مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_58
نور_راجپوت
”وہ چلا گیا؟؟“ سلمی بیگم نے آتے ہی پوچھا۔
”ہاں۔۔۔“
”اتنی جلدی۔۔۔؟؟“ حمیزہ کو تعجب ہوا۔
”صرف چار منٹ بیٹھا تھا۔۔ پھر فوراً چلا گیا۔۔“ اس نے گھڑی کی جانب دیکھتے جواب دیا۔ وہ ابھی بھی کسی الجھن کا شکار تھی۔
”تو کیا سوچا تم نے؟؟“ سلمی بیگم نے دوبارہ پوچھا۔
ایمان نے کوئی جواب نہیں دیا وہ خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھتی رہی۔۔۔اور پھر اس نے اگلا پورا مہینہ کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ حاد نے پورا مہینہ اسے ڈسٹرب نہیں کیا بلکہ کسی نے بھی نہیں کیا تھا۔۔ وہ سب اس کی ہاں کے انتظار میں تھے۔
اور پھر جیسے ہی اس نے ہاں کہا تھا فضا میں چاروں جانب خوشبو پھیل گئی تھی۔۔۔خوشیوں کی خوشبو۔۔!!
✿••✿••✿••✿
دو ہفتے بعد نکاح تھا۔ حاد کی خواہش تھی کہ نکاح سادگی سے ہو۔ لیکن سلمی بیگم پھر بھی اپنی طرف سے تیاریاں کر رہی تھیں۔۔۔ حمیزہ اسے خاموش دیکھتی تو فوراً بولتی۔
”اب ہاں کرکے مکر مت جانا۔۔“ اور ایمان بس مسکرا دیتی۔
اس کے پاؤں کا پلستر بھی اترنے والا تھا۔۔ حاد اسے کسی طرح کے میسجز یا کال نہیں کرتا تھا اب۔۔ شاید وہ کہیں بہت زیادہ مصروف تھا۔۔وہ اب گھر میں رہ رہ کر اکتا گئی تھی۔۔ اس کا دل تھا کہ وہ اب ہسپتال جائے دیکھ کر آئے کہ وہاں کیا چل رہا تھا اور اسی لیے اس نے ہسپتال کے آنر کو جو ڈائریکٹر بھی تھا فون ملایا۔
”السلام علیکم ڈائریکٹر صاحب۔۔۔“
”وعلیکم السلام۔۔کیسی ہو ایمان؟؟“
”میں ٹھیک ہوں۔۔ میرا دل کر رہا تھا ہسپتال آنے کو سوچا ایک چکر لگا لوں۔۔“
”اب تمہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔“
”سوری۔۔؟؟“ وہ واقعی نہیں سمجھی تھی۔
”آپ کے ساتھ ہسپتال نے اپنا کنٹریکٹ ختم کردیا ہے۔ آپ کو کسی نے ابھی تک انفارم نہیں کیا؟؟ ہمیں اب آپ کی ضرورت نہیں ہے۔۔ “
اور وہ بس بیٹھی رہ گئی۔۔۔ کوئی جواب نہیں بن پایا۔ ڈائریکٹر مزید کچھ کہہ رہا تھا اور پھر فون بند ہوگیا۔
”ضرورت نہیں ہے؟؟“ وہ زیرلب بڑبڑائی۔
”کیا انہیں کوئی اور ہیلر مل گیا ہے یا میں اب اس قابل نہیں رہی۔۔“
کتنا مشکل تھا نا خود کو پھر سے گرتے دیکھنا۔۔ ان جگہوں کو چھوڑنا جن سے آپ کا سب کچھ جڑا ہو۔
وہ رونا چاہتی تھی پر آنسوں جیسے خشک ہوگئے تھے۔۔۔اس نے بس ایک گہرا سانس لیا اور اللہ پر چھوڑ دیا۔
✿••✿••✿••✿
”برخوردار نکاح کرنے کے بعد بتا دیتے ابھی بھی کیا ضرورت ہے بتانے کی۔۔۔؟؟“ سید جبیل نے اس کے نکاح کی خبر سنتے ہی کہا تھا۔
”نہیں پہلے بتارہا ہوں آخر کو دادا ہیں آپ میرے۔۔“ وہ خوش تھا۔
”لڑکی کون ہے کس خاندان سے ہے باپ کون ہے؟؟“
”از دس میٹر؟؟“ اس نے سوال کیا۔
”اپنی یہ انگریزی باہر جھاڑا کرو مجھے صاف صاف لفظوں میں جواب دو۔۔“ سید جبیل صاحب بھڑکے تو حاد نے مسکرا کر کان کھجایا وہ سامنے نہیں تھے ورنہ ایک دو جڑ دیتے۔
”اچھا تو پھر سنیں۔۔۔“ وہ فوراً سنجیدہ ہوا۔
”حاد جبیل کی ہونے والی وائف ہے اور کوئی تعارف چاہیے آپ کو؟؟“
”میں رشتہ لے کر نہیں جاؤں گا تم نے میرا کہا نہیں مانا۔۔“ وہ غصہ تھے ابھی تک کہ حاد نے دائمہ کو انکار کیا تھا۔
”رشتہ ہوچکا ہے لیکن نکاح پر میں آپ کو اٹھا کر لے آؤں گا۔۔“ وہ بھی انہی کا پوتا تھا۔
”دھمکی دے رہے ہو مجھے؟؟“
”کھلے عام۔۔۔ویسے مجھے یہ کام اسی دن کرلینا چاہیے تھا جب آپ نے میرے اکاؤنٹ فریز کروائے تھے۔“ وہ مسکرایا۔۔ ابھی مسکراہٹ یونہی اس کے چہرے کا احاطہ کیے رکھتی تھی۔
”میں میڈیا پر بیان دوں گا کہ میری جان کو خطرہ ہے۔۔ہنہہ“
”اگر آپ نے میڈیا پر یہ بیان نہیں دیا ہوتا کہ میں حاد جبیل آپ کا پوتا ہوں تو شاید وہ آپ کی بات کو سیریس لے لیتے۔۔“
”تم مجھے بلیک میل نہیں کر سکتے۔۔۔“ وہ ابھی تک اپنی اکڑ میں تھے۔
”میں آپ کو بلیک میل کر رہا ہوں۔۔۔ میں آپ کو اٹھا کر لے آؤں گا اور آپ جانتے ہیں مجھے سید حیدر جبیل صاحب کو اٹھوانے میں ذرا دیر نہیں لگے گی۔۔۔“
”پورے باپ پر گئے ہو۔۔۔“ وہ اب جیسے ہار مان رہے تھے۔
”پورا آپ پر گیا ہوں۔۔۔“ اور سید جبیل زیرلب مسکرادیے۔
”ٹھیک ہے سوچ کر بتاؤں گا۔۔۔“
”ہاں ہاں سوچ لیں لیکن نکاح سے ذرا پہلے تشریف لے آئیے گا کیونکہ وہ آپ پڑھائیں گے۔۔۔“
”کک۔۔کیا۔۔۔ میں؟؟“
”کیوں آپ نہیں پڑھا سکتے۔۔۔؟؟ اللہ نے منع کیا ہے آپ کو؟؟“ سید جبیل کے پاس تو الفاظ ہی نہیں بچے تھے۔ آنکھوں میں نمی امڈ آئی تھی۔ اتنا بڑا رتبہ دینے جارہا تھا وہ انہیں۔
انہیں اپنے چاروں پوتوں میں سےیہ سب سے عزیز تھا۔۔جس نے ہمیشہ ان کی بات مانی تھی۔ وہ اسے ہمیشہ حشام کی یاد دلاتا تھا۔۔۔ رشتوں کی حفاظت کرنے والا۔۔۔
جس نے اکیلے سب سنبھالا تھا اور کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”تو آپ سچ میں شادی کر رہے ہیں۔۔۔؟؟“ خبر سنتے ہی سعد نے فون کیا تھا۔
”شادی نقلی بھی ہوتی ہے کیا۔۔؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”نہیں میرا مطلب وہ پچھلی بار ہسپتال میں۔۔“ وہ بات ادھوری چھوڑ گیا۔
”تو خود آکر دیکھ لینا نا کہ نکاح ہورہا ہے یا نہیں۔۔“
”تو۔۔دا۔۔دائمہ کا کیا۔۔؟؟“ اس نے ہچکچاتے پوچھا تھا۔ حاد زیرلب مسکرایا۔
”تم ہو نا۔۔۔“
”جج۔۔جی۔۔۔“ سعد کی تو آنکھیں ابل آئی تھیں۔ حاد اسکرین کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا لیکن جانتا تھا اس وقت سعد کے کیا تاثرات تھے۔ وہ کیسے بھول گیا تھا وہ حاد کی نگاہوں سے کچھ نہیں چھپا سکتا تھا۔
”میں دادا جی سے بات کروں گا۔۔تم جبیل خاندان کی لڑکی کے لیے ایک بہترین انسان ہو۔۔ مجھے امید ہے جلد یا بدیر وہ مان جائیں گے۔۔۔“
سعد تو ساکت بیٹھا رہ گیا تھا۔
”تو کب آرہے ہو تم؟؟“ وہ اسے خاموش بیٹھے دیکھ کر پوچھنے لگا۔
”آپ کہتے ہیں تو آج ہی آجاتا ہوں۔۔“ وہ مسکرایا۔
”چلو میں بتاتا ہوں۔۔ لیکن تم تھوڑا دھیان رکھنا یہ خبر میـڈیا تک نہ جائے۔۔“ اس نے سعد کو تاکید کی تھی جس نے سمجھتے ہوئے سر اثبات میں ہلادیا تھا۔۔۔وہ خوش تھا کیونکہ حاد خوش تھا۔
✿••✿••✿••✿
یہ نکاح سے تین دن پہلے کی بات تھی۔ وہ اکیڈمی جانا چاہتی تھی۔
”کیا میں اکیڈمی آسکتی ہوں؟؟“ اس نے حاد کو کال کی یہ نہیں کہا کہ اس کا دل کر رہا تھا اسے ڈر تھا کہیں وہ بھی ہسپتال والوں کی طرح اسے وہاں سے نکال نہ دے۔
”یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے؟؟“
اور پھر اگلے ایک گھنٹے وہ حمیزہ کے ساتھ اس کی گاڑی میں اکیڈمی جارہی تھی۔۔ کئی دنوں بعد گھر سے نکلی تھی۔ وہیل چیئر کو لفٹ سے لانا اور پھر اسے گاڑی میں بٹھانا۔۔۔یہ آسان نہیں تھا پر وہ ایک بار جانا چاہتی تھی۔۔اسے جینا چاہتی تھی۔ آج موسم خوشگوار تھا۔۔۔سردی پہلے جتنی شدید نہیں تھی لیکن ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔۔اسے باہر نکل کر جیسے جنت کا احساس ہوا۔ جیسے ہی اس نے اکیڈمی کو دیکھا اس کی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔۔۔وہ خود اس کی وہیل چیئر پکڑے اندر لایا تھا۔۔اسٹوڈنٹس اسے دیکھتے ہی اس کی جانب بھاگے تھے۔۔۔ اور ان سب سے مل کر ایمان کو اپنے اندر نئی زندگی دوڑتی محسوس ہوئی تھی۔ اسے اب یہ سب اپنا حصہ لگتا تھا اپنے وجود کا حصہ جسے اگر کاٹ کر اس سے الگ کردیا جاتا تو اس کے لیے سروائیو کرنا مشکل ہوجاتا۔۔۔ وہ کتنی دیر ان سے باتیں کرتی رہی۔
اور پھر وہ اپنے پسندیدہ درخت کے نیچے بیٹھ گئی۔۔۔ ان تین مہینوں میں کافی تبدیلیاں آئی تھیں۔۔اکیڈمی کی پوری عمارت سبز بیلوں سے ڈھکی تھی۔۔۔کھڑکیوں کے اطراف میں بیلیں لٹک رہی تھیں۔۔ اسے یہ نظارہ اچھا لگا۔ ٹھنڈی ہوا سے پتے پیڑ شاخوں سے جھوم رہے تھے۔گراؤنڈ میں اب کافی جگہ پر بیٹھنے کے لیے لکڑی کے بینچ نظر آرہے تھے۔ ان تین مہینوں میں کافی کام ہوا تھا۔
وہ خود ہیلر تھی پر اسے جو چیز ہیل کرتی تھی وہ نیچر تھی۔۔۔وہ آنکھیں بند کرکے اپنے اندر اس انرجی کو اتارتی رہی۔۔اسے لگا جیسے وہ تندرست ہورہی ہے۔۔۔جیسے زخم مندمل ہورہے ہوں۔۔
جیسے ہوا اس سے کہہ رہی ہو۔۔ ”اٹھو۔۔۔اب اٹھ بھی جاؤ۔۔۔“
اس نے آنکھیں کھولیں تو سامنے حاد کو دیکھا۔ اسے کافی پسند تھی اور شاید اسے یہ رنگ بھی بہت پسند تھا۔۔
وہ اس وقت سفید لوز پینٹ سفید ٹی شرٹ اور کافی رنگ کی جیکٹ پہنے ہوئے تھے۔ وہ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے تھے اس کے ارد گرد اسٹوڈنٹس تھے وہ دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے انہیں کچھ سمجھا رہا تھا۔۔۔ اس کے بال اڑ رہے تھے۔۔۔وہ اسے دیکھتی گئی۔۔۔اس شخص سے دو دن بعد اس کا نکاح تھا۔۔۔کتنا مکمل لگ رہا تھا وہ۔۔ اور وہ ابھی تک ٹھیک بھی نہیں ہوئی پھر بھی اس نے کتنے کھلے دل سے اسے قبول کیا تھا۔۔ آخر کیوں؟؟ یہ سوال تھا جو ابھی تک اسے چھبتا تھا۔ وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی شاید حاد کو بھی محسوس ہوچکا تھا اس نے چونک کر ایمان کو دیکھا جو فوراً گود میں رکھی کتاب کی طرف متوجہ ہوچکی تھی وہ مسکرایا اور پھر سے بولنا شروع کیا۔
وہ کچھ دیر پڑھتی رہی اور پھر اسے سکون محسوس ہوا تو کتاب واپس رکھ کر چیئر سے ٹیک لگائی اور آنکھیں موندھ لیں۔۔ وہ سونا چاہتی تھی۔ اور کچھ دیر بعد وہ واقعی غنودگی میں چلی گئی تھی۔
اس کا ذہن بھول بھلیوں میں بھٹکنے لگا تھا۔۔ تین دن پہلے۔یہ تین دن پہلے کی بات تھی جب اسے اس کی ڈرماٹولوجسٹ کی کال آئی تھی ڈاکٹر منحہ کی۔
”میں جانتی ہوں اب تم ایک ہیلر بن چکی ہو اور دیکھو آج ایک ڈاکٹر کو بھی تمہاری ضرورت ہے۔۔۔آج ایک ڈاکٹر تمہارے پاس آئی ہے اپنی الجھنیں لے کر۔۔۔“
وہ حیران تھی۔
”مجھے محبت ہوگئی ہے ایمان۔۔۔ اور وہ بھی ایسے شخص سے جو میری دسترس سے باہر ہے۔۔“
وہ اسے خاموشی سے سنتی گئی۔
”ایسا کیوں ہوتا ہے؟؟ ہم محبت سے بھاگنے والوں کو وہی شخص کو پسند آتا ہے جو قسمت میں نہ ہو۔۔؟؟“
وہ کافی بکھری بکھری لگ رہی تھی ورنہ ایمان نے اس کو ہمیشہ ہنستے مسکراتے دیکھا تھا وہ بہت خوبصورت تھی اور جب مسکراتی تھی مزید حسین لگتی تھی لیکن اس وقت وہ محبت کی لپیٹ میں تھی۔۔خودسر محبت جو ساری دیواریں توڑ کر اپنا آپ منوا لیتی ہے۔
”محبت ایسا جذبہ ہے جس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس کے ہونے پر اس کے نہ ہونے پر۔۔ کبھی کبھی ہم اپنی ساری قوتیں لگا کر بھی کسی ایک شخص کے لیے اپنے دل میں جگہ پیدا نہیں کر پاتے ہیں اور کبھی کبھی کوئی شخص نہ چاہنے کے باوجود بھی ساری کھڑکیاں دروازے توڑ کر ہمارے دل پر براجمان ہوجاتا ہے۔۔“
”تو ایسے میں کیا کرنا چاہیے۔۔۔“
”صبر۔۔۔ اللہ پر بھروسہ۔۔۔“
منحہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”جو تمہارا ہے وہ تمہارے پاس آکر رہے گا پھر چاہے تم یا وہ کتنے ہی نگر کیوں نہ بھٹک لو۔۔اور جو نہیں ہے وہ ریاضتوں سے بھی نہیں ملے گا۔۔“
”کبھی تمہیں محبت ہوئی ہے۔۔؟؟“ سوال ایسا تھا کہ ایمان مسکرادی۔
”اگر کسی کو دیکھ کر دیکھتے رہنے کو محبت کہتے ہیں تو پھر مجھے ہوئی ہے۔۔۔ اگر پابند ہوجانے کو محبت کہتے ہیں جو تمہیں کسی اور کا ہونے نہ دے۔۔۔پھر یقیناً مجھے ہوئی ہے۔۔“
”پھر تم نے کیا کیا؟؟“ وہ اب حیران نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”صبر کیا۔۔۔“
”پانے کی خواہش نہیں کی؟؟“
”کچھ محبتیں پالینے کی خواہش سے پرے ہوتی ہیں۔۔“
”تو کیا ملا صبر کرکے۔۔۔؟؟“ وہ جاننا چاہتی تھی کہ اس ہیلر کو اس کی محبت ملی یا نہیں۔۔۔؟؟
”پھر وہ محبت خود چل کر میرے پاس آئی اور گھٹنے ٹیک کر کہا کہ اسے میری ضرورت ہے۔۔۔“
منحہ نے اس کے چہرے پر عجیب سے رنگوں کو پھوٹتے دیکھا تھا۔۔۔اور سفید رنگ سب سے گہرا تھا۔
”کیا صبر معجزے لاتا ہے؟؟“
”توکل لاتا ہے۔۔۔“ وہ مسکرائی۔
”اللہ پر بھروسہ رکھو اور خود کو گرنے مت دو۔۔“
اور پھر منحہ نے محسوس کیا تھا کہ اللہ نے واقعی اسے ہیلر بنایا تھا وہ زخم بھرنا جانتی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”آپی۔۔۔۔آپی۔۔۔“ کوئی اسے بلا رہا تھا۔ ایمان نے آنکھیں کھولیں تو حمیزہ اس پر جھکی ہوئی تھی۔۔۔وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے سوگئی تھی۔
”کوئی آپ سے ملنے آیا ہے۔۔۔“ حمیزہ نے بتایا تو ایمان نے ہاتھ سے اپنی آنکھوں کو مسلا۔ اس سے جو بھی ملنے آیا تھا وہ اس کے پیچھے کھڑا تھا۔۔ حمیزہ نے اس کی چیئر پکڑ کر گھمائی اور جیسے ہی ایمان کی نظر سامنے کھڑے شخص پر پـڑی وہ حیران رہ گئی۔
”اد۔۔۔ادھم۔۔۔“
اور کچھ فاصلے پر کھڑے ادھم کے تاثرات بھی مختلف نہیں تھے۔ وہ منحہ کے کہنے پر یہاں آیا تھا اس کی خواہش تھی کہ وہ ایک بار ہیلر سے ضرور ملے۔
وہ اس کا دل نہیں دکھانا چاہتا تھا اس لیے آگیا۔۔ وہ ہسپتال گیا تھا لیکن وہاں سے اسے پتا چلا کہ وہ اب یہاں کام نہیں کرتی۔۔وہاں موجود ایمان کی ایک خیرخواہ نے اسے اکیڈمی کا پتا دیا تھا۔
اس اکیڈمی کا آنر حاد جبیل تھا۔۔اسے انٹرنیٹ سے پتا چلا تھا۔ اور اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ جس ہیلر کے بارے میں منحہ اسے بتاتی تھی وہ اور کوئی نہیں بلکہ ایمان ہی تھی۔
”ہائے۔۔۔“ وہ اسے دیکھ کر بولا۔۔ مسکرانا چاہتا تھا پر مسکرا نہیں پایا۔۔رونا چاہتا تھا رو نہیں پایا۔۔۔شاید تین سال ہونے والے تھے اس سے بات کیے۔۔۔اس سے دور ہوئے۔۔۔۔اسے دور کیے اور یہ تین سال اس نے کیسے گزارے تھے یہ صرف وہی جانتا تھا۔
ایمان خاموشی سے سے دیکھتی رہی۔ پچھلی بار وہ اسے پاگل خانے میں ملی تھی اور اس بار وہیل چیئر پر۔ پھر بھی وہ ہیلر کہلائی۔۔ آخر کیا تھا اس لڑکی میں۔۔؟؟ وہ آگے ہوتے لکڑی کے بینچ پر بیٹھ گیا تھا۔
”میں ادھم ہوں۔۔لوگ مجھے ماثیل کہتے ہیں ایک بت ساز، میں اپنے اسٹوڈیو گیا تھا میں نے اپنے مجسموں کو توڑنے کی کوشش کی لیکن میں توڑ نہیں پایا۔۔میں ان بتوں کو نہیں توڑ پایا۔۔۔“ وہ اب کسی غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے بتارہا تھا۔
”ہم میں سے ہر شخص ماثیل ہے، ہر شخص بت بناتا ہے اپنی توقعات کے، معیار کے، ترجیحات کے، اپنی پسند، من پسند اور ناپسند کے اور ان بتوں کو توڑنا خود کو توڑنے کے مترادف ہوتا ہے۔۔!“
وہ بھی اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔ ادھم نے چونک کر اسے دیکھا۔
”ان بتوں کو توڑنا لازمی ہے؟؟“
”اس سے پہلے کہ یہ ہمیں توڑ دیں۔۔انہیں توڑ دینا چاہیے۔۔“
”اور محبت؟؟ اس کا کیا؟؟ وہ بھی تو توڑ دیتی ہے ہمیں۔۔؟؟“ وہ اس کے چہرے پر نظرے جمائے بولا تھا۔۔ یہ وہ ایما نہیں تھی جسے وہ جانتا تھا۔۔ تین سالوں نے اسے بھی بدل دیا تھا۔
”محبت نہیں محبت میں بنائے جانے والے توقعات کے بت ہمیں توڑ ڈالتے ہیں۔۔“
”لیکن میں نے تو ایسی کوئی توقعات نہیں رکھی تھیں۔ پھر مجھے کیوں توڑا گیا۔۔۔؟؟“ وہ شکوہ کناں تھے اسے اپنے سارے جواب چاہئیں تھے۔
”کیا آپ کو یقین ہے کہ محبت نے توڑا تھا آپ کو؟؟“ ایمان نے اس بار اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا تھا۔ ادھم نظریں جھکا گیا۔۔۔ وہ سمجھ گیا تھا وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی۔
”میں آج بھی اس محبت کو دل سے نہیں نکال پایا ہوں۔۔“
”آپ نے کوشش نہیں کی ہوگی آپ نے اس درد سے نکلنا نہیں چاہا آپ نے لڑائی جاری رکھی۔۔ آپ نے لڑائی ختم کرنے کی کوشش کی ہوتی تو وہ محبت خودبخود آپ کو آزاد کر دیتی۔۔“
”میں بھٹک رہا ہوں۔۔۔“ وہ گہرے ضبط سے بولا تھا۔۔ گہری سرمئی آنکھوں میں ملال تھا۔ اسے ایمان کی یہ حالت دیکھ کر دکھ ہوا تھا اگر وہ اس دن اسے نہ جھٹکتا اس دن اس پر یقین کر لیتا تو شاید یہ سب نہ ہوتا۔۔۔اگر وہ اس کی ماں کو اس کے کردار کے بارے میں غلط باتیں نہ سناتا تو شاید کہانی الگ ہوتی۔۔ پر اس نے صبر نہیں کیا تھا۔۔ محبت میں تو صبر لازم ہے۔
”بھٹکنے سے بہتر ہے منزل ڈھونڈیں۔۔“
”کچھ لوگوں کو ان کی منزل آسانی سے مل جاتی ہے اور کچھ لوگ میرے جیسے ہوتے ہیں، بت ساز۔۔۔۔ اپنے بت سینے میں سجائے بھٹکتے رہتے ہیں، ہم لوگوں کی منزلیں اتنی آسان نہیں ہوتیں۔۔“
”ایسا ممکن ہی نہیں کہ آپ منزل کی نیت سے نکلیں اور وہ آپ کو نہ ملے۔۔“
اس کے پاس ادھم کی ہر بات کا جواب تھا۔۔ وہ اسے دیکھے گیا۔ اتنی ہمت نہیں تھی وہ اسے ایما کہہ کر پکارتا۔ آنکھیں جلنے لگی تھیں۔
”میں آج بھی اس کی خواہش کو دل سے نہیں نکال پایا ہوں۔۔آج بھی چاہتا ہوں وہ اپنی زندگی میں سے صرف ایک دن، ایک دن مجھے دے دے۔۔۔میں اس کے ساتھ گھومنا پھرنا چاہتا ہوں۔۔ میں اس کے ساتھ اپنی فیورٹ مووی دیکھنے جانا چاہتا ہوں ڈنر کرنا چاہتا ہوں، اور پھر رات کو میں اس سے اس کی رائٹنگ کے بارے میں سننا چاہتا ہوں اور جب وہ سوجائے تو بس اسے سوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ کیا یہ بہت زیادہ ہے۔۔۔“
ایمان نے سر جھکا لیا۔۔۔۔ وہ بھی ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہی تھی۔
”کچھ خواہشیں کبھی پوری نہیں ہوتیں تو انہیں دل سے نکال دینا بہتر ہے۔۔“
وہ کتنی ظالم تھی کتنی آسانی سے کہہ دیا تھا۔
”میں نے تم سے محبت کی ہے ایمان۔۔۔“
”جذبوں کی شدت کو لفظوں میں بیان کرنے کو محبت نہیں کہتے مسٹر ادھم جبیل۔۔۔ محبت وہ ہوتی ہے جو آپ کے اندھیروں میں آپ کے ساتھ ہو جب آپ کے خونی رشتے تک آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں۔۔۔ اور آپ میرے اندھیروں میں میرے ساتھ نہیں تھے۔“
وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی زخمی آنکھیں لیے۔ اس شخص نے اپنی ہی محبت کے کردار پر انگلی اٹھائی تھی تو وہ اسے کیسے مل جاتی؟؟
”سچ تو یہ ہے کہ آپ کو محبت نہیں محبت میں کی جانے والی بےوفائی بھٹکنے پر مجبور کرتی ہے۔ آپ کا ضمیر آپ کو محبت کی نہیں بےوفائی کی یاد دلاتا ہے۔۔“
”تو اس کی سزا کب ختم ہوگی۔۔۔؟؟“ وہ بےچینی سے بولا۔
”جب آپ کرنا چاہیں۔۔جب آپ سمجھ لیں کہ اس زندگی میں ہمیں سب کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔۔۔“
”میں تھک گیا ہوں۔۔“ وہ بےبسی سے بولا تھا۔ وہ کانوں کے گرد مفلر لپیٹے ہوئے تھا اور اس کے گھنے بال پیچھے کی جانب سیٹ تھے۔
”قدرت کے خلاف جائیں گے تو تھک جائیں گے۔۔۔“
”مجھے ایسا لگنے لگا ہے کہ قدرت مجھ سے بات کرنے لگی ہے۔۔“
اس بار چونکنے کی باری ایمان کی تھی۔ تیز ہوا کا جھونکا آیا اور پتے اڑنے لگے تھے۔ اس وقت ایمان کے دل کی حالت عجیب سی تھی۔
”میں وہ سماعت کہاں سے لاؤں جو اسے سن سکے۔۔۔؟؟“
”گوتم بدھ پسند تھا نا آپ کو؟؟ تو آپ اسی کی طرح سفر پر کیوں نہیں نکلتے ہیں؟؟ اس مقام پر جائیں جہاں آپ کو لگے آپ اسے سن پائیں گے۔۔محسوس کر پائیاں گے، کائنات آپ کے انتظار میں ہے۔“
وہ سرجھکائے سنتا رہا۔۔۔اور شاید وہ فیصلہ بھی کرچکا تھا کہ اب اسے کیا کرنا تھا۔
”کیا کبھی تمہیں ماثیل یاد نہیں آیا۔۔۔؟؟“
”وہ ماضی تھا۔۔۔اور جب پرندہ آزاد ہوجائے تو پیچھے بچی باقیات کے لیے واپس پنجرے میں نہیں جاتا۔۔۔“
خاموشی پھر سے چھاگئی۔۔ سائیں سائیں کرتی ہوا ان کے پاس سے گزر رہی تھی۔ اس نے حاد کو دیکھا وہ ہاتھ میں کافی کے دو کپ اٹھائے اب گیٹ کی جانب بڑھ رہا تھا اور پھر گیٹ سے کچھ فاصلے پر رکھے بینچ پر بیٹھ چکا تھا۔اس نے ایمان کو ہاتھ ہلا کر ہائے کیا۔ وہ ہولے سے مسکرادی۔
”ایک آخری بات پوچھوں۔۔۔؟؟“
اس نے سر اٹھایا۔
”جج۔۔۔ضرور۔۔۔“ وہ مسکرائی۔۔ اس کے انداز میں اعتماد تھا اور یہ حاد کو دیکھ کر ابھر آیا تھا۔
”کبھی تم نے مجھ سے محبت کی ہے؟؟ ایک پل کے لیے، سرف ایک پل کے لیے سہی۔۔کی ہے؟؟“
وہ کیا سننا چاہتا تھا ایمان جانتی تھی۔ پورا ماضی ایک پل میں ہی کسی فلم کی طرح اس کے سامنے گھوم گیا تھا۔
”محبت ایسے پیڑوں پر نہیں اترتی جس کی شاخوں پر خوف کا بسیرہ ہو۔۔۔“
وہ جب اس کے ساتھ تھی اسے ہمیشہ انجانا خوف گھیرے رکھتا تھا،اللہ کا خوف، اکرئیس بننے کا خوف، سیاہ ہوجانے کا خوف۔۔۔اور وہ شخص کبھی اس کا خوف دور نہیں کرپایا تھا۔۔۔ایسے میں محبت کیسے جنم لیتی۔۔۔؟؟
اس نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔
”مجھے اب جانا ہوگا۔۔۔“ اس نے کہا اور گیٹ کی جانب قدم بڑھائے۔
”مسٹر ماثیل۔۔۔“ اس نے کافی عرصے بعد اسے، ماثیل کو پکارہ تھا۔
”آپ اب میری دعاؤں میں شامل ہیں۔مجھے امید ہے اس بار آپ کو منزل مل جائے گی۔۔“
اور ادھم کا دل بےاختیار کرلایا تھا۔۔۔تو یہ وجہ تھی جو اسے قدرت خود سے باتیں کرتی محسوس ہوتی تھی۔
اس نے ایک نظر ایمان کو دیکھا۔۔اسکے چہرے پر سکون تھا اور ایک دھیمی مسکان۔۔۔
آج ادھم نے اعتراف کیا تھا کہ وہ لڑکی واقعی ہیلر تھی۔۔اس کا قدرت سے گہرا تعلق تھا۔۔۔ پھر وہ بھی مسکرا کر آگے بڑھ گیا۔۔اس کا رخ اب حاد کی جانب تھا جو اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا کافی پی رہا تھا اور پھر ادھم کو اپنی جانب آتے دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔
حاد جبیل۔۔۔ یہ اس کا وہ کزن تھا جس نے بچپن میں بہت کچھ سہا تھا۔۔ اسے یاد تھا جب اسے پاکستان لایا گیا تھا۔وہ اسے عجیب لگتا تھا۔ لیکن اس نے کبھی حاد میں دلچسپی نہیں لی۔
ادھم اس سے دو قدم کے فاصلے پر آکر کھڑا ہوگیا۔
”حاد جبیل۔۔۔وہ خاص لڑکا جس نے بہت کچھ سہا۔۔“
وہ اب اس کے سامنے کھڑا تھا۔ دونوں کا قد ایک جتنا تھا۔ دونوں کو اپنی الگ شخصیت تھی۔۔ ایک بت ساز تھا تو دوسرا بت شکن، مسٹر گرے۔۔وہ ماسٹرمائنڈ جس نے سب کی کہانیوں کو بدلا تھا۔
”سب کو سہنا پڑتا ہے۔۔“ وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔
”تو وہ تم تھے، تم تھے وہ جو خدا کے علاوہ میرے اور ایمان کے درمیان رہے، تم ہمیشہ سے تھے۔“ وہ حاد کے چہرے پر گہری نظریں جمائے کہہ رہا تھا۔ حاد ہولے سے مسکرایا۔
”برو یو آر دی بیسٹ ولن، تم میری کہانی کے سب سے بہترین ولن ہو۔۔“
”اور ولن دوسروں کے لیے اپنی محبت کو نہیں چھوڑا کرتے۔۔۔“ وہ اسی کے انداز میں بولا تھا۔
ادھم جبیل نے صرف اندھیرا دیکھا تھا اور حاد جبیل نے اندھیرا اجالا اور موت۔۔۔سب کو قریب سے دیکھا تھا۔
”تم صرف اس لیے جیتے کہ اس نے تمہیں چنا۔۔۔“
”اور تم صرف اس لیے ہارے کہ تم نے اسے اور اس کے خدا کو چھوڑ دیا۔۔۔“
وہ دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے۔ دونوں کے بال ہوا سے اڑرہے تھے۔۔۔دونوں کا موضوع ایک ہی تھا۔
”میں صرف اسے ایک بار چھونا چاہتا ہوں۔۔۔اسے محسوس کرنا چاہتا ہوں۔۔“ ادھم نے گہری سنجیدگی سے کہا۔ اور حاد دونوں کے درمیان موجود وہ دو قدم کا فاصلہ ختم کرتے اس کے قریب ہوا۔
"Touch her and I will destroy your whole Existence..."
وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا۔ ایک کی آنکھیں گہری سرمئی تھیں جو کبھی کبھی سیاہ کا شیڈ دیتی تھیں جبکہ دوسرے کی چمکتی گرے جو سامنے والے کو برف بنانے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔
چند لمحے خاموشی کے گزرے اور پھر ادھم ایک قدم پیچھے ہٹتے چہرہ نیچے جھکا کر ہنس دیا۔۔ وہ اب آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا اور شاید یہی سننا چاہتا تھا جو حاد نے کہا تھا۔
”یہ کافی میرے لیے ہے۔۔۔“ وہ اب بینچ پر بیٹھ گیا تھا اور کافی کا کپ اٹھائے منہ سے لگایا۔
”نائس۔۔۔“ وہ ہولے سے بولا جبکہ حاد بھی اس کے ساتھ بیٹھا۔
”ایک بات بتاؤ۔۔۔“ وہ دونوں اب ایمان کو دیکھ رہے تھے جو حمیزہ کے لائے ہوئے زرد پتوں کو اپنی شال سے صاف کرتی کتاب میں رکھ رہی تھی۔ وہ دونوں ایک ساتھ ہمیشہ خوش رہتی تھیں۔
”صرف وہی کیوں؟؟“
”کیونکہ وہ مجھے میری اوقات میں رکھتی ہے،وہ میرا ریمائنڈر ہے،اسے دیکھ کر مجھے یاد رہتا ہے کہ مجھے زمین پر رہنا ہے،مجھے شیطان نہیں بننا۔۔۔“
ایمان کے الفاظ آج بھی اسے پوری جزئیات سے یاد تھے۔
”ایسی دنیا صرف تم بنا سکتے ہو۔۔۔“ وہ اندر سے اکیڈمی دیکھ چکا تھا اور وہاں ہوتے سیشن بھی۔ وہ حاد سے متاثر ہوا تھا۔
”کب ہے شادی۔۔۔؟؟“ بالآخر اس نے پوچھ ہی لیا۔
”پرسوں۔۔۔“ حاد کے جواب پر ادھم نے اپنے دل کو ڈوبتے پایا تھا پر یہی سچ تھا اور جب انسان سچ کی جانب پہلا قدم بڑھاتا ہے تب بہت کچھ آسان ہوجاتا ہے۔
”لکی ہو۔۔۔“
”آفکورس۔۔۔“ وہ مسکرایا۔
”تم رکو گے نہیں۔۔؟؟“
”نہیں۔۔میرا سفر شروع ہوچکا ہے۔۔میں اب رک نہیں سکتا۔۔۔“ ادھم نے ہولے سے جواب دیا۔۔۔وہ کچھ دیر مزید بیٹھا رہا اور پھر جاتے ہوئے دونوں گلے ملے تھے۔۔وہ نہیں جانتے تھے دوبارہ مل پاتے یا نہیں۔۔۔ اور پھر ایمان نے ادھم کو گیٹ سے نکلتے دیکھا تھا۔ اسے رخصت کرکے وہ سیدھا ایمان کے پاس آیا تھا۔۔۔حمیزہ اٹھ کر چلی گئی تھی۔ وہ اس کے پاس آکر بینچ پر بیٹھ گیا۔
”اس کا سفر شروع ہوچکا ہے۔۔“
”جانتی ہوں۔۔۔جب کائنات آپ سے مخاطب ہونے لگے پھر آپ بچ نہیں سکتے۔“ وہ ہولے سے مسکرائی۔
”پریشان ہو کسی بات کو لے کر۔۔۔؟؟“ حاد نے پوچھا۔
”نن۔۔نہیں تو۔۔۔“ وہ اسے بتا نہیں پائی کہ ڈائکریٹر نے اسے ہسپتال سے نکال دیا تھا۔ اسے ہسپتال والوں نے چھوڑ دیا تھا۔ ہمیشہ سے سب اسے چھوڑتے آئے تھے۔۔ اپنانے والا تو صرف وہی آیا تھا۔
”گڈ پریشان ہونا بھی نہیں۔۔“
وہ بس اسے دیکھ کر مسکرائی۔پھر وہ اٹھ کر جیبوں میں ہاتھ ڈال کر اندر جانے لگا۔
”ایک بات پوچھوں۔۔۔؟؟“ اس نے پکارہ۔
حاد رکا اور پلٹ کر اسے دیکھا۔ ایمان نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔
”آپ مجھے چھوڑ تو نہیں دیں گے؟؟“ وہ اسے دیکھ رہی تھی۔ حاد نے اس کی بات سنی اور پھر کندھے اچکا کر واپس پلٹ گیا۔۔۔وہ اسے دیکھ رہی تھی دھڑکتے دل کے ساتھ۔۔۔وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے اس سے دور ہو رہا تھا بنا جواب دیے۔۔۔ایمان کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا۔۔ آنکھوں میں بےاختیار نمی ابھر آئی۔
وہ رکا۔۔پلٹا اور اسے دیکھا۔۔۔ بھورے رنگ کی جیکٹ میں چشمے لگائے وہ کتنا پیارا لگ رہا تھا۔
دونوں ہاتھ ابھی بھی پینٹ کی جیبوں میں تھے۔۔اس نے گردن کو تھوڑا سا بائیں جانب جھکایا اور جیسے ایمان کو فوکس کیا۔ تیز ہوا کا جھونکا آیا اور اس کے بال ماتھے پر آگرے۔
اور پھر اس نے ہولے سے اپنی گردن کو ناں میں ہلایا۔ وہ اسے کبھی نہیں چھوڑنے والا تھا۔
”کبھی نہیں۔۔۔“ وہ زور سے چلایا۔ اور ایمان نم آنکھوں سے ہنس دی تھی۔
✿••✿••✿••✿
دیکھو وعدہ کرکے بھول نہ جانا
عشق چنریا اوڑھ کے دل میں آنا۔
حمیزہ اسے آتے جاتے چھیڑ رہی تھی۔ سلمی بیگم نے خاص خاص لوگوں کو بلایا تھا اور ان کے اپارٹمنٹ میں جیسے رونق لگ گئی تھی۔ اس کے نکاح کا جوڑا آچکا تھا۔ Beige کلر کا یہ ڈریس اتنا خوبصورت تھا کہ وہ اسے دیکھے گئی۔ وہ بھاری بھرکم لہنگا نہیں پہن سکتی تھی اس لیے حانم نے اس کے لیے یہ ڈریس پسند کیا تھا۔۔ ساتھ سرخ رنگ کی بڑی سی شال تھی۔ ڈریس کی شرٹ کھلی اور لمبی تھی نیچے پلازو تھا جو کافی کھلا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہلکی جیولری تھی۔ شاید دونوں کی پسند ایک ہی تھی تبھی وہ اسے اتنا پسند آیا تھا۔
آج ایمان کا دن پہلے ہسپتال میں گزرا تھا اس کا پلستر اتر گیا تھا اور اس کی دونوں ہڈیاں ٹھیک سے جڑگئی تھیں۔۔ البتہ ابھی وہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئی تھیں ابھی شاید اسے مہینوں لگ جاتے دوبارہ دونوں پاؤں پر چلنے میں۔
”آپی عبدل آئے گا؟؟“ حمیزہ نے پوچھا تھا۔
”میں نہیں جانتی۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی تھی۔ کاش کہ وہ آجاتا۔۔ اس کی زندگی کا سب سے خاص دن تھا پر وہ نہیں تھا۔
”آپی آپ کو مہندی لگادوں۔۔؟؟“
”نہیں میں تھکی ہوئی ہوں مجھے سونا ہے۔۔“ اور وہ کافی دنوں بعد اتنے سکون کی نیند سوئی تھی۔
✿••✿••✿••✿
وہ دلہن بن کر اتنی پیاری لگی کہ اسے خود یقین نہ آیا۔ وہ سج دھج کی عادی نہیں تھی اور نہ اسے پسند تھا پر اس وقت ماتھے پر لگی بندی اسے چاند بنا رہی تھی۔
کلائیوں میں پہنے ہوئے کنگن اور ان کی چھن چھن۔۔۔وہ اپنے ہی جذبات نہیں سمجھ پارہی تھی۔ سلمی بیگم جنہیں وہ ڈریس اس کے رنگ کی وجہ سے خاص پسند نہیں آیا اب وہ بھی حیران تھیں۔ انہوں نے ایمان کی ڈھیروں بلائیں لے ڈالی تھیں۔
جبیل خاندان سے صرف گنتی کے لوگ تھے صرف گھر کے لوگ۔
وہ بار بار پانی پی رہی تھی جانے کیوں بار بار گلہ خشک ہورہا تھا۔
”آپی ریلیکس رہیں۔۔۔“ حمیزہ نے بالآخر بول ہی دیا تھا۔ ٹائم ہوگیا تھا اور وہ لوگ ابھی تک نہیں آئے تھے۔۔۔ نکاح عصر کے بعد تھا۔ اور عصر کا وقت ہونے والا تھا۔۔وہ لوگ ابھی بھی نہیں آئے تھے۔
”آج تو موسم بھی خراب ہے۔۔۔“ ایمان نے گلاس ونڈو پر بہتی بارش کی ہلکی ہلکی بوندوں کو دیکھا۔ کوئی بھی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ اس کا دل گھبرانے لگا۔ بالآخر اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ حاد کو میسج کیا اور میسج میں اس نے صرف سوالیہ نشان بھیجا تھا اور کچھ دیر بعد ہی ریپلائے آیا تھا۔
”آرہا ہوں۔۔۔ڈونٹ وری!“ اور اس نے فوراً فون رکھ دیا۔ اور پھر وہ لوگ آگئے تھے۔
منحہ اور دائمہ دونوں موجود تھیں۔ منحہ اور ایمان ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہوئی تھیں۔
”میں اب سمجھی کہ حاد بھیا شادی کے لیے کیسے مان گئے۔۔۔“ وہ بہت خوش تھی اور ایمان کو دیکھ کر اور خوش ہوگئی تھی۔
ایمان سفر نہیں کر سکتی تھی اور اسی لیے پورے جبیل خاندان کو حاد نے اسلام آباد بلا لیا تھا۔
”بھائی نماز پڑھنے گئے ہیں، آتے ہی نکاح ہوگا۔۔۔“
وہ چہک کر بتارہی تھی لیکن اس کی آنکھیں اداسیوں کا شکار تھیں۔۔ایسی ہی حالت دائمہ کی بھی تھی۔ اور حانم، ایمان اسے دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔۔۔وہ سر سے پاؤں تک سفید ساڑھی میں تھی۔۔ وہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی ایمان سمیت سلمی بیگم اور حمیزہ بھی اسے دیکھ رہی تھیں۔ یقیناً حاد جبیل کی ماں ایسی ہی ہو سکتی ہے۔ وہ ایمان کے پاس ہی بیٹھ گئیں۔
ارمان آنلائن تھا اور ایمان کی طرف سے وہی اس کا ولی تھا۔
اپارٹمنٹ کا لاؤنج کھلا اور بڑا تھا۔۔سب وہیں بیٹھے تھے۔ اس کا نکاح پہلے بھی ہوا تھا پر جو احساسات آج تھے وہ پہلے نہیں تھے۔ سنت کے مطابق جو نکاح کیا جاتا ہے اس کی تاثیر ہی الگ ہوتی ہے۔
درمیان میں سفید پردہ تھا۔۔۔حاد سید جبیل صاحب کا بازو تھام کر انہیں اندر لایا تھا۔۔
”برخوردار میں نے کبھی کسی چیز کے لیے اتنی تیاری نہیں کی۔۔“ وہ اسے کندھوں سے پکڑ کر بولے تھے۔
”جانتا تھا اسی لیے سوچا آپ کو کام پر لگادوں۔“ وہ مسکرایا۔
اور پھر خاموشی چھاگئی۔ سید جبیل دوسری جانب بیٹھے ایمان سے اس کی رضامندی پوچھ رہے تھے۔۔۔وہ اس کا نکاح سید عبدالحاد جبیل بن روحان حیدر جبیل سے پڑھانا چاہتے تھے اور جاننا چاہتے تھے اسے کوئی اعتراض تو نہیں۔۔۔؟
ایمان نے اپنے دل کی دھڑکن کو کانوں میں صاف سنا۔۔۔اس کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ تھی۔۔وہ اجازت دے رہی تھی۔
اسے حاد جبیل کے نکاح میں دیا جارہا تھا اور وہ ہربار قبول کر رہی تھی اسے سب دھندلا نظرآرہا تھا۔ آنکھوں میں آنسوں ابھر آئے تھے۔ وہ اپنے احساسات کبھی بیان نہ کرپاتی۔
سید جبیل صاحب اب حاد کی جانب متوجہ تھے۔۔ وہ اسے تمام تر دل اور روح کی گہرائیوں سے قبول کررہا تھا۔
دونوں نے سائن کیے تھے۔ ایک قاضی ساتھ تھا لیکن حاد کی خواہش پر نکاح پھر بھی سید جبیل بے پڑھایا تھا۔
اب سب کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے تھے۔ اور ایمان نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔ اور حاد۔۔۔ اس کی دعا تو سب سے لمبی چوڑی ہوگئی تھی۔۔۔ وہ جانے کیا کیا مانگتا رہا تھا۔
”بس کرو یار اب تو ہوگیا ہے نکاح۔۔“ حنیفہ بھائی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے جلدی سے مسکراتے ہوئے آنکھوں میں آئی نمی کو چھپایا۔ وہ اب پردے کے اس پار دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا جہاں ایمان بیٹھی رو رہی تھی اور حانم اسے چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھیں۔
"You are the Calmness of My Soul Emmany"
وہ اسے دیکھتے ہولے سے بڑبڑایا تھا۔
✿••✿••✿••✿
سعد ان سب کو لے کر ایک بہت بڑے اور اچھے ریستوران آیا تھا۔ حاد اور ایمان دلہا دلہن کے روپ میں وہاں نہیں آسکتے تھے۔۔۔حاد فی الحال ایمان کو سب کی نظروں میں نہیں لانا چاہتا تھا۔ وہ شیروانی گاڑی میں رکھ کر ان کے پاس آیا تھا۔ اس نے ایمان کا ہم رنگ ڈریس پہنا تھا اور ایمان نے پہلی بار اسے شلوار قمیص میں دیکھا تھا۔۔ اس کی نظریں اٹھنے سے انکاری تھیں۔
”یہاں سے آپ سب لوگ ہوٹل جائیں گے سب کے رومز بکڈ ہیں اور صبح اپنے اپنے گھروں کو۔۔۔ “ ولیمہ ابھی نہیں تھا۔
”تم ہمارے ساتھ نہیں جاؤ گے۔۔“ حمدان صاحب نے پوچھا۔
”نہیں۔۔ میں ایمانے کو اپنی دنیا میں لے کر جارہا ہوں۔۔“
”یعنی ہماری ضرورت ختم۔۔۔؟؟“ سید جبیل نے طنزیہ کہا۔ تو وہ مسکرادیا۔
”دیکھو بھئی نکاح ہوگیا کھانا آپ لوگ کھاچکے تو بس اتنا ہی ہوتا ہے۔۔“
”بابا جان اس کے بھی پر نکل آئے ہیں۔۔“ حنیفہ بھائی نے سید ضیا جبیل کو مخاطب کیا۔
”یہ پر پہلے سے ہی ہیں۔۔۔محترم نے ہمیں اب دکھائے ہیں۔۔“ وہ سب اسے آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔
سلمی بیگم اور حمیزہ ان سب سے مل کر بہت خوش ہوئے تھے۔باہر اب اندھیرا تھا اور ہلکی بارش بھی۔۔۔حانم گاڑی میں تھی اور اس کی گاڑی بالکل سادہ تھی۔ منحہ اس کے پاس تھی۔ اس نے سعد کو سب ہدایات کیں۔ حانم نے اس کی پیشانی کو چوما اور وہ ان سب کو خداحافظ کرتے باہر نکل آیا۔
”تھینک یو منحہ اب تم جا سکتی ہو۔۔“ اس نے جھکتے ہوئے منحہ سے کہا۔
”خالی ہاتھ نہیں جاؤں گی۔۔۔پہلے پیسے۔۔؟؟“ اس نے ہاتھ بڑھایا تو حاد نے اپنے والٹ سے اے ٹی ایم نکال کر اسے دے دیا۔ اور وہ خوش ہوتے گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر کی جانب بھاگی۔
وہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔ کف فولڈ تھے اور پھر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی۔
ایک بار پہلے بھی ایمان نے اسے گاڑی ڈرائیور کرتے دیکھا تھا۔۔اس کا اسٹریئنگ گھمانا ایسا تھا کہ وہ سالوں دیکھ سکتی تھی۔ اسے ایک سفید شخص کی خواہش تھی اور آج اللہ نے اسے سفید محافظ سے نواز دیا تھا۔ یہ سفر اس کی زندگی کا خوبصورت ترین سفر تھا۔۔۔خاموشی سے ونڈاسکرین پر بہتی بارش کی بوندوں کو دیکھ رہی تھی۔
”آر یو اوکے۔۔۔؟؟“ اسے خاموش بیٹھے دیکھ کر وہ خود ہی بولا۔
”ہا۔۔ہاں۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔“ اس نے گود سے ہاتھ اٹھائے اور کنگنوں کے ٹکرانے کا شور گاڑی میں گونج اٹھا۔ وہ ہولے سے مسکرایا۔
”بھوک لگی ہے۔۔۔؟؟“ حاد نے پوچھا۔
اور کوئی ایمانے سے پوچھتا کہ جب اللہ ایسے شخص سے نوازدے تو پھر کمبخت بھوک کا خیال کس کو آتا ہے؟؟ سارے وقت تو وہ دل ہی دل میں شکر ادا کرتی رہی تھی۔
”نہیں۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
بیس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد وہ لوگ اکیڈمی کے سامنے تھے۔۔گارڈز نے گیٹ کھولا اور وہ گاڑی اندر لے گیا۔ گیٹ دوبارہ بند ہوگیا۔۔۔حاد نے ایمان کی طرف دیکھا تو سیٹ سے پشت ٹکائے آنکھیں بند کیے لیٹی تھی یا سوگئی تھی وہ نہیں جانتا تھا۔۔ اس کی دواء بھی ایسی تھی جسے لینے کے بعد غنودگی طاری ہوجاتی تھی۔ اس نے پیچھے سے اپنی شیروانی اٹھائی اور پھر دروازہ کھول کر باہر نکلا بند کرنے پر ایمان کی آنکھ کھل گئی۔۔اور سامنے کا منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔۔گاڑی کی ہیڈ لائٹس میں سامنے پتھریلی روش پھولوں سے سجی تھی اور دونوں جانب لگے پودوں پر برقی قمقمے جگمگ کر رہے تھے۔ اس کے استقبال کے لیے وہاں صرف وہی تھا اور وہی کافی تھا۔
✿••✿••✿••✿
Episode 58 is now available , Click here
Mind-blowing
ReplyDeleteFantastic finally jis ka intzar tha wo episode ai ha Shukriya api
DeleteLovely🩵
ReplyDeleteHero to maseel hai or heroine imaany..phr haad ka nikah q hua imaany k sath...ye to ziadti ha bht😓😓
ReplyDeleteMaseel ka meaning hai butsaaz aur writer ne khani mei likha hai qissa butsazzon ka but tou hr insaan mei hote hai apni pasad k kahani mei bhi aisa hai hr insaan k ander un k apnay but hai unho ne use torna hai na k asal pathar ki murrat
DeleteMiss Jo maseel Hy wooo but saz Hy ussny kaha myn but tod ni skaaa...
DeleteOr next padhyn hmmm sbbb butt trashy hynnn apni ana ky or zid ky too Jo torhta Hy wooo had Hy jisssny sajda kia tha jbb Abdul ny mara tha usssy or idham akarh gya....
Wooo msg dyna chah rhi hynnnn apny andr ky but todo
Writer ny maseel ko hero bnaya prr end main story change kr di or had ka nikah emaany sy hogaya ...jb k RJ ka hanam sy nikah hua tha...and maseel b same RJ jesa character ha ...phr maseel ko ending main q aysy nazar andaz krdiya..
ReplyDeleteMaseel ka meaning hai butsaaz aur writer ne khani mei likha hai qissa butsazzon ka but tou hr insaan mei hote hai apni pasad k kahani mei bhi aisa hai hr insaan k ander un k apnay but hai unho ne use torna hai na k asal pathar ki murrat
DeleteAur hr insaan ko muhabbat nahi milti kuch k liye. Allah ne alag socha hota hai aur writer bhi wohi story repeat kare kaya
DeleteIdhem ne muhabbat ka dawa krne k baad cheat kiya tha RJ ne aisa nahi kiya aur
eman bhi tou haad sei muhabbat krti hai wo bhi saalon sei aur Allah sabr krne walon ko nawazta hai
Allah Allah
ReplyDeleteNo words to appreciate 🌸🫀
wow wow finaly haad ka nikah hogaya i am so happy ya epi bhoooooot achi rahi sab say special
ReplyDeleteI am so glad finally haad or Iman ka nikkah hua. Too much interesting episode or whole novel.
ReplyDeletebest ep i have ever read of this novel
ReplyDeleteMISS NOOR RAJPOOT YOU HAVE SUCH A MAGIC IN YOUR HANDS
Where is abdul?....
ReplyDeleteVo jb se haad ban kr gya tha tb se aya e nai bus gifts baijhy thy usny emany ko....plz we want abdul back....vo same RJ ki vibes deta tha....
Bulkul 💯🔥🫀
DeleteAbdul ka kya bana?? Wo to bata dein?? Novel end ho gya kya??
ReplyDeletewait for the next episode....
DeleteBuht mzy ki episode but I miss abdul
ReplyDeleteKtny din bad episode ati ha
ReplyDeleteNew episode has been uploaded
DeleteRj hanam ko chor kr chala gya tha abi tak wapis q nai aya
ReplyDeleteepisode kitny din bad ata h???
ReplyDelete2 ,3 din ma
Delete