ہم سب اپنے اندر پریشر کوکر کے ڈھکنے کو پیچ لگائے، دھیمی آنچ پر پکا رہے ہیں۔ اب کچھ لوگ نرم پڑ کر پریشر ختم کر دیتے ہیں۔ جب کہ بعض کا پریشر بنتا جاتا ہے اور ایک دن پھٹ جاتا ہے۔
پریشر کوکر نام بہت عجیب سا ہے۔ پر کہانی بہت شاندار تھی۔ فطرت مرکزی کردار ہے جو بچپن سے ڈرائنگ کا شوق رکھتا ہے۔ زمانے کے تلخ تجربات اسے آرٹ کے ذریعے اس زمانے کی بدصورتیاں دکھانے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ وہ حب الوطن ہے۔ پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ سب سے مزے کی بات یہ تھی کہ حکومت یا بڑے لیول پر اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاتی بلکہ اس کے اردگرد کے لوگ کس طرح اس کے پریشر کوکر میں پریشر بڑھاتے رہتے ہیں اور اسے روکتے ہیں۔
آرٹسٹ لوگ حساس ہوتے ہیں۔ اور اس کتاب میں آپ کو انتہائی ذہین، حساس اور غریب آرٹسٹ سے ملنے کا موقع ملے گا۔ جنہیں آرٹ سے لگائو نہیں ان کے لیے شاید بورنگ ہو۔ پر میرے جیسوں کے لیے یہ ایک اچھا تجربہ تھا۔ ایک قابل ستائش کتاب تھی۔ کہانی درجہ بدرجہ اپنی منزل کا پہنچتی رہی اور سب سے بڑا افسوس یہی ہے کہ ختم کیوں ہوگئی۔
ترقی پسند دور ہے، فطرت پر کبھی آئی ایس آئی، روسی ایجنٹ تو کبھی غدار ملت کا ٹھپہ لگتا۔ فطرت ایک سرمئی کردار تھا جس میں بالکل بھی لچک نہیں تھی۔ اندازہ تحریر سادہ تھا اور بعض جگہوں پر طنز و مزاح نے اسے ایک اچھا توازن بخشا۔
شاید اس کے سرورق کا یہ مطلب ہے کہ زیتون عام لوگ ہیں اور فطرت چیری ہے۔
آپ کے خیال میں آرٹس کو معاشرے کی اچھی چیزوں کی نشاندہی کرنی چاہیے، یا برائیوں کی؟