مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_56
نور_راجپوت
اور ایک بار پھر سید جبیل صاحب کو آناً فاناً جانا پڑا تھا۔ اور اس بار انہوں نے ایک بڑا فیصلہ لیا تھا۔۔۔
اپنے ساتھ ہونے والے اس واقعے کے بعد حاد کافی دنوں تک ایک گہرے صدمے میں رہا تھا۔۔ وہ جن اندھیروں سے نکلنے کی کوشش کرتا اسے بار بار دھکیلا جاتا تھا۔اس کی مسکراہٹ پہلے سے بھی کم ہوگئی تھی اب وہ کسی پر اعتبار نہیں کر سکتا تھا اور کسی کو دوست بھی نہیں بنا سکتا تھا۔ پھر اس نے مردوں کی آپس میں محبت پر پراپر ریسرچ کی تھی اور تب اسے حیرت ہوئی تھی کہ اب یہ غلیظ کام مسلمانوں میں بھی عام ہوتا جارہا تھا۔
”مام مجھے لندن واپس جانا ہے۔۔“ وہ حانم کے سامنے کھڑا تھا۔
”کیوں۔۔؟؟“ وہ چونکی۔
”میں یہاں نہیں رہ سکتا اور مجھے النور جوائن کرنا ہے۔ مجھے اب اس کی ضرورت ہے۔۔“ اس نے جیسے فیصلہ سنایا تھا۔ اور پھر وہ لوگ لندن دوبارہ شفٹ ہوئے پر اس بار وہ حاد نہیں عبدل تھا۔۔ اسے عبدل بن کر جینا تھا۔۔۔ کیونکہ اس رات ولیم وہاں سے بھاگ تو گیا تھا پر اس کی ذہنی حالت مزید بگڑ چکی تھی اور وہ یہی کہتا رہتا تھا کہ ”حاد مر گیا۔۔ حاد مرگیا۔۔“
اور پھر حاد عبدل بن گیا۔۔۔اسے عبدل بن کر جینا تھا لوگوں کی نظروں میں حاد مرچکا تھا کیونکہ حانم سے کالج کی انتظامیہ نے جب پوچھا تو اس نے اس خبر کی تصدیق کردی تھی۔
وہ لوگ لندن آگئے۔۔۔۔ ایلف کے گھر کے پاس ہی ان کا گھر تھا اور حاد نے النور باقاعدہ جوائن کرلیا تھا۔۔۔
سید جبیل نے بھی یہی فیصلہ کیا تھا۔۔۔ حانم کا اور روحان کا اب ایک ہی بیٹا تھا۔۔ اور وہ تھا عبدل۔۔۔
خاندان کے کچھ لوگوں کو حقیقت پتا تھی کچھ کو نہیں۔
النور میں اس نے
theology
کی پڑھائی شروع کردی تھی کیونکہ وہاں اسے کوئی خطرہ نہیں تھا جبکہ اب وہ کسی یونیورسٹی یا کالج میں ایڈمیشن نہیں لے سکتا تھا۔ وہ دن میں النور ہوتا تھا۔۔۔
اسے لگتا تھا اب اس کی دو زندگیاں تھیں۔۔۔ایک عبدل کی جو دن کی سفیدی میں وہ جی رہا تھا اور ایک زندگی اس کی سیاہی کی تھی جس سے کوئی واقف نہیں تھا یہاں تک کہ حانم بھی نہیں۔۔۔
اس نے ڈیٹا سائنٹسٹ بننے کے لیے آنلائن سیکھنا شروع کیا وہ ساری ساری رات لگا رہتا تھا۔۔۔اسے ابھی بہت کچھ سیکھنا تھا۔ اور یہ ایسی فیلڈ تھی جہاں سیکھنے سے ہی آتا ہے۔ وہ اپنے باپ کے ایک پرانے دوست بھی ملا جو لیب میں ان کا وفادار تھا اس نے حاد کی موت کا افسوس کیا اور وہ اسپاٹ چہرے کے ساتھ خاموشی سے سنتا رہا۔۔ اسے اپنے مرے ہوئے ہونے پر ذرا افسوس نہیں ہوتا تھا۔۔۔اچھا ہوا حاد مرگیا تھا۔۔جیتا رہتا تو وہ کیسے اپنے مقصد تک پہنچ پاتا۔۔۔لوگ اسے جینے ہی نہیں دیتے۔۔
اس نے جب پہلی بار پزل باکس کو حل کیا تو اسے ایک پرچی ملی تھی۔۔۔یہ ویکسینیشن کا فارمولا تھا۔۔ لیکن وہ پزل باکس کا ایک ہی دروازہ کھول پایا تھا۔۔۔ باقی پزل باکس ابھی بھی بند تھا۔۔ وہ جنیٹیکس کو زیادہ نہیں جانتا تھا پر اسے اب اپنی بیماری کے بارے میں مزید تحقیق کرنی تھی اور جب اس نے یہ جانا کہ اس بیماری کے لوگ زیادہ سے زیادہ پچیس سال تک جی سکتے ہیں تو وہ ساکت رہ گیا تھا۔۔۔
اسے بہت کچھ کرنا تھا تو کیا وہ ایسے ہی مرجاتا۔۔۔؟؟؟
اسے انزائٹی اٹیک ہوا تھا۔۔اسے مرنے سے نہیں بلکہ بےمقصد مرنے سے ڈر لگتا تھا۔
”اگر اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے اور دو بار مرنے سے بچایا ہے تو یقین کرو اللہ نے ضرور کچھ لکھا ہے۔۔۔بس تم فوکس کرو۔۔“ حانم کی باتیں اسے تسلی دیتی تھیں۔
اس کے پاس فارمولا تھا پر ویکسین بنانا مشکل تھا پھر وہ کسی پر یقین کیسے کرتا؟؟
پھر اس نے کوشش شروع کردی پر اسے ہر بار ناکامی کا سامنا ہوتا۔۔۔ اس کے اٹیکس بڑھ رہے تھے۔۔۔ وہ جسمانی طور پر کمزور پڑ رہا تھا۔۔۔ حانم کا دل خون کے آنسوں روتا تھا لیکن اس نے اپنے دکھ کو دل میں ہی دبا لیا تھا۔۔۔عبدل کے جانے کے بعد وہ بھی پہلے جیسی نہیں رہی تھی اور اب حاد کو تو بالکل نہیں کھو سکتی تھی۔
اس کا انٹرسٹ ایک اےآئی بنانے کا تھا۔۔۔ایسی ٹیکنالوجی جو بہت اڈوانس ہو جس سے اسے ہر طرح کی مدد ملے۔۔۔اور پھر اس نے ایک اےآئی کو بنایا۔۔۔۔ شاید یہ اس کی ویکسنیشن میں مدد کرتی۔۔پہلے پہل وہ اس سے صرف بات کر سکتا تھا اور پھر اس نے اس پر محنت کی۔۔۔
ایسا لگتا تھا جیسے پوری دنیا میں صرف وہی اکیلا ہو جسے دنیا کو بچانا ہو اور خود کو بھی۔۔۔اور وہ پوری کوشش کر رہا تھا۔۔۔ جیسے جیسے وہ سیکھتا گیا اسے اپڈیٹ کرتا گیا۔۔۔اور جب اس اےآئی نے پہلی بار بولنا شروع کیا تو حاد زندگی میں پہلی بار اتنا خوش ہوا تھا۔
”تمہارا نام کیا رکھوں۔۔۔“ وہ خوشی سے ٹہلتے ہوئے بولا۔
”ایمانے۔۔۔“ پہلا نام یہی ذہن میں آیا تھا اور یوں اس کی اےآئی ایک لڑکی کی آواز میں اس سے بات کرتی تھی۔ وہ النور جاتا رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس نے ویکسینیشن پر کام کرنا نہیں چھوڑا تھا۔۔۔ اےآئی سے اسے بہت مدد ملی تھی اور چھ سال کی محنت کے بعد جب وہ اکیس سال کا ہوا تو اس نے اسی ویکسین کو تیار کرلیا تھا جو اس کا باپ اس کے لیے چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔۔یہ اس کی دوسری کامیابی تھی پہلی کامیابی اسے النور میں ملی تھی انیس سال کی عمر میں۔۔ وہ وہاں اسٹوڈنٹ تھا اور پہلی بار کسی اسٹوڈنٹ کے سیشن میں اس کے ہاتھ پر کوئی مسلمان ہوا تھا۔۔۔
اس رات وہ گھر آکر حانم سے لپٹ کر رویا تھا۔۔۔اسے لگا جیسے اس کے زندہ ہونے کا مقصد پورا ہوگیا ہو۔۔۔ جیسے اسے اللہ مل گیا ہو۔۔جیسے اللہ اس سے راضی ہوگیا ہو۔۔۔جیسے اس کے سارے زخم بھر گئے ہوں۔۔ اس سفیدی نے اس کے اندر سکون ہی سکون بھر دیا تھا۔ وہ دونوں ماں بیٹے کتنی ہی دیر تک آبدیدہ ہوتے رہے۔۔۔ دونوں نے روحان اور عبدل کو یاد کیا تھا اور حاد نے دونوں کو ڈھونڈ لانے کا وعدہ کیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
اکیس سال کی عمر سے اس نے جاب شروع کردی اور تئیس سال تک پہنچتے وہ بہت سی بڑی تنظیموں اور اداروں کو
Tech Security
دے رہا تھا۔۔ وہ ایک مشہور ڈیٹا سائنٹسٹ بن گیا تھا جس کی مہارت اےآئی میں تھی۔ ایسی تنظیمیں جہاں کسی دوسرے شخص کی اصل شناخت نہیں معلوم ہوتی وہاں سب کے کوڈ نیم ہوتے تھے اور وہ اس دنیا میں مسٹر گرے کے نام سے جانا جاتا تھا۔۔ کیونکہ وہ اندھیرے اور اجالے کی دو زندگیاں جی رہا تھا۔۔۔
سیاہ اور سفید کا امتزاج۔۔۔ گرے۔۔۔۔ ہاں وہ مسٹر گرے تھا۔
جب وہ بچپن میں لیب سے بھاگا تھا تب اس نے لیب کا خاص لوگو دیکھا تھا اور اسے کبھی بھول نہیں پایا تھا۔۔ اس نے بچپن میں وہ لوگو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی جو اسے انٹرنیٹ پر کہیں نہیں ملا تھا کیونکہ تب اس کی انٹرنیٹ پر چھپی دنیا تک رسائی نہیں تھی پر اب۔۔۔۔
اب وہ اےآئی کی مدد سے ہر جگہ پہنچ سکتا تھا۔اور اس نے اس لیب کو ڈھونڈ نکالا تھا۔۔۔
وہ کسی کیڑی کی چال سے، جسے کوئی محسوس نہ کر پائے، ان کے سسٹمز تک گھسا۔۔ ان کے سی سی ٹی وی فوٹیجز اور وہاں ہونے والے تجربوں کی ساری لسٹ نکال لی تھی۔۔۔یہاں تک کہ ویڈیوز بھی۔
وہ لوگ آج بھی ساری دنیا سے چھپ کر غیر قانونی کام کر رہے تھے جسے عام انسان اپنی آنکھ سے دیکھ بھی نہ پائے۔۔۔ بچپن کی اذیت کا ایک ایک پل اس کے سامنے گھوم گیا تھا اور پھر ایک رات وہ واپس وہاں گیا۔۔۔۔۔
اس نے وہاں کی پاور شٹ ڈاؤن کی اور اندر گھس گیا۔۔ چند منٹوں بعد وہ باہر نکلا تھا۔۔
سیاہ جینز شرٹ پر وہ سیاہ ہڈی پہنے ہوئے تھا اور اس کا چہرہ کافی حد تک ہڈی میں چھپا ہوا تھا۔۔۔وہ لیب سے نکلا اور متوازن چال چلتا ایک جانب چل پڑا۔۔۔
اس کے کان میں بلوٹوتھ ڈیوائس اور آنکھوں پر چشمہ لگا تھا۔۔۔اس کے بال پیشانی پر بکھرے پڑے تھے۔۔۔
وہ چلتے چلتے اچانک رکا۔۔۔اس نے گردن موڑ کر لیب کی جانب دیکھا۔۔۔ اس کے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں تھے۔۔۔ ایک۔۔۔دو۔۔۔تین۔۔۔
اس نے گنتی کی اور پھر ایک زوردار دھماکہ ہوا۔۔۔ زمین جیسے ہل گئی تھی۔۔۔
رات کی سیاہی میں لیب میں لگی آگ کے شعلے دور دور تک گئے تھے۔۔۔۔ اس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔۔وہ اب پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سیٹی بجاتا پرسکون سا جا رہا تھا۔ اور اس کے پیچھے لیب آگ کی لپیٹوں میں تھی۔
✿••✿••✿••✿
وہ اب ماسٹر مائنڈ تھا۔۔۔ان سٹاپ ایپل۔۔۔جسے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔۔۔ اس نے خاموشی سے بہت سارے اداروں کا راز فاش کیا تھا بہت ساری تنظیموں کو تباہ کیا تھا۔۔۔۔اور اپنی ویکسین کے سلسلے میں بہت تحقیق کی۔۔ بہت کچھ ڈھونڈا اور اب وہ نہ صرف تندرست تھا بلکہ اسے ڈوز بھی چھ مہینے میں لینی ہوتی تھی۔۔ اس کے اٹیکس اب کم ہوگئے تھے۔۔۔ اور وہ اپنے مقاصد کی جانب پوری طرح متوجہ تھا۔۔۔
اپنی اس اندھیروں اجالوں کی زندگی میں وہ اپنے پیاروں کو نہیں بھولا تھا اور جس کا خیال ہمیشہ ساتھ رہا تھا وہ تھی ایمانے۔۔۔
وہ خود نہیں جانتا تھا وہ اسے کیوں نہیں بھول پایا۔ پر اس کا خیال اب اچھا لگتا تھا۔۔ اس کے اندھیروں میں ایمانے کے اجالے تھے۔۔ عبدل کی باتیں اب یاد آتیں تو وہ زیرلب مسکرا دیتا۔
”تم اب بکڈ ہو اوکے۔۔۔“
اور اس نے خود کو واقعی پابند کرلیا تھا یا اسے پابند کردیا گیا تھا۔۔۔۔ یہ وہ نہیں جانتا تھا پر ہاں اگر اس کی ماں کے علاوہ اور کوئی لڑکی اس کی زندگی میں تھی وہ بس ایمانے کا خیال تھا۔
جب اس نے کمانا شروع کردیا تو سب سے پہلے اپنا پرانا گھر واپس خریدا اور اسے بیابان رہنے دیا پھر اس نے وہاں اپنی لیب بنائی جہاں وہ اپنا کام کرتا تھا اور اپنی ڈوز لینے بھی وہیں آتا تھا۔۔۔
اس نے عام انسانوں سے زیادہ کام کیا تھا کیونکہ اسے زیادہ بڑا کردار نبھانا تھا۔۔۔اس نے نہ صرف فائٹنگ سیکھی بلکہ خود کو جسمانی طور پر مضبوط بنایا تاکہ کوئی ولیم جیسا شخص دوبارہ اسے گھسیٹ نہ سکے۔۔
اس کے جسم کے نشان بھر گئے تھے سوائے سینے کے نشان کے جو اسے آج بھی ولیم کی یاد دلاتا تھا۔
وہ نہ صرف اپنے کام پر توجہ دیتا تھا بلکہ اس نے اپنے باپ اور بھائی کی تلاش بھی جاری رکھی اور ایک دن سید جبیل صاحب نے ادھم جبیل کو واپس لانے کا ذمہ بھی اس کے سر لگادیا تھا۔۔۔جسے اس نے خاموشی سے اپنا فرض سمجھ کر قبول کرلیا تھا۔
اس نے یہ مان لیا تھا کہ اسے ہی سب ٹھیک کرنا تھا اور وہ سب ٹھیک کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”مسٹر جبیل۔۔۔آپ ابھی تک سنگل کیوں ہیں۔۔؟؟“ اےآئی اسسٹنٹ نے پوچھا تھا۔
”سنگل سے تمہاری کیا مراد ہے؟؟“ اس کے سامنے بہت ساری اسکرینیں تھیں۔۔ اور وہ بڑی باریک بینی سے ہر ایک چیز کا جائزہ لے رہا تھا۔
”آپ کی نہ کوئی وائف ہے اور نہ کوئی محبوبہ۔۔“
”اچھا۔۔۔۔“ اس نے کچھ سوچتے ہوئے اچھا کو ذرا لمبا کھینچا۔
”مسٹر جبیل۔۔۔ڈو یو لو ایمانے۔۔۔“ اور وہ چونک گیا۔ بےاختیار ہی عبدل یاد آیا۔
”مجھے اس سے محبت کیوں ہوگی؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”تو پھر آپ نے میرا نام اس کے نام پر کیوں رکھا۔۔۔؟؟“ اور اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔ وہ خود نہیں جانتا تھا۔۔۔اس کا خیال ذہن سے چپک گیا تھا۔۔۔اس کی تصویر آج بھی کمرے میں تھی۔
”آپ اسے ڈھونـڈیں گے نہیں۔۔۔؟؟“
”نہیں۔۔۔“ اسے سب کو ڈھونڈنا تھا سوائے ایمانے کے۔۔۔کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا وہ کیسی تھی۔۔ کبھی کبھی وہ ڈر جاتا تھا یہ سوچ کر کہ وہ کوئی عام سطحی سوچ والی لڑکی ہوئی تو؟؟ وہ آج کل کی لڑکیوں جیسی ہوئی تو؟ اور یہ سوچ کر ہی اس کا دل ڈوب جاتا تھا۔۔۔پر وہ اس کی دعاؤں میں شامل ہوگئی۔۔ عبدل کے ساتھ ساتھ وہ بھی۔۔
وہ جہاں اللہ سے عبدل کی حفاظت کی دعا کرتا وہیں ایمانے کے لیے دعا کرتا کہ اللہ اسے کبھی بھٹکنے نہ دے۔۔۔اندھیروں اور اجالوں میں اس کا ساتھ دے۔۔۔وہ اسے ملتی یا نہیں ملتی پر وہ نہیں چاہتا تھا کہ جس لڑکی کو عبدل نے اس کے ساتھ جوڑ دیا تھا وہ خود کو کہیں کھو دے۔
اس کی زندگی میں دائمہ آئی جو اسے اپنا منگیتر سمجھتی تھی۔۔۔وہ اسے سچ بتانا چاہتا تھا پر سید جبیل کی وجہ سے خاموش تھا۔۔ دائمہ اچھی لڑکی تھی پر وہ عبدل کی فیانسی تھی اور حاد کا دل کبھی اس کی طرف مائل نہیں ہوا۔۔۔۔۔
اور پھر اچانک اسے ادھم مل گیا۔۔۔ ماثیل دی بت ساز جس پر سید جبیل کا بھیجا ہوا شخص پوری نظر رکھ رہا تھا اور یہ شخص حاد کے لیے کام کرتا تھا۔۔۔ داؤد نام کا یہ آدمی کافی ٹریننگز لے چکا تھا اور جانتا تھا کام کیسے کرنا تھا۔ جیسے ہی ماثیل اور ایما کے راستے ٹکرائے اس سے بھی پہلے اسے عجیب سے خوابوں نے گھیر لیا تھا۔۔وہ اکثر مس ایلف سے ملنے جاتا تھا۔۔ اور انہیں اپنے خوابوں کا بتاتا۔۔
مس ایلف جانتی تھی وہ حاد ہے لیکن وہ سب کے لیے عبدل تھا۔ اسے ادھم نظر آتا تھا ایک لڑکی کے ساتھ اور پھر وہ لڑکی اسے زمین میں دھنستی دکھائی دیتی تھی۔۔۔یہ بہت عجیب تھا۔۔۔۔ وہ ماسٹر مائنڈ جسے اب کوئی ہرا نہیں سکتا تھا اسے قدرت نے ہرانا ضروری سمجھا تھا۔
اور جب اس نے ایمان سے حشام بن کر بات کی اور جب اس نے ایمان سے اس کی افضل خواہش کا پوچھا تھا۔
مس ایما۔۔۔ آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟؟؟“
”میں چاہتی ہوں میری روح کو لینے دو نہیں بہت سارے فرشتے آئیں۔۔۔“
وہ ساکت رہ گیا تھا۔۔۔اس کے بعد اس نے دوبارہ ایمان سے بات نہیں کی تھی۔۔باقی سب داؤد نے سنبھالا تھا اس دن وہ گہری سوچ میں پڑ گیا تھا۔۔اسے عجیب سے احساسات نے آگھیرا تھا۔ وہ لڑکی ادھم جبیل عرف ماثیل کو کیوں پسند آئی تھی وہ اب سمجھ گیا تھا۔
وہ ٹھیک سے کام نہیں کرپایا۔۔۔وہ اس دن خاموشی سے لیب میں بیٹھا رہا۔
”مسٹر جبیل۔۔ کیا ہمیں آج کوئی کام نہیں کرنا۔۔۔؟؟“
”آئی وش۔۔۔آئی وش کہ ایمانے بھی ویسی ہی ہو۔۔۔جیسی وہ لڑکی ہے۔۔“
اس پل اس نے شدت سے خواہش کی تھی کہ جس ایمانے کو وہ اتنا خاص سمجھتے ہیں اس کی سوچ بھی خاص ہو۔
”پتا نہیں وہ کیسی ہوگی۔۔ کیسی دکھتی ہوگی۔۔اور جانے کہاں رہتی ہوگی۔۔“
ایسا نہیں تھا کہ وہ اسے ڈھونڈ نہیں سکتا تھا۔۔۔وہ ایسا چاہتا نہیں تھا۔۔۔ اسے اپنے اندر کبھی کبھی دو دل دھڑکتے محسوس ہوتے تھے۔۔۔ایک خواہش کرتا تھا کہ وہ جائے اور ایمانے کو ویسے ہی لے آئے جیسے عبدل چاہتا تھا اور دوسرا اسے روک دیتا تھا۔
اس کی زندگی نارمل نہیں تھی پھر وہ کیسے کسی لڑکی کو اپنے ساتھ گھسیٹ لیتا؟؟ اسے تو یہ بھی نہیں پتا تھا وہ کب کہاں مرجاتا۔۔۔جتنے اس نے اندھیری دنیا میں دشمن بنا لیے اسے اپنی زندگی کا بھروسہ نہیں تھا۔۔
اور پھر کیا اگر وہ ایمانے کے سامنے جائے اور وہ اس سے پوچھ لے ”کون ہو تم؟؟“ پھر کیا جواب دیتا وہ۔۔۔؟؟
سوچ کے تانے بانوں میں اس نے یہی فیصلہ کیا تھا وہ کبھی اسے نہیں ڈھونڈے گا۔۔۔اس سے نہیں ملے گا۔۔۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑا تھا۔۔ اس نے اپنے دل کے مقام پر نظر ڈالی۔۔ اور پھر وہاں داہنا ہاتھ رکھا۔۔
”کیا ہوا اگر تم یہاں رہتی ہو؟؟“ کسی کو معلوم تھوڑی تھا۔۔اور یہ ایسی چاہت تھی جس میں پانے کی تمنا نہیں تھی نہ کھونے کا ڈر تھا۔۔ اور یہ دل کب دھڑکنا بند کردیتا وہ خود نہیں جانتا تھا۔۔۔ اور اسے لگتا تھا کبھی کوئی اور لڑکی اس مقام تک نہیں پہنچ پائے گی۔۔۔کیونکہ کسی اور کے پاس وہ چمکتے نشان نہیں تھے جو ایمانے کے پاس تھے اس کی ماں کی طرح۔۔۔ تو طے تھا وہ اس دل سے تب ہی نکلنے والی تھی جب یہ ساکت ہوجاتا۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
لیکن وہ تب یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ اس سے ایما کے روپ میں بات کرنے سے پہلے بھی ایک بار بات کرچکا تھا۔۔۔ تب جب مس ایلف نے اس کا نمبر دیا تھا۔۔۔یہ وہ لڑکی تھی جس کے پاس وہ ایک ہی بیگ تھا جو مس ایلف نے ایک ہی پیس بنایا تھا۔۔ آرجے برینڈ کا بیگ جو ایمان کو اس کی دوست بینش مستقیم نے دیا تھا۔۔ وہ ام ایمان نام پر چونکا ضرور تھا پر جیسے ہی اس نے فون ملایا اس کے سامنے ہی ایک برا حادثہ ہوا تھا۔ یہ اتنا خطرناک تھا کہ ایک لڑکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی۔اس پل اسے عجیب احساس ہوا اور وہ فون بند کرکے آگے بڑھ گیا۔۔۔اس نے دوبارہ کبھی فون نہیں کیا۔
وہ اپنے جذبات کو خود تک رکھتا۔۔۔وہ ڈرتا تھا کہیں ایمانے ویسی لڑکی نہ ہوئی جیسے اس نے اپنے دل میں اس کی تصویر بنا ڈالی تھی تو پھر کیا ہوگا۔۔۔؟؟
کچھ ایسے سوال تھے جو اسے باز رکھتے تھے۔۔۔وہ ایک اور لڑکی کو جانتا تھا۔۔ ایمان بنت عبداللہ جو اس سے سوال کرتی تھی اپنی الجھنوں کے جواب مانگتی تھی۔۔۔
اور وہ پوری ایمانداری سے جواب دیتا تھا۔۔۔اسے وہ لڑکی سب سے الگ لگی تھی۔۔۔اس کی سوچ الگ تھی وہ کچھ الگ کرنا چاہتی تھی۔۔۔تب بھی اس نے چاہا تھا کہ ایمانے بھی ایسی ہی ہو۔۔۔
وہ اسے کبھی اپنی دعاؤں سے نہیں نکال پایا۔۔۔وہ ایمان بنت عبداللہ سے اکیڈمی میں ملا تب اسے یقین ہوگیا کہ وہ لڑکی واقعی الگ ہے۔۔۔وہ اسے اچھی لگی تھی۔۔ وہ اسے اپنی ٹیم کا حصہ بنانا چاہتا تھا اور پھر اس پر یہ بھیانک انکشاف ہوا کہ وہ ایما، ایمان بنت عبداللہ اور ام ایمان وہ سب تو وہی ایک تھی۔ ایمانے۔۔۔۔جو اس کے دل میں رہتی تھی۔۔۔
وہ ساکت رہ گیا تھا۔۔۔ اس رات نہ صرف اس نے عبدل سے مار کھائی تھی بلکہ اس رات اس نے ایمانے کا نہیں بلکہ اپنا ہی دل ٹکڑوں میں توڑ ڈالا تھا۔۔۔۔۔
”مجھے تو اس محبت سے محبت تھی جو آپ اللہ سے کرتے ہیں۔۔۔“
وہ جیسے پتھر ہوگیا تھا۔۔۔تو کیا وہ اسے جانتی تھی؟؟ کیا وہ پہچانتی تھی؟؟؟ کیا اس نے کبھی حاد کو سوچا تھا۔۔۔؟؟؟
وہ جو سالوں سے کسی پلان میں فیل نہیں ہوا تھا جو کسی فائٹ میں نہیں ہارا تھا۔۔
وہ اپنے اس بھائی سے، جسے اس نے سالوں میں ڈھونڈا تھا، بے طرح مار کھاتا رہا تھا۔
جو سالوں سے کسی مشن میں ناکام نہیں ہوا تھا وہ جو ہر چیز کے بارے میں پورا نالج رکھتا تھا۔۔۔جس کی ریسرچ بےمثال ہوتی تھی۔۔۔
وہ پہلی بار فیل ہوگیا تھا۔۔۔ اسے ہرایا بھی گیا تو کس سے؟؟ اس کے اپنے ہی دل سے۔۔۔ ہاں قدرت جب ہمیں ہراتی ہے تو باہر کے لوگوں کا سہارا نہیں لیتی۔۔۔وہ ہمیں اندر سے جکڑتی ہے۔
”میں سوچتی تھی میں کمزور دل ہوں کیسے سہہ پاؤں گی میرا پسندیدہ شخص جب کسی اور کا ہوگا۔۔ پر میں نے یہ نہیں سوچا تھا میرا پسندیدہ شخص جب میرا دل توڑے گا تو کیسے سہوں گی؟؟“
اس پر حقیقت آشکار ہوئی تھی اور وہ بت بنا کھڑا تھا وہ اسے دیکھ ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔ کیسے دیکھتا۔۔؟؟؟
اس کا دل تو اس وقت لرز گیا تھا وہ دل جس نے سالوں سے تکلیف محسوس نہیں کی تھی۔۔ وہ دل اس وقت تڑپ رہا تھا۔۔۔اس کا دل کر رہا تھا وہ آگے بڑھ کر اسے روک لے۔۔۔اس کا ہاتھ تھام لے اور اسے بتائے کہ اس نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا پر وہ ایک اپنی پلکیں تک نہیں جھپک پایا تھا۔
”ذہانت جب چالاکی میں بدلنے لگے تو انسان شیطان بننے میں زیادہ وقت نہیں لیتا۔۔۔۔“
وہ جو اندھیرے اجالے کی دنیا میں بلندیوں کا بادشاہ تھا اسے ایمانے نے ایک پل میں زمین پر لا پٹخا تھا۔۔۔ وہ جیسے سانس روکے کھڑا تھا۔۔۔اس نے اپنی صفائی میں ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔
”ہمیں اپنے حصے کی محبت اللہ سے خود کرنی پڑتی ہے، میں یہ بھول گئی تھی۔۔۔“
”اور آج سے میں یہ بھی بھول گئی کہ حاد جبیل کون ہے۔۔“
اسے لگا تھا وہ کبھی زمین سے اٹھ نہیں پائے گا۔۔۔۔
عبدل چلا گیا تھا۔۔۔وہ چلی گئی تھی۔۔۔اور پیچھے صرف وہ رہ گیا۔۔۔وہ وہیں سجدے میں گر گیا تھا۔۔
”نہیں میں شیطان نہیں ہوں۔۔۔“
وہ تڑپ اٹھا تھا۔۔۔اسے اللہ نے ایک پل میں اس کی اوقات یاد دلا دی تھی کہ اگر وہ ذرا سا بھی چوکا تو انجام کیا ہوگا۔
اس دن وہ اپنے اندر کے پہلے بت ٹوٹنے پر اللہ کے مزید قریب ہوا تھا۔۔۔
اللہ کو غرور نہیں پسند تو وہ کیسے خود کو ماسٹر مائنڈ سمجھ سکتا تھا جبکہ ڈور اللہ کے ہاتھ میں ہو۔۔۔ اسے اللہ نے آسمان سے اتارا تھا پر رکھنا تو زمین پر ہی تھا نا اور اس کے لیے ضروری تھا یہ سب ہوتا۔۔۔ یہ سب طےشدہ تھا۔۔ یہ سب ضروری تھا۔۔۔یہ سب لازمی تھا۔۔ ام ایمان کے لیے بھی اور حاد جبیل کے لیے بھی۔
اللہ کی بڑائی دل میں مزید بڑھ گئی اور اس کے ساتھ ہی ایمانے سے محبت بھی۔۔۔ آج اس پر صحیح معنوں میں آشکار ہوا تھا کہ وہ لڑکی کیوں اس کے دل کی مسند پر اتنی اونچائی پر بیٹھی تھی اور پچھلے تیرہ سالوں میں ایک پل کو بھی وہاں سے نہیں ہلی۔۔۔۔
کیونکہ وہ بھی پچھلے کئی سالوں سے اپنی پوری سفیدی کے ساتھ ہمیشہ ایمان کی زندگی میں رہا تھا۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
کچھ چیزیں اتنی آسانی سے طے نہیں پاتیں جتنا ہم نے سوچ رکھا ہوتا ہے۔ عبدل اور ادھم مل تو گئے تھے پر کھیل بدل گیا تھا۔۔۔حاد جبیل کو شطرنج کے اس کھیل میں اپنی ہی رانی سے شکست ہوئی تھی وہ بھی ایسی کہ اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔۔
اس نے فیصلہ کیا تھا وہ کبھی ایمان کے سامنے نہیں جائے گا۔۔۔جان بوجھ کر یا انجانے میں۔۔۔کبھی نہیں۔۔پر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔۔۔ ایمان کا نکاح ہوگیا تھا۔۔ اور وہ خاموش تھا۔۔۔اس کا سر جھکا ہوا تھا۔۔۔ کیونکہ اسے اپنا آپ اس قابل نہیں لگتا تھا۔ وہ اس کا دل توڑ چکا تھا۔۔۔پر ان کے راستے پھر سے ٹکرائے۔۔۔وہ اسے کبھی نہیں بھول پایا۔۔۔۔
لیکن ایمان پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔۔ اس کی طلاق۔۔۔اس کا غائب ہونا اور پھر اس کا گہرے کہرے میں کھوجانا۔۔۔
وہ اس کے ساتھ رہا۔۔۔وہ اسے نہیں چھوڑ پایا۔۔۔۔ وہ چاہ کر بھی خود کو اس سے دور نہیں رکھ پایا۔۔۔وہ چاہتا تھا وہ ٹھیک ہوجائے اپنی زندگی جیے تاکہ وہ اس گلٹ سے نکل سکے جو اسے سکون کی سانس نہیں لینے دیتا تھا۔۔۔وہ اسے نہیں چھوڑ پایا تب جب اس کے اپنے چھوڑ گئے تھے۔۔۔
پھر وہ ٹھیک ہوگئی۔۔۔ پھر اس نے ایک سال اسے بنا دیکھے گزارا۔۔۔وہ چاہتا تھا وہ مضبوط بنے۔۔۔وہ بن گئی تھی اور اب لوگوں کو اس کا مضبوط بننا پسند نہیں آیا تھا۔۔۔
آج ایک بار پھر حاد کے دل کی پوری دنیا ہلا کر وہ پھر سے نہیں جا سکتی تھی۔۔۔وہ اسے جانے نہیں دے سکتا تھا۔۔۔وہ اسے دوبارہ نہیں کھو سکتا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”میں حاد جبیل ہوں۔۔۔کیا میں آپ کو یاد ہوں؟؟ میں نے آپ سے کہا تھا ایمانے کا خیال رکھیے گا وہ بہت خاص ہے میری مام کی طرح۔۔۔“
وہ روتی ہوئی سلمی بیگم کے قریب آبیٹھا تھا۔۔۔ سلمی بیگم نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔ وہ گرے آنکھوں والا بچہ انہیں آج بھی یاد تھا۔
”لیکن افسوس ہے ہم سے کوئی بھی اس کا خیال نہیں رکھ پایا۔۔۔“ وہ اب بالکل ٹھیک تھا۔۔۔کہیں سے نہیں لگ رہا تھا یہ کچھ گھنٹے پہلے والا حاد تھا جسے لگ رہا تھا وہ ایمان کے ساتھ ہی مرجائے گا۔ سلمی بیگم تو جیسے رونا بھول گئی تھیں۔
”میں دو سال پہلے پرماننٹ پاکستان شفٹ ہوا اور پہلے ہی دن میں آپ کے بتائے گئے پتے پر گیا تھا۔۔ جو آپ نے مجھے تب دیا تھا جب میں چھ سال کا تھا اور میں کبھی بھول نہیں پایا۔۔۔ پر میں دروازے سے ہی لوٹ گیا۔۔۔ڈر تھا کہ کہیں آپ مجھے پہچاننے سے انکار نہ کردیں۔۔۔ اور میں جاتا بھی تو کس حق سے۔۔۔پر ہم دونوں بھائی کبھی ایمانے کو نہیں بھول پائے۔۔۔“ وہ اب سنجیدگی سے بتا رہا تھا۔
”رونے سے کچھ نہیں ہوگا اللہ دعائیں سنتا ہے اور قیمتی چیزوں کو تو رو رو کر مانگا جاتا ہے۔۔آپ بھی اس کی زندگی مانگیں۔۔۔وہ بہت قیمتی ہے۔“
سلمی بیگم حیرانی سے اسے سن رہی تھی وہ اس لڑکے کو ٹی وی پر کئی بار دیکھ چکی تھی اور وہ انہیں پسند تھا۔
وہ کچھ دیر اور بیٹھا رہا انہیں تسلی دیتا رہا کیونکہ اس وقت وہ یہی کر سکتا تھا۔
ایمان اب ہوش میں تھی پر اس کی حالت کافی خراب تھی۔ اس کے جسم کی دو ہڈیاں ٹوٹی تھیں اور وہ ہل بھی نہیں پارہی تھی۔
تیسرے دن وہ بات کرنے کے قابل ہوئی تھی۔ سلمی بیگم حمیزہ اور حاد تینوں وہیں تھے۔۔۔ سلمی بیگم اور حمیزہ کے بعد وہ اس سے ملنے آیا تھا۔۔۔ اور وہ آنکھیں بند کرکے لیٹی رہی۔۔۔ جان بوجھ کر۔۔۔ جسمانی تکلیف اپنی جگہ پر اندر دل بھی تو ٹوٹا تھا نا۔۔
”اب وہ تمہیں نہیں دیکھے گی۔۔۔جیسے تم ہو ہی نہیں۔۔۔“
حانم کی بات جیسے سچ ہوگئی تھی۔۔اگلے کچھ دنوں میں وہ بولنے لگ گئی تھی وہ اس سے بھی بات کرتی تھی لیکن نظر اٹھا کر دیکھتی نہیں تھی۔۔۔وہ جتنی دیر پاس رہتا وہ نظریں کسی غیر مرئی نکتے پر ٹکائے رکھتی۔۔۔
وہ صرف اپنے دل سے واقف تھی اگر وہ اسے نظر بھر کر دیکھتی تو اس کی گرے آنکھوں میں چھپی تکلیف جان جاتی۔۔۔اس کے دل کی حالت دیکھ پاتی پر اس نے دیکھا ہی نہیں۔۔۔
وہ حاد جبیل جس نے جانے کتنے سجدے کیے تھے کہ وہ سانس لے وہ جی اٹھے۔۔۔وہ اب سانس تو لے رہی تھی پر اس نے حاد کی سانسیں روک لی تھیں۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
دو ہفتے گزر گئے تھے۔۔۔۔کندھے اور پاؤں کے علاوہ کافی زخم بھر چکے تھے۔۔ آج اسے ہسپتال سے خارج کیا جانا تھا۔۔حاد کا ماننا تھا کہ اس کا باقی علاج گھر پر بھی ہوسکتا تھا۔۔ہسپتال ویسے ہی انسان کا سکون چھین لیتا ہے۔۔۔سلمی بیگم اور حمیزہ کی حالت وہ دیکھ چکا تھا۔۔
وہ دونوں اس کے کمرے کے باہر بیٹھی تھیں اور وہ کلیرنس کرواتا پھر رہا تھا۔
”پتا نہیں میری بچی کے نصیب میں اتنے دکھ کیوں ہیں۔۔پہلے ہی وہ طلاق یافتہ ہے اگر اب پاؤں ٹھیک نہ ہوا اور وہ ٹھیک سے چل نہ پائی تو کون کرے گا اس سے شادی۔۔۔؟؟“ وہ ماں تھی اور انہیں ڈر تھا شاید سبھی مائیں ایسی ہوتی تھیں۔ اور یہ سن کر حمیزہ کو تو جیسے سکتہ ہوگیا۔
”امی اللہ کا خوف کریں۔۔کیسی باتیں کر رہی ہیں۔۔ شکر کریں آپی زندہ ہیں۔۔۔“
”ایسے زندہ ہونے کا کیا فائدہ جب انسان مردوں جیسی زندگی جیے۔۔“ ایک ماں ہونے کے ناطے وہ بہت دکھی تھیں۔
”وہ ام ایمان ہیں۔۔ وہ ٹھیک ہونا جانتی ہیں اور وہ بہت جلد بالکل ٹھیک ہوجائیں گی۔۔“
”پر مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔تمہیں یاد نہیں اس عامل نے کیا کہا تھا۔۔دو شادیاں ٹوٹیں گی ایمان کی اور وہ کبھی سکون سے نہیں جی پائے گی۔۔۔“
”نعوذبااللہ۔۔اللہ ہمیں معاف کرے۔۔۔“ حمیزہ نے اپنے غم او غصے پر قابو پاتے اونچی آواز میں کہا۔
”آپ آج بھی وہیں اٹکی ہیں۔۔۔ امی آپ آج بھی اس بات پر یقین کرتی ہیں؟؟“
”سچ تو ہوئی ہے اس کی بات۔۔۔ایمان کی طلاق۔۔۔“
”بس کریں امی۔۔۔“ وہ چڑ گئی۔ ”دوبارہ ایسی بات مت کیجیے گا۔۔۔“ وہ اب گہرے سانس لیتی خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ سلمی بیگم گہرے رنج کی کیفیت میں تھیں۔
”امی پتا ہے آپی کو طلاق کیوں ہوئی؟؟ کیونکہ وہ انسان اس قابل نہیں تھا۔۔ آپ نے آپی کی دلی رضامندی کے بغیر وہ نکاح کیا تھا۔۔ جہاں دل نہیں جھکا وہاں آپ نے آپی کو زبرستی باندھ دیا۔۔۔۔ اللہ نے آپی کی طلاق سے یہ واضح نہیں کیا اس جعلی عامل کی باتیں سچ تھیں بلکہ آپ پر واضح کیا کہ آپ نے اپنی بیٹی کے لیے ایک غلط انتخاب کیا۔۔۔آپ نے اپنی بیٹی پر ایک ایسے شخص کو مسلط کیا جسے وہ جانتی تک نہیں تھیں۔۔ اللہ نے اس طلاق سے آپی کو نہیں آپ کو سبق دیا تھا کیونکہ غلطی آپ کی تھی۔۔۔آپ نے اپنی بیٹی پر بھروسہ نہیں کیا۔۔ آپ نے اسے ایک پرفیکٹ روبوٹ سمجھا اور پھر توقع کی کہ وہ اس رشتے کو دل سے نبھائے جس پر اس کا دل کبھی راضی نہیں تھا۔۔“
سلمی بیگم حیرت سے اسے دیکھے گئیں۔۔۔ان کی یہ چھوٹی بیٹی کب اتنی سمجھدار ہوئی تھی انہیں پتا ہی نہیں چلا۔
”امی آپی کہتی ہیں انسان اپنے انتخاب کی اپنے اعمال کی زمہداری نہیں لیتا اور آپ نے بھی نہیں لی۔۔۔الٹا آپ نے آپی کو بےایمان سمجھ لیا۔۔۔اسے بےایمان بنا دیا جس نے ساری زندگی آپ سے خیانت نہیں کی۔۔۔“
حمیزہ کے گلے میں آنسوؤں کا گولا سا اٹک گیا تھا جسے وہ اندر اتارنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”آخر آپ ماں باپ اپنی غلطیوں کی زمہداری کیوں نہیں لیتے ہیں؟؟ اولاد پر کیوں ڈالتے ہیں۔۔۔؟؟“ وہ اب سرخ نگاہوں سے انہیں دیکھتے پوچھ رہی تھی۔
”میں نے تو اس کا بھلا چاہا تھا۔۔۔“ سلمی بیگم ان نگاہوں میں نہیں دیکھ پائی۔
”آپ اس کی شادی تو کرنا چاہتی ہیں لیکن خوفزدہ ہیں کہ کہیں عامل کی بات سچ نہ ہوجائے اور دوسری شادی بھی۔۔۔“ وہ ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہی تھی۔
”ایک جعلی عامل پر اتنا بھروسہ ہے آپ کو اور ایک سچے خدا پر ذرا بھی نہیں۔۔۔؟؟“ سلمی بیگم کا دل لرز اٹھا۔
”پہلے آزمائش ہوتی ہے پھر انعام ملتا ہے۔۔ آپ کو اللہ پر یقین رکھنا چاہیے تھا پر آپ نے نہیں رکھا۔۔۔آپ کے دل میں ہمیشہ ہی چور رہا امی۔۔۔“ وہ اب گہرا سانس لیتے بولی۔
”ہمارا دماغ میگنٹ کی طرح کام کرتا ہے ہم جو سوچتے ہیں وہی اپنی جانب کھینچتے ہیں۔۔۔آپی ایسا کہتی ہیں۔۔اور آپ نے ہمیشہ منفی سوچا۔۔۔اور اسی کو ہماری زندگیوں کی جانب کھینچا۔۔۔ کاش کہ آپ نے توکل رکھا ہوتا۔۔۔“
”کیسی باتیں کر رہی ہو میں کیوں برا سوچوں گی اپنی اولاد کا۔۔۔“
”آپ نے سوچا نہیں پر آپ نے کیا ضرور۔۔۔ اگر آپ آپی کو اکیلا نہیں چھوڑتیں تو شاید وہ پاگل نہ ہوتیں۔۔۔وہ آپ کی غلطی تھی امی۔۔۔آپ نے غلط کیا تھا۔۔۔“
”مجھے نا کبھی کبھی آپی پر رشک آتا ہے کہ کیسے اللہ نے اسے اس شخص کے غلیظ ارادوں سے بچا کر رکھا اور کتنی آسانی سے اس کے چنگل سے نکال لیا۔۔ سوچا ہے آپ نے کبھی ایسا؟؟ ورنہ ہزاروں لڑکیاں ماں باپ کے اپنے لیے چنے گئے غلط انسان کے ساتھ ساری زندگی تڑپ کر تشدد سہہ کر گزارتی ہیں۔۔ آپی تو لکی ہیں جو انہیں اللہ نے ہمیشہ اپنی رحمتوں تلے رکھا۔۔۔ وہ آزمائش تو شاید آپ کے لیے تھی آپ نے سمجھا ہی نہیں۔۔۔“ حمیزہ نے ہاتھ بڑھا کر گال پر پھسل جانے والے آنسوں کو رگڑ کر پونچھا۔
”پتا ہے ماں باپ سے اولاد کی پہچان ہوتی ہے۔۔۔کہ یہ فلاں کی بیٹی ہے۔۔۔فلاں کا بیٹا ہے۔۔۔کبھی سوچا ہے آپ نے کہ آپی کی وجہ سے لوگ آپ کو جانتے ہیں۔۔ آپ کبھی ہسپتال چلی جائیں تو سب روک کر پوچھتے ہیں کہ آپ ام ایمان کی ماں ہیں۔۔۔؟؟ اور پاپا۔۔“
وہ پھیکا سا ہنس دی۔
”ایمان بنت عبداللہ۔۔۔ ان سے نفرت کے باجود ان کا نام خود کے نام سے نہیں ہٹایا۔۔۔ اپنی پہچان میں ان کے نام کو جوڑے رکھا۔ کیا اولاد ایسے ذلیل کرتی ہے؟؟ کیا اس کو ذلالت کہتے ہیں۔۔۔؟؟اگر ہاں تو پھر اللہ سب کو ایسی اولاد دے۔۔۔“
وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔سالوں کا غبار تھا جو آج باہر نکل آیا۔۔۔ حمیزہ نے خود کو پرسکون ہوتے محسوس کیا جبکہ سلمی بیگم کے تو جیسے الفاظ کھو گئے تھے۔
”اور اللہ پر کامل یقین نہ کرنے کے باوجود بھی، کیا ہو اگر وہاں دور آسمانوں کے پار آپ کا ذکر ہوتا ہو۔۔۔۔“ اس نے اس بار چمکتی آنکھوں سے سلمی بیگم کو دیکھا۔
”فرشتے کہیں کہ دیکھو یہ اُم ایمان کی ماں ہے۔۔“
اور سلمی بیگم کو لگا تھا وہ سانس نہیں لے پائیں گی۔۔۔۔۔۔دل جیسے بند ہوگیا تھا۔۔۔ سارا خون نچڑ کر چہرے پر آگیا تھا۔ وہ انہیں ساکت چھوڑ کر راہداری میں آگے بڑھ گئی تھی۔ وہ حاد سے پوچھنا چاہتی تھی کہ اور کتنی دیر لگے گی۔۔۔۔ وہ چلتی جارہی تھی اور سلمی بیگم کی نگاہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔
اور عبادت تو سب کرتے ہیں، ہم توکل نہیں کر پاتے۔۔۔اور جب ہم اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارا ذکر ہوتا ہے۔۔ تنہائی میں کرتے ہیں تو ہمیں تنہائی میں یاد کیا جاتا ہے اور جب ہم ایک مجمعے میں اللہ کی باتیں کرتے ہیں۔۔ اس کے بارے میں بتاتے ہیں۔۔۔لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہے۔۔۔اللہ ہے! وہ ہمارا ہے ہم اس کے ہیں تو پھر کیسے وہ ہمیں نہیں جانتا ہوگا۔۔۔ کیسے وہاں اوپر ہمیں نہیں یاد کیا جاتا ہوگا۔۔۔کیسے بھلا؟؟
اور ان دو لوگوں نے اپنی زندگی میں اللہ کو سب سے پہلا رکھا تھا۔۔۔ حاد جبیل اور ام ایمان۔۔ پھر کیسے ممکن تھا ان پر آزمائشیں نہ آتیں؟؟ اللہ جن سے محبت کرتا ہے انہیں ہی آزماتا ہے۔
✿••✿••✿••✿
جاری ہے
Maseel Episode 57 is now available , click here
Haad jabeel such a beautiful and excellent character yani haad jitna successful tha is Tarha usne itne he takleef bardasht ke the I'm agree from you I like this novel ❤️ there is no word for this such a great novel
ReplyDeleteufff wonderful no words to explain
ReplyDeleteI have no words to explain my feelings 😘 mindblow
ReplyDeleteUfff had jabeel
ReplyDeleteEpisode bht Amazing tha....... Bht kuch seekhny ko mila.... Ume iman and hadd jabeel story was wonderful.... But i have a question story is about hadd and eman but novel name is Maseel why.....
ReplyDeleteMind-blowing novel
ReplyDeleteYou have written three characters in a single novel of a different kind.
ReplyDeleteVery very very appropriating.
Great job 👍
Keep it up
Bht zbardast novel h eman or had jabeel ki story amazing
ReplyDeletenovel ka hero to maseel tha novel ka name bhi us kai name pr rkha but ab yai had jabeel . His character is good but no one can beat maseel. iman kai sath maseel hi acha lgta hai
ReplyDeletenovel ka hero to maseel tha novel ka name bhi us kai name pr rkha but ab yai had jabeel . His character is good but no one can beat maseel. iman kai sath maseel hi acha lgta hai
ReplyDeleteeman always suits with haad and she likes haad so much
ReplyDeleteNo words for this amazing novel
ReplyDeleteDon't know why par mujhy haad sy zyada abdul pasand🥺uska dil ni tutna chaiye writer sahiba plz
ReplyDeleteSame
DeleteNext plz waiting hardly
ReplyDeleteNew Episode has been uploaded.
DeleteNext episode plz
ReplyDeleteHardly waiting for next episode
ReplyDeletewriter ap bohat acha likti ha sulphite and maseel mera favourite novel ha ap asa hi acha acha likti raha inshaallah
ReplyDeleteUmera and nimra ahmad ky bad noor rajpoit ky novels sulphite and maseel ache lage hy zabardast nivel hy story line kafi achi hy maseel novel ki but novel ky name ki base kia hy samaj nai ai wase i like haad and abdul bith but as eman loves haad so i also love him
ReplyDelete