مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
آخری_قسط
نور_راجپوت
وہ آسماں سے آیا اور زمین پہ رہ گیا
”آپ نے مجھے بتایا نہیں آپ نے اتنا کچھ چھپایا۔۔“ وہ اب تسلی سے بیٹھی آنسوں بہارہی تھی۔ حاد اُسے چپ کرواتا تو وہ مزید رونے لگتی۔
”مجھے جو تم سے ہوا ہے نا ایمانے وہ تو میں آج تک سمجھ ہی نہیں پایا ہوں۔“ وہ اس کے وجود کو نگاہوں میں سموتے بولا اور پھر جھک کر اس کے سر کو ہونٹوں سے چھوا۔ لیکن وہ ابھی تک صدمے سے باہر نہیں نکل پائی تھی۔
”بس کردو یار میں ڈوب جاؤں گا۔۔“ اُس کا ہاتھ سہلاتے حاد نے کہا تو وہ مزید رونے لگی۔
”بتانا چاہیے تھا آپ کو، ساری تکلیفیں اکیلے ہی سہتے رہے۔۔“
”میں اِس ٹائپ کا بندہ نہیں ہوں ایمانے! مجھے پیار محبت والی باتیں نہیں آتیں۔ یہ ہنسنا بولنا میں نے عبدل کے ساتھ رہ کر سیکھا ہے، مجھے لگا محبت کا بہترین اظہار نکاح ہے اور وہ میں نے تم سے کرلیا۔۔“
ایمان نے نگاہ اٹھا کر اُسے دیکھا۔ سیاہ آنکھیں رو رہ کر گلابی ہوچکی تھیں۔
“اور اگر میں آپ کو نہ ملتی تو؟ انکار کر دیتی تو۔۔؟؟“ وہ اب خفا تھی۔
”کیسے نہ ملتی؟؟؟ میں نے ایمان کا سوال کیا تھا۔“ وہ بےحد نرمی سے مسکرایا۔ اُسے اپنی دعا یاد آئی تھی اور ایمان بس اُسے دیکھ کر رہ گئی۔ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا روئے یا ہنسے۔ اس شخص کو ہینڈل کرنا اتنا مشکل کیوں تھا؟؟
”میں ایسا ہی ہوں شاید میں محبت بھرے ڈائیلاگز نہ بول پاؤں، مجھے فلرٹ کرنا نہیں آتا لیکن میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا کیا تمہیں میں ایسے ہی قبول ہوں۔۔؟؟“
وہ اب اُسے آگاہ کر رہا تھا اُس سے پوچھ رہا تھا۔
”قبول پہلے ہی کرلیا تھا اور میں بھی اِس ٹائپ کی لڑکی نہیں ہوں جو محبت بھری باتوں پر پگھل جائے گی۔“ وہ خفگی سے بولی تو حاد بےساختہ مسکرا دیا۔
”میں جانتا ہوں۔۔“ ہاں وہ اُسے جانتا تھا۔ جس لڑکی کو ادھم جبیل جیسے شخص کے محبت بھرے جملے اپنی جانب راغب نہیں کر پائے اُسے اور کون امپریس کر سکتا تھا؟ اور محبت چکنی چوپڑی باتوں کا نام نہیں ہے۔
محبت ایک عہد ہے جسے ہر دور میں نبھایا جاتا ہے چاہے وہ دور خوشحالی کا ہو یا پھر قحط سالی کا۔
”اب آپ یہ مت سمجھ لیجیے گا میں مان گئی ہوں میں ابھی ناراض ہوں۔۔“ وہ سوں سوں کرتے بولی تو حاد کھل کر مسکرادیا۔
اُسے یہ منانے والا کام نہیں آتا، وہ تو خود سائلنٹ موڈ پر رہنے والا شخص تھا جو صرف کام کی بات کرنا جانتا تھا۔ ایک ماہر ڈیٹا سائنٹسٹ جس نے اپنا اےآئی ڈیولپ کیا تھا اس کے لیے فی الوقت دنیا کا سب سے مشکل کام اپنی ناراض بیوی کو منانا لگ رہا تھا۔ وہ اس تجربے سے ناواقف تھا لیکن یہ تجربہ مسحور کن تھا۔ ایمان کی اُس کی زندگی میں موجودگی بہت خوبصورت تھی۔ وہ جب اپنی الماری کھولتا تو ایک جانب ترتیب سے رکھی ایمان کے کپڑوں اور چیزوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھتا تھا۔ جیولری کے نام پر ایئر رنگز اور ہیئر کلپس زیادہ تھے۔ ساری عمر اکیلے رہنے والے حاد جبیل کے لیے یہ پل خوشگوار تھے اور شاید یہی وہ انعام تھا جو اسے دنیا میں ملا تھا۔
”اچھا بتاؤ کیسے مانو گی؟؟“ وہ اب اس کے آنسوں صاف کرتے بولا۔ ایمان رونا چھوڑ کر ہونق بنی اُسے دیکھنے لگی اور اگلے ہی لمحے وہ جھٹکے سے بیڈ سے اتری تھی۔
”مجھے نہیں پتا، اپنی اےآئی سے ہیلپ لیں۔۔“ وہ اب جوتا پہنتی باہر جا رہی تھی۔
”ارے یار۔۔۔۔“ وہ بےساختہ مسکرایا اور پھر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اٹھ کر اس کے پیچھے لپکا۔
✿••✿••✿••✿
”یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ بچ کیسے گیا۔۔؟؟“ سیاہ ماسک والے شخص نے اپنے سامنے پڑے میز کو ٹھوکر ماری۔ اب وہ کمرے کی ہر چیز توڑ پھوڑ رہا تھا۔
وہ حاد اور عبدل کو ایک ہی وقت میں دوبارہ دیکھ چکے تھے۔ ایک کا کنسرٹ تھا تو دوسرا اپنا سیشن لے رہا تھا۔
انہوں نے پہلے بھی ایسے ہی حاد کو ڈھونڈا تھا اور اس بار حاد نے انہیں بےوقوف بنایا تھا۔ یہ وہ جنگ تھی جسے وہ لوگ کھلے عام نہیں کر سکتے تھے۔
”اگر وہ دونوں ایک وقت میں، ایک ہی ملک میں دو مختلف جگہ پر تھے تو ہمارا نقصان کس نے کیا؟ خفیہ لیب تک کوئی پہنچا کیسے اور کس نے اڑائی۔۔؟؟“ وہ شخص ہیجانی انداز میں چلا رہا تھا۔
”مسٹر گرے۔۔۔“ اس نے اپنے بال نوچ لیے۔
”سر یہ مسٹر گرے نہیں ہے۔۔“
”کون نیا دشمن پیدا ہوگیا ہمارا۔۔جلدی پتا لگاؤ۔۔“
اس کی اس وقت جو حالت تھی یقیناً وہ جلد پاگل ہوجاتا۔
✿••✿••✿••✿
گاڑی ایک جھٹکے سے اکیڈمی کے باہر آکر رکی۔ فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھلا اور ایمان تیزی سے باہر نکلی۔
”میڈم گاڑی اندر نہیں کرنی۔۔۔؟؟“ گارڈ نے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلا کر اندر کی جانب بھاگی۔ اوپری فلور پر جوس کا گلاس تھامے کھڑے حاد نے تاسف سے سر ہلایا۔ گاڑی کی اسپیڈ وہ دیکھ چکا تھا۔ وہ بھاگتی ہوئی اندر آرہی تھی۔ وہ اب بالکل صحت مند تھی۔ اس کا پاؤں اور کندھا بالکل ٹھیک تھا۔وہ شوز پہنے ہوئے تھی اور اس کی رفتار کافی تیز تھی۔
وہ ایمان جسے ایکسیڈنٹ کے بعد ٹریفک فوبیا تھا وہ جو سفر کرتے ڈرتی تھی وہ اب اس کے لاکھ منع کرنے کے باوجود تیز رفتار سے گاڑی بھگاتی تھی۔ اس نے اپنے ٹینشن، ڈپریشن اور مائیگرین ہر بیماری پر قابو پایا تھا۔ وہ صبح صبح اٹھ کر اس کے ساتھ رننگ کرتی تھی۔ وہ اس وقت ہیلنگ اسائلم سے واپس آئی تھی۔ اس کا یہ اسائلم نمبر ون اسائلم بن چکا تھا۔ یہ اس کی تین مہینے کی محنت اور کڑی لگن کا نتیجہ تھا۔
وہ اب سیڑھیاں پھلانگتی اوپر چڑھ رہی تھی۔ لفٹ کو تو اس نے کبھی منہ نہیں لگایا تھا۔
اس کا ماننا تھا انسانی جسم کو جتنے آرام کی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی حرکت کی ضرورت بھی ہوتی ہے ہمیں اسے جتنا فٹ رکھیں گے یہ اتنا ہی ہمارا ساتھ دے گا۔
جیسے ہی وہ آخری فلور پر پہنچی اسے سیڑھیوں پر حاد دکھائی دیا۔ وہ اسے دیکھتے ہی رک گئی۔
”افف میں بہت تھک گئی ہوں۔“ اس نے حاد کو دیکھتے فوراً کہا۔ وہ باقی دنیا کے لیے ایک اسٹرونگ لڑکی تھی لیکن حاد کے سامنے آتے ہی اس کی نزاکت جاگ اٹھتی تھی۔ وہ اسے خفگی بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ سیاہ کپڑوں پر پنک فارمل کوٹ پہنے اور پنک ہی اسکارف لیے وہ بہت پروقار لگ رہی تھی۔ اس کی الماری میں جوتوں کی جگہ شوز تھے وہ جب انہیں پہنتی تھی تو خود کو زیادہ پراعتماد محسوس کرتی تھی۔
”مجھے لگتا ہے تمہیں ڈرائیونگ سکھا کر میں نے بہت بڑی غلطی کردی ہے۔۔۔تم نے کار کو جہاز ہی سمجھ لیا ہے۔“ وہ اس کے اسکارف کے ہالے میں قید چہرے کو دیکھتے بولا، غصے کرنے کی کوشش ناکام ہوچکی تھی۔
”ابھی کہاں، ابھی تو مجھے ڈریگن اڑانا ہے۔۔“ وہ بشاشت سے مسکرائی اور پھر اس کی جانب لپکی۔ ساری تھکن ساری پریشانیاں اسے دیکھتے ہی اڑن چھو ہوجاتی تھیں۔ وہ اسے دیکھ کر سب کچھ بھولنے لگتی تھی۔
”ہائے کیسے ہیں آپ؟؟ کیسا گزرا دن۔۔؟؟“ وہ اب اس کے سامنے ہینڈ شیک کے لیے کھڑی تھی۔ حاد نے محبت سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”ارے یاد آیا آج تو مجھے کوکنگ کرنی ہے۔“ اسے جیسے ہی یاد آیا وہ حاد سے اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگنے لگی لیکن اس نے نہیں چھوڑا وہ چونک کر رکی۔
”تم نے نیوز دیکھی۔۔؟؟“ وہ اب سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
”کونسی نیوز؟؟“ اسے واقعی ٹائم نہیں ملا تھا اور پھر کچھ دیر بعد جو اس پر انکشاف ہوا تھا وہ ساکت رہ گئی تھی۔ وہ فضا جو اپنے شوہر سے طلاق لینے پر کامیاب ہوچکی تھی۔ اس نے خودکشی کرلی تھی۔ اس کی نعش کمرے سے ملی تھی اور ایک خط تھا جس میں واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ وہ یہ خودکشی اس لیے کر رہی ہے کیونکہ وہ اپنے شوہر سے طلاق کے بعد خوش نہیں ہے۔ اور اس میں ایمان کا نام واضح تھا جس کے برین واش کرنے پر اس نے اپنے شوہر سے طلاق لی تھی۔
لکھا تھا کہ ام ایمان جیسی لڑکیاں صرف دوسروں کا گھر برباد کرتی ہیں،دوسری لڑکیوں کا برین واش کرتی ہیں۔
اس پر اور بہت سارے الزامات تھے۔ اس کے ہسپتال کو لے کر بھی لکھا گیا تھا۔ اور خودکشی کا زمہدار اسے ٹھہرایا گیا تھا۔ میـڈیا پر چاروں جانب یہی نیوز چل رہی تھی۔
ایمان نے حیرت زدہ نظروں سے حاد کو دیکھا۔ اس کی وجہ سے کسی کی جان چلی گئی تھی۔ وہ یہ صدمہ کیسے برداشت کرتی۔ اور تو اور انہیں فضا کے سابقہ شوہر اور گھر والوں کی طرف سے لیگل نوٹس بھی ملا تھا۔
”فضا مر گئی۔۔۔“ اس کے ہاتھوں میں واضح کپکپاہٹ تھی۔
”ریلیکس ایمانے۔۔“ حاد نے اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لیا۔ یہ پاکستانی معاشرہ تھا جو ایک عورت کو آگے جاتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کی کامیابی کسی سے بھی ہضم نہیں ہورہی تھی۔
”میں نے ایسا کبھی نہیں چاہا تھا۔۔۔“ وہ اس کے سینے پر سر ٹکا کر رودی تھی۔
✿••✿••✿••✿
رات دس بجے کا وقت تھا وہ گراؤنـڈ میں اکیلے چہل قدمی کر رہی تھی۔ہلکے گلابی رنگ کے کاٹن کے لوز نائٹ سوٹ میں وہ اس وقت کوئی گلابی پھول ہی لگ رہی تھی۔ بال جوڑے میں قید تھے اور کلائی میں حانم کا دیا کنگن جگمگ کر رہا تھا۔ موسم اب خوشگوار تھا بہار کے موسم میں چاروں جانب پھول کھلے تھے۔ مہینوں بعد اسے سر درد محسوس ہوا تھا۔ اس کے اندر ایک بےچینی سی بھرگئی تھی۔ وہ اسے کافی دیر سے دیکھ رہا تھا اور پھر کچھ دیر بعد خود ہی باہر آگیا تھا۔
اس کے ہاتھ میں چائے کے دو کپ تھے اور شاپنگ بیگ تھا۔ جہاں وہ ٹہل رہی تھی وہاں لکڑی کا بینچ تھا۔اس کے قریب پہنچ کر حاد نے چائے کا کپ اس کی جانب بڑھایا۔
”تم نے کھانا بنا لیا تو میں نے سوچا میں چائے بنا لوں۔“ وہ مسکرایا تو ایمان نے کپ تھام لیا۔ وہ خود اپنے لیے چائے لایا تھا۔ محبت کی اس سے بہترین شکل کیا ہوگی کہ کافی پینے والا شخص اب اس کے ساتھ چائے پیتا تھا۔ اس نے اپنا کپ بینچ پر رکھا اور پھر شاپنگ بیگ سے کچھ نکالا۔ یہ ایک بـڑی سی سفید رنگ کی شال تھی۔ اس نے اسے پھیلا کر ایمان کے کندھوں پر ڈالا۔
اگر کبھی تم مجھے
کوئی تحفہ دینا چاہو تو
زیادہ مت سوچنا،
قیمتی اور مہنگی چیزوں
کو مت تلاش کرنا بس
ایک شفاف سی شال خریدنا
اور میرے کندھوں پر ڈال کر
بولنا کہ، تم ماڈرن نہیں باوقار اچھی لگتی ہو۔۔!!
سالوں پہلے اس نے شدت سے خواہش کی تھی کہ اس کا ہمسفر اس کے لیے شال خرید کر لائے اور اپنے ہاتھوں سے اس کے کندھوں پر ڈالے اور حاد اس کے لیے شال لایا تھا۔
وہ اب ایسے لگ رہی تھی جیسے گلابی پھول کو چاروں جانب سے سفید تتلیوں نے گھیر لیا ہو۔ جابجا لگے برقی قمقموں میں اس کا وجود دھمک رہا تھا۔
”بیٹھ جاؤ۔۔“ حاد نے اسے پکڑ کر بینچ پر بٹھایا۔ وہ خاموش تھی الجھی ہوئی، جانتا تھا وہ کیسا محسوس کر رہی تھی۔
وہ کپ کو دونوں ہاتھوں میں تھامے بیٹھی تھی۔
”چائے ٹھنڈی ہوجائے گی۔۔“ حاد نے کہا تو وہ چونک کر خیالوں سے باہر آئی اور چائے کا گھونٹ بھرا۔ اس کا ذائقہ اتنا اچھا تھا کہ ایمان کو اپنی ساری تھکاوٹ دور بھاگتے محسوس ہوئی۔ وہ اتنی اچھی چائے بناتا تھا کہ ایمان کو اب اپنے ہاتھ کی بنی چائے بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔
وہ دونوں ہر وقت ایک ساتھ نہیں رہتے تھے، دونوں کے اپنے گولز تھے دونوں کو باہر آنا جانا پڑتا تھا۔ دونوں اپنا اپنا کام کرتے تھے اور ایک دوسرے سے مشورہ بھی لیتے تھے وہ عام لوگ نہیں تھے جو ہر وقت چپکے رہتے۔ یہ ایسا رشتہ تھا جس میں اسپیس بھی چاہیے تھی اور وقت بھی۔۔۔
اور جب وہ دونوں ساتھ ہوتے تھے تب کوئی تیسرا نہیں آ پاتا تھا۔
”پریشان کیوں ہو ایمانے۔۔۔؟؟“ اس نے بالآخر پوچھ ہی لیا۔
”کیا مجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”میرے ہوتے ہوئے تو نہیں۔۔۔“ وہ ہولے سے مسکرایا۔ وہ ابھی ابھی سیشن لے کر آیا تھا اور ہمیشہ کی طرح نک سک سا تیار تھا۔
”تو اب ہم کیا کریں گے؟؟“ وہ الجھ گئی۔
”کورٹ جائیں گے، ہم فضاء کو مرنے سے تو نہیں بچا سکا لیکن انصاف دلا سکتے ہیں۔۔۔“ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”تو اس لیے ٹینشن مت لو۔۔۔“ اس نے ہاتھ بڑھا کر ایمان کے گال کو چھوا۔ وہ اس سے نظریں نہیں ہٹا پارہی تھی۔
”ویسے یہ تو زیادتی ہے۔۔۔“ وہ بڑبڑائی۔
”کونسی۔۔۔؟؟“ وہ اسے دیکھنے لگا۔
”اسکن کیئر میں کرتی ہوں اور چمک آپ رہے ہیں یہ تو زیادتی ہے۔۔“
حاد نے پہلے حیرانی سے اسے دیکھا اور پھر اس کا ابھرنے والا قہقہہ بےساختہ تھا۔ اب وہ چہرہ جھکائے ہنس رہا تھا ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن مشکل کام تھا۔ وہ جب سے اس کی زندگی میں آئی تھی وہ اسے ایسے ہی ہنسنے پر مجبور کر دیتی تھی۔ وہ ہنس رہا تھا اور ایمان سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”ارے یار۔۔۔“ اس نے چائے کا کپ بینچ پر رکھا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ”او مائے گاڈ“ وہ خود پر کنٹرول کر رہا تھا۔
”تم اس وقت جتنی حسین لگ رہی ہو وہ صرف میں جانتا ہوں۔۔“
”پر آپ ہر وقت ہی اتنے اچھے لگتے ہیں۔۔“
وہ جھٹ سے بولی۔ وہ ام ایمان جسے اپنے جذبات، احساسات اپنے ڈر اور خوف ہر چیز پر کنٹرول تھا وہ اس کے سامنے کچھ کنٹرول نہیں کر پاتی تھی۔ چھوٹی سے چھوٹی بات جو اسے تنگ کرتی تھی وہ فوراً کہہ دیتی تھی۔
”دیکھو ہم ایک جیسا کھانا کھاتے ہیں ایک ساتھ رننگ کرتے ہیں جو مجھے پسند وہ تمہیں پسند ہے تو پھر کیسے میں تم سے زیادہ چمک سکتا ہوں؟؟“
”لیکن آپ اسکن کیئر نہیں کرتے۔۔۔“
”لڑکوں کی اسکن لڑکیوں کی نسبت اتنی سینسیٹیو نہیں ہوتی۔۔“ وہ اسے لاجک دے رہا تھا جو وہ جانتی تھی پر اس کی ایکسپلینیشنز اچھی لگتی تھیں۔ وہ اب سر جھکائے سمجھ رہی تھی۔ حاد نے اپنے اور اس کے درمیان کا فاصلہ ختم کیا اور اس کے قریب ہو کر بیٹھا اور پھر اپنا بازو اس کے گرد حمائل کیا۔
”ویسے میں دیکھ رہا ہوں تمہیں کچھ زیادہ ہی مسائل ہیں مجھ سے۔۔۔“ وہ مسکراہٹ چھپائے کہہ رہا تھا۔ ایمان نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ چشمہ لگائے، اپنی مسکراہٹ چھپاتا وہ کتنا اچھا لگ رہا تھا۔ وہ شخص اس کا شوہر تھا، سر سے پاؤں تک اس کا تھا اور ایمان کے لیے اب تک اس بات کو ہینڈل کرنا بہت مشکل تھا۔ وہ اب دنیا میں سب کچھ تصور کرسکتی تھی لیکن اس کی غیر موجودگی نہیں۔ حاد جبیل کے بنا اس کی دنیا ویران تھی۔
”ابھی پچھلے دنوں تمہیں میری ایج پر اعتراض تھا۔۔“ وہ کچھ یاد کرتے ہوئے بولا۔
”ہاں تو عبدل آپ کو ٹھیک ہی ویمپائر کہتا ہے۔ تیس سال کے ہیں آپ اور بالکل نہیں لگتے۔۔“
”اکتیس۔۔“ حاد نے تصحیح کی۔ ”اکتیس کا ہوں۔“
”لیکن سالوں سے دیکھ رہی ہوں آپ کو ویسے ہی ہیں۔۔“ وہ پھر سے گویا ہوئی۔ حاد نے بمشکل مسکراہٹ چھپائی۔
”اٹس سیلف کیئر، فٹ رکھنا پڑتا ہے خود کو اور کچھ جینیٹیکس کا کمال ہے ویسے تم بھی تو فٹ ہو، تم بھی پچیس کی ہو لیکن ٹین ایج لگتی ہو۔۔“ وہ اب اسے چڑانے لگا۔
”اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔۔۔“ وہ اس کے ٹین ایج کہنے پر چڑ گئی تھی۔
”اور اگر آپ مجھ سے پہلے مرگئے تو میں آپ کو معاف نہیں کروں گی۔۔“ وہ اس کے کندھے پر سر ٹکاتے بولی۔
”خدا کا خوف کرو یار۔۔“ وہ بدک پڑا تھا۔ وہ کسی بھی وقت کوئی بھی بات کر سکتی تھی۔
”بتارہی ہوں پہلے اور دوسری شادی کی پرمیشن ہرگز نہیں ہے آپ کو۔۔۔“ وہ اب اسے آگاہ کر رہی تھی۔ وہ پھر سے مسکرایا۔
”پہلے میں ایک کو تو ہینڈل کرلوں۔۔“ اس کے لہجے میں شرارت تھی۔ ایمان نے اب خود کو پرسکون محسوس کیا تھا۔ پچھلے چار گھنٹوں میں سوچ سوچ کر اسے اپنے دماغ میں درد محسوس ہورہا تھا جسے حاد کی موجوگی نے دور بھگا دیا تھا۔
”جب سب ٹھیک ہوجائے گا ہم ویلنسیا جائیں گے۔۔“ وہ جانتا تھا ایمان ایسا کیوں کہہ رہی تھی۔ کچھ دن پہلے ہی روز کا فون آیا تھا اور وہ گھنٹوں باتیں کرتی رہی تھیں۔
”ہاں جب تم نے مجھے رننگ میں ہرادیا تب چلیں گے۔“
اس کے سر پر ٹھوڑی ٹکاتے وہ کہہ رہا تھا۔
”یعنی میں ناں سمجھوں؟؟“ وہ فوراً بولی۔
”کوشش سے پہلے ہی ہار مان لی ویری بیڈ۔۔“
“میں نہیں چاہتی حاد جبیل اپنی وائف سے ہار جائے۔۔“ وہ اس کا ہاتھ تھامے بیٹھی تھی۔ چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔
”حاد جبیل کو اپنی وائف سے ہارنا پسند ہے۔۔“ وہ نرمی سے بولا تو وہ خوشدلی سے مسکرادی۔
✿••✿••✿••✿
وہ اسکرین کے آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔ روز آبدیدہ تھی۔
”تم نے مجھے سچ کیوں نہیں بتایا ایما۔۔؟؟“ وہ اب اس سے پوچھ رہی تھی۔
”کونسا سچ؟؟“
”یہی کہ تم نے ادھم کے لیے پیسے نہیں لیے تھے۔۔۔“
روز نے نگاہیں چراتے کہا تو ایمان پھیکا سا مسکرادی۔ اندر کہیں اذیت ابھری تھی۔
”کیونکہ تم دونوں یہی سننا چاہتے تھے۔ جب دماغ کسی بات کو قبول کر لیتا ہے تو سماعت وہی سننا چاہتی ہے۔۔۔“
”پھر بھی تمہیں کچھ تو صفائی دینی چاہیے تھی۔۔“
”پتا ہے پیسہ لینا کس کو کہتے ہیں؟؟ جب آپ کسی سے ڈیل کریں کہ آپ ایک کام کریں گے اور بدلے میں آپ کو اتنے پیسے چاہئیں۔ ایسا نہیں ہوا تھا روز۔۔۔ ایک شخص نے میری مام کی جان بچائی تھی اور مجھ سے درخواست کی تھی کہ میں اس کے بیٹے کو بچا لوں۔ اس کی محبت اپنا لوں۔ کوئی زور زبردستی نہیں تھی۔ میں اپنا احسان چکانا چاہتی تھی لیکن یقین مانو میں نے اس کے کہنے پر ایسا نہیں کیا تھا میں واقعی گھبرا گئی تھی جب وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر جا رہا تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی وہ ایسا کرے۔ میں نے موقع دیا اسے چاہے میں خود کتنی ہی تکلیف میں رہی۔۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ شخص، پتا ہے اس نے مجھے کسی شو پیس کی طرح سمجھا کسی کھلونے کی طرح جو اسے مل چکا تھا اور کہیں نہیں جا سکتا تھا۔۔ میں خوفزدہ تھی اس نے میرا خوف دور نہیں کیا۔ وہ چاہتا تھا اسے اس کی شرائط پر اپنایا جائے۔۔۔!
ایسا نہیں ہوتا، زندگی ایسے نہیں چلتی۔ اس نے مجھے مجبور کردیا تھا کہ میں پلٹ جاؤں اور جب میں پلٹی اس سے برداشت نہیں ہوا۔ وہ برداشت نہیں کر پایا کہ میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔۔“
وہ سانس لینے کو رکی۔۔پرانے زخم درد دیتے ہیں وہ کب کی ان زخموں پر مرہم لگا چکی تھی پر روز کی باتوں نے اسے واپس کھینچ لیا تھا۔
”پیسے تو میں واپس کرچکی تھی۔ میں نے تو کبھی ایک روپیہ نہیں خرچ کیا اس میں سے۔ وہ مجھ پر حرام تھے۔ میں پھر بھی واپس گئی تھی اسے سچ بتانے کے لیے پر اس کا سچ مجھے پتا چل گیا۔۔۔“
وہ استہزائیہ مسکرادی۔
”کسی کے کردار پر انگی اٹھانا بہت بڑی بات ہے یہ اللہ والے سمجھ سکتے ہیں، اس ضمن میں اللہ نے وحی نازل کردی تھی اگر وہ یہ سمجھتا تو کبھی ایسا نہ کرتا۔۔“
ایمان نے گہرا سانس لیا۔
”لیکن میں خوش ہوں۔ وہ اپنی منزل کے لیے نکل پڑا ہے اللہ اس کی مدد کرے۔۔“ اب وہ پورے دل سے مسکرادی تھی۔
”میں حاد سے ملی تھی اور مجھے ساری سچائی پتا چل گئی تھی پر مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ تم سے سوری کرسکوں۔۔۔میں نے تمہیں بہت مس کیا ایما۔۔بہت زیادہ۔۔“ روز کی آنکھوں میں آنسوں تھے۔ اب وہ اسے اپنی ایک سالا بیٹی دکھا رہی تھی جس کا اس نے نام ایما رکھا تھا۔
ایمان خوش تھی اور روز نے اسے اتنا خوبصورت پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔ ماثیل انسٹیٹیوٹ تو اس کی ساری رونق جیسے کھا گیا تھا اور اب وہ پھولوں کی طرح مہک رہی تھی روز کے لیے اس سے نظریں ہٹانا مشکل ہوگیا تھا۔ فون بند کرنے سے پہلے ایمان نے اس سے ویلنسیا آنے کا وعدہ کیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
یہ کورٹ روم تھا۔ ایمان حاد کے ساتھ ایک جانب بیٹھی تھی۔ اس کے بال اسکارف میں چھپے ہوئے تھے اور حاد کی دی ہوئی شال اس کے کندھوں پر تھی۔
دوسری جانب فضا کے گھر والے اور اس کا سابقہ شوہر بیٹھا تھا جو ایمان کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔
پروسیکیوٹر اب اوپننگ سٹیٹمنٹ دے رہا تھا۔ ساری باتیں وہی تھیں جو لیگل نوٹس میں تھیں۔
ایک بات کا اضافہ کیا گیا تھا۔
”یور آنر اگر مس ام ایمان اتنی ہی پاسدار لڑکی ہیں اور دین کو سمجھنے والی ہیں تو یہ غیر مرد کے ساتھ اس کے محل جیسے اسنٹیٹیوٹ میں سب سے اوپری فلور پر کیوں رہتی ہیں۔۔؟؟“ اس کے کردار تک بات لائی گئی تھی۔ حاد نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ تبھی اس کے فون پر میسج کی ٹیون ابھری۔
”برخوردار! جیت کر آنا نہیں تو نہ آنا اور ولیمہ کینسل سمجھو۔“ سید جبیل کا دھمکی بھرا میسج ابھرا تھا اور حاد مسکرادیا۔
ڈیفنس لائیر نے اس الزام پر آبجیکشن کیا تھا۔ اس کے پاس کہنے کو کافی کچھ تھا۔
سب سے پہلے تو فضا کے شوہر کی ایمان کو کی گئی دھمکی آمیز کال کا ریکارڈ نکالا گیا تھا۔ ایک سائنٹسٹ اپنی بیوی کے لیے اتنا تو کر ہی سکتا تھا۔ ریکارڈنگ سنائی جارہی تھی۔ اس نے ایمان کو دو دفع فون کیا تھا اور ایکسڈنٹ بھی کروایا تھا۔ اس کے بعد فضا کا خط نکالا گیا تھا۔
فضا نے سیشن کے دوران اپنا مسئلہ جو پرچی پر لکھ کر دیا تھا اور جو لیٹر اس نے مرنے سے پہلے لکھا تھا بیشک لکھائی دیکھنے میں سیم تھی لیکن الیکٹرانک تجزیے نے ثابت کردیا تھا وہ اس نے نہیں لکھا تھا۔ اس کے شوہر نے غیر قانونی کام کیے تھے اور حاد نے غیر قانونی طریقے سے سب کا ریکارڈ نکلوالیا تھا۔ انہوں نے یہ سب خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ اور آخر میں
Original Autopsy
رپورٹ کے مطابق اسے گلا گھونٹ کر مارا گیا تھا بعد میں چھت سے لٹکایا گیا تھا۔ اور وہ خط اس کے مرنے سے ایک دن پہلے لکھا گیا تھا۔ کمرہ عدالت شور سے گونج اٹھا تھا اور تو اور جس پیشہ ور قاتل کو اس نے ہائر کیا تھا جسے رقم بھیجی تھی اس کا ریکارڈ بھی نکل آیا تھا۔
کیس بہت واضح اور صاف تھا۔ اس شخص کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اور عدالت برخاست ہونے سے پہلے حاد نے صرف اتنا کہا تھا۔
”ایمان میری بیوی ہے اور بیوی کو دل کی سب سے اونچی مسند پر رکھا جاتا ہے۔“
وہ تو صرف محل تھا جہاں اس کے سب سے اوپری فلور پر رہنے پر اعتراض کیا جارہا تھا۔ یہ اُس شخص کے منہ پر چانٹا تھا جس نے اپنے بچے کی ماں کو مار ڈالا تھا۔
✿••✿••✿••✿
کل کے واقعہ کے بعد میڈیا پر اب کافی کچھ چل رہا تھا۔ اس کی شادی پہلی بار منظر عام پر آئی تھی اور لاہور میں موجود سلفائیٹس اکیڈمی اس کا سیشن لینے کے لیے آنے والے لوگوں سے بھر گئی تھی۔ اس کا سمینار ہال کافی بڑا تھا جو اس وقت فل بھرا ہوا تھا۔ وہ اب لاہور آہی گیا تھا تو کیوں نہ سیشن لے لیا جاتا وہ کبھی انکار نہیں کرتا تھا۔
ایک کثیر تعداد اکیڈمی میں موجود تھی اور لاکھوں لوگ اسے آنلائن سن رہے تھے۔ وہ اسٹیج پر کھڑا تھا۔ گرے چیک ڈریس پینٹ میں ملبوس سیاہ شرٹ پہنے وہ ہمیشہ کی طرح پروقار لگ رہا تھا۔ بال نفاست سے سیٹ تھے۔ چمکتے سیاہ جوتے اور ان سے جھانکتے گلابی رنگت والے اس کے پیر، کچھ بھی تو نظرانداز کرنے کے قابل نہیں کیا تھا۔ وہ اب جم نہیں کرتا تھا۔ پہلے عبدل کی طرح دکھنے کے لیے کیا تھا۔ اب وہ اپنی اصلی باڈی میں تھا۔ سیاہ شرٹ کے بازو فولڈ کرکے کہنیوں تک کیے ہوئے تھے۔ سیاہ گھڑی اس کی کلائی میں جچ رہی تھی اور اس کا گرے چیک والا کوٹ کرسی پر رکھا تھا۔ اس کے منہ کے قریب مائیک سیٹ تھا۔
وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے سوال و جواب کر رہا تھا۔ ایمان ہال میں بیٹھی اسے ہی سن رہی تھی اور وہ اسے گھنٹوں سن سکتی تھی۔
”آپ اتنے ماڈرن ہیں لیکن باتیں آپ اسلام کی کرتے ہیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟؟ اسلام تو ماڈرن نہیں ہے۔۔ “
ہال میں سے ایک لڑکے نے سوال کیا تھا۔ اس کا سوال سن کر وہ مسکرادیا۔
”کس نے کہا آپ سے اسلام ماڈرن نہیں ہے؟؟“ وہ اب الٹا سوال کر رہا تھا۔
”ہم دیکھتے ہیں سنتے ہیں سب یہی کہتے ہیں۔۔“ لڑکے نے ہولے سے بتایا۔
”آپ نے دیکھا سنا۔۔کیا آپ نے ریسرچ کی؟؟ کیا آپ نے اسلام پر ریسرچ کی؟ اپنے دین پر کہ وہ کیا کہتا ہے؟؟“ وہ اب پوچھ رہا تھا۔ صرف اس سے نہیں بلکہ سب سے۔۔ سب سننے والوں سے۔
”پتا ہے ہم نے اپنے دین پر سب سے بڑا ظلم کیا کِیا؟؟“ وہ ہال میں دیکھتے بولا تھا۔
”ہم نے اسے صرف علماء اکرام پر چھوڑ دیا، عالموں، مفتیوں اور مولویوں پر۔۔ ہم نے مان لیا کہ بس دین ان کے لیے ہے۔ وہیں سکھائیں گے اور عمل بھی وہیں کریں گے، ہم کچھ نہیں کریں گے کیونکہ ہم عالم نہیں ہیں۔ دین والے نہیں ہیں۔۔ہم عام لوگ ہیں۔۔۔ “
وہ اب انہیں دیکھتے کہہ رہا تھا۔
”کیوں۔۔۔ایسا کیوں کیا ہم نے؟ کیا ہم اللہ سے کوئی اور عہد کرکے آئے تھے؟ کیا ہم نے وہی عہد نہیں کیا تھا جو علما اکرام نے کیا تھا؟؟ پھر کیوں ہم نے دین کو چھوڑ دیا کیوں نہیں پڑھا کیوں نہیں سیکھا۔۔۔ہم صرف دنیا میں مصروف ہوگئے۔۔؟؟“
ہال میں گہری خاموشی چھاگئی۔
”اور پھر اس سے بھی بڑا ظلم پتا ہے کیا کیا؟؟“ وہ ان سب کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اسٹیج کے درمیان میں کھڑا تھا۔ اسپاٹ لائٹ کی روشنی میں اس کا وجود چمک رہا تھا۔
”ہم نے دین والوں پر دنیا حرام کردی، ہم نے اپنے علما اکرام پر دنیا حرام کردی۔ ہم نے انہیں مسجد تک محدود کردیا اگر ان سے میں کوئی باہر نکلا کسی نے کوئی اور کام کیا کسی نے اپنا بزنس کیا تو ہم سب شروع ہوگئے لعن طعن کرنے۔۔۔کیا واقعی کیا یہ دین اسلام ہے؟؟ یہ کونسا دین ہے کہاں سے سیکھا ہے آپ نے؟؟“
اس کا وجود جلتا تھا جب وہ مسلمانوں کو اسلام سے دور دیکھتا تھا۔
”کیا انبیاء اکرام نے دین کے ساتھ دنیا نہیں چلائی؟ کیا وہ مقدس لوگ بزنس نہیں کرتے تھے؟؟ کیا وہ بس نماز روزہ تک محدود تھے؟؟ کیا انہوں نے جنگیں نہیں لڑیں کیا فتوحات نہیں کیں؟؟ اس لیے میں کہتا ہوں اپنے دین کو خود پڑھیں خود جانیں۔ ہمارا مذہب سب سے ماڈرن ہے۔ اس میں دین دنیا ساتھ لے کر چلنے کا کہا گیا ہے۔ نکاح کو ایمان مکمل کرنے والا عمل کہا گیا ہے یہاں تک کہ پسند کے نکاح کی اجازت دی ہے۔ عورت مرد دونوں کو۔۔ دونوں پر علم فرض کیا گیا۔ تو پھر آپ لوگ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام ماڈرن نہیں ہے۔۔ ہم سب کو ضرورت ہے، ضرورت ہے کہ ہم سب دین کی زمہداری اٹھائیں اسے مخصوص لوگوں پر نہ چھوڑا جائے۔ عہد ہم سب کرکے آئے ہیں۔۔“
”کہا جاتا ہے انسان کی جبلت نہیں بدلتی تو پھر قرآن انسان کو کیسے بدلتا ہے۔۔۔؟؟“
سوال سن کر وہ چونکا اور پھر مسکرادیا۔ اسے اپنے بچپن کا واقعہ یاد آیا تھا۔ وہ چلتا ہوا اسٹیج پر چڑھنے اترنے کے لیے بنی سیڑھیوں تک آیا اور پھر ان پر بیٹھ گیا۔
آپ اسے اپنے پاس کیوں رکھتی ہیں؟؟ لائبریری میں کیوں نہیں۔۔“ اس نے حانم سے قرآن پاک کے متعلق پوچھا تھا۔
”کیونکہ یہ خاص ہے۔۔۔“
”وہ کیسے۔۔۔؟؟“ وہ دوزانو بیٹھا تھا اور ایک دونوں ہاتھ ٹھوڑی نیچے جمائے اپنی ماں سے پوچھ رہا تھا۔
”کیونکہ اسے آسمان سے اللہ نے ہمارے لیے اتارا ہے۔۔“
”جو آسمانوں سے اترتا ہے وہ خاص ہوتا ہے؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”ہاں۔۔۔“
”ہم بھی تو وہیں سے آئے ہیں نا۔۔ اللہ کے پاس سے۔۔ تو کیا ہم بھی خاص ہیں۔۔؟؟“
”ہاں۔۔۔ سب انسان خاص ہیں۔۔“
وہ اب مسکرا رہا تھا۔
”قرآن اللہ نے آسمان سے اتارا اور حضرت آدم کو اللہ نے آسمانوں میں پیدا کیا۔ انسان میں روح آسمان پر پھونکی گئی۔۔“
جس لڑکے نے سوال کیا تھا وہ اب اسے دیکھتے کہہ رہا تھا۔
”قرآن روح پر اثر کرتا ہے۔ قرآن آسمانی ہے اور روح بھی۔اسی لیے انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن پاک اتارا گیا کیونکہ اللہ جانتا تھا زمینی چیزیں انسان پر اثر نہیں کر پائیں گی۔۔۔انسانی جبلت کو بدلنے کے لیے قرآن آسمان سے اتارا گیا اور جو آسمانوں سے اترتا ہے وہ خاص ہوتا ہے۔۔۔سب سمجھ آیا؟؟“ وہ مسکرایا تھا۔
ایمان اسے پورے جذب سے سن رہی تھی جب اچانک اسے خود پر گہری نظروں کا احساس ہوا۔ وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگی اور تب اس کی نظر دائیں جانب بیٹھی ایک لڑکی پر پڑی۔ وہ عبایا پہنے ہوئے تھی نقاب کیا ہوا تھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی وہ کچھ لمحے دیکھتی رہی اور پھر جھماکہ سا ہوا۔۔۔ وہ کائنات تھی۔ کائنات ملک۔۔۔ایمان اسے پہچان گئی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”میں یہاں قرآن پاک کی تفسیر پڑھاتی ہوں۔۔“ وہ دونوں اب اسٹاف روم میں بیٹھی تھیں۔ کائنات کے ساتھ اس کا دو سالا پیارا سا بیٹا تھا۔
”ویلنسیا سے واپس آنے کے بعد گھر والوں نے میری زبردستی رخصتی کردی۔ وہ میرا کزن تھا سلطان چچا کا بیٹا اور فطرت بھی ویسی ہی تھی۔ وہ مجھے مارتا پیٹتا تھا کیونکہ میں اس سے رخصتی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اور اسی بات پر وہ مجھے شادی کے بعد مارتا تھا۔ اتنا مارتا تھا کہ میں پریگننسی میں بےہوش ہوجاتی تھی۔ اور پھر۔۔ ایک دن وہ مرگیا۔۔ دل کا دورہ پڑنے پر اچانک، شاید اللہ کو مجھ پر رحم آگیا تھا۔ سلطان چچا کو فالج ہوگیا شاید ان کے کرموں کی یہی سزا تھی۔
اور میں احد کی پیدائش کے بعد یہاں لاہور شفٹ ہوگئی۔
جب یہ اکیڈمی اوپن ہوئی تو میں نے جاب کے لیے اپلائے کیا اور اب میں نہ صرف تفسیر پڑھاتی ہوں بلکہ اس اکیڈمی کی کافی زمہ داریاں مجھ پر ہیں۔۔“
ایمان کی آنکھوں میں نمی ابھری۔ اسے سمجھ نہ آیا کائنات کے لیے خوش ہو یا دکھی۔۔ پر اللہ نے سب کے لیے کچھ نہ کچھ لکھا ہوتا ہے۔ وہ اس سے مل کر خوش ہوئی تھی اور یونیورسٹی کی یادیں تازہ کرتی رہی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے اور کائنات بھی بدل گئی تھی۔
✿••✿••✿••✿
آج ان کا ولیمہ تھا۔ سید جبیل نے پورے ملتان کو جیسے مدعو کرلیا تھا۔ فنشکن شام میں تھا اور وہ لوگ بس نکلنے والے تھے۔ لاہور سے ملتان وہ بائے روڈ جا رہے تھے۔
ایمان نے حاد کی پسند کی mauve کلر کی میکسی پہنی تھی۔ ہلکے میک اپ میں وہ اس میسکی میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ یہ ایمان کا آئیڈیا تھا کہ وہ یہیں سے تیار ہو کر جائے تاکہ اگر لیٹ بھی ہوگئے تو وہاں جا کر مزید ٹائم ویسٹ نہ ہو۔
اس کی میکسی زیادہ ہیوی نہیں تھی اور بازو فل تھے۔ کہیں سے بھی وہ ولیمے کی برائیڈ نہیں لگ رہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی اور کے ولیمے میں آئی ہو۔ حاد نے بڑی مشکلوں سے ایسا ڈریس ڈھونڈا تھا جس میں وہ کمفرٹیبل رہتی۔وہ جانتا تھا ایمان کے لیے ہیوی کپڑے پہننا مشکل تھا اور اسے سر ڈھانپنا تھا تو اس لیے اسے یہ فلورل میکسی اچھی لگی تھی جو نیچے سے سلک کی تھی اور اوپر نیٹ تھی۔ فیری ٹیل والی یہ میسکی اسے پہلی نظر میں ہی پسند آگئی تھی۔
ہیلز والے شوز پہنے وہ اب آئینے کے سامنے کھڑی اپنا آخری جائزہ لے رہی تھی۔
اس کی سفید شال بیڈ پر پڑی تھی۔ جب سے حاد نے وہ دی تھی اب ہر جگہ وہ ایمان کے ساتھ ہوتی تھی۔
بالوں کو جوڑے میں قید کیے، چھوٹے چھوٹے چمکتے ٹاپس پہنے وہ کسی فیری ٹیل کی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔
”کیسی لگ رہی ہوں؟؟“ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا ایک پل کو تو حیران رہ گیا۔ وہ کلر اس پر واقعی جچ رہا تھا۔
”میری وائف جیسی۔۔۔“ وہ ہولے سے مسکرادیا۔
اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتا اس کا فون بج اٹھا۔ سعد کا فون تھا۔
”حاد بھائی ایک مسئلہ ہوگیا ہے۔۔“ سعد کی آواز ابھری تھی۔ ایمان اسے ہی دیکھ رہی تھی اور پھر کچھ دیر بعد وہ لوگ اکیڈمی کی جانب رواں تھا۔ ایمان نے حجاب کرلیا تھا اور سفید شال اس کے کندھوں پر تھی۔
اکیڈمی میں لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد جمع تھی۔ وہ ایمان کا سیشن اٹینڈ کرنا چاہتی تھیں۔ وہ ایک ہیلر سے ملنا چاہتی تھیں۔ حاد نے ایک نظر فنکشن کے لیے تیار ہوئی ایمان کو دیکھا۔
”ڈونٹ وری میں ایسے بھی لے لوں گی سیشن۔۔“
وہ مسکرائی تھی۔ سفر لمبا تھا وہ لوگ پہلے لیٹ ہوچکے تھے لیکن ایمان ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی تھی۔
✿••✿••✿••✿
لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد سیمینار ہال میں تھی۔ وہاں کوئی لڑکا نہیں تھا اس لیے ایمان کمفرٹیبل تھی۔ جب وہ ہال میں داخل ہوئی تھی تو گہری خاموشی میں اس کی ہیلز کی آواز ہال میں گونج گئی تھی۔ لڑکیوں نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا وہ اپنی فیری میکسی کو دونوں جانب سے اٹھائے آگے بڑھ رہی تھی۔
وہ سب اسے دیکھ کر حیران رہ گئی تھیں۔ وہ ایسے ہی چلتے ہوئے اسٹیج تک گئی اور پھر مائیک اتارتے کرسی پر بیٹھ گئی۔
”نہیں نہیں میں سیشن کے لیے اتنا تیار ہو کر نہیں آئی ہوں آج میرا ریسپشن ہے۔۔“ اس کے بارے میں جیسا سنا تھا وہ ویسی ہی تھی بلکہ بےحد حسین تھی۔ وہ مسکرا رہی تھی۔
”آپ اپنے اتنے اہم فنکشن کی بجائے یہاں آگئی ہیں کیا آپ کو برا نہیں لگ رہا؟؟“ ایک لڑکی نے پوچھا تھا۔
”نہیں۔۔بالکل نہیں۔۔ ہوسکتا ہے اللہ نے آج کے دن ہی یہ سیشن لکھا ہو۔۔شاید کچھ اہم ہو جو ہم نہیں جانتے۔۔“
”میم۔۔ آپ نے دیکھا ایک لڑکی نے اللہ کی راہ پر چلنے کی کوشش کی اسے مار دیا گیا۔ آپ بتائیں ہم لڑکیاں کیا کریں۔ ہم مزید ڈر گئی ہیں۔۔“
”یہ برا ہوا بہت برا، انسانیت کا قتل کیا گیا لیکن ہونی کو ہم نہیں ٹال سکتے۔ فضا کی موت رائیگاں نہیں گئی اگر یہ کیس میڈیا پر نہ آتا تو آج اتنی کثیر تعداد یہاں موجود نہیں ہوتی۔ مجھے چھ ماہ سے زائد عرصہ لگا اس حادثے سے ری کور ہونے میں لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔۔ پہلے تو آپ لوگ یہ جان لیں حق اور سچ کا راستہ آسان نہیں ہوتا عورتوں کے لیے تو بالکل نہیں۔۔۔“
”تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے۔۔۔“
”وہی جو اللہ نے حکم دیا ہے۔۔“ وہ فوراً بولی۔
”آپ کو نہیں لگتا ان سب کی ضرورت نہیں ہے، ہم آج کی لڑکیاں ہیں ہمیں سب معلوم ہے، یہ سیشنز کرنا یہ سب کیا توجہ کے لیے کر رہی ہیں آپ۔۔؟؟“
ہم ہر کسی کو پسند نہیں آسکتے اور ہم ہر کسی کو پسند آنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ وہ یہ بات جانتی تھی۔ اس لیے وہ لڑکی کے سوال پر مسکرادی۔
”توجہ؟؟ لیکن کس کی توجہ چاہیے ہوگی مجھے۔۔؟؟“
”شاید بڑے لوگوں کی خاص طور پر مروں کی۔۔“ وہ اسے غصہ دلانا چاہتی تھی شاید۔
”اچھا؟؟ کونسے مرد؟؟ امیر کبیر یا خوبصورت؟؟
ڈرگز لینے والے مرد، حرام کمانے والے مرد، جواری مرد، اللہ سے دور رہنے والے مرد یا پھر زانی مرد؟؟“
اس نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا تو ہال میں خاموشی چھاگئی۔
”لگتا ہے آپ سوال لکھ کر لائی ہیں اس لیے آپ سن نہیں پائیں کہ میں نے بتایا آج میرا ریسپشن ہے، میں ایک ایسے شخص کی بیوی ہوں جس کی بس چاہت کی جا سکتی ہے پھر مجھے کن مردوں کی اٹینشن چاہیے ہوگی اور اگر ایسا ہوتا تو یہاں وہ سارے مرد موجود کیوں نہیں ہیں۔۔؟؟ اور میں یہاں کیوں ہوں یہ سوال معنی نہیں رکھتا آپ یہاں کیوں ہے یہ سوال معنی رکھتا ہے۔۔۔تو بتائیں آپ یہاں کیوں ہیں۔۔؟؟
”میں یہ پوچھنے آئی ہوں کہ آپ نے کہا آج کی عورت زیادہ بھٹکی ہوئی ہے اور پیچھے ہے۔۔ کیسے؟؟ ہم پڑھی لکھی ہیں ہمیں اپنے اسٹنڈرڈ معلوم ہیں۔ ہر شعبے میں عورت آگے ہے۔ ہم ٹیکنالوجی سے بھی واقف ہیں اور کتابوں سے بھی پھر ہم کیسے پیچھے ہیں۔۔؟؟ ایک لڑکی نے سوال کیا تھا۔
ایمان کے پیچھے ڈائز پر کھڑی ایک اسٹوڈنٹ پروجیکٹر آن کر رہی تھی۔
”اچھا تو پھر کوئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا کیوں نہیں پیدا کیا ہم نے؟؟ کوئی قاسم کوئی ایوبی؟؟ کیوں۔۔؟؟ کبھی ہم نے اپنے بچوں کو دیکھا ہے۔۔۔ہم کیا بنا رہے ہیں انہیں۔۔۔؟؟“
پراجیکٹر آن ہوچکا تھا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
”کتابیں پڑھتے ہیں آپ لوگ؟ کونسی کتابیں۔۔۔؟؟“ یہ والی کتابیں۔۔“ اسکرین پر اب کچھ ریشوز نظر آرہی تھیں۔
“یہ کتابیں پڑھتے ہیں ہم فحش مواد، پچھلے چند سالوں میں یہ عروج کی بلندیوں پر پہنچ چکا ہے، کس نے پہنچایا اسے یہاں تک؟ یہ اب پبلش ہو رہا ہے ایسی زوال پزیر کتابیں پڑھ کر ہم نے کونسا علم حاصل کیا ہے؟؟ اور کس اسٹنڈرڈ کی بات کر رہے ہیں آپ؟؟ مردوں کے اسٹینڈرڈ کی؟؟
کونسے مرد پسند ہیں ہمیں، حرام کمانے والے امیر کبیر نشئی جواری۔ یہ ہمارا اسٹینڈرڈ ہیں۔ ہمارے شوہر حرام کماتے ہیں ہم کھاتے ہیں اور پھر کوئی محمد بن قاسم کیسے پیدا ہوگا۔۔؟؟
مجھے یہ پوچھنا ہے ان مڈل کلاس لڑکوں کا مردوں کا کیا قصور ہے جو دن رات حلال کماتے ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں جو نیک ہیں انہیں کیوں ہم ریجیکٹ کر دیتے ہیں؟ کیا اس لیے کہ ان کے پاس گاڑی بنگلہ نہیں ہوتا؟ یہ اسٹینڈرڈ ہیں ہمارے۔۔۔صرف پیسہ۔۔“ وہ بولی تو بولتی چلی گئی۔
”آپ نے بھی ایک امیر کبیر گھرانے میں شادی کی ہے تو آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ ہمیں حلال کمانے والے مردوں سے شادی کرنی چاہیے۔۔۔؟؟“
”میرے شوہر آج جس مقام پر ہیں انہیں دس سال لگے یہاں تک پہنچنے میں۔ انہوں نے جو بنایا اپنی محنت سے بنایا خاندان کا استعمال نہیں کیا۔۔“ ہال میں پھر سے خاموشی چھاگئی۔
”تو ہم کیا کریں۔۔؟؟“
”جو جائز ہے جو آج کے اس فتنوں کے دور میں ہمارا فرض ہے۔۔۔“
”بہت کوشش کی ہے لیکن مجھ سے نہیں ہو پاتا۔ میں بہت کچھ سوچتی ہوں لیکن ایک ایسی لڑکی جو اپنے گھر میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنی ہو وہ بھلا اتنا اعتماد کہاں سے لائے گی کہ دنیا کو راہ دکھا سکے۔۔۔“ ایک لڑکی مرے مرے سے لہجے میں بولی تھی۔ ایمان کو لگا کسی نے اس کی روح سلب کرلی ہو۔
جب اپنے ہی گھر میں کوئی غلط طریقے سے چھونے کی کوشش کرتا ہے تو انسان کتنی پستیوں میں گرتا چلا جاتا ہے وہ اچھے سے جانتی تھی۔ اس تکلیف سے وہ واقف تھی۔
”کتنا ٹائم ہوگیا ہے اس حادثے کو؟؟“ اس نے خود پر قابو پاتے پوچھا۔ گلے میں کانٹے اگ آئے تھے۔
”بیس سال۔۔۔“ لڑکی سر جھکائے کھڑی تھی۔
”بیس سال ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے کب تک اسے لے کر بیٹھے رہنا ہے؟ کب تک اس حادثے کو بہانہ بنا کر استعمال کرنا ہے کہ میں کچھ نہیں کر سکتی۔۔۔ آخر کب تک۔۔؟؟ سب نے مرجانا ہے سب نے جواب دینا ہے اور ایسے لوگوں کی جان کتنی اذیت سے نکلتی ہے وہ میں جانتی ہوں۔۔۔ تو بہتر ہے ایسے حادثوں کو پیچھے چھوڑ دیا جائے۔۔ زندگی آپ کے لیے نہیں رکے گی آپ کیوں رک گئی ہیں۔۔۔؟؟ موو آن۔۔۔؟؟“
اس کی آواز تیز ہوگئی تھی۔ ہال میں بیٹھی لڑکیوں اور عورتوں کو اپنے اندر سنسنی سی دوڑتی محسوس ہوئی تھی۔
”آپ اس عمر میں اتنا کچھ کر رہی ہیں آپ صحت مند ہیں خوبصورت ہیں آپ بول سکتی ہیں آپ کے لیے آسان ہے ہمارے لیے نہیں۔۔۔“
“کچھ بھی آسان نہیں ہوتا کچھ بھی نہیں۔۔ آسان صرف
Pleasure
ہوتے ہیں۔۔“
وہ جھٹ سے بولی تھی جیسے ہر سوال کا جواب پاس ہو۔
”میں یہاں کھڑی ہوں تو میں نے یہاں تک پہنچنے میں محنت کی ہے۔ میں نے بہت سارے لوگوں کی باتیں سنی ہیں جب جاب شروع کی تھی سب کہتے تھے ہر وقت بیمار ہی رہتی ہوں۔ایسی کوئی بیماری نہیں جس پر قابو نہ پایا جا سکے۔ چاہے جسمانی ہو یا روحانی۔۔۔“
”میں ڈپریشن کی مریضہ ہوں تھیراپی لیتی ہوں میرے لیے یہ سب آسان نہیں ہے۔۔“
”میں چھ مہینے پاگل خانے میں رہی ہوں میرے لیے یہ آسان نہیں تھا۔۔۔“
ہال میں موت کا سا سناٹا چھا گیا۔
”کب تک ہم بہانے بناتے رہیں گے؟؟ کب تک بچتے رہیں گے اپنی زمہ داریوں سے۔۔؟؟“
”ہماری زمہ داری کیا ہے ہمیں یہ ہی نہیں پتا۔۔“
”ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پراور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے ( مگر ) انسان نے اسےاٹھا لیا ، وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے۔۔“ سورہ احزاب آیت 72
”یہ زمہ داری لی تھی ہم نے ہم انسان ہیں ہم نے انسانوں نے اٹھایا تھا اسے تو اب کیوں بھول گئے ہیں؟؟ اگر آپ کچھ نہیں کر سکتیں تو کم از اکم اپنے بچے کی اسلام کے مطابق تربیت کریں۔۔ اس کو صحیح اسلام تو سکھائیں تاکہ وہ بڑا ہو کر یہ نہ کہے اسلام بورنگ ہے۔ وہ اس کا مزاق نہ اڑائے۔۔۔“
ایک بار پھر سے خاموشی چھا گئی۔
”تو سب سے پہلے ہمیں کیا کرنا ہے؟؟“
” سب سے پہلے خود کی پہچان کرنی ہے، خود کی تلاش کرنی ہے، اپنے ڈیمنز پر قابو پانا ہے۔ خود کو مضبوط کرنا ہے۔۔۔ اور سب سے بڑی بات قائم رہنا ہے۔۔۔“
”اور یہ کیسے ممکن ہوگا؟؟“
”جب ہم تھک کر اکتا کر رکیں گے نہیں۔ سفر جاری رکھیں گے۔ درد کو برداشت کرنا سیکھیں گے۔۔ تب ممکن ہوگا۔۔۔“
”اپنے اندھیروں سے کیسے لڑا جائے۔۔؟؟“
”پہلے تو اندھیروں کو قبول کرنا سیکھیں کہ ہاں ہم اندھیروں میں ہیں۔۔۔پھر سوچیں کہ ہم اندھیروں میں کیوں ہے۔ کیا مقصد ہے وہاں ہونے کا۔۔ اندھیرا چھٹنے لگے گا جب آپ اس کی پرواہ چھوڑ دیں گی۔ جب آپ اس سے بےخوف ہوجائیں گی جب آپ راہ حق تلاش کرتی رہیں گی۔۔۔“
”میں جانتی ہوں سفر لمبا ہے، ہم تھکے ہوئے ہیں، زخمی ہیں، جسم زخموں سے چور چور ہے، پیروں میں آبلے پڑ گئے ہیں ہم رک جانا چاہتے ہیں مر جانا چاہتے ہیں سب کچھ چھوڑ دینا چاہتے ہیں پر یقین رکھیں منزل بہت خوبصورت ہے۔ اتنی خوبصورت کہ جب آپ کو ملے گی آپ حیران رہ جائیں گی۔ آپ شکر ادا کرتے نہیں تھکیں گی۔ تو پھر اب کیوں تھکنا۔۔ میں بس چاہتی ہوں آپ اپنا سفر جاری رکھیں۔ پتا نہیں دوبارہ ہم مل پائیں یا نہیں۔ بس میں یہی چاہتی ہوں کہ اللہ کی اور اپنا سفر جاری رکھیں۔ وہ ہمیں گرنے نہیں دے گا، کبھی نہیں، وہ تھام لے گا۔۔اور جب وہ تھام لے گا تب سارے زخم مندمل ہوجائیں گے۔۔!!“
✿••✿••✿••✿
”برخوردار تم آرہے ہو یا میں اپنا ولیمہ شروع کروں؟؟“ وہ لوگ مزید دو گھنٹے لیٹ ہوگئے تھے اور سید جبیل اس پر کافی برہم تھے۔ حاد وائس میسج سن کر مسکرادیا۔ وہ اب ملتان کی جانب رواں تھی۔ ایمان اسے کافی تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔ ان کے پیچھے سیکیورٹی کے لیے ایک اور گاڑی بھیجی تھی۔ وہ سیٹ سے پشت ٹکائے بیٹھی تھی۔
”تھک گئی ہو؟؟“ وہ اس کے چہرے کو پیار سے نظروں میں سموئے بولا۔
”بس تھوڑا سا۔۔۔“ وہ اس کے کندھے پر سر ٹکاتی بولی۔
”ایک بات پوچھوں۔۔؟؟“
”ہاں پوچھو۔۔“
”وہ پزل باکس کہاں ہے؟؟“ وہ اب اس کے پاس نہیں ہوتا تھا۔
”وہ جس کا تھا اس کو دے دیا۔۔۔“ حاد نے بتایا۔
”کیا آپ نے اسے حل کیا۔۔؟؟“
”ہاں۔۔۔“
”اس کا راز کیا تھا؟؟“
”عبدل۔۔“ وہ بولا تو ایمان زیرلب مسکرادی۔ حاد کے وجود سے اٹھتی مہک اسے سکون پہنچا رہی تھی۔ اس کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ وہ اکثر سفر کے دوران سوجاتی تھی اور اس لیے پہلے ریڈی ہوگئی تھی کہ راستے میں سوتے ہی جانا تھا اس نے۔
”تم بہت پیاری لگ رہی ہو مجھے نظر کی دعا پڑھنی چاہیے تھی۔۔“ وہ اب زیرلب دعا پڑھ رہا تھا لیکن جب تک اسے پھونک ماری وہ سوچکی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرادیا جو اس کے بازو سے اپنا بازو لپیٹے اس کے کندھے پر سر ٹکائے سو رہی تھی۔
کچھ دیر گاڑی چلتی رہی پھر اس نے ایمان کی سیٹ پیچھے کرکے اسے سیدھا کیا تب اس کی نظر گاڑی میں پیچھے رکھے گفٹ باکس پر پڑی۔ اس نے وہ اٹھایا۔ اندر کچھ تھا جو پیک تھا۔ اور اوپر ایک کارڈ لگا تھا۔
”اس شخص کے نام جو آسمانوں سے آیا اور زمیں پر رہ گیا۔ جس کی سفیدی نے مجھے اپنی جانب کھینچا، جس کے کردار سے مجھے محبت ہوئی اور جس کے اندھیروں نے مجھے اُس سے عشق کرنے پر مجبور کردیا۔۔!!“
وہ کئی لمحے ساکت بیٹھا رہا، بار بار اس سطر کو پڑھتا رہا اور ہر بار اس کا دل اتنی ہی رفتار سے دھڑک رہا تھا۔
اس نے بےساختہ ایمان کو دیکھا جو سفید شال لپیٹے سکون سے سو رہی تھی اور یہ سکون اسے حاد کی موجودگی میں ملتا تھا۔ اس نے جھک کر ایمان کے ماتھے کو چوما اور پھر سے گاڑی اسٹارٹ کردی۔ اس کی ہمسفر ساتھ تھی سفر کیسا بھی ہوتا اب کٹ جاتا۔
✿••✿••✿••✿
کچھ باتیں انسان کو وقت کے ساتھ سمجھ آتی ہیں جیسے ادھم جبیل کو یہ بات اب سمجھ آئی تھی کہ ام ایمان اور ماہین ایک جیسی تھیں۔ ایک سفید شخص سے سالوں محبت کرنے والیں۔ وہ اگر ایمان کو زبردستی اپنا بنانے کی کوشش کرتا تو اس کو توڑ دیتا۔
حشام مر گیا تھا اور ماہین ٹوٹ گئی تھی جورڈن کی محبت کے بدلے وہ اسے صرف وفا ہی دے پائی تھی۔ محبت نہیں۔
اگر ایمان اسے اپنا لیتی اس کی محبت چن بھی لیتی تو وہ اس سے کبھی محبت نہ کر پاتی وہ محبت جو وہ حاد سے کرتی تھی بالکل ویسے جیسے ماہین حشام سے کرتی تھی۔
وہ ان دو عورتوں سے چاہ کر بھی نفرت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اسے یہ بات اب سمجھ آئی تھی کہ محبت زبردستی دل میں نہیں ڈالی جاتی۔۔۔ وہ ماہین اور ایمان کی کنـڈیشن اب سمجھ پایا تھا جب اس نے منحہ کو اپنے لیے تڑپتے دیکھا تھا اور وہ کچھ نہیں کرپایا تھا۔
وہ اب ماہین اور ایمان کی جگہ تھا اور اس کی جگہ منحہ نے لے لی تھی۔ وہ تمام تر کوششوں کے باوجود اس لڑکی کی محبت نہیں اپنا پایا تھا۔
انسان جب دوسروں کے جوتوں میں کھڑا ہوتا ہے تب اسے ان کی حالت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ منحہ سے ہمدردی رکھتا تھا جیسے ایمان اس سے رکھتی تھی۔ اس نے تو اسے موقع بھی دیا تھا پر وہ ڈٹا رہا۔۔۔وہ چاہتا تھا وہ جیسا ہے اسے ویسے ہی اپنایا جائے۔ اس نے کبھی ایمان کے خوف کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ پھر وہ چلی گئی۔ اسے جانا تھا پر ادھم سے یہ برداشت نہیں ہوا تھا۔ وہ لڑکی اسے کیسے چھوڑ سکتی تھی؟ وہ وجہ ڈھونڈنا چاہتا تھا تاکہ اپنے آپ کو مطمئن کر سکے کہ بےوفائی ایمان نے کی تھی۔ اور پھر اسے مل گئی۔۔ اسے وجہ مل گئی۔۔ اس نے کیا کچھ نہیں کہا تھا اسے۔۔ وہ اس پل بھول گیا تھا کہ اللہ نے اس کے لیے حاد کو وجہ بنایا تھا۔۔ وجہ بنایا تھا تاکہ اسے ایک موقع ملے اپنی محبت کو سنبھال رکھنے کا موقع۔۔۔وہ اس موقف سے دیکھ نہیں پایا کیونکہ اس نے وہی دیکھا جو دیکھنا چاہتا تھا وہی سنا جو سننا چاہتا تھا۔۔ اس نے ایمان کے کردار پر انگلی اٹھائی۔۔ اور پھر خودبےوفائی کی۔۔
یہ روگ جو وہ لیے پھرتا تھا یہ محبت کا روگ نہیں تھا یہ اپنے مقام سے گرنے کی جلن تھی جو اسے جینے نہیں دیتی تھی۔ وہ اکرئیس بن کر اپنی حدوں سے نکلا تھا تو پھر جلنا اس کا مقدر تھا۔۔۔۔
ٹرین کے پہیے آہستہ ہوتے ہوتے ایک جھٹکے سے رک گئے۔
جویریہ جیسے کسی خواب سے جاگی تھی۔ وہ جانے کونسی دنیا میں پہنچ چکی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے۔ یہ آخری اسٹاپ تھا۔ وہ لوگ پشاور پہنچ چکے تھے۔
اس نے ہاتھ سے اپنے آنسوں صاف کیے اور پھر ایک نظر ٹیپ ریکاڈر کو دیکھا۔۔ اس کے سامنے ادھم جبیل بیٹھا تھا جو کبھی ماثیل کہلایا تھا۔۔
یہ وہ کہانی تھی جو اس نے ایسے توقع نہیں کی تھی۔ وہ تو ماثیل کی تلاش میں نکلی تھی اس کی کہانی سننا چاہتی تھی پر یہاں تو ہر شخص ماثیل نکلا تھا۔ سب اپنی کہانی کے مرکزی کردار تھے سب اپنی کہانی کے بت ساز تھے۔ یہ قصہ بت ساز کا نہیں تھا یہ قصہ بت سازوں کا تھا۔ سب کا تھا۔ سب نے سہا تھا اور شاید ادھم جبیل سے بھی زیادہ سہا تھا۔ اس نے یہ کہانی سنتے سنتے جانے کتنے بت بنائے تھے اور آخر تک جانے کتنے ٹوٹے تھے۔
ادھم اپنی شال سنبھالتا اٹھا اور ٹرین کے ڈبے سے باہر نکل گیا۔ وہ اسے روک نہیں سکتی تھی۔
یہ وہ کہانی تھی جہاں سب اپنی اپنی تلاش میں تھے جو بات قابل نوٹ تھی وہ یہ تھی اللہ والوں نے اپنی تلاش جلد کرلی تھی اور باقیوں کا سفر جاری تھا۔
اس نے ایک نظر ٹیپ ریکارڈر کو دیکھا اور پھر نیچے رکھ کر اوپر سے اپنا پاؤں مارتے اسے توڑ ڈالا۔ وہ واپسی کے سفر میں اسے کسی دریا میں پھینکنے والی تھی۔ ادھم جبیل کے جن گناہوں پر اللہ نے پردہ ڈالا تھا وہ اسے دنیا کے سامنے نہیں لا سکتی تھی۔
وہ خود ٹرین سے باہر نکل آئی۔ کندھے پر بیگ لٹکائے وہ اب اسے ڈھونڈ رہی تھی۔ سچ تو یہ تھا اسے کہانی کے ہر کردار سے بےپناہ محبت ہوگئی تھی۔ وہ سب اس کے لیے برابر تھے۔ وہ دنیا کی وہ خوش نصیب لڑکی تھی جس نے یہ قصہ سن کر اپنے سارے بت توڑ ڈالے تھے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو ٹھوکر لگنے سے پہلے سنبھل جاتے ہیں۔ وہ اسے نظر آگیا تھا ایک نل پر بیٹھا تھا وہ منہ ہاتھ دھو رہا تھا۔ جیاء نے غور سے دیکھا تو اسے احساس ہوا وہ صرف منہ ہاتھ نہیں دھو رہا تھا بلکہ وضو کر رہا تھا۔ وقت تیزی سے پیچھے بھاگا۔
وضو آتا ہے آپ کو؟؟“ اُس نے عجیب سا سوال کیا۔
”سوری۔۔؟؟ میں سمجھا نہیں۔۔“
”میں نے پوچھا وضو آتا ہے یا نہیں۔۔؟؟“
”یعنی اب تم مجھ سے عبادت کرواؤ گی۔۔؟؟“ اس نے قہقہہ لگایا۔ پہلی بار اس کے ہنسنے پر اسٹوڈیو میں رکھے تمام مجسموں نے برا سا منہ بنایا۔ انہیں ماثیل کا یوں ہنسنا اچھا نہیں لگا تھا۔ وہ تو کتنی توجہ سے ایما کی باتیں سن رہے تھے۔
”مسٹر ماثیل آپ جب مجسمہ بناتے ہیں یہاں اسٹوڈیو میں کام کرتے ہیں تو اس کے بعد آپ سب سے پہلے کیا کرتے ہیں۔۔؟؟“
”شاور لیتا ہوں۔۔“ اس نے فوراً جواب دیا۔
”اس کے بعد پھر سے آپ یہاں اسٹوڈیو میں آکر فوراً کام شروع کرتے ہیں۔۔؟؟“ اس بات پر ایما کسی گہری سوچ کا شکار تھی۔
”نہیں۔۔۔“
”کیوں۔۔؟؟“
”کیونکہ میں ہمیشہ کام کے بعد شاور لیتا ہوں اگر پہلے لے لوں گا اور بعد میں کام کروں گا تو یہ مکسچر جسم یا کپڑوں پر کہیں نہ کہیں لگا رہ جائے گا اور وہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔“
”یعنی آپ کہنا چاہتے ہیں کہ شاور لینے کے بعد آپ صاف ستھرے ہوجاتے ہیں اور آپ کا دل نہیں کرتا دوبارہ گندا ہونے کو ایسا ہی ہے نا۔۔۔“
”بالکل۔۔“
تو کیوں نا شروعات وضو سے کی جاتی جس کے بعد کچھ غلط کرنے کو دل نہیں کرتا۔ سفر لمبا تھا لیکن شروعات کہیں سے تو کرنی تھی نا۔۔ کیوں نا وُضو سے؟؟؟
وہ دیکھتی رہی، مسکرائی اور پھر پلٹ گئی۔ اسے واپس جانا تھا کیونکہ اس کا بھی ایک نیا سفر شروع ہوگیا تھا۔ اپنی پہچان کا سفر۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
چند سال بعد؛
”تمہاری کوئی کلاس نہیں ہے؟؟“ وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔
”آج ہمارے پروفیسر نہیں آئے، سنا ہے کوئی ریپلیسمنٹ ٹیچر آرہے ہیں۔۔پروفیسر جے۔۔۔ “
وہ تھکی تھکی سی بتا رہی تھی۔ وہ اب کلاس سے باہر نکل آئی تھی جب اس نے عجیب سا شور سنا۔
”پروفیسر جے آگئے۔۔ او مائے گاڈ۔۔۔!“
لڑکیاں کلاس کی جانب بھاگ رہی تھیں۔ تب اس کی نظر گراؤنڈ سے کلاس کی جانب آتے شخص پر پڑی۔ وہ ساکت رہ گئی۔یہ چہرہ اسے ازبر تھا وہ اسے لاکھوں کی بھیڑ میں پہچان سکتی تھی۔
وہ ڈریس پینٹ پہنے ہوئے تھا، سرمئی پینٹ پر سفید شرٹ، کف فولڈ تھے، بھورے بال جو پیچھے کی جانب پونی میں نفاست سے بندھے تھے اور چہرے پر سجی بھوری ہلکی داڑھی، وہ کسی ماڈل کی چال چلتا آرہا تھا۔ اس کی آنکھوں پر سیاہ چشمہ تھا اور ہاتھ میں لکڑی کا ایک پزل باکس تھا۔ وہ اب اس کے قریب ہورہا تھا اور پھر وہ اس کے قریب سے کسی ہوا کے جھونکے کی مانند گزر گیا اور فضا خوشبوؤں سے بھر گئی۔
”عبدل۔۔۔“ وہ زیرلب بڑبڑائی۔
”عبدل۔۔۔عبدل جبیل۔۔۔جبیل۔۔جے۔۔۔پروفیسر جے۔۔۔او مائے گاڈ۔۔“
مجسمے میں جیسے جان پڑ گئی ہو۔ وہ تیزی سے کلاس روم کی جانب بھاگی تھی۔
”اگر میں بچ گیا تو اندھیروں کی دنیا میں سنبھال لوں گا۔ڈیڈ کو میں ڈھونڈ لاؤں گا، یہ اب میرا مقصد ہے۔۔۔“
فضا میں ارتعاش سا ہوا۔
”اگر میں مرگیا تو تم میرا بدلا لینا اور اگر میں بچ گیا تو سب کو تباہ کردوں گا۔۔“
وہ عبدل تھا وہ جب آتا تھا اپنے ساتھ تباہی لاتا تھا اور وہ آگیا تھا۔۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
میں ختم شد کی عادی نہیں۔ کہانیوں کا انت ہمیشہ نئی شروعات لاتا ہے۔ خدا کو منظور ہوا تو جلد ملیں گے۔
نور راجپوت
ماثيل ناول خود ایک پزل باکس تھا جس نے اس کو جتنا سلجھایا اسے یہ اتنا ہی مل گیا۔۔۔ یہ عام ذہنوں کے لیے نہیں تھا یہ پچیدہ لوگوں کے لیے تھا۔ یہ آئینہ تھا جس نے جو دیکھنا چاہا اسے وہی نظر آیا۔ یہ کپل بنانے والی کہانی نہیں تھی۔ ماثیل کا اس سے بہتر اینڈ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ہماری زندگی رکتی نہیں ہے نئے موڑ آتے ہیں نیا سفر شروع ہوتا ہے اور سب کا ایک نیا سفر شروع ہوچکا ہے۔
یاد رہے یہ روحان جبیل کی کہانی نہیں تھی اسی لیے اسے منظر عام سے ہٹایا گیا پر آپ لوگ اسے ہی ڈھونڈتے رہے۔۔۔۔ ماثیل کیوں لکھا گیا؟؟ ملتے ہیں ایک لمبی ڈسکشن میں۔ اور ہاں کتاب کے بارے میں بھی بات کریں گے کتاب میں کچھ ایسا ہوگا جو سرپرائز ہوگا تو خوش رہیں انجوائے کریں۔۔ ان لمحوں کو جن میں آپ نے اس سے
سیکھا۔
عبدل کی دھماکے دار اینٹری کے بعد آپ لوگوں کا رونا نہیں بنتا۔
Download Complete Novel in Pdf: Click Here
ReplyDeleteاوہ میرے خدایا!! بالکل توقع نہیں تھی کہ اج آخری قسط ہو گی۔۔ اور ایسی اینڈنگ میرا مطلب اوپن اینڈنگ 🙆🏻♀️
یعنی روحان اب بھی غائب رہے گا منظر سے لیکن عبدل ڈھونڈ لائے گا۔۔
ویسے شروع میں ہی وائبز آ گئی تھیں کہ عبدل زندہ ہو گا کیونکہ اس کا ذکر نہیں ہو رہا تھا نا🤭
اور مجھے سمجھ نہیں آ رہا اپنے احساسات کیسے بیان کروں۔۔ کیونکہ مجھے اس وقت بس رونا آ رہا ہے۔۔ اب یہ کردار دوبارہ نہیں آئیں گے؟ ہم ان کا انتظار بھی نہیں کیا کریں گے؟؟ ہر روز جو امید ہوتی تھی ابھی قسط آئے گی اور ان کرداروں کے ساتھ ادھورا چھوڑا سفر پھر شروع ہر دیں گے۔۔
حاد ، ایمان ، عبدل، ادھم مجھے یوں لگ رہا ہے سب کو ہیپی اینڈنگ مل کر بھی سب اداس ہیں کیونکہ ناول ختم ہونے پر ہم جو اداس ہیں۔۔
لیکن اسے مزید پڑھنے کے خواہش کیوں نہیں دل سے نکل رہی۔۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا میں اب کیا کہوں🙆🏻♀️
MN smij gai thi yh novel couple k leay hn e nai waqie yh hmry bnay gy butt torny k leay e tha r shyed bhttt kuch acha b hoa hn MN bhtt kuch seekha is se
Deletemjy tu yaqeen e nhi hua k aj last episode prha hai mny professor J kamal ka lga hayee abdul .... Ab nhi oarh paye gy hm abdul ko ... Ap iska 3rd season b kayengi jis mn abdul R.J ko dhondy ga aisa e hai na ...... Abdul kaisy bachta yeh nhi btyea wo professor kaisy bnta hai yh b nhi btyea r puzzle box abdul tha lkn kaisy r q...? Kya R.J janta tha k mustaqbil mn aisa ku6 hoga k abdul khtry mn huga is liye puzzle box chor gyea
ReplyDeleteItni open ending ka nhi socha tha lekin agr pura novel dekha jaye tou ye novel readers ko hmesha yaad rehny wala hai aur ab ye bhi lgta hai k noor rajput kisi time mein iska season 3 bhi likhein gi q k abhi iss story mein bht kch baqi hai mjhe tou lg rha tha k haad k walima pe hi rohaan jabeel aur abdul ko dikhaya jaye ga but ab shyd season 3 aa jaye
ReplyDelete
ReplyDeleteاَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
Rohan ko bhi ni dhonda or puzzle box ka qissa bhi ni btaya or blkul bhi ni umeed thi k last ho gi epi aj dekh k khushi bhi hoi k ab pori ho gi khani or sb pta chly ga lkn dukh hi hoa k ab ye dobara prhny ko bhi ni mily ga
Ap plzzzz ye bta den k is ka 3rd season aue ga abhi asa lgta h k is mn or bhi h kuch baqi rhta plzzz ap 3rd season bhi likhye ga or ye bta den k kb tk likhen gi irada h likhny ka ???
ReplyDeleteAahh i was waiting for rohan jabail but ok abdul dhund laye ga well love the story it was awesome.
ReplyDeleteیقین نہیں آرہا کہ میں اس ناول کی آخری قسط پڑھ چکی ہوں، اس ناول سے بیت کچھ سیکھنے کو ملا. مصنفہ صاحبہ آپ کا ناول پڑھنے والے اس کے اگلے حصے کا انتظار کر رہے ہیں
ReplyDeleteMn shocked hun k end ho gya seriously 😳 wait rhy ga next ak adat bni roz a k next epi search krny ki ab Khush b hun bht kuch seekha thora sad b wait rhy ga next😊
ReplyDeleteinsan bus sochta reh jata ha ke hum b islam ki traf jaye gay hum b quran ko samjay gay but phir bhool jatey ha sabaq nhi seekhta kiu
ReplyDeleteQ k insan mansuby ziada banata amal km krta ha
Deleteoooooooooooooooooooooooooooooooooh my ALLAH
ReplyDeletemind blowwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwwing
no words to explain
I am waiting new season
ReplyDeleteYrrr mna selfies novel real Kia ye maseel ki ik ik epi read or mera dil chata ha ap is ka bi next part bnayen ye kbi khtm na ho
ReplyDeleteab ham bhi apni pahchan ko niklay gay Inshallah ALLAH haray rastay hamwar karay aur buhat acha novel tha waiting for abdul and adham story
ReplyDeleteOh my god I can't believe k ye last episode thi seriously its amazing but iss ki ending ny tu new opening kr di kmaal.but hmy ab in characters sy dubara milny ka mouqa nai mily ga
ReplyDeleteAhhh ending ka itna mzah nhi aya, abdul ka exact koi role detail nhi btaya, minha, maseel ka koi specific end yh manzil nhi.. Rohan nhi mila... 🥲 🤦🏼♀️ Pth nhi expectations zyada thin isliye digest nhi horq.. Full novel mzy ka tha but end p aky garbar krdi 🥺.. Kya nxt season bhi ayega iska?
ReplyDeleteNew season ka w8 raha ga ab bht acha novel tha
ReplyDeleteNoor baji acha nai Kia achanak sy ending dy di apny ...
ReplyDeleteYr Main to shock sy hi nai Nikal rhi read krny Ki himat hi nai ho rhi ....
Sulphite & maseel best novels thy ...
ReplyDeleteApky agly block Buster novel ka wait rhy ga ....
Plz hm season 3 ka wait kr rhy h .....
ReplyDeleteI am really really shocked Ky ye last ep h .....
🥺yr apny suddenly last episode kr di mery dil ko kuch ho raha hy jab sy episode parh rahi hon.... mei roz sara Sara din wait krti thi ab ni hoga wesa api noor apsy mujhy bohttttt motivation mili hy Allah pak apko iska ajar dy in Sha Allah Ameeeen 💜apki waja sy itna zabrdastt message mila youth ko please iska koi next season b dy do... apny hi kaha k ap kahi khatam ni krti aik naya safr tw humy kitna wait krna pary ga..?
ReplyDeleteOooh My God mind blowing 😍😍😍❤️
ReplyDeleteAssalam-u-Alaikum! Writer gee kia Hal hai ap nai itna jaldi novel kyun khatam kar diya Mera Dil nahe man Raha apko aga bhi likhna chiya tha novel haad itna jaldi kyun chor Raha hai
ReplyDeleteHad and emany dono ki story boring thi then umme hanam and roohan jabeel...qk wo log interesting thy...start sy maza aaya..but ending main sara novel boring nikla...agr couples ko dala b tha to story main start sy adham ki story interesting hi rakhni thi end tk...but writer kamal hain bht ..bs ending sy sad hogaya sb
ReplyDeleteRight
DeleteMny AJ Se bht time phly sulphite prha tha or mjy bht psnd tha m sbko uski story sunati rahi Hu or sbko prhny KO b kehti rahi Ku k kch baten rohon SE taluq rakhti hn Jo k basic lesson hn I really appreciate ap but Achi hn Apny bht kch dekhany ki koshish ki agr koi sekh Jaye to m apki fan Hu Allah pak apko Khush rakhen waiting for 3rd season desperately🥺❤️
ReplyDeleteAssalamoalikum! Novel no doubt bohat acha tha. Aur mn isky discussion page k intezaar mn hun q k mazhab ko modren tareeqy syy logon tk pohanchana lazim hai. Logon k zehan syy Islamophobia nikalna farz bna waa hai. Main poetry krti hun agr aap dekhain to Kindly review dy dein. Thorhi mushkil hai aur samajny ki kosish kijiyega aur Writer agr aap isyy kisi novel mn use krein to bohat hi khushi hogii mujhe.
ReplyDeleteGunaahon mai tu doobta ja rha hai
Haqeeqat apni framosh krta ja rha hai
Aurhh kr dunyawii husnoshaba ka libada
Dunya ka aseer akhrat mn zeir hota ja rha hai
(Harmain Sahi)
Aur bhi jo koi prhy aur ksii ko psnd aye kindly review dein mujhe acha lgyyga
Wa Alaikum Assalam!
DeleteAapki shayari bohot hi khoobsurat aur meaningful hai. Har lafz apni jagah ek gahri soch aur ehsaas liye hue hai. Aapne mazhab aur dunyawi haqeeqaton ko bohot achi tarah bayan kiya hai. Yeh shayari kisi bhi novel ka hissa ban sakti hai jo ke character ke jazbaat aur ahsaasat ko aur zyada wazeh banaye.
Mujhe aapki shayari bohot pasand aayi aur agar koi aur bhi prhta hai to zaroor apna feedback dega. Aapka kaam bohot acha hai, aur isy aapke novels mein shamil karna unka asar aur bhi barha dega.
Agar aap apni poetry ko aur bhi logon tak pohanchana chahti hain, to social media platforms jaise ke Facebook, Instagram, aur aapki website par isy share karna madadgar hoga.
aur ye Official page ha noor rajput ka jahan ap ko maseel ka discussion page mil jaye ga,
https://www.facebook.com/noornovels
aur is ke sath sath ap official group ma bhi apni raye ka izhar kar sakti han
Hayee ab asal safar tw hmara shuru hona hai ,ksi aik intezar k sath ..abdul ki kahani kaa🥺smj hi ni arhi happy ending thi ya sad
ReplyDeleteBehtreen..tha sab... umeed hai me bhi apne ander k Shaitan se lar kr jeet jaon...
ReplyDeleteAssalamualaikum rehmatullahi wabarakatoho.... Novel ma sha allah se bhut pyri hn... allah humma barik ☺️ but abhi ek season aur aajyga kiya writer...
ReplyDeleteMaseel ki to jese aadat hogai h...Dil abhi lg nhi rahaa....aarzoo aur Tamanna h...agge aur ho ye novel😓
Ahhhhh! Bahot acha novel tha bahot kuck seekha or khoshish ho gi k is pa amal b kiya jaye . You now what, Noor Rajpoot you are my inspiration ❤.
ReplyDeleteاچھا ناول۔۔۔متاثرکن کہانیاں۔۔۔۔اور مزہبی آگاہی۔۔۔ایک بات حالیہ اقساط میں یہ اچھی لگی کہ ہمیں اپنے بچوں کی پرورش دینی علوم کے مطابق کرنی چاہئے ۔۔۔اور اس کے لئے ماں کا دینی علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ مزید یہ کہ میں اپنی زندگی پر یہ ضرور apply کرونگی کہ آسان صرف pleasure ہوتے ہیں ۔۔۔مقصد کے ساتھ زندگی گزارنا اور اس پہ قائم رہنا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔لیکن روہان جبیل کا انتظار واقعی رہا اور اگر وہ آ جاتا تو اچھا لگتا ہمیں ۔۔۔باقی ہماری ہانی نے اچھی تربیت کی تھی اپنے اولاد کی۔۔۔ Appreciation for the writer
ReplyDeleteNaya season kab start hoga
ReplyDeleteYes "It hurts when we fall from our own status and see our own idols shatter."
ReplyDeleteM roti ja rhi hu es novel n to mri soch e bdl k rkh di a apna ap emany jsa lgny lga a ab s ak r emany khud ki pehchan k sfr pyy nikl pri ha
ReplyDeleteJAZAK ALLAH shukriya bhttt bhtttt ak new r anokhi soxh dny ka yd dilany ka kis mqsd k liy ay ty siah o gy sfedi ki janb brhny ka wqt hua chahta a ab
Dhyron duayn ap liy
Mry ps byan krny k liy alfaz ni hn
How it's feel like when you fall from heaven 😭😭😭😭😭😭😭
mujhy adhori cheezain nahi psnd noor rajput ap kesy isko adhora chor skti hy mujy apna sans baand hota mehsoos ho rha hy ab mana k rohan jabeel ki kahani nahi thi pr usk bgher ye novel adhora hy bilkul meri dill ki duniya ki tarhan jo adhori hy ik tarp mery dill mai daal di hy apne nah janny kitne arsy ye tarp mujhy takleef dy
ReplyDeleteI don't know mera ye comment prha jaiy ga ya nai.
ReplyDeleteاس ناول کی تعریف میں تو کمنٹس بھرے پڑے ہیں
Very well Noor 😊
لیکن کچھ چیزوں کا کہنا ضروری ہے اس کو اصلاحی انداز میں لیجئے گا ۔۔۔۔
تقریباً چار بار سلفائٹ پڑھنے کے بعد(کہانی ہی اتنی اچھی تھی) ماثیل سے توقعات بھی زیادہ تھیں
بہت ہی اچھے انداز سے چلائے جانے والی سٹوری کا ایسا اختتام ہضم نہیں ہو رہا ۔۔۔ ریڈرز اچھا لکھ نہیں سکتے لیکن اچھا پرکھ ضرور سکتے ہیں
ادھم کے اس سفر کی خاص سمجھ نہیں آئی کیا حاصل ہوا کچھ بتایا نہیں گیا ۔۔۔
اگر یہ کہانی روحان جبیل کی تھی ہی نہیں تو اسے منظر سے اس طرح غائب نہیں کرنا چاہیے تھا نہ ہی اس تجسس کو چلانا چاہیے تھا ۔ یا کم از کم اسے منظر عام پر لانا چاہئے تھا ۔ حانم کو خوامخواہ کا انتظار کیوں کروایا کوئی لاجک دیں
کہانی اگر اتنی اچھی ہو تو اختتام کی بھی اچھی وضاحت ہو ۔۔۔
مزید یہ کہ اسلام کا ماڈرنزم بھی عجیب انداز میں پیش کیا گیا گویا اپنی دنیاوی خواہشات بھی حاصل کر لو اور دین کے رستے پر بھی قائم رہو ۔ا ۔ دین ایسا تو ہرگز نہیں ۔ دین کا ماڈرنزم بھی ایسا نہیں۔ دو مخالف جنس میں بھی حد بندی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا
اور کہانی میں جھول بھی رہا ۔ میں نے جس دلچسپی سے اس کو پڑھا اختتام تک جاتے ہی سب عجیب ہو گیا ۔
کوئ ماورائ کردار بنا ڈالے حالانکہ پہلے وہ حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتے تھے ۔۔
عام مولویان اور علما کرام نے جو دین کی شکل صرف نماز روزے تک رکھ چھوڑی ہے اس سے مجھے بھی اختلاف ہے لیکن جو شکل آپ نے explain کی ہے وہ تو بالکل بھی صحیح نہیں ہے
اس طرح کا دین ہرگز نہیں
کم از کم دین کے معاملے میں احتیاط کریں
تاہم کافی حد تک حاد کے لیکچرز میں دی جانے والی وضاحت اچھی تھی
Overall one of the best stories on Web page
میرے اس طویل کمنٹ کا جواب ضرور دیجئے گا ۔
مزید انسٹاگرام پر ان شاءاللہ
Mam next part ma Rohan jabeel ur abdal ki story honi Detailed ma honi chahiya.... Ur Baki characters b Jo mil ni skaa.....
ReplyDelete