غربان قبیلے کا قامران، نیلی آنکھوں والا، جس کا نشانہ کبھی بھی خطا نہیں جاتا، اور ہر عورت اسے دیکھ کر کہتی ہے "اے سجیلے نوجوان کدھر کو چلے۔" اسی طرح کے ڈائلوگز تھے تمام خواتین کے۔
پلاٹ ہے کہ ملکہ شاطو قامران کی بیوی کو جلا کر مار دیتی ہے اور قامران سے شادی کرنا چاہتی، مگر قامران کچھ زیادہ ہی وفادار ہے اپنی بیگم کے لیے وہ انکار کرتا ہے نتیجتا اسے صحرائے سرخ میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں چاندکا ملتی ہے جو اس کے عشق میں مبتلا ہے۔ بیوی کی موت بھاری دل سے قبول کرتے قامران کو بھی چاندکا سے عشق ہوجاتا ہے مگر وہ روح ہے ان کا ملاپ ناممکن ہے پس قامران آدھی دنیا کے مسائل سلجھاتا ہے ظلم کا خاتمہ کرتا ہے تاکہ چاندکا سے بیاہ کر سکے جو دس ہزار سال سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔
شروع کے ڈیڑھ سو صفحات واقعی بہت اچھے سے لکھے گئے ہیں سسپنس ہے اور ورلڈ بلڈنگ بھی اچھی تھی۔ پھر جو باقی ڈھائی سو صفحات ہیں وہ نہایت بکواس تھے۔ پورا ناول یوں چلتا رہا کہ قامران فلانی بستی میں گیا۔ وہاں فلانا مسلئہ دیکھا وہاں کے لوگوں کی مدد شروع کی جب ذرا چیزیں ہاتھ سے پھسلتی ہی تھیں چاندکا آتی اس کی مدد کرتی یوں قامران فاتح بنا اگلی بستی کے مسئلے سلجھانے نکل پڑتا۔
ہر بستی کی ساری لڑکیاں قامران پر لازما فریفتہ ہوتی تھیں اور قامران نگاہ اٹھا کر نہ دیکھتا۔ "اس نے اپنی پاک دامنی پر آنچ نہ آنے دی" سچ تو یہ ہے وہ جانتا تھا جب چاندکا جیسی جادوگرنی جو کہ نہایت خوب صورت ہے اس کے عشق میں مبتلا تو بھلا اسے کیا ضرورت ادھر ادھر تانک جھانک کرتا۔
قامران کا کردار بس ایک کٹھ پتلی سا تھا سارا کام تو چاندکا کرتی پھر آخر میں چاندکا یوں اس کی مشکور تھی کہ جیسے سب کچھ کیا تو قامران نے ہی تھا۔ ایک لڑکی نے خودکشی بھی کر لی کہ قامران نے اسے ٹھکرا کیوں دیا۔۔۔۔