Shikast by krishan chander - PDF Download

Shikast by krishan chander - PDF Download

 

اول کے بارے کوئی علم نہی تھا اسکو بس ایسے ہی خرید لیا تھا ڈیل اچھی چل رہی تھی اور کرشن چندر کے بارے کافی تبصرے پڑھ رکھے جو نہایت ہی عمدہ تھے بسں یہی وجہ بنی اسکو خریدنے کی اور پھر پڑھنا بھی مجبوری بن گیا ایک تو اردو کتابیں پڑھنے میں پہلے ہی کاہلی سے کام لیا جاتا ہے دوسرا اس ناول نے ہمیں ایسا بیزار کیا کہ دو مہینوں بعد جا کہ یہ کتاب مکمل کی۔کیا کرتی پیسے جو خرچ ہوئے تھے پیسے بھی وہ جو خون پسینے سے کمائے گئے تھے وہ علیحدہ بات کہ خون پسینہ میرا نہی ابا کا تھا اس لئیے اسکو نہ پڑھ کے پیسوں کے ضائع ہو جانے کا دکھ تھا

تو بس پھر سے ورق گردانی شروع کی تو استاد محترم کی ایک بات یاد آگئ جسکی وج سے یہ کتاب مکمل کرلی۔
وہ بات اس وقت کی ہے جب ہم نے مافیا رومانس کی ایک کتاب پڑھی اور اسکے تبصرے میں لکھ دیا فضول کتاب اسے کوئی نہ پڑھے۔کتاب ک متعلق اپنی بھڑاس نکال کے دل سکوں سے جھوم ہی رہا تھا کہ اتنے میں استاد محترم کا کمینٹ آگیا کہ ایسا نہی کہنا چائیے بری کتابیں بھی انسان کو کچھ نہ کچھ سکھا دیتی ہیں جیسا کہ ایسی کتابوں کو دوبارہ نہ پڑھا جائے۔

خیر چھوڑیں اب بڑھتے ہیں کرشن چندر کی جانب
کرشن چندر کا بچپن جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ میں

گزرا ۔ضلع پونچھ کا تعلق خطہ جموں سے ہے اور یہاں قدیم زمانے سے ہی گوجری اور پہاڑی تہذیبیں آباد ہیں ۔ کرشن چندر کی پرورش انہی تہذیبوں کے زیر اثر ہوئی ۔

 انھوں نے جتنے بھی کشمیر کے حوالے سے ناول اور افسانے لکھے ہیں ان میں ان دونوں تہذیبوں کی ہی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ان کے موضوعات ہندوستانی زندگی اور اس کے مسائل کے گرد گھومتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں رومان اور حقیقت کا جو امتزاج ملتا ہے وہ ہندوستانیوں کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اس ناول میں مصنف نے رومان کا تو خاصا ذکر کیا ہے پر وہ رومان کی منظر کشی ایک نامور مصنف کر رہا ہے ایسا معلوم نہی ہوا ۔اس ناول میں معاشرتی برائیوں کا ذکر ہے ذات پات امیر غریب محبت عزت کے مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ان مسائل سے تو انکاری نہی ہیں ہم پر ان مسائل کو بیان کرنے کا نداز نرالا تھا 

بس یہی ایک مختصر سا تبصرہ ہے ہماری طرف سے جو مسائل اٹھائے گئے بہترین تھے کہ کیسے عزت مذہب اور ذات پات کا چورن عوام میں تقسیم کیا جاتا ہے پر مصنف نے جیسے اسکا نقشہ کھینچا اس سے کہانی سے بوریت کے علاوہ اور کوئی احساس اجاگر نہی ہوا۔





Post a Comment (0)
Previous Post Next Post