مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_54
نور_راجپوت
میرے اندھیرے تیرے اجالے
دائمہ نے اسے پہلی بار اتنا بےچین دیکھا تھا وہ گاڑی چلاتے ہوئے بار بار اس کا نمبر ملا رہا تھا۔۔ وہ کن اکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھی اور ہر بار دیکھنے پر اسے الگ ہی دکھ مل رہا تھا۔۔ اس نے آنکھوں میں آئی نمی کو چھپانے کے لیے چہرہ دوسری جانب موڑ لیا۔ پہلے تو حاد اس کے اکیلے آجانے پر خفا ہوا تھا اور اب اسے ڈاکٹر مہک کے پاس چھوڑنے جارہا تھا کیونکہ وہ اسے اکیڈمی میں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا تھا اور نہ اسے اپنے اپارٹمنٹ میں اکیلے چھوڑ سکتا تھا۔ اس صورتحال میں اسے ڈاکٹر مہک کا ہی خیال آیا تھا۔
حاد کو جانے کیوں عجیب سا محسوس ہورہا تھا ایک انجانا سا خوف دل کو چیرتے اندر گھس سا گیا تھا۔۔ ایمان کا یوں چلے جانا اور پھر فون بھی نہیں اٹھانا۔۔ اسے شک سا تھا کہ یقیناً دائمہ نے اسے ضرور کچھ نہ کچھ کہا تھا۔۔
”تم نے ایمان کو اپنے بارے میں کیا بتایا۔۔۔“ دائمہ کا دل اچھل کر حلق میں آیا۔۔ اس نے حاد کے لہجے میں پہلی بار غصے کی آمیزش دیکھی تھی۔۔ ایک سرد پن۔۔۔
اس نے رخ بدل کر حاد کو دیکھا جو ناک کی سیدھ میں دیکھتا گاڑی چلا رہا تھا۔۔ جبکہ چہرہ سپاٹ تھا۔
”یہی کہ میں دائمہ ہوں۔۔دائمہ جبیل۔۔۔“
”اور۔۔۔“ وہی سرد و جامد سا لہجہ۔۔دائمہ نے زور سے آنکھیں میچیں۔۔۔ وہ اس پل چاہ رہی تھی کہ جادو کا کوئی چراغ ہوتا جسے وہ رگڑتی اور وہاں سے غائب ہوجاتی۔
”کک۔۔کچھ نہیں۔۔۔“ اس نے تھوک نگلتے بولا۔
”آر یو شیور۔۔۔؟؟“
”کیا فرق پڑتا ہے میں اسے کیا کہتی ہوں۔۔ آپ کیا سمجھتے ہیں فرق تو اس سے پڑتا ہے نا۔۔۔“ وہ اپنے بھیگے لہجے پر قابو نہیں رکھ پائی۔۔ حاد نے بےاختیار گہرا سانس لیا۔ڈرائیور کا نمبر بند جارہا تھا۔۔ یہ ڈرائیور ان کا سالوں سے وفادار تھا جسے اس نے ملتان سے بلایا تھا۔وہ واپسی پر ایمان کو خود ڈراپ کرنا چاہتا تھا۔۔ رات کے اس پہر وہ اپنے خاندانی ملازم پر بھی یقین نہیں کر سکتا تھا لیکن اس سے پہلے ہی ایمان وہاں سے غائب ہوچکی تھی۔
تبھی اس کا فون بجنا شروع ہوا۔۔ ایمان کا فون تھا اس نے بےتابی سے فون اٹھایا۔
”ہیلو ایمان۔۔۔“ لیکن اسے دوسری جانب سے شور اور ایمبولینس کے سائرن کی آواز سنائی دی۔ اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔
”ایمان۔۔۔۔“ اس نے خشک پڑتے لبوں پر زبان پھیرتے اسے دوبارہ پکارہ۔۔ جبکہ دائمہ اب حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”آپ حاد جبیل بات کر رہے ہیں؟؟ آخری کال آپ کی ہی ہے اس فون پر۔۔ یہاں ایکسڈنٹ ہوا ہے اور ایک شخص کی موقع پر موت ہوچکی ہے۔۔۔“ وہ مزید نہ سن پایا۔
حاد جبیل دی ماسٹر مائند جسے اپنے اعصاب کو کنٹرول میں رکھنا آتا تھا رات کے اس پہر یہ خبر سن کر گاڑی کا اسٹریئنگ اس کے ہاتھ سے پھسلا۔۔ اور اونچائی سے نیچے کی جانب آتی پتھریلی گیلی سڑک پر گاڑی بےقابو ہوگئی۔ اس نے مشکل سے سامنے سے آتی گاڑی سے ٹکرانے سے بچایا اور ایک زور دار بریک لگائی جس سے اس کا سر اسٹریئنگ پر لگا تھا جبکہ دائمہ سیٹ بیلٹ لگانے کی وجہ سے بچ گئی لیکن اس کی خوفناک چیخ گاڑی میں گونج چکی تھی۔
اس نے گھبرا کر حاد کو دیکھا جس کی پیشانی پر چوٹ لگی تھی اور سرخ نشان بن چکا تھا جبکہ اسٹرئینگ پر دھرے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔۔اسے اٹیک ہوا تھا۔۔۔اور دائمہ نہیں جانتی تھی یہ کونسا اٹیک تھا اور کب ہوتا تھا اور کیوں ہوتا تھا۔۔۔؟؟
وہ حاد کو دیکھ کر خوفزدہ ہوچکی تھی جو اپنے کانپتے ہاتھوں پر قابو پاتے گاڑی چلانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے ہاتھ کام نہیں کر رہے تھے۔۔ وہ سامنے دیکھ رہا تھا۔۔ اس کے جبڑے بھنچے ہوئے تھے۔ اس پل دائمہ کو اس کی بےبسی محسوس ہوئی۔
”میں ڈرائیو کروں۔۔۔؟؟ پلیز مجھے کرنے دیں۔۔“ دائمہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔اس کے لہجے میں التجا تھی۔۔۔وہ حاد کو ایسے نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔وہ پھر جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی۔۔ حاد نے اپنی پوری ہمت جمع کی اور کھسک کر ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا اور دائمہ تیزی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔
”ریلیکس ہوجائیں اور بتائیں ہمیں کہاں جانا ہے۔۔۔“ اس کا بس چلتا تو وہ اپنے ساتھ بیٹھے شخص کو لے کر کہیں دور بھاگ جاتی۔وہ اب خود پر قابو پارہا تھا۔۔ اس نے اپنے ہاتھ پاؤں کو ہلا کر دیکھا کچھ دیر بعد وہ کام کرنے لگے تھے۔۔ اس نے جلدی سے فون اٹھایا اور ایمان کے نمبر پر دوبارہ کال کی۔۔ اسے ہسپتال کا اڈریس مل گیا تھا۔۔۔گاڑی اب تیزی سے ہسپتال کی جانب رواں تھی۔۔۔
یہ دیکھ کر دائمہ کے ہوش اڑ گئے تھے۔۔۔جو ابھی ہوا وہ کیا تھا۔۔ کونسا سچ تھا کونسا راز تھا جس سے وہ ناواقف تھی۔
اس نے ذرا سا رخ موڑ کر حاد کو دیکھا۔۔۔ اسے بےاختیار رونا آیا۔۔۔ اسے اس وقت اپنی نہیں بلکہ حاد کی بےبسی پر رونا آیا تھا جو اپنا سر تھامے بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھوں میں لرزش تھی۔
”مسٹر جبیل۔۔ کیا آپ مجھے سن رہے ہیں۔۔ یہ آپ کی ڈوز کا ٹائم ہے۔۔۔اگر آپ نے آج نہیں لی تو نقصان ہو سکتا ہے۔۔۔مسٹر جبیل۔۔ آپ کی ڈوز کا ٹائم ہوچکا ہے۔۔“
اس کے ایئر بڈ سے ابھرتی آواز اس کے اعصاب پر کسی ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی۔
ایسا کیوں ہوا تھا؟؟ ہوائیں سرگوشیاں کر رہی تھیں۔۔۔وقت نے رک کر دیکھا اور ذرا سا جھکتے ہوئے ماضی میں جھانکنے کی کوشش کی۔۔۔ جہاں درد ہی درد تھا۔۔ اندھیرا ہی اندھیرا۔۔۔وہ حاد جبیل کے لیے جو لوگوں کے لیے روشنی بن کر آیا تھا۔۔۔اس کی اپنی زندگی میں بس سیاہی ہی سیاہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
جیسے جیسے حانم کی ڈیلیوری کا وقت قریب آرہا تھا ویسے ویسے روحان کا اضطراب بڑھتا جارہا تھا اور جب سے اسے پتا چلا تھا وہ ایک نہیں بلکہ دو جڑواں بچوں کا باپ بننے والا تھا اس کی بےچینی مزید بڑھ گئی تھی۔
اسے اللہ پر یقین تھا لیکن پھر بھی ایک خوف تھا۔۔۔ اس کا جینیاتی طور پر عام انسانوں سے تھوڑا الگ ہونا کیا کیا مصیبتیں لایا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا اس کے بچوں میں سے کوئی کسی قسم کی اسپیشلٹی کے ساتھ پیدا ہو۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایک اندھیری دنیا جو اس کے پیچھے پڑی تھی وہ اس کے بچوں تک پہنچتی۔
”جو بھی ہوگا مل کر دیکھ لیں گے نا۔۔“ حانم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا تو اس نے حانم کا وہی ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگایا۔۔ وہ خوش تھا لیکن اس خوشی میں ایک انجانا سا خوف بھی تھا۔
وقت گزرتا گیا۔۔ اللہ تعالی نے انہیں دو جڑواں بچوں سے نوازا۔۔ دونوں کی آنکھیں حانم پر گئی تھیں جبکہ نین نقش باپ جیسے تھے۔ سید حویلی میں سب خوش تھے انہوں نے بچوں کے نام عبدالحاد اور عبدالاحد رکھے تھے۔۔اور پورے نام کی بجائے ایک بچے کو عبدل جبکہ دوسرے کو حاد بلایا جانے لگا۔ دونوں میں جہاں فرق کرنا مشکل تھا وہیں سب سے آسان تھا۔۔۔ عبدل ہر وقت روتا چلاتا رہتا تھا۔۔۔جیسے ہی حانم اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوتی وہ چیخیں مار مار کر پورا گھر سر پر اٹھا لیتا۔۔۔وہ اپنے باپ کو دیکھتا تو مسکرانے لگتا۔۔ اس کی نسبت حاد کو کبھی روتے نہیں دیکھا گیا۔۔۔ وہ معصومیت سے اپنی چمکتی آنکھوں سے سب دیکھتا رہتا۔۔ اپنی ماں کو کام کرتے۔۔۔اپنے بھائی کو تنگ کرتے۔۔ وہ ان کا معصوم بچا تھا۔
”میں سوچتا ہوں یہ جب بڑا ہوگا تو کیا وبال ہوگا۔۔۔“ اکـثر روحان جبیل عبدل کو گود میں اٹھاتے کہتا تھا۔۔۔باپ کی گود میں جاتے ہی وہ خاموش ہوجاتا۔۔ اسے اٹینشن چاہیے ہوتی تھی پیار اور محبت سب کچھ۔۔۔
جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے گئے عبدل کی شدت پسندی میں اضافہ ہوگیا کیونکہ حاد اس کے ساتھ نہیں کھیلتا تھا وہ اس سے الگ تھا۔۔ وہ روتا نہیں تھا تنگ نہیں کرتا تھا۔۔ اور سب سے بڑی بات وہ عجیب باتیں کرتا تھا۔۔
روحان دونوں کے بلڈ سیمپلز کو ریگولرلی ٹیسٹ کر رہا تھا۔۔۔سب ٹھیک تھا۔۔۔ چار سال ایسے ہی گزر گئے تھے۔۔ایک دن حاد سیڑھیوں سے گرا۔۔ اور اس کا سر پھٹ گیا اور اسے گرانے میں عبدل کا ہاتھ تھا۔۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا اور وہاں حانم پر انکشاف ہوا وہ صرف عجیب ہی نہیں اسپیشل تھا۔۔ اسے درد محسوس نہیں ہوتا تھا۔۔ یہ خبر سنتے ہی روحان اسے فوراً ہسپتال سے لے آیا۔۔۔ وہ پریشان ہوچکا تھا۔۔۔ اس نے حاد کا بلڈ سیمپل پھر سے ٹیسٹ کیا وہ جس لیب میں کام کرتا تھا اب وہاں وہ اس کے ڈی این اے اور باقی ٹیسٹ کر رہا تھا۔۔ کہیں کوئی خاص مسئلہ نظر نہیں آرہا تھا۔۔ یہ جو بھی بیماری تھی ابھی چھپی ہوئی تھی۔۔۔ اس کا پتا نہیں چل پا رہا تھا۔۔ بظاہر یہ
(Congenital Insensitivity to Pain with Anhidrosis)CIPA
کا کیس لگتا تھا لیکن حاد باقی بچوں سے بہت الگ تھا۔۔ وہ ذہین تھا ایکٹیو تھا اور صحت مند تھا۔۔اسے کسی قسم کی جسمانی معذوری نہیں تھی اور روحان اسی لیے پریشان تھا کیونکہ یہ اسپیشل کیس بہت سے لوگوں کی توجہ کھینچنے والا تھا۔
”ہمیں اب مزید احتیاط برتنی ہوگی۔ کسی کو یہ پتا نہیں چلنا چاہیے کہ حاد کو درد محسوس نہیں ہوتا۔۔یا تو اس کے پین ریسپٹرز کام نہیں کرتے یا پھر وہ اسپیشل ہے۔۔“
لیکن خبر ہسپتال سے لیک ہوچکی تھی۔ انہی دنوں ڈاکٹر روحان جبیل کے دشمنوں کی تعداد میں اور اضافہ ہوگیا تھا۔۔ ایک اسکالر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جینیاتی سائنٹسٹ کی بنا پر بھی لوگ اس سے خار کھانے لگے تھے۔وہ جینیاتی بیماریوں کی ویکسینیشن بنانا چاہتا تھا۔۔ فارما انڈسٹریز انہیں کسی اور انداز میں پیش کرنا چاہتی تھیں۔
وہ جن اسپیشل بچوں کی مدد کرنا چاہتا تھا جینیاتی مافیا انہی بچوں پر گھناؤنے ٹیسٹ کرنے کے حق میں تھے۔
”مجھے اپنی زندگی کا بھروسہ نہیں ہے۔۔۔اور اگر میں بچ بھی گیا تو مجھے جانا ہوگا۔۔ کسی ایسی جگہ جہاں مجھے یہ سب لوگ ڈھونڈ نہ پائیں۔۔۔“
ایک سال گزر گیا تھا۔۔ اور ایک سال بعد اچانک ایک دن حانم کو حاد کچن میں فرش پر گرا ہوا ملا۔۔۔
اس کا جسم بےجان تھا۔۔ بالکل ٹھنڈا اور اس کا رنگ نیلا پڑ گیا تھا۔۔ وہ اسے ہسپتال نہیں لے جا سکتے تھے۔۔۔ اسے گھر میں ہی رکھا گیا۔۔۔ روحان جبیل نے دن رات لگا دیے تھے اس کے اس اٹیک کی ویکسینیشن تیار کرنے میں جس سے وہ حاد کے اٹیک کو روک سکے۔۔۔ کیونکہ جب جب ایسا کوئی اٹیک ہوتا تھا اس کی صحت گرنے لگتی تھی۔
اس نے پہلی بار جب حاد کو ویکسین انجیکٹ کی تھی وہ مچھلی کی طرح تڑپا تھا۔۔ اسے درد محسوس ہوا تھا اور اس کی حالت دیکھ کر حانم منہ پر ہاتھ رکھ کر رو دی تھی۔
”ماما۔۔ حاد کو کیا ہے۔۔؟؟“ عبدل نے اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنی ماں کے آنسوں پونچھتے پوچھا۔
”کچھ بھی نہیں وہ ٹھیک ہے۔۔۔“ اس نے عبدل کو گلے لگایا۔
”لیکن وہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔“ وہ حاد کو ایسے دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا۔
”ہم اسے ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں لے کر جاتے۔۔۔؟؟“ اس کے ذہن میں بہت سارے سوال تھے۔۔۔آج کل اس کے ماں باپ حاد کو اٹینشن دے رہے تھے۔۔۔جو اسے ملتی تھی۔ اور اسے یہ عجیب لگ رہا تھا۔
”نہیں لے کر جا سکتے۔۔۔اور آپ کسی کو بتانا مت۔۔۔“ وہ اب اس کا گال چومتے بولی۔
”بٹ وائے۔۔۔“ اسے اب الجھن ہورہی تھی۔
”کیونکہ وہ اسپیشل ہے۔۔۔اور اسپیشل چیزیں تو ہم سب سے چھپا کر رکھتے ہیں نا۔۔؟؟“ حانم نے اس کی تائید چاہی لیکن اس کا منہ پھول چکا تھا۔
”مجھے بھی اسپیشل بننا ہے۔۔“ اس کا ازلی ضدی پن عود آیا تھا۔
”تم بہت اسپیشل ہو۔۔۔تم دونوں اسپیشل ہو۔۔۔“ اس نے پھر سے عبدل کو گلے لگایا۔۔۔لیکن عبدل کی نگاہیں شیشے کے اس پار بیڈ پر لیٹے حاد پر جمی تھیں جہاں اس کا باپ اس کے پاس بےچینی سے ٹہل رہا تھا۔۔ اسے ساری توجہ چاہیے تھی۔۔ سارا پیار۔۔۔اسے حاد جتنا اسپیشل بننا تھا۔
✿••✿••✿••✿
لندن میں رہنے کے باوجود حانم اپنے بچوں کو پوری توجہ دے رہی تھی۔۔ ان کی تربیت میں کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے اس کے لیے وہ انہیں روز النور لے کر جاتی اور انہیں امت مسلمہ کی ہسٹری سناتی۔۔ اس دن وہ دونوں کو اپنے دونوں جانب لٹائے محمد بن قاسم کے بارے میں بتارہی تھی کہ اس نے کتنی عمر میں فتوحات حاصل کی تھیں۔
”اور جب کبھی جنگ ہوگی تو میں ہار جاؤں گا۔۔“ عبدل کا ذہن اٹک گیا تھا۔
”اور حاد جیت جائے گا۔۔“ وہ منہ بسور کر بولا۔ اسے جیتنے سے زیادہ ہمیشہ ہارنے کا خوف لگا رہتا تھا اور وہ بھی حاد سے ہارنے کا۔
”اور ایسا کیوں۔۔؟؟“ وہ الجھی۔
”کیونکہ اسے درد نہیں ہوتا مجھے ہوتا ہے۔۔۔“ حانم نے بےاختیار حاد کو دیکھا۔۔ وہ خاموشی سے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا۔
”پتا ہے مومنین اپنے جذبوں سے اپنے ایمان سے لڑا کرتے ہیں چاہے وہ تلواروں کی جنگ ہو یا پھر آج کے دور کے اندھیروں سے۔۔۔“ حانم نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا۔
”ڈونٹ وری میں تمہیں ہارنے نہیں دوں گا۔۔۔آئی ول پروٹیکٹ یو۔۔“ حاد نے اس کے کندھے کو سہلایا جبکہ عبدل نے جھٹکے سے اس کا ہاتھ دور کیا اور پھر حانم کے گرد اپنے ننھے بازو لپیٹے۔
”غلط بات ہے عبدل۔۔۔“ وہ اسے ڈپٹے حاد کو دیکھنے لگی جو مسکرا رہا تھا۔۔۔ وہ اپنی ماں کو سمجھتا تھا اور عبدل کی غصیلی نیچر سے بھی واقف تھا۔۔ وہ بس مسکرا دیتا تھا۔۔۔ اس کی مار سہہ جاتا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”کبھی کبھی میں سوچتی ہوں اللہ نے ہمیں کسی انعام سے نوازا ہے۔۔“ اس روز وہ روحان کے پہلو میں لیٹی کہہ رہی تھی۔
”کیسے؟؟“ وہ اس کا ہاتھ سہلاتے پوچھنے لگا۔
”حاد۔۔۔ وہ بہت خاص ہے۔۔ صرف اس لیے نہیں کہ وہ باقیوں سے الگ ہے۔۔ وہ اس دنیا کے لیے بہت معصوم ہے۔ میں جب جب اسے دیکھتی ہوں مجھے ایک روشنی، ایک سفیدی کا احساس ہوتا ہے۔۔“
روحان نے سن کر ایک گہرا سانس لیا کیونکہ وہ جانتا تھا جب اللہ کچھ نوازتا ہے تو آزمائش بھی بڑی ہوتی ہے اور اولاد تو پھر آزمائش ہے۔۔ لیکن وہ حانم کو کبھی یہ نہیں بتا پایا کہ حاد کو جو بیماری تھی وہ صرف اسے خاص نہیں بناتی تھی بلکہ وہ موت کا عندیہ تھی۔۔ اسے کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا تھا جبکہ حانم جانتے ہوئے بھی انجان بنی رہتی تھی۔۔۔اسے اللہ پر بھروسہ تھا کہ کوئی ذی روح بلاوجہ نہیں آتی۔۔۔ ہر انسان کے پیدا ہونے کا ایک مقصد ہے اور حاد کا مقصد جو بھی ہوتا وہ اپنے مقصد سے نہیں چوک سکتی تھی۔
”میرے کولیگ پوچھنے لگے ہیں کہ میں بچوں کو اب لیب کیوں نہیں لے کر آتا۔۔۔“ وہ حاد اور عبدل کو النور کے ساتھ ساتھ اس لیب میں لازمی لے کر جاتا تھا جہاں وہ کام کرتا تھا۔ جب سے حاد کی بیماری سامنے آئی تھی وہ تب سے انہیں لیب نہیں لے کر گیا تھا مبادہ کہیں پتا نہ لگ جائے۔
”انہیں شک ہونے لگا ہے۔۔“
”پریشان مت ہوں جو ہوگا اللہ کی مرضی سے ہوگا۔۔“ وہ پرسکون رہتی تھی اور اس کا سکون روحان کو سکون دیتا تھا۔
✿••✿••✿••✿
کچھ وقت بعد اس نے لیب میں کچھ ایسے کام دیکھے جو غیر قانونی تھے۔۔ غیر قانونی تجربات، جانوروں اور انسانوں کا استعمال۔۔ اس نے کچھ وقت کام کیا اور پھر لیب کی اصلیت میڈیا کے سامنے لا کر جاب چھوڑ دی۔۔ اس نے گھر بدل لیا وہ حانم اور بچوں کو محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔۔ اور پھر ایک دن حانم بچوں کو لے کر اسکول سے لوٹی تو وہ جاچکا تھا۔۔ اسے بس ایک خط ملا تھا اور ایک پزل باکس۔۔۔
”میں جارہا ہوں۔۔ مجھے کچھ ایسے کام کرنے ہیں جو منظر عام پر رہ کر نہیں کر سکتا۔۔ مجھے ڈھونڈنا مت۔۔۔ کیونکہ مجھے انسانیت اور اللہ کے لیے کام کرنا ہے۔۔ میں نہیں جانتا میں کب لوٹوں گا۔۔ واپس آ پاؤں گا یا نہیں۔۔۔ بس تم حوصلہ رکھنا۔۔۔ یہ باکس حاد کو دے دینا اور عبدل سے کہنا میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں۔۔۔“
حانم زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔۔ کچھ ضروری باتیں اور لکھی تھیں۔۔۔ وہ تو اس کے بنا ایک دن نہیں رہ پاتی تھی اور وہ اسے جدائی کا عندیہ دے کر چلا گیا تھا۔۔ عبدل پاس نہیں تھا۔۔ حاد نے اپنی ماں کو روتے دیکھا اور وہ خط اٹھا کر پڑھا۔۔۔
”ڈونٹ وری مما۔۔میں ہوں نا۔۔“ اس نے وہ پزل باکس اٹھا لیا تھا۔۔ عبدل کو یہی بتایا گیا کہ روحان کام کے سلسلے میں گیا ہے۔۔ وہ روز اپنے باپ کا انتظار کرتا لیکن وہ نہیں آیا۔۔
اس کا غصہ بڑھتا گیا۔۔۔اس کا انتظار اب اذیت میں بدلنے لگا اور اسے حاد سے مزید چڑ ہونے لگی جب وہ اسے اتنا پرسکون دیکھتا۔۔۔ اس نے ایک دن اس سے پزل باکس چھین کر زمین پر دے مارا۔۔
”تم ماما سے کیوں نہیں پوچھتے ہو کہ پاپا کب آئیں گے؟“ اسے حاد کی خاموشی چبھتی تھی۔
”پاپا آجائیں گے۔۔ وہ ضروری کام سے گئے ہیں۔۔ میں پاپا کو لے آؤں گا۔۔۔“
اور پھر حانم، ماہم کی ڈیلیوری پر انہیں لے کر پاکستان آئی جہاں وہ ایمانے سے ملے اور پھر کبھی بھول نہیں پائے۔
✿••✿••✿••✿
عبدل فٹبال کھیلنا پسند کرتا تھا اور اسے حاد پر اور غصہ آتا جب وہ اس کے ساتھ نہیں کھیلتا تھا حاد کو اپنے ماما پاپا کی لائبریری زیادہ اٹریکٹ کرتی تھی جہاں ڈھیروں کتابیں تھیں۔۔۔ وہ انہیں چمکتی آنکھوں سے دیکھتا تھا۔۔۔وہاں انسانی تاریخ سے شروع ہو کر آج کی ٹیکنالوجی تک کی بےشمار کتابیں تھیں۔۔ لیکن اسے سب سے زیادہ جو کتاب اٹریکٹ کرتی تھی وہ اس کی ماں کے کمرے میں تھی جسے وہ روز پڑھتی تھی۔۔ اس کے مختلف زبانوں میں ترجمے تھے جو لائبریری میں تھے اور یہ قرآن پاک تھی۔
”آپ اسے اپنے پاس کیوں رکھتی ہیں؟؟ لائبریری میں کیوں نہیں۔۔“ وہ ان کے پاس آگیا۔
”کیونکہ یہ خاص ہے۔۔۔“
”وہ کیسے۔۔۔؟؟“ وہ دو زانو بیٹھا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ ٹھوڑی نیچے جمائے اپنی ماں سے پوچھ رہا تھا۔
”کیونکہ اسے آسمان سے اللہ نے ہمارے لیے اتارا ہے۔۔“ وہ النور باقاعدگی سے جاتا تھا۔۔ قرآن پاک اس نے ایک بار پڑھ لیا تھا۔۔ اسے وہاں جانا اچھا لگتا تھا۔۔۔ جب اسٹیج پر کھڑے ہو کر اسکالرز مجمعے کے سوالوں کا جواب دیتے تھے اسے یہ سب حیران کن لگتا تھا۔۔۔ پہلے وہ اپنے باپ کے ساتھ آتا تھا اور انہیں دیکھتا تھا سنتا تھا۔۔۔ اب ایک اکیلا پن تھا۔۔۔
اسے افسوس ہوتا تھا۔۔وہ اپنے باپ سے ملنا چاہتا تھا ان کے گلے میں بازوں ڈالنا چاہتا تھا۔۔۔وہ دکھی ہوجاتا تو رونا چاہتا پر اس سے رویا نہیں جاتا تھا۔
”جو آسمانوں سے اترتا ہے وہ خاص ہوتا ہے؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”ہاں۔۔۔“
”ہم بھی تو وہیں سے آئے ہیں نا۔۔ اللہ کے پاس سے۔۔ تو کیا ہم بھی خاص ہیں۔۔؟؟“ حانم نے چونک کر اسے دیکھا۔
”ہاں۔۔۔ سب انسان خاص ہیں۔۔“
”تو سب انسانوں کا مقصد کیا ہے؟؟“ اسے اپنا وجود ایک سوال لگتا تھا۔۔۔اور ہماری پہچان تب ہی شروع ہوتی ہے جب پہلا سوال یہ ابھرتا ہے ہم کون ہیں؟؟ اور حاد جبیل کے ذہن میں یہ سوال ابھرنے لگا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”تم نے کہا تھا پاپا جلدی آئیں گے۔۔۔ایک سال ہوگیا ہے پاپا نہیں آئے۔۔۔“ وہ دونوں سکول میں تھے۔۔۔چھٹی ہوچکی تھی اور وہ اپنی ماں کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔ روحان جبیل کا اچانک غائب ہونا بہت بڑا سوال تھا۔۔ پورا جبیل خاندان میڈیا کی زد میں تھا۔۔ ایک ہی سوال پوچھا جا رہا تھا کہ وہ کہاں گیا تھا۔۔۔خود غائب ہوا تھا یا کسی نے اغواء کیا تھا۔۔یا وہ مرچکا تھا۔۔ لیکن کسی کو کوئی جواب نہیں مل پایا۔۔۔
”آجائیں گے۔۔۔“ اس نے سکون سے جواب دیا۔
”تم ایمانے کو نہیں لا سکتے؟؟“ اس نے اگلا سوال کیا۔۔۔حاد نے نگاہیں ترچھی کرکے اسے دیکھا۔۔۔وہ دونوں جڑواں تھے۔۔شکل میں زیادہ فرق نہیں تھا۔۔ عبدل کے بال تھوڑے لمبے تھے جو پیشانی پر بکھرے رہتے تھے جبکہ حاد اپنے چھوٹے بالوں کو سیٹ رکھنے کا عادی تھا۔۔ ایک جتنا قد ایک جتنی جان ہونے کے باوجود عبدل اسے ایسے دیکھتا تھا جیسے وہ کوئی سپر ہیرو ہو جو ابھی اڑ کر جائے گا اور ایمانے کو اٹھا کر لے آئے گا۔
اس نے عبدل کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔بس گہرا سانس لے کر رہ گیا۔۔ سات سالا حاد اپنے آپ کو سترہ سالا لڑکے سے کم نہیں سمجھتا تھا۔۔ وہ ایک ہی سکول جاتے تھے جبکہ حاد اس سے دو کلاسیں آگے تھا۔
”مجھے ایسے مت دیکھو۔۔“ اس کے خاموش نگاہوں سے دیکھنے پر عبدل چڑجاتا تھا۔۔ عبدل کی زبان تیز دھاری تھی تو حاد کی آنکھیں بولتی تھیں۔۔ اسے زیادہ باتیں کرنا فضول لگتا تھا۔۔وہ اپنی آنکھوں سے ہی سب کہہ دینے کا عادی تھا۔
”ایمانے ہماری بہن نہیں ہے۔۔ہماری بہن منحہ ہے۔۔“
”منحے۔۔۔“ عبدل نے زور دیتے تصحیح کی۔ ”پر ایمانے بھی چاہیے مجھے۔۔۔ہم دو ہیں تو بہنیں بھی دو ہونی چاہیے۔ منحے تم رکھ لینا اور ایمانے میں۔۔“
وہ بولتا رہا جبکہ حاد خاموشی سے سنتا رہا۔۔۔وہ اس کی کسی بات کا جواب نہیں دے رہا تھا۔۔ وہ حانم کا ویٹ کر رہا تھا جو آج جانے کیوں لیٹ ہوگئی اور اسے اچھا محسوس نہیں ہورہا تھا۔۔وہ جلد از جلد گھر جانا چاہتا تھا۔۔۔
جب عبدل کو محسوس ہوا کہ وہ اسے اگنور کر رہا ہے تو اس نے غصے سے اٹھتے ہوئے بینچ پر بیٹھے حاد کو زودار دھکا دیا۔۔ وہ بیگ سمیت نیچے گرا۔۔
”تمہیں مجھے اگنور نہیں کرنا چاہیے۔۔“ وہ غصے سے پھنکارتا کلاس روم کی جانب بڑھا جبکہ حاد نے اٹھتے ہوئے اپنا یونیفارم جھاڑا۔۔
”حاد تم سے کوئی ملنے آیا ہے۔۔“ گارڈ نے اسے اطلاع دی تھی۔حاد چونکا۔۔ وہ کچھ سوچتا ہوا گیٹ سے باہر نکل آیا۔ اسکول کی چھٹی کے بعد وہاں گہری خاموشی اور ویرانی تھی۔۔ کوئی بھی آس پاس نظر نہیں آرہا تھا۔۔گیٹ کے باہر ایک سیاہ گاڑی کھڑی تھی جس میں سے ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص باہر نکلا تھا۔۔اس نے سیاہ چشمہ لگا رکھا تھا۔۔ حاد گیٹ کے پاس ہی کھڑا رہا۔۔
”حاد جبیل۔۔۔“ وہ اس کے قریب آیا۔۔ اس نے جھکتے ہوئے حاد سے پوچھا۔
”ہو آر یو۔۔۔؟؟“ حاد نے اس کے چہرے کو دیکھتے پوچھا۔
”تمہارے ڈیڈ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔“
اور حاد کے کان کھڑے ہوئے۔
”کبھی کوئی میرا نام لے کر تم سے ملنے کی کوشش کرے تو یقین مت کرنا۔۔ بھاگ جانا اور خود کو بچانا۔۔۔“ اسے روحان کی بات یاد آئی۔
وہ تیزی سے پلٹا اور سکول کے اندر داخل ہو کر گیٹ بند کرنے کی کوشش کی لیکن گاڑی میں سے چند اور لوگ باہر نکلے تھے۔۔۔گارڈ کے ملوث ہونے پر وہ اسے زخمی کرکے حاد کو لے گئے تھے۔۔۔ وہ خود کو چھڑانے کی پوری کوشش کر رہا تھا پر انہوں نے اس کا منہ بند کردیا تھا۔۔ کلاس روم کی گلاس ونڈو سے عبدل نے یہ منظر بخوبی دیکھا تھا اور اس کی آنکھیں خوف سے پھٹ پڑی تھیں۔۔جب تک وہ باہر نکلا اور گیٹ کی جانب بھاگا تب تک وہ اسے لے کر جا چکے تھے۔
✿••✿••✿••✿
بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد منحہ اب گھر جانے کے لیے تیار تھی۔۔۔وہ کافی تھک چکی تھی اور آج کل تو ویسے ہی اس کا ذہن اس قدر الجھا ہوا تھا کہ اسے اپنے جسم میں تکلیف محسوس ہوتی تھی وہ پہلے کی طرح ایکٹیو نہیں تھی خود کو تھکا تھکا فیل کرتی تھی۔۔۔
ابھی اس نے اپنے بیگ اٹھایا ہی تھا جب اپنے فون پر جگمگ کرتے نام کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔
ادھم کی کال تھی۔۔پہلے تو اسے یقین نہیں ہوا۔ کال بند ہوچکی تھی اور جیسے ہی دوبارہ رنگ ہونا شروع ہوئی اس نے فوراً کال اٹھائی۔
”ہیلو۔۔“ اس نے لہجے کی بےتابی پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کی۔
”ڈاکٹر صاحبہ دوست بنا کر چھوڑ دینے کی عادی ہو کیا؟؟ کوئی فون کوئی میسج نہیں۔۔“ وہ حیرت سے سننے لگی۔ کیا وہ اس شخص کو یاد تھی۔
”کیسے ہیں آپ؟؟ وہ میں ذرا بزی تھی تو بس۔۔“
”جانتا ہوں لیکن میں ابھی لاہور آیا تو سوچا پوچھ لوں۔۔“
اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔
”آپ لاہور ہیں؟؟ پاکستان کب آئے؟ اور اس وقت کہاں ہیں۔۔؟؟“ بےجان وجود میں جیسے جان پڑگئی ہو۔ وہ ایکٹیو ہوئی۔
”پتا نہیں کہاں پھنس گیا ہوں۔۔یہاں چاروں طرف بس انسان ہی انسان ہیں۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتا یہ لوگ بلاوجہ کیوں سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔۔“ اس کی کوفت بھری آواز ابھری اور وہ بےساختہ ہنس دی۔
”مجھے لوکیشن شیئر کریں میں آتی ہوں۔۔“ اس کی آنکھوں کی، اس کے چہرے کی ساری رونقیں لوٹ آئیں تھیں۔
اور اگلے بیس منٹ بعد وہ ادھم کے ساتھ ایک ریسٹورینٹ میں بیٹھی تھی۔ وہ سیکنڈ فلور پر تھے۔۔ ادھم گلاس ونڈو سے نیچے چلتی ٹریفک دیکھ رہا تھا۔
"Lahore is terrible..seriously.."
وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”تو کیا کھینچ لایا آپ کو ٹریبل لاہور میں؟؟“ اس نے سوال کیا۔۔ وہ سفید کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ باہر رات کا اندھیرہ پھیل ہوچکا تھا اور چاروں جانب جگمگ جمگمگ تھی۔
”بس ایسے ہی سوچا کہ بےوفاؤں کے شہر ایک بار تو جانا چاہیے۔۔ لیکن مجھے یقین نہیں ہوتا یہ لوگ ہر وقت باہر کیوں پھرتے ہیں۔۔آئی مین وہ کونسے کام ہیں جو ختم ہی نہیں ہوتے۔۔۔ کتنا خوفناک ہے نا آپ باہر نکلیں اور چاروں جانب انسان ہی انسان ہوں۔۔۔ سو رشی ایریا۔۔“ اس نے جھرجھری لی۔ اس نے تو ماثیل انسٹیٹیوٹ شہر سے دور بنایا تھا جہاں سکون ہی سکون تھا۔ وہ اسے دیکھ کر اور اس کی باتیں سن کر مسکرا رہی تھی۔
”مسٹر ادھم جبیل۔۔ سب لوگ آپ کی طرح کی زندگی نہیں جیتے۔۔“
”ہاں آج کل کون بےروزگار رہتا ہے۔۔“
”تو کیا لیں گے آپ۔۔؟؟“ اس نے مینیو اٹھایا۔۔ اس شخص سے مل کر اسے زندگی کا احساس ہوا تھا۔۔۔اس کی بھوک جاگ اٹھی تھی۔
”کچھ بھی۔۔بٹ آئی ڈونٹ ہیو منی(میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔۔)“
منحہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”جو تھے وہ سب لگ گئے۔۔۔چھ مہینے جو آوارہ گردی کی ہے۔۔ سب ختم۔۔۔ کین یو بلیو کہ میرے گھر والوں نے میرا خرچہ پانی بند کیا ہوا ہے۔۔“ وہ خفگی سے بولا۔۔ انداز ایسا تھا کہ منحہ نے بےساختہ ابھرنے والی ہنسی کو چھپانے کے لیے مینیو تھوڑا اوپر کیا تاکہ اس کا چہرہ چھپ سکے۔ لیکن اسے ادھم کا ”میرے گھر والے“ کہنا اچھا لگا تھا۔
”لیکن کیوں۔۔۔“ وہ اب خود پر قابو پاتے پوچھ رہی تھی اور مینیو دیکھ رہی تھی تاکہ اسے یہ نہ لگے کہ وہ اس ہر ہنس رہی ہے۔
”انہیں لگتا ہے میں ڈرگز لوں گا۔۔“ وہ صاف گوئی سے بولا۔ منحہ کی مسکان سمٹی۔
”اور کس نے آپ کا خرچہ پانی بند کیا؟؟“
”سید جبیل صاحب۔۔۔تم جانتی ہو انہیں؟؟ ہی از اے پولیٹشن۔۔ کافی دولت ہے ان کے پاس لیکن پھر بھی مجھے پاکٹ منی تک نہیں دیتے۔۔“وہ شکایت کرتا بالکل بچہ لگا۔
وہ مینیو رکھ کر اب اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
”ایک تیس اکتیس سالا شخص کو پاکٹ منی کی کیا ضرورت؟؟“
”جب کوئی روزگار نہ ہو تو پاکٹ منی چاہیے ہوگی نا۔۔“
”تو وہ کیا چیز جو آپ کو مجبور کرتی ہے۔۔۔؟؟“ میز پر دونوں کہنیاں رکھے وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ ادھم نے چونک کر اسے دیکھا سوالیہ نظروں سے۔۔
”وہ کیا چیز ہے جو آپ کو ڈرگز لینے پر مجبور کرتی ہے؟؟“ وہ اب پوری سنجیدگی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھ رہی تھی۔ پل کے ہزارویں حصے میں اسے ادھم کے چہرے پر دکھ درد کے گہرے سائے نظر آئے۔
”میں کبھی تمہیں پاگل خانے میں نظر آئی تو جان لینا اس کی وجہ تم ہوگے۔۔۔“
اس کا دل رک سا گیا۔۔۔ اس نے اپنے آپ کو ویلنسیا میں پایا۔۔۔ وہ گہرے دکھ میں تھا۔۔۔ اس کے پہلو میں شنایا تھی۔۔ وہ مزید نہیں سوچ پایا۔۔ اسے اپنا آپ پھر سے جہنم کے ایندھن کی مانند جلتا محسوس ہوا۔ یہ وہ جلن تھی جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھی۔
اس کا بھٹکنا۔۔۔ اکیریئس جب اپنی حدوں سے نکلتا ہے تو موت اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔۔۔اور ماثیل اپنی حدوں سے نکلنے کے بعد مرچکا تھا۔۔۔اس نے محبت کا دعوی کیا تھا وہ قائم نہیں رہ پایا۔۔ اور اب صرف ادھم جبیل بچا تھا جو سکون کے لیے در در بھٹک رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ ہسپتال پہنچا تو اسے اپنے جسم میں جان محسوس نہیں ہورہی تھی۔۔۔ ڈرائیور مرچکا تھا اور ایمان آئی سی یو میں تھی۔۔۔اس کی کندھے کی اور پاؤں کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی اور بہت ساری چوٹیں آئی تھیں۔۔۔ کافی خون بہہ چکا تھا اور اس وقت اس کی حالت کافی نازک تھی۔ دائمہ خود شاک کی کیفیت میں تھی۔۔ اس نے نہیں سوچا تھا ایسا کچھ ہوگا۔۔۔ اس نے حاد کو دیکھا۔۔ وہ آئی سی یو روم کے باہر زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔۔۔ اس کے ہاتھ پھر سے کانپنے لگے تھے۔۔۔اور اس کے چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔۔ اس کی آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا اور چہرے پر تکلیف واضح تھی یوں جیسے اس کے اندر سارے اعضاء ٹوٹ پھوٹ رہے ہوں۔۔۔ وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھی اور اس کے قریب بیٹھی۔۔
”حاد آپ ٹھیک ہیں۔۔۔؟؟“ وہ اسے کندھے سے چھوتے بولی۔
”وہ۔۔ وہ مر نہیں سکتی۔۔۔ ایسے تو بالکل نہیں۔۔۔وہ میرے پندرہ سالوں کو یوں رائیگاں کرکے نہیں جا سکتی۔۔۔“
دائمہ اسے دیکھتی رہ گئی۔۔۔ ساکت نگاہوں سے۔۔۔ اس کے چٹختے وجود سے صرف درد ہی نہیں وہ جذبات باہر نکلے تھے جن کا گواہ صرف وہ اور اللہ تھا۔
دائمہ نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔۔ جدائی کا نوحہ محبت کی شدت ظاہر کرگیا تھا۔۔۔ محبت نے اب راز رہنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔۔۔وہ حاد کے وجود سے پھوٹ پھوٹ کر بہہ نکلی تھی۔۔۔۔۔ اور اس کی پہلی گواہ وہ لڑکی تھی جو اسے چاہتی تھی۔۔۔جو اس کے ساتھ اپنا نام جوڑ چکی تھی۔۔۔۔جو اسے کسی اور کا ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔وہ اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔۔۔
تو کیا اس نے غلط جگہ امید باندھ لی تھی۔۔۔اسے بار بار انکار کرنے پر بھی وہ کیوں نہیں سمجھی۔۔۔؟؟
وہ شخص اب گھٹنوں میں سر دیے بیٹھا تھا اور اپنے ہاتھ دونوں گھٹنوں کے گرد سختی سے باندھ رکھے تھے وہ خود کے جسم پر قابو پانے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔۔۔وہ اس اٹیک سے نکلنا چاہتا تھا۔۔۔ وہ شخص جو سفیدی کی دنیا میں ایک اچھا رہبر تھا جو حاد جبیل تھا۔۔۔وہ شخص جسے سیاہی کی دنیا مسٹر گرے کے نام سے جانتی تھی۔۔۔ جو ماسٹر مائنڈ تھا۔۔ وہ ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر یوں بیٹھا تھا جیسے کوئی چھوٹا سا ناراض بچہ ہو جو ساری دنیا سے چھپ جانا چاہتا ہو۔۔۔ دائمہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ اس نے ایک نظر حاد پر ڈالی۔۔
”اللہ آپ کی ایمان کو سلامت رکھے۔ میں نے آج آپ کو اپنی محبت سے آزاد کیا۔۔“ ایک آنسوں اس کی آنکھ سے پھسلا اور پلکوں کی باڑ توڑ کر گال پر بہتا چلا گیا۔
✿••✿••✿••✿
Maseel Episode 55 is now available , Click Here
Amazing 😍
ReplyDeleteGreat job 👍
ReplyDeleteI'm cravingly waiting for full novel 👀, good to read ❤️
ReplyDeleteStay connected , The new episode will be coming soon.
Deleteamazing episode (^_^)
ReplyDeleteOutstanding 😍😊
ReplyDeleteWe want to see Maseel and Eman together .
ReplyDeleteLet's see in upcoming episodes
DeleteMind blowing
ReplyDeleteAmazing
ReplyDeleteAssalamualaikum when I first red salphite novel I wish to part two and also to read again salphite novel but when I heard about maseel I just download and I love it don't show emany with maseel because haad jabil' more deserve emany than maseel
ReplyDeleteCouples should be
Haad jabil' and emany
Abdul jabil' and humaiza
Daima and Saad
Heasel Malik and Murtaza
Maseel and minha
And Dr RJ should come back
Walaikum salam,Thank you very much for your love and enthusiasm. It is certainly a pleasure to know that you enjoyed "Sulphite" and "Maseel". Your preferences for the couples are also interesting, and different readers may have different preferences for each character.
DeleteSame but masel.KO khud.KO.bdlna chahye tha Imany.k.keay. Lon bat sai HB jb tk hm khud na bdln Chang tb tk ni
Delete
ReplyDeleteاَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
Both novels sulphite and maseel are best aik epi prh k yhi hota h k bs agli bhi prh len jldi se bhtt intazaar h next episodes ka plzz next epi jld share kren and good job plzz keep it up 👍👍
Walaikum salam,Thank you so much🥰 for your wonderful compliments and encouragement. Next episode will be in your hands very soon. Stay tunned.
Deletenext ep plz
ReplyDeleteNext episode plz
ReplyDeleteNext episode
ReplyDeleteEpisode 55 has been uploaded,
Deleteاسلام علیکم
ReplyDeleteWhen I start read I was just a novel but now this is a part of my day your novel can change my mood .like today the day I spent of new episode I am thinking what happened next sometimes I become rude to some one ....maseel is all in one .religion pure and deep love care respect It shows everything.....you are wonderful😇🤗
Walaukum salam, Thank you so much for your wonderful comment! I'm delighted to know that this novel has become such an important part of your life and has a positive impact on your daily routine. Knowing that this story resonates with you deeply and that you eagerly await new episodes brings us immense joy.
DeleteI love this novel it is wonderful
ReplyDelete