Maseel (ماثیل) Episode 57 by Noor Rajput

 

Maseel Novel episode 57

مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) 

 قسط_نمبر_57

نور_راجپوت

                                  سفید محافظ 

”ایک خالی پن ہے جو جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔۔۔ایسا لگتا ہے جیسے وہ سب اپنے ساتھ لے گئی ہو۔۔۔“ اس حادثے کو ڈیڑھ مہینہ گزر گیا تھا۔۔ وہ ایمان کا پوری طرح سے خیال رکھ رہا تھا۔ سلمی بیگم کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ایمان کے کافی زخم بھر چکے تھے جبکہ اس کی ٹوٹی ہڈیاں اب ٹھیک ہونے کے سفر پر گامزن تھیں۔۔۔ 

 ”وہ یہاں ہوتی تو سب اچھا لگتا تھا۔۔“ وہ اکیڈمی میں اکیلا رہ گیا تھا۔۔۔اسٹوڈنٹس تھے ورکرز تھے کام ہوتا تھا سب ٹھیک چل رہا تھا پر وہ ٹھہر گیا تھا۔ ایمان کو کھو دینے کا خوف کیسا تھا وہ آج تک نہیں بھول پایا تھا۔ 

”میں نے کہا تھا میں انتظار کروں گی اس دن کا جب تم اپنی عرضی لے کر آؤ گے۔۔“ حانم کی بات سن کر وہ چونک سا گیا۔ 

 ”اسے یہاں لے آؤ۔۔ وہ جب بنی ہی اس کے لیے ہے تو اسے ہمیشہ کے لیے اپنی دنیا میں لے آؤ حاد۔۔۔“ وہ اب اسے دیکھتے کہہ رہی تھیں۔ 

”لیکن مجھے ڈر لگتا ہے میری وجہ سے اگر اسے کچھ ہوگیا تو۔۔۔؟؟“ 

 ”ہر ہیلر کو ایک پروٹیکٹر کی ضرورت ہوتی۔۔۔ اور تم سے بہتر پروٹیکٹر کون ہوسکتا ہے بھلا؟؟“ حانم نے کہا تو وہ کچھ بول نہیں پایا۔ 

 ”تمہارے پاس سوچنے کے لیے ایک دن کا وقت ہے۔۔۔میں تمہارے جواب کا انتظار کروں گی۔۔“ وہ جاچکی تھی اور حاد اکیلا رہ گیا تھا۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ اکیڈمی کی عمارت کے دوسرے فلور پر تھا۔۔۔ باہر گہرا اندھیرا تھا۔۔۔ 

وہ گراؤنڈ میں دیکھنے لگا۔۔ وہ آرہی تھی۔۔۔ سفید اوورکوٹ پہنے۔۔۔ اندھیرا چھٹنے لگا۔۔۔ چاروں جانب روشنی پھیل گئی۔۔۔وہ پتھریلی روش کے درمیان میں ہی رک گئی تھی اور اب پلٹ کر اس زرد پتوں والے درخت کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

وہ اب سفید شرٹ پہنے چھاتہ پکڑے اس کی جانب بڑھ رہا تھا اور پھر وہ اس کے قریب کھڑا ہوگیا۔۔ وہ دونوں اب ایک چھاتے کے نیچے تھے۔۔۔

گرے آنکھیں سیاہ آنکھوں سے ٹکرائیں اور فضا میں چاروں جانب محبت کا طلسم بکھر گیا۔۔۔

اور پھر چوبیس گھنٹے تو کیا اگلے دو گھنٹے بعد وہ انہیں دوبارہ کال ملا چکا تھا۔ 

 ”میں فیصلہ کر چکا ہوں۔۔۔مجھے اس کا پروٹیکٹر بننا ہے۔ ہاں میں اس سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔“ 

دوسری جانب موجود گرے آنکھوں والی حانم مسکرا دی تھی۔ 

                         ✿••✿••✿••✿

یہ ڈیڑھ مہینہ اس نے گھر میں کیسے گزارا تھا یہ صرف وہی جانتی تھی۔۔ اور جسمانی تکلیف نے اسے چڑچڑا کردیا تھا۔۔۔ارمان چھ مہینے پہلے ہی جرمنی اسکالرشپ ملنے پر ماسٹرز کرنے جاچکا تھا۔۔۔ وہ ان سے ویڈیو کال پر بات کرتا رہتا تھا۔۔ 

سلمی بیگم اب ایمان کو دیکھتی رہتی تھیں۔۔خاموشی سے پیار بھری نگاہوں سے۔۔۔ایمان کی تکیلف نے انہیں بہت کمزور کردیا تھا پر وہ ہمت نہیں ہاری تھیں۔۔ حاد ایمان کے ہر چیک اپ پر آتا تھا۔۔۔ڈاکٹر کو وہی لے کر آتا تھا اور اپنی پوری تسلی کے بعد ہی جاتا تھا۔ 

باقاعدگی سے اسے کال اور میسج کرتا تھا اس کی طبیعت کا روزانہ پوچھتا۔۔۔اور جب اسے محسوس ہوتا کہ وہ بےزار ہے تو وہ اسے کوئی ٹاپک بھیج دیتا جس پر وہ کچھ لکھ سکے۔۔ کبھی اس کے لیے کتابیں لے آتا۔۔۔وہ خاموشی سے سب کر رہا تھا پر دونوں میں جو سردپن اتر آیا تھا وہ ایمان کی وجہ سے تھا۔۔۔وہ اس سے فاصلے پر رہنا چاہتی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی وہ کسی اور کے حق پر ڈاکہ ڈالے۔۔۔

لیکن وہ جب اس کے لیے فکر کرتا تھا۔۔ کسی اہم نکتے پر ڈاکٹر سے پوری تفصیل لے رہا ہوتا تھا اور بےشمار سوال کرکے اپنی پوری تسلی کرتا تھا تب وہ چور نگاہوں سے اسے دیکھتی تھی اور سوچتی تھی وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟کس حق سے کس رشتے سے؟؟

وہ ہسپتال نہیں جاتی تھی نہ اکیڈمی نہ یونیورسٹی۔۔۔وہ بس گھر میں قید تھی۔۔۔جسمانی گھاؤ بھرنے میں ہی مہینوں لگ جاتے ہیں یہ ایمان کو اب احساس ہوا تھا۔ 

اور اس دن وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھی تھیں۔۔ وہ اب وہیل چیئر پر بیٹھ جاتی تھی۔۔پاؤں سے زیادہ کندھے کی تکلیف اسے پریشان کرتی تھی اور کبھی کبھی درد اتنا بڑھ جاتا کہ وہ رونے لگتی۔۔۔لیکن پھر چپ کر جاتی۔۔۔سلمی بیگم نے کبھی اس کے منہ سے یہ نہیں سنا کہ ”میرے ساتھ ہی یہ سب کیوں؟؟“ اس نے کبھی اللہ سے یہ شکوہ نہیں کیا تھا۔۔

اور پھر جو لوگ صبر کرتے ہیں، شکر کرتے ہیں اور آزمائشوں پر پورا اترتے ہیں ان کے لیے انعام کا وعدہ کیا گیا ہے۔۔اور اب اس انعام کا وقت ہوا جاتا تھا۔۔۔۔ 

حاد نے سلمی بیگم کو فون کیا۔ 

”آنٹی میری مام آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔۔۔“ اس نے سلام دعا کے بعد سلمی بیگم کی بات حانم سے کروائی تھی۔

”کیا میں آپ سے کچھ مانگوں تو آپ دیں گی؟؟ انکار تو نہیں کریں گی۔۔؟؟“ سلمی بیگم الجھ گئی تھیں۔۔ حاد جبیل نے جو کچھ کیا تھا اور کر رہا تھا اس کے بدلے وہ سلمی بیگم سے ان کی جان بھی مانگ لیتی تو انکار نہ کرتیں۔ 

”میں بھلا انکار کیوں کروں گی؟“ 

”کیونکہ میں جو مانگنے جارہی ہوں وہ بہت خاص ہے۔۔“ سلمی بیگم نے نےساختہ چاروں جانب دیکھا۔۔۔یہ اپارٹمنٹ بھی ان کا اپنا نہیں تھا۔۔۔پھر قیمتی کیا تھا ان کے پاس؟؟ 

”میں آپ سے ایمان کو مانگتی ہوں۔۔۔ہماری ایمانے جو سالوں پہلے آپ کو سونپ دی تھی۔۔۔آج ہمیں واپس چاہیے۔۔۔اشد ضرورت ہے۔۔۔۔ہماری ایمانے ہمیں دے دیں۔۔۔میں اسے اپنے حاد کے لیے مانگتی ہوں۔۔۔“ الفاظ ایسے تھے کہ سلمی بیگم ساکت رہ گئیں۔۔۔ ان کی نگاہیں ایمان پر جا ٹکی تھیں۔۔ وہ حمیزہ کی کسی بات پر ہنسنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن کندھے میں ہونے والے درد کے باعث وہ ہنس نہیں پارہی تھی اور اسے یوں عجیب و غریب منہ بناتے دیکھ کر حمیزہ کا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔

خاموشی کا وقفہ لمبا ہوگیا۔ 

 ”میری کوئی بیٹی نہیں ہے۔۔۔اور وہ مجھے سالوں سے بیٹیوں کی طرح عزیز ہے۔۔“ 

”لیکن۔۔۔“ سلمی بیگم نے کچھ کہنا چاہا۔ 

”آپ سوچ لیں۔۔۔ جتنا چاہیں وقت لے لیں پر انکار مت کیجیے گا۔۔۔“ 

 ”میں ایمان سے پوچھے بنا فیصلہ نہیں کرنا چاہتی۔۔۔میری طرف سے ہاں ہے باقی جو ایمان چاہے۔۔“ اور سلمی بیگم کو اپنے دل سے بڑا بوجھ اترتا محسوس ہوا تھا کیونکہ اس بار انہوں نے ایمان کو اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا پورا حق دے دیا تھا۔ 

                         ✿••✿••✿••✿

وہ لوکل بس میں بیٹھا تھا سیٹ سے پشت ٹکائے آنکھیں موندھے۔۔ 

”وہ اچھا لڑکا ہے لیکن یہ مت بھولو وہ ڈرگز لیتا ہے۔۔ جبیل خاندان کو اس کی وجہ سے جس بدنامی کا سامنا کرنا پڑا تم اس سے واقف نہیں ہو۔۔“ 

اس دن منحہ اسے ریستوران سے سیدھا اپنے گھر لے گئی تھی۔ ماہم اسے دیکھ کر خوش ہوئی تھی۔۔اسے بھی اپنے رشتےداروں سے مل کر اتنا برا نہیں لگا تھا۔۔رات میں وہ لوگ حمدان صاحب کے گھر گئے تھے وہ سالوں بعد اپنے نانا سے ملا تھا۔۔سب اس سے اچھے سے مل رہے تھے۔۔۔رات کو وہ لوگ وہی ٹھہر گئے۔۔ اگلی صبح وہ ذرا لیٹ اٹھا تھا۔ وہ نیچے آیا تو اسے کوئی ملازم دکھائی نہیں دیا۔۔اسے چائے کی طلب ہورہی تھی وہ خودہی کچن کی جانب بڑھا جب اندر سے آتی آوازوں پر اس کے قدم رکے۔ 

”ماما میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔۔“ یہ منحہ تھی۔ماہم آسیہ بیگم کے ساتھ مل کر ناشتے کی تیاری کر رہی تھی۔ آج منحہ کی بھی چھٹی تھی۔ 

”آپ کو ادھم کیسا لگا؟؟“ اس کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی وہ جو بات کرنے جارہی تھی اس کی ماں اور نانی ماں اس پر کیسا ری ایکٹ کرنے والی تھیں۔ 

”اچھا ہے۔۔“ 

”بس اچھا۔۔۔؟؟“ وہ مایوس ہوئی۔ 

”تم کیا کہنا چاہتی ہو وہ کہو نا۔۔“ ماہم نے آملیٹ بناتے اسے ٹوکا۔۔۔وہ صبح صبح دماغ کھانے آگئی تھی۔ 

”میری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔۔۔بچپن سے لے کر آج تک میں نے آپ سے کچھ نہیں چھپایا۔۔“ وہ تمہید باندھ رہی تھی۔ ماہم نے ایک گہری نظروں سے اسے دیکھا۔ 

”میں عشق محبت پر یقین کرنے والی لڑکی نہیں ہوں لیکن میرا دل کسی کے لیے دھڑکنا شروع ہوگیا ہے۔۔“ 

اس کے چہرے کے سارا خون جیسے نچڑ کر چہرے پر آگیا تھا۔۔چہرہ لال ٹماٹر بن گیا تھا۔۔اس کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں۔ ماہم اور آسیہ دونوں حیران ہوئیں۔ 

 ”مجھے ادھم اچھا لگتا ہے مجھے لگتا ہے میں اس سے محبت۔۔۔“ 

 ”سوچنا بھی مت۔۔۔“ ماہم کی سرد سی آواز پر وہ تو حیران ہی رہ گئی۔۔۔اسے یقین نہ آیا۔ 

 ”ادھم کا سوچنا بھی مت۔۔“ اس نے منحہ کی پوری بات نہیں سنی تھی۔ 

”لیکن ماما۔۔۔“ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔

 ”ڈرگز لیتا ہے وہ۔۔۔تم ایک ڈاکٹر ہو کیا تم اپنے لیے ایک نشئی کو چننا چاہتی ہو؟؟“ 

 ”ماما وہ ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔“ منحہ صدمے کی سی حالت میں بولی۔۔اسے اندازہ نہیں تھا اس کی ماں اتنا شدید ردعمل دے گی۔ 

”میں تمہیں اس ادھم سے محبت کی اجازت نہیں دیتی۔باقی تمہارے جو دل میں آئے وہ کرو۔۔۔“ 

وہ بےیقینی سے اپنی ماں کو دیکھتی رہی۔۔۔اس کی آنکھوں میں آنسوں تھے۔۔۔ 

”کیا محبت اجازت لے کر کی جاتی ہے۔۔۔؟؟“ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی پر نازک لب پھڑپھڑا کر رہ گئے۔۔۔وہ تو اس محبت کو کسی رشتے میں باندھنا چاہتی تھی پر نہیں جانتی تھی کہ اسے یہ اجازت نہیں تھی۔ 

اور کچن کے باہر کھڑا ادھم جبیل الٹے قدموں پلٹ گیا۔ 

پھر سے اسے ریجیکٹ کردیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ مشرقی لوگ، مشرقی ماں باپ۔۔۔ اچھے بھلے شاندار شخص کو ریجیکٹ کردیتے ہیں اگر وہ انکے معیار پر پورا نہ اترے۔۔۔

وہ بنا بتائے گھر سے نکل آیا۔۔۔ اس نے کچھ کھایا پیا نہیں تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ منحہ مزید اس کا سامنا کرے اور وہ ان لوگوں کا سامنا کیسے کرتا جو اس کے اپنے تھے لیکن اسے اس قابل نہیں سمجھتے تھے۔۔ اسے منحہ میں دلچسپی نہیں تھی لیکن اس کا دل دکھا تھا۔۔۔

”آہ۔۔بےوفاؤں کا لاہور۔۔۔“ وہ لوکل بس میں سوار تھا اور کھڑکی سے نظر آتے لاہور کو دیکھ رہا تھا۔۔ آج اس کا دل ریڈ لائٹ ایریا جانے کا کر رہا تھا۔۔۔اسے وہاں درد بھرے لوگ ملتے تھے۔۔۔درد بھری کہانیاں۔۔۔ادھورے لوگ۔۔۔بالکل اپنے جیسے اور اس کا دل تھا آج وہ کوئی درد بھری داستان سنے اور روپڑے۔۔۔اسے لگتا تھا پوری دنیا میں اب اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔۔۔۔وہ سوچ رہا تھا کہ وہ ادھم جبیل، ماثیل دی بت ساز اگر ایسے ہی مرجاتا تو کہاں جاتا؟؟ اس کی ساری اچھائیاں؟؟ ان کا کیا صلہ ملتا؟؟ 

 اور پھر اچانک ایک لڑکا آکر اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔اس نے ہینڈ فری لگائی تھی اور وہ فون میں کچھ دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ بےساختہ ہی موبائل کی اسکرین کو دیکھنے لگا۔۔۔وہ چونک گیا جب اس نے حاد کو اسکرین پر دیکھا۔ 

 ”یہ کیا کہہ رہا ہے؟؟“ اس نے لڑکے کو ہینڈ فری اتارنے کا کہا۔ 

 ”اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے پھر کافر ہی مرجائے تو ان لوگوں  کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں  برباد ہوگئے اور وہ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں  گے۔ ‘‘(بقرہ:۲۱۷)

اور اسے چلتی بس میں اپنے جسم کے پرخچے سے اڑتے محسوس ہوئے تھے۔۔۔ایسا نہیں تھا اس نے پہلے کبھی یہ آیتیں سنی نہیں تھیں لیکن اس پل اسے لگا تھا جیسے اسے ہی سنایا گیا تھا۔۔۔ اسے بتایا گیا تھا۔۔۔۔اسے وارن کیا گیا تھا۔ 

                         ✿••✿••✿••✿

”امی مجھے ایک گلاس پانی چاہیے۔۔۔“ وہ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی لیپ ٹاپ سامنے رکھے کچھ لکھنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ذہن کہیں اور الجھا تھا۔۔وہ کچھ لکھ نہیں پارہی تھی۔ سلمی بیگم نے پانی کا گلاس اسے لاکر پکڑایا اور پھر اس کے سامنے ہی بیٹھ گئیں۔۔ انہوں نے ابھی تک ایمان سے رشتے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی۔ 

ایمان نے دو گھونٹ بھرے اور ایک نظر لیپ ٹاپ کو دیکھا اور دوبارہ پانی پینے لگی۔ 

”وہ۔۔حاد کی ماں نے تمہارا رشتہ مانگا ہے۔۔۔“ اور پانی پیتی ایمان کو نےاختیار اچھو لگا وہ بےطرح کھانسنے لگی۔ سلمی بیگم تیزی سے اٹھ کر اس کی جانب بڑھیں۔ 

 ”دھیان سے۔۔۔“ وہ اس سے گلاس پکڑ چکی تھیں جبکہ ایمان اپنا کندھا تھامے درد سے کراہنے لگی تھی۔۔۔ اچانک اسے جو جھٹکا لگا تھا اس کی وجہ سے اس کے کندھے میں درد کی شدید لہر اٹھی تھی اور درد اتنا تھا کہ تکلیف سے اس کی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔۔ سلمی بیگم کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا۔۔ انہوں نے جھکتے ہوئے ایمان کو اپنے گلے لگایا۔ جبکہ ایمان ان کی بات میں الجھ گئی تھی۔۔

کچھ دیر بعد جب وہ تھوڑی ریلیکس ہوئی تو اس نے صوفے سے ٹیک لگا دی۔ اب وہ آنکھیں موندھے لیٹی تھی۔دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔ 

”میں نے انہیں کہا ہے کہ تم سے پوچھ کر جواب دوں گی۔“ 

 ”امی آپ انہیں منع کردیں۔۔۔“ وہ ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہی تھی۔۔سلمی بیگم کو اس کے جواب سے حیرت ہوئی۔ 

 ”لیکن۔۔۔“ وہ کچھ کہنا چاہتی تھیں۔ 

”پلیز امی۔۔۔“ سلمی بیگم نے اس کی ذہنی کیفیت سمجھتے ہوئے مزید کچھ نہیں کہا جبکہ وہ آنکھیں بندھ کیے اس ظالم شخص سے شکوہ کر رہی تھی جو ایسا سوچ بھی کیسے سکتا تھا؟؟ آخر کیوں۔۔؟؟ 

                          ✿••✿••✿••✿

 ”مسٹر حاد جبیل کیا انہوں نے آپ کو ریجیکٹ کردیا ہے؟؟“ وہ تو خود ساکت تھا۔ وہ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ اس کے دل کو کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا۔ 

تو کیا اس نے ابھی تک معاف نہیں کیا؟؟ اس نے معافی مانگی ہی کب تھی۔۔۔ پر کیوں؟؟ اس نے کیسے انکار کردیا؟؟ کیوں ریجیکٹ کردیا؟؟؟

وہ بےاختیار اٹھ کر ٹہلنے لگا تھا۔ 

”کیا وجہ ہو سکتی ہے؟؟“ پہلے انتظار میں جان سولی پر اٹکی اور اب جیسے جواب سن کر دم نکلتا محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔ جب اس سے مزید برداشت نہ ہوا تو فوراً اس کا نمبر ملایا۔ 

بیل جارہی تھی لیکن وہ فون نہیں اٹھارہی تھی۔ 

 ”پلیز ایمانے۔۔۔۔“ اسے اپنے ہونٹ خشک ہوتے محسوس ہوئے۔ اور پھر فون اٹھا لیا گیا۔ 

 ”السلام علیکم“ اس کی نقاہت بھری آواز ابھری تھی اور حاد کے تپتے جلتے وجود کو سکون مل گیا تھا۔ 

 ”وعلیکم السلام۔۔ کیسی ہیں آپ؟؟“ وہ بیٹھ گیا تھا تاکہ تسلی سے بات کر سکے۔ 

”میں ٹھیک ہوں آپ بتائیں۔۔۔“ وہ نارمل لہجے میں بات کر رہی تھی۔۔ حاد نے حلق میں اگتے کانٹوں کو بجھانے کے لیے میز پر رکھا پانی کا گلاس اٹھا کر پیا اور پھر واپس رکھ کر ڈھک دیا۔ 

 ”میں ٹھیک نہیں ہوں۔۔۔“ وہ خود کی اضطراری کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔ 

 ”کیوں کیا ہوا ہے آپ کو؟؟ خیریت ہے؟؟؟“

وہ ایسے کیسے نارمل ہو کر بات کر سکتی تھی؟؟ اسے  انکار کرکے۔۔ بھلا کیسے؟؟ 

 ”میں آپ کے انکار کی وجہ جان سکتا ہوں۔۔۔“ وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ بیٹھ کر بھی سکون نہیں آیا تھا۔ دوسری جانب خاموشی چھاگئی۔۔وہ جیسے بولنے کو پرتول رہی تھی۔ 

“ایمان۔۔۔۔“ اس نے پکارہ تھا۔۔اسے اس وقت خاموشی بری لگ رہی تھی۔ 

 ”مسٹر جبیل آپ کو رشتہ بھیجنے سے پہلے مجھ سے پوچھ لینا چاہیے تھا۔۔۔“ وہ لہجے کو حددرجہ سخت بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ 

 ”اگر پہلے آپ سے بات کرتا تو آپ کو لگتا میں فلرٹ کر رہا ہوں۔۔۔“

دوسری جانب خاموشی چھاگئی۔

”تو پھر اب کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔؟؟ جیسے آپ نے یہ سوال مجھ تک پہنچایا ویسے ہی آپ تک جواب پہنچ جائے گا۔۔“ 

”پہنچ چکا ہے۔۔۔میں وجہ جاننا چاہتا ہوں۔۔کیا آپ مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھتی ہیں۔۔؟؟“ 

”کوئی ایک وجہ بتائیں مجھے کہ میں آپ کو ہاں کروں۔۔؟؟“ 

وہ کچھ بولتے بولتے خاموش ہوگیا کہہ ہی نہیں پایا کہ اس کے سالوں کی ریاضت کا اتنا سا صلہ تو بنتا ہے نا۔۔۔

”بتائیں۔۔۔“ وہ پھر سے بولی۔ 

”کیا آپ نے مجھے معاف نہیں کیا۔۔؟؟“ الٹا سوال آیا تھا اور ایمان کا دل ڈوب کر ابھرا۔ 

”ماضی میں کیا ہوا مجھے اس میں دلچسپی نہیں ہے پر میں کسی اور کی محبت کو نہیں چھین سکتی۔۔۔ دائمہ آپ کی فیانسی ہے پھر آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟؟ کیا آپ کا دو شادیوں کا ارادہ ہے۔۔؟؟“ اور حاد نے بےاختیار اپنا ماتھا پیٹا۔ 

وہ یہاں تک کیسے سوچ سکتی تھی۔ 

”دائمہ میری فنانسی نہیں ہے۔۔۔وہ قابل احترام کزن ہے اور۔۔۔“ وہ بات ادھوری چھوڑ گیا۔ 

”اور۔۔۔؟؟“ 

لیکن وہ خاموش رہا۔ 

”وہ اتنی بڑی بات کیوں کرے گی؟؟ اس کی آنکھوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے وہ آپ سے محبت کرتی ہے اور مجھ میں کسی کی محبت چھیننے کا حوصلہ نہیں ہے۔۔“

حاد کا دل کیا وہ اس سے پوچھے کہ میری آنکھوں میں تمہیں کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔؟؟؟ لیکن وہ ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔ 

”بچپن میں اس کا رشتہ عبدل سے طے ہوا تھا۔۔وہ مجھے عبدل سمجھتی رہی ہے۔۔“ 

”عبدل۔۔۔“ وہ زیرلب بڑبڑائی۔ 

وہ بھی تو اسے سالوں تک عبدل کے نام سے ہی پہنچانتی رہی تھی۔ وہ خاموش رہی تو دوسری طرف سے حاد نے فون بند کردیا۔۔۔وہ خالی خالی نگاہوں سے فون کو دیکھتی رہ گئی۔ 

                             ✿••✿••✿••✿

وہ بنا بتائے چلا گیا تھا اور اب اس کا فون بھی نہیں اٹھا ریا تھا اور نہ کسی میسج کا جواب دیتا تھا۔۔ منحہ کو کل سے بخار تھا وہ آج ہسپتال بھی نہیں گئی تھی۔ دل کی تکلیف جب حد سے بڑھ جائے تو انسان جسمانی طور پر بیمار پڑ جاتا ہے۔۔۔ اور وہ تو کئی دنوں سے اپنے دل و دماغ میں ہونے والی جنگ سے اکیلے لڑ رہی تھی۔ 

اس نے سرخ پڑتی آنکھوں سے ایک بار پھر ادھم کا نمبر ملایا۔ اور وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی جب دوسری طرف سے فون اٹھا لیا گیا۔ 

”ہیلو۔۔۔“ ادھم کی آواز ابھری تھی اور منحہ نے امڈ آنے والے آنسوؤں کو ہتھیلی سے رگڑا تھا۔۔ اس کے گلے میں آنسوؤں کا گولا اٹکا تھا وہ کیسے بولتی؟؟ 

 ”منحہ۔۔۔؟؟“ اس کی خاموشی کو محسوس کر گیا تھا۔اور منحہ کو اپنا نام زندگی میں پہلی بار اتنا خوبصورت لگا تھا۔ وہ ایک بار اور ایسے پکارتا تو وہ اڑ کر چلی جاتی۔ 

”آر یو اوکے۔۔۔؟؟“ 

اور وہ بے اختیار رو دی تھی۔۔اس کی سسکیاں ادھم کو سنائی دے رہی تھیں۔ اس نےمنحہ کو روکا نہیں۔۔۔رونے دیا۔۔ جی بھر کر تاکہ اس کا دل ہلکا ہوجائے۔اور جب وہ خوب آنسوں بہا چکی تو بولی۔ 

”کیا میری ذات اتنی ارزاں ہے کہ آپ مجھے یوں نظرانداز کریں۔۔؟؟“ وہ شکوہ کناں تھی۔۔ وہ پھیکا سا ہنس دیا۔۔ اسے اس پل منحہ اپنے جیسے لگی تھی۔ کہانی جیسے خود کو دہرانے لگی تھی وہ ایمان کی جگہ تھا اور منحہ اس کی۔ 

”نہیں۔۔تم تو بہت اسپشل ہو۔۔۔“ وہ اب اسے بہلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ 

 ”کوئی ایسے بنا بتائے تھوڑی جاتا ہے۔۔۔؟؟“ 

”مجھے لگا میں وہاں مس فٹ ہوں۔ میں تو ویسے اس دنیا میں ہی مس فٹ ہوں۔۔بس اسی لیے آگیا۔۔“ 

 ”مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔۔“ وہ اب کافی ریلیکس تھی۔ 

 ”کچھ بھی ایسا مت کہنا جو مجھے میری نظروں میں گرادے۔۔۔ کیونکہ میں اس قابل نہیں۔۔“ 

منحہ کا دل پھر سے بھر آیا تھا۔ 

”یہ سب اکیلے سہنا بہت مشکل ہے۔۔“ وہ اذیت سے چور لہجے میں بولی تھی۔ 

 ”جانتا ہوں۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پایا۔ اکیلے ہی تو سہہ رہا تھا وہ۔

 ”کیا مجھے تھوڑی سی جگہ مل سکتی ہے آپ کے دل میں۔۔۔؟؟“ وہ جیسے اپنی پسندیدہ چیز کے لیے منت کر رہی ہو۔۔ منحہ حارث جس نے کبھی کوئی کمی نہیں دیکھی تھی وہ اس کے دل میں تھوڑی سی جگہ مانگ رہی تھی۔ 

ادھم کو اس پل وہ معصوم لگی۔۔۔ بچوں جیسی معصوم۔۔۔

 ”لیکن میری تمہاری دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔۔۔ تمہیں اس حقیقت کو قبول کرنا چاہیے۔۔“ 

اور وہ پچھلے کئی دنوں سے اسی حقیقت سے لڑ رہی تھی۔ یہ معاشرہ ادھم جبیل کو قبول نہیں کرتا تھا۔۔۔اس میں اس جیسے لوگوں کی کوئی جگہ نہیں تھی اور وہ۔۔۔۔ وہ اپنے پیرنٹس کا اس معاشرے کے سامنے سر جھکتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔ وہ مزید کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔۔اس نے فون بند کردیا اور پھر بیڈ پر گر گئی۔ 

                               ✿••✿••✿••✿

وہ سونا چاہتی تھی پر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ جب سے حاد نے پرپوزل بھیجا تھا وہ ایک بھی رات سکون سے نہیں سوپائی تھی۔۔۔۔ کبھی اس کی آنکھیں جاگتے میں خواب دیکھنے لگتیں تو کبھی وہ ان خوابوں کو نوچ کر پھینک دیتی۔۔۔ اس کی آنکھیں جل اٹھی تھیں۔ حاد نے دوبار اس سے سلسلے میں بات نہیں کی تھی۔۔۔ وہ جانے کیا کچھ سوچتی رہتی کہ اچانک فون بج اٹھا۔ انجان نمبر تھا۔ 

”ہیلو۔۔۔؟؟“ وہ فون اٹھاتے بولی۔ 

”دائمہ بات کر رہی ہوں۔ کیسی ہیں آپ؟؟“ 

”الحمداللہ پہلے سے بہتر ہوں آپ بتائیں۔۔۔“

”مجھے آپ سے معذرت کرنی تھی۔ اس دن میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں حاد کی فیانسی ہوں۔۔ یہ سچ نہیں ہے۔۔“ 

محبت کو آزاد کردینا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ 

”میری وجہ سے کبھی کوئی غلط فیصلہ مت کیجیے گا۔ حاد جیسا شخص ریاضتوں کے بعد بھی نہیں ملا کرتا اور اللہ اسے آپ کو دے رہا ہے۔۔۔قبول کرلیں پلیز۔۔۔“ 

ایمان ساکت رہ گئی تھی۔۔۔دل جیسے دھڑکنے سے انکاری تھا۔ 

 ”یکطرفہ محبتیں اذیتوں کے سواء کچھ نہیں دیتیں میں یہ جان چکی ہوں۔۔۔اور میں نے اس شخص کو اسی دن اپنی محبت سے آزاد کردیا تھا جب آپ کو ہسپتال میں دیکھا تھا۔۔“ 

وہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھی اور پھر فون بند ہوگیا۔۔۔وہ سائیں سائیں کرتی خاموشی میں اکیلی رہ گئی تھی۔ 

                           ✿••✿••✿••✿

وہ جانے کتنی دیر پیدل چلتا رہا تھا اور پھر جب اسے حویلی کا گیٹ نظر آیا تو اس کی ہمت بندھی۔۔ وہ تھکا ہوا تھا۔۔ٹوٹا ہوا۔۔۔ گیٹ پر موجود ملازم اسے پہچانتے فوراً اس کی جانب بھاگے  لیکن اس نے ہاتھ سے ہی دور رہنے کا اشارہ کردیا تھا۔۔ وہ حویلی میں داخل ہوا۔۔ اور پھر چلتے ہوئے حویلی کے پچھلے حصے میں چلا گیا۔۔ آج دھوپ نکلی ہوئی تھی اور موسم سرما کی یہ نرم گرم سی دھوپ راحت بخش تھی۔

پچھلے حصے میں بڑا سا صحن تھا جہاں گاؤں کی عورتیں ماہین کے پاس اپنے مسائل لے کر آتی تھیں۔

بی جان کی وفات کے بعد یہ زمہداری اس نے سنبھال لی تھی۔گاؤں کے مرد سید جبیل کی بیٹھک میں حاضر ہوتے تھے۔

اس وقت بھی ماہین سب کے ساتھ بیٹھی دھوپ لے رہی تھی جب اس کی نظر ادھم پر پڑی۔۔۔وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے سر سے پاؤں تک ادھم کو دیکھا جس کے جوتوں کی حالت بری تھی وہ مٹی سے اٹے پڑے تھے اور وہ نڈھال نظر آرہا تھا۔۔۔وہ بھاگتے ہوئے اس کی جانب بڑھیں۔۔۔وہ مردوں کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔۔اسے دیکھتے ہی عورتیں گھریلوں ملازمہ کے اشارے پر اٹھ اٹھ کر وہاں سے جانے لگیں۔۔۔ ملازمہ خود بھی جاچکی تھی۔

”ماں۔۔۔“ وہ تھکا ہارا آکر ماہین سے لپٹ گیا۔ 

جیسے سالوں پہلے آرجے نے موت کے وقت اپنی ماں کو دیکھا تھا۔۔۔اور وہ بھاگتے ہوئے ان کی جانب بڑھا تھا۔ 

 ”ادھم میرے بچے۔۔۔“ ماں نے اسے اپنی آغوش میں چھپا لیا تھا۔ 

”تم ٹھیک ہو؟؟“ اب وہ اپنی بڑی سی شال سے اس کا چہرہ صاف کر رہی تھی۔ 

کچھ دیر بعد وہ بڑے سے تختے پر بیٹھی تھی اور ادھم ان کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا۔۔اس کی آنکھیں بند تھیں ماہین اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی۔

”پیدل چل کر کیوں آئے ہو؟؟ اور کتنی دیر چلتے رہے ہو۔۔؟؟“ 

”پیسے نہیں تھے میرے پاس۔۔ کنڈیکٹر نے پتا نہیں کہاں اتارا۔ یہ بھی نہیں جانتا کب سے چلتا رہا ہوں۔۔“

ماہین کو بےساختہ اس پر ترس آیا۔۔اس نے جھک کر ادھم کا ماتھا چوما۔ 

”فون کرلیتے۔۔۔ڈرائیور لینے آجاتا۔۔۔“ 

 ”اس سے کیا ہوتا۔۔۔؟؟“ 

 ”تمہیں یہ تکلیف نہ اٹھانی پڑتی۔۔۔“ 

لیکن وہ انہیں نہیں بتاپایا کہ اس کے اندر جو تکیلف تھی وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ وہ اٹھ بیٹھا۔۔۔اس نے ماہین کے ہاتھ تھام لیے۔ 

”ایک بات پوچھوں آپ سے؟؟“ 

 ”ہاں۔۔۔“ 

 ”ڈیڈ آپ سے اتنی محبت کرتے تھے پھر بھی آپ اپنی محبت نہیں بھلا پائیں ایسا کیوں۔۔؟؟ کیا پہلی محبت ناقابل فراموش ہوتی ہے۔۔۔؟؟“

ماہین کے چہرے پر سایہ سا آکرگزر گیا۔ 

”یکطرفہ محبت کسی آسیب سے کم نہیں ہوتی اور وہ محبت جو سالوں کی جائے اور جب تک انسان اس آسیب سے نکلتا ہے دیر ہوچکی ہوتی ہے۔۔“ وہ گہرے ملال سے بولیں۔ 

”کیا ہمیں کسی ایسے شخص کو زبردستی اپنا بنانا چاہیے جو ہمارا نہ ہو۔۔۔؟؟“ 

”نہیں۔۔۔ محبت زبردستی کی قائل نہیں۔۔“

اور ادھم کا سر جھک گیا۔۔۔وہ سات آٹھ مہینوں بعد گھر لوٹا اور ماہین کو وہ پہلے سے بھی زیادہ الجھا ہوا لگ رہا تھا۔ ٹوٹا پھوٹا سا۔۔۔ وہ بس اسے دیکھے گئی تھی۔ 

                         ✿••✿••✿••✿

”آخری فیصلہ تمہارا ہی ہوگا ایمان لیکن میں چاہتی ہوں تم ایک درست فیصلہ لو۔۔۔“ سلمی بیگم اس کے سر پر ہاتھ رکھے کھڑی تھیں۔۔۔اور حمیزہ۔۔۔ وہ تو دن میں دس بار پوچھتی تھی۔ 

 ”کیا سوچا آپ نے؟؟ کب ہاں کر رہی ہیں۔۔؟؟“ جبکہ وہ اسے دیکھ کر رہ جاتی تھی۔ وہ وہیل چیئر پر آئینے کے سامنے بیٹھے خود کو دیکھتی رہتی تھی۔۔ اس حادثہ نے اس سے کافی کچھ چھین لیا تھا اور سب سے اہم جو چیز چھینی تھی وہ اس کی ہنسی تھی۔ وہ خود کو دیکھتی اور پھر اسے بلندیوں سی شان رکھنے والا حاد جبیل یاد آتا۔۔۔

وہ خود کو اس کے لائق نہیں سمجھتی تھی۔۔۔ اس کی سفیدی سے کون واقف نہیں تھا۔۔۔ دائمہ نے بالکل ٹھیک کہا تھا اس جیسا شخص ریاضتوں کے بعد بھی نہیں ملتا۔۔۔۔

تو کیا اسے نوازہ جارہا تھا؟؟ کیا اللہ اسے کسی انعام سے نواز رہا تھا۔۔کیا وہ تمام آزمائشوں پر پوری اتری تھی؟؟؟ 

اسکی آنکھیں  بھر آئی تھیں۔ اگر یہ خواب نہیں تھا حقیقت تھی تو اس سے خوبصورت کیا تھا۔ 

”اس سے پوچھیں اماں۔۔۔ اس سے پوچھیں وہ مجھ سے نکاح کیوں کرنا چاہتا ہے۔۔؟؟“ 

اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ حمیزہ نے اس کا فون اٹھاتے فٹافٹ حاد کا نمبر ملایا۔ بیل جارہی تھی  اس نے فون اٹھا لیا۔ 

”السلام علیکم۔۔۔“ اس کی سحرانگیر آواز ابھری تھی۔ 

”وعلیکم السلام۔۔۔کیسے ہو بیٹا؟؟“ سلمی بیگم نے شفقت سے پوچھا۔ 

 ”بالکل فٹ۔۔۔“ وہ بشاشت سے بولا۔

 ”ایمان کا سوال ہے ایک۔۔۔وہ پوچھنا چاہ رہی ہے کہ آپ اس سے نکاح کیوں کرنا چاہتے ہیں؟؟“ حمیزہ تمام حسیات فون پر لگائے سلمی بیگم سے چپکی کھڑی تھی۔ سوال سن کر وہ مسکرادیا۔ 

 ”آنٹی فون اسپیکر پر ڈال دیں۔۔“ حمیزہ نے فٹافٹ موبائل پکڑتے اسپیکر آن کیا۔ 

”ایمان۔۔۔۔“ اس کی آواز ابھری تھی۔۔۔ ایمان کا دل زوروں سے دھڑکا۔۔ لیکن وہ جبڑے بھینچے بیٹھی رہی۔۔۔اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔۔۔حاد کے ایک جواب پر سب منحصر تھا۔۔۔۔۔ انعام کی قبولیت بھی انعام کی آزمائش بھی۔۔۔

”میں نے کبھی سوچا نہیں تھا میں کسی سے نکاح کروں گا وہ بھی یوں اچانک۔۔۔“ وہ سانس لینے کو رکا۔ 

میں وہ انسان ہوں جسے حسن، حسب نصب اور اونچا خاندان متاثر نہیں کر سکتا۔۔۔۔“ 

وہ بول رہا تھا اور ایمان کی جیسے جان اٹکی تھی۔ 

 ”مجھے جو حکم تھا میں نے اس میں سے دین دار کو چنا، نکاح جیسے مقدس رشتے کے لیے تم سے بہتر کوئی نہیں۔۔“

ایمان کی آنکھیں خوبخود بند ہوئی تھیں۔۔۔ گالوں پر آنسوں بہہ نکلے تھے۔۔۔اگر وہ یہ جواب نہ دیتا تو وہ کبھی ہاں نہیں کرتی۔ وہ اس انعام کو قبول نہ کر پاتی۔ محبت اپنی جگہ لیکن وہ مزید کسی ادھم کسی مشارب کو اپنی زندگی میں نہیں چاہتی تھی۔ 

فون بند ہوچکا تھا۔۔۔حاد جبیل نے فون کو دیکھا۔۔۔ وہ اس کی محبت ہی سہی اگر وہ اُم ایمان نہ ہوتی، کوئی بھی عام سی لڑکی ہوتی جس کی ترجیحات میں اللہ شامل نہ ہوتا تو وہ کبھی اس سے نکاح نہیں کر پاتا۔۔۔۔بیشک روشنی روشنی کو ڈھونڈ لیتی ہے۔۔۔!! 

                           ✿••✿••✿••✿

”مجھے ایک بار آپ سے ملنا ہے۔۔ گھر آجائیں۔“ 

اس نے ابھی تک ہاں نہیں کی تھی۔ وہ حاد سے ایک بار ملنا چاہتی تھی۔۔وہ کچھ باتیں مزید کلیئر کرنا چاہتی تھی۔

اس نے تین بجے آنے کا کہا تھا۔ اور وہ اپنے وقت پر پہنچ گیا تھا۔۔۔ حمیزہ تو اڑی اڑی پھر رہی تھی اور سلمی بیگم کو جیسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہیں سے اس کے بیٹھنے کے لیے جادوئی تخت لے آتیں۔ 

انہوں نے کھانے میں کافی کچھ بنا لیا تھا اور جب وہ آیا تو کچھ دیر بیٹھنے کے بعد حمیزہ کو پکارہ۔

”چلو آؤ کچھ سامان لینا ہے جلدی سے مارکیٹ ہو آتے ہیں پھر آکر کھانا کھائیں گے۔۔“ جب سے ایمان کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا گروسری کرنے وہ دونوں ہی جاتی تھیں۔ سلمی بیگم چاہتی تھیں وہ ریلیکس ہو کر بات کرلیں۔۔ مارکیٹ قریب تھی وہ جلد واپس آجاتیں۔ 

وہ وہیں بیٹھی تھی۔۔گود میں ایک فائل رکھی تھی۔

وہ ان کے جانے کے بعد ایمان کی طرف متوجہ ہوا۔

”کچھ پینے کو ملے گا۔۔۔؟؟“ وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا۔ 

 ”فریج کچن میں ہے۔۔“ اس نے جواب دیا تو سر ہلاتا کچن کی جانب بڑھا اور پھر پانی کا گلاس لا کر ایمان کے سامنے رکھا۔ ایمان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔

”آپ کو ضرورت پڑے گی۔۔“ وہ اب اپنی براؤن جیکٹ اتار کر صوفے پر رکھتا، میز کی دوسری جانب اس کے سامنے بیٹھ چکا تھا۔ دونوں ہاتھوں کی مٹھی بنا کر ٹھوڑی نیچے ٹکایا اور اسے دیکھنے لگا۔۔۔ وہ سٹپٹا کر نظریں جھکاگئی۔ 

”مجھے کچھ باتیں کلیئر کرنی تھیں۔۔“ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ بولی۔ 

”میں سن رہا ہوں۔۔۔فرصت سے۔۔۔“ وہ واقعی فرصت سے بیٹھا تھا۔ 

”میرا ایکسیڈنٹ ہوا ہے آپ جانتے ہیں۔۔پاؤں فریکچر ہے۔۔اگر ہڈی ٹھیک سے نہ جـڑی اور میں کبھی ٹھیک سے نہ چل پائی تو۔۔۔“ 

 ”مجھے کوئی اشو نہیں۔۔۔“ اس نے ایمان کی بات بھی مکمل نہیں ہونے دی۔ 

 ”میں آپ کو کلئیرلی بتانا چاہتی ہوں میں نے اپنی زندگی کے کچھ مہینے پاگل خانے میں گزارے ہیں۔۔میں نہیں چاہتی اس رشتے کی شروعات کسی جھوٹ سے ہو۔۔ اگر میں دوبارہ کبھی پاگل ہوگئی تو۔۔۔“ 

”نہیں ہونے دوں گا۔۔۔“ وہ فرصت سے نگاہیں جمائے بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں کی الوہی سی چمک ایمان کو پزل کر رہی تھی۔۔۔اس نے میز پر رکھا گلاس اٹھا کر فٹافٹ پانی پیا۔۔۔حاد نے بےاختیار امڈ آنے والی مسکراہٹ کو چھپایا تھا۔ اب وہ گلاس واپس رکھ رہی تھی۔ 

”میں خود جاب کرتی ہوں، اپنی فیملی کو سپورٹ کرتی ہوں۔ میں جہیز کے خلاف ہوں اور۔۔۔“ 

”نہیں چاہیے۔“ ایمان نے جھٹکے سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ سیاہ آنکھیں چمکتی گرے آنکھوں سے ٹکرائیں۔ اس بار حاد نے نگاہوں کا رخ نہیں بدلا۔۔ وہ اسے دیکھتا رہا۔ 

 ”آپ کو شاید یہ نہیں معلوم کہ میں ایک طلاق یافتہ لڑکی ہوں اور۔۔۔“ 

 ”مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔“ وہ بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے بدلتے تاثرات کو۔۔ چہرے پر پھیلے سارے رنگوں کو۔۔اسے کبھی اتنا دلچسپ نظارہ دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔ 

ایمان نے خشک لبوں پر زبان پھیری اور پھر گود میں رکھی فائل اٹھا کر اس جانب بڑھائی۔ 

”اسے ایک نظر دیکھ لیں۔۔۔“ 

حاد نے ذرا آگے ہوتے فائل پکڑی۔ اور پھر اسے کھول کر دیکھا۔۔ ایمان کی ساری میڈیکل ہسٹری لکھی تھی۔ 

”مجھے کافی سارے ہیلتھ اشوز ہیں۔۔ مائیگرین رہتا ہے، اسٹریس اور ڈائجیسٹیو اشوز۔۔ میں نہیں چاہتی آپ کل کو کہیں کہ میں نے کچھ چھپایا آپ سے۔۔۔“

وہ اسے ان باتوں سے آگاہ کر رہی تھی جنہیں وہ اس سے زیادہ جانتا تھا۔۔۔ وہ ہولے سے مسکایا اور پھر فائل میز پر رکھ دی۔ 

”مجھے لگتا ہے سارے گناہ روز ہی بخشوا لیتی ہیں آپ۔۔۔“ 

 ”جی۔۔۔؟؟“ وہ سمجھی نہیں۔ 

 ”انسان پر آنے والے ہر دکھ، درد، تکلیف اور رنج پر اللہ اس کے گناہ معاف کرتا ہے۔۔۔مطلب آپ اللہ کے بہت قریب ہیں۔۔۔یعنی مجھے آپ سے مقابلہ کرنا ہوگا۔۔۔“ وہ خوشگوار سے لہجے میں بولا تھا۔۔۔ایمان اسے دیکھتی رہی۔۔۔یہاں تک کہ اس کی آنکھوں میں نمی ابھر آئی۔ عجیب شخص تھا وہ۔۔۔کہاں سے آیا تھا؟؟ 

”یہ سب زندگی کا حصہ ہے ایمان۔۔۔یہ سب بےمعنی ہے۔۔۔“ وہ سنجیدہ ہوا۔ 

 ”میری دنیا سے تم واقف ہو۔ ایک تم میرے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکتی ہو۔۔۔میری دنیا کو تمہاری ضرورت ہے۔۔۔“

وہ آپ سے تم پر آیا تھا۔ وہ خاموش رہی۔

”کچھ میرے بارے میں پوچھنا چاہتی ہو؟؟“ 

”بس ایک سوال۔۔۔حلال کماتے ہیں یا حرام۔؟؟“ 

”میں ایک ڈیٹا سائنٹسٹ ہوں اور دن رات محنت کرکے حلال کماتا ہوں۔۔“ وہ بولا تو ایمان خاموش رہی۔ 

 ”اور کچھ۔۔؟؟“ 

ایمان نے سر ناں میں ہلایا۔ 

”تو میں ہاں سمجھوں۔۔؟؟“ وہ اب امید بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ایمان نے بےساختہ نظریں اٹھائیں اور پھر جھکالیں۔ 

”آپ کو جواب مل جائے گا۔۔۔“ حاد نے بےساختہ گہرا سانس لیا۔ یعنی ابھی مزید انتظار کرنا تھا۔ 

”ٹھیک ہے لیکن میری ایک شرط ہے۔۔۔اگر آپ کی طرف سے ہاں ہوئی تو نکاح جلد ہوگا۔۔۔ایک دو ہفتوں میں۔۔۔“ 

”اتنی جلدی۔۔۔؟؟“ وہ چونکی۔ 

”ہاں۔۔۔مجھے جلدی ہے۔۔۔“ وہ سنجیدہ تھا۔۔ایمان کو سمجھ نہیں آیا وہ مزاق کر رہا تھا یا نہیں۔ وہ اب اپنی جیکٹ اٹھاتے کھڑا ہو رہا تھا۔ 

”لیکن میں تو ابھی چل بھی نہیں سکتی۔۔۔“ 

حاد نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اس کے پاؤں کو۔

 “فکر نہ کرو میں اٹھا لوں گا۔۔۔“ 

                            ✿••✿••✿••✿

جاری ہے      


#مـــاثـیــــــل کی کہانی اب آگے ہر ریڈر خود لکھ رہا ہے۔ کوئی حاد کو مار رہا ہے تو کوئی ادھم کو۔۔۔کوئی ابھی تک اسی بات پر اٹکا ہے کہ ناول کا نام ماثیل ہے تو ماثیل ہی ہیرو ہونا چاہیے، کسی کو اعتراض ہے ماثیل ہیرو کیوں نہیں۔۔۔؟؟ کسی کو لگتا کے حاد حاد نہیں بلکہ عبدل ہے۔۔ افف  اور تو اور کسی کو پورا یقین ہے کہ ایمان کا دوسرا نکاح ٹوٹے گا اور تیسرا ادھم سے ہوگا۔۔۔ یعنی حمیزہ کی اتنی تلخ اور سچی باتیں ضائع گئیں۔۔۔یعنی کچھ لوگوں کی کھوپڑیاں ابھی بھی بند ہیں۔۔۔ گاڈ۔۔۔۔!!

Episode 58 will be posted by tomorrow, and remember writer in your prayers, she is not feeling well. Take Care Guys

آپ کو یہ قسط کیسی لگی؟
کو منٹ سیکشن میں اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں۔

Maseel Previous Episodes

Maseel Episode 56 Maseel Episode 55 Maseel Episode 54 Maseel Episode 53 Maseel Episode 52 Maseel Episode 51 Maseel Episode 50 Maseel Episode 49 Maseel Episode 48 Maseel Episode 47 Maseel Episode 46 Maseel Episode 45 Maseel episode 44 Maseel Episode 43 (part 02) Maseel Episode 43 (part 01) Maseel Episode 42 (part 02) Maseel Episode 42 (part 01) Maseel Episode 41(part 02) Maseel Episode 41(part 01) Maseel Episode 40 (part 02) Maseel Episode 40(part 01) Maseel novel episode 39 (part 02) Maseel episode 39 (part 01) Maseel episode 38 Maseel episode 37 Maseel episode 36 Maseel episode 35 Maseel episode 34 Maseel episode 33 Maseel episode 31 Maseel episode 30 Maseel episode 29 Maseel episode 28 Maseel episode 27 Maseel episode 25 Maseel episode 24 Maseel episode 22 Maseel episode 20 Maseel episode 18 Maseel episode 14 Maseel episode 13 (part 02) Maseel episode 13(part 01) Maseel episode 11&12 Maseel episode 10 Maseel episode 09 Maseel episode 08 Maseel episode 07 Maseel episode 06 Maseel episode 05 Maseel episode 04 Maseel episode 03 Maseel episode 02 Maseel episode 01

More Novels by Noor Rajput

👉Sulphite Novel: Click here!
👉The Medium Novel:Click here!
👉Volverine Novel:Click here!
👉Hinave Novel: Click here!

23 Comments

  1. Amazing episode ❣️❣️❤️❤️💖💖💝💝💗💗💓💓💞💞💕💕💟💟♥️♥️❣️❣️

    ReplyDelete
  2. Aslam o alaikum miss Noor kesi hain aap .Mera Naam Zoya hai .mein aap ki tab se fan Hun jab me ne sulphite parha tha . Ab har raoz maseel ki nayi episode din me 10 baar search krti Hun takay aap ki next epi mil jaye .aap bohat acha likhti Hain aisay hi novel likhti raha kren

    ReplyDelete
    Replies
    1. Walaikum Assalam Zoya! Mein theek hun, aap kesi hain? Ye sunkar bohot khushi hui ke aap meri novels ko itna pasand karti hain aur intezar karti hain. Aapki appreciation aur support ke liye bohot shukriya.

      Delete
  3. Today episode is so amazing 🤩✨

    ReplyDelete
  4. Ufffffff 😘 amazing 🤩

    ReplyDelete
  5. What a lovely episode....🩵one of the best proposals...Haad is a gem😊

    ReplyDelete
  6. agr haad ko hi hero bnana tha to pahlai maseel ko to na latai . maseel or iman ki story hi perfect thi

    ReplyDelete
  7. agr haad ko hi hero bnana tha to pahlai maseel ko to na latai . maseel or iman ki story hi perfect thi

    ReplyDelete
  8. i read this novel only for maseel and iman

    ReplyDelete
  9. Assalam u Alaikum 1st time comment kr rh hun kisi writer ko mene bht novels prhy phr salphite mene bht km novel online prhy but ye 1st aesa novel h jiska w8 krti hun office se aa kr sabse phle novel search krti hun ajka epi bht zbrdst h 🥰🥰

    ReplyDelete
    Replies
    1. walaikum assalam, Aapka pehla comment dekh kar bohot khushi hui. Ye sunkar acha laga ke aap maseel novel ko pasand karti hain aur intezar karti hain. Aapke comments humesha bohot motivating hote hain. Agle episodes ke liye bhi aapki raye aur support ki zarurat hai. Shukriya!

      Delete


  10. اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
    Amazing lovelyyyyyyyyyyyyyyyyyy episode Haad gave very powerful answers to the questions of emaan

    ReplyDelete
  11. Bht acha likhytee h ap bht basabri sa intizar hota h is novel ka

    ReplyDelete
  12. Amazing 😍😍😍 Allah Pak AP ko kamyab kry mazeed achy achy novels likhny ki tufiaq dy jis sy hmari rahnunai ho saky bohttttt bohttttt achaa likhti hain ap mashallah mashallah Allah Pak AP ko hamysha khush rakhy aabaad rakhy ameen suma ameen 🤲🤲❤️😘

    ReplyDelete
  13. Mem khopdian tadabur sy khulti hyn Sirf padh kr han my han milany sy niiii

    ReplyDelete
  14. I DONT BELIEVE ON ANOTHER PERSON WHO TELL ABOUT FUTURE AND I JUST BELIEVE IN ONE AND ONLY ALLAH NO ONE CANNOT TELL TO ANYONE ABOUT THEIR FUTURE WE SHOULD JUST PRAY AND EVERYTHING IS POSSIBLE .WE SHOULDNOT MEET ANY FUTURE TELLING PERSON BCZ ITS ONE OF THE SHIRK THAT WE BELIEVE THAT PERSON MORE THAN ALLAH . ALLAH GIVE YOU ALL GOOD HEALTH AND HIDAYAT

    ReplyDelete
  15. Story K material sy AP ki apni thoughts ka pta chulta h jesy had khuch kiye bgiar dunya sy nhi jana chata r vo young generation k problems ko smjhta h bemari k mutabiq doz dyrha h ...🤞🤞apki apni fikr nzr ati h youth k liye kamal novel carry on ...may Allha shower His blessing upon you

    ReplyDelete
  16. Writer sahibaa abdul ko tw samny layennn

    ReplyDelete
  17. This episode was fantastic, eagerly waiting for the next one.

    ReplyDelete
  18. Again epi kb ani ha bta de

    ReplyDelete
  19. Assalam o alikum
    KC hain ap Ab?
    Ap bhot bhot bhot acha likhti hain bhot deep .....ap k is novel ma sab ha specially real and rear meaning of love ...thank u Allah ap ko bhot bhot kamyab Kary dunya or akhrat dono ma ameen

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post