Novel Name: Dyne ka inteqamWriter: FatimaStatus: on-goingGenre : horror ,suspence and thiller -based novel
ڈائن کا انتقام" ایک ایسی لرزہ خیز کہانی ہے جو خوف، پراسراریت، اور انتقام کے گرد گھومتی ہے۔
ایک گاؤں، جہاں برسوں پہلے ایک ڈائن کو جلایا گیا تھا، اب ایک ممنوعہ جگہ بن چکا ہے۔ لوگ اس گاؤں کے قریب جانے سے بھی ڈرتے ہیں۔ لیکن حالات بدلتے ہیں جب کچھ بے خوف لوگ اس گاؤں میں داخل ہو جاتے ہیں، اور ان کی موجودگی ایک بھیانک راز کو زندہ کر دیتی ہے۔ ڈائن، جو کبھی قید میں تھی، اب آزاد ہے اور اپنے اوپر کیے گئے ظلم کا بدلہ لینے کے لیے تیار ہے۔
یہ کہانی انتقام کی اس آگ کو بیان کرتی ہے جو گاؤں کے ماضی کو نہ صرف جھلسا دیتی ہے بلکہ وہاں آنے والوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے
ڈائن کا انتقام
قسط:2
از_قلم_فاطمہ
صبح ٹھیک چھ بجے سب لوگ نور کے گھر کے نیچے ڈیرہ ڈالے کھڑے تھے۔
"ایسے، اتنا وقت کیوں لگا رہے ہو؟ کل تو سب نے زور و شور سے حامی بھر لی تھی،" عمران نے مذاق کرتے ہوئے کہا۔
"او بھائی، ٹھنڈ رکھو! ابھی بھی کل جیسا ہی زور و شور ہمارے اندر باقی ہے،" ہارون نے جواب دیا۔
اس سے پہلے کہ کوئی اور کچھ بولتا، نور گھر سے باہر آتی دکھائی دی۔
"سوری دوستوں، مجھے آنے میں دیر ہوگئی،" نور نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔
"کوئی بات نہیں، میڈم! آپ دس بجے بھی آتیں تو ہم ایسے ہی آپ کا انتظار کرتے،" عمران نے طنز مسکراتے ہوئے کہا۔
عمران کی بات پر نور کچھ بولنے ہی والی تھی کہ عالیہ نے بیچ میں ٹوک دیا،
"بس کرو یار، ہم گھومنے جا رہے ہیں، تم دونوں اپنی بک بک کچھ دیر کے لیے بند رکھو اور چلو!"
عالیہ کی بات پر سب ہنس پڑے اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی گاؤں کی طرف روانہ ہو گئی۔
راستہ خاموشی کاٹا سب خاموش تھے، اپنے اپنے خیالات گم۔ یہ سوچ کہ گاؤں پہنچنے پر کیا ہوگا، دلوں میں ہلکی سی بے چینی اور تجسس پیدا کر رہی تھی۔ جیسے ہی گاڑی گاؤں کی حدود میں داخل ہوئی، منظر یکسر بدل گیا۔
پتلی کچی سڑک کے دونوں طرف سرسبز کھیت پھیلے ہوئے تھے، جن میں گندم اور سرسوں کی فصلیں ہوا کے ساتھ جھوم رہی تھیں۔ صبح کی نرم دھوپ ہر چیز کو سنہری چمک دے رہی تھی، اور ہوا میں ایک خوشگوار تازگی محسوس ہو رہی تھی۔
درختوں پر پرندے چہچہاتے ہوئے ماحول کو مزید دلکش بنا رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر ایک پرانا کنواں دکھائی دیا، جہاں دو کسان بیل گاڑی کے ساتھ کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ گاڑی کا شور سنتے ہی وہ پلٹ کر مسکرائے اور ہاتھ ہلایا، جیسے کسی شناسا کا استقبال کر رہے ہوں۔
گاؤں کے داخلی دروازے پر ایک سادہ مگر خوبصورت بورڈ نصب تھا، جس پر لکھا تھا: "خوش آمدید! گلاب نگر"۔ جیسے ہی گاڑی نے آگے کا سفر شروع کیا، کچے راستے پر ہلکی سی دھول اٹھنے لگی۔ چھوٹے مٹی کے گھر نظر آنے لگے، جن کی چھتیں گھاس پھوس سے بنی ہوئی تھیں۔ کچھ گھروں کے باہر چولہے جل رہے تھے، اور خواتین اپنے صحن میں بیٹھی روٹیاں پکاتے ہوئے بچوں کو آوازیں دے رہی تھیں۔
راستے کے ساتھ کھیلتے کودتے بچے گاڑی کو دیکھ کر خوشی سے ہاتھ ہلانے لگے۔ ان سب کا ہم آہنگی سے جڑا ماحول پرسکون اور دلکش لگ رہا تھا۔ قریب ہی ایک ندی بہہ رہی تھی، جس کا پانی شفاف اور چمکتا ہوا تھا۔ کنارے پر لوگ کپڑے دھو رہے تھے اور ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔
"یار، یہ جگہ واقعی خواب جیسی ہے،" عمران نے گاڑی روکتے ہوئے کہا۔
"واقعی یار، ایسا لگ رہا ہے ہم جنت میں آگئے ہیں!" ہارون نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
"اور نہ گاڑیوں کا شور، نہ کوئی آلودگی۔ ایک دم تازہ ہوا!" ہارون نے لمبی سانس لے کر بات مکمل کی۔
سب گاؤں کے دلکش مناظر میں محو تھے کہ اچانک نور نے اپنی دادی کو دور سے آتے ہوئے دیکھا۔ خوشی سے جھومتی نور ان کی طرف بھاگی۔
"السلام علیکم، دادی!" نور نے ان سے لپٹتے ہوئے کہا۔
"وعلیکم السلام، نور میرا بچہ! کتنی بڑی ہو گئی ہو!" دادی نے محبت سے کہا۔
"دادی، آپ ہی مجھے بڑی مانتی ہیں، باقی سب کے لیے تو میں اب بھی چھوٹی بچی ہوں،" نور نے منہ بناتے ہوئے شکایت کی۔
باقی سب مسکراتے ہوئے پوتی اور دادی کی باتیں سن رہے تھے۔
"دادی، ان سے ملیے، یہ میرے دوست ہیں: عمران، عالیہ، ہارون، آیان، اور طاہر۔" نور نے سب کا تعارف کرایا۔
سب نے ادب سے دادی کو سلام کیا، اور دادی نے مسکرا کر جواب دیا۔
"تم سب تھک گئے ہوگے۔ چلو حویلی چل کر آرام کرو، باقی باتیں بعد میں ہوگئ دادی نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
سب نے گاڑی سے سامان نکالا اور دادی کے ساتھ چل پڑے۔ جیسے ہی وہ حویلی کے سامنے پہنچے، سب کے قدم رک گئے۔ حویلی کی شان و شوکت اور خوبصورتی دیکھ کر ان کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے
۔خوبصورت حویلی کا منظر انتہائی دلکش اور شاندار تھا ۔ یہ ایک بڑی اور پرشکوہ عمارت ہے جو دور سے ہی اپنی عظمت کا احساس دلاتی ہے۔ حویلی کے چاروں طرف ایک وسیع باغ ہے جس میں طرح طرح کے رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے ہیں۔ باغ کے بیچ میں ایک خوبصورت فوارہ ہے جو مسلسل پانی اچھالتا ہے، اور اس کی ہلکی سی آواز ماحول کو مزید دلکش بناتی ہے۔
حویلی کا بیرونی حصہ سفید سنگِ مرمر سے مزین ہے، جس پر خوبصورت نقاشی کی گئی ہے۔ اونچی اونچی کھڑکیاں اور محرابیں مغلیہ دور کے طرز تعمیر کی یاد دلاتی ہیں۔ مرکزی دروازہ بڑا اور شاندار ہے، جس پر نہایت نفیس لکڑی اور پیتل کا کام کیا گیا ہے۔
حویلی کے اندر داخل ہوتے ہی ایک وسیع ہال نظر آتا ہے، جس کی چھت پر ایک بڑا اور چمکدار فانوس لٹک رہا ہے۔ دیواروں پر خوبصورت پینٹنگز آویزاں ہیں، اور زمین پر اعلیٰ معیار کے قالین بچھے ہوئے ہیں۔ ہال کے ایک طرف ایک بڑی سی سیڑھی ہے جو اوپر کی منزلوں تک جاتی ہے۔
کمروں کی کھڑکیاں باغ کی طرف کھلتی ہیں، اور صبح کی روشنی ان کمروں کو روشن اور تازگی بخش بناتی ہے۔ ہر کمرہ نہایت سلیقے سے سجا ہوا ہے، جن میں قدیم طرز کے لیکن انتہائی نفیس فرنیچر موجود ہیں۔
رات کے وقت حویلی روشنیوں سے جگمگاتی ہے، اور ہر طرف ایک خوبصورتی اور شان کا احساس ہوتا ہے۔ یہ حویلی اپنے ماحول اور طرزِ تعمیر کی وجہ سے گاؤں کی جان سمجھی جاتی ہے۔
"واہ! کیا حویلی ہے، جیسے کسی پرانے زمانے کے راجہ مہاراجہ کی ہو، ایک دم شاندار!" طاہر نے کہا۔
"بلکہ یار، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ گاؤں میں ایسی حویلی ہو سکتی ہے!" آیان نے بھی حیرانی سے کہا۔
"واہ یار، نور! مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم اتنی شاندار حویلی کی مالکن ہو!" عالیہ نے نور کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"مجھے بھی نہیں معلوم تھا کہ گاؤں میں دادی کے پاس اتنی شاندار حویلی ہے۔ میں نے صرف ڈیڈ سے سنا تھا کہ گاؤں میں ہماری ایک حویلی ہے، لیکن یہ اتنی شاندار ہوگی، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔" نور بھی ان کی طرح حیران تھی، کیونکہ وہ بھی گاؤں ان لوگوں کے ساتھ پہلی بار آئی تھی۔
"چلو بچوں، اندر چلو۔ سفر بہت طویل تھا، تم لوگ تھک گئے ہوگے۔ اپنے لیے جو کمرہ پسند ہو، لے لو۔" دادی نے کہا تو سب اپنے اپنے پسندیدہ کمروں کی طرف بڑھ گئے۔
شام تک وہ سب اپنے کمروں میں ہی رہے۔ جیسے ہی شام ہوئی، وہ اپنے کمروں سے باہر نکل آئے۔
"چلو یار، گاؤں گھوم کر آتے ہیں۔" عمران نے تجویز دی۔
"ہاں، چلو! اتنا خوبصورت گاؤں نہ دیکھا تو کیا دیکھا؟" طاہر نے کہا۔ دادی سے اجازت لے کر وہ سب حویلی سے باہر آگئے۔
شام کا وقت تھا، گاؤں کے سب لوگ اپنے گھروں کے باہر بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ دکانوں کے باہر بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے۔
"واہ یار! کیا جگہ ہے، نہ کوئی شور شرابا، ایک شانتی اور سکون!" عمران نے کہا۔
"بالکل یار، ورنہ شہر میں تو ہر وقت گاڑیوں کا شور اور آلودگی۔ کہیں بھی سکون سے بیٹھنے کا دل ہی نہیں کرتا۔" نور نے کہا۔
وہ ایسے ہی باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ اچانک ان کے سامنے ایک بوڑھا آدمی آ کھڑا ہوا۔ اس کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا، آنکھیں سرخ تھیں، اور وہ عجیب و غریب اور غصے بھری نظروں سے ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔
"چلے جاؤ یہاں سے! گاؤں کی طرف جانے کی بھی مت سوچنا، ورنہ تباہی ہوگی، ہر جگہ موت ہی موت ہوگی!" بوڑھا شخص اپنی غضبناک آواز میں بولا۔
وہ سب چونک کر اس بوڑھے کو دیکھنے لگے۔ وہ ڈرے ہوئے نہیں تھے، لیکن بوڑھا بار بار یہی بات دہرائے جا رہا تھا۔
"کون ہے بابا؟ آپ کس گاؤں کی بات کر رہے ہیں؟" عمران نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
"سحر آباد گاؤں... وہاں جانے کا کبھی مت سوچنا، ورنہ تباہی ہو جائے گی، تباہی!" بوڑھے شخص نے کہا۔ وہ کچھ اور بولنے ہی والا تھا کہ ایک گاؤں کا آدمی وہاں آ پہنچا۔
"کیا ہوا بچوں؟" اس نے پوچھا۔ پھر اس کی نظر بوڑھے شخص پر پڑی۔
"بچو، اس پاگل آدمی کی بات مت سنو۔ یہ بہکی بہکی باتیں کرتا رہتا ہے، دماغ ٹھیک نہیں ہے اس کا،" اس شخص نے کہا، جس کا نام عابد تھا۔
"ان کو گاؤں سے نکالو! یہ بچے نہیں، آفت ہیں! ان کی وجہ سے وہ ڈائن انتقام لے گی!" بوڑھا شخص چیخ چیخ کر کہنے لگا۔ یہ سن کر بچے خوفزدہ ہو گئے۔
"بچوں، ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ یہ پاگل ہے، جو بھی کہہ رہا ہے مت سنو۔ چلو، حویلی چلتے ہیں،" عابد نے کہا۔ بچوں نے ایک نظر بوڑھے شخص کو دیکھا، جو انہیں غضبناک نظروں سے گھور رہا تھا۔ پھر وہ لوگ حویلی کی طرف روانہ ہو گئے۔
حویلی پہنچ کر سب نے معمول کے مطابق کھانا کھایا اور پھر عمران کے کمرے میں جمع ہو گئے۔
"مجھے لگتا ہے ہمیں وہاں جانے کا پلان کینسل کرنا ہوگا،" طاہر نے کہا۔
"کیا تم اس بوڑھے پاگل کی بات سن کر ڈر گئے ہو؟" عالیہ نے طاہر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"مجھے اس بوڑھے کی باتوں میں سچائی نظر آئی۔ اسی لیے کہہ رہا ہوں، کہیں ہم کسی بڑی مصیبت میں نہ پھنس جائیں،" طاہر نے جواب دیا۔ وہ سب میں سب سے زیادہ سمجھدار تھا۔
"تم کہنا چاہتے ہو کہ تم ڈر گئے ہو؟" آیان نے طنز کرتے ہوئے کہا۔ طاہر نے اسے گھور کر دیکھا۔
"بھائی، اس پر پانی ڈال دو، یہ نیند میں بات کر رہا ہے!" یہ سن کر طاہر نے کہا۔
ہاروں نے واقعی اس کے چہرے پر پورا گلاس پانی انڈیل دیا۔
"ارے، یہ کیا؟" جیسے ہی ہارون کے اوپر پانی پڑا، وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔
"نیند میں باتیں کرنا کب چھوڑو گے تم؟" طاہر نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
"یہ سب چھوڑو، آگے کا سوچو۔ ہم جائیں یا نہیں؟" نور نے کہا۔
"ہم جائیں گے۔ اتنی دور آ کر ہم بغیر حقیقت کا پتہ لگائے واپس نہیں جا سکتے،" عمران نے جواب دیا۔
"عمران، میرے بھائی، کچھ حقیقتوں کا چھپے رہنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اس لیے اس معاملے کو یہیں چھوڑ دو۔ بس گاؤں گھومتے ہیں اور پھر اپنے شہر لوٹ جاتے ہیں،" طاہر نے سمجھانے کی کوشش کی۔
"نہیں طاہر، کچھ حقیقتوں کا سامنے آنا ضروری ہوتا ہے۔ جیسے یہ ڈائن والی حقیقت۔ میں بس یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی کوئی ڈائن ہوتی ہے یا یہ صرف ایک افواہ ہے،" عمران نے فیصلہ کن لہجے میں کہا، تو سب نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
آخر کل کیا ہونے والا ہے؟ کیا ڈائن واقعی موجود ہے یا یہ محض ایک افواہ ہے؟ یا پھر یہ لوگ کسی مصیبت کو اپنے گلے کا ہار بنانے والے ہیں؟ جاننے کے لیے پڑھتے رہیں ڈائن کا انتقام!
جاری ہے
Previous Episode
👉Episode 01: Click Here