مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_61
نور_راجپوت
میں بندہ ِ احد تھا
”کوئی بھی لڑکی تم پر اپنا دل ہار سکتی ہے۔“
”برو،یو آر ہینڈسم! اس کا مطلب میں بھی ہینڈسم ہوں۔“
”بائے دا وے میں بھی ایک راک سٹار ہوں اور تم سے کم مشہور نہیں ہوں۔“
”چلو آج کے دن حاد بن کر دیکھتے ہیں اس احساس کو جیتے ہیں کہ میں ایمانے کی چاہت ہوں۔“
”کیا مصیبت ہے؟؟؟ تم تیرہ سالوں سے عبدل بنے رہے ہو میں نے کچھ کہا؟؟ اگر ایک دن کے لیے میں حاد بن رہا ہوں تو تم سے برداشت نہیں ہورہا؟؟ بڑے ہی کم ظرف ہو یار!“
حاد اسے پکارتا ہی رہ گیا تھا لیکن وہ فون بیڈ پر پھینک کر روانہ ہوچکا تھا۔ سب سے پہلے وہ ہیزل کے پاس گیا تھا جو اکیڈمی میں تھی۔
وہ اسے دیکھتے ہی چونک اٹھی۔ مصطفے بھی اسے دیکھ کر حیران ہوا۔ صبح ہی اس کی حاد سے بات ہوئی تھی وہ اسلام آباد میں تھا پھر اچانک یہاں کیسے آگیا تھا۔
”کیسی ہیں مس ہیزل؟؟“ وہ اسے دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اور وہ اس کے سامنے پینٹ کی جیبوں ہاتھ ڈالتے بالکل یوں بیٹھا جیسے حاد بیٹھتا تھا۔ وہ اسے دیکھتی رہی۔
”کیا ہوا آپ کھڑی کیوں ہیں؟ پلیز بیٹھ جائیں اور بتائیں کوئی اشو تو نہیں آرہا یہاں؟“
”عبدل۔۔“ وہ بڑبڑائی اور عبدل کو اپنا سانس رکتا محسوس ہوا۔ کیا وہ اسے پہچان گئی تھی یا وہ حاد نہیں لگ رہا تھا؟؟
“ایکسکیوز می!“ اس نے فوراً خود پر قابو پایا۔
”وہ اپنے ساتھ روشنی لاتا ہے۔۔“ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے بولی۔ اس کا لہجہ عجیب سا تھا۔
اور عبدل کو لگا کسی نے اسے آسمان سے زمین پر لاپٹخا ہو۔
وہ حیرانی سے ہیزل کو دیکھنے لگا اور پھر بنا کچھ کہے جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے جبڑے بھنچ گئے تھے۔ اس نے گہرا سانس لیا اور پھر واپسی کے لیے قدم بڑھائے۔
”عبدل۔۔۔“ اسے عقب سے آواز سنائی دی۔ وہ رک گیا پر پلٹا نہیں۔
“مقابلہ چھوڑ دو پلیز۔۔“ اس نے جیسے التجا کی۔ لیکن وہ اپنے غصے میں اس کی بات سمجھ ہی نہیں پایا اور کچھ دیر بعد وہ اس جگہ کھڑا تھا جہاں اسے حاد کو بھیجنے کا کہا گیا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک سیاہ گاڑی وہاں آکر رکی اور وہ جلتی آنکھیں لیے اس میں بیٹھ چکا تھا۔
اس بات سے انجان کے سات سمندر پار حاد پاگلوں کی طرح سڑکوں پر بھاگ رہا تھا۔ وہ داؤد کا نمبر ملا رہا تھا لیکن اس کا فون بند جارہا تھا اور عبدل فون نہیں اٹھا رہا تھا۔
اس رات حاد نے انجانے خوف کو اپنی روح میں سرائیت کرتے محسوس کیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ لوگ اسے کہاں لائے تھے عبدل یہ نہیں جانتا تھا۔ کیونکہ گاڑی کے شیشے سیاہ تھے جن سے باہر دیکھنا ناممکن تھا اور سیاہ کپڑوں میں ملبوس وہ لوگ اس کے ارد گرد مکھیوں کی طرح بیٹھے تھے تاکہ وہ بھاگ نہ جائے۔ اس وقت وہ جس قدر غصے میں تھا وہ بھاگنا چاہتا ہی نہیں تھا اسے حاد سے بدلا لینا تھا اور اس نے شکار خود کیوں کیا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ ان کے سامنے ایک خالی کمرے میں بیٹھا تھا۔ کمرے میں صرف ایک میز اور تین کرسیاں تھیں۔
ایک جانب وہ اکیلا بیٹھا تھا اور دوسری جانب دو لوگ تھے۔ دونوں کے چہرے ماسک میں چھپے تھے۔
”تم اب تک زندہ ہو؟ یہ کیسے ممکن ہے؟“ ان میں سے ایک نے سوال کیا۔
”یہ تو شاہکار ہوگیا۔۔“ دوسرا بھی بولا تھا۔ وہ خاموشی سے سنتا رہا۔ حاد خاموشی کی زبان بولتا تھا اس لیے وہ بھی اس وقت خاموش بیٹھا تھا۔
”سالوں پہلے جب میری لیب تباہ ہوئی میں تبھی سمجھ گیا تھا کہ کسی عام انسان کا کام نہیں۔۔ تو تم زندہ تھے تم بچ گئے تھے۔۔“
وہ شخص یقیناً ان لوگوں میں سے ایک تھا جس نے اسے بچپن میں اغواء کروایا تھا۔
”تمہیں شاید اندازہ بھی نہیں ہے کہ اس وقت میرا کتنا نقصان ہوا تھا۔ آج تک پورا نہیں ہوسکا۔ تم نے میرے سالوں کی محنت کو تباہ برباد کردیا تھا۔۔“ وہ خاموشی سے انہیں سنتا رہا تھا کہ حاد نے آخر کیا کیا تھا۔
”تمہیں ڈھونڈنا بہت مشکل تھا سالوں لگ گئے ہمیں تم تک پہنچنے میں۔۔“ دوسرا شخص ابھی تک خاموش تھا۔
”اور یہ تب ممکن ہوا جب تم اپنی اصل شناخت کے ساتھ سامنے آئے، کیونکہ حاد ایک ہی تھا۔۔“
”تیرہ سال عبدل بنے رہنے کے بعد وہ حاد کیوں بنا؟؟“ وہ اب سوچ رہا تھا۔
”خیر، ابھی ہم نے تمہیں یہاں ایک ڈیل کے لیے بلایا ہے۔۔“
دائیں جانب بیٹھے اس شخص نے ہاتھ میز پر رکھتے کہا۔ ان کے اوپر ایک سفید بلب لٹک رہا تھا جبکہ کمرے کی دیواریں جالی کی تھیں اور جالی کے پار کیا تھا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
”تم ہماری تنظیموں کا پیچھا چھوڑ دو۔۔“ دوسرا شخص بولا۔
”اور مجھے میری لیب کا سارا ڈیٹا چاہیے جسے تم نے اڑا دیا تھا لیکن جانتا ہوں تمہارے پاس کہیں محفوظ ہوگا۔۔“ پہلے شخص نے بھی اپنی شرط رکھی۔
” اتنے خطرناک کام کرنے کی کیا ضرورت تھی“ عبدل منہ بسور کر رہ گیا تھا اس نے بےچینی سے پہلو بدلا۔ یعنی اب اس کے خلاف دو دشمن اکٹھے ہوچکے تھے۔
”اور اگر میں انکار کردوں؟؟“ وہ اب سیدھا ہو بیٹھا۔
”تو تمہارا بھائی نہیں بچ پائے گا، کوئی بھی نہیں بچے گا۔۔“
وہ اسے دھمکی دے رہے تھے اور عبدل سن کر مسکرادیا۔
”نائس۔۔“ وہ جیسے محضوظ ہوا تھا۔ سامنے بیٹھے دونوں شخص اسے یوں مسکراتا دیکھ کر حیران ہوئے۔
”اتنا آسان ہے؟؟“ وہ ان کی جانب دیکھتے بولا۔ چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوئی اور وہاں سرد سے تاثرات تھے۔
”سب تمہاری طرح ماسٹر مائنڈ نہیں ہوتے کچھ لوگ اپنے جذبات میں غلط فیصلے کرجاتے ہیں۔۔“ عبدل کو لگا جیسے اسے سنایا گیا ہو۔
”ٹھیک ہے۔۔۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”آئی نیڈ سم ٹائم۔۔۔“ وہ اب کچھ سوچتے ہوئے بولا۔ اس نے روحان جبیل کا نہیں پوچھا تھا اگر وہ ہوتا تو کبھی نہیں پوچھتا۔ اس لیے وہ بھی خاموش رہا۔
”کتنا ٹائم۔۔۔؟؟“ وہ اسے دیکھتے پوچھ رہے تھے۔
”جتنا مجھے ڈھونڈنے میں لگایا ہے اتنا۔۔“ اسے جیسے مزہ آرہا تھا۔
وہ دونوں اسے دیکھنے لگے یوں جیسے اس کی بات کا مطلب سمجھ نہ آیا ہو۔
اور پھر وہ واپس جانے کی ڈیمانڈ کر رہا تھا۔ ان دو لوگوں نے اپنی آدمیوں کو اسے واپس لے جانے کا اشارہ کیا تھا۔
”کیا لگتا ہے یہ کون ہے۔۔؟؟“ اس کے جانے کے بعد ایک نے پوچھا۔
”حاد تو بالکل نہیں۔۔“ دوسرے شخص نے پورے یقین سے جواب دیا۔
”تو اسے جانے کیوں دیا؟؟“
”اسے ہم حاد سے چھپا کر کہیں نہیں رکھ سکتے، لیکن کچھ ایسا ضرور کر سکتے ہیں جس سے وہ ٹوٹ جائے۔۔۔“
ان کی آنکھوں میں اب شیطانی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔
عبدل جس گاڑی میں آیا تھا اسی میں واپس جارہا تھا۔ وہ سب اس کے گرد یوں ہی بیٹھے تھے۔ اسے گھور رہے تھے جیسے کچا چبا جانا چاہتے ہوں۔
انہوں نے اسے اسی جگہ پر اتارا جہاں سے پک کیا تھا۔ وہ گاڑی سے اترا اور اردگرد دیکھا۔ شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔
گاڑی اسے اتارتے ہی زناٹے بھرتی آگے بڑھ چکی تھی۔
وہ کامیاب رہا تھا اور اس وقت سیٹی پر دھن بجاتا آگے بڑھ رہا تھا جب اچانک ہی کوئی اس سے ٹکرایا۔ یہ اس قدر تیزی سے ہوا تھا کہ عبدل کو پتا ہی نہیں چل پایا۔ اسے اپنی کمر میں ایک چبھن کا احساس ہوا۔
”سوری سر سوری۔۔۔“ اس کے سامنے ایک ٹین ایج سا لڑکا کھڑا تھا۔ وہ اسے نظرانداز کرتا آگے بڑھا پر کچھ دیر ہی چلنے کے بعد اسے اپنے جسم میں شدید تکلیف کا احساس ہوا۔ اس کی ٹانگیں کانپنے لگی تھیں۔ اسے اپنی ساری ہڈیاں ٹوٹتی پھوٹتی محسوس ہوئی تھیں۔
تکیلف اس قدر تھی کہ وہ گھٹنوں کے بل گرا۔ یہ سب اتنی اچانک ہوا تھا کہ وہ سمجھ ہی نہیں پایا اس کے ساتھ ہوا کیا تھا۔ اور اگلے ہی لمحے وہ فٹ پاتھ پر پڑا بری طرح تڑپ رہا تھا۔۔اس کا چہرہ سرخ پڑ چکا تھا اور آنکھیں جیسے ابل آنے کو تیار تھیں۔ وہ زمین پر پڑا تھا اور اس کی نظریں آسمان پر تھیں۔
"Did it Hurt when you fell from Heaven.."
اسے اپنے الفاظ یاد آئے۔ اس نے سیاہی کو چاروں جانب سے اپنے قریب آتے دیکھا تھا۔ موت کی سیاہی کو۔۔ سیاہ پنکھ پھیلائے وہ اس کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔
”صرف ایک انجیکشن، ایک انجیکشن کافی ہوگا اگر وہ حاد ہوا تو بچ جائے گا اور اگر اس کا بھائی تو۔۔۔۔“
لیب کے مالک نے چہرے سے ماسک اتار کر پراسرار انداز میں کہا۔۔۔وہ اپنا کام کر چکے تھے۔
وہ حاد نہیں تھا وہ بھلا کیسے سہہ پاتا۔۔۔؟؟
گرے آنکھوں کی چمک ماند پڑ گئی۔۔۔وہ ابھی تک آسمان پر ٹکی تھیں۔ اس کے گرد لوگ جمع تھے اور پھر کسی آندھی طوفان کی طرح ایک گاڑی وہاں آکر رکی تھی۔
داؤد گاڑی سے اترا تھا اس نے عبدل کو اپنی قوت لگا کر اٹھایا اور گاڑی میں بٹھایا۔ اس سے پہلے ایمبولینس وہاں پہنچتی اسے وہاں سے فرار ہونا تھا۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا پیچھے سیٹ پر پڑا عبدل کا وجود ٹھنڈہ پڑچکا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ حاد نہیں تھا جو سہہ پاتا پر وہ اتنا عام بھی نہیں تھا جو یوں مر جاتا۔۔۔!!
دو دن لگ گئے تھے حاد کو ویلنسیا پہنچنے میں اور جب اس نے عبدل کو دیکھا تھا اس کے اندر آگ جل اٹھی تھی۔
عبدل اسے جان سے پیارا تھا لیکن اس نے ہمیشہ اپنی ضد میں حاد کو تکلیف پہنچائی اور ہمیشہ نقصان خود اٹھایا۔
وہ بےجان سا پڑا تھا۔ داؤد اسے اٹھالایا تھا اور اسے پرائیویٹ میڈیکل کمپلیکس میں رکھا گیا تھا جہاں اس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ عبدل کی بس دل کی دھڑکن چل رہی تھی باقی کچھ محسوس نہیں ہورہا تھا۔
داؤد نے پہلی بار حاد کو یوں ٹوٹتے دیکھا تھا وہ سنسان سڑکوں پر برستی بارش میں بےطرح چلایا تھا۔
عبدل اسے پھر سے چھوڑ کر کیسے جا سکتا تھا؟؟ ابھی تو ملا تھا۔
”میرا وجود میرے اپنوں کے لیے تکلیف کا باعث ہے، میں جس کو چھو لوں وہ مر جاتا ہے، پتھر ہوجاتا ہے، میں نے اپنے جان سے پیاروں کو ہمیشہ کھویا ہے۔“
حاد جبیل۔۔۔وہ شخص جسے ہر طرح سے آزمایا گیا۔ نہ صرف جسمانی تکلیف دے کر بلکہ اپنے جان سے پیاروں کی تکلیف جو وہ دیکھ نہیں سکتا تھا اسے سب دکھایا گیا۔
ایک ساتھ دو دکھ۔۔ ایک طرف پاگل خانے میں ایمانے تھی
اور دوسری طرف ہسپتال میں عبدل۔۔۔!! وہ دونوں اسے پیارے تھے اور دونوں اسے تکلیف دے رہے تھے۔
”میں تمہاری ساری باتیں مانوں گا، پلیز ڈونٹ ڈو دز، ایسا مت کرو عبدل! رک جاؤ۔کہیں مت جاؤ۔“
وہ حاد جبیل جس نے ساری جسمانی تکلیفیں سہہ لی تھیں لیکن ظالموں سے رحم کی بھیک نہیں مانگی تھی اس حاد جبیل نے اپنے ہی بھائی کی منتیں کی تھی لیکن وہ نہیں رکا تھا۔
کوئی پوچھتا حاد جبیل سے سیاہ راتوں میں اکیلے تڑپنا کیسا ہوتا ہے؟؟
اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے کھو دینا کیسا ہوتا ہے؟؟
روشنی اندھیرے کا سفر طے کرکے مسٹر گرے بنے رہنا کیسے ہوتا ہے؟؟
ظلم کے خلاف تنہا راتوں میں اکیلے لڑنا کیسا ہوتا ہے؟؟
کوئی پوچھتا حاد جبیل سے کہ خاص بن کر عام لوگوں کی دنیا میں پھنس جانا کیسا ہوتا ہے۔۔؟؟
✿••✿••✿••✿
جتنا وقت ایمان نے پاگل خانے میں گزارا تھا اتنا وقت عبدل کوما میں رہا تھا اور جب وہ اٹھا دنیا یکسر بدل چکی تھی کم از کم عبدل کے لیے۔۔۔
وہ سال جب ایمانے نے خود کو دوبارہ کھڑا کیا تھا اور اسے لگتا تھا سب موو آن کرچکے ہیں وہ سال سب نے اپنی اپنی تکلیفوں میں گزارا تھا۔
وہ عبدل تھا حاد کا بھائی۔۔۔وہ اسے مرنے نہیں دے سکتا تھا۔ وہ اٹھ تو گیا تھا پر اس کے جسم کا نچلا حصہ بےجان ہوچکا تھا وہ اب چل نہیں سکتا تھا۔ زیادہ وقت لیٹے گزارتا یا پھر بیٹھ کر۔۔۔ حاد وہیں تھا اس کے پاس۔۔ ایمانے کو جب ارمان لے گیا تھا وہ عبدل کے پاس آگیا تھا۔ وہ اس کا پورا دھیان رکھ رہا تھا لیکن اسے نہیں دیکھتا تھا۔
اس وقت بھی حاد اسے کمبل اوڑھا رہا تھا جبکہ عبدل کی نظریں حاد پر جمی تھیں جو اسے نہیں دیکھتا تھا نہ بات کرتا تھا۔۔ پہلی بار وہ اس سے خفا ہوا تھا۔
”تم نے ٹھیک کہا تھا حاد۔۔“ وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا جو اس کی ٹانگوں پر کمبل اوڑھانے کے بعد اس کی دواء نکال رہا تھا۔ عبدل کی آواز پر وہ رکا نہیں یوں جیسے اس نے سنا ہی نہ ہو۔
”تم نے کہا تھا میں حاد بننا سہہ نہیں پاؤں گا اور تم نے ٹھیک کہا تھا دیکھو میں نہیں سہہ پایا۔۔“
حاد نے اس کی بات سنی ان سنی کی اور ہتھیلی پر رکھی دواء اس کے سامنے کی جسے عبدل نے تھام لیا تھا۔ وہ اب اسے پانی کا گلاس پکڑا رہا تھا۔۔۔ لیکن اس بار وہ تھام نہیں پایا۔۔اس کا جسم کمزور ہوچکا تھا۔۔ عبدل، وہ باکسر تھا جو پاگلوں کی طرح لڑتا تھا وہ اب چل نہیں سکتا تھا اور اس کے ہاتھ بھی ٹھیک سے کام نہیں کرتے تھے۔
حاد نے گلاس اس کے منہ سے لگایا اور عبدل نے پانی پی لیا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی جبکہ حاد کا چہرہ سرد سپاٹ سا تھا جذبات سے عاری۔ وہ کمرے کی لائٹ آف کرکے پلٹنے والے تھا جب اچانک عبدل کی آواز ابھری۔
”مجھے بہت درد ہوا، میں نے کبھی مانا نہیں لیکن مجھے درد ہوا۔۔جب جب میں اپنے مقام سے گرا تب تب۔۔۔عبدل دی فالن اینجل کو ہمیشہ درد ہوا جسے اس نے اپنے غصے میں چھپا لیا۔۔“
وہ پل بھر کو رکا پر اگلے ہی لمحے وہ دروازہ بند کرکے کمرے سے جاچکا تھا۔
اس پل موت کو قریب سے دیکھنا جس پل مرنے کی خواہش نہ ہو وہ پل انسان کو دودھاری تلوار کی طرح کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔
”مجھے ڈر لگتا ہے، مرنے سے ڈر لگتا ہے۔۔ “
وہ ڈرتا تھا لیکن موت کو یوں قریب سے دیکھ کر جو چیز سب سے پہلے ٹوٹی تھی وہ اس کی جھوٹی انا تھی جس پر وہ سالوں قائم رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”ایم سوری مام! میں نے وعدہ کیا تھا اسے ڈھونڈ لاؤں گا پر ایسے نہیں۔۔“ وہ اپنی ماں کے سامنے سرجھکائے کھڑا تھا۔ حانم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر عبدل کو جو وہیل چیئر پر بیٹھا تھا۔ اس کا ذہن تیزی سے پیچھے کی جانب بھاگا۔ چند مہینے پہلے جب عبدل نے اسے کال کی تھی۔
”مام۔۔ میں ایک بہت بڑا راک اسٹار بن گیا ہوں۔ آپ کو مس کرتا ہوں۔ آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ واپس آنا چاہتا ہوں۔۔“
”ایک راک اسٹار کے لیے میرے گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ لوٹنا ہو تو واپس اسی روپ میں آنا جس میں گئے تھے۔مجھے میرا عبدالاحد چاہیے عبدل دی فالن اینجل نہیں۔۔“
اور پھر اس نے کبھی دوبارہ اپنی ماں کو فون نہیں کیا۔ اسے غصہ آیا تھا کہ اس کی ماں نے اسے منع کیا تھا پر وہ فون کے دوسری جانب روتی ماں کو نہیں دیکھ پایا تھا اور آج وہ اس کے سامنے تھی وہ سرجھکائے بیٹھا تھا۔
”تم نے ہر وعدہ پورا کیا حاد! تم نے اسے بچا لیا اتنا کافی ہے۔۔“
وہ اس کا گال تھپتھپاتی عبدل کی جانب بڑھی۔ سالوں بعد دونوں بیٹوں کو ایک ساتھ دیکھا تھا پچھلی بار بھی دونوں بائیک سے گرے تھے اور حاد ہسپتال میں تھا اس بار عبدل۔۔۔!!
حانم نے قریب ہوتے جھک کر اس کے چہرے کو اوپر اٹھایا۔ وہ عبدل تھا جتنا بھی ٹوٹ جاتا ضد نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
”آپ مجھ سے زیادہ پیار کرتی ہیں یا حاد سے؟؟“ اس نے سالوں بعد سوال بھی کیا تھا تو کیا۔ حانم نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”بتائیں نا عبدل یا حاد۔۔۔؟؟“ وہ بضد تھا۔
”عبدل۔۔۔“ حانم نے عبدل کی پیشانی کو چھوا۔
”تو ٹھیک ہے اس برف جیسی شکل والے کو یہاں سے نکالیں میں اس کا سپاٹ چہرہ دیکھ دیکھ کر بور ہوچکا ہوں۔۔۔“
حانم کو وہ سالوں پہلے والا چھوٹا سا عبدل لگا جسے حاد پر بےتحاشہ غصہ آتا تھا۔حانم کو حیرت نے آلیا۔ ایک پل کے لیے حانم نے عبدل اور پھر حاد کو دیکھا اور اگلے ہی پل حاد اور حانم بےساختہ ہنس دیے تھے جبکہ عبدل ناک پھیلائے بیٹھا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”رام ناتھ ارے او رام ناتھ۔۔۔“ وہ لاؤنج میں وہیل چیئر پر بیٹھا زور زور سے چلا رہا تھا۔ حاد پچھلے آدھے گھنٹے سے کمرہ لاک کیے بیٹھا تھا۔ اس کا لائیو سیشن تھا اور عبدل نے اسے سیشن لینا دوبھر کردیا تھا۔
”رام ناتھ باہر آؤ مجھے بھوک لگی ہے۔۔“
کمرے کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور حاد اپنا لیپ ٹاپ اٹھائے باہر نکلا۔ سیشن مکمل ہوچکا تھا۔ وہ کمرہ لاک کرکے بیٹھا تھا کیونکہ وہ گھر میں جہاں بھی ہوتا عبدل اپنی وہیل چیئر سمیت اس کے سر پر پہنچ جاتا تھا۔۔۔ اور اس نے اس عرصے میں حاد کے ناجانے کتنے نام رکھ دیے تھے۔
چشمش، رام ناتھ، برف جیسی شکل والا، زومبی وائرس اور ویمپائر۔۔۔ وہ باز نہیں آتا تھا۔
”کہاں جارہے ہو؟؟“ آدھا گھنٹہ پہلے وہ لاؤنج سے اٹھ کر جانے لگا تھا جب عبدل نے فوراً پوچھا۔
”واشروم۔۔۔“ حاد نے جل کر جواب دیا۔ ”جانا ہے؟؟“
”نہیں تم ہو آؤ۔۔۔“اس نے بتیسی دکھائی اور حاد نے کمرے میں جاتے ہی لاک کرلیا تھا۔
”تم انتہائی خبیث ہو۔۔“ وہ دس منٹ تک جب واپس نہ آیا تو عبدل اس کے کمرے تک پہنچ چکا تھا۔ لیکن وہ لاکڈ تھا۔
دس منٹ وہ اس کے کمرے کے باہر کھڑا رہا اور جب اس نے دروازہ نہیں کھولا تو اب لاؤنج میں بیٹھا اسے آوازیں دے رہا تھا۔
اس نے حاد کو ناک ناک پکا دیا تھا اور عبدل کو تو وہ چودہ سال بعد ملا تھا اس کا دل ہی نہیں بھر رہا تھا وہ کسی چڑیل کی طرح اس سے چپک گیا تھا۔
”مجھے بھوک لگی ہے۔۔“
اس نے حاد کو صوفے پر بیٹھتے دیکھا تو فوراً کہا۔
”تو میں کیا کروں۔۔؟؟“ وہ بےنیازی سے بولا۔
”تو کھانا بناؤ میرے لیے۔۔“ وہ نخرے دکھا رہا تھا۔
”میں نوکر نہیں ہوں تمہارا۔۔۔“ وہ تیزی سے لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتے بولا تھا۔
”ہاں تم ہو۔۔“ وہ اڑ چکا تھا۔ حاد نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”زیادہ نہیں بس پین کیک بنا دو۔۔“ وہ اب اسے بتیسی دکھا رہا تھا۔ مجبوراً حاد کو اٹھنا پڑا۔ وہ اپنا فون اور لیپ ٹاپ ادھر ہی چھوڑ کر کچن کی جانب گیا۔ اور جب عبدل کو یقین ہوگیا کہ وہ اپنے کام میں مصروف چکا ہے وہ اس صوفے تک آیا، جہاں وہ بیٹھا تھا اور میز پر رکھا اس کا فون اٹھایا۔ پر اگلے ہی لمحے فون جھٹکے سے نیچے گرا تھا۔
"Sorry you are a Bromide.."
فون سے آواز ابھری تھی۔ عبدل کو زوردار کرنٹ لگا اور اس کا دماغ گھوم چکا تھا۔ اسے حاد کے فون سے یہ توقع نہیں تھی۔
”حاد جبیل آئی ہیٹ یو۔۔۔“ وہ غصے سے چلایا اور کچن میں کھڑا حاد جو میدے میں انڈے ڈال رہا تھا اس کی آواز سن کر مسکرادیا۔
✿••✿••✿••✿
اکیڈمی کی کنٹریکشن کا کام چل رہا تھا جسے سعد نے سنبھالا ہوا تھا اور وہ اسے فون پر ہی ساری ہدایات کرتا رہتا تھا۔ جس کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ اس کا کنٹریکٹ تھا وہ ان سے میٹنگ کر رہا تھا وہ ڈریس پینٹ پہنے ہوئے تھا۔ گرے پینٹ پر سیاہ شرٹ جس کے کف فولڈ تھے وہ پوری سنجیدگی سے انہیں اسٹریکچر کے بارے میں آگاہ کر رہا تھا۔ اور کچھ فاصلے پر عبدل بیٹھا جس کے دونوں ہاتھ پیچھے بندھے تھے اور منہ پر ٹیپ لگی تھی۔ وہ بولنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن غوں غون کے علاوہ کوئی اور آواز منہ سے نہیں نکل رہی تھی۔حانم یونیورسٹی گئی تھی جہاں وہ پروفیسر تھی اور زوئی چھٹیوں پر۔۔ گھر میں صرف وہ دونوں تھے اور اس وقت عبدل کا منہ کھولنے والا کوئی نہیں تھا۔ جب وہ میٹنگ اینڈ کرچکا تو لیپ ٹاپ سائیڈ پر کرتا اٹھا اور اس تک گیا۔ اس نے ایک نظر عبدل کو دیکھا جو وہیل چیئر پر ہونے کی وجہ سے اس کے قابو آگیا تھا۔
”سوچ رہا ہوں کچھ دیر اور بند رہنے دوں۔۔“ وہ اس کے سر پر کھڑا تھا عبدل نے کھاجانے والی نگاہوں سے اسے دیکھا اور پھر حاد نے ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ سے ٹیپ اتار دی۔
”پتا ہے نا زومبی وائرس کتے کی موت مرتا ہے۔“ عبدل نے گہرا سانس لیا اور پھر غصے سے پھنکارا۔ حاد نے اس کے ہاتھ نہیں کھولے۔ وہ واپس جا کر صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔
”وائرس نہیں مرتا برو۔۔“ وہ سکون سے بولا اس وقت اسے من کی شانتی نصیب ہوئی تھی کیونکہ وہ سکون سے میٹنگ کرچکا تھا۔
”میرے ہاتھ کھولو پھر بتاتا ہوں کیسے مرتا ہے وائرس۔۔۔“ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہوچکا تھا۔
”کیا شور مچا رکھا ہے تم دونوں نے۔۔۔؟؟“ حانم نے گھر میں داخل ہوتے پوچھا۔
”مام۔۔۔۔“ عبدل نے دہائی دی۔ ”یہ دیکھیں اس نے کیا کیا۔۔“ حانم نے اس کے بندھے ہاتھوں کو دیکھا اور پھر تیزی سے اس کی جانب بڑھی اور جلدی سے اس کے ہاتھ کھولے۔
”میں بتا رہا ہوں اس چشمش کی بس شکل معصوم ہے یہ بہت شاطر ہے۔۔“ وہ اب ان کی ساری توجہ کھینچے حاد کی شکایتیں کر رہا تھا۔ حاد نے کشن سر کے نیچے رکھا اور پھر لیٹتے ایک نظر اسے دیکھا۔
”ڈرامے باز۔۔۔“ وہ زیرلب بڑبڑایا تھا اور پھر بازو آنکھوں پر رکھ لیا۔ وہ سونا چاہتا تھا عبدل اسے کسی بھی وقت سونے نہیں دیتا تھا نہ دن میں نہ رات میں۔۔ اصل وائرس وہ تھا جسے سکون آور دوا کھانے کے بعد بھی جلدی نیند نہیں آتی تھی۔ جتنا وقت وہ سوتا تھا حاد جلدی سے اپنے کام نبٹانے کی کوشش کرتا تھا اور جیسے ہی وہ اٹھ جاتا تھا ہمیشہ کی طرح اس کا جینا حرام کر دیتا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”مام آپ نے کبھی اس کی آنکھوں میں آنسوں دیکھے ہیں۔۔؟؟“ حانم رات کا کھانا بنا رہی تھی جب عبدل نے پوچھا اور نشانہ حاد تھا۔
”کیوں تم میرے آنسوں پینا چاہتے ہو؟؟“
”اخخخ گندے۔۔۔“ عبدل کو فوراً ابکائی آئی۔
”تو ایسے گندے سوال بھی نہ کرو۔۔۔“ وہ سرد سے لہجے میں بولا۔ حانم ان کی بحث سنتی رہتی تھی۔
”ویسے تم کہیں جا رہے ہو؟؟“ اس نے حاد کو فارمل ڈریس شرٹ میں دیکھا تو پوچھا۔
”نہیں۔۔۔“ اس نے یک لفظی جواب دیا۔
”تو پھر تیار کیوں ہو؟؟“
حاد نے ایک نظر اپنے کپڑوں پر ڈالی۔ وہ تو ہمیشہ ایسے ہی رہتا تھا۔
”ابھی مجھے سعد اور مصطفے کے ساتھ ایک سیشن کرنا ہے۔۔ “ حاد نے سادہ لہجے میں بتایا۔
”تم اپنے ہی ٹیم کے ساتھ آنلائن سیشن کے لیے اتنا تیار ہوئے ہو؟؟“ وہ اب حیران تھا۔ عبدل نے تو آج تک ویسی ڈریسنگ نہیں کی تھی۔
”میں ایسے ہی رہتا ہوں۔۔“ وہ گویا ہوا۔
”ایسے کون رہتا ہے؟؟ کبھی تم نے سادہ کپڑے نہیں پہنے؟؟“
”نہیں میری ایک کلاس ہے۔۔“
”اس کو کون کلاس بولتا ہے؟؟ کلاس تو میری ہے۔۔!!“
حاد نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ ہاں اس کی کلاس سے وہ واقف تھا۔۔رنگ برنگے بال، پھٹی جینز اور شرٹ تو وہ لڑائی جھگڑے میں پھاڑ لیتا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ نئی شرٹ پہن کر گھر سے گیا اور صحیح سلامت واپس لایا ہو۔
”ہنہہ۔۔تھرڈ کلاس۔۔۔“ اس نے طنز کیا۔
”مام۔۔۔“ وہ غصے سے چلایا۔
”جب سہہ نہیں سکتے تو بولتے کیوں ہو؟؟“
”تمہاری زبان چودہ سالوں میں زیادہ تیز ہوگئی ہے کاٹنی پڑے گی۔۔“ وہ اب دھمکی دے رہا تھا۔
”میں نے چودہ سالوں میں اور بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔۔“ حاد فوراً بولا تھا۔ اس سے پہلے عبدل کوئی جواب دیتا حانم انہیں کھانے پر بلاتی جاچکی تھی اور مجبوراً انہیں بحث ختم کرنی پڑی۔
✿••✿••✿••✿
حاد جتنا سنجیدہ رہتا تھا عبدل اس کی سنجیدگی دیکھ کر پک چکا تھا۔
”میں اسٹرکچر میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں چاہتا۔۔“ وہ فون کرنے کے لیے گھر سے ملحقہ لان میں گیا تھا۔ اس نے اکیڈمی کی عمارت کو جیسا ڈیزائن کروایا تھا ویسا ہی بنوانا چاہتا تھا وہ اس میں ذرا بھی تبدیلی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ عبدل اسے گلاس ونڈو سے لان میں چکر کاٹتے اور دوسری جانب موجود شخص کو فون پر ہدایات دیتے دیکھ کر پک چکا تھا۔ اس کی بھنویں سکڑ گئیں۔ اگلے ہی لمحے وہ اس کے سر پر کھڑا تھا۔
”تمہیں لگتا ہے تم ایمانے کو یوں امپریس کر پاؤ گے؟؟“ وہ چلا کر بولا۔ وہ فون پر تھا پر عبدل کو کیا پرواہ اس کی بلا سے وہ کچھ بھی کر رہا ہو۔
حاد نے ایک سرد نگاہ اس پر ڈالی اور دوبارہ فون کی جانب متوجہ ہوگیا۔
”تمہیں لگتا ہے تم اپنی ان ویمپائر جیسی چمکتی آنکھوں سے مجھے ڈرا سکتے ہو؟؟“
وہ ابھی بھی اس کی بات نہیں سن رہا تھا۔
”عبدل کی بات کو اگنور مت کرو چشمش نہیں تو تمہارا چشمہ توڑ دوں گا۔۔“
حاد نے دوبارہ اسے دیکھا۔۔۔ ہاں جیسے اس کا چشمہ توڑنا اتنا ہی آسان تھا۔
جب وہ اپنی بات ختم کرچکا تو پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتا اس تک آیا اور ایک گھوری سے نواز کر اندر چلا گیا۔
”میری بات کا جواب دو زومبی وائرس۔۔۔“ وہ وہیل چیئر گھماتے اس کے پیچھے لپکا تھا۔
اب وہ اس کے سامنے بیٹھا تھا، حاد کی بھنویں سکڑیں ہوئی تھیں۔ کام بہت زیادہ تھا جسے وہ اکیلا مینج کر رہا تھا۔
”میری بات کا جواب دو۔۔ تم اپنی اس سرد و سپاٹ بنا تاثرات والی شکل سے اسے امپریس کر پاؤ گے؟؟“
”مجھے اسے امپریس نہیں کرنا۔۔۔“ وہ فون پر کچھ ٹائپ کرتے بولا۔
”تو پھر؟“
”جب بھی کرنا ہے نکاح کرنا ہے۔۔“
عبدل کو لگا کسی نے اس کا دل مٹھی میں لے کر بھینچ دیا ہو۔ اس نے اپنے دل کی دھڑکن کو تیز ہوتے پایا تھا۔
حاد اسے ایمان کی حالت میں بارے میں بتا چکا تھا۔ وہ ابھی ابھی کہرے سے باہر نکلی تھی۔ وہ اب خاموش بیٹھا تھا اپنے دل کی حالت سمجھنے سے قاصر تھا۔
”تم نے ہی کہا تھا جب میں اٹھارہ کا ہوجاؤں تو اس سے شادی کرلوں۔۔۔“ حاد اس کی خاموشی بھانپ چکا تھا۔
”تم آج بھی قائم ہو۔۔۔؟؟“ عبدل نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
”ہمیشہ سے۔۔۔“ وہ ہولے سے بولا۔۔ ”تم اسے میرے پاس ہی چھوڑ گئے تھے۔۔۔“ حاد نے گہرا سانس لیا۔
اور بس۔۔ عبدل مزید ایسی دکھ درد والی باتیں نہیں کر سکتا تھا۔
”تو تمہیں کیا لگتا ہے آج کل کی لڑکیوں کو بنا امپریس کیے تم ان سے شادی کر سکتے ہو؟؟“ اس نے پھر سے چوٹ کرنا چاہی۔
”ایمانے آج کل کی لڑکی نہیں ہے۔۔۔“ کتنا مان تھا اس کے لہجے میں۔۔۔عبدل بےساختہ ہنس دیا۔
”اتنا جانتے ہو اسے؟؟“ اس نے پھر سوال کیا۔
”سب سے زیادہ۔۔۔۔“ وہ اس کے اندھیرے اجالوں سب سے واقف تھا۔
”اب سمجھ آیا اس کی آنکھوں میں تمہارا عکس کیوں تھا۔۔“ عبدل نے گہرہ سانس لیتے کہا۔ حاد نے نظر اٹھا کر عبدل کو دیکھا۔
”کیونکہ تم ہمیشہ سے تھے۔۔۔“ اس کا لہجہ عجیب سا تھا۔ خوشی اور دکھ کی آمیزش سے ملا جھلا۔ وہ اب سونا چاہتا تھا اس نے وہیل چیئر گھمائی اور دونوں کے مشترکہ کمرے کی جانب چل پڑا۔ پھر وہ کچھ سوچتے ہوئے رکا اور پلٹ کر حاد کو دیکھا۔
”تمہارا کبھی دل نہیں کیا اسے سب سے چھین لینے کا؟؟“ اس کی آنکھوں میں الجھن تھی۔
”محبت میں اتنی تو عقیدت ہونی ہی چاہیے کہ قدرت آپ کے محبوب کو لا کر آپ کے پہلو میں بٹھادے۔۔۔“
وہ عجیب سے لہجے میں بولا تھا۔ عبدل اسے دیکھتا گیا۔ وہ محبت سے ناواقف تھا۔ وہ آج تک اپنے جذبات کو سمجھ نہیں پایا تھا۔
”میں اس کے معاملے میں مسٹر گرے نہیں بن پایا، مسٹر گرے اسے اندھیرے اجالوں کی ساری دنیاؤں سے چھین لاتا، میں اس کے معاملے میں صرف حاد ہوں جو پوری ایمانداری سے اس کی چاہت کر سکتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔۔“ اس نے حاد کو یوں پہلی بار بولتے سنا تھا پھر وہ ہولے سے مسکا دیا۔
”چلو میں سونے جاتا ہوں، تم اپنے کام نبٹالو میں اٹھ گیا تو ناممکن سمجھو۔۔“ وہ چلا گیا تھا اور حاد کو سمجھ نہ آیا وہ اسے مشورہ دے کر گیا تھا یا دھمکی۔
✿••✿••✿••✿
عبدل کی سرجری ہونی تھی وہ بھی دو جگہ سے۔۔ اس انجیکشن نے نہ صرف اس کے جسم کے نچلے حصے کو بےجان کیا تھا بلکہ اس کے دماغ کو بھی متاثر کیا تھا۔ ویکسین کے اثرات آہستہ آہستہ زیادہ ہورہے تھے۔ اس کے سارے ٹیسٹ ہوئے تھے سی ٹی اسکین سے لے کر ایکو تک۔ اور اس کے دماغ کے داہنے حصے میں مسئلہ آیا تھا۔ حاد اور حانم دونوں بہت پریشان تھے جبکہ عبدل ویسے ہی رہتا تھا جیسا وہ تھا۔ جیسے اسے کوئی پرواہ ہی نہ ہو۔
”تم میرا بدلا کب لو گے؟؟“ اگلی صبح وہ اس کے سر پر آدھمکا تھا۔ حاد نے نظر اٹھا کر اسے یوں دیکھا جیسے اس کا دماغ پھر گیا ہو۔ وہ کچھ نہ بولا۔ میز پر بڑا سا نقشہ پھیلائے وہ اس پر کچھ نشان لگا رہا تھا۔
”بتاؤ بھی تم میرا بدلا میرے مرنے سے پہلے لو گے یا بعد میں؟؟“
”شٹ اپ عبدل۔۔۔“ حاد کو غصہ آیا۔ وہ کتنا پریشان تھا یہ وہی جانتا تھا۔اس کی سرجری میں خطرہ تھا اور سرجری کے بنا بھی وہ زیادہ دیر زندہ نہ رہ پاتا۔
”میں تمہیں اجازت دیتا ہوں اگر میں مرگیا تو تم میرے بدلا لے لینا اور اگر میں بچ گیا۔۔۔“ اس نے بات ادھوری چھوڑی۔
حاد نے ضبط کرتے اسے دیکھا۔ عبدل کا چہرہ سپاٹ تھا اور آنکھیں لاوہ اگھل رہی تھیں۔
”اگر میں بچ گیا تو میں سب کو تباہ کردوں گا۔۔“
وہ ویسے ہی باردو تھا ہر وقت پھٹنے کو تیار۔ اور اسے یہ سب بہت آسان لگ رہا تھا۔
”غلطی تمہاری ہے عبدل تم میری بات مانتے تو یہ سب نہ ہوتا۔۔“ وہ اس پر غصہ تھا پر اسے کچھ کہنے کا فائدہ نہیں تھا۔
”دیکھو میں اپنی مرضی کا مالک ہوں،سمجھدار ہوں اور میں اپنے فیصلے خود لے سکتا ہوں۔۔“ اس نے گردن اکڑائی۔
”ہنہہ“ حاد چہرے پر ہاتھ پھیرتا استہزائیہ ہنسا۔ صاف صاف ظاہر تھا وہ کتنا سمجھدار تھا۔ وہ ہمیشہ خود کو نقصان پہنچا کر حاد سے بدلا لیتا تھا کیونکہ اسے درد دینے کا فائدہ نہیں تھا۔ حاد کی کمزوری وہ خود تھا اور عبدل اس بات سے واقف تھا۔ وہ بچپن سے اپنے آپ کو نشانہ بنا کر،خود کو تکلیف دے کر اسے ٹارچر کرتا تھا۔
”ایک بات اور۔۔۔“ وہ کمرے سے جاتے جاتے رکا اور پھر گویا ہوا۔
”اگر میرے مرنے کے بعد یا پہلے تم نے ایمانے سے شادی نہیں کی تو میں تمہارا جینا اس سے بھی زیادہ حرام کروں گا اور میں تمہیں اس سے شادی کی اجازت صرف اس لیے دے رہا ہوں کہ اس نے اگر کسی کو چاہا ہے تو وہ صرف تم ہو۔۔ورنہ وہ بچپن سے مجھے چاہیے تھی۔۔۔ہنہہ“
”یار پلیز جاؤ۔۔۔“ حاد نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے۔ اس نے اپنی وہیل چیئر گھمائی۔ اب وہ جارہا تھا۔ حاد نے سکون کا سانس لیا۔
”اور اگر تم اپنے وعدے سے مکرے تو تمہارا گلا کاٹ کر تمہاری آنکھیں نکال کر جارج کے کتے کو ڈالوں گا۔۔۔“
اسے آج بھی جارج کا کتا نہیں بھولا تھا۔
”جارج کا کتا مر چکا ہے۔۔۔“ حاد نے اسے آگاہ کیا۔
”میں مرے ہوئے کتے کو ڈال دوں گا۔۔۔۔“ وہ کمرے سے جاچکا تھا اور حاد نے بےساختہ اپنا سر تھاما۔
✿••✿••✿••✿
amazing episode
ReplyDeletejust luvvv this novel
plzzz next episode b jld sy jld upload kriye ga plzzz
kmaal ki writer hn ap miss noor rajpoot
Allah pak apko khush rkhen r seht vali lmbi zindgi ata kren taky hm apki esi hi healing writing sy fezyaab hoty rhen
Buht mzy ki episode
ReplyDeleteGood work miss Noor
Haad and abdul duo kmaal ka hai
ReplyDeleteTobaaaaaa
ReplyDeleteMara to ro ro k bora haal ho gya hai 🥺😣 aur hass hass k bhi 😂😂 abdal bhi great banda hai 😍 amazing episode ❤️ bs abdul ko kuch na ho wo thk ho Jaye ❤️
ReplyDeletePlz writer Abdul ko kuch mat karna marna mat kisi bhi character ko mat marna hum yeh sadma seh nhi payegy kisi ko bhi marna mat yaha tk syed jabeel ko bhi nhi plz boht great novel hai ma bs 2 novels ki episodes ka besabri sy intizar karti hn ek mala and maseel boht are my fav
ReplyDeleteWant Abdul - Haad duo to continue like this yarr, please abdul k sath kuch bura nahi hona chahye, ham Haad to tootta hua nahi dekh skte hein yar 😭
ReplyDeleteNext epi kb ayegii?
ReplyDeleteWhich app is used for that type of mobile protection mention in novel "sorry you are bromide" 😁😅
ReplyDeleteAhhhhh abdul 🤣🤣🤣🤣🤣🤣 amazing epi waiting for next
ReplyDeleteAllah Abdul ko salamat rkhy🥺🥺.Ameen Next kab aye gi?
ReplyDeleteNext episode plz
ReplyDeleteplz mam jaldi jaldi episode's publish kren.... or khtm kren ye novel. ab to be-sabri ki intha py hun main.
ReplyDeletevery cute famiky and loving brothers . please dont kill abdul and i m sure that haad is going in abdul concert bc abdul s not feeling well at that time .
ReplyDeleteOutstanding ep ..
ReplyDeleteFinally Abdul Ki story bhi dobara start hovi ...
Haad & Abdul both are amazing character of this novel...
Mere se tu intezar e ni hota next episode ka plz jldi se upload krdiya kren na..🥹♥️
ReplyDeleteHad ka roll jaisa likha gya hai us pr yai pyar muhabat wali batai sit nhi krti. Wo bht mazbot insan hai us pr yai dialogues a hai nhi lgtai
ReplyDeleteZabardast 😊👍🏻lekin mujhe laga k shuru hote hi khatm hogai 😒
ReplyDeleteyr apny aj 2 din baad episode diya qasam st mei check kr kr k thak gai k q ni aa rahi episode.... apka ye novel fantastic hy 🫀 sister I'm so impressed.... mujhy lga tha namra Ahmad or umera Ahmad k elawa koi achi writer ni ho sakti but mei ghalat thi bohttttt achi episode thi but emany l sath zyada best jati hy... ap iska last jaldi mat dena please... or iska PDF full b ap apni website pr dena
ReplyDeletewo zubi Novel wala tw ly kr beth gea hy mam apky novels chori kr kr k pdf dalta hy😂
ReplyDelete62?,????
ReplyDeletenew episode has been uploaded
DeleteNice novel 👍 intazar nahi ho raha agli episode ka jaldi se upload kr de
ReplyDeleteWriter plzzzz Abdul ko marna my plzzz🥺🤧
ReplyDeleteNext episode?
ReplyDeleteepisode 62 has been uploaded
Deletemujhy asy kiyon lg raha hy k abdul ki surgery thik sy ni ho sky gi or woh mur jayga
ReplyDeleteEpisode 62 kab aye gi .link nahi hy oska?
ReplyDeleteLink uper diya ha
Delete