" کیا سوچ رہے ہو بچے "
وہ پودوں کی کانٹ چھانٹ کر رہی تھیں ۔
انہیں محسوس ہوا کہ وہ بھی ان کی طرح اکیلا ہے۔
"کچھ نہیں، میں آپ کی مدد کروں؟"
وہ مسکرائی
"ہاں بالکل ، چلو کچن میں جائیں "
وہ کچن میں انکی چھوٹے چھوٹے کاموں میں مدد کرتا اور وہ اسے پرانی زندگی کی کہانیاں سناتی رہتیں۔
وہ سارا ہفتہ ان کہانیوں کا انتظار کرتا، عائشہ بھی سارا ہفتہ کسی سامع کا انتظار کر تی اور انہی کہانیوں میں
اس نے عمیر کو اپنے بارے میں سب بتادیا۔
" آپ کے ساتھ جو کچھ ہواوہ میٹر نہیں کرتا، یہ میٹر کرتا ہے کہ اب آپ خوش ہیں "
اب وہ اک لمبا ساٹین ایج لڑکا تھا اور آج بھی جب آتا تو اسکا دکھ بانٹ لیتا۔
Read Complete novel Here