مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_59
نور_راجپوت
اس نے کہا تھا وہ اسے اٹھا لے گا اور وہ واقعی برستی بارش میں اسے اکیڈمی کے گیٹ سے لے کر عمارت تک اور پھر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر تک لے آیا تھا۔۔ ایمان حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ جہاں پہلے ملازموں کے تین کمرے تھے وہاں اب ایک ہی بڑا سا کمرہ تھا۔
”جب تک گھر نہیں بن جاتا تمہیں یہاں ہی رہنا ہوگا میرے ساتھ میں تمہیں اکیلے اپنے اپارٹمنٹ میں نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔“ اس نے ایمان کو بیڈ پر بٹھایا۔ اس کے بالوں پر بارش کی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں۔
”تم سکون سے بیٹھو میں آتا ہوں۔۔۔“ وہ اسے کہتے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا اور ایمان حیرانی سے کمرے کو دیکھنے لگی۔ یہ کافی بڑا اور کھلا تھا۔ کمرے میں زیادہ سامان نہیں تھا۔ ایک بیڈ، بیڈ سے کافی فاصلے پر تقریباً دوسرے کونے میں سٹنگ ایریا تھا۔ کمرے میں ونڈو کے پاس روم پلانٹ رکھے تھے اور ڈریسنگ روم الگ تھا جس کا دروازہ کمرے سے ہی کھلتا تھا۔لیکن ایک ڈریسنگ ٹیبل بیڈ کے بائیں جانب رکھا تھا۔ بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر پھول رکھے تھے۔ کمرے میں ہلکی روشنی تھی۔ وہ حیرانی سے دیکھے گئی۔ شاید وہ کافی نفاست پسند تھا ہر چیز اپنے ٹھکانے پر تھی۔
ایمان نے اپنی شال اتار کر سائیڈ پر رکھ دی۔ وہ اب بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں وہ تھک گئی تھی اور اسے اپنے کندھے اور پاؤں میں درد محسوس ہورہا تھا۔
زندگی بہت تیز چلی تھی۔ اسے ابھی تک یہ سب خواب لگ رہا تھا۔ وہ جس شخص سے اتنی عقیدت رکھتی تھی کبھی سوچا نہیں تھا اسی کے بیٹے سے اس کی شادی ہوجائے گی۔
روحان جبیل۔۔۔ ڈاکٹر روحان جبیل۔۔ہاں اس کہانی کی شروعات اسی سے ہوئی تھی۔
وہ عبداللہ شہاب کے اندھیروں سے خوفزدہ تھی ایسے میں وہ جب جب روحان جبیل کے لیکچرز سنتی تھی شدت سے خواہش کرتی تھی کہ کاش اس کا باپ بھی ویسا ہی ہوتا۔
پھر اسے بینش ملی۔۔۔بینش مستقیم۔۔ آرجے کے دوست مستقیم عرف مکی کی بیٹی۔ وہ جبیل خاندان کو اچھے سے جانتی تھی اور وہی ذریعہ بنی تھی اسے اس خاندان تک لانے کا۔ وہ ان سب کی کہانی بینش کی زبانی بڑی دلچسپی سے سنتی تھی۔۔
پھر بینش نے اسے اپنے کزن عبدل سے متعارف کروایا جو حاد تھا لیکن بینش نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ روحان جبیل کا بیٹا تھا۔۔۔اور ایمان کو اس شخص کی سفیدی نے اپنی جانب کھینچا تھا پر وہ اس راز سے واقف نہیں تھی کہ سات سمندر پار کسی اور دیس میں وہ اس شخص کے دل پر سالوں سے قابض ہے۔
اسے حاد جبیل تک لایا گیا کیونکہ وہ حاد کے دل میں رہتی تھی۔۔۔اسے عبدل نے پابند کردیا تھا اور وہ پابند رہا۔۔اس نے ہمیشہ وعدے نبھائے۔
اس کی زندگی حاد سے شروع ہوئی تھی پھر عبدل، ادھم اور مشارب سے ہوتی واپس اسی تک لے آئی تھی۔ وہ سب تو ذریعہ بنے تھے ایک دوسرے کی منزل تک پہنچنے میں مدد کی تھی۔
اسے عبدل یاد آیا۔۔۔جانے وہ کہاں تھا۔ اسے عبداللہ شہاب یاد آیا جو پچھلے چھ ماہ سے لاپتہ تھا۔
اس کے دل میں ابھی تک ڈر تھا۔ ایسے وقت میں جب اولاد کو سب سے زیادہ باپ کی ضرورت ہوتی ہے خاص کر بیٹی کو۔۔۔عبداللہ شہاب نہیں تھا۔۔وہ شخص تب تب نہیں تھا جب جب ایمان کو اس کی ضرورت تھی۔ اسے بےاختیار رونا آگیا تھا۔ کافی وقت گزر چکا تھا اور حاد ابھی تک نہیں آیا تھا۔ وہ لیٹنا چاہتی تھی پر اسے جیولری تنگ کر رہی تھی۔
اس نے اپنے دوپٹے کو اتارا اور پھر بیڈ کا سہارا لے کر اٹھنے کی کوشش کی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھے اسٹول پر بیٹھ گئی۔ اب وہ اپنے ہاتھوں سے کنگن اتار رہی تھی۔ اچانک دروازہ کھلا اور وہ اندر آیا۔ اس نے ایمان کو دیکھا اور وہ بےساختہ اس کی جانب لپکا۔
”ایمانے تم کیوں اٹھی میں ہیلپ کر دیتا نا۔۔“ وہ اب اس کے پیچھے کھڑا تھا۔
”میں ٹھیک ہوں بس یہ تنگ کر رہی تھی سوچا اتار دوں۔۔“ اس کی نظر ایمان کے بالوں سے ہوتی اس کی گردن پر ٹھہر گئی جہاں وہ دو نشان تھے۔ پیدائشی نشان۔۔ جو چمکتے نہیں تھے لیکن ان کا رنگ باقی جسم سے زیادہ سفید تھا اس لیے وہ واضح ہوتے تھے۔ وہ بیڈ پر بیٹھا اور اس نے اسٹول کو گھما کر ایمان کا رخ اپنی جانب کیا۔
”مجھے نہیں پتا تھا تمہیں اتنی الجھن ہورہی ہوگی۔ میں نوافل ادا کرنے گیا تھا۔۔“ وہ اس کے چہرے کو دیکھنے لگی۔ دھلا دھلایا صاف شفاف چہرہ وضو کے بعد اور خوبصورت لگ رہا تھا۔ وہ اب اس کے ہاتھ پکڑے اس کے کنگن اتار رہا تھا۔
”تمہیں پاؤں پر زیادہ وزن نہیں ڈالنا تھا۔۔سردی کا موسم ہے درد ہوجائے گا۔۔“ وہ اسے دیکھتی رہی کیسے بتاتی درد پہلے ہی ہورہا تھا۔
”کوئی اتنی نرمی سے بات کیسے کر سکتا ہے؟؟“
اس نے تو ہمیشہ نفرت سہی تھی۔ عبداللہ شہاب کا چیخنا چلانا۔۔۔یہ شخص اتنی نرماہٹ کہاں سے لایا تھا۔
خود پر اس کی نظریں محسوس کرکے حاد نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ نم آنکھیں لیے اسے دیکھ رہی تھی۔ آنسوں بس آنکھوں سے بہنے کو تیار تھے۔
”پلیز رونا مت۔۔۔“ اس کے کہنے کی دیر تھی اور وہ رو پڑی۔
”سیریسلی میں نے کبھی اتنی خوبصورت لڑکی کو روتے نہیں دیکھا۔۔“ وہ اب اسے بہلانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”ایمانے تمہاری برائڈل لک خراب ہورہی ہے۔۔“ اور وہ روتے روتے ہنس دی۔ آہستہ آہستہ اس کے رونے میں خاموشی آگئی۔۔اب وہ سرجھکائے بیٹھی تھی اور وہ اسے نرم نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
آج اسکا من پسند شخص محرم کے روپ میں اسکے سامنے بیٹھا تھا اور وہ خاموش تھی، وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن لب پھڑپھڑا کر رہ جاتے تھے، شاید وہ بےبسی کی انتہا پر تھی۔ اس نے ہمت جمع کی اور کہنا شروع کیا۔
”آپ کو پتا ہے گلیشیئرز کیسے بنتے اور کیسے پگھلتے ہیں؟“ ایمان کی غیر متوقع بات پر حاد نے چونک کر ایمان کو دیکھا۔ اس کے وجود میں اب لرزش تھی وہ محسوس کر سکتا تھا۔ وہ شاید سمجھ گیا تھا کہ وہ بولنے کے لیے کتنے پرتول رہی تھی۔ ایمان نے ایک نظر اس کے اجلے چہرے کو دیکھا جس پر الجھن پھیلی تھی۔ اور پھر نظریں جھکا لیں۔
وہ اسے ہی سننا چاہتا تھا۔
”جب خالی، خشک یا پھر ہری بھری زمین پر برف پڑتی ہے نا اور پھر وہ بند ہی نہیں ہوتی، مسلسل جاری رہتی تھی کبھی مہینوں تو کبھی سالوں اوراسے دھوپ کی ذرا سی بھی حدت نہ ملے تو پھر وہ جمنا شروع ہوجاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ وہ پتھر بن کر گلیشیئر میں بدل جاتی ہے!“ وہ سانس لینے کو رکی اور وہ سانس روکے اسے سن رہا تھا۔
”اور پھر جب سورج کی حدت اور اس کی گرمی گلیشیئرز تک پہنچتی ہے تو سالوں سے جمی برف بھی دھیرے دھیرے پگھلنا شروع ہوجاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ہوا میرے ساتھ بھی۔۔“ اس نے ایک نظر اٹھا کر اپنے من پسند شخص کو دیکھا۔
”مجھے درد دیا گیا، مسلسل، لگاتار، ایسا درد جسکی سپلائی کبھی بند نہیں ہوئی مجھے ملتا ہی رہا۔ پہلے پہل بہت درد محسوس ہوتا تھا، پھر وہ اتنا بڑھ گیا کہ محسوس ہونا بھی بند ہوگیا، اور پھر اس درد نے مجھے پتھر جیسا سرد و جامد اور سخت بنا دیا۔ مجھے کہیں سے بھی جذبات کی یا اپنے پن کی حدت نہیں ملی۔ اب یہ برف پگھلتی ہی نہیں۔ جب سے آپ میری زندگی میں آئے ہیں تب سے میرا دل دھڑکنا چاہتا ہے لیکن اس کے ارد گرد جمی برف اس کی حرکت پر مجھے درد پہنچاتی ہے۔ مجھے درد ہوتا ہے۔ پہلے جیسا ہونے میں درد ہوتا ہے۔ برف پگھلنے میں وقت لگے گا آپ مجھے تھوڑا وقت دیں ، تھوڑا مان ، تھوڑا اعتبار ، کچھ دنوں کے لیے درد کو مجھ سے دور رکھیں۔ میں بھی انسان ہوں مشین نہیں اس جذبے کی حدت کو مجھ تک پہنچنے دیں میں ٹھیک ہوجاؤں گی۔۔“ بات کے آخر پر ایمان نے زبردستی مسکرا کر اسے دیکھا جو اس کی بات سن کر خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
ْ”بھوک لگی ہے؟؟“ کچھ دیر بعد وہ بولا بھی تو کیا۔ ایمان کو حیرانی نے آگھیرا۔ تو کیا اسے برا نہیں لگا تھا؟
”نن۔۔نہیں۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔ اس کے ہاتھ ابھی تک حاد کے ہاتھوں میں تھے۔ صاف شفاف ہاتھ جن پر مہندی نہیں لگی تھی۔ سب کہتے تھے اس کے ہاتھ خوبصورت ہیں اور اسے پہلی بار اپنے ہاتھ اس قدر خوبصورت لگے تھے۔
”مجھے نہیں لگتا کہ تم بچوں جیسی حرکتیں کرتی ہوگی۔۔۔“
ایمان نے الجھی نگاہوں سے اسے دیکھا۔
”بنا کچھ کھائے میڈیسن تو نہیں لیتی ہوگی نا تم؟؟“
”نہیں تو۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
”میں کھانا لاتا ہوں۔۔“ وہ اٹھ کر جاچکا تھا اور جب تک وہ واپس آیا وہ اپنی جیولری اتار چکی تھی۔اور بالوں کا جوڑا بنا کر انہیں سمیٹ لیا تھا۔ حاد نے کھانے کی بڑی سی ٹرے بیڈ پر رکھی۔وہ بیڈ پر بیٹھ کر نہیں کھاتا تھا۔ لیکن آج کھا رہا تھا۔
وہ اس کا بیگ اٹھا لایا تھا جس میں اس کا سامان تھا۔
بیس منٹ بعد وہ فریش ہو کر واپس روم میں تھی۔
”تمہاری میڈیسن۔۔۔“ وہ اس کی میڈیسن ہاتھ میں تھامے کھڑا تھا۔ اس نے ایمان کے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھے تھے۔
”کیا ہوا درد تو نہیں ہے۔۔؟؟“ وہ سہارا دیتے بیڈ تک لایا۔ اور پھر اسے میڈیسن دی۔
”پاؤں درد کر رہا ہے۔۔“ ایمان نے میڈیسن لیتے اسے بتایا۔ اور پھر اگلے پانچ منٹ بعد وہ نرم قالین پر بیٹھا اس کے پاؤں پر جیل لگاتا گرم پٹی کر رہا تھا۔
”اس سے تمہیں سکون ملے گا اور درد بھی محسوس نہیں ہوگا۔۔“ جیسے ہی اس نے پٹی کرنے کے بعد چہرہ اٹھا کر دیکھا وہ آنکھیں بند کیے بیٹھے بیٹھے سورہی تھی۔ حاد کو اختیار ہنسی آئی۔
”اس سے پہلے کہ تم گرجاؤ تمہیں سو جانا چاہیے۔۔“
جتنی وہ تھکی ہوئی تھی دواء نے اتنی جلدی اثر کیا تھا۔ ایمان نے بامشکل آنکھیں کھولیں۔ اب وہ بستر میں لیٹ رہی تھی۔۔۔ وہ اسے کمبل اوڑھا رہا تھا اور پھر اسے غنودگی میں جانے سے پہلے اپنی پیشانی پر اس کے نرم لمس کا احساس ہوا تھا پر وہ آنکھیں نہیں کھول پائی اور سوگئی۔
✿••✿••✿••✿
ایک دن پہلے؛
وہ ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھی تھی اور کھا نہیں رہی تھی صرف جوس کا گلاس تھامے اسے گھور رہی تھی۔
”منحہ۔۔۔“ وہ کافی دیر جب یونہی بیٹھی رہی تو ماہم نے اسے پکارہ۔ جب سے اس نے منحہ کو ادھم کے بارے میں ناں کی تھی وہ ایسی ہی ہوگئی تھی بالکل خاموش۔۔ اس کی ہنسی اس کے قہقہے سب کھوگئے تھے۔
”منحہ کہاں گم ہو؟؟“ آواز پر وہ بھی نہ چونکی تو ماہم نے اسے دوبارہ پکارہ۔ اسے اپنی بیٹی کی خوشیاں عزیز تھیں۔ ادھم اچھا لڑکا تھا لیکن وہ سرعام ڈرگز لیتا تھا اور اسے ذرا بھی پچھتاوہ نہیں تھا۔
”جج۔۔جی۔۔۔“ وہ خیالوں سے باہر نکلی اور اپنی ماں کو دیکھا۔
”ناشتہ کیوں نہیں کر رہی ہو؟؟“
”دل نہیں کر رہا۔۔“ وہ سادہ شلوار قمیص میں تھی۔ دوپٹہ جانے کہاں تھا۔ بال بکھرے ہوئے تھے اور آنکھیں سوجھن کا شکار تھیں۔
”تمہارے پاپا تمہاری اس حالت کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔۔۔“
”مجھے کچھ وقت دیں میں بالکل ٹھیک ہوجاؤں گی۔۔“ وہ مسکرا بھی نہ پائی۔ وہ صبر کرنا سیکھ رہی تھی پر صبر اتنی جلدی نہیں آتا۔ اس سے پہلے کہ ماہم مزید کچھ کہتی اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ منحہ نے بےصبری سے فون اٹھایا اور جیسے ہی اس نے میسج دیکھا اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
لاہور ریلوے اسٹیشن کی تصویر تھی۔
”میں جارہا ہوں ہمیشہ کے لیے۔۔۔“ ادھم کا میسج تھا۔ وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”نن۔۔۔نن۔۔۔نہیں۔۔وہ ایسے نہیں جا سکتا۔۔۔“
”مم۔۔میں آرہی ہوں میرا ویٹ کریں پلیز۔۔“ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے میسج ٹائپ کیا اور پھر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
ماہم اس کی حالت دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی تھی۔
”منحہ ہوش میں آؤ۔۔۔“ ماہم نے اسے کندھوں سے پکڑتے جھنجھوڑا۔۔اور وہ واقعی جیسے ہوش میں آئی۔ پھر سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے کی جانب بھاگی۔ دو منٹ بعد وہ اسی تیزی کے ساتھ سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ اس کے کندھوں پر ایک شال تھی اور ہاتھ میں گاڑی کی چابی تھامے وہ تیزی سے لاؤنج عبور کرنا چاہتی تھی پر ماہم نے آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیا۔
”کہاں جارہی ہو؟؟“ اس نے غصے سے منحہ کی نم آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔
”وہ جارہا ہے ماما۔۔۔ہمیشہ کے لیے۔۔۔“
”تو جانے دو۔۔۔تم کہاں جارہی ہو۔۔؟؟“ اس کا لہجہ ابھی بھی سخت تھا۔
”وہ ایسے نہیں جا سکتا۔۔مجھے اس سے ملنا ہے۔۔“ منحہ نے اپنی کلائی چھڑوانی چاہی۔
”منحہ تم کہیں نہیں جاؤ گی۔۔“
”پلیز مجھے جانے دیں۔۔بس ایک بار۔۔۔آخری بار۔۔۔“
وہ منتوں پر اتر آئی تھی۔ ماہم کو وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگی۔
”منحہ ہوش میں آؤ۔۔۔“ ماہم نے ایک زوردار تھپڑ اس کے گال پر دے مارا تھا۔ منمناتی منحہ ساکت ہوگئی۔
”کیا کر رہی ہو تم اپنے ساتھ؟؟ کیوں کر رہی ہو ایسا۔۔؟؟“ ماہم زور سے چلائی۔۔۔منحہ ساکت نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی اور اگلے لمحے اس نے منحہ کو اپنے پاؤں پکڑتے دیکھا۔ وہ اب ان کے قدموں میں بیٹھی تھی۔
”پلیز مجھے ایک بار جانے دیں ماما، بس ایک بار۔۔۔“
وہ تڑپ اٹھی تھی اور ماہم کو کسی نے پتھر کا بنا دیا تھا۔
کوئی اپنی محبت کے لیے کسی کے پاؤں کیسے پکڑ سکتا ہے۔۔؟؟وہ جھٹکے سے پیچھے ہوئی اور منحہ کو جیسے ہوش آیا۔۔۔وہ چپل جوتے پہنے ہوئی تھی جو بھاگتے ہوئے اتر گیا تھا۔۔وہ جوتا دوبارہ پہنتی باہر کی جانب بھاگی تھی اور ماہم سینے پر ہاتھ رکھتی وہیں بیٹھتے چلی گئی تھی۔
✿••✿••✿••✿
وہ جانے کیسے اسٹیشن تک پہنچی تھی اور اب پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈ رہی تھی۔ ٹرین کھڑی تھی اور وہ اسے کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
وہ اب اسے فون کر رہی تھی اس کے ہاتھ کپکپارہے تھے۔
”کک۔۔کہاں ہیں آپ۔۔؟؟“ اس کے فون اٹھاتے ہی وہ نم لہجے میں بولی۔
”پیچھے دیکھو۔۔۔“ وہ جھٹکے سے مڑی اور اس کے پیچھے ادھم کھڑا تھا۔ کندھوں پر شیاہ شال پھیلائے۔ وہ وہیں کھڑا تھا۔ سادہ شلوار قمیص میں۔۔ وہ بےاختیار اس کی جانب بڑھی اور پھر چند قدم کے فاصلے پر رک گئی۔
”کہاں جارہے ہیں آپ؟؟“ وہ اپنے آنسوؤں کو پیتے ہوئے بولی۔
”نہیں جانتا۔۔۔“ اس کے انداز میں اطمینان تھا۔ منحہ نے پہلی بار اس کے چہرے پر اضطراب کی کیفیت نہیں دیکھی تھی۔ وہ پرسکون تھا۔
”کیوں جا رہے ہیں۔۔۔؟؟“ وہ رو دینے کو تھی۔
”منزل کی تلاش ضروری ہے۔۔بھٹک بھٹک کر تھک گیا ہوں۔۔“ وہ اس کے چہرے کو دیکھتے کہہ رہا تھا۔ جو رونے کے باعث سرخ تھا۔ آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں اور بال بکھرے پڑے تھے۔ وہ کہیں سے بھی لندن والی منحہ نہیں لگی تھی جو بہت مضبوط تھی۔۔محبت نے اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
وہ اسے نہیں کہہ سکتی تھی کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے جائے۔۔۔وہ کیسے جا سکتی تھی؟؟ اس کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں۔
”کب واپس لوٹیں گے۔۔۔؟؟“ منحہ نے خود پر ضبط کرتے پوچھا۔ اس کی دھڑکن تیز چل رہی تھی۔
”نہیں جانتا۔۔۔شاید کبھی نہیں۔۔۔“
اور آنسوں بےاختیار منحہ کے گالوں پر بہنے لگے۔
”تمہیں رونا نہیں چاہیے منحہ۔۔۔ تم چاہتی تھی نا میں یہ لڑائی ختم کردوں۔۔دیکھو میں نے کردی ہے۔۔“
”کیا ہیلر نے آپ سے جانے کو کہا۔۔۔؟؟“ وہ اسی سے ملنے گیا تھا۔
”اس نے مجھے راہ دکھائی۔۔۔“ وہ ہولے سے بولا۔
وہ ہمیشہ ہی دکھاتی رہی پر میں اندھا بنا رہا۔۔۔ وہ کہنا چاہتا تھا پر کہہ نہیں پایا۔
”اگر میں آپ کو روکوں تو آپ رک جائیں گے؟؟“
”میں چاہوں گا تم مجھے مت روکو۔۔۔“
اور منحہ نے ضبط کا گہرا سانس لیا۔
”میں آپ کا انتظار کروں گی۔۔“
”میں چاہوں گا تم میرا انتظار مت کرو۔۔۔“
وہ اسے دیکھ رہا تھا اور وہ نیچے۔
“جب آپ کو اپنی منزل مل جائے تو مجھے ضرور یاد کیجیے گا۔۔“
”اور میں چاہتا ہوں منحہ حارث واپس اپنی دنیا میں لوٹ جائے، وہ ہنسے جھومے اور خوش رہے۔۔۔کیونکہ وہ ایک خاص لڑکی ہے اس پر یہ سوگواریت نہیں سجتی۔۔“
وہ خاموش کھڑی سنتی رہی۔ ریلوے اسٹیشن ہر ہارن گونجا۔ ٹرین اب چلنے کو تیار تھی۔ منحہ کی دھڑکن بےاختیار تیز ہوئی۔اس نے گھبرا کر ادھم کو دیکھا۔۔۔ کھو دینے کا، کبھی نہ دیکھنے کا ڈر اس کے چہرے پر نمایاں تھے۔
”اپنا خیال رکھنا۔۔“ اس نے آگے ہوکر منحہ کا گال تھپھپایا۔۔منحہ کچھ کہنا چاہتی تھی پر حلق میں کانٹے اگ آئے تھے۔۔ خشک نیلے پڑنے لگے تھے۔
وہ اب اس سے دور ہورہا تھا۔ اور وہ اپنے ڈوبٹے دل کے ساتھ اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔ ٹرین کا انجن اسٹارٹ ہوا۔
جھنڈا لہرایا اور ٹرین جھٹکے سے آگے بڑھی۔
”نہیں۔۔۔ادھــم۔۔۔“ اس نے ٹرین کی جانب قدم بڑھائے۔
“واپس چلی جاؤ منحہ۔۔۔“ وہ دروازے میں کھڑا اسے کہہ رہا تھا۔۔وہ اس کے پیچھے بھاگنا چاہتی تھی پر اپنے پیاروں کے کتنے ہی چہرے آنکھوں کے سامنے آگئے۔۔۔ ٹرین نے رفتار پکڑ لی۔ وہ اب تیزی سے دور جارہی تھی۔ وہ وہیں اسٹیشن پر ڈھے گئی اور اب زمین پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ اسٹیشن پر آتے جاتے لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ صرف دیکھ رہے تھے اس کے درد سے تو صرف وہی واقف تھی۔ ٹرین دور جارہی تھی۔۔۔اور اس کے رونے کی شدت بڑھ رہی تھی۔ وہ خالی ہاتھ رہ گئی تھی جیسے اس سے اس کی پسندیدہ چیز کو چھین لیا گیا ہو۔
تم نے مجھے کوئی سنگی مجسمہ ہی سمجھا
کہ جس پر کوئی بات
کوئی دُکھ
کوئی تکلیف
اثر ہی نہیں کرتی
تو سنو۔۔۔!
دھوپ کی چبھن مجھے بھی ہوتی ہے
کسی کا سخت لہجہ مجھےبھی محسوس ہوتا ہے
باتوں کے تیر مجھے بھی لگتے ہیں
کسی کی بانہوں کا مضبوط حصار مجھے بھی چاہیے تھا
ایک اعتبار مجھے بھی چاہیے تھا
میں کوئی سنگی مجسمہ نہیں ہوں
ایک عام سی لڑکی ہوں
کاش
تم مجھے کبھی خاص نا سمجھتے۔۔!!
وہ اسے یاد کرتے، ہاٹل کے کمرے میں اپنے بستر میں دُبکی، رو رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
اگلی صبح اس کی آنکھ پانج بجے کے الارم پر کھلی تھی۔اس نے سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھا کر الارم بند کیا اور آنکھیں کھول کر دیکھنے کی کوشش کی۔ کمرے میں ہلکی سی روشنی تھی۔ حاد وہاں نہیں تھا۔ وہ جانے کتنے مہینوں بعد اتنی گہری اور سکون کی نیند سوئی تھی۔۔۔ کیوں نہ سوتی وہ اب حاد جبیل کی بیوی تھی۔ لیٹے لیٹے وہ مسکرادی۔ نرم گرم بستر میں جیسے اس کی ساری تھکن اتر گئی تھی۔ پھر وہ کمبل اتارتی اٹھ بیٹھی۔ نماز کا وقت تھا رات بھی وہ جلدی سوگئی تھی۔
اسے اپنے پاؤں اور کندھے میں درد محسوس نہیں ہوا۔ اس نے بیڈ سے پاؤں اتارتے نیچے رکھا۔۔۔پاؤں پر ابھی بھی گرم پٹی تھی۔ حاد نے اپنے ہاتھوں سے کی تھی۔ مسکان پھر سے اس کے لبوں پر آٹھہری۔ اس نے بےاختیار اللہ کا شکر ادا کیا اور پھر لنگڑا کر چلتی واشروم تک گئی۔ جو کمرے کے دوسرے کونے پر تھا۔ پانچ منٹ بعد وہ وضو کرکے باہر نکلی۔ تب اس نے کمرے میں ایک ٹیبل اور چیئر کا اضافہ نظر آیا۔ اس پر حاد کا لیپ ٹاپ رکھا تھا۔ تھوڑی تلاش پر اسے جائے نماز بھی مل گیا۔ اس نے ذرا سا پردہ اٹھا کر گلاس ونڈو سے نیچے جھانکا۔ باہر ابھی اندھیرا تھا۔۔۔ غور کرنے پر اسے نیچے گراؤنڈ پر کوئی بھاگتا ہوا محسوس ہوا۔۔ وہ حاد تھا۔۔ رننگ کر رہا تھا۔۔ وہ کئی لمحے اسے دیکھتی رہی۔۔۔اس کی رفتار کافی تیز تھی۔ پھر اس نے جائے نماز بچھایا اور بیٹھ کر اشاروں سے نماز پڑھی۔ پھر کتنی ہی دیر وہ شکرانے کے کلمات ادا کرتی رہی تھی۔ اس کے چہرے پر الگ ہی رونق تھی۔ کمرے میں گرمائش تھی اور بڑی سی شال لیپٹے وہ جائے نماز پر بیٹھی۔ کمرے سے مخصوص مہک آرہی تھی جو اسے رات کو حاد سے آرہی تھی جب وہ اس کے قریب بیٹھا تھا۔۔ وہ آنکھیں بند کیے اسے اپنے اندر اتارنے لگی۔
پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے دوبارہ پردہ سرکا کر دیکھا وہاں حاد نہیں تھا۔ وہ بیڈ کی جانب آئی اور اپنا فون اٹھایا تب اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے پھولوں پر پڑی۔۔۔پھولوں کے ساتھ ہی ایک فائل رکھی تھی جس پر ربن لگا تھا۔
”فار یو مائی وائف۔۔۔“ وہ مسکرادی اور پھر اس نے ربن کھول کر فائل کو دیکھا اور اگلے لمحے اسے کمرے کی چھت اپنے اوپر گرتی محسوس ہوئی۔ وہ ہسپتال کے کاغذات تھے۔۔ ہسپتال اب اس کے نام پر تھا۔۔۔وہ اس ہسپتال کی آنر تھی جس کے آنر نے اسے نکالا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی اور کاغذ الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔۔ہر بار پڑھنے پر اسے یہی سمجھ آرہا تھا۔ وہ حیران رہ گئی۔
تبھی کمرہ کا دروازہ کھولا اور حاد اندر آیا۔
”میں تمہیں نماز کے لیے ہی اٹھانے آیا تھا۔۔“ وہ جوتے باہر نکال کر آیا تھا۔۔اس کے ہاتھ میں ٹاؤل تھا جس سے وہ اپنے منہ صاف کر رہا تھا۔ ٹی شرٹ میں اس کے بازو نمایاں تھے۔
”یہ فائل۔۔“ وہ بےاختیار اس کی جانب بڑھی۔ لیکن پاؤں پر وزن پڑنے کے باعث اٹھنے والے درد نے اسے کراہ کر گرنے پر مجبور کیا تھا پر حاد آگے بڑھ کر اسے تھام چکا تھا۔
”کیا کر رہی ہو۔۔دھیان سے چلو۔۔“ وہ اس کے گرد بازو پھیلائے کھڑا تھا جبکہ ایمان ابھی تک فائل میں الجھی تھی۔
”یہ۔۔کک۔۔کیا ہے۔۔۔؟؟“ وہ اتنا مہربان تھا کہ اس کی مہربانیوں پر رونا آرہا تھا۔
”تمہارا گفٹ۔۔۔“ اس کے چہرے پر حیرت اور بےیقینی کے تاثرات دیکھ کر وہ تھوڑا سا جھکا اور اس کی ناک کو چھوا۔
”لیکن یہ تو ہسپتال۔۔۔“
”یہ اب تمہارا ہے۔۔“ وہ اسے یونہی تھامے کھڑا تھا۔ بڑی سی چادر کے ہالے میں اس کا صاف چہرہ کتنا معصوم لگ رہا تھا۔
”یہ آپ نے خرید لیا۔۔؟؟“
”ہاں۔۔۔“
”ڈائریکٹر مان گئے۔۔؟؟“ وہ ہولے سے مسکرایا۔ ڈائریکٹر کو اس نے کیسے منایا تھا یہ وہی جانتا تھا پر اس لمحے جو بےیقینی ایمان کے چہرے پر تھی وہ اسے طمانت بخش رہی تھی۔
”اس نے میری وائف کو ہسپتال سے نکالا میں نے ہسپتال ہی خرید لیا اب تمہیں کوئی یہاں سے نہیں نکال سکتا۔۔۔“
اور ایمان کا دل بھر آیا۔ کیسے بن کہے وہ سب سمجھ لیتا تھا۔ وہ بےیقینی سے فائل کو دیکھتی رہی۔
”لیکن اتنے پیسے کہاں سے آئے۔۔۔؟؟“ قیمت دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹ پڑی تھیں۔
”تم نے تو مجھے کنگال ہی سمجھ لیا ہے، ورلڈز بیسٹ ڈیٹا سائنٹسٹ ہوں یار! پیسہ کہاں انویسٹ کرنا ہے یہ بھی جانتا ہوں۔۔۔جتنی انویسٹمنٹ تھی اب کام آگئی نا۔۔“
ایمان کو سمجھ نہ آیا وہ ہنسے یا روئے۔ وہ کچھ نہ بولی۔ خاموشی سے فائل تھامے کھڑی رہی۔ وہ وہاں کے لوگوں سے جڑ چکی تھی۔ ان کو تکلیف سے نکال کر اسے اپنا آپ ہلکا پھلکا محسوس ہوتا تھا۔۔۔اس نے ہسپتال کو اپنا آپ دیا تھا پھر اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔۔دکھ تو ہوا تھا پر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی اس لیے خاموش ہوگئی تھی۔
”وزٹ کرنا ہے ہسپتال؟؟“ وہ اسے خاموش دیکھ کر پوچھنے لگا۔
”ہاں۔۔“ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
”تو پھر جلدی سے تیار ہوجاؤ ناشتے کے بعد چلیں گے۔۔“ وہ اب ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا تھا تاکہ فریش ہوسکے اور ایمان کے اندر زندگی کی نئی لہر دوڑ گئی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے۔۔۔“ ڈائریکٹر صاحب اپنے سامنے بیٹھے حاد جبیل سے مخاطب ہوئے۔
”ناں۔۔۔میں تو آپشنز دے رہا ہوں آپ کو۔۔یا ایمان کو یہاں رہنے دیں یا پھر ہسپتال دے دیں۔۔“
وہ فارمل ڈریس پینٹ میں ملبوس تھا۔ کوٹ بازو پر گرائے وہ کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھا تھا۔۔ میز کے دوسری جانب ہسپتال کا ڈائریکٹر گہری کشمکش میں تھا۔
”میں اسے یہاں نہیں رکھ سکتا۔ مجھے عجیب و غریب لوگوں کے فون آرہے ہیں کہ اگر وہ یہاں رہی تو میرے لیے اچھا نہیں ہوگا۔۔“
”اسی لیے تو کہہ رہا ہوں ہسپتال دے دیں۔ باقی میں خود دیکھ لوں گا۔۔“
”میں ہسپتال نہیں چھوڑ سکتا۔ کسی صورت نہیں اور تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے مسٹر حاد جبیل۔۔“
وہ دبے دبے لہجے میں چلائے۔
”آفکورس حاد جبیل نہیں کرے گا لیکن مسٹر گرے کر سکتا ہے۔۔“ اس نے آنکھوں سے چشمہ اتارتے کہا۔ اس کا انداز ایسا تھا کہ ڈائریکٹر کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس ہوئی۔ پھر حاد نے گود میں رکھی فائل میز پر پھینکی۔
”پچھلے کئی سالوں کے ریکارڈ میں آپ کے ہسپتال سے اتنے پیشنٹ ٹھیک ہو کر نہیں نکلے جتنے کہ اس دورانیہ میں جب ایمان نے یہاں کام کیا۔۔“
ڈائکریکٹر نے وہ فائل اٹھائی جس کے پہلے صفحے پر سارے ریکاڑد منشن تھے۔
”دو سال پہلے۔۔۔ٹھیک دو سال پہلے یہاں ایک پیشنٹ نے خودکشی کی تھی۔ خبر باہر نہیں نکل سکی۔۔“
یہ بات سنتے ہی ڈائریکٹر کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ اس نے خوفزدہ نگاہوں سے حاد کو دیکھا۔
”وہ لڑکی یتیم تھی اس کا کوئی وارث نہیں تھا اور آپ نے اس خبر کو دبا دیا۔۔۔کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔۔۔“
ڈائریکٹر نے تھوک نگلا۔ بولنے کے لیے منہ کھولا لیکن الفاظ دم توڑ گئے۔
”کیا ہو اگر اس واقعے کی ساری ویڈیوز باہر نکل آئیں۔۔۔“
ڈائریکٹر نے ٹشو نکال کر اپنے چہرے پر آیا پسینہ پونچھا۔ اتنی سردی میں بھی پسینہ بہہ نکلا تھا۔
”تت۔۔تمہارے پاس کہاں سے آئی۔۔۔؟؟“
”اگر میں اتنا بھی نہ کر پاؤں تو پھر تف ہے میرے ڈیٹا سائنٹسٹ ہونے پر۔۔۔“ اس نے اپنے چشمے کو سینے کے مقام پر شرٹ سے رگڑ کر صاف کیا اور پھر آنکھوں پر لگالیا۔ اس کی گرے آنکھیں ڈائریکٹر کے اندر تک اتر رہی تھیں۔
”میں آپ کو اس کی ڈبل قیمت دے رہا ہوں، باقی آپ کی مرضی۔۔۔ویڈیوز وائرل ہوئیں تو ہسپتال ویسے ہی بند ہوجائے گا۔۔۔“
”مجھے منظور ہے۔۔“ ڈائریکٹر جانتا تھا وہ اب بچ نہیں پائے گا۔ اس نے کاغذات پر سائن کردیے اور حاد نے اسے قیمت ادا کردی تھی۔ وہ شخص اس ہسپتال کو سنبھالنے کے قابل نہیں تھا جس کی موجودگی میں کوئی اپنی جان سےہاتھ دھو بیٹھے۔
✿••✿••✿••✿
وہ شاور لے کر باہر آیا تو اس نے ایمان کو ڈریسنگ کے سامنے بیٹھے دیکھا وہ لپ اسٹک لگا رہی تھی۔۔ وہ اسے دیکھ کر پل بھر کو ساکت ہوا۔
”میں ریڈی ہوں۔۔“ وہ لپ اسٹیک بند کرتے واپس رکھتی اٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔ اس کے بال کرل تھے جسے اس نے اونچی پونی میں باندھا ہوا تھا۔ Olive گرین موٹا سوٹ پہنا تھا۔۔۔ یہ ایک شارٹ شرٹ اور کھلے پلازو کے ساتھ تھا جس کے گلے پر سفید موتیوں کا کام تھا۔ گلا گول تھا جو پورا بند تھا۔ کانوں میں سفید ننھے آمیزے تھے اور ہلکے میک اپ کے ساتھ وہ اب کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ بڑی آنکھیں واضح تھیں اور وہ ٹین ایج لڑکی لگ رہی تھی۔ جو کسی ٹوور پر جانے کے لیے پوری طرح سے تیار ہو۔
”میں جلدی ریڈی ہوگئی نا۔۔۔“ وہ اب آہستہ آہستہ لنگڑا کر چلتی بیڈ کی جانب بڑھی۔ حاد کو جیسے ہوش آیا۔
”بیٹھ جاؤ آرام سے۔۔“ وہ اس کی جانب بڑھا اور اسے پکڑ کر بیڈ پر بٹھایا۔ وہ کتنی خوش تھی اور خوشی میں کتنی پیاری لگ رہی تھی یہ حاد نے آج دیکھا تھا۔
”پاؤں دکھاؤ پہلے اپنا۔۔۔“ وہ پھر سے نیچے بیٹھ چکا تھا۔
”آپ نیچے مت بیٹھا کریں پلیز۔۔۔“ وہ ان کمفرٹیبل ہوئی۔
”میں ان قدموں میں اپنی مرضی سے بیٹھتا ہوں تمہیں کوئی اعتراض ہے۔۔“ وہ اب چہرہ اٹھائے اسے دیکھ رہا تھا۔ ایمان سے کوئی اعتراض بن نہیں پایا۔ اب وہ اس کے پاؤں کی پٹی کھول رہا تھا۔
”تم نے کندھے کی پٹی کی؟؟“ وہ اب پوچھ رہا تھا۔
”وہ میں شال لے لوں گی اوپر تو ہوا نہیں لگے گی۔۔۔“ ایمان نے بہانہ بنایا۔
وہ اب جیل اٹھا لایا تھا اور اس کے مومی پیروں پر جیل لگاتے مالش کر رہا تھا پھر اس نے کچھ دیر بعد پٹی کی اور اچھے سے لپٹ دیا۔ پھر جیل اٹھا کر واپس رکھی اور ہاتھ دھونے چلا گیا۔ پانچ منٹ بعد جب واپس آیا تھا تو اپنی شرٹ چینج کرآیا تھا۔ سفید سے گرین۔۔۔اس کے ہم رنگ پہن آیا تھا۔
”مجھے نہیں پتا تھا گرین رنگ کسی پر اتنا سوٹ کرتا ہے۔۔“ وہ اب آئینے کے سامنے کھڑا بٹن بند کر رہا تھا۔
”یہ صرف گرین نہیں اولیو گرین ہے۔۔“
”گرین تو گرین ہوتا ہے نا۔۔۔؟؟“
” بالکل نہیں، سب الگ الگ ہیں اور سارے میرے فیورٹ ہیں“
Seafoam Green, Sage Green, Olive Green, Jade Green, Forest Green, Emerald Green and Lime Green
اس نے سارے شیڈز گنوا دیے تھے۔ وہ ہنس دیا۔
”پہلی لڑکی دیکھی ہے جسے بلیک سے زیادہ کوئی اور رنگ پسند ہے۔۔“
”کیونکہ یہ پہلی لڑکی باقیوں لڑکیوں سے الگ ہے۔۔“
وہ اب مسکراتے ہوئے اپنی شال لپیٹ رہی تھی۔
اور پھر گھنٹے بعد ناشتے سے فارغ ہو کر وہ لوگ ہسپتال کی جانب رواں تھے۔ وہ چمکتی آنکھوں سے باہر گھنے پیڑوں کو دیکھ رہی تھی۔
“مجھے لگتا ہے تمہیں جنگل بہت پسند ہے۔۔“
”ہاں میں چاہتی ہوں میرا گھر جنگل میں ہو یا جنگل میرے گھر میں ہو۔۔“ وہ فوراً بولی تھی۔ حاد مسکرادیا۔
کتنی خواہشیں تھی جو اس نے اپنے اندر دبائی ہوئی تھیں۔ اب اسے کوئی پورا کرنے والا ملا تھا تو سب آہستہ آہستہ باہر نکلنے لگی تھیں۔
کچھ دیر بعد وہ ہسپتال میں تھے۔ حاد اسے سہارا دیتے اندر لایا تھا۔ اس نے سر پر گرم اسکارف لیا ہوا تھا اور سفید اونی شال کندھوں پر تھی۔ پاؤں میں سفید اسنکیرز تھے۔ وہ اسے اپنے ساتھ لیے راہداری میں آگے بڑھ رہا تھا۔ صبح صبح کا ٹائم تھا زیادہ اسٹاف نظر نہیں آرہا تھا۔
”کسی سے ملوانا ہے تمہیں۔۔“ وہ اسے اس کمرے تک لے آیا تھا جس میں کبھی اس نے وقت گزارا تھا جب وہ اس ہسپتال میں تھی۔
ایمان نے نا سمجھی کے عالم میں گلاس ونڈو سے اندر جھانکا اور پھر سامنے بیڈ پر لیٹے وجود کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔۔اس نے بےاختیار حاد کو دیکھا۔
اندر لیٹا شخص عبداللہ شہاب تھا۔۔۔اس کا باپ۔۔۔ جو پچھلے چھ ماہ سے لا پتہ تھا۔۔ حاد نے اسے ڈھونڈ لیا تھا۔
”یہ۔۔یہاں۔۔۔ کیا کر رہے ہیں۔۔“ ایمان کو لگا کسی نے اس کا دل مٹھی میں بھینچ لیا ہو۔
عبداللہ شہاب کی چیخیں اسے اپنے کانوں میں سنائی دینے لگی تھیں۔
”ملو گی نہیں ان سے۔۔۔؟؟“ وہ اس کے ساتھ کھڑا تھا۔
”نہیں مجھے نہیں ملنا۔۔“ وہ اس سے ہاتھ چھڑا کر جانا چاہتی تھی پر حاد نے اپنی گرفت مضبوط رکھی۔
”سب سے پہلا حق ہے ان کا تم پر، اور جنگ ان سے کی جاتی ہے جو اس قابل ہوں۔۔“ وہ ہولے سے بولا تھا اور ایمان کو اپنی آنکھوں میں نمی امڈتی محسوس ہوئی۔
”تم ہیلر ہو نا، تمہارا یہ مرہم سب کے لیے ایک سا ہونا چاہیے ایمانے۔۔“ وہ ہولے ہولے سرگوشیاں کر رہا تھا۔ اس نے ایمان کو تھام رکھا تھا ورنہ وہ گر جاتی۔
”خود ساختہ لڑائی ختم کردو تمہیں سکون ملے گا۔۔“
اس کی بات سن کر ایمان نے پلکیں جھپکتے اپنے آنسوؤں کو اندر دھکیلا۔
ماضی کی خوفناک یاد اپنے تمام تر خونی پنجوں کے ساتھ اس کے جسم سے چپک چکی تھی۔
”تم آج نہیں بچو گی۔ تمہیں مرنا ہوگا۔۔میں تمہیں مار ڈالوں گا۔۔“ چھوٹے سے کمرے میں عبداللہ شہاب اسے گلے دبا کر مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ خود کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی لیکن عبداللہ شہاب کی گرفت بڑھتی ہی جارہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے۔
عبدل والو تیار ہوجاؤ۔۔بہت ہوگئی بٹرفلائز اب ہنسنے رونے کا وقت آگیا ہے۔
👉👉Maseel Epiosde 60 is now available Click Here
Best novel ❤️❤️❤️❤️❤️
ReplyDelete❤❤❤❤
ReplyDeleteNext kab aye gi?🥰🥰
ReplyDeleteBest novel too good episode well done
ReplyDeleteInteresting...
ReplyDeleteAur iss mein jo sabar k baary mein hmaryy liye sabaq hai..wo bohat great hai..
Iss novel ko prdh kr badalny ka dil krta hai..
By the way Thanks Noor Rajput for this novel..💜
Please koi death ni honi chahiya please 😭
ReplyDeleteAp kiu dra rahi he yar plz koi tragic end ni kriye ga....Hum abdul valy to he lekin bura end bilkul ni chiye plzzzz
ReplyDeleteWait for the next episode.....
Deleteplease ab jaldi say abdul ko bhi lay ayen writer g or baki sari epi bhot amazing the bhot achi the
ReplyDeleteSuch a masterpiece 🤩👏
ReplyDeleteyr ap roz roz kun trpa rhi hain hm readers ko 1 hi dfa isy windup kr k hmen dy den na.
ReplyDeleteBs kisi ki death na ho jesy Hasham ki hui thi 🥺😣 ab aur kisi ki na ho
ReplyDeleteNO WORDS 🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰
ReplyDeleteEpisode 60 Has been Uploaded
ReplyDeleteWallah adhaam ki love story he sab se zyada Dard nak hai
ReplyDeleteVery intensive Dard mil Rahi hai
Wallah adhaam ki love story he sab se zyada Dard nak hai
ReplyDeleteVery intensive Dard mil Rahi hai