ڈائن کا انتقام
قسط:5
از_قلم_ فاطمہ
یہ ایک سنسان گلی کا منظر تھا۔ دونوں طرف عمارتیں ملبے میں ڈوبی ہوئی تھیں، جیسے وقت نے ان کو نگل لیا ہو۔ گلی کے آخر میں ایک حویلی کھڑی تھی، جو کسی زمانے میں آباد اور شاندار رہی ہوگی، مگر اب وہ اجڑ چکی تھی۔ حویلی کی عمارت کا بیشتر حصہ جل چکا تھا، اور اس کی باقیات میں صرف ویرانی کا تاثر باقی رہ گیا تھے ۔ کچھ مزدور، جو شاید اپنے کام میں مگن تھے، حویلی کے اندر سفید پاؤڈر بھرے پلاسٹک کے چھوٹے پیکٹوں کو بڑی بے دلی سے ایک بوری میں ڈال رہے تھے۔
ایک چھوٹے سے کمرے کی دیواروں پر نصب کیمرے ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھے، نہ صرف حویلی بلکہ پورے سحر آباد گاؤں پر ان کی نظر تھی۔ کمرے کے ایک کونے میں ایک شخص کھڑا تھا، جس کا چہرہ مکمل ماسک سے ڈھکا ہوا تھا۔ صرف اس کی آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں، اور وہ آنکھیں اتنی چمکدار اور خوفناک تھیں کی کوئی اس کے آنکھوں میں دیکھنے سے گھبراتا تھا کوئی بھی اگر اس کے آنکھوں میں دیکھے لیے تو اس کی موت کی یقینی تھی یہ اس شخص کے ساتھ کام کرنے والوں لوگوں کا معنا تھاُ۔
وہ خاموشی سے اپنے ورکروں کو کام کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا، اس کی نظریں ان کی ہر ایک حرکت پر مرکوز تھیں۔ اس کی لال آنکھوں کی چمک سے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کسی بھی لمحے کسی کو بھی موت کے گھات اتر سکتا تھا۔
اسی لمحے، ایک آدمی اندر آیا اور آہستہ سے بوس کے کان میں سر گوشی کی
"بوس، ایک بری خبر ہے۔"
اس شخص نے کہا تو بوس نے اسے اشارے سے کمرے میں آنے کو کہا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہوئے کمرے میں داخل ہوگئے۔ بوس نے ایک کرسی سنبھالی اور اس آدمی کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"کیا خبر ہے؟" بوس نے کرخت آواز میں کہا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی آواز کسی انسان کی نہیں، کسی روبوٹ کی تھی۔
"ہمارے آدمی، جن لوگوں کی تصاویر ہمیں بھیجی تھیں، وہ لوگ گاؤں کے اندر داخل ہو چکے ہیں۔" آدمی نے تھوک نگلتے ہوئے کہا، کیوں کہ پچھلے بیس سالوں میں سحر آباد گاؤں میں کسی بھی انسان نے قدم نہیں رکھا تھا، سوائے ان کے۔
"کون ہیں یہ لوگ؟"
"پتہ نہیں بوس، کون لوگ ہیں؟ بوس راجہ کہہ رہا تھا کی وہ لوگ ڈائن کی کہانی اصل ہے یہ نہیں جاننے کے لیے آۓ ہیں اس نے یہ بھی بتایا کی ان لوگوں کو یہاں آنے سے بہت روکا مگر وہ روکے نہیں"
"ڈائن کی کہانی تو اصل تھی، اب ڈائن مر چکی ہے۔"
"مگر بوس، ڈائن کا قید کرنا یہ سب صرف افواہ ہے۔"
"تم اس گاؤں کی اصل کہانی نہیں جانتے۔ ڈائن اصل میں تھی، اسے زندہ جلا کر مار دیا گیا ہے، لیکن اس کہانی میں ایک اور راز ہے جو کوئی نہیں جانتا سوائے میرے۔"
"وہ کیا راز ہے بوس؟"
"وہ ایک ایسا راز ہے جو بیس سالوں سے اسی گاؤں میں دفن ہے۔ جن جن لوگوں کو اس راز کا پتا تھا، سب کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے۔"
"پر بوس، آپ بھی تو اس راز کو جانتے ہیں پر کیسے زندا ہے ؟" بوس مسکرادیا
"ہاں، پتا ہے، مگر ہمارے بڑوں کو نہیں پتا کہ مجھے اس گاؤں کا راز پتا ہے۔ ہماری تنظیم بلیک کوبرا صرف ایک گروہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑی تنظیم ہے ، ہماری تنظیم بہت بڑی ہے۔ اس کی جڑیں صرف شہر میں نہیں بلکہ پورے انڈیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہمارے گروہ جیسے بہت سارے گروہ ہیں جو مختلف کاموں میں لگے ہیں۔ ہر گروہ کا الگ ٹاسک ہے، الگ کام ہے۔" بوس نے بولتے ہوئے ایک لمبی سانس لی، اور اپنے سامنے بھیٹے آدمی مائیک کو دیکھا ، مائیک اپنی آنکھیں حیرت سے پھاڑے ہوئے، بوس کو باتوں کو سن رہا تھا۔
"مطلب بوس، ہماری تنظیم جیسی دکھائی دیتی ہے، ویسی نہیں ہے؟ یہ تنظیم ہی ایک راز ہے؟"
"ہاں، ہم بس چھوٹے بوس ہیں، ہر گروہ میں ایک بوس ہوتا ہے، مگر ہمارا بوس ایک ہی ہے، جو میرا بھی بوس ہے۔ اسے ہم سپر بوس کہتے ہیں۔"
"سپر بوس کہاں رہتے ہیں؟"
"یہ بھی ایک راز ہے۔ آج تک کسی کو بھی پتا نہیں لگ سکا کہ سپر بوس کون ہے، کہاں رہتے ہیں، کیسے دیکھتے ہیں۔" بوس نے کہا۔
"تو بوس، آپ کو حکم کیسے ملتا ہے؟"
"ٹرانسمیٹر سے۔ سپر بوس جب کوئی حکم دینا چاہتے ہیں، تو ٹرانسمیٹر کے ذریعے دیتے ہیں، نہیں تو..." بوس بولتے بولتے خاموش ہوگیا۔
"نہیں تو کیا بوس؟" مائیک نے جلدی سے پوچھا۔
"نہیں تو ان کی ایک کالی طاقت بھیج دی جاتی ہے، ان کا پیغام دیکھ کر۔"
"کالی طاقت؟" مائیک نے حیرت اور خوف سے کہا۔
"اپنے پیچھے مت دیکھو، وہ کالی طاقت وہی کھڑی ہے۔" بوس نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ تو مائیک نے بنا تاخیر کیے پیچھے مڑ کر دیکھا اور وہ وہی پر مار کھا گیا۔ اس نے جیسے ہی مڑا، وہ کالی پرچھائی مائیک پر ایسے جھپٹی جیسے کوئی بھوکا بھیڑیّا جھپٹتا ہو، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پرچھائی اسے کھا چکی تھی۔ کمرے کے چاروں طرف خون بکھرا ہوا پڑا تھا۔ بوس کا چہرہ سپٹ تھا، جیسے وہ یہ سب دیکھنے کا عادی ہو۔
"اب یہ سب خون کون صاف کرے گا؟" بوس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ وہ پرچھائی زمین پر جھک کر نیچے گرے ہوئے خون کو چاٹنے لگی۔
"بچارا، اس کو تنظیم کے بارے جاننے کا بہت شوق تھا۔ میں نے اسے سب بتا کر اس کی آخری خواہش پوری کر دی۔" بوس نے مصنوعی افسردگی کے ساتھ کہا، پھر اس کالی پرچھائی کو دیکھنے لگا۔
" سپر بوس کو ، جاکر بول دو، ان کا کام ہوجائے گا۔ وہ لوگ زندہ گاؤں میں داخل تو ہوگئے ہیں، لیکن ان کی لاش بھی گاؤں سے باہر نہیں جائے گی۔" بوس نے اس پرچھائی سے کہا، تو وہ کالی پرچھائی وہاں سے غائب ہوگئی۔ بوس کرسی پر بیٹھا کچھ دیر تک سوچتا رہا، پھر سامنے ٹیبل پر پڑے ہوئے فون کو اٹھا کر کسی کو ہدایت دینے لگا۔ ہدایت دینے کے بعد، فون رکھ کر بوس کرسی پر سر ٹکائے، سوچنے لگا۔
طاہر اور ہارون اس راستے پر جا رہے تھے جہاں سے ٹرک گزرا تھا۔
"اور کتنا لمبا راستہ ہے؟ ٹرک کدھر گئی؟" ہارون نے ہانپتے ہوئے کہا۔
"بھائی، وہ ٹرک چار پہیوں والی ہے، تم اور میں دو پاؤں والے انسان ہیں۔ ہم ٹرک کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی غلطی تمہاری ہے!" طاہر نے جواب دیا۔
"ہیں؟ میری غلطی؟ میں نے ایسی کون سی غلطی کی ہے؟"
"بندر سے پنگا لے کر اگر تم اپنے بیگ بندر کو دے دیتے، تو کونسی قیامت آجاتی اور تو اور ہم لوگ اب تک وہاں پہنچ چکے ہوتے، سمجھے؟" طاہر نے وضاحت کی۔
"چپس اور چاکلیٹ میری پسندیدہ چیزیں ہیں۔ میں انہیں کیسے بندر کو دے دیتا؟ تم ہوتے تو دیتے اپنی فیورٹ چیز؟" ہارون نے احتجاج کیا۔
"ہاں، دیتا! کم از کم بندر سے نہ لڑتا۔" طاہر نے ہنستے ہوئے کہا۔
"اوہ، تم طعنے مار رہے ہو! میں چپس اور چاکلیٹ کے لیے بندر سے کیوں لڑا؟ یہ چیزیں میں نے اپنی محنت کی کمائی سے خریدی ہیں!" ہارون نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
طاہر نے آگے کچھ نہیں کہا۔ وہ سامنے دیکھ رہا تھا جہاں صرف دیواریں ہی دیواریں نظر آ رہی تھیں۔
"ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟"
"کیا کیسے ہو سکتا ہے؟" ہارون نے پوچھا۔
"یہاں باہر جانے کا کوئی راستہ ہی نہیں، تو وہ ٹرک کہاں غائب ہو گئی؟" طاہر کی بات سن کر ہارون سنجیدہ ہو گیا۔
"یہاں بہت بڑی گڑبڑ ہے، طاہر۔ یہ جو نظر آ رہا ہے، ویسا نہیں ہے۔ کچھ نہ کچھ ضرور ہو رہا ہے یہاں۔" ہارون نے کہا۔
"صحیح کہا تم نے۔ پہلے عجیب و غریب آوازوں کا آنا، ہمارے سب دوستوں کا ہم سے بچھڑ جانا، اور پھر یہ ٹرک اور منشیات۔ کچھ نہ کچھ ضرور گڑبڑ ہے یہاں۔" طاہر نے دیواروں کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا اور دیوار کے قریب جا کر اس کی بناوٹ کو دیکھنے لگا۔
"کیا ہوا؟ کیا دیکھ رہے ہو؟" ہارون نے قریب آتے ہوئے پوچھا۔
"یہ دیکھ رہے ہو، ہارون؟"
"کیا؟"
"بائیں طرف کی دیوار دیکھو اور دائیں طرف کی دیوار۔"
"کیوں؟ کیا ہوا؟ دونوں ایک جیسی ہیں!"
"غور سے دیکھو، تمہیں فرق پتا چل جائے گا۔" طاہر نے کہا۔
ہارون نے دیوار کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔
"ارے ہاں! یہ حقیقی دیوار نہیں ہے، مصنوعی دیوار ہے!"
"یہ مصنوعی دیوار نہیں، ہارون! یہ خفیہ راستہ ہے!" طاہر نے کہا، جیسے اسے سب سمجھ آ گیا ہو۔
"اب کیا کریں؟" ہارون نے پوچھا۔
"اپنے دوستوں کو ڈھونڈنا ہے اور کیا!" طاہر نے جواب دیا۔
"کیا یہ بات ہم بوس کو نہیں بتا سکتے؟ ہم یہاں آ کر پھنس گئے ہیں اور ہمیں مدد چاہیے۔"
"کیا بتاؤ گے بوس کو؟ یہی کہ ہم یہاں اپنا اہم کام چھوڑ کر اس گاؤں میں یہ دیکھنے آئے تھے کہ یہاں ڈائن واقعی ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ عمران نے ہمیں زبردستی یہاں لے کر آیا تھا؟"
"اور بھائی، ہم سب نے خود آنے کی حامی بھری تھی، عمران زبردستی تو نہیں لایا تھا!"
"جو بھی ہے، میں بار بار منع کر رہا تھا کہ یہاں نہ آئیں، مگر تم میں سے کسی نے میری بات نہیں سنی۔"
"ایسے بزدلوں کی طرح بات کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں پتا ہے نہ کہ تم کون ہو؟"
"مجھے اچھی طرح پتا ہے کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں!"
"تو یہ بات سمجھو! یہ کوئی چھوٹے موٹے مجرم نہیں ہیں، یہ بہت طاقتور ہیں۔ ان لوگوں کا ایک پورا گروپ ہے، اور ہم چھ لوگ ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟"
"تو پھر بوس سے بات کرو۔ انہیں کچھ بھی کہہ دو کہ ہم راستہ بھٹک کر یہاں آ گئے ہیں۔ یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ ہمیں پتا چلا کہ یہاں ایک بڑا مجرم گروپ چھپا ہوا ہے، اور ہم چھاپہ مارنے آئے تھے۔" ہارون نے کہا۔
طاہر نے کچھ دیر ہارون کو دیکھا اور پھر جیب سے ٹرانسمیٹر نکالنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
اسی لمحے چاروں طرف سے کالا دھواں نمودار ہونے لگا۔ وہ دونوں بھی اس دھوئیں میں چھپنے لگے۔
جب دھواں ختم ہوا، وہ دونوں وہاں سے غائب ہو چکے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے ان کے باقی دوست غائب ہو گئے تھے۔
گلاب نگر گاؤں میں سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا، کوئی نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ یہ طوفان کی آمد سے پہلے کی خاموشی تھی۔
حویلی کے اندر سب کام کرنے والے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔
حویلی کے ایک خفیہ کمرے میں، جہاں صرف موم بتی کی ہلکی روشنی پھیل رہی تھی، کمرہ مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ موم بتی کی روشنی کمرے کے اندھیرے کو کم کرنے میں ناکام تھی۔ اسی کمرے میں دو لوگ کھڑے تھے، ایک نور کی دادی تھیں، جو سر جھکائے کھڑی تھیں۔دوسرا کوئی نا معلوم شخص
"میں نے تم سے کہا تھا نا کہ کوئی بھی اس گاؤں میں داخل نہیں ہوگا؟" اس شخص نے کرخت آواز میں کہا، اس کی آواز میں بھڑیا جیسی کاٹ تھی۔ وہ شخص کالا سوٹ پہنے، سر پر ہیٹ پہنے، اور ہاتھ میں ایک سٹک پکڑے ہوئے تھا۔ وہ شخص دیکھنے میں کسی پرانی فلموں والے جاسوس کی طرح نظر آ رہا تھا۔
"ب... بو...سس و... وہ..." ڈر کی وجہ سے دادی کے منہ سے الفاظ ہی نہیں نکل رہے تھے۔
"ہکلانا بند کرو، دادی! مجھے ہکلا کر بات کرنے والے لوگ بلکل پسند نہیں ہیں۔" اس شخص نے دادی کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔ اندھیرے کی وجہ سے اس کا چہرہ واضح طور پر دکھائی نہیں دے رہا تھا، بس اس کے ہلاتے ہوئے ہونٹ دکھائی دے رہے تھے۔
"میں جان کر نہیں کیا، مجھے لگا وہ بچے ہیں، وہ ہمارے گاؤں دیکھنے آۓ ہیں۔"
"گاؤں دیکھنے؟ ہاہاہا! گاؤں دیکھنے آئے ہیں؟ بچے نہیں ہیں وہ لوگ! پچیس، چھبیس سال کے عمر والے لوگ بچے نہیں ہوتے، ان کے پاس عقل ہوتی ہے، شعور ہوتا ہے، اور انہیں عقل کا بھی استعمال کرنا آتا ہے! مجھے یہ سمجھ میں نہیں آیا کی آپ کی عقل کہاں گئی ہے؟ یہ پوتی کے آنے کی خوشی میں اپنی عقل بھی بیچ کھائی ہے کیا؟" اس شخص کا غصہ کسی صورت میں کم نہیں ہو رہا تھا۔
"مجھے معاف کردو، میں ابھی انہیں اپنے آدمی بھیج کر بلاتی ہوں۔"
"نہیں، آپ انہیں نہیں بلائیں گی۔ سحر آباد گاؤں میں داخل ہونے والا شخص کبھی زندہ واپس نہیں آیا، اور نہ ہی کبھی آئے گا۔"
"نہیں، تم انہیں نہیں مار نہیں سکتے ، بالکل بھی نہیں!"
"کیوں؟ کیوں نہیں مار سکتا؟ آج تک جتنے بھی لوگ ڈائن کی کہانی جاننے کے باوجود اس گاؤں میں گھسے ہیں، سب کی موت ہوئی ہے، ان کی بھی ہو گئی۔" وہ شخص رکا، اور اپنی آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے دادی کو دیکھنے لگا۔
"کہیں آپ انہیں اس لیے نہیں مارنے دے رہے کہ وہ آپ کا خون ہیں؟"
"ہاں، وہ میرا خون ہے، مت بھولو، وہ تمہاری بہن ہے۔"
"بہن؟ ہاہاہا! بہن کونسی بہن؟ کہاں کی بہن؟ وہی بہن جسے پتا بھی نہیں کہ اس کا ایک بھائی بھی ہے؟ وہی بھائی جس کو تمہارے شوہر نے مجھے مارا ہوا بتا کر ہسپتال سے لے آیا تھا؟" دادی خاموش ہو گئیں، بہت کچھ یاد آیا تھا۔ دادی کو دھیرے دھیرے کمرے کا منظر بدلنے لگا، اور وہ کالے سوٹ والا شخص گڈ مڈ ہونے لگا۔ اچانک کمرہ ہسپتال کے کمرے میں تبدیل ہونے لگا۔
ماضی
یہ ایک ہسپتال کا کوریڈور تھا، جہاں سب پریشانی کے عالم میں ٹہل رہے تھے کیونکہ ابھی ابھی ڈاکٹرز مسز جمال کو آپریشن تھیٹر کے اندر لے گئے تھے، کیونکہ ان کی ڈیلیوری ہونے والی تھی۔ جمال صاحب پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر ٹہل رہے تھے ، جبکہ دادی، جو جمال کی ماں تھیں اور جن کا نام گل خان تھا، انہوں نے جمال کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں دلاسہ دیا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا، پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک گھنٹہ، دو گھنٹے، تین گھنٹے، آخر کار پورے تین گھنٹے بعد آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھولا، اور ڈاکٹر باہر نکلی۔ اس کا چہرہ لٹکا ہوا تھا۔
"کیا ہوا، ڈاکٹر صاحب؟ سب ٹھیک ہے؟" جمال صاحب نے ڈاکٹر کا لٹکا ہوا چہرہ دیکھ کر جلدی سے پوچھا۔
ڈاکٹر نے کچھ نہیں بولا۔
"میں کچھ پوچھ رہا ہوں، ڈاکٹر!" جمال نے ڈاکٹر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔
"دیکھیں جمال صاحب، آپ کی بیوی بھی ٹھیک ہے اور آپ کی بچی بھی..." ڈاکٹر نے خود کو جمال صاحب کے گرفت سے چھوڑاتے ہوۓ کہا۔
"یا اللہ، شکر تیرا!" جمال صاحب نے جلدی سے اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھاتے ہوئے دعا کی۔
"پر آپ کے لیے بری خبر ہے۔ آپ کے دو جڑواں بچے ہونے والے تھے۔ ایک تو صحیح سلامت پیدا ہوگیا، دوسرے کو ہم بچا نہیں سکے، I'm sorry..." ڈاکٹر نے کہا اور جمال صاحب کی طرف دیکھے بغیر وہاں سے چلی گئی۔
پیچھے جمال صاحب بت بن گۓ تھے
رات کا وقت تھا، ایک شخص اپنے آپ کو کمبل سے ڈھک کر ہسپتال کے مردہ روم کی طرف جا رہا تھا۔ اس کا چہرہ بھی کمبل سے ڈھکا ہوا تھا۔ جیسے ہی اس نے کمرے میں قدم رکھا، وہاں پہلے سے ہی ایک شخص موجود تھا۔
"جلدی آؤ، کوئی آئے نہ جائے۔"
"تم نے ویسا ہی کیا نہ، جیسے میں نے کہا تھا؟
"ہاں، ویسا ہی کیا۔ اب لو، اس بچے کو لے جاؤ اور پیسے دو، پھر نکل جاؤ۔"
"یہ رو کیوں نہیں رہا؟ کہیں یہ سچ میں مر تو نہیں گیا؟"
"نہیں، زندہ ہے۔ یہ نیند سے جاگ کر رونے نہ لگ جائے، اس لیے اسے ہلکا سا نیند کا انجیکشن دے دیا ہے۔"
"نیند کا انجیکشن؟" اس شخص نے حیرت سے کہا، "تم چھوٹے بچے کو کیسے انجیکشن دے سکتے ہو؟"
"فکر مت کرو، میں ڈاکٹر ہوں مجھے پتا ہے اس بچے کے لیے صحیح کیا ہے غلط کیا ہے ۔ کب کس کو کیا دینا ہے سب پتا ہوتا ہے ۔ کچھ ہی دیر میں اس بچے کو ہوش آ جائے گا اور وہ رونا شروع کر دے گا۔ اب زیادہ باتیں مت کرو، پیسے دو اور نکل جاؤ۔" ڈاکٹر نے کہا، اور رحمت علی نے جیب سے ایک نوٹوں کا بنڈل نکالا، ڈاکٹر کے ہاتھ میں رکھا، اور وہ بچہ لے کر باہر نکل گیا۔
ڈاکٹر ان پیسوں کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کوئی بھوکا انسان کھانے کی پلیٹ کو دیکھ رہا ہو۔ کسی نے صحیح کہا تھا:
"انسان اپنا پیٹ جتنا مرضی بھر لیتا ہے، مگر اسے اور کھانے کی خواہش کم نہیں ہوتی۔ اسی طرح انسان جتنا پیسہ کما لے، اسے ہمیشہ کمانے کی لگن رہتی ہے، چاہے وہ پیسہ حلال کما رہا ہو یا حرام۔"
حال
"کہاں کھو گئی دادی؟" اس کالے سوٹ والے شخص نے گل خان کو بہت دیر تک خاموش دیکھ کر اس کے سامنے چٹکی بجا کر کہا۔
"ہاں، نہیں، نہیں، کہیں نہیں! تم انہیں نہیں مار سکتے!" دادی نے مضبوط لہجے میں کہا۔
"مارنا تو میں تمہیں بھی چاہتا ہوں، دادی، مگر کیا کروں؟ تم ہی ایک واحد فیملی ہو میری، اور تم نے میرے لیے بہت کام کیا ہے۔ اور آگے جا کر بھی کرنے والی ہو۔ تم میری کام کی چیز ہو۔ میں اپنے کام آنے والی چیز یا انسان کو ضائع نہیں کرتا، اور جہاں تک تمہاری پوتی اور دوستوں کا تعلق ہے، وہ میرے کسی کام کے نہیں ہیں۔ جو چیز اور انسان میرے کام کا نہیں ہوتا، اسے میں ہمیشہ کے لیے اس مطلبی دنیا سے آزاد کر دیتا ہوں۔ ہوں نہ میں تمہارا اچھا پوتا؟" اس کالے سوٹ والے شخص نے کہا، تو آگے سے دادی نے کچھ نہیں کہا، بس اسے گھورتی رہی۔ یہ دیکھ کر اس نے اپنے منہ سے کچھ بڑبڑاتے ہوئے اپنا ہاتھ جھٹکا، اور وہاں ایک کالا دھواں نمودار ہونے لگا۔ دھیرے دھیرے وہ دھواں ایک انسانی شکل اختیار کر گیا۔
"جی، بولے آقا، کیوں بولایا آپ نے مجھے؟"
"سحر آباد! جاؤ وہاں جو بھی لوگ ہیں، جتنے بھی لوگ ہیں، سب کو موت کی نیند سلادو، کوئی بچانا نہیں چاہئے ۔ اور سب کو مارنے کے بعد، وہاں پر اس گاؤں کو دوبارہ آگ لگا دو!" اس کالے سوٹ والے شخص نے کہا اور نکلتے چلے گیا۔ وہ شخص اندھیرے میں غائب ہو گیا۔
عمران اور اس کے باقی دوست ان پرچھائیوں کو دیکھ رہے تھے۔ آیان نے گولیوں کی بارش کر دی۔ یہ دیکھ کر وہ لوگ بھی خود کو محفوظ جگہ پر چھپاتے ہوئے اپنی حفاظت کرنے لگے اور گولیاں چلانے لگے۔
"یہ کیا کر رہے ہو، آیان؟" عمران نے غصے سے غراتے ہوئے کہا۔
"م... می... میں نے کچھ نہیں کیا۔ یہ... یہ پستول خود ہی چل پڑی!" آیان نے خوف اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہا۔
"بکواس بند کرو! پستول خود ہی کیسے چل سکتی ہے؟" عمران نے غصے سے کہا کیونکہ وہ ان لوگوں کو زندہ پکڑنا چاہتا تھا، لیکن آیان نے انہیں مار دیا تھا۔
"یہ سب چھوڑو! جا کر دیکھو وہ لوگ مرے بھی ہیں یا نہیں، اور یہ دیکھو کہ ان کے کندھوں پر کون تھا جسے وہ اٹھا کر لائے تھے؟" عالیہ نے کہا۔
یہ سن کر عمران اور آیان دوڑتے ہوئے ان لوگوں تک پہنچے۔ عمران نے ان کی نبض چیک کی، لیکن وہ سب مر چکے تھے۔
"یہ لوگ مر چکے ہیں،" عمران نے آیان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"اور یہ لوگ؟" آیان نے ان اوندھے منہ پڑے ہوئے لوگوں کی طرف اشارہ کیا۔ عمران نے جیسے ہی ان دونوں کو سیدھا کیا، وہ حیران رہ گیا۔ وہ اور کوئی نہیں بلکہ طاہر اور ہارون تھے۔
"طاہر! ہارون! اٹھو!" عمران نے جلدی سے ان کی گالوں پر ہلکے تھپڑ مارتے ہوئے انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کی۔
طاہر اور ہارون کے نام سن کر عالیہ اور نور بھی وہاں آ گئیں۔ دونوں خوش تھیں کہ باقی دوست بھی مل گئے تھے۔
"یہ اٹھ کیوں نہیں رہے؟" نور نے پریشانی سے کہا۔
"لگتا ہے بے ہوشی کی دوا کا کچھ زیادہ ہی اثر ہو گیا ہے،" عمران نے کہا اور ایک ہاتھ سے طاہر کا منہ اور ناک بند کر دیا۔ چند لمحوں بعد طاہر ہوش میں آ گیا۔ عمران نے طاہر کو ہوش میں آتے دیکھ کر یہی عمل ہارون کے ساتھ بھی دہرایا اور اسے بھی ہوش آ گیا۔
دونوں حیرانی سے چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔
"ت... تم سب ٹھیک ہو؟" طاہر نے ان سب کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہاں، ہم سب ٹھیک ہیں۔ تم دونوں کیسے ہو؟" عمران نے مسکراتے ہوئے کہا تو دونوں نے سر ہلا کر اثبات میں جواب دیا۔
"عمران، مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔ یہاں جو کچھ نظر آ رہا ہے، وہ حقیقت میں ویسا نہیں ہے۔ ہمیں یہاں ڈرگز کے کچھ آثار ملے ہیں اور ایک ٹرک دیکھا تھا جو ڈرگز سے بھرا ہوا تھا اور باہر جا رہا تھا،" طاہر نے جلدی جلدی عمران کو سب کچھ بتا دیا۔
"مجھے معلوم ہے، طاہر، اسی لیے میں تم لوگوں کو یہاں لایا ہوں۔"
"کیا مطلب؟" دونوں نے حیرانی سے کہا۔
عمران نے وہی بات دہرائی جو اس نے پہلے آیان، عالیہ، اور نور کو بتائی تھی۔
"تو مطلب یہ ہے کہ تمہیں پہلے ہی پتہ تھا کہ ڈائن کی کہانی جھوٹی ہے؟" طاہر نے حیرانی سے پوچھا۔
"ہاں، مجھے صرف اس گاؤں میں آنے کا بہانہ چاہیے تھا۔ تھینکس ٹو یو، نور، کہ تم نے وہ ڈائن والی کہانی ہم سب کو سنائی۔ وہ سن کر ہی میرے ذہن میں یہ آئیڈیا آیا تھا،" عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"تبھی میں سوچ رہا تھا کہ اکیسویں صدی میں رہنے والا انسان ڈائن کے چکر میں کیسے پڑ سکتا ہے،" طاہر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ عمران بھی مسکرا دیا۔
"اب آگے کیا کرنا ہے؟ کیسے ان کے گروپ کو پکڑیں؟" آیان نے پوچھا۔
"سب سے پہلے ہمیں اس غار سے باہر نکلنا ہے۔ جلدی نکلو، پھر سوچتے ہیں کہ آگے کیا کرنا ہے،" عمران نے کہا۔
سب غار سے نکل گئے۔ جیسے ہی وہ باہر آئے، فضاؤں میں ایک عجیب سی تبدیلی محسوس ہوئی۔
"یہاں کچھ تو بہت عجیب ہے، عمران۔ جب سے ہم یہاں آئے ہیں، کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے،" نور نے کہا۔
"ہاں، میں نے بھی نوٹ کیا ہے۔ یہاں سب کچھ عجیب ہے، یہاں کی ہوا، ماحول، سب کچھ،" عمران نے سنجیدگی سے کہا۔
چلتے چلتے وہ لوگ وہاں پہنچے جہاں پہلے طاہر اور ہارون پہنچے تھے۔
"یہ دیکھو، عمران! یہ دیواریں!" طاہر نے دیواروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"کیا ہے وہاں پر؟" عمران نے دیواروں کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"یہ دیکھو، بائیں طرف والی دیوار اور دائیں طرف والی دیوار!" طاہر نے دائیں اور بائیں اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"یہ دیوار اصلی ہے اور یہ نقلی۔"
"کیا بول رہے ہو؟ دونوں بالکل ایک جیسی ہیں!" عمران نے دیواروں کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"غور سے دیکھو، بھائی عمران صاحب! اصلی اور نقلی کی پہچان کرو!" طاہر نے مزید زور دیا۔
"او بھائی، غور سے دیکھ رہا ہوں! لیکن کیا فرق ہے ان دونوں میں؟" عمران نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
یہ سن کر طاہر خود آگے بڑھا اور دیوار کو غور سے دیکھنے لگا۔
"ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟" طاہر نے حیرت سے کہا اور ہارون کی طرف دیکھا۔
"یہ بائیں طرف والی دیوار نقلی تھی، اور ٹرک اسی طرف سے گزرا تھا۔ اب یہ دیوار اصلی کیسے ہو سکتی ہے؟" طاہر نے پریشانی سے کہا۔
"چھوڑوں ان دیواروں کو ، طاہر ہمیں ان لوگوں کو ڈھونڈنا ہے ،" عمران نے کہا
اتنے میں وہاں ایک لڑکا بھاگتا ہوا ان کی طرف آتا دیکھائی دیا ۔ یہ دیکھ کر سب نے فوراً اپنی اپنی پستول لوڈ کر لیں ۔
"بچاؤ ! بچاؤ ! وہ سب کو مار دے گا ! وہ سب کو مار دے گا !" لڑکا چیختا ہوا ان کے قریب پہنچا ۔
"کون؟ کون مار دے گا؟" عمران نے جلدی سے پوچھا
"و۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ وہ حویلی میں"۔۔۔۔۔ لڑکے نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کہا اور پھر بے حوش گیا ۔
"اٹھو! بولو، کون مار دے گا ؟" عمران نے جھک کر اس کے گال تھپتھاتے ہوۓ کہا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔
"ہمیں فوراً اس طرف جانا چاہیے، جدھر سے یہ لڑکا آیا تھا،" طاہر نے کہا۔ پھر سب اسی راستے کی طرف دوڑ پڑے جہاں سے وہ لڑکا آیا تھا۔
جیسے ہی وہ لوگ حویلی کے قریب پہنچے، وہاں کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ہر طرف خون بکھرا ہوا تھا، اور انسانوں کے کٹے پھٹے اعضاء پڑے ہوئے تھے۔ کہیں کسی کا سر پڑا تھا، کہیں کسی کا ہاتھ، اور کہیں کسی کا پاؤں۔ یہ منظر بہت ہی بھیانک تھا۔
"یہ... یہ سب کیا ہو رہا ہے یہاں؟" آیان نے خوف سے کہا۔
"یہاں تو خون کی ہولی کھیلی گئی ہے، لگتا ہے..."
"سب لوگ پھیل جاؤ، دیکھو کوئی زندہ ہے کیا؟" عمران نے حکم دیا۔
"یہ پر یہ بھیانک منظر دیکھ کر تو لگتا ہے کوئی زندہ نہیں بچا۔"
"پھر بھی کچھ سراغ مل جائے تو چیک کرو!"
سب حویلی کے اندر پھیل گئے۔ اندر کا منظر باہر سے بھی زیادہ بھیانک تھا۔ سب کے چہرے ہلکے خوف کے سائے میں ڈوبے ہوئے تھے، اور پریشانی و حیرانی کی ایک گہری لہر چھائی ہوئی تھی۔
بوس اپنے کمرے میں بیٹھا اپنے حکم کے پورا ہونے کا انتظار کر رہا تھا، کہ اچانک وہی کالے دھوئیں والی مخلوق دوبارہ نمودار ہوئی جو پہلے بوس کے ساتھ تھی۔
"تم... تم واپس کیوں آئے؟" بوس نے غصے سے سوال کیا، "میں نے کہا تھا نا کہ سپر بوس کا کام ہو جائے گا؟"
وہ مخلوق بغیر کسی جواب کے صرف بوس کی طرف تک رہی، اور اس کے سائے کمرے کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ بوس کے چہرے پر تشویش کے آثار تھے، کیونکہ اسے کچھ گڑبڑ کا احساس ہو رہا تھا۔
"سپر بوس نے جو کام تمہیں بولا تھا، وہ تم کر لوگے، مگر بوس نے مجھے بھی کسی کام کا حکم دیا ہے،" اس اندیکھی مخلوق نے بھیانک آواز میں کہا، جیسے اس کی آواز میں بہت ساری بد روحیں اکٹھی ہو کر ایک ساتھ گرج رہی ہوں۔
"کیا حکم دیا ہے تمہیں سپر بوس نے؟" بوس نے حیرانی سے کہا۔
"تم سب لوگوں کی موت!" اس مخلوق نے بھیانک انداز میں ہنستے ہوئے کہا، اور پھر بوس پر ایسے جھپٹا جیسے کوئی شکاری اپنے شکار پر جھپٹتا ہو۔ کچھ ہی دیر میں وہ بوس کو صفا چھٹ کر چکا تھا، جیسے وہ کوئی مزیدار کھانا ہو۔
"بہت دنوں سے تم پر نظر تھی، میری آخرکار آج موقع مل ہی گیا تمہیں کھانے کا،" اس مخلوق نے کہا، اور دھیرے دھیرے اپنا روپ بدلا۔ اب وہ بوس کی شکل اختیار کر گیا تھا، ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کمرے میں بکھرا بوس کا خون اور ہڈیاں دیکھتے ہوئے وہ باہر نکلتا چلا گیا، جیسے اس کا مقصد مکمل ہو چکا ہو۔ اس کے چہرے پر ایک خونخوامسکراہٹ تھی اور وہ اپنے شیطانی مقصد کی تکمیل کی خوشی میں محو ہو کر آگے بڑھ رہا تھا، جہاں اور بھی انسان اس کی جوتیوں تلے آ کر ختم ہو جانے تھے ۔
باہر سب لوگ اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ اچانک وہ مخلوق جو بوس کی شکل میں تبدیل ہو چکی تھی، سب کو ایک نظر دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ کی چٹکی بجا دی۔ جیسے ہی اس نے چٹکی بجائی، وہاں پر بہت سارے کالے دھویں نمودار ہونے لگے اور لائنز بنا کر بوس کے سامنے کھڑے ہوگئے۔
"آج کے دن تم سب کی جشن کا دن ہے ، دل کھول کر جشن مناؤ جو چاہے جیسے چاہے لے جاؤ، آج تمہیں روکنے والا کوئی نہیں!" اس مخلوق نے کہا، ساتھ ہی سب لوگ ان پر ٹوٹ پڑے ۔
کچھ ہی لمحوں میں وہاں کا منظر بھیانک بن چکا تھا۔ ہر طرف خون ہی خون بکھرا پڑا تھا، کچھ سر الگ پڑے تھے، کچھ ہاتھ، اور وہ لوگ جو بچ کر باہر کی طرف بھاگے تھے، وہ بھی بچ نہیں پائے۔ سب لوگ مر چکے تھے، کوئی زندہ نہیں بچا تھا ۔ سب کے سب مارے گۓ تھے
"کیا بھیانک منظر ہے!" نور اور عالیہ نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا۔
"ایسا لگتا ہے جیسے بہت سارے جنگلی بھیڑیوں نے ان سب پر ایک ساتھ حملہ کیا ہو!" عالیہ نے خوف سے کپکپاتی آواز میں کہا۔ وہاں کا منظر ایسا تھا کہ کوئی بھی انسان وہ منظر دیکھے تو خوف سے مر جائے۔
"ایسا ہی لگتا ہے," نور نے کہا اور ادھر اُدھر خون سے بھیگی ہوئی زمین کو دیکھنے لگی۔
"سب لوگ ہوشیار رہو، یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے!" عمران نے چیخ کر کہا تاکہ سب سن سکیں۔
وہ لوگ حویلی کے اندر زیادہ گہرائی تک جا چکے تھے۔ پوری حویلی کا نقشہ بگڑا ہوا تھا، ہر جگہ مکڑی کے جالے، ٹوٹے پھوٹے جلتے ہوئے دیواریں، اور ایک الگ ہی منظر بیان کر رہا تھا۔
ایک گھنٹے بعد وہ سب ایک جگہ جمع ہوئے۔
"کچھ ملا؟" عمران نے پوچھا۔
"نہیں، کچھ بھی نہیں ملا۔ پوری حویلی چھان مار لی، سوائے اس خون اور ان ڈرگز کے پیکٹ کے، کچھ نہیں ملا!"
"اتنی بے رحمی ان سب لوگوں کو مار سکتا ہے؟ یہ انسان کا کام تو نہیں ہو سکتا!" عمران نے غصے اور حیرانی سے کہا۔
اس کے چہرے پر تشویش اور بے یقینی تھی۔ اس کی نظر پورے ماحول میں چھائی ہوئی دہشت پر تھی، اور وہ جانتا تھا کہ جو کچھ یہاں ہوا، وہ انسانی عمل نہیں ہو سکتا۔
"مجھے لگتا ہے یہ کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا، یہ ضرور کسی اور نے کیا ہے،" نور نے کہا۔
"مثلاً کون؟" ہارون نے پوچھا۔
"ڈائن! دادی نے کہا تھا کہ وہ بہت بے رحم تھی۔ اس کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟" نور نے کہا۔
"ڈائن، ڈائن! ہر جگہ ڈائن نہیں ہوتی۔ اپنی یہ خیالی دنیا اور ڈائن کے تصور سے باہر نکلو۔ تم ایک سلجھی ہوئی سیکریٹ ایجنٹ ہو۔ اگر ایسا ہی رویہ رہا تو مجھے جلد تمہارے بارے میں کچھ سوچنا پڑے گا۔ ایک ایجنٹ ہمیشہ نڈر ہوتا ہے اور ہر پہلو سے سوچتا ہے۔ تبھی وہ کسی نتیجے پر پہنچتا ہے۔ تمہاری طرح بغیر سوچے سمجھے منہ اٹھا کر کچھ بھی بک نہیں دیتا۔ اگلی بار جب بھی کچھ کہنا ہو، سوچ سمجھ کر ہر پہلو پر غور کرکے کہنا،" عمران نے اسے سختی سے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ وہ اس ڈائن کے تذکرے سے تنگ آچکا تھا۔
عمران کو پورا یقین تھا کہ اس حادثے کے پیچھے بلیک کوبرا تنظیم کا ہاتھ ہے، لیکن وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھا کہ تنظیم نے اپنے ہی لوگوں کو کیوں مارا اور اپنا ہی کروڑوں کا نقصان کیوں کیا۔ یہی بات عمران کو الجھن میں ڈال رہی تھی۔
ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ان کے چاروں طرف کالا دھواں چھانے لگا۔ یہ دیکھ کر وہ چونک گئے۔
"پھر سے نہیں!" آیان اور ہارون نے ایک ساتھ کہا۔
مگر اس بار منظر کچھ اور تھا۔ وہ حیران رہ گئے کیونکہ وہ کالا دھواں انسانی شکل اختیار کرنے لگا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک انسان نما مخلوق کھڑی ہو گئی۔ اس کا چہرہ بری طرح بگڑا ہوا تھا، آنکھیں باہر کو نکلی ہوئی اور خون کی طرح سرخ تھیں۔ اس کے بڑے اور لمبے ناخن خنجر کی مانند تیز تھے، اور اس کے پاؤں پیچھے کی طرف مڑے ہوئے تھے۔ اس کا قد عام انسانوں سے زیادہ لمبا تھا، اور اس کا حلیہ ایسا تھا کہ سب کے اوسان خطا ہو گئے۔
یہ منظر ان سب کے لیے نیا تھا۔ وہ، جو ہمیشہ پستول اور بندوق کی نوک پر مجرموں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ، آج اس ان دیکھی مخلوق کے سامنے بے بس محسوس کر رہے تھے۔ عمران نے فوراً اپنی پستول نکال کر گولیوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ باقی سب نے بھی اس پر فائرنگ شروع کر دی، لیکن حیرانی کی بات یہ تھی کہ گولیاں اس مخلوق کا کچھ بھی نہیں بگاڑ رہیں تھیں۔ تمام گولیاں اس کے جسم سے آر پار ہو رہی تھیں، اور مخلوق پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔
یہ دیکھ کر وہ مخلوق زور زور سے ہنسنے لگا۔
"ہا ہا ہا! تم انسان کتنے نادان ہو۔ آگ سے کھیلنے چلے ہو؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آگ جب آتی ہے، تو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے؟" وہ قہقہے لگاتے ہوئے بولا۔
"تم کون ہو؟" عمران نے سخت لہجے میں پوچھا۔
"مجھے ناچیز کو 'زھریون' کہتے ہیں۔ میں شیاطین قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں، جسے تم عام زبان میں ابلیس بھی کہتے ہو،" مخلوق نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"اوہ، تو تم وہ سرکش جن ہو جو انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں، وسوسے ڈالتے ہیں، اور لوگوں کو غلط راستے پر لے جاتے ہیں،" عمران نے غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔
"بالکل درست کہا،" زہریون نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"اگر تم لوگوں نے میرا انٹرویو مکمل کر لیا ہو، تو میں اپنا کام شروع کروں،" زھریوں نے سنجیدگی سے کہا، جیسے وہ ان لوگوں کے حکم کا پابند ہو-
اس زہریوں نے چٹکی بجائی، اور چاروں طرف دھواں چھا گیا۔ جیسے ہی دھواں ان کے نتھنوں میں پہنچا، وہ لوگ بے ہوش ہوتے چلے گئے۔
"اٹھاؤ انہیں اور حویلی کے اندر لے چلو،" زہریوں نے کہا اور اندر بڑھ گیا۔
جاری ہے
Previous Episodes
👉Episode 01: Click Here
👉Episode 02: Click Here
👉Episode 03: Click Here
👉Episode 04: Click Here