاہاہا! "
"ابھی تو یہ آغاز ہے , اب دیکھنا تم لوگ کس طرح کی موت مرتے ہو تمہاری پوری نسلیں تباہ و برباد کردوں گئ ہاہاہاہا !"
"یہ لوگ مجھے نکالنے چلے تھے, مایا ڈائن کو! "

ہونہہ ساتھ ہی پاس میں رکھا ہوا خون کے گلاس کو ایک گھونٹ میں پی گئ جیسے کی وہ خون نہیں کوئی مزیدار مشروب ہو
ڈائن نے پھر سے اسی صندوق میں جھانکہ وہاں پر بہت ساری گڑیا اور تعویذ لٹکی ہوئی تھی وہاں کی ہر ایک گڑیا گاؤں والوں کی نمائندگی کررہی تھی وہاں کا ہر ایک تعویذ کسی کی موت اور کسی کا بربادی کا پیشہ خیمہ تھا اس جھوپڑی کی کمرے ایک دیوار پر ایک خون سے بنائی گئ ایک تصویر لٹکی ہوئی تھی جس ایک پورے خاندان کو جلا ہوا دیکھائی گیا تھا وہ تصویر کو دیکھ کر وہ مسکرائی شیطانی اندز میں اور بولی
"میں نے کہا تھا مجھے دشمنی مہنگی پڑی گئ، اب دیکھو ،اب تم اس دنیا میں نہیں رہے " !

اگلے دن اس شخص کی موت کی خبر گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئ تھی گاؤں میں چاروں طرف خوف کا ماحول چھا گیا تھا سب گاؤں کے بڑے پنچایت کا اجتماع بلایا ہوا تھا پنچایت اجتماع جمع ہوا تو ایک آدمی بولا
"میں پورے یقین کے ساتھ کہا سکتا ہوں یہ ڈائن کا کیا دھرا ہے! "
امجد کی بات سن کر سب نے سر ہلایا کیونکہ سب کو پتا تھا ایسا کام صرف ڈائن ہی کر سکتی ہے
"تو پھر کیا کریں؟ جب سے ڈائن کو گاؤں سے نکل جانے کی دھمکی دی ہے, تب سے ہمارے ساتھ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے ہمارے گاؤں کے لوگ مر رہے, اور ہماری فصلیں برباد ہورہیں , ہمارے بچے غائب ہور ہیں , ہم سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بھیٹے ہیں "
پنچایت کی ایک سرپنچ جس کا نام رحمت علی تھا انہوں نے کہا
"تو پھر کیا کریں ؟ کیسے اس ڈائن کا ما ریں ؟ یہ بہت طاقتور ہے، کیا تم نے اس کی طاقت نہیں دیکھی ؟ "

گاؤں کےدوسرے سرپنچ نے کہا
"کوئی بھی چیز طاقتور نہیں ہوتی اس کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہی ہوتی ہے- "
"تو پھر کیا ہے اس کی کمزوری؟ "
"میں نے ایک روحانی بابا کو بلایا شام تک گاؤں میں پہنچ جائیں گے- "
"جب وہ ا ئیں گے پھر سوچا جاے گا کیا کرنا ہے"
اور اسی کے ساتھ پنچایت اجتماع ختم ہوگیا سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگےۓ  تھے- ان لوگوں کو جو بھی کرنا ہوگا روحانی بابا کے آنے کے بعد ہی کرنا ہوگا-

شام کے ساتھ بجے گۓ تھے گاؤں میں خاموشی کا راج تھا سنٹا، گہرا سنٹا -اس گہرا سنٹا میں روحانی بابا گاؤں کا جائزہ لینے میں مصروف تھے- انہوں نے اس جنگل کی اندر کا بھی جائزہ لے لیا- کچھ دیر تک وہی کھڑے اس جنگل اور جھوپڑی کو دیکھتے رہے، پھر سرپنچ کے گھر آگۓ-
"کیا بات ہے بابا اس ڈائن کا کچھ ہوسکتا ہے؟ "
رحمت علی کی بات سن کر روحانی بابا کچھ دیر تک خاموش ہوگۓ 
"کیا بات ہے بابا ؟ آپ کی یہ خاموشی ہمیں ڈرا رہی ہے! "
"بیٹا معملا بہت گھمبیر ہے - !وہ ڈائن بہت طاقتور, ہم اسے جلا کر قید کر سکتے ہیں، مگر مار نہیں کر سکتے -"
"یہ اچھی بات ہے بابا ,اسے مار نہیں سکتےتو قید تو کر سکتے ہیں نا ؟"
"ہاں پر! "
"پر ؟ پر کیا بابا ؟"
" اس ڈائن کو جلا کر ہمیں اسی گاؤں میں اسے قید کرنا ہوگا - "
"مطلب بابا ؟ "
"مطلب تم سب لوگوں کو اس گاؤں کو خالی کرنا ہوگا - یہ ڈائن مرنے کی بعد بھی تم لوگوں کو چین سے رہنے نہیں دے گئ -"
"پر بابا , یہ ہم کیسے اس گاؤں کو چھوڑ کر جاسکتے ہیں؟ ہمارے دادا پر دادا سب یہی رہا کرتے تھے یہاں پر ہمارے مکان, زمینے, ہیں ہم کیسے چھوڑ کر جا سکتے ہیں؟ "
"زندگی میں کچھ پانا ہے تو اس کو پانے کے لیے قربانی دینی ہوگی تم سب لوگ ڈائن کا انت دیکھنا چاہتے ہو اس گاؤں کو چھوڑ نہ ہی ہوگا!"
روحانی بابا کی بات سن سب سوچنے پڑ گۓ ۓ
"ٹھیک ہے بابا, جیسا آپ کہیں, اگر ہمارے اس گاؤں کو چھوڑنے ہمارے زندگی میں سکون آے گا تو ہم یہ قربانی دے دیں گے - "
رحمت علی نے کہا سب اثبات میں سر ہلانے لگے
"تو بتاے بابا ،ہم کب اس ڈائن اس کی انجام تک پہنچنے والے ہیں؟ "
"آنے والی جمعرات کی رات کو- کیوں کی صرف اماوس کی رات کو ہی ہم ڈائن کو مار سکتے ہیں اس سے قید کرسکتے ہیں- "
"پر بابا ,میں نے سنا ہے اماوس والی رات شیطانی طاقتیں بہت زیادہ طاقتور ہوتی ہیں -"
"جو جتنا طاقتور ہوتا ہے- اس کی کمزوری اتنی ہی ہوتی بیٹا-"

"وہ کیسے بابا ؟ "
"طاقتور شخص کو یہ گمان ہوتا ہے اسے کوئی ہارا نہیں سکتا , مگر وہ بھول جاتا ہے وہ بھی ایک مخلوق ہے , انسانی مخلوق- اللہ کی بنائی ہوئی ہر ایک جاندار کو موت مزہ چکنا ہی ہوتا ہے - "
"ٹھیک ہے بابا, اماوس کی رات آنے میں پانچ دن باقی ہم گاؤں کی ساری عورتوں اور بچوں کو اس گاؤں سے دور بھیج دیتے ہیں- "
رحمت علی نے کہا سب گاؤں والوں نے اثبات میں سر ہلایا

چاندنی رات گہرے بادلوں کے پھیچے چھپ رہی تھی، پورا جنگل سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا- درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ میں ایک عجیب خوفناک نوحہ محسوس ہورہا تھا - جنگل کی بیچوں بیچ ایک ویران کھنڈر تھا وہاں پر ایک خونی رسم اہتمام گیا تھا، جی ہاں خونی رسم- انسانوں بھینٹ جو ڈائن صدیوں سے دیتی آئی ہے اپنی طاقتیں بڑا نے کے لیے وہاں ایک پتھریلا چبوترہ تھا جو زمانے کی گردش میں خستہ حال مگر پرانے خون کی دھبوں سے سجا ہوا تھا ، اس چبوتر کے گرد موم بتیاں کی مدھم لرزتی ہوئی روشنی بھوتیہ ساۓ بنا رہی تھی
چبوتر کے عین درمیاں ایک لڑکا بندھا ہوا تھا دیکھنے سے اس کی عمر لگ بھگ 15/14 سال ہوگئ , اس کے ہاتھ اور پاؤں موٹے رسی جکڑے گۓ  تھے- اس بچے کے چہرے پر خوف کے آثار واضح تھے آنکھوں میں نمی تھی اور ہونٹ کپکا رہے تھے , اس کے اردگرد مختلف اشکال اور قدیم علامات کھنچی ہوئی تھی گویا شیطانی جادو کے لۓ کسی خونی عمل کی تیاری ہو-

چند قدم کی فاصلے پر مایا ڈائن کھڑی تھی جس کا سراپا, ہبیت ناک کا مجسمہ تھا اس بال بھکرے ہوے  کالے بادل کے مانند تھے آنکھیں دہکتے ہوۓ انگارے , اور اس کے ہاتھ ایک چمکتی ہوئی چھری تھی جس پر کوئی سیاہ مائع ٹپک رہا تھا- اس لباس پر خون کے دھبے واضح تھے اور اس لبوں پر ایک خبیث مسکراہٹ کھیل رہی تھی-

مایا ڈائن نے اپنی لزرتی ہوئی بھیانک آواز میں کچھ عجیب و غریب الفاظ ادا کیے جو کسی قدیم زمانے کے منتر معلوم ہورہے تھے جیسے ہی وہ الفاظ گونجے , زمین کے نیچے سے ایک گونج ابھرنے لگی موم بتیوں کے لوئیں بلند ہوئیں اور ہوا میں ایک عجیب سی بو پھیل گئ
"آج کی بھینٹ سے مجھے میری طاقت لوٹا دو!"

ڈائن نے اپنی آواز کو مزید بھیانک بناتے ہوے  کہا- مایا نے اس لڑکے پاس جاکر اپنے نوکیلے ناخون اس کے ماتھے پھیرے اس لڑکے کی چیخیں اندھیرے تحلیل ہوگئیں , مایا نے چھری والا ہاتھ ہوا میں بلند کیا بجلی کی رفتار سے چھری والا ہاتھ اس لڑکے دل میں گھونپ دیا ساتھ ہی اس لڑکے کی دل دہلا دینی والی آواز گونجی اس لڑکے کے چیخ کے ساتھ ہی زمیں ہلنے لگی, بادل گرجنے ,لگے اور چبوتر کے نیچے سے سرخ روشنی پھونٹے - لگی مایا نے اپنے ہاتھ اوپر کۓ  اس کے آنکھیں مکمل سفید ہوگئ اور اس نے ایک زواردار ایک قہقہ لگایا
"بھینٹ قبول ہوئی میری بھینٹ قبول ہوئی "

اس کی آواز پورے جنگل میں گونجی
چند لمحوں کے بعد ہر طرف خاموشی چھا گئ، لڑکے کی لاش بے جان ہوکر پتھریلے چبوترے پڑی تھی- مایا نے مسکرا کر اس لاش کو دیکھا, اور مسکراتے ہوے  اس لاش کی قریب آئی- کچھ ہی منٹ میں اس بچے کا دل اس کے ہاتھ میں تھا وہ مسکراتے ہوےدل کو لے کر وہاں سے غائب ہوگئ تھی -

ڈائن کی بھینٹ دینے , کی خبر گاؤں والوں کو پتا چل گئ تھی - ان لوگوں میں پھر سے ڈائن کو لے کر نفرت اور غصہ بڑھ گیا تھا-
"اس ڈائن نے پھر سے بھینٹ دی, اس کا ڈر خوف کب تک ہمارے دلوں سے نکلے گا ؟ کب تک ہم اپنے بچوں اس طرح کھوتے رہے گۓ ؟"
"آج شام.... " روحانی بابا جو کسی وظیفے میں مشغول تھے، آچانک آپنے آنکھیں کھولتے ہوے  کہا
"آج شام, کی رات اماوس کی رات ہے ، اور آج رات اس ڈائن کی آخری دن ہوگا !"
بابا نے کہا سب نے اثبات میں سر ہلایا

آخری کار وہ رات آ گئ تھی جو سب کو بے صبری سے انتظار تھا -اماوس کی کالی رات تھی, آسمان سیاہ بادلوں میں ڈوبا ہوتا تھا , چاند کا نام و نشان تک نہیں تھا -پورا گاؤں تاریکی میں چھپا ہوا تھا ,سواےمیدان کی بیچ جلتی ہوئی مشعلوں کی روشنی کے فضاؤں میں ایک عجیب سی تھنڈک اور سناٹا تھا -

گاؤں کے بیچوں بیچ ایک وسیع میدان میں لکڑیوں ایک بڑا ڈھیر چتا کی صورت میں تیار تھا- اس کے وسط میں مایا ڈائن کو بند کر رکھا گیا تھا- اس لمبے بال اس کے چہرے پر بکھرے ہوے تھے آنکھیں تاریکی میں چمک رہی تھی, اس کا چہرہ سیاہ سپاٹ تھا لیکن اس کی پرسرار آنکھوں میں چمک تھی, جیسے وہ جانتی ہوکہ اس کہ جلنے بعد بھی کچھ ختم نہیں ہوگا

گاؤں کے سارے لوگ میدان میں کے گرد دائرہ بناے  کھڑے تھے , مردوں کی ہاتھوں مشعلیں تھے جو ہوا کے جھونکوں سے لرز رہی تھی-
تبھی وہاں پر ایک آمی نے کہا
"اس ڈائن کو ختم کرو اس نے ہمیں بہت پریشان کر رکھا ہے, ہمارے زندگی تباہ کر رکھی ہے "!
ایک آدمی نے کہا,

"ہاں ہاں! ختم کرو اس کو! یہ ہمارے بچے کی بھینٹ چڑاتی ہے! " دوسری آدمی نے کہا
"ہاں ہاں! جلا دو ایسے! یہ ہمارے فصلیں برباد کررہی ہے !" تیسرے آدمی نے کہا
"ہاں ہاں ! ختم کرو اسے, جلا دو ایسے ! " سب نے ایک ساتھ ہی نعرہ لگانے لگے
"آج کی رات اماوس کی رات ہے, شیطانی طاقتیں جتنا بھی طاقتور ہوتی, اتنی ہی کمزور بھی - ہوتی ہے آج اس ڈائن کی ختم ہوتے, اس گاؤں کی ساری پریشانیاں بھی ختم ہوجائی گئ"! روحانی بابا کہا

سب گاؤں والے نے بلند آواز میں اس تائید کی, پھر ایک شخص نے کاپنتے ہاتھوں سے آگ کی پہلی معشل لکڑیوں کی ڈھیر پر پھینکی -چتا کے نیچے خشک لکڑیاں ایک جھٹک سے بھڑک اٹھی اور شعلے دھیرے دھیرے اوپر کی طرف بڑھنے لگے - آگ کی لال روشنی ڈائن کے چہرے پر پڑی تو اس ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ ابھری اس کی نظر گاؤں والوں پر تھی جیسے وہ ان سب کو آپنے آنکھوں میں قید کررہی ہو-
"ہاہا ہا! تم سب کو لگتا ہے مجھے جلا کر تم مجھے سے پھیچے چھڑا رہے ہو, یاد رکھو میں تم لوگوں کا پھیچے نہیں چھوڑنے والی!"
اس کی زوار دار آواز پورے گاؤں میں گونجی, رہی تھی گویا زمیں کے نیچے سے ابھر رہی ہو-

آگ کی لپٹیں اس کے قدموں کو چھو رہی تھیں ، رسیاں جلنے لگی ,دھواں چاروں طرف پھیلنے لگا , ڈائن کی چیخیں گونجی, ایسا لگا رہا تھا وہ انسان کی چیخ نہیں بلکی کسی غیر انسانی مخلوق کی چیخ ہو - اس سے ساتھ جنگل میں الو اور بھیڑیوں کی آوازیں بلند ہونے لگی- ایسا لگ رہا تھا قدرت بھی اس کی موت سے خوفزدہ ہے-

گاؤں کے لوگوں نے خوفزدہ ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے - لیکن آگ میں جلتی ہوئی چتا کے شعلے بلند ہونے لگے- کچھ لمحوں بعد وہاں پر بس آگ کا شور, تھا اور دھواں , تھا اور ایک بھیانک سنٹا
"اب چلو! جلدی سے گاؤں سے باہر نکلو! اس گاؤں کو بھی آگ لگادو ! جلدی کرو! "
روحانی بابا نے کہا - تو سب ایک ایک کرکے گاؤں کے سبھی گھروں کو آگ لگانے میں لگ گے - کچھ ہی دیر بعد, وہ سب گاؤں کے باہر کھڑے ہوکر گاؤں کو جلتے ہوے  دیکھ رہے تھے کچھ لوگوں کی آنکھوں میں غم اور نمی تھی, تو کچھ کے آنکھوں میں خوشی تھی کیوں کی آخری کار ان لوگوں کو ڈائن سے چھٹکارا مل ہی گیا تھا - سب لوگ اس جلتے ہوے گاؤں کو دیکھ رہے تھے, یایک ایک بھیانک ہنسی چاروں طرف گونجی-

"ہاہاہاہاہاہا ! کیا لگتا ہے تم لوگوں کو مجھے سے چھٹکارا حاصل کرلیا ہے تم لوگوں نے ؟ نہیں کبھی بھی نہیں! مجھے سے چھٹکارا حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے ! میں واپس آوں گی , ! ضرور آوں گی ! میں اپنا انتقام لؤں گی! ڈائن انتقام لے گئ! ہاہاہاہا !"

اس کی آواز پورے گاؤں میں گونجی-
پھر فضاؤں میں چاروں طرف خاموشی چھاگئ , قبرستان جیسی خاموشی , روحانی بابا آگے بڑھ ایک لال دھاگا گاؤں کی گیٹ پر بندھے لگے
"یہ ایک طرح کا حفاظتی کاؤچ ہے, جب تک یہ کاؤچ اس گیٹ پر بندھا رہے, گا ڈائن صرف اسی "سحر آباد " گاؤں کی اندر بندھی رہے گئ -"
روحانی بابا نے کہا سب اثبات میں سر ہلایا اور شکر ادا کرتے ہوے  گاؤں سے دور جانے لگے اپنی اپنی نئ زندگی جینے کے لیے-
حال:
"واہ! کیا کہانی سنائی ہے تم نے!" عمران نے تالیاں بجاتے ہوے کہا -
"یہ کوئی کہانی نہیں عمران , حقیقت کا واقعہ ہے میری دادی نے مجھے بتایا تھا ان کے گاؤں کے پاس والا گاؤں میں اسی واقعہ حقیقت میں ہوا تھا -تبھی وہاں کے لوگوں اس گاؤں کو راتوں رات چھوڑ کر چلے گۓ تھے-"
"دیکھو یار, نور, یہ ڈائن وین اصل میں کچھ نہیں ہوتا- یہ سب کہانی اور, فلموں ڈراموں میں اچھا لگتا ہے -"
عمران اس بات کو ماننے کے بلکل بھی تیار نہیں تھا کی ڈائن حقیقت میں ہوتی ہیں -
"کیوں نہ ہم اس بات کا پتا لگانے سحر آباد جائیں؟ " آیان نے کہا
"پاگل ہوگیا ہو کیا ؟ میرے دادا پر دادا اسی گاؤں سے تھے -اگر میں بھول کر بھی اس گاؤں کا نام لے لینا گھر والوں کے سامنے کل سے میرا گھر سے باہر نکلنا بھی بند کر دیں گے یہ لوگ -"

طاہر نے کہا کیوں کی طاہر کے دادا اسی گاؤں کے رہنے والے تھے -
"ان کو کون بتاے  گا ؟ ویسے بھی ہر سال چھوٹیاں منانے ہم لوگ نیویورک ، امریکہ جاتے تو ہیں - اس بار گاؤں ہی چلے کیوں ؟" ہاروں نے اپنی بات رکھی
"ہاں نہ بول دیں گے کی ہم نور کے گاؤں جا رہے اس بار گھوم نے!" عالیہ نے بھی کہا وہ بھی کہا پھیچے ہٹنے والی تھی
"چلو ٹھیک ہے طے رہا !ہم ڈائن اصل میں ہوتی ہے یہ نہیں اس کا پتا لگانے 'سحر آباد' گاؤں جا رہے ہیں!"
عمران نے فصلیہ کن لہجہ میں کہا تو سب نے اثبات میں سر ہلایا-
"ٹھیک صبح چھے بجے سب لوگوں میرے گھر میں جمع ہوں گۓ  , اور یہی سے ہم نکلے گۓ -" نور نے کہا سب "اوکے" بول کر نکلتے چلے گۓ  تھے
یہ لوگ جا تو رہے تھے ڈائن کا پتا لگانے, مگر ان لوگوں یہ پتا نہیں تھا وہ لوگ وہاں جاکر کونسی مصبیت اپنی اوپر مول لینے والے تھے- 

جاری ہے
Read episode 2  Click Here
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post