اس ناول کے شروع میں بہت بڑا سپائلر ہے یہ یوں کہا جاےکے ناول کے شروع میں ہی ناول کا اختتام ہے۔
اس ناول میں انہوں نے ایک بات تو بہت خوبصورت طریقے سے بتائی ہے کے اپنے رشتے داروں کی محبت اور نفرت ماں باپ ہی بچوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں ۔کہانی ہے صباء کی جس نے ساری زندگی شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا(کیونکہ کی جس سے اس نے شادی کرنی ہوتی ہے اس سے اس کے ماں باپ کھبی بھی نہیں کروائیں گے) اور اپنے سب بہن بھائیوں کی شادی کے بعد اپنی زندگی اپنے بھائی اور بھابھی کے ساتھ گزار دی اس کا بھائی تو اس سے بہت پیار کرتا تھا مگر اس کی بھابی فوزیہ صباء سے شدید نفرت کرتی تھی (شادی سے پہلے صباء کو لگتا تھا کے اس کی بھابی بہت اچھی ہو گی ۔) خیر پھر یہ ہی نفرت فوزیہ اپنی بیٹی ثناء کے دل میں بھی ڈال دیتی ہے ۔
صباء سے اگر کوئی سب سے زیادہ پیار کرتا تھا تو وہ صرف عمر تھا اس کا بھانجا وہ صباء سے اپنی ماں سے بھی زیادہ پیار کرتا تھا لیکن اس کے بھانجے عمر کی محبت بھی فوزیہ اور ثناء کی نفرت کا اثر اس کی زندگی سے ختم نہیں کر سکی اور ان کی اس نفرت نے صباء کی جان لے کی ہاں بھئ صباء مر گئی تھی ۔اس کے مرنے کے بعد ثناء کو اس کی ڈائری ملتی جسے وہ پڑھتی ہے پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے اپنی ماں کے ساتھ مل کر بہت ظلم کر دیا ہے مگر اب کوئی فائدہ نہیں تھا ۔
کہانی کچھ کچھ جگہ کافی بورنگ لگی اور ایک چیز مجھے ان کے ناز میں اچھی نہیں لگتی وہ گالیاں ہیں
باقی اچھی تھی کہانی پڑھنے کے قابل ہے۔