Ab ke hum bicharay to novel by Fatima Lagari

 

Ab ke hum bicharay to novel by Fatima Lagari pdf link

کتنا وقت ہوگیا ہے تمہیں یہاں کام کرتے ہوئے؟“ وہ جیسے آج ہوش میں آیا تھا۔
”تین ماہ!“ سیدھا سا جواب آیا۔ اور جُندُب۔۔۔وہ پلکیں جھپکتا اسے دیکھتا رہا۔ وہ سانس ہی تو نہیں لے پایا تھا۔ اسے تین ماہ ہوچکے تھے۔ تین ماہ!!
”تم نے پچھلے دو مہینوں میں تنخواہ کیوں نہیں لی؟“ وہ حیرت سے پوچھ رہا تھا۔اپنی شرمندگی چھپانے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔
”کیونکہ مجھے تب ضرورت نہیں تھی۔ اب فائنل سیمسٹر کی فیس جمع کروانی ہے، تو ایک ساتھ تینوں مہینوں کی تنخواہ دے دیں اور اگلے دو ماہ کا ایڈوانس بھی۔“ اس نے تفصیل بتائی۔ انداز ایسا تھا گویا حکم جاری کررہی ہو۔
”گریجوئیشن کررہی ہو؟“ وہ سوال کررہا تھا۔
”جی، کمپیوٹر سائنس میں۔“ سادہ سا جواب آیا۔
” تمہارے گھر کوئی نہیں ہے جو تمہارا خیال رکھ سکے؟ مطلب اپنی فیس خود دے رہی ہو، کیوں؟“ وہ جانے کیوں سوال پر سوال کررہا تھا۔ عجیب بندہ تھا، خاموش رہتا تھا تو مہینوں کچھ نہیں بولتا تھا۔ بولنے پر آتا تو مسلسل سوال کرکے کسی کو بھی تنگ کردیتا۔ مگر ہانا۔۔وہ Exceptionتھی۔ وہ تنگ نہیں ہورہی تھی۔ کیونکہ جانے کیوں اسے یقین تھا۔۔یہ سوال پر سوال وہ اسی سے کررہا تھا۔ بس اس سے ہی کیا کرتا تھا۔
”امی اور بڑے بھائی کی حادثے میں موت ہوگئی تھی جب میں پانچ سال کی تھی۔ میٹرک میں تھی تو بابا بھی چلے گئے۔ میرا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے جُندُب! مجھے اپنا خیال خود رکھنا ہے۔“ وہ کھڑے کھڑے تھک گئی تھی۔ تبھی ایک طرف رکھے صوفے پر بیٹھ گئی۔
”اس سیمسٹر کی فیس میں پے کردوں؟“ وہ معصومیت سے پوچھ رہا تھا۔ ہانا نے دائیں ابرو اچکائے اسے دیکھا۔
“You know, I’m filthy rich!”
مسکراتے ہوئے یاد دہانی کرائی گئی۔
”مجھے اپنا خیال خود رکھنا آتا ہے جُندُب!“ خوبصورتی سے انکار کیا گیا اور وہ بس سر جھٹک کر رہ گیا۔
اس دن کے بعد وہ پہلے کی طرح خاموش نہیں رہا کرتا تھا۔ وہ کوئی نہ کوئی بات چھیڑ دیتا۔ کسی نہ کسی موضوع پر دونوں کی بحث ہوتی جو بعد میں تکرار پھر لڑائی کی شکل اختیار کرلیتی۔ وہ خفا ہوکر خاموش ہوجاتا اور وہ خفگی سے اپنے کام میں مصروف ہوجاتی۔۔
وہ اکثر کرسی سے اٹھ کر ہانا کے ساتھ کام کروادیتا۔ کتابیں سمیٹ دیتا۔۔مٹی جھاڑ دیتا۔ ہانا کا کام ہلکا ہونے لگا۔۔پھر اتنا ہلکا ہوگیا کہ وہ آتی تو میز پر کافی کے دو کپ اور ایک کتاب رکھی ہوتی۔ اس کا کام پہلے ہی وہ کرچکا ہوتا۔ وہ ان دو گھنٹوں میں کہانیاں سنتی، کافی پیتی، اس کی باتوں کا جواب دیتی اور دو گھنٹے مکمل ہوتے ہی چلی جاتی۔۔
اس نے کسی بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
جانتے ہیں کیوں؟
Read Complete novel Here




Post a Comment (0)
Previous Post Next Post