Maseel episode 62 by noor rajput

 

Maseel Episode 62 by noor rajput

مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2

قسط_نمبر_62

نور_راجپوت


النور میں سالانہ دعا تھی۔ یہ دعا ہر سال ہوتی تھی اور اس بار یہ دعا حاد کروا رہا تھا وہ اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑا تیار ہورہا تھا اور عبدل اسے تیار ہوتے دیکھ رہا تھا۔ کل اس کی سرجری تھی۔ اس نے دیکھا تھا حاد کے چہرے سے مسکراہٹ روٹھ کر کہیں دور جا سوئی تھی۔ اب وہ اس کی باتوں پر غصہ بھی نہیں کر رہا تھا۔ 

”ایک بات پوچھوں۔۔؟؟“ وہ اپنے بال سیٹ کر رہا تھا جب عبدل نے کہا۔ 

”تم سوال کرنے سے پہلے اجازت کب سے لینے لگ گئے۔۔؟؟“ حاد کو حیرت ہوئی۔ 

 ”تم عبدل سے حاد کیوں بنے؟؟ تم چاہتے تو ساری عمر عبدل بن کر جی سکتے تھے، دشمنوں کو پتا بھی نہیں چلتا پھر حاد بننا کیوں ضروری تھا؟؟“ وہ الجھا ہوا تھا۔ 

”اگر مجھے صرف مسٹر گرے کی زندگی جینی ہوتی تو میں عبدل بن کر جی لیتا، لیکن مجھے حق اور سچ کے راستے پر چلنا تھا اور اس کے لیے سب سے ضروری تھا پہلے خو سچا بنا جائے۔۔۔ میں حاد جبیل ہوں! اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا اور اگر اللہ کے راستے پر چلنے سے میرے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو مجھے قبول ہے۔۔۔“ وہ ہیئر برش واپس رکھتے ہولے سے مسکایا۔ 

”تم دعا میں میرے لیے کیا مانگو گے؟؟“  

”بتایا نہیں کرتے۔۔۔“ اس نے کہا اور پھر اس کی وہیل چیئر کو پکڑ کر باہر لے آیا۔ کچھ دیر بعد وہ لوگ النور کی جانب جا رہے تھے۔ دونوں کے احساسات کچھ الگ نہیں تھے۔ عبدل سالوں بعد وہاں جا رہا تھا اور حاد۔۔۔۔ اسے زندگی میں یہ موقع پتا نہیں پھر کبھی نصیب ہوتا یا نہیں۔ 

                             ✿••✿••✿••✿

”زندگی میں کچھ چیزیں ہماری آزمائش کے لیے ہوا کرتی ہیں اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں پھر خود اس آزمائش میں سے نکالتے ہیں فرق بس اتنا ہے انسان اس بات کو بھول جاتا ہے ہم اپنے اعمال کے خود زمہدار ہیں۔  کسی کے لیے اس کا مال آزمائش بن جاتا ہے کسی کے لیے اس کی اولاد تو کسی کے لیے اس کی اپنی جان۔۔!! 

اور اسی طرح کچھ لوگوں کا ہماری زندگی میں آنا ہمارے قریب ہو جانا بھی ایک آزمائش ہے۔ ہمیں لگتا ہے ان لوگوں سے دوری ہمیں موت کی طرف لے جائے گی ہم زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ 

اے نادان انسان کیا اللہ نے تمہیں تنہا نہیں بھیجا تھا؟  کوئی دوسرا انسان ہوگا تمہارے ساتھ تب تم جاؤ گے یہاں سے؟؟ کسی دن کے اجالے میں، کسی رات کی تنہائی میں تمہیں اکیلے چلے جانا ہے۔ تب بھی تمہارے ساتھ کوئی ساتھی نہیں ہو گا۔ موت کو فرق نہیں پڑتا تمہارا گزارہ دنیا میں کس کے بغیر ناممکن تھا۔ موت کو فرق نہیں پڑتا تم مزید کتنا جینا چاہتے ہو۔ موت اپنے مقرر کیے وقت پر ہر حال میں آکر رہے گی۔ تمہارے چاہنے والے، تم پر مر مٹنے والیں، تمہاری موت پر چار دن رو کر اپنی زندگی گزاریں گے، یوں ہو سکتا ہے سال میں ایک دو بار تمہیں یاد کر لیں، مزید کچھ نہیں۔۔۔۔!! حساب تو تمہیں اللہ کو دینا ہے تم بتاو اللہ کے پاس کیا لے کر جاؤ گے۔۔۔؟؟“ 

حاد کی آواز لاؤڈ اسپیکر سے وہاں موجود ہر ایک زی روح تک پہنچ رہی تھی۔ وہ سب لوگ سرجھکائے ہاتھ اٹھائے بیٹھے تھے۔ سب کی آنکھں سے اشک رواں تھے۔ اس کے لہجے میں ترپ ہی ایسی تھی کہ عبدل نے اپنے خودساختہ بتوں کو چاروں جانب سے دھڑام سے گرتے دیکھا تھا۔ وہ اب گر گر کر تباہ ہورہے تھے۔ 

”آخرت کی تیاری میں کیا ہے تمہارے پاس؟؟ 

چند نمازیں، آدھی ادھوریں۔

چند روزے، غیبتوں کے ساتھ۔ 

 چند اعمال، دکھاوے کے۔

کیا یہ اعمال تمہارے گناہوں پر بھاری پڑنے کے لیے کافی ہیں؟

کیا تم اچھائی اور برائی، جنت اور دوزخ کے  معاملے میں ان اعمال کے ذریعے فتح حاصل کر سکتے ہو؟

کیا تم دیکھ نہیں رہے دنیا میں ظلم کا بول کیسے بالا ہے؟ کیا اللہ نے تمہیں اس ظلم سے لڑنے کے لیے نہیں بھیجا؟؟ کیا تم اپنے مسلمان بھائیوں کا خون ناحق بہتے دیکھ سکتے ہو؟ کیا تمہیں لگتا ہے نماز اور روزے ہماری بخشش کا موجب بنیں گے جبکہ ہم ظلم کے خلاف کچھ نہیں بولے۔۔۔؟؟ کیا ہمارے اعمال بچا لیں گے جبکہ ہم نے کبھی حق اور سچ کا ساتھ نہ دیا ہو؟ ہم نے انسانوں کو اللہ سے پہلے رکھا تو کیا اللہ ہمیں باقیوں سے پہلے رکھ لے گا؟؟ 

وہاں دنیا جیسا قانون نہیں ہو گا وہاں اللہ کا قانون لاگو ہو گا۔ بالکل برابر انصاف کرنے والا! وہاں دے دلا کر جان نہیں چھوٹتی۔

محبت میں ملے دھوکے، دل پر لگیں چوٹیں، ہاتھوں سے گنوائے شخص، دنیاوی محبت میں گزارہ ہجر یہ سب بے معنی ہے۔ یہ تو دنیا کی رسمیں ہیں اللہ آپ سے محبت کرتا ہے اور نلت زیادہ محبت کرتا ہے۔ اتنی بلند ذات کی محبت کے بعد کیا دل میں کسی غیر اللہ والے کی محبت کی گنجائش باقی رہتی ہے۔۔۔۔؟؟ 

میں اور تم مکمل نیک انسان نہیں ہے میں اور تم فرشتہ صفت نہیں ہیں، میں اور تم گناہوں میں ڈوبے ہیں۔ لیکن اللہ سے گناہوں کی معافی سب ٹھیک کر سکتی ہے میں اور تم اللہ سے معافی مانگ کر سب ٹھیک کر سکتے ہیں۔ اللہ تو ہماری ایک معافی کے انتظار میں ہے ایک توبہ کے انتظار میں ہے۔ وہ تو ہماری سننے کے لیے بے تاب ہے۔ کب میرا بندہ اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے مجھے یاد کرتا ہے کب میرے بندے کو میری ضرورت پڑتی ہے اللہ کے سامنے روتے ہوئے ایک سجدہ، بس ایک سجدہ مخلص دل سے ہماری دنیا اور آخرت سنوار سکتا ہے۔ یاد رکھو جو لوگ گناہ کرتے ہیں پھر توبہ کرتے ہیں پھر گناہ کرتے ہیں پھر توبہ کرتے ہیں پھر گناہ کر کے سچے دل سے توبہ کر لیتے ہیں اللہ پاک معاف کر دیتے ہیں بیشک وہ رحم کرنے والا ہے بیشک وہ بلند ذات کا مالک ہے۔ بیشک وہ دیکھنے، سننے اور جاننے والا ہے۔ 

اس سے پہلے وقت گزر جائے موت سر پر ہو پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہ رہے چلو آؤ معافی مانگتے ہیں توبہ کا ایک سجدہ کرتے ہیں۔ ندامت کا ایک سجدہ اور گناہوں سے بچنے کا ارادہ ہمیں آخرت میں شرمندہ ہونے سے بچا سکتا ہے۔۔۔۔!

”اے میرے اللہ تعالٰی ہم پر رحم فرما۔ اے اللہ ہمارے خود ساختہ بتوں کو توڑ دے۔ اے اللہ ہمیں اندھیرے سے لڑنے کی طاقت عطا کر۔اے میرے رب ہمیں روشنیوں سے نواز دے، اے میرے رب اس نسل کو راہنماؤں کی ضرورت ہے، ہماری یہ نسل بھٹک گئی ہے ہمیں راستہ دکھا۔ اے میرے رب میں تجھ سے ایمان کا سوال کرتا ہوں، اے میرے رب میں تجھ سے ایمان کا سوال کرتا ہوں، اے میرے رب ہمیں ایمان کی دولت نصیب فرما، اے میرے رب ہمیں ایمان پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرما۔آمین۔۔۔!!“ 

عبدل نے اپنے آنسوؤں کو گالوں پر بہتے دیکھا تھا، اس کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ اس کا دل کیا تھا وہ اتنی زور زور سے روئے کہ کبھی چپ نہ ہو۔ 

 ہاں ایک وقت آتا ہے، ایک وقت آتا ہے جب ہمیں اپنے خودساختہ بت نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے جب ہمیں انہیں ٹوٹتا دیکھتے ہیں اور آج کے دور میں انسان کی سب سے بڑی جنگ اس کے اپنے بتوں سے ہے۔ وہ جب تک خود سے نہیں جیتے گا تو کفر کے بتوں کو کیسے توڑ پائے گا؟؟ 

کیسے وہ اللہ کا نائب بن پائے گا؟؟؟ کیسے وہ اللہ سے کیا وعدہ پورا کر پائے گا؟؟ 

”اے اللہ مجھے بت شکن بنا۔۔۔آمین!!“ عبدل نے اپنے ہاتھوں کو چہرے پر پھیرا اور جب سر اٹھا کر دیکھا تو حاد اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ عبدل کو دیکھ کر ہولے سے مسکرادیا۔ 

وہ اتنا ظلم، اتنا دکھ درد کیسے سہہ گیا تھا؟؟ اس نے ظلم کا اکیلے سامنا کیسے کیا تھا؟؟ کیونکہ اس کے پاس ایمان کی دولت تھی اور جس کے پاس ایمان کی دولت ہو اسے کوئی ہرا نہیں سکتا۔۔۔!!                      

                          ✿••✿••✿••✿

”کیا اس دن تم نے کچھ نوٹ کیا تھا۔۔۔؟؟؟“ کچھ پل کی خاموشی چھائی۔ 

”میں بھی کتنا پاگل ہوں۔کیا پوچھ رہا ہوں۔ تم بھلا کیسے نوٹ کرو گی۔“ وہ خود ہی سوال جواب کر رہا تھا۔ 

”زندگی میں بہت بار میں نے حاد کو مارا ہے۔ بلاوجہ، جان بوجھ کر، غصے میں اور اسے ٹارچر کرنے کے لیے۔اس نے کبھی مقابلہ نہیں کیا۔ کرنا ہی نہیں چاہا۔ اس کے نزدیک یہ بہت ہی فضول سا کام تھا۔ اور پہلی بار وہ میرے مقابل آیا تھا۔۔“ جانے وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا۔ اس کا ذہن آج بھی اس طوفانی رات میں اٹکا تھا۔ 

”میں پہلی بار حیران ہوا۔ وہ مجھ سے اچھا فائٹر تھا یہ میں اگلے پل میں ہی جان گیاپر اُس نے اِس بار مار کھائی تو وجہ تم تھی۔“ وہ سر جھکا کر ہنس دیا۔ 

 ”اس کی نظریں تم پر تھیں۔ وہ حیران تھا۔ میں نے حاد جبیل کو زندگی میں پہلی بار حیران دیکھا تھا۔“

منظر بدلا اور اس بار وہ ایمان کے سامنے وہیل چیئر پر تھا۔وہ ڈائکریکٹ اسے سے ہی مخاطب تھا ورنہ ایمان ابھی تک ماضی کی ریکارڈ ویڈیوز کو کسی فلم کی طرح دیکھ رہی تھی۔ حاد اور عبدل کی زندگی کی فلم۔

“شاید تمہیں ایسے سمجھ نہ آئے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ اس لیے میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔۔دو بھائیوں کی کہانی۔۔۔ حاد اور عبدل کی کہانی۔۔۔!!“ 

”پتا ہے وہ عجیب تھا بچپن سے ہی، وہ روتا نہیں تھا اور مجھے اس پر غصہ آتا تھا کہ وہ کیوں نہیں روتا وہ میری طرح ضد نہیں کرتا، وہ خاموش رہتا تھا اور مجھے اُس کی خاموشی چبھتی تھی پتا ہے میں نے اُسے سیڑھیوں سے گرایا تاکہ اُسے چوٹ لگے اور وہ روپڑے، اُس کا سر پھٹ گیا خون بہنے لگا لیکن وہ رویا نہیں اور مجھے اُس سے مزید چڑ ہونے لگی۔۔۔“ 

وہ سانس لینے کو رکا۔ وہ ماضی کے اس منظر میں کھو گیا تھا اور پچھتاوہ اُس کے چہرے سے واضح جھلک رہا تھا۔ 

“مجھے اُس سے پیار تھا بہت پر وہ میرے ساتھ نہیں کھیلتا تھا، وہ پتا نہیں کونسی دنیا میں رہتا تھا، پتا نہیں کہاں سے آیا تھا وہ عجیب تھا اور مجھے اچھا نہیں لگتا تھا پھر پتا چلا وہ خاص ہے اور اُس کی اِس خاصیت نے مجھے اُس سے مزید نفرت کرنے پر مجبور کردیا۔ کیونکہ وہ مام ڈیڈ کی وہ توجہ کھینچ رہا تھا جو ساری مجھ پر رہتی تھی۔ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہورہا تھا۔ پھر ڈیڈ بھی چلے گئے۔۔۔“ اُس کا سر جھکا ہوا تھا۔ 

“پھر تم ہماری زندگی میں آئی، مجھے بہن چاہیے تھی اور حاد نے وعدہ کیا تھا وہ تمہیں لے آئے گا میں نے اُس پر بھروسہ کرلیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ اور بھی عجیب ہوتا گیا پھر وہ اُسے لے گئے میری آنکھوں کے سامنے، میں کچھ نہیں کر پایا۔ سب اُسے ہی ڈھونڈ رہے تھے مجھے حاد بننا تھا۔ میں چاہتا تھا سب مجھے دیکھیں۔ چاروں جانب بس عبدل عبدل ہو۔۔ اُسے ڈھونڈا گیا۔ وہ واپس آگیا وہ پہلے سے بھی زیادہ بدل گیا تھا۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ خاموش ہوگیا تھا۔ مجھے اُس سے پیار تھا لیکن وہ مجھے اریٹیٹ کرتا تھا۔ وہ سکول میں مجھ سے آگے تھا۔ وہ مام کی باتوں کو غور سے سنتا تھا۔ چاروں جانب بس حاد ہی تھا۔ مجھے اُس سے جلن ہونے لگی۔میں عبدل یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میں اپنے بھائی سے جیلس تھا۔ میں اُس کی طرح خاموش آنکھوں سے خاک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ اسکول میں سب اُس کے فین تھے۔ وہ پتا نہیں کیسے ساری نمازیں پڑھ لیتا تھا۔ وہ النور جاتا تھا وہ جانے سب کچھ کیسے مینج کرلیتا تھا۔۔۔ مجھے غصہ آتا تھا میں اُس جیسا نہیں بن سکتا تھا اِس لیے میں وہ بن گیا جس سے وہ مجھے منع کرتا تھا۔ 

وہ موت کے منہ میں تھا اور میں اُسے چھوڑ کر بھاگ گیا میں اپنی ماں اور بھائی کو اکیلا چھوڑ آیا۔۔۔“

اس کی آواز بھراگئی۔ 

”میں صحت مند تھا ایمانے! مجھے اپنے ڈیڈ کی غیر موجودگی میں اپنی ماں کا سہارا بننا تھا مجھے اپنے اسپیشل بھائی کی حفاظت کرنی تھی لیکن میں انہیں اکیلا چھوڑ آیا۔ مجھے اُن کی حفاظت کرنی تھی، مجھے جو اللہ نے مقام عطا کیا تھا میں اُس سے گر گیا اور فالن اینجل کہلایا۔۔۔ میں اپنوں کو چھوڑ کر بہت دور آگیا۔ اتنی دور کہ مجھے اُن کا خیال بھی نہ آئے اور میں واقعی بھول گیا کہ مجھے واپس جانا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو مصروف کرلیا اتنا کہ کبھی تمہارا خیال بھی نہیں آیا۔۔۔ میں تمہیں بھول گیا تھا ایمانے کیونکہ میں حاد کو بکڈ کرکے آیا تھا اور میں جانتا تھا وہ قائم رہے گا پر میں خود بھول گیا۔۔مم۔۔۔میں۔۔۔ پتا نہیں کیا بن گیا مجھے مار دھاڑ اور لڑائی جھگڑے کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا۔ جب جب مجھے چوٹ لگتی جسمانی چوٹ مجھے سکون ملتا تھا۔ میں اپنے اندر کی اِس تکلیف کو کم کرنا چاہتا تھا جو کسی صورت ختم نہیں ہوتی تھی۔ میں اپنے باپ کو ڈھونڈنا چاہتا تھا میں آرجے بننا چاہتا تھا۔ مجھے روحان جبیل نہیں پسند تھا اگر وہ آرجے رہتا تو سکون سے جیتا پر روحان جبیل بن کر اُسے کیا ملا۔۔؟؟ مجھے اِس لیے اچھی لڑکیوں سے الجھن تھی میں اُن سے دور رہتا تھا اور پھر ایک دن میں ہیزل سے ملا۔۔۔ 

ہیزل ملک! وہ میرا عکس تھی۔ وہ بالکل میرے جیسی تھی، ساری دنیا سے ناراض اور غصہ، اپنوں سے نفرت کرنے والی، وہ بھی دنیا کو جلا کر راکھ کرنا چاہتی تھی۔ میں مطمئن تھا کہ مجھے میرے جیسی لڑکی مل گئی لیکن پھر۔۔۔۔“

اُس نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔ 

”حاد کہتا ہے قدرت جب ہمیں ہراتی ہے تو وہ باہر کی چیزوں کا سہارا نہیں لیتی وہ ہمیں اندر سے جکڑتی ہے اور پھر قدرت نے مجھے جکڑ لیا۔۔۔ پھر تم آئی ایمانے تم۔۔۔ اور میں حیران رہ گیا۔ تم بھی آرجے سے ملنا چاہتی تھی۔ تم روحان جبیل سے عقیدت رکھتی تھی۔ تمہارے بیگ نے میری توجہ اپنی جانب کھینچی۔ اور تمہاری ذات نے مجھے بےچین کردیا۔ میں نے سب سے وہ سوال کیا۔ 

Did it Hurt when you fell from Heaven.." 

لیکن کسی کو میرا سوال سمجھ ہی نہیں آیا۔۔کسی کی آنکھوں میں وہ تاثر نہیں ابھرا جو تمہاری آنکھوں میں تھا۔ وہ حیرانی وہ بےچینی، تم یہ سن کر پریشان ہوگئی تھی۔

پھر میں نے تمہارا ریکارڈ نکلوایا۔ میں تمہیں پہچان گیا تھا تم وہی ایمانے تھی جس کے لیے میں حاد کو پابند کرآیا تھا۔ تم وہی ایمانے تھی جس کی مجھے بھائیوں کی طرح حفاظت کرنی تھی، تم وہی ایمانے تھی میں جس کو خوش رکھنا چاہتا تھا پر۔۔۔۔۔“ 

وہ گہرے قرب سے گزر رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ جانے کو تیار تھا۔ 

”عبدل ایک بار پھر سے اپنے مقام سے گرگیا۔ تمہارے لیے میرے جذبات بدلنے لگے۔ تم دنیا سے بےزار تھی۔ تمہاری آنکھوں میں ایک عجیب سا درد تھا، وہ درد جو حاد کی آنکھوں میں ہوتا تھا پر اُس نے کبھی نہیں کہا۔ تمہیں دیکھ کر وہ مجھے وہ یاد آیا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ تم سے دور رہوں۔ میں جس لڑکی کے لیے اپنے بھائی کو پابند کرآیا تھا اُس لڑکی کے لیے اپنے دل میں اٹھتے جذبات کو دیکھنا کس قدر اذیت تھا۔ میں پھر سے گِرا اور پھر سے اتنی ہی تکلیف ہوئی جتنی ہر بار ہوتی تھی۔ میں بھاگ جاتا تھا تم سے رور رہنے کی کوشش کرنے لگا پر لیکن رہ نہیں پایا۔۔“ وہ کیمرے میں نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ شرمندہ تھا۔ 

”مجھے اچھی لڑکیاں نہیں پسند تھیں پر تمہاری اچھائی میرے خودساختہ خول کر توڑ رہی تھی یہ ٹوٹ ہی جاتا اگر میں نے تمہاری ان آنکھوں میں حاد کا عکس نہ دیکھا ہوتا۔ 

قدرت نے ایک بار پھر سے مجھے شکست دی تھی۔ میں جانتا تھا اگر تمہارا کوئی بھائی ہوتا تو تمہارے جذبات اُس کے لیے ویسے ہی ہوتے جیسے میرے لیے تھے۔ تم مجھ پر بھروسہ کرنے لگی اور میں نے تم سے سب کچھ چھپایا۔ تم جس روحان جبیل کو ڈھونڈ رہی تھی میں اًس کا بیٹا تھا میں تمہیں یہ نہیں بتاپایا۔۔۔ تم اتنی خالص تھی کہ لوگ تمہیں آسانی سے استعمال کرنے لگے اور پھر میں نے تمہارا اور اپنا دل توڑ دیا۔ میں نے تمہاری آنکھوں میں بےیقینی دیکھی تھی اور میں اُن بھیگی آنکھوں سے کبھی باہر ہی نہیں نکل پایا ایمانے۔۔۔ میں وہ انسان ہوں جو ہمیشہ کنفیوزڈ رہا کبھی اپنے جذبات کو سمجھ ہی نہیں پایا۔ میں تمہیں چھوڑ کر چلا گیا اور جب تک واپس لوٹا بہت دیر ہوچکی تھی۔۔۔“

وہ رو دینے کو تھا۔ وہ باکسر جس کا ایک مکا کافی ہوتا تھا وہ باکسر بچوں کی طرح رو دینے کو تھا۔ 

”ایم سوری ایمانے! نہ میں تمہارا اچھا بھائی بن پایا اور نہ اچھا دوست، میں نے ہیزل کا بھی دل توڑ دیا۔ وہ میرے ساتھ جینا چاہتی تھی اور میں نے اُس سے اُس کی پہچان ہی چھین لی۔ میں کچھ بھی ٹھیک سے نہیں کرپایا۔ میں جان بوجھ کر سب خراب کرتا رہا۔۔ ہمیشہ اپنوں سے لڑتا رہا ہمیشہ وہ کیا جس سے مجھے منع کیا گیا اور دیکھو۔۔۔آج دیکھو میں کیا ہوں۔ میں بندہ احد تھا۔ میں عبدالاحد تھا مجھے یہی بننا تھا پر میں کیا بن گیا اور آج کہاں ہوں!“ 

وہ پھیکا سا مسکرایا۔ اس کے چہرے پر پھیلاہٹ تھی۔ 

”کل میری سرجری ہے ایمانے! پتا نہیں میں بچتا بھی ہوں یا نہیں لیکن تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میں نے حاد کو تب چھوڑ دیا تھا جب اُسے میری ضرورت تھی پلیز تم میرے بھائی کو مت چھوڑنا، وہ تم سے شاید کبھی نہ کہہ پائے تم اُس کے لیے کیا ہو پر میں جانتا ہوں تم اُس کے لیے جو ہو وہ دنیا کی کوئی اور عورت کبھی نہیں ہو سکتی۔ ایمانے پلیز سچ جان کر میرے بھائی کو مت چھوڑنا۔۔۔!!“

وہ روپڑا تھا اور وہ بھی رو دی تھی۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر رو دی تھی۔ 

”میں نے تمہارے لیے ایک پینٹنگ بنائی ہے یہ دیکھو، جب تم ٹھیک ہوجاؤ گی یہ تب تمہیں ملے گی۔۔“ اس نے اپنی، حاد اور اس کی بچپن کی ہسپتال والی پینٹنگ بنائی تھی وہ اب دکھا رہا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرایا اور پھر ویڈیو ختم۔۔۔ آگے کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے آہستگی سے چشمہ اتارا اور میز پر رکھ دیا۔۔۔ آگے کیا ہوا وہ نہیں جانتی تھی۔ وہ بچ گیا یا مر گیا تھا یہ بھی نہیں جانتی تھی۔ اس وقت اسے دکھ ہورہا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر یونہی بیٹھی رہی اور پھر اٹھی اور کچھ فاصلے پر رکھے کاؤچ پر بیٹھ گئی۔ حاد جب تھک جاتا تھا تو شاید اِسی پر سوتا تھا۔ ایمان کا دماغ بالکل ماؤف ہوچکا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی سب کیسے اور کیوں ہوا تھا وہ اِس وقت سونا چاہتی تھی۔ اس نے کاؤچ پر رکھا کشن سر کے نیچے رکھا اور وہیں لیٹ گئی۔ 

اس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے۔ اس نے خاموشی سے آنکھیں بند کرلیں جیسے یہ سب خواب ہو اور جب وہ سوجائے گی تو حقیقی دنیا میں اٹھ جائے گی جہاں سب نارمل ہوگا۔ 

                                ✿••✿••✿••✿

وہ ایک بجے واپس آیا تھا۔ اس نے جلدی نکلنے کی بہت کوشش کی تھی پر اتنا بڑا ہجوم تھا اور آخری کنسرٹ تھا کہ عبدل کے فین اس کی جان ہی نہیں چھوڑ رہے تھے۔ وہ بالکل تھکا ٹوٹا ہوا تھا۔ داؤد ہی اسے لینے آیا تھا اور وہی چھوڑ گیا تھا۔ اس نے گاڑی میں ہی اپنا حلیہ بدل لیا تھا۔ اب وہ حاد تھا۔ نہ لمبے بال تھے، نہ بڑی داڑھی، نہ ہاتھ پر ٹیٹو اور نہ وہ کپڑے، وہ سیدھا اپنے آفس میں آیا جہاں وہ ایمان کو چھوڑ گیا تھا۔ 

اس کا چشمہ میز پر رکھا تھا اور وہ کاؤچ پر لیٹی سورہی تھی۔ وہ سیدھا اس کے قریب گیا۔ وہ جھکا تو اسے ایمان کی پلکیں بھیگی نظر آئیں۔ وہ روتے روتے سوگئی تھی۔ اس کے بال جو جوڑے میں مقید تھے وہ اب کھل چکے تھے۔ 

اس نے اپنے ہاتھ سے اس کی کناروں کے کنارے صاف کیے۔

 ”ایم سوری ایمانے! میں تمہیں پہلے نہیں بتایا۔۔“ اُس نے ہولے سرگوشی کی۔ شاید وہ گہری نیند میں تھی۔ پھر اُس نے میز کے دراز سے سلیپنگ پلز نکالیں۔۔۔وہ بھی سونا چاہتا تھا بالکل اُس کی طرح تاکہ کسی اور دنیا میں اٹھ سکے۔ وہ خود جتنی تکلیف میں تھا یہ صرف وہی جانتا تھا وہ کسی سے بیان نہیں کر سکتا تھا۔ 

اس نے پانی کا گلاس اٹھایا اور چند گولیاں نگل لیں۔ پھر اس نے دوسرا کشن اٹھایا اور کاؤچ سے کچھ فاصلے پر نیچے نرم و نازک قالین پر رکھا اور پھر وہیں لیٹ گیا۔ 

وہ اس کی جانب کروٹ لیے لیٹا تھا۔ داہنی کروٹ، داہنا ہاتھ چہرے کے نیچے تھا۔ وہ اسے دیکھ رہا تھا اور دیکھتا رہا۔۔۔ 

 ”کاش میں تمہیں کبھی بتا پاؤں تم میرے لیے کیا ہو۔“ وہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اُس کی آنکھیں جل رہی تھیں اور دل بھی۔ 

 ”میں نے کبھی کسی عورت کی چاہ نہیں کی ایمانے سوائے تمہارے۔۔۔“ وہ اُسے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ وہ اسے دیکھتا رہا۔۔۔وہ یونہی لیٹا رہا۔ خاموشی سے، اُس کے سانس لینے کی آواز بھی نہیں آرہی تھی۔ وہ آخری بار لیب میں نیچے سویا تھا کبھی سرد تو کبھی گرم لوہے کی زمین پر۔ اِس کے بعد وہ کبھی ایسے نہیں سو پایا اُسے وہ یادیں ہنٹ کرتی تھیں لیکن وہ اِس وقت زمین پر لیٹا تھا تاکہ اُسے دیکھ سکے اور پھر وہ اُسے دیکھتے دیکھتے جانے کب سوگیا۔ 

                             ✿••✿••✿••✿

ایمان کی آنکھ عجیب سے احساسات سے کھلی تھی۔ اس کا فون بھی پاس نہیں تھا اس لیے اسے وقت کا پتا نہیں چلا۔ باہر ابھی اندھیرا تھا۔ وہ جیسے سوئی تھی ویسے ہی اٹھ گئی تھی۔ کسی اور دنیا میں نہیں اٹھ پائی کیونکہ حقیقت یہی تھی۔ اُسے یہیں اٹھنا تھا۔ اور جیسے ہی اس کی نظر اپنے سے کچھ فاصلے پر زمین پر سوئے حاد پر پڑی وہ ساکت رہ گئی اور پھر جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ 

وہ ویسے ہی ساکت لیٹا تھا جیسے سانس بھی نہ لے رہا ہو۔ 

وہ جلدی سے اس کی جانب بڑھی اور جھک کر اس کے ناک کے قریب انگلی کی۔۔۔ ہاں سانسیں چل رہی تھیں۔ 

ایمان کے دھڑکتا دل جیسے پرسکون ہوا۔ وہ کب آیا تھا کب سویا تھا کچھ پتا ہی نہیں چلا۔ کوئی آہٹ نہیں ہوئی تھی کوئی شور نہیں ہوا تھا۔ 

وہ اسے دیکھے گئی۔ ایسے ہی وہ اس کے دل میں آگیا تھا بنا آہٹ کیے بنا شور کیے۔۔ اور پورے حق سے آج تک وہیں قیام پزیر تھا۔ 

اس کمرے میں کوئی گھڑی نہیں تھی اور اسے حاد کا فون بھی نظر نہیں آیا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی تاکہ وقت دیکھ سکے۔ 

اور پھر اس کی نظر میز پر رکھی سلیپنگ پلز کی شیشی پر پڑی۔ اس نے چونک کر حاد کو دیکھا۔۔۔ کیا وہ پلز لیتا تھا؟ ہمیشہ یا کبھی کبھی۔۔؟؟ وہ وہیں کھڑی رہی۔ کیوں لیتا تھا۔۔ ؟؟ سوال دماغ میں بلبلانے لگے تھے۔ 

پہلے ہی وہ اس کے اتنا کچھ راز رکھنے پر دکھی تھی اس بات نے مزید ہرٹ کیا تھا۔ وہ بھی بنا آہٹ کیے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی دروازے کی جانب بڑھی۔ اس کے پاؤں پر ابھی پورا وزن نہیں آتا تھا۔ اس نے آہستگی سے دروازہ کھولا ایک نظر حاد کو دیکھا اور پھر باہر نکل گئی اس نے دروازہ اتنی ہی آہستگی سے بند کردیا تھا۔ 

                              ✿••✿••✿••✿

حاد کی آنکھ ذرا لیٹ کھلی تھی وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ کنسرٹ کے بعد ایک بہت بڑا بوجھ اس کے ذہن سے اتر گیا تھا۔ کاؤچ خالی تھا۔ ایمانے وہاں نہیں تھی۔ اس نے اچھی خاصی ڈوز لی تھی۔ نارمل ڈوز تو اس پر اثر بھی نہیں کرتی۔ بھاری ڈوز کی وجہ سے ہی وہ سویا تھا۔ 

”ایمانے۔۔۔“ وہ اٹھتے ہی دروازے کی جانب بھاگا۔ اب اس کا رخ کمرے کی طرف تھا۔ بےچینی اور اضطراب اس کے انداز سے واضح جھلک رہا تھا۔ اس نے جھٹکے سے دروازہ کھولا۔ 

بیڈ خالی تھا۔ وہ وہاں نہیں تھی۔ 

”ایمانے کہاں ہو؟؟“ وہ اب بےچینی سے اسے ڈھونڈ رہا تھا۔ واشروم بھی خالی تھی۔ اس نے نیچے نظر دوڑائی گراؤنڈ میں بھی وہ کہیں نہیں تھی۔ وہ واپس آفس کی جانب بھاگا۔ دراز میں اس نے اپنا فون رکھ دیا تھا۔ وہ اب اسے کال ملا رہا تھا لیکن اس کا نمبر بند تھا۔۔۔ اس نے اپنے ہاتھوں میں کپکپاہٹ واضح محسوس کی تھی۔ وہ اب تیزی سے سیڑھیاں پھلانگ رہا تھا۔ وہ اب نیچے اسے پوری اکیڈمی میں ڈھونڈ رہا تھا وہ کہیں نہیں تھی۔ اسے لگا جیسے کسی نے اس کا دل دبوچ لیا ہو۔ وہ ایسے کیسے کہیں جا سکتی تھی وہ بھی بنا بتائے۔۔۔وہ اس کی نیند کا فائدہ نہیں اٹھا  سکتی تھی۔ حاد کی جیسے جان پر بن آئی تھی۔ 

اس نے پھر سے اس کا نمبر ملایا۔ اس بار فون اٹھا لیا گیا۔ 

 ”ایمانے کہاں ہو؟؟“ اس کی آواز اکیڈمی کی عمارت میں گونج گئی تھی۔ 

 ”السلام علیکم! حاد بھائی یہ میں ہوں حمیزہ۔ آپی صبح آئی تھیں۔ ان کی کچھ بکس ہیں یہاں پر۔۔بیٹری ڈیڈ ہونے کی وجہ سے فون بند تھا۔۔“ 

حاد نے بےساختہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ پیشانی پر ننھی بوندیں ابر آئی تھیں۔ گلے کی گلٹی ڈوب کر ابھری تھی اور دل کو جیسے سکون مل گیا تھا۔ 

 ”بات کراؤں آپ کی؟؟“ دوسری جانب سے خاموشی پا کر وہ اب پوچھ رہی تھی۔ 

 ”نہیں کوئی مسئلہ نہیں میں کچھ دیر تک بات کرتا ہوں۔۔۔“ اس نے فون بند کردیا۔ دل جس رفتار سے دھڑک رہا تھا اس کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی۔ اسے ایمان سے اس بےوقوفی کی توقع نہیں تھی۔ حاد نے گہرا سانس لے کر خود کو ریلیکس کیا۔ جسم جیسے بےجان ہوگیا تھا۔ 

دن کے گیارہ بج رہے تھے۔ وہ کبھی اتنا لیٹ نہیں سویا تھا اس نے کبھی فجر کی نماز قضا نہیں کی تھی۔ وہ شکستہ قدموں سے واپس اوپر چلا گیا۔ 

                         ✿••✿••✿••✿

”سچی آپی میرا بالکل دل نہیں کرتا پڑھنے کو۔۔“ حمیزہ کتاب بند کرتے ہوئے بولی۔ 

”پڑھو گی نہیں تو سکالر شپ کیسے ملے گی؟ ویلنسیا کیسے جاؤ گی۔۔؟؟“ اب اسے پڑھانے کے لیے ایمان اسے یہی لالچ دیتی تھی۔ پورا دن وہ بس عبدل کے کنسرٹ کے بارے میں ہی باتیں کرتی رہی تھی۔ 

”کیا بنا پڑھے اسکالرشپ نہیں مل سکتی۔۔؟؟“ وہ پوچھنے لگی تو ایمان نے اسے گھوری سے نوازہ۔ اچانک لاؤنج سے آوازیں ابھریں۔ حمیزہ کی حس سماعت جاگ اٹھی۔ 

”لگتا حاد بھائی آپ کو لینے آگئے ہیں۔۔“ وہ دوپٹہ اٹھاتی بیڈ سے چھلانگ لگا کر باہر کی جانب بھاگی۔ 

”السلام علیکم! حاد بھائی۔۔“ وہ پرجوش سی مل رہی تھی۔ 

حاد نےشفقت سے اس کے سر کو چھوا۔ 

”کیسی ہے وہ۔۔؟؟“ اس نے اشارے سے ایمان کا پوچھا۔ 

”غصہ ہے۔۔“ حمیزہ نے منہ پھلا کر بتایا۔ وہ ہنس دیا۔ 

”ڈونٹ وری آئی کین فکس ہر۔۔۔“ وہ صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔ کچھ دیر وہ کمرے سے نکلی تھی اور سیدھا لاؤنج میں آئی۔ 

 ”السلام علیکم!“ وہ ہولے سے بولی تھی۔ حاد نے، جو حمیزہ کی کل والے کنسرٹ کی باتیں سن رہا تھا، آواز پر اس کی جانب دیکھا اور پھر جیسے دنیا تھم سی گئی۔ 

وہ 

Sage

 گرین ڈریس پہنے ہوئی تھی۔ یہ سب سے ہلکا شیڈ تھا۔ بالکل سادہ سا سوٹ آل اوور ایک جیسا تھا۔ پیچھے کمر پر بڑی سی سفید تتلی بنی تھی اور فرنٹ پلین تھا۔ سفید بڑا سا دوپٹہ ایک جانب کندھے پر سیٹ تھا اور بال کھلے تھے۔ اس نے اپنے سوٹ سے ہم رنگ 

Bow

 ہیئر کلپ لگ رکھا تھا۔ اس کے پاس بہت سارے

 bow hair

 کلپس تھے۔ کلپ نے فرنٹ کے بال باندھے ہوئے تھے جبکہ پیچھے سے کلپ کی سلکی ٹیلز بالوں کے ساتھ کمر تک جارہی تھیں۔ کانوں میں ننھے سفید آمیزے جگمگ کر رہے تھے۔ چہرے کے دونوں جانب بےبی ہیئر نکلے ہوئے تھے جو اس کے نیچرل تھے۔ بال اس نے 

Wave

 کیے ہوئے تھے جو اس پر سوٹ کر رہے تھے۔ 

وہ آہستہ آہستہ چلتی صوفے تک آئی اور پھر حمیزہ کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ وہ اسے یوں دیکھ رہا تھا جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔ وہ اتنی پیاری کیوں لگ رہی تھی وہ خود نہ سمجھ پایا۔ اس کا چمکتا چہرہ، نیوڈ لپ اسٹک اور بڑی بڑی گہری پلکوں والی آنکھیں۔۔ کچھ بھی نظرانداز کرنے کے قابل نہیں تھا۔ وہ تو اس پر غصہ تھا لیکن یہاں سین الٹ گیا تھا۔ 

”میں آتی ہوں۔۔۔“ حمیزہ نے وہاں سے اٹھ جانا ہی ضروری سمجھا۔ 

”چلیں۔۔۔؟؟“ اسے خاموش دیکھ کر بالآخر وہی بولا۔ 

 ”امی کھانا بنا رہی ہیں۔ لنچ کرکے چلتے ہیں۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔ حاد نے اثبات میں سر ہلادیا۔ 

 ”وہ میری کچھ بکس یہاں تھیں۔ وہی لینے آئی تھی۔۔“ 

وہ پھر کچھ نہ بولا۔ خاموشی سے بیٹھا رہا۔ ایک گھنٹے بعد وہ لوگ واپس جارہے تھے۔ حاد کا دماغ چٹخ رہا تھا۔ 

”تمہیں یوں اکیلے نہیں آنا چاہیے تھا۔۔“ وہ بول ہی پڑا تھا۔ لہجہ حد درجہ نرم رکھنے کی کوشش کی گئی غصہ نہیں کر سکتا تھا وہ اس پر۔ 

”ڈرائیور کے ساتھ آئی تھی۔“ ایمان نے اطلاع دی۔ 

”مجھے بنا بتائے جب میں سورہا تھا۔۔“ وہ فوراً بولا۔ 

”وہ میں۔۔۔“ 

”ایمانے آئندہ ایسا مت کرنا پلیز۔۔۔“ وہ جیسے دراخواست کر رہا تھا نہیں بتا پایا تھا کہ اس کی حالت کیا ہوئی تھی۔ وہ غصے میں آ تو گئی تھی پر اب اسے اپنی غلطی کا احساس ہورہا تھا۔ 

 ”نہیں کروں گی۔۔۔“ نہ وہ اس سے بحث کر سکتی تھی اور نہ جھگڑا، دونوں فضول کام تھے۔ حاد مسکرا دیا۔ صبح سے چھائی کلفت اتر چکی تھی۔ 

                        ✿••✿••✿••✿

پھر وہ شام تک اکیڈمی میں رہا تھا جبکہ ایمان کا کل پیپر تھا وہ پڑھنے کی طرف ذہن لگا رہی تھی لیکن دماغ ماؤف تھا۔ رات گزر جائے اور دن چڑھ آئے تو اس کا ایک بڑا فائدہ ہوتا ہے انسان جذباتی طور پر اتنا کمزور نہیں رہتا جتنا رات کو ہوتا ہے۔ وہ اب رات والی باتیں نہیں سوچ رہی تھی لیکن پھر بھی ذہن وہیں کہیں اٹک کر رہ گیا تھا۔ وہ جب تھک گئی تو کتابیں چھوڑ کر اٹھ بیٹھی۔ 

باہر موسم ابر آلود تھا۔ اس نے اپنے لیے پھل اور سبزیوں کی مکس 

Smoothie

 آڈر کی اور کمرے سے نکل کر آہستہ آہستہ چلتی اپنے آفس تک آئی۔ آج اس نے کوئی سیشن یا کلاس نہیں لی تھی۔ وہ کل کے پیپر کی طرف متوجہ تھی لیکن تیاری پھر نہیں ہورہی تھی۔ اس کے کافی کام پینڈنگ تھے۔ وہ کچھ دیر وہاں بیٹھی رہی اور ہسپتال کی لسٹ چیک کرتی تھی۔ وہاں بھی کچھ کام ہونے والے تھے۔ اس نے ہسپتال کا نام بدل دیا تھا۔ وہ اب 

Healing Asylum

 تھا۔یہ نام اس نے ہی رکھا تھا۔ جب اس کا آڈر آگیا تو وہ اپنے آفس سے نکل آئی۔ 

”بس ایک بار پیپرز ہوجائیں پھر بہت سارے کام کرنے ہیں۔۔“ شیشے کا بڑا سا گلاس تھامے جس میں بےذائقہ سی  

Smoothie

 تھی، وہ جیسے ہی آفس سے نکلی ساتھ ہی حاد کے آفس پر نظر پڑی۔ وہ ساتھ ہی تھا۔ وہ گلاس تھامے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔ اور یہ بےساختہ ہوا تھا۔ کمرے میں ہر چیز اپنی جگہ پر تھی۔ 

باہر شام کا اندھیرا پھیل رہا تھا کچھ موسم خراب تھا۔ وہ حیران ہوئی جب حاد کے چشمے کو وہیں میز پر رکھے پایا۔ 

چشمے کے ساتھ وہاں اس کے بلیو توٹھ ڈیوائس بھی رکھا تھا۔ وہ ایک پاؤں پر کم وزن ڈاتی میز کی جانب بڑھی اور پھر چشمہ اٹھا کر آنکھوں پر لگایا اور ساتھ ہی ڈیوائس کان میں لگا لیا اور اپنا فون اور گلاس سائیڈ پر رکھ دیا۔ 

 ”ویلکم ایمانے۔۔۔“ اسسٹنٹ کی آواز ابھری تھی۔ 

”میں آپ کی کیا مدد کرسکتی ہوں؟؟“ وہ اب اس سے پوچھ رہی تھی۔ 

”مجھے کچھ ایسا دکھاؤ جسے دیکھ کر میں خوش ہوجاؤں۔۔۔“ وہ ہولے سے بولی۔ 

 ”شیور۔۔۔“ 

وہ اب انتظار کرنے لگی تھی۔ جانے اےآئی اسے کیا دکھانے والی تھی۔ اس کے سامنے فضا میں بڑی سی اسکرین تھی جو چشمے سے نظر آرہی تھی اور اس پر تیزی سے نظارے بدل رہے تھے اور پھر ایک جگہ آکر رک گئی۔ 

رات کا وقت تھا بارش ہورہی تھی۔ 

”میں جیت گئی، میں نے کر دکھایا۔“ وہ برستی بارش میں خوشی سے جھوم رہی تھی۔ اس کے ساتھ ایمانے رابرٹ تھی۔ 

”میں نے تخلیق کی ندی کو پالیا۔۔۔“ 

ایمان کا دل اچھل کر حلق میں آگیا اور وہ اپنی جگہ جیسے جم گئی تھی۔

”کک۔۔کیا مطلب؟؟ وہ وہاں تھا؟؟“ دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔ 

 ”یہ کیسے ریکارڈ ہوئی؟؟“ وہ اب حیرانی سے پوچھ رہی تھی۔ 

 ”میں نے مسٹر جبیل سے اسے ریکارڈ کرنے کی پرمیشن لی تھی۔۔“

ایمان کو عجیب سا احساس ہوا۔ اس نے فون اٹھایا اور جلدی سے ریسیپن پر موجود لڑکی کا نمبر ملایا۔ 

”گڈ ایوننگ میم۔۔“ دوسری جانب سے فوراً اٹھایا گیا۔

 ”مجھے میری فائل چاہیے۔ رائٹ ناؤ۔۔۔“ وہ اب سوچ رہی تھی کہ اس نے آج تک اپنی ایز اے پیشنٹ فائل چیک نہیں کی تھی۔ 

”اس سے پہلے کیا ہوا تھا۔۔؟؟“ ایمان نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔ گلے میں کانٹے چب آئے تھے۔ 

 ”میں کہنا چاہتا ہوں، میں حاد جبیل تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔۔“ وہ فرش پر اس کے قریب بیٹھا تھا۔ منظر تیزی سے بدل رہے تھے۔ میسج ٹون ابھرنے پر اس نے فون چیک کیا۔ اس کی فائل سامنے تھی۔ اس نے جلدی سے پی ڈی ایف کھولا۔ 

”مسز ام ایمان جبیل۔۔۔“ وہ وہاں حاد جبیل کی وائف کے نام سے ایڈمٹ تھی۔ 

 ”تو کیا وہ وہیں تھا؟؟ کیا وہ ہمیشہ سے تھا۔۔۔؟؟“ اس کی حالت اب عجیب ہورہی تھی۔ پورے جسم میں بےچینی پھیل گئی تھی۔ 

وہ اب بس اسٹاپ پر تھی وہ اس کے قریب آیا اور اس کے کندھوں پر اپنی جیکٹ ڈال کر چلا گیا تھا۔ وارڈن اسے ہاسٹل سے دھکے دے کر نکال رہی تھی۔ وہ اب اس کی بانہوں میں جھول گئی تھی۔ وہ اب ویلنسیا میں تھی۔ وہ اکیلی پارک میں بیٹھی تھی۔ وہ ہر جگہ تھا۔ 

”کیسے انکشاف تھا یہ۔۔۔“ اس کا دل ڈوب کر ابھر رہا تھا۔

”پتا نہیں وہ کہاں ہوگی کیسی دکھتی ہوگی۔۔“ وہ لیپ ٹاپ پر کام کرتے کہہ رہا تھا۔ 

”آپ نے میرا نام ایمانے کیوں رکھا۔۔۔؟؟“ وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔ 

 ”میں کسی اور نام سے واقف ہی نہیں۔۔“ 

 ”یہ نام سالوں سے میرے ساتھ ہے۔۔۔“

”ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔؟؟“ ایمان نے اپنے خشک لبوں پر زبان پھیری۔ 

”اب میں ستائیس کا ہوگیا ہوں۔۔بارہ سال ہوگئے ہیں عبدل کو گئے ہوئے۔۔ بارہ سالوں سے وہ میرے ساتھ ہے۔۔“ 

”وہ میرے اندھیروں میں اجالوں کی طرح ہے۔۔۔“

ایمان نے بےساختہ اپنے ہاتھوں کو منہ پر رکھا اسے لگا وہ چیخ پڑے گی۔ چلا اٹھے گی۔۔یہ کون سے راز تھے جن سے وہ ناواقف تھی۔ 

”ایمانے مجھے اپنا ڈوز چاہیے۔۔۔“ 

اس کا چشمہ سائیڈ پر رکھا تھا وہ اب زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ 

”نن۔۔۔نن۔۔۔نن۔۔۔نہیں۔۔یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔“ وہ چشمہ اتار کر جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔وہ گہرے سانس لیتی خود کو ریلیکس کرنے لگی۔ اسے اپنے سر میں درد کی ٹیس اٹھتی محسوس ہوئی تھی۔ 

”کیا وہ ہمیشہ سے تھا۔۔۔؟؟“ اس کا ذہن قبول نہیں کر پارہا تھا۔ 

”کیا ایسا ممکن ہے۔۔۔؟؟“ وہ خود سے سوال جواب کر رہی تھی۔ اچانک زوردار دھماکہ ہوا اور اندھیرا چھا گیا۔ 

شاید پاور بریک ڈاؤن ہوا تھا۔ کمرے میں ایمرجنسی زیرو بلب روشن تھا۔ اس نے اپنا فون اٹھایا۔۔۔اسے یہاں بیٹھے دو گھنٹے گزر گئے تھے اور ان دو گھنٹوں میں بہت کچھ دیکھ لیا تھا۔ 

”حاد۔۔۔“ وہ اسے پکارتی ہوئی گھبرا کر کمرے سے باہر نکلی۔ باہر کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں اور ٹھنڈی ہوا اندر آرہی تھی۔ باہر طوفان آیا ہوا تھا۔ سامنے دوسرے کونے پر ان کا بیڈروم تھا۔ 

”حاد۔۔۔کہاں ہیں آپ۔۔۔؟؟“ وہ اسے پکار رہی تھی۔سائیں سائیں کرتے طوفان کی آواز اسے ڈرا رہی تھی اور اوپر سے اندھیرا زیادہ تھا۔ وہ اب دیوار کا سہارا لیتی بیڈروم کی جانب بڑھ رہی تھی۔ دل بار بار بھر آرہا تھا۔۔آنکھیں جیسے برسنے کو تیار تھیں۔ پھر اسے وہ آتا دکھائی دیا۔۔۔ وہ سامنے سے آرہا تھا۔۔آہستہ آہستہ اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ جینز شرٹ پہنے وہ اسی کی جانب آرہا تھا۔۔ایمان وہیں رک گئی۔

مدھم روشنی میں اس کا سراپا نمایاں تھا۔ وہ آنسوؤں کو اندر پینے کی کوشش کر رہی تھی۔ 

وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اپنی متوازن چال چلتا اس کے عین سامنے آن کھڑا ہوگیا۔ بنا چشمے کے بھی وہ اتنا ہی پیارا لگ رہا تھا۔ تیز ہوا ایمان کے بالوں کو اڑا رہی تھی۔ 

وہ اس کے بہت قریب کھڑا تھا۔ اور پھر جھک کر اس نے اپنی ٹھوڑی ایمان کے کندھے پر ٹکادی۔ 

 ”کیسا لگتا ہے تمہیں ایمانے۔۔۔؟؟“ وہ ہولے سے بولا تھا۔ جبکہ ایمان ضبط کیے کھڑی تھی۔ 

 ”کیسا لگتا ہے تمہیں حاد جبیل کی آتی جاتی سانسوں پر قبضہ کرکے۔۔؟؟؟“ 

وہ بےبس تھا۔ کتنا بےبس تھا یہ آج وہ جان پائی تھی۔ آنکھیں آنسوؤں سے بھرگئی تھیں۔ وہ ویسے ہی ساکت کھڑی رہی لیکن اسے لگ رہا تھا وہ کچھ دیر میں ڈھے جائے گی۔ 

”تم ہمشہ سے میرے ساتھ تھی، ہمیشہ سے، جب سے میں نے محسوس کرنا شروع کیا تب سے، تم میرے اندھیروں میں اجالوں کی طرح تھی، تمہارا احساس نہ ہوتا تو میں جی نہ پاتا۔۔“ 

اس سے پہلے وہ ڈھے جاتی حاد نے اسے اپنے بازوں پھیلا کر تھام لیا تھا۔ 

”کون ہے جو مجھے اندھیروں میں تھامے رکھتا ہے گرنے نہیں دیتا، بھٹکنے نہیں دیتا۔۔۔ گہرے اندھیروں میں ٹمٹماتی روشنی کی مانند میرے ساتھ رہتا ہے۔۔۔“ اسے اپنا ہی لکھا کالم یاد آیا۔

”تو وہ حاد تھا، وہ ہمیشہ سے تھا، وہ اس کی دعاؤں میں تھی پھر کیسے بھٹک سکتی تھی۔۔۔؟؟ کیسے گر سکتی تھی؟؟“ آنسوں پلکوں کی باڑ توڑ کر حاد کے کندھے میں جذب ہونے لگے۔ 

وہ سمجھ رہی تھی اللہ حاد کو اس تک لایا تھا۔ وہ اسے چاہتی تھی اور اسے اس کی چاہت سے نوازہ گیا تھا۔ وہ غلط تھی۔اسے حاد تک لایا گیا تھا۔ ہر درد ہر تکلیف سے گزار کر۔ مشارب حسن جیسے شخص کے چنگل سے نکال کر۔ اسے لایا گیا تھا۔ یہ حاد کی محبت تھی جو اسے کھینچ لائی تھی۔ 

                      ✿••✿••✿••

               

آپ کو یہ قسط کیسی لگی؟
کو منٹ سیکشن میں اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں۔

Maseel Previous Episodes

👉Maseel Episode 63 (Last Episode) Maseel Episode 61 Maseel Episode 60 Maseel Episode 59 Maseel Episode 58 Maseel Episode 57 Maseel Episode 56 Maseel Episode 55 Maseel Episode 54 Maseel Episode 53 Maseel Episode 52 Maseel Episode 51 Maseel Episode 50 Maseel Episode 49 Maseel Episode 48 Maseel Episode 47 Maseel Episode 46 Maseel Episode 45 Maseel episode 44 Maseel Episode 43 (part 02) Maseel Episode 43 (part 01) Maseel Episode 42 (part 02) Maseel Episode 42 (part 01) Maseel Episode 41(part 02) Maseel Episode 41(part 01) Maseel Episode 40 (part 02) Maseel Episode 40(part 01) Maseel novel episode 39 (part 02) Maseel episode 39 (part 01) Maseel episode 38 Maseel episode 37 Maseel episode 36 Maseel episode 35 Maseel episode 34 Maseel episode 33 Maseel episode 31 Maseel episode 30 Maseel episode 29 Maseel episode 28 Maseel episode 27 Maseel episode 25 Maseel episode 24 Maseel episode 22 Maseel episode 20 Maseel episode 18 Maseel episode 14 Maseel episode 13 (part 02) Maseel episode 13(part 01) Maseel episode 11&12 Maseel episode 10 Maseel episode 09 Maseel episode 08 Maseel episode 07 Maseel episode 06 Maseel episode 05 Maseel episode 04 Maseel episode 03 Maseel episode 02 Maseel episode 01

More Novels by Noor Rajput

👉Sulphite Novel: Click here!
👉The Medium Novel:Click here!
👉Volverine Novel:Click here!
👉Hinave Novel: Click here!

15 Comments

  1. Mind blowing❤❤❤

    ReplyDelete
  2. Wonderful novel. To w8 intently for next episode. When next episode will be posted??

    ReplyDelete
  3. I have no words to express my feelings 🥀

    ReplyDelete
  4. Lovely episode...their connection is so pure🩵

    ReplyDelete
  5. Bht zabrdsht novel h bht bht acha epi tha sukon a jta isa par k

    ReplyDelete
  6. pata nahi kya ha is novel may jo may parh kar khud islam ko sahi jannay nikal pari ho ap kay novel nay buhat mughay under say janjhora ha aur phir ALLAH ka wada yaad karwaya ap nay ap kay novel nay mughay islam kay baray may jannay kay lay aur zayada janany ki khuwahish pada kar di ha ap kay novel nay meri life badal di ha
    JAZAKALLAH NOOR YOU ARE THE BEST WRRITER

    ReplyDelete
  7. Next episode kb aay ga yar
    I can't wait

    ReplyDelete
  8. Next episode??

    ReplyDelete
  9. Next episode?????????????????

    ReplyDelete
  10. episode 63 ??????????

    ReplyDelete
  11. Episode 63 dy dein plzzzzz.... I can't wait 🥹🥺🥹

    ReplyDelete
  12. Kb ay hi 63 😥😥😥😥

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post