تم تہہ خانے میں گئی تھی ؟
ہر گز نہیں آئے کت نے فوراً کہا۔ ” تم جانتے ہو میں کبھی وہاں اکیلی جانے کی غلطی نہیں کرتی ۔ فلک بوس کے اس حصے میں ...
عجیب سی وحشت ہوتی ہے مجھے ۔“ اس نے جھر جھری لیتے ہوئے کہا تھا۔
وسامہ اس کے انداز پر ہنسا۔ ڈرپوک ..
ڈرپوک ہوں تو ڈرپوک ہی سہی .. وہ کندھے اچکا کر لیکن لا پرائی سے بولی۔ لیکن اکیلی تہہ خانہ تو کیا فلک بوس کے کسی حصے میں گھومنے کی ہمت نہیں کر سکتی ہیں ؟
ارے ایسی کیا بات ہے یہاں؟“
اتنی پرانی عمارت ہے۔ یہ اور بہت عرصہ غیر آباد بھی رہی ہے ۔ سنا ہے ایسی جگہوں پر بھوت پریت ، روحیں بسیرا کر لیتی ہیں ... اگر کسی روز کوئی جن میرے سامنے ہی آکر کھڑا ہو گیا تو میں تو ایک منٹ میں بے ہوش ہو جاؤنگی۔“ آئے کت نے مزاحیہ سے انداز میں کہاتھا لیکن وسامہ چونک سا گیا۔
اسے بے ساختہ بچپن میں سنی ہوئی اس ہندو عورت کی کہانیاں یاد آئی تھیں جسے ڈیڑھ سو سال پہلے فلک بوس کے تہہ خانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ قتل کا سبب اس عورت کے کردار کا داغدار ہونا تھا اور افواہ مشہور تھی کہ اس عورت کی روح قلعہ فلک بوس میں بھٹکتی پھرتی ہے۔ گو کہ اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں تھا نہ ہی کسی نے اب تک اس عورت کو فلک بوس میں پھرتے دیکھا تھا۔ کچھ من گھڑت کی افواہیں تھیں جو مقامی آبادی کے لوگ ہمیشہ سے فلک بوس کے بارے میں سناتے رہے تھے۔
وسامہ کو ان افواہوں پر کبھی بھروسہ نہیں آیا در اصل اس نے اس بارے میں سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ زندگی میں ہم بہت ساری چیزوں اور باتوں پر اس وقت تک غور نہیں کرتے جب تک ان سے واسطہ نہیں پڑ جاتا تو یہ بھی اس کے لئے ایک ایسی ہی بات تھی۔ لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھا جو مرنے کے بعد روحوں کے دنیا میں کسی نہ کسی وجہ سے رہ جانے کے فلسفے پر یقین رکھتا تھا۔۔
Read Complete Novel Here