ڈائن کا انتقام - از_قلم_فاطمہ- قسط نمبر 3


Dyne ka inteqam novel by fatima episode 03

Novel Name: Dyne ka inteqam
Writer: Fatima
Status: on-going 
Genre : horror ,suspence and thiller -based novel

 

ڈائن کا انتقام" ایک ایسی لرزہ خیز کہانی ہے جو خوف، پراسراریت، اور انتقام کے گرد گھومتی ہے۔
ایک گاؤں، جہاں برسوں پہلے ایک ڈائن کو جلایا گیا تھا، اب ایک ممنوعہ جگہ بن چکا ہے۔ لوگ اس گاؤں کے قریب جانے سے بھی ڈرتے ہیں۔ لیکن حالات بدلتے ہیں جب کچھ بے خوف لوگ اس گاؤں میں داخل ہو جاتے ہیں، اور ان کی موجودگی ایک بھیانک راز کو زندہ کر دیتی ہے۔ ڈائن، جو کبھی قید میں تھی، اب آزاد ہے اور اپنے اوپر کیے گئے ظلم کا بدلہ لینے کے لیے تیار ہے۔

یہ کہانی انتقام کی اس آگ کو بیان کرتی ہے جو گاؤں کے ماضی کو نہ صرف جھلسا دیتی ہے بلکہ وہاں آنے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے 


ڈائن کا انتقام
قسط:2

از_قلم_فاطمہ

سب لوگ گاؤں والوں کو کچھ بتائے بغیر سحر آباد گاؤں کی طرف نکل چکے تھے۔ ان کے چہروں پر تجسس اور خوف کے ملے جلے تاثرات نمایاں تھے۔
"کیا ہم وہاں جا کر صحیح کر رہے ہیں؟" ہارون نے چلتے ہوئے کہا۔
"صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، یہ تو پتہ نہیں طاہر ، لیکن ڈائن کے راز سے پردہ ضرور اٹھے گا،" عمران نے جواب دیا۔
"گلاب نگر گاؤں سے کتنی دور ہے یہ سحر آباد گاؤں؟" ہارون نے پوچھا۔
"تقریباً دس کلومیٹر دور،" عمران نے جواب دیا۔
"کیااااا؟ دس کلومیٹر دور؟" ہارون یہ سن کر پریشان ہو گیا۔
"ارے آ، سست انسان! کبھی چل بھی لیا کر۔ کھا کھا کر تو موٹا ہوتا جا رہا ہے،" آیان نے ہارون کے باہر نکلے ہوئے پیٹ کو دیکھ کر مذاق میں کہا۔ ہارون گروپ میں سب سے موٹا تھا، اور سب اسے سست انسان کہہ کر بلاتے تھے۔
"دیکھو بھائی، میں ہوں تو موٹا انسان ، اور مجھ سے زیادہ چلا نہیں جاتا ۔ اگر چلنا ہے تو گاڑی لے کر چلو، ورنہ میں واپس جا رہا ہوں۔ ویسے بھی تم نے مجھے کچی نیند سے اٹھا دیا،" ہارون نے ایک پتھر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"یار، تم ہمیشہ اپنی من مانی کیوں کرتے ہو،" طاہر نے اسے غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔
"دوستو، مجھے لگتا ہے کہ ہارون ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ہم دس کلومیٹر چل کر نہیں جا سکتے، اور ہمیں جلدی بھی آنا ہے۔ ویسے بھی کسی کو نہیں بتایا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ،" نور نے کہا، اور سب نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔
"ٹھیک ہے، تم سب یہیں رکو، میں گاڑی لے کر آتا ہوں،" عمران نے کہا اور گاڑی لینے چلا گیا۔

جیسے ہی عمران گاڑی کے قریب پہنچا، وہاں کل والے بوڑھے، پاگل بابا کو کھڑا پایا۔ وہ بوڑھا عمران کو بری طرح گھور رہا تھا۔
"میں نے کہا تھا نا، اس گاؤں کی طرف جانا بھی مت،" بوڑھے بابا نے غصے سے کہا۔
یہ سن کر عمران حیرت زدہ ہو گیا۔ "بابا، ہم تو بس وہاں گھومنے جا رہے ہیں،" عمران نے جلدی سے جواب دیا۔
"وہاں مت جاؤ! تم نہیں جانتے، وہاں موت رہتی ہے۔ موت، جو آزاد ہوتے ہی سب کی جان لے لی گئ،" بوڑھے کی لرزتی آواز گونجی۔

عمران کچھ دیر تک بوڑھے کو دیکھتا رہا، پھر اس کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہو گیا۔ بوڑھا بے بسی سے اسے جاتا دیکھتا رہا، مگر کچھ کرنے کے قابل نہ تھا۔


عمران گاڑی لے کر ان لوگوں کے پاس پہنچا جہاں سب اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ سب لوگ گاڑی کے اندر بیٹھ گئے، اور گاڑی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔ وہ منزل جہاں صرف موت ہی موت تھی۔

سب لوگ گاڑی کے اندر خاموش بیٹھے ہوئے تھے، اور یہ خاموشی عمران کو ہضم نہیں ہوئی۔
"ارے، گاڑی میں اتنا سنّاٹا! تم لڑکیاں ہو کر بھی خاموش ہو؟ میں نے تو سنا ہے کہ لڑکیاں تھوڑی دیر بھی چپ نہیں رہتیں، پتڑ پتڑ بولتی رہتی ہیں۔ یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے!" عمران نے ماحول کو ہلکا پھلکا بنانے کے لیے کہا۔

"ہاں، صحیح کہا تم نے۔ لڑکیاں جب بولتی ہیں تو انہیں کوئی چپ نہیں کرا سکتا، لیکن ابھی ہمارا موڈ نہیں بولنے کا،" نور نے جواب دیا اور گاڑی کے باہر کے نظارے دیکھنے لگی۔ دونوں طرف صرف درخت ہی درخت تھے۔ ان کی گاڑی درختوں کے بیچ کچی اور پتھریلی سڑک پر چل رہی تھی۔ سڑک ابھی پکی نہیں ہوئی تھی اور اس میں بےشمار گڑھے تھے۔ اگر کوئی اس راستے پر چلے تو حادثہ ہونا لازمی تھا۔ لیکن گاڑی عمران چلا رہا تھا، جو ڈرائیونگ میں ماہر تھا۔

گاڑی میں خاموشی چھائی ہوئی تھی، سب اپنی اپنی سوچوں گم تھے کی تبھی ہاروں کی زبان میں کھوجلی ہوئی 
"تم لوگوں نے کھانے کے لیے کچھ لایا ہے یا نہیں؟" ہارون نے پوچھا۔
"بس کر جا، موٹے! ابھی ابھی تو دس چپس کے پیکٹ کھا چکا ہے!" آیان نے ہارون کو گھورتے ہوئے کہا۔
"بس کرو تم ! میرے کھانے پر نظر کیوں لگاتے ہو؟ جو کھایا ہوتا ہے، پتا نہیں کہاں چلا جاتا ہے۔ تم لوگوں کی کالی نظر پیٹ بھرنے نہیں دیتی!" ہارون نے جواب دیا اور بولتے ہی بیگ سے چاکلیٹ نکال کر کھانے لگا۔ باقی سب ہارون کو گھورنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکے۔

"دوستو، سحر آباد گاؤں کے راستے پر ہم پہنچ گئے ہیں،" عمران نے گاڑی چلاتے ہوئے کہا۔

جیسے ہی ان کی گاڑی سحر آباد گاؤں کے گیٹ کے سامنے رکی، موسم میں ایک عجیب سی تبدیلی آگئی۔ تھوڑی دیر پہلے کڑکتی دھوپ تھی، لیکن چند لمحوں میں ہی آسمان پر کالے بادل منڈلانے لگے۔

"یہ اچانک موسم کو کیا ہوا؟" نور نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"لگتا ہے بارش ہونے والی ہے،" عمران نے بھی آسمان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"یہ کچھ عجیب نہیں لگتا؟ ہمیں پورے راستے کوئی بادل نظر نہیں آیا، اور یہاں آتے ہی اچانک کالے بادل نمودار ہوگئے،" عالیہ نے حیرانی سے کہا۔

"مجھے لگتا ہے یہ کوئی اشارہ ہے۔ ہم ابھی واپس جا سکتے ہیں۔ چھوڑو اس ڈائن کو، چلو چلتے ہیں،" طاہر نے دوبارہ واپس جانے کی بات کی۔
"نہیں، طاہر۔ ہم اتنی دور آ چکے ہیں، اب واپس نہیں جائیں گے۔ ہم سچ کا پتہ لگا کر ہی واپس جائیں گے،" عمران نے مضبوط لہجے میں کہا اور گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔

سحر آباد گاؤں کے گیٹ پر صاف صاف لکھا تھا:
"کھولنا منع ہے۔ اگر موت چاہتے ہو تو کھول دو!"

سب لوگ قطار میں کھڑے ہو کر گیٹ کے باہر سے سحر آباد گاؤں کو دیکھ رہے تھے۔ وہاں کا سنّاٹا موت جیسا تھا۔ آدھے جلے ہوئے گھر، اور ہوا میں ایک عجیب سا احساس تھا، جس سے یہ جگہ منحوس لگ رہی تھی۔

عمران نے آگے بڑھ کر گیٹ کھولنے کی کوشش کی، لیکن وہ کھول نہیں پایا۔
"یہ گیٹ پر اتنا بڑا تالا ہے، یہ کیسے کھلے گا؟" عمران نے کہا۔
"یہ تالا تو بہت بڑا ہے، شاید پتھر سے بھی نہ ٹوٹے،" عمران نے مزید کہا۔ اسی وقت آسمان میں بجلی کڑکنے کی آواز سنائی دی۔

"ابھی دن ہے نا؟ پھر بھی یہ رات جتنا اندھیرا کیوں ہو گیا؟" ہارون نے حیرانی سے کہا۔
"مجھے لگتا ہے ہمیں واپس جانا چاہیے،" طاہر نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔

"تم اپنا منہ بند رکھو! جب دیکھو واپس جانے کی بات کرتے ہو۔ اپنا منہ تب ہی کھولنا جب کچھ اچھا بولنا ہو!" عمران نے طاہر کو بری طرح جھاڑتے ہوئے کہا۔

"چابی ڈھونڈو سب!" عمران نے کہا۔

"ہاں، چابی ڈھونڈو ایسے جیسے اس گاؤں والوں نے بیس سال پہلے خواب دیکھا تھا کہ ہم آئیں گے، اور جب ہم چابی ڈھونڈنے لگیں تو چابی مل جائے ہمیں !" طاہر نے طنزیہ انداز میں کہا۔

"ہم نہیں تو کیا ہوا ؟ تم تو ان کے رشتہ دار ہو!" ہارون نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

"میں ان کا رشتہ دار ہوا تو کیا ہوا مجھے تھوڑی پتا ہے چابی کہاں ہے " 

"میں تو سنا تھا پردادا ہوتے وہ اپنے وصیت اپنے پر پوتیوں کے نام لکھ دی جاتی ویسے کیا پتا یہ گاؤں تمہارے نام پر ہو " آیان نے کہا 

"اوہ آیان میرے بھائی یہ گاؤں سب کا تھا میرے اکیلے پر دادا کا نہیں تھا جو یہ پورا گاؤں میرے نام لکھتے سمجھے " طاہر نے منہ بناتے ہوۓ کہا 

"اب کیا کریں یہاں دوسرا راستہ بھی نہیں " نور نے کہا 

"راستہ نہیں ملتا نور ہمیں راستے بنانے پڑتے ہیں " عمران نے سوچتے ہوۓ کہا 


"ہمیں دوسری طرف جاکر راستہ ڈھونڈنا ہوگا،" ہاروں کہا۔

"کیسے ڈھونڈیں گے؟ یہ گاؤں تو ایسے لپیٹا گیا ہے جیسے کوئی تحفہ لپیٹ کر رکھا ہو!" گاؤں کو چاروں طرف سے سیل ہوۓ دیکھ کر نور نے پریشانی سے کہا۔

"اب کیا کریں؟" سب نے ایک ساتھ پوچھا۔

وہ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ عمران کی نظر ایک پرانے پیڑ پر پڑی۔ یہ پیڑ ایک پیپل کا درخت تھا، جس پر بے شمار لال دھاگے اور تعویز لٹک رہے تھے۔ عمران اس پیڑ کو غور سے دیکھنے لگا اور پھر اس کی نظر پیڑ کے نیچے پڑے ایک پرانے صندوق پر جا ٹھہری۔

"دوستوں، یہ دیکھو! پرانا صندوق!" عمران نے سب کو متوجہ کیا۔

"یہ کیا؟ پرانا صندوق؟ ہو سکتا ہے اس میں چابی ہو!" نور نے حیرت سے کہا۔

عمران نے صندوق کو چھونے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اچانک زوردار بادل گرجنے کی آواز آئی۔ عمران نے کچھ دیر توقف کیا، لیکن پھر صندوق کا ڈھکن اٹھا دیا۔ اندر ایک چابی رکھی ہوئی تھی۔

"چابی۔۔۔ چابی مل گئی!" عمران نے خوشی سے کہا۔

"چلو، اب گیٹ کھولتے ہیں!" ہارون نے جوش سے کہا۔

سب جلدی سے گیٹ کی طرف بڑھے۔عمران نے بڑے سے تالا کھول دیا۔ جیسے ہی تالا کھلا، گیٹ زور دار آواز کے ساتھ خود بخود کھلتا چلا گیا۔ گیٹ کے کھلتے ہی ایک سرد ہوا نے ان کا استقبال کیا۔ سامنے ایک جلا ہوا گاؤں تھا، جہاں انسان تو دور، کسی زندگی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ "سحر آباد" گاؤں کا منظر خوفناک اور ویران تھا۔ جلی ہوئی جھونپڑیاں اور درختوں کے باقیات زمین پر بکھرے پڑے تھے۔ کئی سالوں سے گاؤں بند رہنے کے باعث یہ مکمل طور پر اجڑ چکا تھا، اور یہاں انسان کا قدم مدتوں سے نہیں پڑا تھا۔ ہر طرف جھاڑیاں اور خودرو پودے اُگے ہوئے تھے، جیسے یہ جگہ کسی انسانی وجود سے بہت دور ہو۔

"کتنی ڈراؤنی جگہ ہے یہ!" عالیہ نے کہا۔

"کہتے ہیں، یہاں پر ڈائن کا راج تھا، اور اسی ڈائن کو ختم کرنے کے لیے گاؤں والوں نے یہ جگہ خالی کر دی تھی،" طاہر نے جواب دیا۔

"مجھے لگتا ہے کہ ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہیے، موسم بھی خراب ہو رہا ہے،" آیان نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"ہم اتنا سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں، تو اب واپس نہیں جا سکتے۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ ڈائن حقیقت میں تھی یا نہیں،" عمران نے ضدی انداز میں کہا۔

"ڈائن مر چکی ہے، عمران! زندہ کہاں سے ہو گی؟" نور نے کہا۔

اسی لمحے جنگل کے اندر سے ایک بھیانک آواز آئی۔ وہ آواز نہ کسی انسان کی تھی اور نہ کسی جانور کی، بلکہ کسی پراسرار مخلوق کی لگ رہی تھی۔

آواز سن کر سب خوف سے اچھل پڑے اور جنگل کی طرف دیکھنے لگے۔

"یہ... یہ... کون سی آواز ہے؟" نور نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔

"ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے!" طاہر نے گھبرا کر عمران سے کہا۔

سب نے طاہر کی بات مانی اور گیٹ کی طرف بھاگنے لگے، مگر گیٹ خود بخود زور دار آواز کے ساتھ بند ہوتا چلا گیا۔ آسمان میں اچانک اندھیرا چھا گیا، بادل زور سے گرجنے لگے، اور فضاؤں میں ایک بھیانک ہنسی گونجنے لگی۔

"ہا ہا ہا ہا! میں نے کہا تھا کہ میں واپس آؤں گی۔ ڈائن واپس آ چکی ہے!"

"ہا ہا ہا ہا! میں انتقام لوں گی، ڈائن انتقام لے گی!"

یہ آواز خوفناک اور گرج دار تھی، جس سے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔

"یہ... یہ... یہ آواز!" نور نے خوفزدہ ہو کر کہا۔

"یہ ڈائن کی آواز ہے! بھاگو، جلدی!" طاہر نے چیختے ہوئے کہا۔

"لیکن گیٹ تو بند ہے، ہم کیسے بھاگیں؟" آیان نے کہا۔

"جنگل کے اندر بھاگو!" عمران نے کہا۔

سب جنگل کے اندر بھاگنے لگے، مگر بھاگتے بھاگتے وہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ جیسے ہی وہ لوگ جنگل کے اندر داخل ہوتے ایک جگہ روک کر گۓ 

"یہ باقی سب کہاں ہیں؟" طاہر نے چاروں طرف دیکھتے ہوۓ ہارون سے پوچھا۔

"پتہ نہیں، شاید وہ ہم سے الگ ہو گئے ہیں،" ہارون نے پریشانی سے جواب دیا۔

"انہیں کیسے بھی کرکے ڈھونڈنا ہوگا وہ کسی مصبیت نہ ہو !" طاہر نے کہا۔

"لیکن ہم انہیں کیسے ڈھونڈیں؟ راستہ بھی معلوم نہیں، اور ڈائن بھی ہمارے پیچھے ہے!" ہارون نے خوف سے کہا۔

"چلو، انہیں ڈھونڈتے ہیں ڈرنے کا ٹائم نہیں ہمارے پاس جلدی کرو چلو !" طاہر نے پریشانی لہجے میں کہا اور دونوں آگے بڑھنے لگے۔

دوسری طرف 

عمران اور آیان بھاگتے بھاگتے ایک میدان میں پہنچ گئے تھے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں ڈائن کو جلایا گیا تھا۔ میدان کے چاروں طرف جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں۔

"یہ جلا ہوا لکڑی کا ڈھانچہ کیا ہے؟" آیان نے حیرت سے پوچھا۔

"مجھے لگتا ہے، یہی پر کسی کو جلایا گیا تھا،" عمران نے جلا ہوئی لکڑی اور دیکھتے ہوۓ کہا وہ ادھی چلی ہوتی تھی ۔

"لیکن باقی سب کہاں ہیں؟" آیان نے چاروں طرف دیکھتے ہوۓ عمران سے پوچھا وہاں ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا  

"لگتا ہے وہ ہم سے الگ ہو گئے ہیں۔ ہمیں انہیں ڈھونڈنا ہوگا، جلدی چلو!" عمران نے کہا، اور دونوں واپس اسی سمت بھاگنے لگے جہاں سے وہ آئے تھے۔


تیسری طرف 

عالیہ اور نور بھاگتے بھاگتے ایک پرانی جھونپڑی میں جا پہنچے۔

"دروازہ بند کرو، جلدی!" نور نے کہا۔

عالیہ نے دروازہ بند کر دیا۔ دونوں لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔

"باقی سب کہاں ہیں؟" نور نے پوچھا۔

"وہ ہم سے الگ ہو گئے ہیں،" عالیہ نے جواب دیا۔

"اوہ خدایا، اب ہم کیا کریں؟" نور نے پریشانی سے کہا۔

"ہمیں باہر جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہ لوگ کہیں کسی مصیبت میں تو نہیں ہیں،" عالیہ نے کہا۔

نور نے سر ہلایا، اور دونوں باہر جانے کے لیے آگے بڑھنے لگیں۔ نور کا پیر کسی چیز سے ٹکرا گیا، اور وہ زمین پر گر پڑی۔

"آہ!" نور کے منہ سے نکلا۔

"نور، سنبھل کر! تم ٹھیک ہو؟" عالیہ نے جلدی سے اسے سہارا دے کر اٹھایا۔

"ہاں... آہ... میری کہنی چھل گئی ہے!" نور نے اپنی کہنی کو دیکھا، جہاں سے خون بہہ رہا تھا۔

"اف! میں دیکھتی ہوں یہاں کچھ ہے یا نہیں۔" عالیہ نے جھونپڑی کا جائزہ لینا شروع کیا۔

جھونپڑی کی حالت خوفناک تھی۔ جگہ جگہ چھت ٹوٹی ہوئی تھی، مٹی اور دھول جمع تھی، اور دیواروں پر تعویذ اور گڑیاں لٹک رہی تھیں۔ ایک کونے میں انسانی کھوپڑیاں پڑی تھیں، اور خشک جڑی بوٹیاں ایک عجیب بدبو پھیلا رہی تھیں۔ جھونپڑی کے اندر ایک خون سے سنی ہوئی تصویر لگی تھی، جو دھول کی تہہ کے نیچے چھپی ہوئی تھی۔

نور نے تصویر کو صاف کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ باہر سے قدموں کی آواز سنائی دینے لگی۔ دونوں نے خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ قدموں کی آواز آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی...

اششش۔۔۔ کوئی آ رہا ہے، عالیہ نے کہا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ سامنے ہی صندوق کے پاس اسے ایک ڈنڈا پڑا ہوا دکھائی دیا۔ عالیہ نے وہ ڈنڈا اٹھا لیا اور دروازے کے بالکل پیچھے جا کر کھڑی ہوگئی۔ نور بھی اس کے پیچھے جا کر کھڑی ہوگئی۔ باہر سے قدموں کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔ اچانک دروازہ کھلا، اور دو لوگ اندر داخل ہوئے۔ ان دونوں کی پشت عالیہ اور نور کی طرف تھی، اس لیے وہ ان کا چہرہ نہیں دیکھ سکے۔

"ارے، یہاں تو کوئی نہیں ہے۔ تم نے کہا تھا تم نے چیخ سنی تھی؟" جھونپڑی کے اندر آنے والے ایک شخص نے کہا۔
"میں سچ کہہ رہا ہوں، میں نے ایک لڑکی کی چیخ سنی تھی!" دوسرے آدمی نے جواب دیا۔
"تمہیں وہم ہوا ہوگا۔ اس سنسان جگہ پر نہ کوئی لڑکی آئے گی نہ لڑکا۔ چلو، جو کرنے آئے ہیں وہ کرو،" پہلے والے شخص نے کہا۔ پھر وہ دونوں جھونپڑی سے باہر نکل گئے۔

"یہ لوگ کون تھے؟" عالیہ نے نور سے پوچھا۔
"پتا نہیں،" نور نے جواب دیا۔
"مطلب یہاں ہمارے علاوہ اور بھی کوئی ہے!" نور نے پریشان لہجے میں کہا۔
"ہمیں یہاں سے جلدی نکلنا ہوگا اور اپنے باقی دوستوں کو بھی اطلاع دینی ہوگی،" عالیہ نے کہا اور ڈنڈا ایک طرف پھینک دیا۔ پھر وہ دونوں باہر کی طرف بھاگیں۔

باہر نکلتے ہی شش و پنچ میں پڑ گئیں کہ کہاں سے شروع کریں، کیونکہ وہاں چار راستے تھے۔
"کس راستے پر جائیں؟ یہاں تو چار چار راستے ہیں!" عالیہ نے پریشانی سے کہا۔
"مجھے لگتا ہے ہمیں بائیں جانا چاہیے کیونکہ ہم اسی راستے سے آئے تھے،" نور نے کہا۔ پھر وہ دونوں بائیں طرف بڑھ گئیں۔

وہ دونوں خوفزدہ ہو کر جنگل کے اندر سے گزر رہی تھیں۔
"نور، ہمیں بھاگنا ہوگا!" عالیہ نے کہا۔
"میں نہیں بھاگ سکتی، میرے پیر میں چوٹ لگی ہے،" نور نے اپنے پیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں سے خون رس رہا تھا۔

اس سے پہلے کہ عالیہ کچھ کہتی، اچانک جنگل میں زلزلہ آ گیا۔ زمین ہلنے لگی، درخت جڑوں سے اکھڑ کر گرنے لگے۔
"یہ۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟" نور نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
"لگتا ہے زلزلہ آ گیا ہے،" عالیہ نے زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

تبھی اچانک چاروں طرف بھیانک ہنسی گونجنے لگی۔ عالیہ اور نور خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔
"یہ۔۔۔ یہ آواز۔۔۔ ڈائن کی ہے!" عالیہ نے گھبراتے ہوئے کہا۔
"چلو، بھاگو یہاں سے! جلدی کرو!" عالیہ نے نور کو سہارا دیتے ہوئے کہا۔

وہ دونوں بھاگنے کی کوشش کرنے لگیں، لیکن جیسے ہی قدم آگے بڑھایا، ہوا کے بگولے نے ان کا راستہ روک لیا۔ وہ لوگ بگولے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن ہوا تیز ہوگئی اور وہ بھی ہوا کے ساتھ گول گول گھومنے لگے۔ ان کی چیخیں پورے جنگل میں گونجنے لگیں۔

دوسری طرف عمران اور طاہر اپنے دوستوں کو ڈھونڈتے ہوئے اس جھونپڑی کے قریب پہنچے جہاں پہلے عالیہ اور نور آئی تھیں۔
"یہ جھونپڑی؟"
"لگتا ہے یہ ڈائن کی جھونپڑی ہے،" عمران نے کہا۔
"تمہیں کیسے پتا؟" آیان نے حیران ہو کر پوچھا۔
"ارے، عقل کے اندھے! نور نے بتایا تھا کہ ڈائن کی جھونپڑی جنگل کے اندر ہے۔ اور ہم ابھی جنگل میں ہیں۔ اس جھونپڑی کو دیکھ کر کوئی بھی بتا سکتا ہے کہ یہ کس کی ہے،" عمران نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ لوگ جھونپڑی کے اندر جانے ہی والے تھے کہ اچانک دو لڑکیوں کی چیخوں کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔ یہ آواز سنتے ہی وہ اچھل پڑے۔
"یہ۔۔۔ یہ چیخ عالیہ اور نور کی ہے!" عمران نے کہا۔ پھر وہ آواز کی سمت بھاگ پڑے۔


"یہ۔۔۔ یہ چیخ عالیہ اور نور کی ہے!" عمران نے کہا۔ دور، اسی سمت جہاں سے چیخ آئی تھی، اس نے کچھ گڑبڑ محسوس کی۔

عمران اور آیان بھاگتے ہوئے اس جگہ پہنچے جہاں عالیہ اور نور بھونڈر میں پھنسی چیخ رہی تھیں۔
"عالیہ! نور!" عمران نے انہیں دیکھتے ہوئے پکارا۔
"یہ۔۔۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟" آیان نے خوفزدہ اور پریشان حالت میں کہا۔
"یہ کیسے ہوسکتا، کیوں ہوسکتا، کیا ہوسکتا ہے؟ یہ سب سوچنے کا وقت نہیں ہے! ہمیں انہیں بچانا ہوگا!" عمران نے سخت لہجے میں کہا۔
"پر۔۔۔ پر کیسے؟ وہ لوگ بھونڈر میں گول گول گھوم رہی ہیں اور ہم اس کے قریب بھی نہیں جا سکتے،" آیان نے جواب دیا۔

عمران نے آیان کی بات سن کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا۔ اچانک اس کی نظر ایک بڑے درخت پر پڑی جس کی بیلیں موٹی اور مضبوط تھیں۔
"ہم جا سکتے ہیں،" عمران نے درخت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"کیسے؟" آیان نے حیرانی سے پوچھا۔
"وہ درخت دیکھ رہے ہو؟" عمران نے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "اس پر چڑھ کر کچھ کرنا ہوگا!"
"نہیں عمران، نہیں! بھونڈر کی ہوا بہت تیز ہے، تم بھی اس میں پھنس جاؤ گے!" آیان نے خبردار کیا۔
"تو پھر کیا کریں؟ اپنے دوستوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیں؟" عمران نے غصے سے کہا۔
"پر۔۔۔" آیان کچھ کہنے لگا تھا کہ عمران اسے ٹوک کر بولا، "ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں: یا تو یہ کرو یا مرنے دو! ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا!"

یہ کہہ کر عمران درخت کی طرف دوڑ پڑا۔ وہ درخت پر ایسے چڑھا جیسے وہ اس کام کا عادی ہو۔ جیسے ہی وہ درخت پر پہنچا، اس نے عالیہ اور نور کو دیکھا جو اب بھی بھونڈر میں گول گول گھوم رہی تھیں۔
"عالیہ! نور! ڈرو نہیں، میں یہاں ہوں!" عمران نے چیخ کر کہا، لیکن وہ دونوں اس کی آواز سن نہیں پا رہی تھیں۔

عمران نے اردگرد دیکھا تو اس کی نظر ایک مضبوط اور لمبی بیل پر پڑی۔ اس نے بیل کو پکڑنے کے لیے جست لگائی اور اسے مضبوطی سے تھام لیا۔ اب ماحول کچھ یوں تھا کہ ایک طرف عالیہ اور نور بھونڈر میں گھوم رہی تھیں، دوسری طرف عمران درخت سے بیل کے ساتھ لٹکا ہوا تھا، اور تیسری طرف آیان نیچے کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔

"عالیہ! جلدی کرو، میرا ہاتھ پکڑو!" عمران نے بیل کو جھولے کی طرح استعمال کرتے ہوئے عالیہ کے قریب پہنچتے ہوئے کہا۔

عالیہ نے عمران کا ہاتھ پکڑنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اچانک بھونڈر رک گیا۔ عالیہ اور نور زمین پر گر گئیں، بے ہوش لیکن زندہ تھی ۔

عمران درخت سے چھلانگ لگا کر نیچے کودا اور تیزی سے ان دونوں کے پاس پہنچا۔ آیان بھی انہیں ڈراتا ہوا ان کے قریب آیا۔ ابھی وہ لوگ کچھ کرنے ہی والے تھے کہ اچانک فضاؤں میں کالا دھواں پھیلنے لگا۔ جیسے ہی دھواں چاروں طرف پھیلا، وہ سب اس دھوئیں میں چھپ گئے۔ جب دھواں چھٹا، وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ وہ لوگ ایسے غائب ہو چکے تھے جیسے کبھی وہاں آئے ہی نہ ہوں۔
جاری ہے...
سب لوگ گاؤں والوں کو کچھ بتائے بغیر سحر آباد گاؤں کی طرف نکل چکے تھے۔ ان کے چہروں پر تجسس اور خوف کے ملے جلے تاثرات نمایاں تھے۔
"کیا ہم وہاں جا کر صحیح کر رہے ہیں؟" ہارون نے چلتے ہوئے کہا۔
"صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، یہ تو پتہ نہیں طاہر ، لیکن ڈائن کے راز سے پردہ ضرور اٹھے گا،" عمران نے جواب دیا۔
"گلاب نگر گاؤں سے کتنی دور ہے یہ سحر آباد گاؤں؟" ہارون نے پوچھا۔
"تقریباً دس کلومیٹر دور،" عمران نے جواب دیا۔
"کیااااا؟ دس کلومیٹر دور؟" ہارون یہ سن کر پریشان ہو گیا۔
"ارے آ، سست انسان! کبھی چل بھی لیا کر۔ کھا کھا کر تو موٹا ہوتا جا رہا ہے،" آیان نے ہارون کے باہر نکلے ہوئے پیٹ کو دیکھ کر مذاق میں کہا۔ ہارون گروپ میں سب سے موٹا تھا، اور سب اسے سست انسان کہہ کر بلاتے تھے۔
"دیکھو بھائی، میں ہوں تو موٹا انسان ، اور مجھ سے زیادہ چلا نہیں جاتا ۔ اگر چلنا ہے تو گاڑی لے کر چلو، ورنہ میں واپس جا رہا ہوں۔ ویسے بھی تم نے مجھے کچی نیند سے اٹھا دیا،" ہارون نے ایک پتھر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"یار، تم ہمیشہ اپنی من مانی کیوں کرتے ہو،" طاہر نے اسے غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔
"دوستو، مجھے لگتا ہے کہ ہارون ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ہم دس کلومیٹر چل کر نہیں جا سکتے، اور ہمیں جلدی بھی آنا ہے۔ ویسے بھی کسی کو نہیں بتایا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ،" نور نے کہا، اور سب نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔
"ٹھیک ہے، تم سب یہیں رکو، میں گاڑی لے کر آتا ہوں،" عمران نے کہا اور گاڑی لینے چلا گیا۔

جیسے ہی عمران گاڑی کے قریب پہنچا، وہاں کل والے بوڑھے، پاگل بابا کو کھڑا پایا۔ وہ بوڑھا عمران کو بری طرح گھور رہا تھا۔
"میں نے کہا تھا نا، اس گاؤں کی طرف جانا بھی مت،" بوڑھے بابا نے غصے سے کہا۔
یہ سن کر عمران حیرت زدہ ہو گیا۔ "بابا، ہم تو بس وہاں گھومنے جا رہے ہیں،" عمران نے جلدی سے جواب دیا۔
"وہاں مت جاؤ! تم نہیں جانتے، وہاں موت رہتی ہے۔ موت، جو آزاد ہوتے ہی سب کی جان لے لی گئ،" بوڑھے کی لرزتی آواز گونجی۔

عمران کچھ دیر تک بوڑھے کو دیکھتا رہا، پھر اس کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہو گیا۔ بوڑھا بے بسی سے اسے جاتا دیکھتا رہا، مگر کچھ کرنے کے قابل نہ تھا۔


عمران گاڑی لے کر ان لوگوں کے پاس پہنچا جہاں سب اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ سب لوگ گاڑی کے اندر بیٹھ گئے، اور گاڑی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔ وہ منزل جہاں صرف موت ہی موت تھی۔

سب لوگ گاڑی کے اندر خاموش بیٹھے ہوئے تھے، اور یہ خاموشی عمران کو ہضم نہیں ہوئی۔
"ارے، گاڑی میں اتنا سنّاٹا! تم لڑکیاں ہو کر بھی خاموش ہو؟ میں نے تو سنا ہے کہ لڑکیاں تھوڑی دیر بھی چپ نہیں رہتیں، پتڑ پتڑ بولتی رہتی ہیں۔ یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے!" عمران نے ماحول کو ہلکا پھلکا بنانے کے لیے کہا۔

"ہاں، صحیح کہا تم نے۔ لڑکیاں جب بولتی ہیں تو انہیں کوئی چپ نہیں کرا سکتا، لیکن ابھی ہمارا موڈ نہیں بولنے کا،" نور نے جواب دیا اور گاڑی کے باہر کے نظارے دیکھنے لگی۔ دونوں طرف صرف درخت ہی درخت تھے۔ ان کی گاڑی درختوں کے بیچ کچی اور پتھریلی سڑک پر چل رہی تھی۔ سڑک ابھی پکی نہیں ہوئی تھی اور اس میں بےشمار گڑھے تھے۔ اگر کوئی اس راستے پر چلے تو حادثہ ہونا لازمی تھا۔ لیکن گاڑی عمران چلا رہا تھا، جو ڈرائیونگ میں ماہر تھا۔

گاڑی میں خاموشی چھائی ہوئی تھی، سب اپنی اپنی سوچوں گم تھے کی تبھی ہاروں کی زبان میں کھوجلی ہوئی 
"تم لوگوں نے کھانے کے لیے کچھ لایا ہے یا نہیں؟" ہارون نے پوچھا۔
"بس کر جا، موٹے! ابھی ابھی تو دس چپس کے پیکٹ کھا چکا ہے!" آیان نے ہارون کو گھورتے ہوئے کہا۔
"بس کرو تم ! میرے کھانے پر نظر کیوں لگاتے ہو؟ جو کھایا ہوتا ہے، پتا نہیں کہاں چلا جاتا ہے۔ تم لوگوں کی کالی نظر پیٹ بھرنے نہیں دیتی!" ہارون نے جواب دیا اور بولتے ہی بیگ سے چاکلیٹ نکال کر کھانے لگا۔ باقی سب ہارون کو گھورنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکے۔

"دوستو، سحر آباد گاؤں کے راستے پر ہم پہنچ گئے ہیں،" عمران نے گاڑی چلاتے ہوئے کہا۔

جیسے ہی ان کی گاڑی سحر آباد گاؤں کے گیٹ کے سامنے رکی، موسم میں ایک عجیب سی تبدیلی آگئی۔ تھوڑی دیر پہلے کڑکتی دھوپ تھی، لیکن چند لمحوں میں ہی آسمان پر کالے بادل منڈلانے لگے۔

"یہ اچانک موسم کو کیا ہوا؟" نور نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"لگتا ہے بارش ہونے والی ہے،" عمران نے بھی آسمان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"یہ کچھ عجیب نہیں لگتا؟ ہمیں پورے راستے کوئی بادل نظر نہیں آیا، اور یہاں آتے ہی اچانک کالے بادل نمودار ہوگئے،" عالیہ نے حیرانی سے کہا۔

"مجھے لگتا ہے یہ کوئی اشارہ ہے۔ ہم ابھی واپس جا سکتے ہیں۔ چھوڑو اس ڈائن کو، چلو چلتے ہیں،" طاہر نے دوبارہ واپس جانے کی بات کی۔
"نہیں، طاہر۔ ہم اتنی دور آ چکے ہیں، اب واپس نہیں جائیں گے۔ ہم سچ کا پتہ لگا کر ہی واپس جائیں گے،" عمران نے مضبوط لہجے میں کہا اور گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔

سحر آباد گاؤں کے گیٹ پر صاف صاف لکھا تھا:
"کھولنا منع ہے۔ اگر موت چاہتے ہو تو کھول دو!"

سب لوگ قطار میں کھڑے ہو کر گیٹ کے باہر سے سحر آباد گاؤں کو دیکھ رہے تھے۔ وہاں کا سنّاٹا موت جیسا تھا۔ آدھے جلے ہوئے گھر، اور ہوا میں ایک عجیب سا احساس تھا، جس سے یہ جگہ منحوس لگ رہی تھی۔

عمران نے آگے بڑھ کر گیٹ کھولنے کی کوشش کی، لیکن وہ کھول نہیں پایا۔
"یہ گیٹ پر اتنا بڑا تالا ہے، یہ کیسے کھلے گا؟" عمران نے کہا۔
"یہ تالا تو بہت بڑا ہے، شاید پتھر سے بھی نہ ٹوٹے،" عمران نے مزید کہا۔ اسی وقت آسمان میں بجلی کڑکنے کی آواز سنائی دی۔

"ابھی دن ہے نا؟ پھر بھی یہ رات جتنا اندھیرا کیوں ہو گیا؟" ہارون نے حیرانی سے کہا۔
"مجھے لگتا ہے ہمیں واپس جانا چاہیے،" طاہر نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔

"تم اپنا منہ بند رکھو! جب دیکھو واپس جانے کی بات کرتے ہو۔ اپنا منہ تب ہی کھولنا جب کچھ اچھا بولنا ہو!" عمران نے طاہر کو بری طرح جھاڑتے ہوئے کہا۔

"چابی ڈھونڈو سب!" عمران نے کہا۔

"ہاں، چابی ڈھونڈو ایسے جیسے اس گاؤں والوں نے بیس سال پہلے خواب دیکھا تھا کہ ہم آئیں گے، اور جب ہم چابی ڈھونڈنے لگیں تو چابی مل جائے ہمیں !" طاہر نے طنزیہ انداز میں کہا۔

"ہم نہیں تو کیا ہوا ؟ تم تو ان کے رشتہ دار ہو!" ہارون نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

"میں ان کا رشتہ دار ہوا تو کیا ہوا مجھے تھوڑی پتا ہے چابی کہاں ہے " 

"میں تو سنا تھا پردادا ہوتے وہ اپنے وصیت اپنے پر پوتیوں کے نام لکھ دی جاتی ویسے کیا پتا یہ گاؤں تمہارے نام پر ہو " آیان نے کہا 

"اوہ آیان میرے بھائی یہ گاؤں سب کا تھا میرے اکیلے پر دادا کا نہیں تھا جو یہ پورا گاؤں میرے نام لکھتے سمجھے " طاہر نے منہ بناتے ہوۓ کہا 

"اب کیا کریں یہاں دوسرا راستہ بھی نہیں " نور نے کہا 

"راستہ نہیں ملتا نور ہمیں راستے بنانے پڑتے ہیں " عمران نے سوچتے ہوۓ کہا 


"ہمیں دوسری طرف جاکر راستہ ڈھونڈنا ہوگا،" ہاروں کہا۔

"کیسے ڈھونڈیں گے؟ یہ گاؤں تو ایسے لپیٹا گیا ہے جیسے کوئی تحفہ لپیٹ کر رکھا ہو!" گاؤں کو چاروں طرف سے سیل ہوۓ دیکھ کر نور نے پریشانی سے کہا۔

"اب کیا کریں؟" سب نے ایک ساتھ پوچھا۔

وہ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ عمران کی نظر ایک پرانے پیڑ پر پڑی۔ یہ پیڑ ایک پیپل کا درخت تھا، جس پر بے شمار لال دھاگے اور تعویز لٹک رہے تھے۔ عمران اس پیڑ کو غور سے دیکھنے لگا اور پھر اس کی نظر پیڑ کے نیچے پڑے ایک پرانے صندوق پر جا ٹھہری۔

"دوستوں، یہ دیکھو! پرانا صندوق!" عمران نے سب کو متوجہ کیا۔

"یہ کیا؟ پرانا صندوق؟ ہو سکتا ہے اس میں چابی ہو!" نور نے حیرت سے کہا۔

عمران نے صندوق کو چھونے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اچانک زوردار بادل گرجنے کی آواز آئی۔ عمران نے کچھ دیر توقف کیا، لیکن پھر صندوق کا ڈھکن اٹھا دیا۔ اندر ایک چابی رکھی ہوئی تھی۔

"چابی۔۔۔ چابی مل گئی!" عمران نے خوشی سے کہا۔

"چلو، اب گیٹ کھولتے ہیں!" ہارون نے جوش سے کہا۔

سب جلدی سے گیٹ کی طرف بڑھے۔عمران نے بڑے سے تالا کھول دیا۔ جیسے ہی تالا کھلا، گیٹ زور دار آواز کے ساتھ خود بخود کھلتا چلا گیا۔ گیٹ کے کھلتے ہی ایک سرد ہوا نے ان کا استقبال کیا۔ سامنے ایک جلا ہوا گاؤں تھا، جہاں انسان تو دور، کسی زندگی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ "سحر آباد" گاؤں کا منظر خوفناک اور ویران تھا۔ جلی ہوئی جھونپڑیاں اور درختوں کے باقیات زمین پر بکھرے پڑے تھے۔ کئی سالوں سے گاؤں بند رہنے کے باعث یہ مکمل طور پر اجڑ چکا تھا، اور یہاں انسان کا قدم مدتوں سے نہیں پڑا تھا۔ ہر طرف جھاڑیاں اور خودرو پودے اُگے ہوئے تھے، جیسے یہ جگہ کسی انسانی وجود سے بہت دور ہو۔

"کتنی ڈراؤنی جگہ ہے یہ!" عالیہ نے کہا۔

"کہتے ہیں، یہاں پر ڈائن کا راج تھا، اور اسی ڈائن کو ختم کرنے کے لیے گاؤں والوں نے یہ جگہ خالی کر دی تھی،" طاہر نے جواب دیا۔

"مجھے لگتا ہے کہ ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہیے، موسم بھی خراب ہو رہا ہے،" آیان نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"ہم اتنا سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں، تو اب واپس نہیں جا سکتے۔ مجھے یہ جاننا ہے کہ ڈائن حقیقت میں تھی یا نہیں،" عمران نے ضدی انداز میں کہا۔

"ڈائن مر چکی ہے، عمران! زندہ کہاں سے ہو گی؟" نور نے کہا۔

اسی لمحے جنگل کے اندر سے ایک بھیانک آواز آئی۔ وہ آواز نہ کسی انسان کی تھی اور نہ کسی جانور کی، بلکہ کسی پراسرار مخلوق کی لگ رہی تھی۔

آواز سن کر سب خوف سے اچھل پڑے اور جنگل کی طرف دیکھنے لگے۔

"یہ... یہ... کون سی آواز ہے؟" نور نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔

"ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے!" طاہر نے گھبرا کر عمران سے کہا۔

سب نے طاہر کی بات مانی اور گیٹ کی طرف بھاگنے لگے، مگر گیٹ خود بخود زور دار آواز کے ساتھ بند ہوتا چلا گیا۔ آسمان میں اچانک اندھیرا چھا گیا، بادل زور سے گرجنے لگے، اور فضاؤں میں ایک بھیانک ہنسی گونجنے لگی۔

"ہا ہا ہا ہا! میں نے کہا تھا کہ میں واپس آؤں گی۔ ڈائن واپس آ چکی ہے!"

"ہا ہا ہا ہا! میں انتقام لوں گی، ڈائن انتقام لے گی!"

یہ آواز خوفناک اور گرج دار تھی، جس سے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔

"یہ... یہ... یہ آواز!" نور نے خوفزدہ ہو کر کہا۔

"یہ ڈائن کی آواز ہے! بھاگو، جلدی!" طاہر نے چیختے ہوئے کہا۔

"لیکن گیٹ تو بند ہے، ہم کیسے بھاگیں؟" آیان نے کہا۔

"جنگل کے اندر بھاگو!" عمران نے کہا۔

سب جنگل کے اندر بھاگنے لگے، مگر بھاگتے بھاگتے وہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ جیسے ہی وہ لوگ جنگل کے اندر داخل ہوتے ایک جگہ روک کر گۓ 

"یہ باقی سب کہاں ہیں؟" طاہر نے چاروں طرف دیکھتے ہوۓ ہارون سے پوچھا۔

"پتہ نہیں، شاید وہ ہم سے الگ ہو گئے ہیں،" ہارون نے پریشانی سے جواب دیا۔

"انہیں کیسے بھی کرکے ڈھونڈنا ہوگا وہ کسی مصبیت نہ ہو !" طاہر نے کہا۔

"لیکن ہم انہیں کیسے ڈھونڈیں؟ راستہ بھی معلوم نہیں، اور ڈائن بھی ہمارے پیچھے ہے!" ہارون نے خوف سے کہا۔

"چلو، انہیں ڈھونڈتے ہیں ڈرنے کا ٹائم نہیں ہمارے پاس جلدی کرو چلو !" طاہر نے پریشانی لہجے میں کہا اور دونوں آگے بڑھنے لگے۔

دوسری طرف 

عمران اور آیان بھاگتے بھاگتے ایک میدان میں پہنچ گئے تھے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں ڈائن کو جلایا گیا تھا۔ میدان کے چاروں طرف جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں۔

"یہ جلا ہوا لکڑی کا ڈھانچہ کیا ہے؟" آیان نے حیرت سے پوچھا۔

"مجھے لگتا ہے، یہی پر کسی کو جلایا گیا تھا،" عمران نے جلا ہوئی لکڑی اور دیکھتے ہوۓ کہا وہ ادھی چلی ہوتی تھی ۔

"لیکن باقی سب کہاں ہیں؟" آیان نے چاروں طرف دیکھتے ہوۓ عمران سے پوچھا وہاں ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا  

"لگتا ہے وہ ہم سے الگ ہو گئے ہیں۔ ہمیں انہیں ڈھونڈنا ہوگا، جلدی چلو!" عمران نے کہا، اور دونوں واپس اسی سمت بھاگنے لگے جہاں سے وہ آئے تھے۔


تیسری طرف 

عالیہ اور نور بھاگتے بھاگتے ایک پرانی جھونپڑی میں جا پہنچے۔

"دروازہ بند کرو، جلدی!" نور نے کہا۔

عالیہ نے دروازہ بند کر دیا۔ دونوں لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔

"باقی سب کہاں ہیں؟" نور نے پوچھا۔

"وہ ہم سے الگ ہو گئے ہیں،" عالیہ نے جواب دیا۔

"اوہ خدایا، اب ہم کیا کریں؟" نور نے پریشانی سے کہا۔

"ہمیں باہر جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہ لوگ کہیں کسی مصیبت میں تو نہیں ہیں،" عالیہ نے کہا۔

نور نے سر ہلایا، اور دونوں باہر جانے کے لیے آگے بڑھنے لگیں۔ نور کا پیر کسی چیز سے ٹکرا گیا، اور وہ زمین پر گر پڑی۔

"آہ!" نور کے منہ سے نکلا۔

"نور، سنبھل کر! تم ٹھیک ہو؟" عالیہ نے جلدی سے اسے سہارا دے کر اٹھایا۔

"ہاں... آہ... میری کہنی چھل گئی ہے!" نور نے اپنی کہنی کو دیکھا، جہاں سے خون بہہ رہا تھا۔

"اف! میں دیکھتی ہوں یہاں کچھ ہے یا نہیں۔" عالیہ نے جھونپڑی کا جائزہ لینا شروع کیا۔

جھونپڑی کی حالت خوفناک تھی۔ جگہ جگہ چھت ٹوٹی ہوئی تھی، مٹی اور دھول جمع تھی، اور دیواروں پر تعویذ اور گڑیاں لٹک رہی تھیں۔ ایک کونے میں انسانی کھوپڑیاں پڑی تھیں، اور خشک جڑی بوٹیاں ایک عجیب بدبو پھیلا رہی تھیں۔ جھونپڑی کے اندر ایک خون سے سنی ہوئی تصویر لگی تھی، جو دھول کی تہہ کے نیچے چھپی ہوئی تھی۔

نور نے تصویر کو صاف کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ باہر سے قدموں کی آواز سنائی دینے لگی۔ دونوں نے خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ قدموں کی آواز آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی...

اششش۔۔۔ کوئی آ رہا ہے، عالیہ نے کہا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ سامنے ہی صندوق کے پاس اسے ایک ڈنڈا پڑا ہوا دکھائی دیا۔ عالیہ نے وہ ڈنڈا اٹھا لیا اور دروازے کے بالکل پیچھے جا کر کھڑی ہوگئی۔ نور بھی اس کے پیچھے جا کر کھڑی ہوگئی۔ باہر سے قدموں کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔ اچانک دروازہ کھلا، اور دو لوگ اندر داخل ہوئے۔ ان دونوں کی پشت عالیہ اور نور کی طرف تھی، اس لیے وہ ان کا چہرہ نہیں دیکھ سکے۔

"ارے، یہاں تو کوئی نہیں ہے۔ تم نے کہا تھا تم نے چیخ سنی تھی؟" جھونپڑی کے اندر آنے والے ایک شخص نے کہا۔
"میں سچ کہہ رہا ہوں، میں نے ایک لڑکی کی چیخ سنی تھی!" دوسرے آدمی نے جواب دیا۔
"تمہیں وہم ہوا ہوگا۔ اس سنسان جگہ پر نہ کوئی لڑکی آئے گی نہ لڑکا۔ چلو، جو کرنے آئے ہیں وہ کرو،" پہلے والے شخص نے کہا۔ پھر وہ دونوں جھونپڑی سے باہر نکل گئے۔

"یہ لوگ کون تھے؟" عالیہ نے نور سے پوچھا۔
"پتا نہیں،" نور نے جواب دیا۔
"مطلب یہاں ہمارے علاوہ اور بھی کوئی ہے!" نور نے پریشان لہجے میں کہا۔
"ہمیں یہاں سے جلدی نکلنا ہوگا اور اپنے باقی دوستوں کو بھی اطلاع دینی ہوگی،" عالیہ نے کہا اور ڈنڈا ایک طرف پھینک دیا۔ پھر وہ دونوں باہر کی طرف بھاگیں۔

باہر نکلتے ہی شش و پنچ میں پڑ گئیں کہ کہاں سے شروع کریں، کیونکہ وہاں چار راستے تھے۔
"کس راستے پر جائیں؟ یہاں تو چار چار راستے ہیں!" عالیہ نے پریشانی سے کہا۔
"مجھے لگتا ہے ہمیں بائیں جانا چاہیے کیونکہ ہم اسی راستے سے آئے تھے،" نور نے کہا۔ پھر وہ دونوں بائیں طرف بڑھ گئیں۔

وہ دونوں خوفزدہ ہو کر جنگل کے اندر سے گزر رہی تھیں۔
"نور، ہمیں بھاگنا ہوگا!" عالیہ نے کہا۔
"میں نہیں بھاگ سکتی، میرے پیر میں چوٹ لگی ہے،" نور نے اپنے پیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں سے خون رس رہا تھا۔

اس سے پہلے کہ عالیہ کچھ کہتی، اچانک جنگل میں زلزلہ آ گیا۔ زمین ہلنے لگی، درخت جڑوں سے اکھڑ کر گرنے لگے۔
"یہ۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟" نور نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
"لگتا ہے زلزلہ آ گیا ہے،" عالیہ نے زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

تبھی اچانک چاروں طرف بھیانک ہنسی گونجنے لگی۔ عالیہ اور نور خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔
"یہ۔۔۔ یہ آواز۔۔۔ ڈائن کی ہے!" عالیہ نے گھبراتے ہوئے کہا۔
"چلو، بھاگو یہاں سے! جلدی کرو!" عالیہ نے نور کو سہارا دیتے ہوئے کہا۔

وہ دونوں بھاگنے کی کوشش کرنے لگیں، لیکن جیسے ہی قدم آگے بڑھایا، ہوا کے بگولے نے ان کا راستہ روک لیا۔ وہ لوگ بگولے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن ہوا تیز ہوگئی اور وہ بھی ہوا کے ساتھ گول گول گھومنے لگے۔ ان کی چیخیں پورے جنگل میں گونجنے لگیں۔

دوسری طرف عمران اور طاہر اپنے دوستوں کو ڈھونڈتے ہوئے اس جھونپڑی کے قریب پہنچے جہاں پہلے عالیہ اور نور آئی تھیں۔
"یہ جھونپڑی؟"
"لگتا ہے یہ ڈائن کی جھونپڑی ہے،" عمران نے کہا۔
"تمہیں کیسے پتا؟" آیان نے حیران ہو کر پوچھا۔
"ارے، عقل کے اندھے! نور نے بتایا تھا کہ ڈائن کی جھونپڑی جنگل کے اندر ہے۔ اور ہم ابھی جنگل میں ہیں۔ اس جھونپڑی کو دیکھ کر کوئی بھی بتا سکتا ہے کہ یہ کس کی ہے،" عمران نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ لوگ جھونپڑی کے اندر جانے ہی والے تھے کہ اچانک دو لڑکیوں کی چیخوں کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔ یہ آواز سنتے ہی وہ اچھل پڑے۔
"یہ۔۔۔ یہ چیخ عالیہ اور نور کی ہے!" عمران نے کہا۔ پھر وہ آواز کی سمت بھاگ پڑے۔


"یہ۔۔۔ یہ چیخ عالیہ اور نور کی ہے!" عمران نے کہا۔ دور، اسی سمت جہاں سے چیخ آئی تھی، اس نے کچھ گڑبڑ محسوس کی۔

عمران اور آیان بھاگتے ہوئے اس جگہ پہنچے جہاں عالیہ اور نور بھونڈر میں پھنسی چیخ رہی تھیں۔
"عالیہ! نور!" عمران نے انہیں دیکھتے ہوئے پکارا۔
"یہ۔۔۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟" آیان نے خوفزدہ اور پریشان حالت میں کہا۔
"یہ کیسے ہوسکتا، کیوں ہوسکتا، کیا ہوسکتا ہے؟ یہ سب سوچنے کا وقت نہیں ہے! ہمیں انہیں بچانا ہوگا!" عمران نے سخت لہجے میں کہا۔
"پر۔۔۔ پر کیسے؟ وہ لوگ بھونڈر میں گول گول گھوم رہی ہیں اور ہم اس کے قریب بھی نہیں جا سکتے،" آیان نے جواب دیا۔

عمران نے آیان کی بات سن کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا۔ اچانک اس کی نظر ایک بڑے درخت پر پڑی جس کی بیلیں موٹی اور مضبوط تھیں۔
"ہم جا سکتے ہیں،" عمران نے درخت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"کیسے؟" آیان نے حیرانی سے پوچھا۔
"وہ درخت دیکھ رہے ہو؟" عمران نے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "اس پر چڑھ کر کچھ کرنا ہوگا!"
"نہیں عمران، نہیں! بھونڈر کی ہوا بہت تیز ہے، تم بھی اس میں پھنس جاؤ گے!" آیان نے خبردار کیا۔
"تو پھر کیا کریں؟ اپنے دوستوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیں؟" عمران نے غصے سے کہا۔
"پر۔۔۔" آیان کچھ کہنے لگا تھا کہ عمران اسے ٹوک کر بولا، "ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں: یا تو یہ کرو یا مرنے دو! ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا!"

یہ کہہ کر عمران درخت کی طرف دوڑ پڑا۔ وہ درخت پر ایسے چڑھا جیسے وہ اس کام کا عادی ہو۔ جیسے ہی وہ درخت پر پہنچا، اس نے عالیہ اور نور کو دیکھا جو اب بھی بھونڈر میں گول گول گھوم رہی تھیں۔
"عالیہ! نور! ڈرو نہیں، میں یہاں ہوں!" عمران نے چیخ کر کہا، لیکن وہ دونوں اس کی آواز سن نہیں پا رہی تھیں۔

عمران نے اردگرد دیکھا تو اس کی نظر ایک مضبوط اور لمبی بیل پر پڑی۔ اس نے بیل کو پکڑنے کے لیے جست لگائی اور اسے مضبوطی سے تھام لیا۔ اب ماحول کچھ یوں تھا کہ ایک طرف عالیہ اور نور بھونڈر میں گھوم رہی تھیں، دوسری طرف عمران درخت سے بیل کے ساتھ لٹکا ہوا تھا، اور تیسری طرف آیان نیچے کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔

"عالیہ! جلدی کرو، میرا ہاتھ پکڑو!" عمران نے بیل کو جھولے کی طرح استعمال کرتے ہوئے عالیہ کے قریب پہنچتے ہوئے کہا۔

عالیہ نے عمران کا ہاتھ پکڑنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اچانک بھونڈر رک گیا۔ عالیہ اور نور زمین پر گر گئیں، بے ہوش لیکن زندہ تھی ۔

عمران درخت سے چھلانگ لگا کر نیچے کودا اور تیزی سے ان دونوں کے پاس پہنچا۔ آیان بھی انہیں ڈراتا ہوا ان کے قریب آیا۔ ابھی وہ لوگ کچھ کرنے ہی والے تھے کہ اچانک فضاؤں میں کالا دھواں پھیلنے لگا۔ جیسے ہی دھواں چاروں طرف پھیلا، وہ سب اس دھوئیں میں چھپ گئے۔ جب دھواں چھٹا، وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ وہ لوگ ایسے غائب ہو چکے تھے جیسے کبھی وہاں آئے ہی نہ ہوں۔
جاری ہے...
Previous Episode
👉Episode  01: Click Here
👉Episode  02:  Click Here 
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post