جس دن آپ لوگوں کو یہ سمجھ آگیا کہ ناول کا نام مـــاثـیــــــل ادھم جبیل پر نہیں رکھا گیا تھا بلکہ یہ ہر بت بنانے والے کے لیے تھا جس کے لیے اپنے بتوں کو توڑنا مشکل کام ہے، اس دن آپ لوگوں کو اس ناول کا مقصد سمجھ آجائے گا۔
آور جس دن یہ سمجھ آگیا کہ اس کہانی کے مرکزی کردار ایک یا دو لوگ نہیں تھے بلکہ چار لوگ تھے اس دن فیورٹ فیورٹ کی جنگ ختم ہوجائے گی۔
نور_راجپوت
Episode 60👇
مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_60
سیاہ یادیں
حاد نے ایمان کی غیر ہوتی حالت کو دیکھا اور پھر آہستگی سے اسے خود سے لگایا۔ وہ بےطرح تڑپ رہی تھی جیسے ابھی تک عبداللہ شہاب نے اسکا گلہ دبا رکھا ہو۔
“انہوں نے مجھے مارنے کی کوشش کی۔ انہوں نے میرا گلہ دبایا تھا۔ انہوں نے میرا یقین نہیں کیا۔ کبھی نہیں کیا۔۔“ وہ روتے ہوئے بتارہی تھی۔ انسان سبھی بری یادوں سے نکل آتا ہے سوائے بچپن کے ٹروما کے اور ٹروما بھی وہ جو باپ سے ملا ہو۔
”میں نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا۔ میرا کبھی کوئی افیئر نہیں تھا۔۔“ وہ روتے ہوئے حاد کو بتا رہی تھی اور حاد لے لیے اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔
”میں اندر نہیں جاؤں گی وہ مجھے مار ڈالیں گے۔۔“ وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی اور حاد اسے تھام کر آفس لے آیا تھا۔
وہ سکول میں تھی۔ ایک ٹین ایج لڑکی جس کی دنیا اپنے کمرے اور کتابوں تک تھی۔ اسے عبداللہ شہاب نے گلہ دبا کر مارنا چاہا تھا کیونکہ انہوں نے اس کی وہ ڈائری پڑھ لی جسے وہ سب سے چھپ کر لکھتی تھی۔ اس کے پاس کوئی دوست نہیں تھا کوئی سہیلی نہیں تھی۔ وہ اپنے احساسات کو اپنی ڈائری میں لکھتی تھی ایک دن عبداللہ شہاب نے اسے چھت پر ڈائری لکھتے دیکھ لیا تب وہ نہم کلاس میں تھی۔ اس دن عبداللہ شہاب کو شک ہوا۔ پھر انہوں نے جب وہ اسکول میں تھی اس کے کمرے سے وہ ڈائری ڈھونڈ نکالی۔ جس میں اس نے بہت ساری باتیں لکھی تھیں۔ اسے روحان جبیل جیسا باپ چاہیے تھا لائف پارٹنر کا خیال تو اس کے ننھے ذہن میں تب تک آیا ہی نہیں تھا۔ اسے شاعری پسند تھی چند اشعار لکھے اور عبداللہ شہاب نے اس بنا پر اسے مارنا چاہا تھا۔۔ وہ مرجاتی اگر اسے بچانے سلمی بیگم نہ آتیں۔ اس دل عبداللہ شہاب نے ایمان کے دل میں نفرت کی گہری ضرب لگادی تھی۔ اس کے بعد وہ شاعری کی طرف متوجہ نہیں ہوئی۔ اس نے کبھی کوئی ڈائری نہیں خریدی۔ وہ اپنے جذبات اپنے اندر ہی چھپا کر رکھنے کی عادی ہوگئی تھی۔
وہ اب صوفے پر بیٹھی اپنی سسکیوں کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی وہ اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کی کمر کے گرد بازو حائل کیے اسے اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔وہ اس کے کندھے سے سر ٹکائے بیٹھی تھی۔ اس کی کلائی میں نازک سا کنگن تھا جو حانم نے اسے دیا تھا اور وہ پہنے ہوئے تھی۔ وہ کنگن کمرے کی دھیمی روشنی میں جگمگ کر رہا تھا اور اس کی کلائی میں اس قدر حسین لگ رہا تھا کہ حاد سے نظریں ہٹانا مشکل ہوگیا۔ وہ اس کے کنگن سے کھیل رہا تھا۔
”ایم سوری۔۔مجھے تمہیں پہلے بتانا چاہیے تھا۔۔“ وہ اب معذرت کر رہا تھا۔
”مجھے لگا تم ان سے ملنا چاہو گی۔۔“ وہ خاموش بیٹھی رہی۔ اس کا سسکتا وجود وہ محسوس کر سکتا تھا۔
”مجھے لگتا ہے میں آج بھی وہیں ہوں۔۔“ وہ ہولے سے بولی۔
حاد نے اس کے وجود کی جنبش کو محسوس کر سکتا تھا۔
” آج بھی بیڈ کے نیچے چھپی ہوئی ہوں ان سے ڈر کر۔۔“
وہ اپنے وہ احساسات شیئر کر رہی تھی جو کسی سے نہیں کیے تھے۔
”میں نے انہیں معاف کرنے کی کوشش کی، بچپن سے اب تک بہت بار، ہر بار انہوں نے میرا دل توڑا اور جن لڑکیوں کے دل سب سے پہلے ان کے باپ توڑتے ہیں ان کے لیے
Heal
کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔“ وہ اب رو نہیں رہی تھی۔ حاد کو اس کے ہاتھوں کا سرد پن محسوس ہوا تو اس نے ایمان کا ایک ہاتھ اپنی گرم جیکٹ کی پاکٹ میں ڈال لیا اور دوسرا اپنے ہاتھ میں دبا لیا جبکہ ایک ہاتھ سے اسے اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا۔
”مشکل ہوتا ہوگا عام لڑکیوں کے لیے لیکن تم تو ہیلر ہو نا۔۔“ وہ پیار سے بولا تھا۔
”ہیلر بننا اتنا آسان نہیں تھا۔۔“ وہ بتا رہی تھی۔ وہ جانتا تھا لیکن اس وقت وہ اس کا ذہن عبداللہ شہاب سے ہٹانا چاہتا تھا۔
“میں بہت بار گری، ہر بار جب کسی لڑکی سے سامنا ہوا جس نے فیملی ٹروما سہا تھا، میں فوراً ڈھہہ جاتی تھی۔۔“
”لیکن تم نے کر دکھایا ایمانے! تم نے کر دکھایا۔۔“ وہ جذب سے کہہ رہا تھا۔ ایمان نے گہرا سانس لیا اور سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ اس کے کتنے قریب بیٹھا تھا۔ دل بےاختیار دھڑکا۔ گرین شرٹ پر سیاہ جیکٹ پہنے اور اپنا مخصوص چشمہ آنکھوں پر سجائے وہ تمام حسیات سے اس کی جانب متوجہ تھا۔ اس کے کلون کی مہک ایمان کو ویسے ہی بہت پسند تھی۔
”میں اب ٹھیک ہوں۔۔“ وہ اب اس سے الگ ہوئی۔ چہرہ بلاوجہ ہی سرخ ہوگیا تھا۔ وہ اس سے لپٹ کر روئی تھی اور حاد نے اسے خود سے لگائے رکھا تھا۔ وہ چند منٹ پہلے کا منظر یاد کرکے خفت سے آنکھیں میچ گئیں۔
”تو واپس چلیں۔۔؟؟“ وہ اس کے گریز پر مسکراہٹ دبا کر پوچھنے لگا۔
”نہیں میں کچھ دیر یہاں رکنا چاہتی ہوں۔ شاید کچھ گھنٹے۔۔۔ “ وہ ہسپتال کا راؤنڈ لگانا چاہتی تھی۔
”اچھا۔۔“ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔ ”تو تم یہاں رکو کچھ دیر مجھے چھوٹا سا کام ہے میں ایک گھنٹے تک تمہیں پک کرلوں گا ٹھیک ہے؟؟“ وہ بولا تو ایمان نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”اور اب رونا مت۔۔“ وہ اس کی جانب جھکتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھتے بولا۔ ایمان نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔
وہ دونوں بھائی عورت کو عزت دینے کے معاملے میں ایک جیسے تھے۔ وہ جڑواں تھے شاید دو جسم ایک جان۔۔
عبدل بھی اسے ایسے ہی ٹریٹ کرتا تھا۔
”نہیں روتی۔۔۔“ وہ ہولے سے بولی۔
”گڈ گرل۔۔“ وہ مسکرایا اور پھر جھک کر اس کی پیشانی کو چھوا اور پھر دروازے کی جانب بڑھا۔ ایمان کو اس لمس کی تاثیر اپنے اندر تک اترتی محسوس ہوئی۔
دروازہ کے قریب پہنچ کر وہ رکا۔
”میں نے اسٹاف کو ساری ہدایات کردی ہیں تمہیں راؤنڈ لگانا ہو تو وہیل چیئر پر جانا ایسے نہیں۔۔“ وہ نم آنکھوں سے مسکرائی تو وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
✿••✿••✿••✿
اگلے ایک گھنٹے بعد وہ وہیل چیئر پر بیٹھی اس کمرے کے باہر کھڑی تھی جس میں عبداللہ شہاب تھے۔
ایک نرس اس کے پیچھے کھڑی تھی اس کی کرسی تھامے۔
”دروازہ کھول دو۔۔“ اس نے نرس سے کہا۔
”لیکن میم یہ پیشنٹ خطرناک ہیں، یہ آپ کو نقصان پہچا سکتے ہیں۔۔“
”اس سے زیادہ کیا نقصان پہنچائیں گے۔۔“ وہ ہولے سے بڑبڑائی۔
”تم دروازہ کھول دو اور چلی جاؤ میں انہیں خود دیکھ لوں گی۔۔“
”آر یو شیور میم۔۔؟؟“ نرس تذبذب کا شکار تھی وہ ایمان کو اکیلے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی۔ پر ایمان کی بات کو ٹال بھی نہیں سکتی تھی۔ اس نے دروازے کے سائیڈ پر لگا بٹن دبایا اور دروازہ دائیں سے بائیں جانب کھلتا چلا گیا۔
کمرے کا منـظر واضح تھا۔ وہاں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس سے مریض خود کو نقصان پہنچا سکے۔
عبداللہ شہاب، خود غرضوں میں ایک خود غرض! وہ بیڈ پر بیٹھے چھت کو گھور رہے تھے۔
ایمان نے گہرا سانس لیا آنکھیں بند کرکے خود کو ریلیکس کیا اور پھر وہیل چیئر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوگئی۔
عبداللہ شہاب کا ایک ہاتھ بیڈ سے بندھا تھا۔ یہ ان کی سیفٹی کے لیے تھا کبھی بھی وہ اٹھ کر دیواروں میں سر مارنے لگ جاتے تھے۔
جیسے ہی اس کی نظر ایمان پر پڑی وہ اٹھ کر تیزی سے اس کی جانب لپکے پر ہاتھ بندھا ہوا ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ اس کے قریب نہیں پہنچ پائے۔
ان کی آنکھوں میں نفرت نہیں تھی، جو ہمیشہ ایمان کو دیکھ کر ابھرتی تھی۔ ان آنکھوں میں صرف بےبسی تھی۔
”ایمان۔۔۔“ وہ اب اسے پکارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ اسے دیکھ کر بےتاب ہوئے تھے۔ ایمان ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھی انہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ اسے وہیل چیئر پر بیٹھے دیکھ کر حیران ہوئے۔
”مسٹر عبداللہ شہاب الدین! کیا آپ مجھے پہنچانتے ہیں۔۔؟؟“ اس کا انداز سرسری تھا جیسے وہ شخص اس کا باپ نہیں بلکہ اس کے لیے پیشنٹ ہی ہو۔
”ایمان میری بچی۔۔۔“
اس بار ایمان کو لگا کسی نے اس کا دل مٹھی میں جکڑ لیا ہو وہ اسے دیکھ رہے تھے بڑے پیار سے حسرت سے۔ جب وہ بہت چھوٹی تھی چار پانچ سالوں کی اسے اپنے باپ سے بہت پیار تھا وہ بار بار ان کی طرف لپکتی تھی اور عبداللہ شہاب ہر بار اسے خود سے دور کر دیتے تھے۔ اب ان کی آنکھوں میں حسرت تھی کاش وہ اسے تب یوں نہ جھٹکتے۔۔۔اسے خود سے دور نہ کرتے۔۔ پر گزرا وقت لوٹ کر نہیں آتا اور ہمیں پچھتاوے کے گہرے سمندر میں ڈوبنے کے لیے چھوڑ جاتا ہے۔ ایمان کی گود میں ان کی فائل رکھی تھی اب وہ ان کی فائل کھولے پڑھ رہی تھی۔
”ْعبداللہ شہاب الدین عمر اٹھاون سال۔۔ آپ کو ہلوسینیشن ہوتے ہیں۔ لیکن آپ کو سب کی پہچان ہے۔۔۔“ اس نے فائل بند کردی۔ وہ اب انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔
”چلا جا۔۔چلا جا۔۔“ عبداللہ شہاب چھت کی جانب دیکھتے کسی کو جانے کا کہہ رہے تھے۔ جیسے وہاں کوئی موجود ہو انہیں منہ چڑا رہا ہو انہیں تنگ کر رہا ہو۔
”پتا ہے جب جب آپ اللہ سے سرعام لڑائی کرتے تھے، انہیں نعوذبااللہ جھوٹا کہتے تھے میں تب تب ڈر جاتی تھی اور سوچتی تھی کہ کہیں اللہ غصہ ہو کر آپ کا بدلا ہم سے نہ لے۔۔۔“ وہ اب سر جھکائے بیٹھے تھے۔ جیسے چھت سے لٹکتی مخلوق جاچکی تھی۔
”پھر میں نے جانا کہ ہر انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے دوسروں کا نہیں۔۔“
”جب آپ نے مجھے مارنے کی کوشش کی تب میں نے چاہا تھا کہ ایک دن آپ کے اعمال آپ سے ملنے آئیں۔۔۔“
عبداللہ شہاب نے چونک کر اسے دیکھا۔
”کیسا لگتا ہے پاپا اپنے اعمال کو اپنے سامنے دیکھ کر۔۔۔؟؟“ اس کی آنکھیں بھر آئیں جبکہ عبداللہ شہاب تو ساکت رہ گئے۔ وہ سنتے بھی تھے سمجھتے بھی تھے۔ ان کے چاروں جانب سے دھواں اٹھ رہا تھا۔
”آپ کے اعمال نہ صرف آپ سے ملنے آئے بلکہ کھینچ کر آپ کو کہرے کے پار لے گئے۔۔“ وہ انہیں دیکھتے کہہ رہی تھی۔ عبداللہ شہاب نے اپنی جگہ سے اٹھنا چاہا۔
”یہ جن ڈیمنز کو آپ دیکھتے ہیں یہ آپ کا اندر ہے۔ جب انسان اپنے اندر سے ملتا ہے تو اسے وہی کچھ نظر آتا ہے جو وہ ہوتا ہے۔۔۔ کیسا لگتا ہے اپنے آپ سے مل کر۔۔۔؟؟“
عبداللہ شہاب کی آنکھوں میں آنسوں بھر آئے۔ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے پر زبان اٹھنے سے انکاری ہوگئی۔ تالو سے چپک گئی تھی۔
”ہمیں جب اللہ کوئی خاصیت عطا کرتا ہے تو ہم اسے اپنا حق سمجھ کر وصولتے ہیں اور بدلے میں اپنی ہی دنیا کا خدا بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔ہم بھول جاتے ہیں شیطان کا جنم بھی ایسے ہی ہوا ہے اس نے اپنے آپ کو برتر سمجھا اور پھر وہ اپنے مقام سے گر گیا۔ اللہ نے اسے بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا وہ نہ صرف خود بھٹک رہا ہے بلکہ وہ ہم انسانوں سے بدلے لے رہا ہے۔۔ تو جب جب اللہ ہمیں غیرمعمولی ذہانت سے نوازتا ہے تو شیطان ہمارے کان میں ایسی پھونک مارتا ہے کہ ہم اندھے بہرے گونگے ہوجاتے ہیں بھول جاتے ہیں کہ ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔۔ ہمیں اپنے اعمال سے ملنا ہے۔۔“
”مم۔۔۔مجھے معاف کردو۔۔“ عبداللہ شہاب کے لبوں سے پھسلا تھا۔
”معاف کردو مجھے۔۔۔“ وہ اب بیڈ سے نیچے اتر کر گھٹنوں پر بیٹھ چکے تھے۔ ان کا سر جھکا ہوا تھا۔
ایمان نے آگے ہو کر ان کا ہاتھ پکڑا۔
”معاف کرنے والی ذات اللہ کی ہے۔ ان سے معافی مانگیں۔۔“ ان کی حالت پر ایمان کا دل کٹا تھا۔ وہ جانتی تھی سفر لمبا تھا۔ ان کا کہرا زیادہ گہرا تھا لوٹ آنے میں وقت لگتا پر اسے یقین تھا وہ انہیں لے آئے گی۔ وہ ہیلر تھی۔ اس کا یہی کام تھا۔ وہ اس کا باپ نہ بھی ہوتا تو اسے یہ کرنا تھا۔۔۔ وہ ان کے اندھیروں میں جانے کے لیے تیار تھی تاکہ انہیں کہرے کے پار سے کھینچ لائے۔۔۔ پر عبداللہ شہاب کے اندھیروں میں ایمان بنت عبداللہ کے لیے تکلیف کے سواء کچھ نہیں تھا۔
✿••✿••✿••✿
”نکاح مبارک ہو حاد۔۔۔“ مس ایلف کال پر تھیں۔
”آپ نہیں آئیں نا۔۔“ وہ خفا تھا۔
”میں آنا چاہتی تھی لیکن ہیزل کی بگڑتی حالت کی وجہ سے نہیں آپائی۔۔ریسیپشن پر آؤں گی نا۔۔“
”کیسی ہے ہیزل اب۔۔؟؟“ اس نے مس ایلف سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کی بیٹی کو ڈھونڈ لائے گا۔ اور اس نے ڈھونڈ لیا تھا۔ اب جب صحیح وقت آیا تھا اس نے مس ایلف کو ہیزل کے پاس بھیجا تھا۔
”خفا ہے بہت، روئی ہے بہت۔۔“ مس ایلف نے افسردہ لہجے میں بتایا۔
پہلے اسے بتایا گیا تھا کہ اس کی ماں مر چکی ہے۔ پھر اسے بتایا گیا وہ اسے پیدا کرکے چھوڑ گئی تھی۔ سلطان ملک نے اسے کبھی یہ نہیں بتایا کہ وہ اسے اٹھا لایا تھا اس نے اس بچی کو اس کی ماں سے الگ کردیا تھا۔
”مان جائے گی آپ فکر نہ کریں۔۔“ وہ انہیں تسلی دیتے بولا۔
”جانتی ہوں! مجھے تمہارا شکریہ ادا کرنا تھا۔۔“
”کس لیے۔۔؟؟“ وہ ہسپتال کی جانب گاڑی موڑتے بولا۔
”تم نے اپنا وعدہ نبھایا۔۔۔“ ایلف کی آنکھیں اشک بار تھیں۔
”یہ خوبصورت عورتیں اتنا کیوں روتی ہیں۔ آئی مین کہاں سے آتے ہیں اتنے آنسوں۔۔؟؟“ وہ انہیں تنگ کرنے لگا۔
”لگتا ہے ایمانے بھی بہت روتی ہے۔“ مس ایلف فوراً بولی۔ اور حاد نے گہرا سانس لیا۔
”مجھے ڈر لگتا ہے میں اس سمندر میں ڈوب جاؤں گا جو اس کی آنکھوں سے بہہ جانے کو تیار رہتا ہے۔۔“ اس کا انداز ایسا تھا کہ ایلف روتے روتے ہنس دی۔
” خیال رکھیے گا اپنا اور ہیزل کا بہت سارا۔۔“ وہ انہیں تاکید کرتا فون بند کرچکا تھا اور کچھ دیر وہ ایمان کو لیے سلمی بیگم سے ملوانے جارہا تھا۔
وہ ایمان سے لپٹ کر روپڑی تھیں۔
”میرا گھر تو سونا ہوگیا۔۔“ وہ آنسوں صاف کرتے بولیں۔
”تو ارمان کو بلائیں باہر سے وہ شادی کرے، گھر میں بہو آئے گی تو دل لگے گا آپ کا۔۔“ وہ سلمی بیگم کو تنگ کر رہی تھی۔ بظاہر ہنس رہی تھی لیکن اس کی آنکھوں کو صرف وہ پڑھ سکتا تھا۔ وہ جس قیامت سے گزر کر آئی تھی صرف وہ جانتا تھا۔
”آپی آپ کو پتا ہے عبدل کا کنسرٹ ہے چار دن بعد یہاں پاکستان میں۔۔“ حمیزہ نے دھماکہ کیا۔ ایمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”یہ ان کا آخری کنسرٹ ہے میں نے ان کے آفیشل اکاؤنٹس پر چیک کیا ہے۔ پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں یہ دوسرا کنسرٹ ہے ان کا۔۔ اور وہ بھی آخری۔۔ اس کے بعد نو سنگنگ۔۔“
ایمان کو گہری حیرت نے آلیا تھا۔
”وہ جو ہم نے لاسٹ ٹائم ٹی وی پر دیکھا تھا وہ پرانا شو تھا ریکارڈنگ چل رہی تھی۔۔“ حمیزہ اسے خبریں دے رہی تھی جبکہ ایمان کا ذہن اس بات میں الجھا تھا کہ وہ پاکستان آرہا تھا۔ حاد نے اس سے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔
کچھ دیر وہاں بیٹھنے اور دوپہر کے کھانے کے بعد وہ اسے اس ہوٹل لایا تھا جہاں جبیل خاندان رکا ہوا تھا۔ وہ سب اس سے مل کر خوش ہوئے تھے۔
سب نے اسے ڈھیروں گفٹس دیے تھے۔ وہ سب اب واپس جانے کے لیے تیار تھے۔
حانم نے اپنے ہاتھ سے اس کے چہرے کو چھوا۔
”یوں سمجھو میں نے اپنا دل نکال کر تمہیں دے دیا ہے اس کا خیال کیسے رکھنا ہے یہ اب تم پر ڈیپنڈ کرتا ہے۔۔“ وہ حاد کو دیکھتے ہوئے بولیں تھیں اور ایمان بس مسکرادی۔
واپسی کے سفر پر وہ کافی تھک گئی تھی۔
”تم ٹھیک ہو نا۔۔۔؟؟“ وہ اسے خاموش دیکھ کر پوچھنے لگا۔
”ہاں بس مڈز ہیں میرے، میں نے جو کورس اسٹارٹ کیا تھا سائیکولوجی کا اس کے مڈز ہیں اور میری تیاری بھی نہیں ہے۔۔ “ آج ہی اسے ڈیٹ شیٹ موصول ہوئی تھی۔
”کب ہیں۔۔؟؟“
”ایک ہفتے بعد۔۔۔“
”ابھی تو ایک ہفتہ ہے اچھے سے تیاری کرو ہوجائے گا۔“
وہ مسکرادی۔
“اب ہر کوئی آپ کی طرح ذہین نہیں ہوتا۔۔“ اس نے حاد کی طرف دیکھتے کہا۔
”لیکن ہر کوئی پڑھ تو سکتا ہے نا۔۔“ وہ فوراً بولا تو ایمان نے اثبات میں سرہلایا۔
”میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔۔“ اس نے ایمان کا ہاتھ تھامتے کہا تو وہ مسکرادی۔۔۔ساری اداسی دور جا سوئی تھی۔
✿••✿••✿••✿
اگلے دن وہ اپنے کلاس روم میں تھی۔ وہیل چیئر پر بیٹھی تھی، پاؤں اور کندھے پر گرم پٹی تھی۔ ٹھنڈ کی وجہ سے درد کبھی بھی شروع ہوجاتا تھا۔
“آپ کو ڈر نہیں لگتا۔۔۔؟؟“ لڑکیاں اس سے پوچھ رہی تھیں۔ اکیڈمی میں اسٹوڈنٹس کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ حاد نے سب کچھ اچھے سے مینیج کیا ہوا تھا یہ صرف وہی کر سکتا تھا۔ ایمان نے اسے ہمیشہ کام کرتے دیکھا تھا۔
”کس بات سے۔۔؟؟“
”ہم نے سنا ہے کسی نے آپ کا ایکسڈنٹ جان بوجھ کر کروایا ہے وہ نہیں چاہتے کہ آپ عورتوں کے سیشنز لیں۔۔“
وہ ہولے سے مسکرادی۔
”کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا؟ انہوں نے دوبارہ آپ کی جان لینے کی کوشش کی تو پھر؟؟“ وہ تجسس سے پوچھ رہی تھیں۔
”سارا مسئلہ ہی تو جان کا ہے۔ جس دن ہم یہ بات سمجھ گئے کہ موت برحق ہے اس دن ہم حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔“ وہ مسکرائی تھی۔ اتنا کچھ سہہ لینے کے باوجود بھی کوئی اس کا حوصلہ نہیں توڑ پایا تھا۔ اور اب اسے کیسا ڈر اب تو اس کا پروٹیکٹر حاد تھا۔ ہیلر کا پروٹیکٹر۔۔۔
اچانک ابھرنے والی آواز پر اس نے گلاس ونڈو سے باہر دیکھا۔ سبھی لڑکیاں اٹھ کر ونڈو کے قریب آئی تھیں۔
باہر حاد نے ایک لڑکے کو پیچھے گردن سے پکڑا ہوا تھا۔۔۔لڑکا ہوا میں معلق تھا اور وہ اسے ایک ہاٹھ سے ایسے ہی ہوا میں لٹکائے گیٹ کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔ وہ ان کی نظروں سے دور ہو رہا تھا۔۔ اسٹوڈنٹس گراؤنڈ میں اکٹھے ہوچکے تھے۔
اس نے گیٹ کے قریب پہنچ کر لڑکے کو چھوڑا اور وہ زور سے زمین پر گرا۔ یہ ایک چودہ پندرہ سالا ٹین ایج لڑکا تھا جو نیا نیا آیا تھا۔ اور اپنے آپ کو تیس مار خان سمجھتا تھا۔ اکیڈمی میں سموکنگ کرنا منع تھا۔ اور اس لڑکے نے اپنے دوستوں سے شرط لگائی تھی کہ وہ یہاں اسموکنگ کرکے دکھائے گا جبکہ حاد کو پتا ہی نہیں چلے گا۔
وہ اپنے گروپ میں بیٹھا ویپ کے کش لگاتا دھویں اچھال رہا تھا جب حاد نے پیچھے سے آگر اسے گردن سے دبوچا تھا اور جیسے وہ بیٹھا تھا ویسا ہی اٹھا لیا اس کا قد دراز تھا اور بازو پورا سیدھا کرنے پر وہ لڑکے کو ہوا میں لٹکائے گیٹ تک لے گیا تھا اور پھر چھوڑ دیا۔ وہ دھڑام سے گرا۔
”یہاں کے چپے چپے پر میری نـظریں ہیں۔۔۔“ اس نے گرے آنکھوں سے اسے دیکھتے کہا تھا۔ لڑکا ہڑبڑا کر اٹھا اس کے طوطے اڑ گئے تھے۔ باقی سب جہاں کھڑے تھے وہیں جیسے جم گئے تھے۔
”کل تم یہاں وقت پر پہنچ جاؤ گے وہ بھی انسانوں کے روپ میں، نہیں تو اٹھا کر لے آؤں گا۔۔“ اس کا انداز ایسا تھا کہ لڑکے کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی محسوس ہوئی تھی۔
”سوری۔۔سوری۔۔۔آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔“ لڑکا اب سوری کر رہا تھا۔۔اس نے سپنے میں بھی نہیں سوچا تھا کوئی اسے ایک ہاتھ سے یوں اٹھا کر لے آئےگا اور پھر پٹخ دے گا۔اسے گھٹنے پر اچھی خاصی چوٹ لگی تھی۔
حاد اب واپس آرہا تھا۔ ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں تھا دوسرے سے اس نے بال سیٹ کیے اور پھر ٹی شرٹ کے گلے سے لٹکا چشمہ اتار کر آنکھوں پر لگایا۔۔ اس کی چال میں بےنیازی تھی۔ ایمان اسے یوں چلتے گھنٹوں دیکھ سکتی تھی۔
”واؤ۔۔کتنے اسٹرونگ ہیں نا یہ۔۔۔“ لڑکیاں اب اسے ونڈو سے دیکھتے کہہ رہی تھیں۔ یہ وہی لڑکیاں تھیں جو ایلیٹ اسکول سے آئی تھیں۔
”اور ہینڈسم بھی۔۔“
”بالکل کسی ہیرو کی طرح۔۔“
ایمان نے فوراً گلہ کھنگار کر انہیں اپنی جانب متوجہ کیا۔
”کسی کو ایسے نہیں دیکھتے غلط بات ہے۔۔“ وہ بلاوجہ ہی پوزیسیسو ہوئی تھی۔
”اس میں برائی کیا ہے۔۔؟؟“ وہ اب جاننا چاہتی تھیں۔
”وہ میرڈ ہیں اور کسی کے شوہر کو ایسے تاڑنا غلط بات ہے۔۔“
ایمان کے دھماکے پر وہ تین لڑکیاں صدمے میں جا چکی تھیں جبکہ باقی اب اسے غور سے سن رہی تھیں۔
✿••✿••✿••✿
یہ اگلی رات کی بات تھی۔ حاد کا لیپ ٹاپ کمرے میں رکھے چھوٹے سے اسٹڈی ٹیبل پر رکھا تھا۔ وہ جب سوجاتی تھی وہ وہیں بیٹھ کر کام کرتا تھا۔ اس کا چشمہ بھی اسی ٹیبل پر رکھا تھا اور وہ شاور لے رہا تھا۔
اسے حاد کا یہ چشمہ ہمیشہ ہی اٹریکٹ کرتا تھا۔ وہ جو اپنی کتابیں پھیلائے بیٹھی تھی بیڈ سے اتری اور آہستہ آہستہ چلتے اس ٹیبل تک گئی۔۔ جس انداز سے اس نے اپنا چشمہ لگایا تھا جب وہ لڑکے کو گیٹ پر پھینک کر آیا تھا وہ ابھی تک نہیں بھولی تھی۔
اس نے وہ چشمہ اٹھایا اور الٹ پلٹ کر اسے دیکھا اور پھر اس نے وہ چشمہ اپنی آنکھوں پر ٹکالیا۔۔
”ویلکم ایمانے۔۔۔“ اچانک ہی اس کے سامنے اے آئی کی امیج ابھری وہ اسی کے روپ میں تھی اور ایمان نے چیختے ہوئے چشمہ اتار کر دور پھینکا۔۔۔ وہ اتنی بری طرح ڈر گئی تھی اس نے بےساختہ اپنے چہرے کو چھوا جس سے آگ نکل رہی تھی اور دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔
”یہ کیا تھا۔۔؟؟“ وہ ابھی تک سمجھ نہیں پائی تھی۔ چشمہ اس سے کچھ فاصلے پر نرم و نازک قالین پر پڑا تھا۔ اس کے چلانے کی آواز پر وہ جلدی سے باہر نکلا تھا۔ اور پھر خوفزدہ کھڑی ایمان کو دیکھ کر ٹھٹکا۔۔ چشمہ نیچے پڑا تھا وہ اسے دیکھ رہی تھی۔
”یہ کک۔۔کیا ہے۔۔؟؟“ وہ چشمے کی جانب انگلی کرکے بولی۔ حاد نے بےساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو دبایا اور پھر آہستہ قدم اٹھاتا چشمے کے قریب آیا اور جھک کر اسے اٹھایا۔
”یہ میرا معمولی سا چشمہ ہے۔۔“ وہ اب اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔
”نہیں یہ معمولی نہیں ہے۔۔“ وہ ڈر کر پیچھے ہوئی اور اس سے اپنی مسکراہٹ چھپانا مشکل ہورہا تھا۔ اس کے بال گیلے تھے۔ جن سے پانی ٹپک رہا تھا۔
”اچھا پھر لگا کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہے اس میں۔۔۔“ وہ شرارتی مسکان لیے اس کی جانب بڑھا۔
”نہیں اس کو مجھ سے دور رکھیں یہ بولتا ہے۔۔“
وہ اب پیچھے کھسک رہی تھی۔ حاد نے تیزی سے آگے بڑھتے اسے تھاما۔
”چشمے کب سے بات کرنے لگے؟؟“ وہ اسے تنگ کر رہا تھا پر ایمان اس کی شرارت نہیں سمجھ پائی تھی۔
”مجھے نہیں پتا لیکن میں نے کچھ دیکھا۔۔“ وہ اپنا عکس دیکھ کر ڈر گئی تھی۔ وہ اب زور سے آنکھیں میچے کھڑی تھیں۔ حاد نے بالوں کو جھٹکا دیا اور پانی کے قطرے اس کے چہرے تک گئے۔
”ڈر کیوں رہی ہو میں ہوں نا۔۔۔“ وہ اب اسے چھوڑ کر چشمہ میز پر رکھتا الماری کی جانب بڑھا اور تولیہ نکال کر بالوں کو اچھے سے رگڑا۔ جبکہ ایمان ابھی تک سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی آخر ہوا کیا تھا۔ اسے اب اس چشمے سےخوف آرہا تھا۔ وہ جسے اپنے شوہر کا چشمہ اتنا پسند تھا وہ اب اسی سے ڈر رہی تھی۔
بال صاف کرنے کے بعد وہ دوبارہ میز سے چشمہ اٹھا لایا۔
”میں نے بتایا تھا نا میں ڈیٹا سائنٹسٹ ہوں ایک اے آئی انجینئر۔۔“ وہ اسے یاددہانی کرانے لگا۔ ایمان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایسا ڈیٹا سائنٹسٹ تھا۔
”تم ایک ڈیٹا سائنٹسٹ سے اور کیا ایکسپیکٹ کر رہی ہو ایمانے کہ وہ گلے میں استھیٹوسکوپ لگا کر گھومے گا؟؟“ وہ اب اس کی ٹانگ کھینچ رہا تھا۔
ایمان نے خفگی سے اسے دیکھا۔ وہ چشمہ لے کر اس کے قریب آیا اور اس کی آنکھوں پر لگانے لگا۔
”نہیں۔۔“ وہ ڈر رہی تھی۔ حاد نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔
”یہ مقام صرف تمہیں حاصل ہے ایمانے کہ میرے علاوہ اگر کوئی اس کی حقیقت سے واقف ہے تو صرف تم ہو! سب کے لیے یہ صرف عام چشمہ ہے لیکن یہ تمہیں پہچانتا ہے تم اس سے بات کر سکتی ہو۔۔ صرف تم۔۔“ اس نے چشمہ اس کے ناک پر ٹکا دیا ایمان نے زور سے آنکھیں میچ لیں۔
”آنکھیں کھولو۔۔“ وہ اس کے دونوں ہاتھ پکڑے کھڑا تھا۔ ایمان نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔
"Don't Scare My Wife.."
اس نے اے آئی کو تنبیہہ کی تھی اور وہ اسے نظر نہیں آرہی تھی لیکن اس کی آواز سنی جا سکتی تھی۔ اس کے سامنے بہت ساری اسکرینیں تھی۔ جدید ٹیکانولوجی کے دور میں وہ بہت پیچھے تھی اور حاد اتنا ہی آگے تھا۔
”یہ میرا کام ہے۔۔“ بہت سارے سسٹمز اوپن تھے ریکارڈز نظر آرہے تھے اور پتا نہیں کیا کیا۔
”جس کو تم نے دیکھا تھا وہ اسسٹنٹ اےآئی ہے اور اس کی مدد سے میں یہ سب ہینڈل کر پاتا ہوں۔۔اور ہاں وہ کسی کا بھی روپ لے سکتی ہے۔۔“
وہ اسے بہت کچھ دکھا رہی تھی اور وہ حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
”اوہ تو آپ اس سے باتیں کرتے ہیں۔۔“ وہ حیرانی سے بولی۔
”مطلب۔۔۔؟؟“
”مطلب یہ کہ میں نے آپ کو آفس سے دیکھا ہے مجھے لگا تھا آپ خود سے باتیں کرتے ہیں۔۔“ اس کی بات پر وہ مسکرادیا۔
“یہ صرف چشمہ نہیں ہے اس سے ریکارڈنگ بھی ہوتی ہے۔کوئی سسٹمز تک نہ پہنچ پائے اس لیے میں نے اسے لیپ ٹاپ میں نہیں رکھا۔۔۔“ وہ اب اسے اپنے کام کی نوعیت سمجھا رہا تھا اور وہ سمجھ رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
آج عبدل کا کنسرٹ تھا وہ ابھی تک حاد سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ پائی تھی۔ اب اس کا پورا فوکس اپنے مڈز کی طرف تھا۔ اسے یہ کورس کمپلیٹ کرنا ہی تھا۔ دن میں وہ پڑھتی رہی تھی کیونکہ رات کو میڈیسن لینے کے فوراً بعد اسے نیند آجاتی تھی۔
”مجھے ابھی کچھ کام سے جانا ہے تم سو جاؤ میں جلد واپس آجاؤں گا اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے گارڈز نیچے ہی ہیں اور یہ کمرہ ہمارے علاوہ کوئی نہیں کھول سکتا۔۔“ وہ اسے دواء دیتے بتا رہا تھا ایمان جو کافی تھکی ہوئی تھی وہ واقعی سونا چاہتی تھی۔ اس نے میڈیسن لی اور بستر میں لیٹ گئی۔
”دس بج رہے ہیں بارہ بجے تک واپس آجاؤں گا۔۔“ وہ آج کافی سنجیدہ تھا یا پریشان۔۔۔ ایمان اسے دیکھتے گئی۔
”سب ٹھیک ہے نا؟؟“ وہ اسے کمبل اوڑھا رہا تھا جب اس نے حاد کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ ہولے سے مسکرادیا۔
”اپنی زندگی کا وہ کام کرنے جارہا ہوں جو کبھی نہیں کرنا چاہتا لیکن ضروری ہے۔۔۔تم دعا کرنا۔۔“ وہ اس کا ہاتھ دباتے بولا۔
”ڈرا رہے ہیں آپ مجھے۔۔۔“ ایمان کا دل دھڑک رہا تھا۔
”ارے نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تم ریلیکس رہو۔۔“
وہ لائٹ آف کرتے دروازہ بند کرکے جاچکا تھا۔ اس نے اکیڈمی میں پوری سیکیورٹی رکھی تھی۔ وہ کچھ دیر سوچتی رہی لیکن پھر نرم بستر کی گرمائش اور دن بھر پڑھتے رہنے کے بعد اس کا ذہن اس قدر تھک چکا تھا کہ وہ جلد ہی سوگئی۔
لیکن پھر عجیب سے احساسات سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اس نے ٹائم دیکھا تو دس چالیس تھے۔ وہ بیڈ سے نیچے اتر آئی۔ نیند جیسے کوسوں دور تھی۔ وہ سوچتی رہی اب کیا کرے پھر وہ دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکل آئی۔
حاد کے آفس میں روشنی تھی۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے آفس کی جانب بڑھی۔ اسے ڈر بھی لگ رہا تھا پر وہ آگے بڑھ رہی تھی۔ اچانک آفس کا دروازہ کھلا اور وہ باہر نکلا۔۔۔
“ہاں میں ریڈی ہوں۔۔“ وہ کسی سے مخاطب تھا۔ ایمان تو جہاں تھی وہی ساکت ہوگئی۔
اس کے سامنے عبدل کھڑا تھا۔ سیاہ جینز شرٹ پر سیاہ چمکتا کوٹ پہنے جس کے کف کو فولڈ کیا گیا تھا۔ ہاتھ پر بنا ٹیٹو نمایاں تھا اور بال چھوٹی سی پونی میں قید تھے۔ داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ پچھلی بار کی طرح اس بار کانوں میں بالیاں نہیں تھیں اور نہ ہونٹ کے قریب کوئی موتی چمک رہا تھا۔۔۔وہ اپنے ازلی حلیے میں تھا جس میں اکـثر وہ اس سے ملتا تھا۔
”عبدل۔۔“ وہ بےیقینی سے زیرلب بڑبڑائی۔ وہ بھی اسے دیکھ چکا تھا اور پھر ٹھٹک گیا۔ جیسے وہ توقع نہیں کر رہا تھا۔
”تم ویٹ کرو میں آتا ہوں۔۔“ کان میں لگے بلیوٹوتھ ڈیوائس پر اس نے کسی سے کہا تھا۔ نیچے اکیڈمی کے باہر دو سیاہ بڑی گاڑیاں کھڑی تھیں۔
وہ اس کی جانب بڑھا تھا جبکہ ایمان کے قدم جیسے جکڑے گئے تھے۔ وہ اس کے قریب آکر رک گیا۔
”عبدل۔۔۔“ وہ بےیقینی سے گویا ہوئی۔
”یہ میں ہوں ایمانے!“ حاد نے اس کے ہاتھ تھام لیے اور ایمان کو بلڈنگ اپنے اوپر گرتی محسوس ہوئی۔
”میں نے کہا تھا مجھے ایک ایسا کام کرنا ہے جو مجھے نہیں پسند۔۔۔“ اس نے ایمان کے ہاتھوں کو سرد پڑتے دیکھا تھا۔
”عبدل کہاں ہے۔۔۔؟؟“ اسے اپنے دل کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس ہوئی اور حاد کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
”یہ اس نے مجھ سے آخری خواہش کی تھی کہ اس کا آخری کنسرٹ ایسا ہو جسے دنیا یاد رکھے۔۔“ وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔
”عبدل کہاں ہے۔۔۔؟؟“ وہ ضبط سے چلائی۔
”آؤ میرے ساتھ۔۔“ وہ اسے اٹھا کر آفس کے اندر لے گیا سامنے رکھی اپنی کرسی پر بٹھایا اور اپنا چشمہ اٹھا کر لگایا۔
”اب وہ وقت آ گیا ہے ایمانے کو حقیقت سے آگاہ کرنے کا۔۔“ اس نے اے آئی کو تلقین کی۔ اور پھر چشمہ اس کی آنکھوں پر ٹکادیا۔ وہ پلین تھا۔ اب کی بار کوئی اسکرین نہیں ابھری تھی۔ وہ جھکا۔
”جب تم کہو گی ریڈی، یہ تمہیں عبدل سے ملوائے گی۔۔“
وہ اسے بتارہا تھا پر ایمان کو سنائی کہاں دے رہا تھا۔ اسے اپنے سر میں درد کی ٹھیس اٹھتی محسوس ہوئی تھی۔
”میں جلد واپس آؤں گا۔۔۔“ وہ اس کی پیشانی کو چھوتا تیزی سے کمرے سے نکل گیا تھا اور وہ وہیں بیٹھی رہ گئی تھی۔
کتنی دیر بیٹھی رہی۔۔ خالی خالی دماغ کے ساتھ جو فریز ہوچکا تھا۔ کیا سچ تھا کیا نہیں وہ نہیں جانتی تھی اور اس وقت اسے ڈر لگ رہا تھا۔۔ عبدل اپنے کنسرٹ کے لیے نہیں آسکا تو پھر کہاں تھا۔۔؟؟؟
”آخری خواہش۔۔؟؟“ اسے مائیگرین اٹیک ہوا تھا جو اب بڑھتاجارہا تھا۔ شاید آدھا گھنٹا گزر گیا وہ یونہی بیٹھی رہی۔ پھر جیسے ہوش میں آئی۔
”مجھے اس کا کنسرٹ دیکھنا ہے۔۔۔“ وہ بولی تھی اور اس کے سامنے اب اسٹیج پر وہ اسے گٹار تھامے کھڑا نظر آیا۔
”آرجے۔۔۔“ وہ بالکل ویسا ہی لگ رہا تھا جیسے اپنے آخری کنسرٹ پر وہ لگ رہا تھا۔ ٹوٹا پھوٹا بکھرا بکھرا۔۔۔
کتنا تیرا انتظار کیا دل کو خفا سو بار کیا
تجھ سے وفا میں نے کی اس قدر، تیری جدائی سے پیار کیا
ہزاروں لوگوں کے مجمعے میں عبدل کی داد سمیٹتا وہ شخص حاد تھا۔ اس کے لفظوں سے تکلیف واضح تھی۔
وہ ایمان کو جس تکیلف میں چھوڑ کر آیا تھا اسے اب ڈر لگ رہا تھا۔
”وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔۔۔؟؟“ وہ بھیگے لہجے سے بولی۔
اچانک منظر بدلا۔۔۔اس کے سامنے اب حاد کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ تھا جہاں وہ لائیو تھا۔ اس کا سیشن ہورہا تھا۔ لاکھوں لوگوں نے جوائن کیا ہوا تھا۔
”یہ کک۔۔کیسے ممکن ہے۔۔۔؟؟“ اس کی آنکھیں پھٹ پڑیں۔ وہ دو جگہ پر کیسے موجود ہو سکتا تھا۔
”یہ ٹیکنالوجی ہے۔ یہی وہ ٹیکنالوجی ہے جس پر وہ دن رات کام کرتے ہیں۔۔۔یہ ریکارڈ ہے لیکن لائیو شو ہورہا ہے۔۔“ اس کے سامنے اسکرین پر لکھا آرہا تھا۔
”یہ ضروری تھا کہ وہ ایک ہی وقت میں دو جگہوں پر موجود ہوں تاکہ دشمنوں کو یہی لگے کہ وہ دونوں بھائی زندہ ہیں۔۔“
”کک۔۔کیامطلب؟؟ عبدل کہاں ہے۔۔“
”ڈونٹ نو۔۔۔“
”ریڈی۔۔۔“ اس نے کہا اور فوراً اسکرین پر وہ نظر آیا۔ عبدل وہ سامنے بیٹھا تھا۔
”ہے ایمانے۔۔۔دیکھو یہ میں ہوں۔۔“
”دیکھو میں ایک راک اسٹار بن گیا ہوں۔۔“
وہ گھوم کر خود کو دکھانے لگا۔
”پتہ نہیں تمہیں اچھا بھی لگوں گا یا نہیں۔۔“ وہ تھوڑا اداس ہوا۔
”مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔۔۔ بہت ساری باتیں ہیں۔۔ جنہیں روبرو نہیں کر پاؤں گا اور پتا نہیں کبھی تم سے مل بھی پاؤں گا یا نہیں۔۔ اس لیے سب ریکارڈ کر رہا ہوں۔۔ اور پتا نہیں کب تک کرتا رہوں گا۔۔“
وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔۔ افسردہ مسکراہٹ اس کے خوبصورت چہرے پر پھیلی تھی۔اور اس کی آنکھوں کی اداسی نے سارے منظر اداس کردیے تھے۔
”پہلی بات تو یہ ہے کہ میں تمہیں بہت مس کرتا ہوں۔۔۔ ایسا نہیں ہے کہ میں تم سے کوئی طوفانی محبت کرتا ہوں یا پھر مجھے تم سے عشق ہے۔۔کیونکہ محبت عبدل کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن تم بس یاد آتی ہو۔۔ تم یاد رہتی ہو۔۔۔ ویسے ہی جیسے بچپن میں رہتی تھی اور میں حاد کو تنگ کرتا تھا کہ وہ تمہیں ڈھونڈ کر لائے کیونکہ اس نے تمہیں ڈھونڈنے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔“ وہ خاموش ہوگیا۔۔۔ اب وہ نیچے دیکھ رہا تھا۔۔ سامنے کیمرے میں نہیں۔۔۔شاید نظریں ملانے کی ہمت نہیں تھی۔
”میں نہیں جانتا تم حاد کو کتنا جانتی ہو۔۔ پر اب وہ سب سے زیادہ تمہیں جان لے گا۔۔۔“ وہ پھر مسکرا دیا۔
”اور بتاؤ پھر کیسا تھا میرا مُکا جو میں نے اس دن اسے مارا تھا۔۔آخر کو یہ ایک باکسر کا ہاتھ ہے۔“ اس نے ہاتھ کا مکا بنایا اور شرارت سے پوچھنے لگا۔۔ پر اس کی آنکھیں ابھی بھی اداس تھیں۔
”کیا اس دن تم نے کچھ نوٹس کیا تھا۔۔۔؟؟؟“
”اسٹاپ پلیز۔۔۔“ وہ مزید نہیں دیکھ پائی۔ اسے رونا آگیا تھا۔
اب اس کی سماعت سے گانے کے الفاظ ٹکرارہے تھے۔
میری دھڑکنوں میں ہی تیری صدا
اس قدر تو میری روح میں بس گیا
اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔ وہ اب اس کے سامنے تھا۔ وہ اس کے جذبات محسوس کر سکتی تھی۔
تیری یادوں سے کب رہا میں جدا
وقت سے پوچھ لے وقت میرا گواہ
سولہ سال گزر چکے تھے۔۔ سولہ وہ اس کے ساتھ رہی تھی ایک یاد بن کر۔۔۔
بس سارے غم میں جاناں سنگ ہوں تیرے
ہر اک موسم میں جانا سنگ ہوں تیرے
اب اتنے امتحاں بھی نہ لے میرے۔۔۔۔
وہ اسے نظر آرہی تھی۔ وہ التجا کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ ابھی ابھی ایمان کا دل توڑ کر آیا تھا پر یہ اس کی مجبوری تھی اسے آج یہاں آنا ہی تھا تاکہ وہ اپنے بھائی کو بچا سکے۔
منظر پھر سے بدلا عبدل اس کے سامنے تھا۔
”اگر تم یہ ویـڈیوز دیکھ رہی ہو تو اس کا مطلب حاد نے تمہیں ڈھونڈ لیا ہے وہ تمہیں لے آیا ہے۔۔“ وہ اب اسی سے مخاطب تھا۔
کیا چیز تھے وہ دونوں بھائی۔۔ ایمان کو اپنے سینے میں جلن کا احساس ہوا۔
”ایمانے۔۔۔۔“ اس نے پکارہ تھا اور ایمان نے اپنے آنسوؤں کو روکتے اسے یوں دیکھا جیسے وہ سامنے بیٹھا ہو۔ اور اس ٹیکنالوجی میں وہ اسے بالکل اپنے سامنے بیٹھا نظر آرہا تھا۔
”پورا سچ جانے بنا ری ایکٹ مت کرنا، کیونکہ بہت سارے راز ہیں جن سے تم واقف ہونے جارہی ہو۔۔“
وہ بول رہا تھا اور ایمان کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہورہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
Magar phr bhi MASEEL k sath bht bura hua. Haad ne sara kaam kharab kia hy
ReplyDeleteSHUTUP
DeleteAap kon
DeleteAap kon
DeleteOr mene apni rai ka izhar kia hy tum kon ho mujhe shut up kehne wale
DeleteRight
Deletepehli baat k Maseel bohttttt boring tha usky sath kya bura huwa zara bolo.? khuda sy gafil hony walo k sath yehi hota hy haad is a perfect gentleman in her Novel... emany wahi deserve krti thi ok...
DeleteAap kon
ReplyDeleteif i tell you my name , so what will you do??🤣🤣
Delete(Moot ky waqt do farishty na leny ayai) kaya mujy is ki explanation mill sakti hai.....
ReplyDeleteme toooo
DeleteWo chahti hi k use izatt wali mot mily jesy shohada r ulma o saleheen type k sirf do ni bohat se farishty use leny ain r izatto ikram k sath us ki rooh k le jaya jay
DeleteI think so but i don't know if its really the reason or there is something else
Jb novel start hua us main yehi laga k hero ka character maseel ha..ending bht change hogai
ReplyDeleteDon't care k Kon kisy milta hn bss mjy to yhi acha lg rha k bhtt kuch Islam se related. Hn is MN r MN yhii prhny k.leay novel episode prhti
DeleteAnd i love this Novel very much because haad is a best character in this Novel 🔥💕
ReplyDeletePeer kamil k bd maseel my fvrt novel bhtt kuch seekhny ko Mila hn is se bht.kuch pta chla
DeleteNew episode kb upload ho gy??
ReplyDelete