سب سے پہلے تو اپنے قبول صورت ہونے پر شکر ادا کریں کیونکہ اگر آپ سلطنت(جی یہی تو ہیروئن کا اسم گرامی ہے) کی طرح نرگیسیت اور حسن کا پیکر ہوتے اور عباس کی طرح مردانہ وجاہت کا اعلی شاہکار تو آپ کو لگ پتا جاتا خوبصورت لوگوں کی زندگی کتنی کٹھن ہے۔
تھا تو یہ ایک عدد ڈائجسٹی ناول جس کے کردار تقسیم سے خاص متاثر نہیں ہوئے حالانکہ کتاب کے سرورق پر لکھا ہے کہ قیام پاکستان کے پس منظر پر لکھا جانے والا تاریخی ناول۔ سلطنت نام، سرورق میں قافلوں اور پھر اس لائن نے مجھے یہ کتاب پڑھنے پر مجبور کر دیا
سلطنت نواب زادی ہے(اصلی والی) اور عباس سید زات تو بس دونوں کی شادی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ عباس سفید بنیان پہنتا ہے اس لیے وہ مردوں والے فیصلے کر سکتا ہے حالانکہ نکاح کا آئڈیا سلطنت کا تھا۔ چھپ کر نکاح کرتے ہیں اور نکاح کے بعد والے مراحل طے ہوجاتے ہیں۔ پھر عباس چلا جاتا ہے کہ وہ سب کچھ ہینڈل کر لے گا لیکن پورے ناول میں وہ بے وقوفوں کی طرح بس ادھر ادھر بھاگتا رہا اس نے کسی کو بتایا ہی نہیں کہ ہ نکاح کر چکا ہے۔ پھر وہ شادی کر لیتا ہے۔ وہ لاہور میں ہے اور پاکستان بن چکا ہے۔
سلطنت لکھنو میں ہے۔ اس کی شادی ہونے والی ہے اسی لیے وہ اپنے ابا جان کو بدنامی سے بچانے کے لیے گھر سے بوا کے ساتھ بھاگ جاتی ہے اباجان کو تو خیر ہارٹ اٹیک ہوگیا۔ ہر کوئی سلطنت پر فرفتہ ہو رہا ہے مگر وہ ہر وقت یہی کہتی رہتی ہے "ہم صرف عباس کے ہیں" یا پھر یہ سوچتی رہتی ہے "عباس آپ کب آئیں گے ہم آپ کا انتظار کر رہے ہیں" سلطنت کا ایک بیٹا ہوجاتا ہے پھر۔
This Book is only available in hard form.