شاید میں نے کہا تھا۔ شاید . اور میں نے کہا تھا آپ کا جال ناقص ہے۔ اس کے دھاگے تو ذرا سا بھی بوجھ برداشت نہیں کر سکتے مجھے کیا پکڑیں گے۔“ ہاں شاید میں نے کہا تھا کہ میں بہت صبر والا ہوں .... تمہیں پکڑ کر رہوں گا۔“ دوسری جانب ایک لمبا قہقہہ بلند ہوا۔ کسی ماڈل یا ایکٹریس کا قہقہہ ۔ پھر فون بند ہو گیا۔ قاسم فردوس غرابت کا شکار گومگوں کے عالم میں صوفے پر بیٹھ گیا۔
وہ اپنے متعلق شک و شبہے کا شکار تھا شاید یہ وقفہ بہت لمبا ہو جاتا۔ اس کی فیکس سے کاغذ نکلنے لگا۔ ابھی وہ آگے بڑھ کر پیام لینے والا تھا کہ مودب وزیر خانساماں نظریں جھکائے کھڑا ہوا۔
کیا بات ہے؟“ سر کھانا لگادوں؟“
کچھ بھوک نہیں ہے آدھے گھنٹہ بعد سہی ...
اچھا سر .. وہ صاحب جو آئے تھے چلے گئے ؟“ "
جی سر بڑے مذاقیہ آدمی تھے سر تم نے کیسے اندازہ لگایا وزیر ۔ “
وہ جی کھڑے کافی دیر مجھ سے باتیں کرتے رہے۔ جانے لگے تو میں نے پوچھا آپ کا نام کیا ہے سر کہنے لگے اللہ میاں۔ یاد رہے گا۔“
اللہ میاں یہ کیا نام ہوا۔ “
میں نے بھی کہا تھا سر یہ کیا نام ہوا تو کہنے لگے یہی تو ایک نام باقی سب کو بھلاوے ہیں۔“
قاسم فردوس کو پر گنہ باڑی کا فقرہ یاد آگیا جو اپنا نام نہ بتاتا تھا۔
میں نے بتایاناں سر بڑا مذاقیہ آدمی تھا۔ اگر آپ کھانا کھالیں سر تو بڑی مہربانی ہو گی، آج میاں میر صاحب کا عرس ہے مجھے جانا تھا وہاں ذرا۔ “
Read Complete Novel Here