۔
میلے میں شروع ہونے والی سادہ سی محبت کی داستان۔ سندھی ثقافت، مختصر جملوں اور سادہ مگر گہرے کرداروں کی روشنی میں ایک آسان پلاٹ پر مبنی ناول۔ ناول کے مرکزئی کردار نایاب، بختاور
(نایاب کی ماں)، ارتضی اور جبران (میرا فیورٹ کریکٹر)۔
آسان اردو اور ہلکے پھلکے ٹوسٹس جو کہ اتنے بھی ہلکے پھلکے نہیں تھے۔ آغاز قدرے سست اور آخری چالیس صفحات سخت سسپنس سے بھرے۔ روایتی کہانی مگر اچھی کوشش کی گئی۔
دو وجوہات کی بنا پر نایاب کا کردار سب سے اچھا تھا۔ پہلی وجہ نیلی آنکھیں اور دوسری کہ وہ محبت میں اندھی نہیں ہوئی چاہے وہ اٹھارہ سالہ خوش ربا حسن کی مالک مگر عقل والی تھی۔
ارتضی بہت معصوم سا کردار تھا شروع میں جزباتی لگا لیکن احتتام پر نایاب نے ثابت کردیا کہ کون ذیادہ جزباتی ہے۔
بختاور نایاب کی ماں تو وہ عورت مجبور تھی جن بننے کے لیے۔
جبران کی بات کریں تو یا پھر نہیں نیچے سپوئلر میں جبران کی تعریف ہوگی۔
چاہے یہ ریویو بہت طنز بھرا لگ رہا ہے لیکن واقعی میں ناول پڑھنے کے قابل ہے اور بہت لمبا بھی نہیں نہ ہی چونگم کی طرح کھینچا گیا اور نا ہی ہیرو ہیروئن کے درمیان چھچھورپن ہوا جو کہ انٹرنیٹ پر پائے جانے والے مردوں کے لکھے ناولز میں پایا جاتا ہے۔
تنقید
اینڈنگ زبردست تھی مجھے افسردہ نہیں لگی۔ ناول کا ہر کردار ضرورت سے ذیادہ جزباتی تھا۔ نیلی آنکھوں والی لڑکی کبھی دیکھی نہیں اگر کسی کی نیلی آنکھوں والی بہن یا پڑوسن یے تو تصویر بھیجے۔ آغاز سست تھا اور ارتضی کا پہلی نظر کا پیار انتہائی بےتکا لگا کیونکہ وہ کم سے کم پندرہ سال باہر رہا باہر کی کوئی میم پسند نہ آئی محبت ہوئی تو میلے میں دیکھی نیلی آنکھوں والی سے۔
Spoiler A L E R T ⚠️
جبران کا ملک کے ساتھ مل کر نایاب کو تباہ کرنے اور ارتضی کو بدگمان کرنے کا پلان کافی بچکانا تھا۔ یعنی واقعی میں ناول میں موجود ہر کردار کو دنیا کا سب سے بڑا غم محبت کا نا ملنا لگتا ہے۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
بندہ پوچھے ارتضی ایک طرف اتنا جنونی ہے کہ جبران کا گریبان پکڑ لیا تو کیا نایاب سے سچ نہیں پوچھے گا؟ اور آخر میں مجھے شدید قسم کی چڑ ہے اتنی شدت آمیز محبت کہانیوں سے سارے کردار بے وقوفانہ حد تک شدد پسند تھے سب کا مسلئہ صرف محبت تھا۔ جبران کی پلانگ اچھی تھی مگر بری ہوئ اس کے ساتھ۔ میرا فیورٹ اس لیے کیونکہ وہ سب کو اچھا نظر آتا تھا لیکن تھا نہیں۔ اس نے ایکٹنگ اچھی کی