مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_55
نور_راجپوت
“اور اگر کبھی تم خود کو اندھیروں میں پاؤ تو ڈرنا مت، بالکل بھی مت گھبرانا، سب سے پہلے ایک لمبی سانس لینا اور خود کو ریلیکس کرنا۔ اپنی کمزوری کو ظاہر مت ہونے دینا۔ اور پھر سوچنا کہ تم اس اندھیرے سے کیسے نکل سکتے ہو۔۔“
حاد نے آنکھیں کھولیں تو خود کو گہرے اندھیرے میں پایا۔ روحان جبیل کے الفاظ اس کی سماعت میں گونجے۔۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر اندھیرے میں دیکھنا چاہا پر وہ کچھ نہیں دیکھ پایا۔۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو اسے احساس ہوا ہوا کہ وہ بندھا ہوا ہے وہ ایک انچ بھی نہیں ہل پایا۔ پھر اس نے گہرا سانس لیا۔
”یاد رکھنا کوئی تمہیں بچانے نہیں آئے گا کیونکہ کوئی کسی کو بچانے نہیں آتا۔۔“
اس کا معصوم ذہن اس وقت جن باتوں کو سمجھنے سے قاصر تھا اسے اب سمجھ آرہی تھیں۔ شاید اس کا باپ جانتا تھا کہ کچھ ایسا ضرور ہوگا۔
”سب سے پہلے اللہ کو پکارنا اور خود کو اسے سپرد کردینا۔ کیونکہ تمہارے اندھیروں میں صرف وہی ایک تمہارے ساتھ ہوگا۔۔ “
اچانک اسے آہٹ سنائی دی۔ کوئی اسی کی جانب آرہا تھا۔
”نہیں اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا ہوگا۔۔۔“ کوئی اسی کے متعلق بات کر رہا تھا۔ اس نے زور سے آنکھیں میچ لیں کہ کہیں وہ اس کے اتنی جلدی ہوش میں آنے پر اس کے ساتھ کچھ کریں نا۔۔ یہ سچ تھا اسے جسمانی درد کم محسوس ہوتا تھا لیکن اسے خوف ضرور محسوس ہوتا تھا۔۔ انسان کے اندر جو خوف ہوتا ہے ایک انجانا خوف اور پھر ایک سات سالا بچہ خوفزدہ نہ ہوتا تو کیا کرتا؟؟
”ہمیں اس کے جلد از کچھ ٹیسٹ کرنے چاہئیں۔۔“ اور پھر ایک کسی نے بٹن دبا کر روشنیاں جلادیں۔ وہ سوتا بن گیا اس نے جیسے اپنا سانس تک روک لیا تھا۔ آنکھیں بند تھیں تو وہ دیکھ نہیں پایا اس کے اردگرد کیسے لوگ تھے۔
”دیکھنے سے تویہ بالکل نارمل لگ رہا ہے۔۔“ دو مختلف آوازیں تھیں۔ وہ سب ایک جیسے کپڑے پہنے ہوہے تھے۔ آسمانی رنگ کے۔۔کسی یونیفارم کی طرح۔۔۔اور سب کے چہرے پر ماسک تھا۔ ایک آدمی آگے بڑھا اور اس نے حاد کا ہاتھ کھولتے ہوئے اس کی بازو میں کندھے سے ذرا نیچے سے سرنج لگا کر خون نکالنا شروع کردیا تھا۔۔ کوئی اسے چھو رہا تھا یہ محسوس ہوا تھا۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد وہ سب چلے گئے۔۔۔اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو لیب کا منظر واضح ہوا۔۔۔ یقیناً اس کے اغواء کرنے والے اسے جانتے تھے۔
اور پھر کچھ دیر بعد انہوں نے اسے بہت ساری مشینوں میں جکڑ کر ایک کرسی پر بٹھایا تھا۔۔۔اس کے سر پر عجیب سی مشین لگی تھی اور اس کے سینے کو لوہے کی مشین نے جکڑا ہوا تھا۔۔۔اسے خوف محسوس ہورہا تھا اور اس خوف سے اس کے دل کی دھڑکن تیزی سے چل رہی تھی۔ وہ عجیب سے خالی کمرے میں اکیلا تھا جہاں صرف اس کی کرسی تھی اور شیشے کے اس پار ایک شخص ایک بازو سینے پر جمائے جبکہ دوسرا ہاتھ ٹھوڑی نیچے رکھے گہری نظاہوں سے دیکھ رہا تھا اس کے ساتھ ہی تین چار افراد بیٹھے تھے جن کے چہرے پر ماسک لگا تھا۔۔ ان کے سامنے اسکرینیں تھیں۔ اب اس سے پہلا سوال کیا گیا۔
”تمہارا نام کیا ہے؟؟“
”حاد۔۔۔“ اس نے سامنے کھڑے شخص کو غور سے دیکھتے جواب دیا۔ وہ خود کو پرسکون رکھنے اور نہ ڈرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔
”کیا تم روحان جبیل کے بیٹے ہو۔۔۔؟؟“
وہ خاموش رہا۔۔ اس نے اس بار جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔۔وہ بار بار پوچھتے رہے لیکن وہ نہیں بولا۔
”کہاں سے آئے ہو؟؟“ اس بار کھڑے ہوئے شخص نے جھکتے ہوئے میز پر ہاتھ رکھے اور پوچھا۔
”آسمانوں سے۔۔۔“
”کیا تم وہی خاص بچے ہو؟؟“
”جو آسمانوں سے آتا ہے وہ خاص ہوتا ہے۔۔“
”کیا تمہیں درد نہیں ہوتا۔۔؟؟“
وہ پھر خاموش رہا۔۔۔اسے اپنے گھر والوں یاد آئی تھی۔یقیناً وہ اسے ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ وہ جلد از جلد یہاں سے جانا چاہتا تھا۔ پر ان لوگوں کا اسے چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
✿••✿••✿••✿
اس کے اغواء کی خبر ایسی تھی کہ حانم سکتے میں چلی گئی تھی۔۔۔اسے ہر جگہ ڈھونڈا جارہا تھا۔۔ عبدل کو شدید افسوس تھا وہ اس کے سامنے حاد کو لے گئے تھے اور وہ کچھ نہیں کر پایا تھا۔۔
”اچھا ہوا وہ چلا گیا۔۔۔“ کبھی کبھی وہ سوچنے لگتا لیکن پھر اپنی ماں کی حالت دیکھتا اور کبھی اسے خود حاد یاد آنے لگتا۔۔ پاکستان سے سید جبیل اور حمدان صاحب آئے تھے۔۔ اسے ہر جگہ ڈھونڈا جا رہا تھا پر ایسا لگتا تھا جیسے اسے زمین نگل گئی ہو۔ وہ کہیں نہیں ملا تھا۔۔
حانم کبھی رونے لگتی تو کبھی اللہ سے فریاد کرتی۔۔ کہیں نہ کہیں وہ جانتی تھی اسے کیوں اغواء کیا گیا تھا اور یہی بات اسے تکلیف پہنچاتی تھی۔ سید جبیل صاحب پوری کوشش کر رہے تھے۔۔۔ حانم نے اس شخص جتنا حاضر دماغ اور مضبوط آدمی نہیں دیکھا تھا جس نے جوانی میں اپنی بیوی کو کھو دیا تھا اور پھر بیٹے نے ہمیشہ تنگ کیا جب وہ سدھر گیا تو غائب ہوگیا۔۔ اس کی جدائی نے سید جبیل کو جس تکلیف میں ڈالا تھا یہ صرف وہی جانتے تھے پر انہوں نے کبھی ظاہر نہیں کیا اور اب پوتے کی گمشدگی۔۔۔
وہ جیسے چٹخ سے گئے تھے لیکن پھر بھی خود کو سنبھالے رکھا۔ اگر وہی ہمت ہار جاتے تو باقیوں کا جانے کیا ہوتا۔
✿••✿••✿••✿
اور پھر جیسے ہی اس کے سارے ٹیٹس ختم ہوئے اس پر تجربات کا ایسا دور چلا کہ اس کی روح تک کانپ اٹھی تھی۔۔ اسے ان اندھیروں میں پھینک دیا گیا جس سے ابھرنا عام انسان کے لیے ناممکن تھا۔۔۔ وہ ساری زندگی بھٹکتا رہتا۔
اسے دنوں تک بھوکا پیاسا رکھا جاتا۔۔۔ تب تک الیکٹرک شاک دیے جاتے جب تک وہ درد سے چلاتا نہیں تھا۔۔
پہلے شدت ریکارڈ کی جاتی کہ کس شدت پر اس کا جسم درد محسوس کرتا ہے اور پھر تب تک اسے شاک دیتے جب تک وہ بےہوش نہ ہوجاتا۔۔۔ نوٹ کیا جاتا تھا کہ کب تک وہ یہ سب برداشت کر سکتا تھا۔۔۔
دوسرے تجربے میں اسے ٹھنڈے کمرے میں بند کردیا گیا۔۔ جس کا ٹمپریچر وقت کے ساتھ ساتھ مزید گرتا جارہا تھا۔۔ اس کے جسم پر لباس نہیں تھا۔۔
”ڈونٹ ڈو دس۔۔۔“ اس نے اپنے کپڑے اتارتے ایک ماسک والے شخص سے منت کی تھی۔
”پلیز ڈونٹ ڈو دس۔۔“ لیکن اس کی منتوں کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔۔ وہ ان کے لیے ایک تجرباتی نمونے سے کم نہیں تھا۔۔۔ ایک سلور کی دیواروں والے ایسے کمرے میں جس کا درجہ حرارت ہر منٹ گر رہا ہو وہ دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔۔ اس کا وجود ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔۔مسلسل دیے گئے الیکٹرک شاک سے اس کے جسم میں کافی کمزوری ہوگئی تھی۔۔اور وہ لوگ اس کمزوری کو دور کرنے کے لیے اسے طاقت کے انجیکشن لگاتے تھے تاکہ وہ فوراً ری کور کر جائے۔۔۔
درجہ حرارت گر رہا تھا اور یہاں تک گرچکا تھا جہاں ایک نارمل انسان آسانی سے مر سکتا تھا اور وہ پچھلے کافی گھنٹوں سے قید تھا۔
”کسی انسان سے کبھی رحم کی بھیک مت مانگنا کیونکہ وہ اس قابل نہیں ہوتے اور نہ رحم کرتے ہیں۔۔“
وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھا تھا۔
”ماما کہتی ہیں اللہ سنتا ہے جب جب اسے پکارو۔۔ کیا آپ مجھے سن رہے ہیں۔۔۔؟؟“ اس نے خشک پھٹے ہوئے ہونٹوں سے اسے پکارہ۔ اس کی آنکھ سے آنسوں بہہ رہے تھے۔۔۔اسے ذہنی طور پر جتنا ٹارچر کیا گیا تھا وہ ڈر گیا تھا خوفزدہ ہوگیا تھا۔
”اگر آپ مجھے سن رہے ہیں تو مجھے راستہ دکھائیں۔۔۔“ وہ روتے ہوئے اللہ سے باتیں کر رہا تھا۔
وہ تب اس کمرے میں قید رہا تھا جب تک وہ بےجان ہو کر ایک جانب گر نہیں گیا تھا۔۔ اس کا جسم اکڑ چکا تھا اور دل کی دھڑکن بہت آہستہ چل رہی تھی نہ ہونے کے برابر۔۔۔وہ اب اسے ہوش میں لانے کے لیے اس کے برہنہ سینے پر شاک دے رہے تھے۔۔۔۔
”اور جب درد کی شدت بڑھ جاتی ہے تب وہ بےمعنی ہوجاتا ہے۔۔۔ تمہیں اٹھنا ہوگا۔۔۔تمہیں ابھی ایک لمبا سفر طے کرنا ہے۔۔۔“ وہ ایسی جگہ پر تھا جہاں روشنی ہی روشنی تھی اور اس نے وہاں اپنے باپ کو دیکھا تھا۔۔ جو اسے ہمت نہ ہارنے کے تلقین کر رہا تھا۔۔۔۔
وہ اٹھ گیا تھا۔۔۔ اس نے آنکھیں کھولی تھیں۔۔۔اور لیب میں موجود وہ جانور نما انسان اپنے ایک اور تجرنے کے کامیاب ہونے پر خوش تھے۔
اور پھر اگلی بار اسے ایک ایسے کمرے میں بند کیا گیا جس کی دیواریں لوہے کی تھیں۔۔ درجہ حرارت بڑھ رہا تھا۔۔۔وہ خاموشی سے بیٹھا رہا۔۔۔وہ اب ان سے رحم نہیں مانگ سکتا تھا کیونکہ وہ رحم نہیں کرنے والے تھے۔۔۔
جیسے درجہ حرارت بڑھتا گیا اس کے جسم سے پسینہ بہہ نکلا تھا۔۔ اس کا وجود جلنے لگا تھا اسے لگ رہا تھا اس کے اندرونی اعضاء اس کا جسم پانی بن کر بہہ جائے گا۔۔۔
جو بےاختیار یاد آیا کہ دنیا میں جلائے جانے والی آگ جہنم کے آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔۔۔
وہ سیدھا لیٹا رہا یہاں تک کہ اس کا جسم جل گیا۔۔۔پھر وہ الٹا ہوگیا پھر کھڑا ہوگیا۔۔۔ اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ پوری وقت سے چلایا تھا۔۔۔
”صرف اللہ کو پکارنا۔۔۔ کیونکہ صرف وہی تمہیں سنے گا۔۔“ روحان جبیل کے الفاظ اسے چیخنے پر مجبور کرگئے تھے اس نے اپنی وقت لگا کر صرف اللہ کو پکارہ تھا۔۔اور پھر وہ گر گیا۔۔۔اس کا جسم کانپ رہا تھا۔۔۔اسے اٹیک ہوا تھا۔۔۔اسے ہر مہینے ڈوز لگتی تھی جسے وہ ٹھیک رہتا تھا اور وہ یہاں پچھلے سات دنوں سے قید تھا۔۔۔
وہ لوگ اسے اٹھا کر لے گئے لیکن سمجھ نہیں پائے اسے کیا ہوا تھا۔۔ اس کا جسم نیلا پڑ چکا تھا اور بالکل بےجان تھا۔
”آئی تھنک ہی از ڈیڈ۔۔۔“
ان میں سے ایک نے کافی تگ و دو کے بعد کہا تھا۔
وہاں موجود سبھی لوگوں کو سات دنوں بعد ریلیکس ہونے کا موقع ملا تھا وہ اسے وہیں ٹیبل پر چھوڑ کر جا چکے تھے۔
✿••✿••✿••✿
آٹھویں دن وہ اپنے گھر پہنچا تھا۔۔ کیسے یہ وہ بھی نہیں جانتا تھا۔۔ بس اسے اتنا پتا تھا کہ ہر اندھیرے میں اسے روشنی دکھائی تھی۔۔ اس نے جسے اندھیروں میں پکارہ تھا وہ اسے کیسے چھوڑ سکتا تھا؟؟
اس کی حالت خراب تھی وہ اپنی ماں کی بانہوں میں بےہوش ہوگیا تھا۔۔ سید جبیل انہیں اپنے ساتھ پاکستان لے آئے تھے۔ اس گھر کو بیچ دیا گیا تھا پاکستان میں حانم عبدل اور حاد کے ساتھ کچھ دن ملتان میں جبکہ باقی دو مہینے حمدان صاحب کے پاس لاہور میں رہی تھی۔
حاد نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا اور باقی سب پوچھنے سے گریز کر رہے تھے وہ پہلے سے زیادہ سنجیدہ ہوگیا تھا۔۔ اس کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی جیسے اس کے جسم سے سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔۔ اور اس کے جسم پر جلنے کے ساتھ ساتھ عجیب و غریب نقصان تھے۔
عبدل کو اسے دیکھ کر دلی سکون تو ملا تھا پر ازلی غصہ عود آیا تھا۔۔
”آئی وش میں تمہاری جگہ ہوتا۔۔۔“ وہ رات کو اس کے پاس لیٹتے بولا۔ حاد کچھ نہیں بولا۔۔ وہ جس کیفیت سے گزر کر آیا تھا اس نے اس کے رہے سہے الفاظ بھی چھین لیے تھے۔
”مجھے بھی سب تمہاری طرح ٹریٹ کرتے۔۔۔ سب ڈھونڈتے۔۔۔“ وہ بچہ تھا اور نہیں جانتا تھا اس کے ساتھ پیدا ہونے والا بھائی کس قیامت سے گزر کر آیا تھا۔۔۔ اس نے حاد کے گرد اپنا بازو پھیلایا وہ اس سے پیار کرتا تھا لیکن جتاتا نہیں تھا۔
خاص ہونا اتنا بھی آسان نہیں ہوتا۔۔۔۔۔
”آئی وش کہ تم کبھی میری جگہ پر نہ آؤ۔۔۔“ وہ پورے میں دن صرف ایک جملہ بولا تھا۔۔ عبدل نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا۔۔۔حاد آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔۔۔وہ بس لیٹا رہتا تھا سو نہیں پاتا تھا۔۔۔اسے اپنی ہی چیخیں سنائی دیتی تھیں۔
”کیا انہوں نے تمہیں ہرٹ کیا؟؟“ وہ اب معصومیت سے پوچھ رہا تھا۔۔اسے لمحے بھر کو حاد پر ترس آیا۔
ہاں انہوں نے کوشش کی۔۔ بٹ یو نو مجھے درد نہیں ہوتا۔۔“
اور عبدل بس اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”ہم واپس کب جائیں گے؟؟“ وہ یہاں نہیں رہ سکتا تھا۔۔۔اس نے یہ دو ماہ کیسے گھر میں رہ کرگزارے تھے یہ وہی جانتا تھا۔ وہ ایسا بچہ نہیں تھا جس کا کھیل کود میں دل لگ جاتا۔
”شاید کبھی نہیں۔۔“ حانم نے اسے دیکھتے جواب دیا۔
”لیکن ہمیں اب چلنا چاہیے۔۔“
”ہم وہاں نہیں جا سکتے حاد۔۔ وہاں رہنا خطرناک ہے۔۔“
”ہم کسی اور شہر میں رہ لیں گے۔۔۔“ وہ جیسے سب سوچ کر آیا تھا۔
”میں یہاں کیا کروں گا؟؟ کچھ بھی نہیں کر سکتا اور مجھے بہت کچھ کرنا ہے۔۔“ اس نے پہلی بار ضد کی تھی۔ وہ اپنے اندھیروں سے بھاگ کر جاتا بھی تو کہاں۔۔۔؟؟
حانم نے نےاختیار گہرہ سانس لیا۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد وہ لوگ لندن کی بجائے
Edinburgh
شفٹ ہوگئے تھے۔
✿••✿••✿••✿
میں اُم ایمان ہوں اور میں سیاہ سفید دونوں سے نفرت کرتی ہوں۔۔ مجھے اچھے اور برے دونوں لوگ نہیں پسند۔ مجھے ایک سفید نے سیاہ کے پاس بھیجا تاکہ میں اسے روشن کرسکوں پر جب سیاہی مجھے نگھلنے لگی تو سفید سے برداشت نہیں ہوا اس نے مجھے واپس کھینچ لیا۔۔ اور جب میں واپس لوٹی تو سفید مجھ سے انکاری ہوگیا۔۔ میں تو سیاہ ہوچکی تھی۔۔ میرے وجود پر سیاہی لگ چکی تھی اور چکمتے شفاف لوگ بھلا سیاہی کب پسند کرتے ہیں۔۔۔؟؟ اور پھر سیاہی میری تلاش میں نکلی اور جب اس نے مجھے سفید کی طرف جھکتے دیکھا تو اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ اور میں اب تک بھٹک رہی ہوں کہ میں کون ہوں؟؟ میں سیاہ ہوں یا سفید ؟؟ میرا راستہ کونسا ہے؟؟ کیا کوئی مجھے بتائے گا میں کون ہوں؟؟
اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں۔۔۔ وہ سیدھی لیٹی تھی اس کے پاؤں پر پلستر لگا تھا اور اس کا جسم پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا۔۔۔۔
”کیا میں مرچکی ہوں۔۔؟؟“ پہلا خیال یہی آیا تھا۔
”کیا میں قبر میں ہوں۔۔۔؟؟“ اس نے اپنے جسم کو ہلانے کی کوشش کی پر اسے کچھ محسوس نہیں ہوا۔
لیکن یہاں تو روشنی تھی اور قبر میں صرف اندھیرا ہوتا ہے۔ اس نے پھر سے آنکھیں موندھ لیں۔ اس نے ذہن پر زور ڈالنے کی کوشش کی یاد کرنا چاہا آخری وقت میں وہ کہاں تھی۔
اور پھر اسے یاد آگیا۔۔ حاد جبیل اسے بار بار فون کر رہا تھا۔
”چکمتے شفاف لوگ بھلا سیاہی کب پسند کرتے ہیں۔۔“ اسے بےاختیار درد محسوس ہوا تھا۔۔ اپنے دل میں۔۔ اپنے دماغ میں یہاں تک کہ پورے جسم میں۔۔ بےاختیار دائمہ اس کے سامنے آئی۔
پتا نہیں ہم وہ خواب کیوں دیکھتے ہیں جو کبھی پورے نہیں ہو سکتے۔۔ اور ان خوابوں کی قیمت ہماری جان ہوتی ہے۔
صاف شفاف سا حاد بھلا اس کے مقدر میں کہاں تھا۔
اسے ہوش آچکا تھا۔ سلمی بیگم اور حمیزہ کی حالت کافی خراب تھی۔دونوں کا رو رو کر برا حال ہوچکا تھا۔ دائمہ ان کے پاس ہی تھی۔اس نے پھر سے آنکھیں کھولیں اور اٹھنا چاہا پر وہ اٹھ نہ پائی۔۔۔اس کا جسم بےجان تھا۔۔۔
”امی۔۔“ اس نے سلمی بیگم کو پکارنا چاہا پر الفاظ دم توڑ گئے۔ وہ احساسات بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں جب آپ زندہ تو ہوتے ہیں لیکن آپ کا جسم آپ کا ساتھ نہ دے۔۔۔ بےبسی کی حد تھی اور اس کی آنکھوں کی سے آنسوں بہہ نکلے جو سفید تکیے میں جذب ہوچکے تھے۔
اس اذیت سے صرف ایک شخص واقف تھا اور وہ تھا حاد جبیل۔۔!!
✿••✿••✿••✿
وہ لوگ واپس آچکے تھے اور یہاں نئے گھر میں ایلف ان سے ملنے آئی تھی۔۔ وہ کافی لمبے عرصے بعد ان سے ملی تھی۔۔ جب سے اسے طلاق ہوئی تھی اور اس کی بیٹی کی موت ہوئی تھی اس کے بعد وہ بالکل دنیا سے کٹ سی گئی تھی۔
وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی پر سلطان ملک جیسا شخص آناً فاناً آیا تھا۔۔۔محبت کے دعوے کیے اور اپنی پوری کوشش کی۔۔ اور اسے شادی کرنی ہی تھی تو اس نے سلطان ملک سے کرلی پر وہ شخص دھوکے باز نکلا۔۔۔
جب اسے بیٹی ہوئی تو وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا اور ایلف کو یہی بتایا گیا کہ وہ مرچکی ہے۔۔۔پر وہ جانتی تھی اس کی بیٹی زندہ تھی۔
وہ اکیلی رہ گئی تھی۔۔ ایک مشرقی شخص سے اسے محبت ہوئی تھی اور دوسرے مشرقی شخص نے اس سے شادی کرکے دھوکا دیا تھا۔ وہ لڑکی وہ جو انتہائی ذہین و فطین تھی وہ اب اکـثر بھیگی سڑکوں پر اکیلے گھومتی تھی۔۔۔وہ نہ سلطان ملک کو ڈھونڈ پائی اور نہ اپنی بیٹی کو۔۔ اور پھر روحان جبیل بھی چلا گیا۔۔۔ وہ اکثر خالی نگاہوں اور خالی دل کے ساتھ بھیگی سڑکوں پر یونہی چلتی رہتی تھی۔ وہ آرجے سے ملنا چاہتی تھی اور روحان جبیل سے بھی اور پھر پوچھنا چاہتی تھی کہ اس نے وفا کہاں سے سیکھی تھی۔ وہ اکثر اسے ڈھونڈتی تھی۔
کیا کسی نے اس لڑکے کو دیکھا ہے؟
جو اکـثر سموکنگ کرتا پایا جاتا تھا۔
جو سیاہ ہڈی پہنے اکیلے گھومتا تھا۔
جسے سننے کو لوگ بےتاب رہتے تھے۔
جس کے ہاتھ پر ٹیٹو بنا تھا۔
وہ جو گیٹار کندھے پر لٹکائے جنت روڈ سے گزرتا تھا۔
وہ جو سرد آنکھوں سے گھورتا سامنے والے کو برف بنا دیتا تھا۔
وہ جو غصے میں فٹ بال دے مارتا تھا۔
وہ جو
Lucid Dreamer
تھا۔
وہ جسے ابلیس کہا گیا تھا۔
وہ جو اپنی محبت اپنے ہاتھوں سے کھو دیتا تھا۔
وہ جو محبت کھو دینے کے بعد اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈتا تھا۔۔۔!!
وہ جو بارش میں نم آنکھیں لیے ہولے ہولے گنگناتا تھا۔
وہ جس نے ہر روپ میں دنیا فتح کی تھی۔
وہ جو خود کو سلفائیٹ کہتا تھا۔
وہ جسے برومائڈز پسند نہیں تھے۔
میں ایلف آسکر کتنے سالوں سے اسے ڈھونڈ رہی ہوں۔۔۔ وہ لڑکا جو اچانک غائب ہوگیا تھا کیا کسی نے آرجے کو دیکھا ہے۔۔۔؟؟؟
لیکن اسے نہ ملنا تھا اور نہ وہ ملا۔۔۔پھر جب وہ حانم سے ملی تو اسے احساس ہوا کہ زندگی کو یوں بےمقصد گزارنے سے کیا ہوگا؟؟ پھر اس نے شروعات کی۔۔۔آرجے برینڈ کی جو آج لندن کا ایک مشہور برینڈ تھا۔
اسے عبدل اور حاد دونوں پسند تھے۔۔۔عبدل آرجے کی یاد دلاتا تھا تو حاد روحان جبیل کی۔۔۔اسے بس یہی اب اپنی فیملی لگتی تھی۔ وہ دونوں اب آہستہ آہستہ بڑے ہو رہے تھےاور دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے ایک مشرق تھا تو دوسرا مغرب۔۔۔ اور دونوں کی کبھی نہیں بنتی تھی۔
✿••✿••✿••✿
حاد کا انٹرسٹ اپنے باپ کی طرح میڈیکل کی طرف نہیں تھا بلکہ وہ ٹیکانولوجی کی طرف جانا چاہتا تھا اسے لگتا تھا کہ جو اسکرین ہم یوز کرتے ہیں وہ صرف ہم یوز نہیں کرتے بلکہ کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں اختیار نہیں ہوتا پر وہ خاموشی سے ہماری ذاتی زندگی تک پہنچ جاتے ہیں۔۔جیسے وہ لوگ اس تک پہنچ چکے تھے۔۔۔انہیں کیسے پتا چلا تھا وہ کہاں تھا؟؟
اور یہ چیز اسے مجبور کرتی تھی کہ وہ اس ٹیکنالوجی کی ڈارک سائیڈ تک پہنچے۔۔۔وہ یہاں النور نہیں جا سکتا تھا لیکن وہ وہاں کے سیشن آنلائن باقاعدگی سے لے رہا تھا۔۔ جو سمجھ نہ آتا وہ سوال کرتا اور پوچھتا۔۔۔یہاں تک کہ اپنی ماں سے لمبی بحث کرتا یہاں تک کہ عبدل اکتا کر اٹھ جاتا تھا۔
”میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں مام۔۔ میں نہیں جانتا میری زندگی کب تک ہے۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتا میں کس طرف دھیان دوں۔۔“ وہ اپنے باپ کی طرح اسلام کی تعلیمات بھی سیکھنا چاہتا تھا اور ایک ڈیٹا سائنٹسٹ بھی بننا چاہتا تھا۔
”تم دونوں کر سکتے ہو۔۔۔۔“ اس نے پودوں کو پانی دیتے جواب دیا۔
”مطلب مجھے ڈبل کام کرنا ہوگا۔۔۔؟؟“
”جن کے
Goals
جتنے بڑے ہوتے ہیں وہ اتنے اکیلے ہوتے ہیں اور ان کا کام بھی اتنا ہی ہوتا ہے۔۔“
اس نے سمجھتے ہوئے سر کو ہلکا سا خم دیا۔ اسے تنہائی سے ڈر نہیں لگتا تھا کیونکہ وہ اسے اتنے قریب سے دیکھ چکا تھا کہ اب سب بےمعنی ہوگیا تھا۔۔۔۔ اور پھر وہ سنجیدگی سے اپنے مقاصد کی طرف متوجہ ہوگیا۔۔ چوبیس گھنٹوں میں سے تئیس گھنٹے وہ جیسے مرضی گزارتے لیکن حانم آج بھی ہر رات انہیں درس دیتی تھی انہیں آج بھی وہ سب بتانے کی اور سمجھانے کی کوشش کرتی جو وہ خود جانتی تھی۔ عبدل جلد اکتا جاتا تھا جبکہ حاد ایسے سنتا اور سوال کرتا جیسے اسے یہی کام کرنا ہو۔
عبدل کو جتنا لڑائی جھگڑے میں مزا آتا تھا اتنا کہیں اور نہیں۔۔ایسا نہیں تھا کہ اس کی کمپنی غلط تھی یا وہ غلط کام کرتا تھا یا پھر وہ لڑکیوں کے چکروں میں تھا بس وہ غصیلا تھا۔۔۔ حاد اسے کھینچ کر اپنے ساتھ نماز پڑھنے لے کر جاتا اور نماز پڑھنے کے بعد بنا دعا مانگے ہی بھاگ آتا تھا۔۔ وہ کہیں رک نہیں سکتا تھا۔۔ وہ ٹھہر نہیں پاتا تھا۔۔۔اس کا جیسے کوئی خاص مقصد نہیں تھا۔۔ اسے اپنے باپ پر اب غصہ آتا تھا۔۔ وہ دونوں اب پندرہ سال کے ہونے والے تھے۔
اور یہ سارا وقت انہوں نے
Edinburgh
میں ہی گزارا تھا۔۔ حانم ایک نجی یونیورسٹی میں پروفیسر تھی اور حاد کے لیے اپنی ماں سے زیادہ آئیڈیل کوئی نہیں تھا۔
ان پندرہ سالوں میں حاد نے دین کی ساری پڑھائی گھر میں ہی کی تھی وہ زیادہ باہر نہیں نکلتا تھا۔۔ وہ دونوں ہائی اسکول جاتے تھے اور وہ اپنی کلاس میں سب سے کم عمر بچہ تھا۔۔
جبکہ عبدل ایک اچھا فٹبال پلیئر تھا۔۔ لیکن جہاں بھی کوئی لڑائی جھگڑا ہوتا عبدل وہاں پایا جاتا تھا۔ اسے حانم نے بہت سمجھانے کی کوشش کی تھی حاد نے سمجھایا تھا لیکن وہ اس مار دھاڑ میں خود کو مضبوط بنانا چاہتا تھا اسے آج بھی یہی ڈر لگتا تھا کہ جب جنگ ہوگی تو وہ کہیں ہار نہ جائے۔۔ اس لیے وہ جسمانی طور پر خود کو مضبوط بنا رہا تھا۔ تاکہ حاد کی طرح درد برداشت کر سکے۔
اور ان سارے سالوں میں اگر وہ کہیں ٹھہرا تھا وہ ایمانے تھی۔۔۔ اب ٹین ایج لڑکا تھا پہلے کی طرح حاد سے ایمانے کو لے کر بحث نہیں کرتا تھا لیکن جب بھی اسے غصہ آتا وہ ایک ہی بات کرتا۔
”تم جھوٹے ہو۔۔تم نے وعدہ پورا نہیں کیا۔۔“ اورحاد اپنا سر تھام لیتا۔۔۔وہ اسے کیسے بتاتا کہ ایمانے ان کی بہن نہیں تھی وہ اسے نہیں لا سکتے تھے۔
عبدل کھلی کتاب کی طرح تھا۔۔۔اندر باہر سے ایک جیسا۔۔ اسے نہ جھوٹ بولنا آتا تھا اور نہ وہ مکاریاں کرتا تھا۔۔نہ وہ اپنے جذبات چھپا سکتا تھا اور نہ غصہ۔۔ وہ سب کہہ دینے کا عادی تھا۔۔۔وہ جو کرتا تھاحاد کو سب پتا تھا لیکن حاد کیا کرتا تھا وہ کبھی نہیں جان پایا۔ وہ اس کے لیے ایک معمہ ہی تھا۔
”تم ہر وقت کتابوں میں گھسے رہتے ہو اور لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھے رہتے ہو تم مینٹلی سک نہیں ہوتے؟؟“ اسے پڑھنا پسند تھا اور کوڈنگ بھی۔۔۔اسی لیے وہ زیادہ تر یہی کام کرتا تھا۔
”میں ایکٹیو رہنے کے لیے
Running
کرتا ہوں۔۔جب تم سو رہے ہوتے ہو۔۔“
”آہ۔۔ اتنا کام کرکے جانے تم نے کونسی دنیا فتح کرنی ہے۔۔“ وہ چڑ کر کہتا تھا۔
عبدل جلدی نہیں اٹھ پاتا تھا جبکہ حاد جلدی اٹھنے کا عادی تھا۔ وہ صبح صبح حانم کے ساتھ نکل جاتا تھا۔۔ وہ واک کرتی تھی جبکہ وہ بھاگتا تھا۔۔تیز تیز۔۔۔ وہ ان چیخوں سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھا۔۔۔اپنی ہی چیخوں سے پر ان چیخوں نے کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔۔۔
وہ اتنا تیز بھاگتا تھا کہ اس کا جسم سر سے پاؤں تک پسینے میں بھیگ جاتا تھا۔۔اکثر حانم اسے منع کرتی تھی لیکن وہ کبھی بتا ہی نہیں پایا کہ اس کی اپنی ہی چیخیں اسے سونے نہیں دیتی تھیں۔
✿••✿••✿••✿
”کل میری کلاس کی ایک لڑکی نے تمہارا نمبر مانگا۔۔۔“
وہ ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے جب عبدل نے بتایا۔۔ اس کے بال کانوں کی لو کو چھو رہے تھے اور آگے اس نے ایک پتلا سا بینڈ لگا کر انہیں پیچھے کیا ہوا تھا۔ پیچھے سے اس کے بال گردن کو چھوتے تھے۔۔۔جبکہ حاد کے بال طریقے سے سیٹ تھے اور جب سیٹ نہیں ہوتے تھے تو ماتھے پر گرتے تھے۔۔لیکن وہ انہیں سیٹ رکھنے کا عادی تھا۔
حانم نے چونک کر اسے دیکھا۔ جبکہ ناشتہ کرتے حاد کو اچھو لگا۔۔۔ اسے ایسا کوئی تجربہ نہیں تھا۔
”او کم آن مین ایک نمبر ہی تو مانگا ہے۔۔“ وہ حاد کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر بولا۔
”اور ویسے بھی تم پورے اسکول کے لیے ایک مسٹری ہو۔ اپنی عمر کے لحاظ سے تم اسکول میں تین کلاسز آگے ہو۔۔تم کوڈنگ میں ایکسپرٹ ہو اور تم نے ساری کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔۔ تم نے جو لاسٹ سمینار میں پریزنٹیشن دی تھی لڑکیاں کافی امپریس ہوئی ہیں۔۔اور انہیں ہڈی پہنے، چشمے لگائے، کندھے پر بیگ لٹکائے بارش میں چلتا حاد کافی پسند ہے۔۔“ وہ یہ سب پہلی بار سن رہا تھا اور کافی حیران تھا۔
”پھر تم نے کیا کیا۔۔۔؟؟“ حانم نے پوچھا۔
”میں نے منع کردیا۔۔۔“ وہ جس کا گلاس منہ سے لگاتے بولا۔
”میں نے انہیں بتایا کہ حاد
Booked
ہے۔۔۔“
بکڈ کا لفظ سن کر حاد کا منہ حیرت سے کھلا۔۔ جبکہ حانم نے اپنی مسکراہٹ چھپائی۔
”لیکن دامی کے ساتھ تو تمہارا رشتہ پکا ہوا ہے نا۔۔“ حانم تصحیح کی۔
”او کم آن مام۔۔ وہ سب تو بس اڈوانچر تھا نا۔۔“
”میں کیسے بکڈ ہوں؟؟“ حاد ابھی تک وہیں اٹکا تھا۔
”لیٹ می ایکسپلین۔۔“ اس نے دونوں بازو میز پر رکھے۔ جیسے وہ بہت ضروری بات کرنے جارہا ہو۔
”تم نے کہا کہ ہم ایمانے کو نہیں لا سکتے کیونکہ وہ ہماری بہن نہیں ہے ہمارا اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔۔“
”ایمانے۔۔۔۔ آہ۔۔۔“ حاد فوراً چڑ گیا۔۔ اس کی تقریر پھر شروع ہوچکی تھی۔۔ وہ خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا جبکہ حانم اب ہتھیلی پر ٹھوڑی جمائے عبدل کو سن رہی تھی اسے اس وقت اس پر بہت پیار آرہا تھا۔
”ابھی ہم پندرہ سال کے ہیں تو تین سال بعد جب ہم اٹھارہ کے ہوجائیں گے تو تم ایمانے سے شادی کرلینا پھر ہم اسے پرماننٹ یہاں لے آئیں گے۔۔۔“ حاد نے اپنا نوالہ چھوڑ کر اسے یوں دیکھا جیسے اس کا دماغ پھر گیا ہو۔۔جبکہ وہ خود اسے یوں دیکھتے ہونق لگ رہا تھا۔
”اسی لیے اب تم بکڈ ہو کسی اور لڑکی کا مت سوچنا۔۔۔“ حاد نے نوالہ واپس رکھتے رحم طلب نگاہوں سے اپنی ماں کی جانب دیکھا جو چہرہ نیچے کیے اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”اب وہ لڑکی سب کو بتادے گی اور یوں کوئی تم پر لائن نہیں مارے گا۔۔۔“
اور بس۔۔۔۔حاد نے ایک گہرہ سانس اندر کھینچا اور خود کو ریلیکس کیا۔
”لیکن ایک مسئلہ ہے۔۔۔“ حانم نے کہا تو عبدل فوراً متوجہ ہوا۔
”شادی کے لیے ایمانے کی ایج بھی تو اٹھارہ ہونی چاہیے نا۔۔۔“
”اوہ۔۔“ عبدل نے اپنے ہی سر پر چت لگائی۔ اب وہ انگیلیوں پر گن رہا تھا۔
”وہ ابھی نو سال کی ہے۔۔۔یعنی مجھے نو سال اور انتظار کرنا ہوگا۔۔“ وہ اب افسردہ ہوگیا تھا۔
”بس کرو بہت ہوگیا۔۔۔“ حاد اپنا فون اٹھاتے جھٹکے سے اٹھا اور ساتھ والی کرسی سے اپنا بیگ اٹھا کر کندھے پر ڈالا اور ان دونوں کی طرف اچٹتی نگاہ ڈال کر باہر کی جانب بڑھا۔
”او ہیرو لسن۔۔۔“ عبدل کی پکار وہ رکا ضرور لیکن پلٹا نہیں۔
”یو آر بکڈ اوکے۔۔۔اگر کوئی لڑکی مجھے تمہارے آس پاس نظر آئی تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔۔۔“ اس نے کھلے عام دھمکی دی۔
”ایڈیٹ۔۔۔“ وہ اونچی آواز میں کہتا باہر نکل گیا جبکہ حانم بےاختیار ہنس دی تھی۔ اس نے عبدل کے چہرے کو پیار سے چھوا۔
”مام آپ اسے بتا دیجیے گا۔۔۔“ وہ اب انہیں تنبیہہ کر رہا تھا۔
اور پھر اسکول میں ہونے والے ڈرگز والے واقعے کے بعد اچانک ہی عبدل کو اس پر شدید غصہ تھا اور یہ غصہ وقتاً فوقتاً نکلتا رہتا تھا۔۔۔ وہ حاد کو تپانے کے لیے اور غلط کام کرتا اور پھر اس نے ریسنگ شروع کی۔۔۔
اس روز بھی وہ لوگ اسکول سے کچھ فاصلے پرتھے جہاں اسکول کے فائنل ایئر کے اسٹوڈنٹس ریسنگ کرتے تھے۔۔ون وہیلنگ اور باقی غیر قانونی کام جو اسکول کے بچوں کو الاؤ نہیں تھا اور عبدل وہاں موجود تھا اس کی سینئرز کے ساتھ ویسے بھی نہیں بنتی تھی۔
”میرے ساتھ لگاؤ گے؟“ اس نے فائنل ایئر کے اسٹوڈنٹ کو ہر بار جیتتے دیکھا تو پوچھا۔ اور پھر اگلے چند لمحوں میں وہ ہیرو بنا، کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی آواز کے والی بائیک پر بیٹھا ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔۔۔ وہ جیت گیا تھا اور لائبریری میں بیٹھے حاد کو کسی نے عبدل کی خبر دی تھی۔۔۔وہ گھر ہی جارہا تھا۔۔ آج اس کی ڈوز کا دن تھا اور وہ جلدی اپنا کام ختم کرنا چاہتا تھا کیونکہ اس ڈوز کے بعد وہ کافی گھنٹوں تک کچھ نہیں کر پاتا تھا۔ عبدل کا سن کر وہ تیزی سے بھاگا۔۔۔اور وہاں پہنچ کر اس نے عبدل کو گھر چلنے کا کہا۔
”اپنے بھائی کو ہراؤ تو مانیں۔۔۔“ کسی سینئر نے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔
”ایک شرط پر۔۔۔“ عبدل نے فوراً کہا۔
”تم میرے ساتھ ریس لگاؤ۔۔۔اگر میں ہار گیا تو دوبارہ نہیں کروں گا۔۔“ وہ اس سے اپنا بدلا لینا چاہتا تھا۔۔ حاد نے خود پر ضبط کرتے اسے دیکھا۔ اور پھر وہ راضی ہوگیا۔ وہ اسے واپس لے جانا چاہتا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں بھائی سر پر ہیلمٹ اوڑھ رہے تھے۔حاد نے سرد سی نگاہوں سے اسے دیکھا اور پھر بائیک اسٹارٹ ہونے کے بعد جب سیٹی بجی تو وہ دونوں طوفان کی طرح غائب ہوئے۔۔۔
عبدل پہلے آگے تھے۔۔۔اور پھر حاد۔۔۔ اس نے عبدل کو آگے نہیں دیا اور جب وہ جیتنا کے قریب تھا تو اسے اٹیک ہوا۔۔۔اس کا توازن بگڑا اور وہ بائیک سمیت نیچے گرا۔۔ عبدل کا بائیک اس سے ٹکرایا اور پھر وہ دونوں بھائی زمین بوس تھے۔ کچھ اسٹوڈنٹس وہاں سے بھاگ گئے اور کچھ ان کی طرف بڑھے۔۔ حاد کو مچھلی طرح تڑپتے دیکھ کر ایک اسٹوڈنٹ نے اس کا ہیلمٹ اتارا اور پھر اس کے ساکت پڑتے وجود نے سب کو ڈر کر بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔۔۔سب کو لگا وہ مرچکا ہے۔۔۔ جبکہ عبدل کو کافی چوٹیں آئی تھیں پر وہ خود ہی اٹھ گیا تھا۔۔ حاد کی حالت دیکھ کر وہ ڈر چکا تھا۔۔۔کچھ دیر بعد وہاں ایمبولینس تھی۔
”ہمیں حاد کو کبھی بھی ہسپتال نہیں لے کر جانا ہے۔۔“ اسے اپنی ماں کی آواز صاف سنائی دی اور پھر اسے اپنا سانس سوکھتا محسوس ہوا۔
✿••✿••✿••✿
چٹاخ کی آواز ابھری تھی اور عبدل نے بےیقینی سے اپنی ماں کو دیکھا۔۔۔وہ لوگ ہسپتال میں تھے اور حانم کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا۔۔ یہ پہلی بار تھا جب اس نے عبدل کی کسی غلطی پر اسے مارا تھا۔۔۔
”جاؤ یہاں سے۔۔۔“ وہ اپنے غصے پر ضبط کر رہی تھی۔۔اور اسے پہلی بار اپنے بھائی کی وجہ سے تھپڑ پڑا تھا۔۔ اس کے ہاتھ پر پٹی بندھی تھی اور گھٹنے چھل گئے تھے جبکہ حاد اب ٹھیک تھا اسے بھی چوٹیں آئی تھیں پر حانم کو ڈر تھا کہ کہیں ہسپتال والے اس کے اٹیک سے واقف نہ ہوجائیں۔
”میں جارہا ہوں۔۔۔اور۔۔۔اور۔۔۔ کبھی واپس نہیں آؤں گا۔۔۔“ وہ اپنے گلے میں اٹکے آنسوؤں کو ضبط کرتے بولا۔
”جاؤ عبدل۔۔۔مجھے اس وقت تمہاری شکل نہیں دیکھنی۔۔۔“ اس نے پہلی بار عبدل پر غصہ کیا تھا اور وہ اس کا عادی نہیں تھا۔۔۔۔وہ پلٹا اور بھاگتا ہوا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر اس کے پاس آیا تھا۔
”پیشنٹ کا نام کیا ہے؟؟“
”عبدل۔۔۔۔عبدالاحد۔۔۔۔“ وہ بےساختہ بولی۔۔۔نہیں چاہتی تھی اس کا نام کسی ہسپتال کے ریکارڈ میں جائے۔۔ اسے خارج کردیا گیا اور وہ حاد کو لے کر گھر آگئی تھی۔۔پر نہیں جانتی تھی کہ عبدل اپنی ضد کا اتنا پکا تھا کہ وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔
✿••✿••✿••✿
عبدل چلا گیا۔۔ وہ واپس نہیں آیا۔۔۔اسے ڈھونڈا گیا پر وہ کہیں نہیں ملا۔۔۔اور پھر وہ اکیلا رہ گیا۔۔۔وہ اور حانم۔۔۔
لیکن عبدل جسے اس کے پاس چھوڑ گیا تھا وہ تھی ایمانے۔۔۔۔ اس کا خیال اب جاتا ہی نہیں تھا عبدل کے ساتھ ہی اس کے دماغ سے چپک گیا تھا ان کے کمرے میں آج بھی وہ فریمـڈ تصویر تھی جو عبدل نے رکھی ہوئی تھی اب وہ اسے الٹا نہیں کرتا تھا۔۔۔وہ عبدل کو بہت یاد کرتا تھا۔۔۔اسے رونا آتا تھا پر رویا نہیں جاتا تھا۔
ہائی اسکول میں سمر بریک تھی اس نے ایک اے آئی کورس کے لیے کالج جوائن کرلیا۔۔۔وہ اس کورس میں سب سے کم عمر بچہ تھا۔۔اور یہاں اسے ولیم ملا۔۔۔
وہ ایک اچھا لڑکا تھا اس سے عمر میں بڑھا تھا۔۔۔ وہ اب اکثر حاد کے ساتھ ہوتا تھا۔۔ حاد دوست بنانے کا عادی نہیں تھا لیکن ولیم کی نیچر اچھی تھی۔۔۔وہ اس سے قد میں اور جسامت دونوں میں بڑھا تھا۔۔ آج کل حاد پریشان رہنے لگا تھا۔۔۔اس کی ویکسینیشن ڈوز ایکسپائر ہونے والی تھی۔۔ دس سال کی ایکسپائری ڈیٹ تھی اور وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے کیسے ری نیو کیا جاتا یا کیسے بنایا جاتا۔۔۔اس کے ساتھ حانم بھی پریشان تھی۔
اب اسے کبھی بھی اٹیک ہوجاتا تھا اور یہ اس کے لیے خطرناک تھا۔۔۔اور پھر ایک دن اس کی زندگی کا ایک اور بھیانک واقع ہوا۔۔
وہ ولیم کے ساتھ گھر واپس آرہا تھا جب اچانک ولیم نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
”مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔۔“
”ہاں بولو۔۔۔“ وہ اب اس کی جانب متوجہ تھا۔
”مجھے تم پسند ہو۔۔۔“
حاد مسکرایا۔
”ہاں مجھے بھی تم پسند ہو۔۔“
”لیکن میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں اور یہ دوستی والی محبت نہیں ہے۔۔۔“
حاد تو بس اسے دیکھتا رہ گیا۔
”ول یو بھی۔۔۔“
”اسٹاپ۔۔۔ میں مسلم ہوں اور میں اس ٹائپ کا لڑکا نہیں ہوں۔۔۔اور آج کے بعد مجھے تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا۔۔۔“ وہ خود پر قابو پاتا وہاں سے بھاگنے والے انداز میں نکلا۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ولیم کو کچھ ذہنی مسائل تھے۔۔۔اس کے اسی لیے زیادہ دوست نہیں تھے اور اگلے دن وہ رات کو گھر واپس آرہا تھا۔۔۔اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔۔آج کل اسے کمزوری محسوس ہورہی تھی۔ وہ سنسان سڑک پر اکیلا چل رہا تھا جب کسی اچانک پیچھے سے اس کے سر پر وار کیا تھا۔۔ وہ کراہ کر گرا۔۔۔ اور پھر اس نے ولیم کو اپنی جانب جھکتے پایا تھا۔۔۔
”تم مجھے انکار نہیں کر سکتے۔۔۔“ وہ غصے سے پھنکارتے ہوئے بولا اور اسے گھسیٹ کر لے جانے لگا۔۔۔ حاد جو اتنا کمزور کبھی نہیں تھا وہ اس وقت سر میں لگنے والی چوٹ کے باعث اٹھ نہیں پایا اور اس کے ہاتھ پاؤں اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
ولیم کے فادر کی قریب پی ورکشاپ تھی وہ اسے وہاں لے آیا۔۔ حاد کے سر سے خون ابل رہا تھا۔
”مجھے انکار نہیں پسند۔۔۔“ وہ اب اپنے بالوں کو جکڑتے بولا تھا۔
”میں تمہارے ساتھ یہ سب نہیں کرنا چاہتا تھا پر تم نے انکارکرکے اچھا نہیں کیا۔۔۔“ پھر اس نے ایک لائٹر جلایا اور جھکتے ہوئے اس کے منہ کے قریب کیا۔۔ حاد اس وقت تکلیف میں تھا اسے لگ رہا تھا کسی بھی پل اسے اٹیک ہوجائے گا۔
”تم مسلم ہو تو کیا ہوا۔۔پلیز میری بات مان لو۔۔۔“ اس کی حالت عجیب سی تھی۔۔ہاتھ نے ناں میں گردن ہلائی وہ بول نہیں پارہا تھا اور پھر ولیم نے لائٹر آن کرکے اس کے سینے پر لگایا۔۔۔وہ اسے جلا رہا تھا جگہ جگہ سے۔۔ وہ اذیت پسند تھا۔۔۔ وہ اسے تکلیف دینا چاہتا تھا پر اسے حیرت ہوئی جب حاد چیخا اور چلایا نہیں۔۔۔ وہ اس کے جسم کو جلاتا اور پھر اسے ہاتھ سے چھوتا جیسے مرہم رکھ رہا ہو۔۔۔
اور اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ غلط کرتا حاد کی پوری باڈی کپکپانا شروع ہوگئی۔۔۔ چہرہ نیلا پڑا اور پھر وہ ساکت ہوگیا۔۔۔ ولیم یہ دیکھ کر ڈر گیا اور جب اس نے جھک کر اسے چھوا تو وہ ٹھنڈہ تھا۔۔ وہ ڈر کر اسے وہیں چھوڑ کر بھاگ چکا تھا۔
✿••✿••✿••✿
New Episode (episode 56 ) is now available , Click Here
Such amazing 😍 mujhe boht pasand hain ye novel I like it too much
ReplyDelete
DeleteThank you so much for your kind words!
Amazing novel
ReplyDeleteShandaar 👍😍😊
ReplyDeleteGlad you like it🥰
DeleteThank u
ReplyDeleteBhot ALLA👏
ReplyDeleteKamal
ReplyDeleteamazing ep
ReplyDeletemissing eman and udham
ReplyDeletemujhy ye novel pasand hai😍
ReplyDeleteNext episode???
ReplyDeleteSuch a wonderful novel ...
ReplyDeleteImpressive & incredible writing..
next ep plz?
ReplyDeleteNext part kb aay ga
ReplyDeleteNext episode has been uploaded
DeleteOnce again an amazing episode,
ReplyDeleteKeep it up 👍