ڈائن کا انتقام - از_قلم_فاطمہ- قسط نمبر 4

 


Novel Name: Dyne ka inteqam
Writer: Fatima
Status: on-going 
Genre : horror ,suspence and thiller -based novel

 

ڈائن کا انتقام" ایک ایسی لرزہ خیز کہانی ہے جو خوف، پراسراریت، اور انتقام کے گرد گھومتی ہے۔
ایک گاؤں، جہاں برسوں پہلے ایک ڈائن کو جلایا گیا تھا، اب ایک ممنوعہ جگہ بن چکا ہے۔ لوگ اس گاؤں کے قریب جانے سے بھی ڈرتے ہیں۔ لیکن حالات بدلتے ہیں جب کچھ بے خوف لوگ اس گاؤں میں داخل ہو جاتے ہیں، اور ان کی موجودگی ایک بھیانک راز کو زندہ کر دیتی ہے۔ ڈائن، جو کبھی قید میں تھی، اب آزاد ہے اور اپنے اوپر کیے گئے ظلم کا بدلہ لینے کے لیے تیار ہے۔

یہ کہانی انتقام کی اس آگ کو بیان کرتی ہے جو گاؤں کے ماضی کو نہ صرف جھلسا دیتی ہے بلکہ وہاں آنے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے 

ڈائن کا انتقام
از_قلم_فاطمہ
قسط:4

صبح کا وقت تھا، اور آئی بی کے ہیڈ کوارٹر میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ تمام ایجنٹس اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ کوئی کمپیوٹر اسکرین پر جھکا ہوا تھا تو کوئی فائلیں دیکھنے میں مصروف۔ ہر طرف ایک غیر معمولی سرگرمی کا ماحول تھا، لوگ جلدی جلدی ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔


اسی دوران، ایک شخص ہیڈ کوارٹر کے اندر داخل ہوا۔ دیکھنے سے وہ سب سے سینئر لگ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر گہری پریشانی چھائی ہوئی تھی۔ وہ تیز قدموں سے سیدھا بوس کے کمرے کی طرف بڑھا۔


کمرے میں بوس ایک اہم فائل کا جائزہ لے رہے تھے۔ دروازے کے کھلنے کی آواز پر وہ چونک گئے اور سر اٹھا کر دیکھا۔
"ارے یاسر! تم یہاں؟ اور اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہو؟" بوس نے پوچھا۔
"بوس، بہت بڑی گڑبڑ ہوگئی ہے!" یاسر نے جلدی سے کہا۔
"کون سی گڑبڑ؟" بوس نے حیرانی سے پوچھا۔
"ہمارے انڈر کور ایجنٹس۔۔۔"
"کیا ہوا ہمارے ایجنٹس کو؟ وہ لوگ تو ایک خفیہ مشن پر تھے، ہے نا؟"
"جی بوس، وہ بلیک کوبرا تنظیم کے مشن پر کام کر رہے تھے۔"
"تو پھر کیا ہوا؟ کہاں تک پہنچا مشن؟"
"بوس، سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ ہمارے ایجنٹس بھی صحیح سلامت ان تک پہنچ گئے تھے۔ لیکن۔۔۔"
"لیکن کیا؟ ختم کر دیا انہوں نے تنظیم کو؟" بوس نے سوال کیا۔
"نہیں، بوس۔" یاسر نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، "دو دن پہلے ایجنٹ بلیک کا آخری میسج آیا تھا۔"
"کیا لکھا تھا اس میسج میں؟" بوس نے تیزی سے پوچھا۔
"اس نے لکھا تھا کہ وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔"
"اور اس کے بعد؟"
"اس کے بعد سے نہ کوئی میسج آیا اور نہ ہی ان کی لوکیشن ٹریک ہو رہی ہے، بوس۔"
"یہ کیسے ممکن ہے؟" بوس کے چہرے پر تشویش کے آثار نمایاں تھے۔
"یہی بات تو پریشان کر رہی ہے، بوس۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کے ساتھ کچھ غلط ہو گیا ہے۔"
"نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگ انتہائی ماہر خفیہ ایجنٹس ہیں۔ وہ اتنی آسانی سے ہارنے والوں میں سے نہیں۔" بوس نے خود کو تسلی دی۔
"ان کی آخری لوکیشن کیا تھی؟"
"ایک گاؤں تھا، گلاب نگر۔" یاسر نے کہا۔ "وہاں کے بعد سے ان کا ٹریکر بند ہو گیا۔"
بوس نے گہری سانس لی اور فیصلہ کن لہجے میں کہا، "ٹھیک ہے، تم ٹیم کو تیار رہنے کو کہہ دو۔ آج شام تک ان کا میسج آنے کا انتظار کریں گے۔ اگر کوئی جواب نہ آیا تو ہم روانہ ہوں گے۔"
یاسر نے اثبات میں سر ہلایا اور کمرے سے نکل گیا۔


طاہر اور ہارون جنگل میں ان لوگوں کو ڈھونڈ رہے تھے
"عمران، آیان، عالیہ، نور! کہاں ہو تم سب؟" طاہر نے بلند آواز میں پکارا، اور اس کی آواز جنگل میں گونجنے لگی۔
"کہاں چلے گئے یہ لوگ؟" طاہر نے پریشانی سے کہا اور ہارون کی طرف دیکھا، لیکن وہ وہاں نہیں تھا۔
"یہ کہاں غائب ہو گیا؟" طاہر نے دل میں سوچا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
اچانک، ہارون کی چیخنے کی آواز سنائی دی۔ طاہر فوراً اس چیخ کی سمت دوڑا۔


جیسے ہی وہ وہاں پہنچا، اس کے قدم وہیں رک گئے، اور آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
ہارون ایک جنگلی بندر کے ساتھ اپنے بیگ کے لیے لڑ رہا تھا!
"ہارون، یہ کیا حرکت ہے؟" طاہر نے حیرانی سے کبھی ہارون کو دیکھا اور کبھی بندر کو۔
"دیکھ نہیں رہے؟ یہ میرا بیگ چھین رہا ہے! اس میں میرے چپس اور چاکلیٹ ہیں!" ہارون نے تقریباً روتے ہوئے کہا۔


یہ سن کر بندر نے ہارون کی آنکھوں میں گھورا، جیسے کہہ رہا ہو، "دیکھتے ہیں، کون جیتتا ہے!"
طاہر اپنی ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا، "ہا ہا ہا! تم ایک بندر سے لڑ رہے ہو؟ وہ بھی چپس اور چاکلیٹ کے لیے؟"
"ہنس مت! مدد کر! کیسا دوست ہے تو؟ ایک بندر کے ساتھ میری لڑائی ہو رہی ہے، اور تو مزے سے ہنس رہا ہے!"
"بھائی، رک جا! ہا ہا ہا! پہلے مجھے ہنس لینے دے!" طاہر ہنستے ہنستے زمین پر جھکتا جا رہا تھا۔


اچانک بندر نے پاس پڑا ہوا ایک پتھر اٹھایا اور طاہر کی طرف دے مارا۔ پتھر سیدھا طاہر کے سر پر لگا، اور اس کی ہنسی چیخ میں بدل گئی۔
"آہہہہ! یہ کیا تھا؟" طاہر نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"اب آیا مزہ؟ بہت ہنسی آرہی تھی نا؟" ہارون نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔


طاہر نے بندر کو غصے سے گھورا اور ارد گرد نظر دوڑائی۔ اسے سامنے ایک بڑا پتھر پڑا ہوا نظر آیا۔ اس نے وہ پتھر اٹھا کر بندر کی طرف پھینکا، لیکن بندر ہوشیار نکلا اور ایک طرف ہٹ گیا۔
"یار، یہ بندر تو تربیت یافتہ لگتا ہے! دیکھ، میری آنکھ بھی سجا دی ہے اپنے پنچ مار کر!" ہارون نے شکایت کی۔
"چھوڑو اس بیگ کو، ہارون! ہمیں اپنے دوستوں کو ڈھونڈنا ہے۔" طاہر نے مشورہ دیا۔
"نہیں! یہ اب میری انا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ جب تک میرا بیگ واپس نہیں آتا، میں یہاں سے نہیں ہلوں گا!" ہارون نے ضدی لہجے میں کہا۔

ہارون نے اپنی پوری طاقت لگا کر بیگ کھینچنے کی کوشش کی۔ آخر کار، بیگ پھٹ گیا، اور اندر سے سارے چپس اور چاکلیٹ زمین پر گر گئے۔
یہ دیکھ کر ہارون جھکا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ اٹھا پاتا، بندر نے سب چیزیں سمیٹ لیں اور بھاگ کر ایک درخت پر جا بیٹھا۔ وہاں سے وہ ہارون کی چاکلیٹ کھانے لگا۔

یہ منظر دیکھ کر طاہراپنی ہنسی روک نہیں پایا ۔ وہ ہسنتے ہوئے زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔
"یار، کیا انسان بنے گا تو؟ ایک بندر سے ہار گیا!" طاہر ہنستے ہوئے بولا۔
"چپ کر جا! آج کے بعد میرا اور بندروں کا رشتہ ختم! میں ان کا بائیکاٹ کروں گا!" ہارون نے سنجیدگی سے کہا۔

"رشتہ ختم "طاہر نے حیرانی سے کہا
اس کا مطلب تم مانتے ہوں تم بندر کے رشتے دار ہو " طاہر نے کہا تو ہاروں اسے گھورتے ہوۓ وہاں چلا گیا

"اف اللہ یہ سارے پاگل دوست مجھے ہی ملنے تھے زیادتی ہے یہ تو " ہاروں بڑبڑاتے ہوۓ کہا اس کی بڑبڑاتے اتنی اونچی تھی کی طاہر آسانی سن سکتا ہے ہاروں کی بات سن کر طاہر کی ہنسی اور بڑھ گئ۔ ہارون بندر کو گھورتا ہوا آگے بڑھا، اور طاہر ہنستے ہنستے اس کے پیچھے چل دیا۔
وہ دونوں چلتے چلتے جنگل کے کافی اندر جا چکے تھے۔
"کہاں جا سکتے ہیں یہ لوگ؟" طاہر نے پریشانی سے کہا۔ کچھ دیر پہلے کی ہنسی مذاق اب ختم ہو چکی تھی، اور دونوں کے چہروں پر پریشانی اور خوف واضح دکھائی دے رہا تھا۔
"اتنا بڑا جنگل ہے، کہیں وہ گم تو نہیں ہو گئے؟" ہارون نے کہا۔
"وہ چھوٹے پچے ٹھوڑی ہیں جو گم ہوجائیں گۓ "

"اب تم ہی بتاؤ کی کہاں جاسکتے ہیں "

"اتنا بڑا جنگل ہے بھٹک گئے ہوں گئے راستہ"

"میں نے عمران سے کہا تھا کہ یہاں نہ آئیں، لیکن میری سنتا کون ہے!" طاہر نے مایوسی سے کہا۔
"اب کیا کریں؟" ہارون نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

تبھی ان کے کانوں میں ٹرک کی آواز سنائی دی۔
"ٹرک کی آواز؟ وہ بھی جنگل میں؟" دونوں نے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا اور فوراً آواز کی سمت بھاگے۔ لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو ٹرک جا چکا تھا۔
"یہ ٹرک جنگل میں کیا کر رہا تھا؟ اور یہاں تو ایک ہی راستہ ہے، پھر یہ دوسری طرف کیوں گیا؟" طاہر نے حیرانی سے کہا۔
ہارون نے کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ زمین پر گرے ہوئے سفید پاؤڈر کو دیکھ رہا تھا۔
"یہ کیا چیز ہے؟" ہارون نے پاؤڈر کو اٹھاتے ہوئے کہا اور اسے ناک کے قریب لے جا کر سونگھنے لگا۔ جیسے ہی اس نے سونگھا، اسے کھانسی کا دورہ پڑ گیا اور آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔
"کیا ہوا ہارون؟ تم ٹھیک ہو؟" طاہر نے جلدی سے ہارون کی پیٹھ سہلاتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں، میں ٹھیک ہوں۔ یہ... یہ ڈرگز ہے، وہ بھی عام ڈرگز نہیں، یہ غیر ملکی ڈرگز ہے!" ہارون نے سنبھلتے ہوئے کہا۔
"کیا؟ ڈرگز؟ اور وہ بھی جنگل میں؟" طاہر نے حیرانی سے کہا۔
"یہ عام ڈرگز نہیں، یہ کوکین ہے... کوکین!" ہارون نے سنجیدگی سے کہا۔
"اتنی خطرناک ڈرگز! یہاں کون لا سکتا ہے؟ یہ تو غیر قانونی ہے، اس کا استعمال کرنا بھی جرم ہے!" طاہر نے بھی سنجیدگی سے کہا۔
"یہ لائی نہیں گئی، بلکہ اسمگلنگ کی جا رہی ہے۔ اتنی مہنگی ڈرگز کا آنا کسی چھوٹے موٹے گروپ کا کام نہیں ہو سکتا، یہ کسی بڑے گروہ کا کام ہے۔"
"ہمارے شہر کا جو بڑا مافیا گروپ ہے، بلیک کوبرا گروپ، یہ اسی نے اسمگلنگ کی ہوگی۔"
"ہاں، ہمیں فوراً اپنے دوستوں کو ڈھونڈنا ہوگا اور ان سب کے بارے میں بتانا ہوگا۔ یہ لوگ ڈائن کی کہانی کے آڑ میں ڈرگز کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک بنا کر بیٹھے ہیں!" ہارون نے کہا۔
وہ دونوں تیزی سے آگے بڑھ گئے اسی راستہ کے طرف بڑھ گئے جس راستے سے ٹرک گیا تھا

عمران کی جب آنکھ کھلی تو وہ اپنے آپ کو ایک کھنڈر نما غار میں پایا۔ عمران جلدی سے اٹھ بیٹھا اور اپنے پاس پاس دیکھنے لگا۔ اس کے سارے دوست بھی اس کے ہی قریب ٹیڑھے میڑھے انداز میں بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔ عمران سب سے پہلے آیان کے پاس پہنچا اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔
"آیان۔۔۔ آیان، آنکھیں کھولو! ہم مصیبت میں ہیں،" عمران نے آیان کے چہرے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا، مگر بے سدھ آیان ہوش میں نہیں آیا۔ عمران نے آیان پر جھک کر دونوں ہاتھوں سے آیان کا منہ اور ناک دبانے لگا۔ کچھ ہی منٹ میں آیان نے آنکھیں کھول دی تھیں۔
"جلدی اٹھو، ہم مصیبت میں ہیں،" عمران نے جلدی سے کہا اور نور اور عالیہ، ان دونوں کے ساتھ بھی عمران نے ویسے ہی کیا جیسے آیان کے ساتھ کیا۔
ہوش میں آتے وہ لوگ اپنے آپ کو غیر آرام دہ جگہ پاکر پریشان ہوگئے۔
"یہ۔۔۔ یہ کون سی جگہ ہے؟" نور نے بولتے ساتھ ہی اٹھنے کی کوشش کی۔
"آہ!" لیکن اس کے پیر زخمی ہونے کی وجہ سے وہ اٹھ نہیں پائی۔ عالیہ نے جلدی سے نور کے پاس جا کر اسے سہارا دیا۔
"طاہر اور ہارون کہاں ہیں؟" آیان نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"وہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔"
"تو کہاں ہو سکتے ہیں وہ لوگ؟"
"پتا نہیں،" عمران نے ایک لفظی جواب دیا اور سکون سے اس کھنڈر نما غار کو دیکھنے لگا۔
"تم اتنے پرسکون کیوں ہو؟ ہمارے دو دوست غائب ہیں، ہم یہاں اس غار میں قید ہیں۔ پتا نہیں کسی نے ہمیں قید کیا ہے!" نور بولتے بولتے رک گئی، اس کے چہرے پر دنیا جہاں کا خوف امڈ آیا۔
"ک۔۔۔کہ۔۔۔کہیں۔۔۔ یہ ڈا۔۔۔ ڈائن تو نہیں؟ ڈائن نے ہمیں قید تو نہیں کیا؟" نور نے خوف سے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"کیا بکواس کر رہی ہو نور؟ اگر ڈائن ہمیں قید کرتی، تو وہ ہمارے سامنے کھڑی ہوتی یہ پھر ہماری بھینٹ چڑ چکی ہوتی اور ہم سب ایک ساتھ جنت میں حوروں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے ہوتے یہ ڈائن کا کام نہیں کوئی اور ہی چکر ہے !" عمران سوچتے ہوئے کہا ۔
"ہاں عمران، یہ کام ڈائن کا نہیں۔ نور، تم نے دیکھا تھا اس جھونپڑی میں دو لوگ آئے تھے؟" عالیہ نے نور سے کہا۔
نور نے اثبات میں سر ہلایا۔
"کون تھے وہ لوگ؟" عمران پوری طرح عالیہ کی طرف گھوم کر پریشانی سے پوچھا۔
"ہم ان کا چہرہ نہیں دیکھ پائے، چال ڈھال سے تو چھٹے ہوئے بدمعاش لگ رہے تھے،" عالیہ نے کہا۔
"ہمیں اس بوڑھے بابا کی بات مان لینی چاہیے تھی۔ ہمیں یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ طاہر صحیح کہہ رہا تھا،" آیان نے خوف بھری نظروں سے عمران کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"آیان، میرے بھائی، میری بات غور سے سنو، تم لوگ،" عمران نے آیان، عالیہ اور نور کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"ڈائن وائن کچھ نہیں ہوتی۔ ہم یہاں ایک مشن پر آئے ہیں۔"
"مشن؟ کون سا مشن؟" سب نے ایک ساتھ حیرت سے کہا۔
"بلیک کوبرا مشن، جو ڈرگز اسمگلنگ کرتا ہے۔ جس گروپ کے پیچھے ہم ایک سال سے ہیں، جب بھی ہمیں اس گروپ کے اڈے کے بارے میں پتا چلتا تھا، جب بھی ہم اس جگہ پہنچتے تو وہ جن کی طرح غائب ہوجاتا تھا۔"
"تو کیا اس گروپ کا نیٹ ورک یہاں پر ہے؟ یہاں اس گروپ نے اپنا اڈا بنایا ہوا ہے؟" آیان نے حیرانی سے کہا، تو عمران نے اثبات میں سر ہلایا۔
"تو پھر ہمیں کچھ کیوں نہیں بتایا؟ ہمیں کیوں اندھیرے میں رکھا؟" نور نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
"یہ بات صرف میرے اور باس تک ہی محدود تھی، کیونکہ مجھے شک ہے کہ ہمارے اندر کوئی کالی بھیڑیا موجود ہے۔ اسی لیے اس بار میں نے اس بات کو خفیہ رکھا اور تم لوگوں کو بھی پتا نہیں چلنے دیا

کچھ دن پہلے،
عمران اپنے کمرے میں بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھا کہ تبھی اس کا فون بجا۔ فون بجتے دیکھ کر عمران چونک کر گھڑی کی طرف دیکھا۔ گھڑی میں ٹائم رات کے ساڑھے بارہ بتا رہی تھی۔ عمران نے فون کان سے لگایا۔
"ہیلو،" عمران نے کہا۔
"ہیلو باس، میں آپ کا خبری بات کر رہا ہوں۔"
"اوہ، تم بولو، کیا بات ہے؟ اتنی رات کیوں فون کیا؟"
"بوس، ایک بہت بڑی خبر ہاتھ لگی ہے میرے،" خبری نے کہا۔ عمران حیران ہو گیا۔
"کیا خبر ہے؟" عمران نے جلدی سے پوچھا۔
"بوس، جس گروپ کے پیچھے آپ ایک سال سے لگے ہیں، اس کا پتا چل گیا ہے،" خبری نے کہا۔ عمران اٹھ کر کھڑا ہو گیا، اس کی گود میں رکھی کتاب زمین پر گر گئی۔
"کیا۔۔۔ کیا کہہ رہے ہو تم؟"
"میں سچ بول رہا ہوں بوس، وہ گروپ کا نیٹ ورک سحر آباد گاؤں میں واقعی ہے،" خبری نے کہا۔
"سحر آباد گاؤں؟ یہ وہی گاؤں ہے جہاں ایک ڈائن کا قصہ مشہور ہے؟"
"ہاں بوس، وہی گاؤں۔ مجھے تو لگتا ہے بوس کہ یہ ڈائن کی کہانی ایک افواہ ہے، اصل میں وہاں پر ڈرگز کا دھندا چل رہا ہے،" خبری نے کہا۔
"چلو ٹھیک، تمہارا شکریہ، تمہارے پیسے تمہارے اکاؤنٹ میں جمع ہو جائیں گے صبح تک،" عمران نے کہا اور فون بند کر دیا۔ اس کی آنکھیں کچھ سوچ رہی تھیں، اس کے دماغ میں کسی پلان کو انجام دینے کی ترکیب سوچ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک بعد ایک دو کال کی اور پھر کمرے سے نکلتا چلا گیا۔

عمران اپنے گھر سے نکل کر سیدھا ہیڈکواٹر پہنچا جہاں پر پہلے سے ہی بوس اور یاسر اس کا انتظار کر رہے تھے۔
"کیا بات ہے عمران؟ تم نے ہمیں اپنے ایمرجنسی میں کیوں بلایا؟"
"ایک بہت بڑی خوش خبری دینی تھی آپ لوگوں کو۔"
"کونسی خوش خبری ؟" دونوں نے ایک ساتھ کہا۔
"وہی خوش خبری جس کا آپ کو اور ہم لوگوں کو ایک سال سے انتظار تھا۔"
"یہ کہی بلیک کوبرا کے بارے میں تو نہیں؟"
"بلکل صحیح!" عمران نے کہا تو وہ دونوں عمران کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگے جیسے اس کے سر پر سینگ اُگ آئے ہوں۔
"کیا کہا؟ تم کس نے کہا تم سے؟"
"میرے ایک خبری نے مجھے بتایا ہے کہ وہ لوگ اپنا نیٹ ورک کسی سحر آباد گاؤں میں بنا راکھا ہے ۔"
"سحر آباد گاؤں؟" یاسر نے کہا اور بوس کو دیکھنے لگا۔
"خبر پکی ہے،"
بلکل سو فیصد پکی ہے۔"
"تو ہمیں وہاں پر ریڈ ڈالنا ہوگا، جتنا جلدی ہوسکے اتنی جلدی۔"
"ہاں، پر مجھے آپ لوگوں سے ضروری بات کرنی ہے۔"
"کیا؟" دونوں ایک ساتھ کہا۔
"جب تک ہم سحر آباد گاؤں پہنچ نہیں جاتے، تب تک کوئی اس کے بارے میں بات نہیں کرے گا۔ مجھے لگتا ہے ہمارے ہی بیچ ایک غدار ہے، بس مجھے شک ہے، یقین نہیں۔ جب تک ہم اس گروپ کو نہیں پکڑ لیتے، یہ بات صرف ہم تینوں کے درمیان رہے گی۔ میرے ساتھ جانے والے ممبرز کو بھی نہیں پتا ہونا چاہے۔"
"جب وہ لوگ پوچھیں گے تو کیا کہیں گے؟"
"میں کچھ نہ کچھ کر ہی لوں گا!" عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ دونوں مسکرا دئے، "یہ جو بھی کرے گا کچھ الٹا سیدھا ہی کرے گا۔"
"کون کون سے ممبرز لے جاؤ گے اپنے ساتھ؟"
"وہی پرانے ممبرز جو میرے دوست ہیں: نور، عالیہ، طاہر، ہارون، اور آیان۔"
"اوکے، بیسٹ آف لک!" بوس نے کہا، تو عمران وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
پریزنٹ
"اوہ، تو اس کا مطلب تم اس دن اتنے اُتولے ہو رہے تھے سحر آباد گاؤں جانے کے لیے؟" یہ سب سن کر تینوں نے ایک ساتھ کہا۔
"ہاں۔"
"تم یہ بات ہمیں گاؤں آ کر بھی بتا سکتے تھے، نہ؟ کیا تمہیں ہم پر بھروسہ نہیں تھا؟" آیان نے کہا۔
"ایسی بات نہیں، میں صرف احتیاط کر رہا تھا۔ یہاں پر دیواروں کے کان کے ساتھ ہوا کے بھی کان ہوتے ہیں، کیا پتا کب جا کر یہ راز کھول دے؟" عمران نے کہا۔
"بڑا آیا راز رکھنے والا! آج تم نے ثابت کر دیا، ہم تمہارے نام کے دوست ہیں۔ عمران، تم نے دل سے ہمیں دوست مانا ہی نہیں۔" نور نے دکھی لہجے میں کہا۔
"صحیح کہا، عمران، تمہارے لیے ہمارا دل توڑنا آسان ہے، اس لیے تم وہی کام بار بار کرتے ہو جس سے ہمیں برا لگے۔"
"دیکھو یار، ایسا کچھ نہیں، میں صرف احتیاط کر رہا تھا تاکہ یہ کیس جلدی سے ختم ہو جائے۔ ایک سال سے اسی کیس پر اٹکے ہوئے ہیں ہم۔ اگر میں تم لوگوں پر بھروسہ نہیں کرتا، تو تم لوگوں کو یہاں پر کیوں لاتا؟" ایسے پہلے کوئی کچھ بولتا، کہ غار کے پتھر ہٹنے کی آواز نے سب کو خاموش کرا دیا تھا۔
"لگتا ہے کوئی آ رہا ہے!" عمران نے کہا، ساتھ ہی اپنی بیگ سے مِنی پسٹل نکال کر سب کو دینے لگا۔
"یہ لو، اپنے دفاع کے لیے تیار رہو، سب کچھ بھی ہو سکتا ہے!
عمران نے کہا آس پاس دیکھنے لگا جہاں پر ایک بڑا پھتر تھا سب لوگ اس بڑے کے پتھر کی آڑ میں چھپ جاؤ جلدی کرو !" عمران نے کہا اور خود بھی پتھر کی آڑ میں چھپ گیا۔
دوسری طرف، جیسے ہی غار کا پتھر ہٹایا گیا، دو لوگوں کی پرچھائیاں دکھائی دیں اور ساتھ ہی غار پسٹول کی آوازوں سے گونج اُٹھا

جاری ہے۔
Previous Episodes
👉Episode  01: Click Here
👉Episode  02:  Click Here 
👉Episode  03:  Click Here 

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post