مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_53
نور_راجپوت
کچھ ہی دیر گزری تھی شاید دس منٹ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔اس کی گردن بری طرح اکڑ گئی تھی اور اسے اگلا جھٹکا تب لگا جب اس نے حاد کو میز کی دوسری جانب سوتے دیکھا۔۔۔ اس نے گھبراہٹ میں فون اٹھایا لیکن وہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا۔۔
شور کی آواز پر وہ بھی اٹھ بیٹھا۔۔
”ایم سوری۔۔۔“ ایمان نے جھکتے ہوئے فون اٹھایا۔۔ سونگ ابھی بھی چل رہا تھا شاید کوئی شارٹ ویڈیو تھی جو ریپیٹ پر چل رہی تھی۔ وہ ایک جھٹکے سے کرسی سے کھڑا ہوا۔
”وہ میں میوزک نہیں سنتی۔۔ پتا نہیں کیسے۔۔۔“ اس نے فون اٹھا کر بند کیا۔۔ وہ ڈر گئی تھی کہ کہیں حاد اسکے اکیڈمی میں میوزک سننے پر غصہ نہ کر جائے جبکہ حاد تو اپنی جگہ حیران پریشان کھڑا تھا۔۔۔۔
اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ یوں آکر سوگیا تھا۔۔ اس نے بےساختہ چہرے پر ہاتھ پھیرا۔۔ پیشانی پر آئے بالوں کو پیچھے کیا اور فوراً بولا۔
”اٹس اوکے۔۔۔ اور معذرت میری طرف سے مجھے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔۔ آئی نو مائی لمٹس۔۔ اگین سوری۔۔“ وہ تیزی سے کہتا دروازے کی جانب بڑا اور اسے کھول کر باہر نکل گیا۔۔۔وہ اب تیزی سے راہداری سے گزر رہا تھا جبکہ اس کا دل اس سے بھی تیز رفتار سے دھڑک رہا تھا۔
تیس سالوں میں پہلی بار تھا جب حاد نے اپنے دل کے سامنے خود کو یوں بےبس پایا تھا۔
جبکہ پیچھے ایمان حیران سی بیٹھی رہ گئی تھی۔۔کیا ہوا تھا وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
اسے یوں سوتا دیکھ کر حیران تو وہ بھی ہوئی تھی پر اسے اندازہ نہیں تھا وہ اتنا گلٹی فیل کرے گا۔۔۔وہ کو ایجوکیشن میں پڑھی تھی۔۔۔اپنی لمٹس جانتی تھی اور ان پر قائم بھی تھی۔۔ لیکن اسے حاد کا سوری کرنا اچھا لگا تھا۔۔
بہت کم مرد ایسے ہوتے ہیں جو اپنی حدود کو جانتے ہوں جو انہیں پار نہ کرتے ہوں۔
وہ وہیں بیٹھی رہی۔۔۔دروازہ کھلا اور ایک لڑکا چائے لیے اندر داخل ہوگیا۔ اس نے چائے خاموشی سے ٹیبل پر رکھی اور واپس چلا گیا۔ اسے پاور نیپ ہمیشہ تازہ دم کر دیتے تھے۔۔۔اس کی گردن تو اکڑ گئی تھی لیکن وہ اب خود کو فریش محسوس کر رہی تھی اور اب تازہ دم ہو کر پھر سے کام کر سکتی تھی۔۔۔
اس نے چائے کا کپ اٹھا کر ایک گونٹ بھرا اور پھر فوراً واپس رکھ دیا۔۔ وہ پھیکی چائے لیتی تھی جبکہ یہ میٹھی تھی۔۔ اس نے گہرا سانس لیا۔۔۔یہ تو وہ بتانا ہی بھول گئی تھی اور نہ انٹرکام پر موجود لڑکی نے اس سے پوچھا تھا۔
اس کی بری عادت تھی جب اسے کوئی کھانے کی چیز پسند نہیں آتی تھی تو وہ اسے زبردستی نہیں کھا سکتی تھی۔۔ اس نے بہت بار کوشش کی لیکن اسے قے آجاتی تھی پر وہ کھانا اندر نہیں جاتا تھا۔۔۔
اس نے اپنے فون کو دیکھا۔۔ شام کے سات بج چکے تھے۔۔۔ ساڑھے سات بجے اسے یہاں سے چلے جانا تھا ایک گھنٹے بعد وہ گھر جا کر چائے پی سکتی تھی۔۔
اس نے کپ وہیں چھوڑا اور اپنا اسکارف درست کرتی وہاں سے اٹھ کر باہر نکل آئی۔۔
راہداری میں اسے کافی اسٹوڈنٹس نظر آئے۔
”کیا آپ ہی ہیلر ہیں۔۔۔؟؟“ اسے دیکھتے ایک لڑکی اس کی جانب بڑھی۔
”میری ذات اس قابل نہیں اسے ہیلر کا نام دیا جائے پتا نہیں لوگ کیوں کہتے ہیں ایسا۔۔۔“
”آپ ہمارا سیشن کب سے لیں گی؟؟“ وہ اشتیاق سے پوچھ رہی تھی۔
”شاید کل سے۔۔۔“ وہ مسکرا کر کہتی آگے بڑھی۔
”کیا یہ سچ ہے آپ کے سیشن میں صرف لڑکیاں ہوں گی۔۔۔“ وہ رک اور پھر پلٹ کر دیکھا۔۔۔باہر سردی تھی اس نے اپنے ہاتھ اونی کوٹ کی جیبوں میں ڈال لیے تھے۔
”ایسا ہی ہے۔۔۔“ وہ مسکرا کر جواب دیتی پھر سے جانے کے لیے مڑی۔
”کیا آپ کو لڑکے نہیں پسند۔۔۔؟؟“ لڑکی الجھی ہوئی تھی۔ایمان نے بےساختہ ابھرنے والی اپنی مسکراہٹ چھپائی۔
”ہاں ایسا ہی ہے۔۔۔“ وہ ہولے ہولے قدم بڑھاتی جواب دے رہی تھی۔
”اور وہ لڑکے جو آپ کا سیشن لینا چاہتے ہیں ان کا کیا۔۔؟؟“ لڑکی نے اب تھوڑا اونچا بولا تاکہ آواز اس تک پہنچ جائے۔
”وہ سہہ نہیں پائیں گے۔۔۔“ اس کے لب مسکرا رہے تھے۔پیچھے کھڑی لڑکی مزید الجھ گئی تھی۔ جبکہ وہ تیزی سے چلتی سیڑھیوں کی جانب مڑ گئی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ تمہیں ادھم بھیا سے محبت ہوگئی ہے؟؟“ دائمہ حیران سی پوچھ رہی تھی۔ وہ اپنے آفس میں تھی جبکہ منحہ ہسپتال میں۔۔ وہ دونوں فون پر بات کر رہی تھیں۔۔ دائمہ نے ہمیشہ اپنی سبھی باتیں منحہ سے شیئر کی تھیں اور منحہ جو اتنے دنوں سے برداشت کرتے کرتے تھک گئی تھی اب اس نے بھی دائمہ سے شیئر کرنے کا سوچا تھا۔
”مجھے نہیں پتا یہ کیا ہے۔۔ ہاں میں انہیں بھول نہیں پارہی۔۔۔ وہ میرے ذہن سے نہیں نکل رہے۔۔“ منحہ نے کنپٹی سہلاتے جواب دیا۔
”یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ میری بیسٹ فرینڈ میری بھابھی بن جائے۔۔“ اس کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔
”میں چاہتی ہوں تم کسی سے اس بات کا ذکر مت کرو۔۔ میں خود کو اور وقت دینا چاہتی ہوں میں اتنی جلدی دل کے سامنے ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔۔“
منحہ مضبوط لہجے میں بولی تو دائمہ کا قہقہہ ابھرا۔
”شیور مادام۔۔۔ جتنا چاہے وقت لے لو۔۔ لیکن جو لوگ ایک بار دل کو لگ جائیں انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔۔“
کافی دنوں بعد دائمہ کھل کر ہنسی تھی۔۔ اسے تو خود اس کی یک طرفہ محبت تکلیف میں ڈالے رکھتی تھی۔ اس کی بات سن کر منحہ خاموش رہی۔۔۔وہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی۔۔۔اتنا آسان نہیں تھا اپنے دل کو روندھنا۔۔۔
”میں کل اسلام آباد جا رہی ہوں تمہارا کوئی ارادہ ہے؟؟“ اس نے منحہ کی خاموشی کو محسوس کرتے خود ہی پوچھا۔
”خیریت۔۔۔؟؟ کس لیے جارہی ہو۔۔“ منحہ اب حیران ہوئی۔
”دیکھنے جارہی ہوں اس ظالم شخص نے کیسی دنیا بنائی ہے۔۔۔“
”اور تمہیں ٹائم مل گیا۔۔۔؟؟“ اس کا زیادہ تر وقت آفس میں گزرتا تھا۔۔ صبح سے شام اور پھر رات میں بھی اکثر وہ ضیاء جبیل کے ساتھ کسی نہ کسی میٹنگ پراجیکٹ پر ڈسکشن کرتی رہتی تھی۔
”ٹائم نکالنا پڑتا ہے۔۔“ ایک بار پہلے بھی وہ حاد کے پیچھے گئی تھی اسلام آباد اور پھر دل تڑوا کر روتے ہوئے واپس آئی تھی اور دوبارہ پھر سے جارہی تھی۔۔ جانے کیا ہونے والا تھا۔ منحہ کو تاسف ہوا تھا وہ جانتی تھی دائمہ حاد کے لیے پاگل سی تھی۔۔ اس نے کبھی کسی اور کی جانب دیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔ اور وہ حاد کو بھی جانتی تھی جس کے لیے وہ ایک کزن سے بڑھ کر کچھ نہیں تھی۔
”ٹھیک ہے تم ہو آؤ۔۔ میں نہیں جا سکتی۔۔“ منحہ نے بس اتنا ہی کہا۔۔ کچھ دیر مزید باتیں کرنے کے بعد اس نے فون بند کردیا۔۔۔ پھر اس نے ادھم کا نمبر نکالا۔۔۔
کتنی ہی بار دل کیا کہ اسے فون کرے۔۔۔ لیکن وہ نہیں کر پائی۔۔کئی بار اس نے میسج ٹائپ کرکے مٹادیا۔۔
اس کی نسوانیت یہ گوارہ نہیں کرتی تھی کہ وہ یوں کسی مرد کی جانب متوجہ ہو، اٹریکٹ ہو۔۔۔اور پھر دوست کہنے کے باوجود ادھم نے اسے ابھی تک خود میسج یا کال نہیں کی تھی۔۔۔تو وہ کیوں کرتی۔۔۔؟؟
دل دماغ کی زبردست جنگ جاری تھی اور اس جنگ میں اسے اپنا آپ ٹوٹتا محسوس ہورہا تھا۔ اسے جسمانی طور پر درد محسوس ہونا شروع ہوگیا تھا۔۔۔ جب طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو وہ ہسپتال سے آف لیتے گھر کی جانب نکل پڑی۔۔۔ ڈاکٹر منحہ حارث کو کبھی کسی نے خراب طبیعت کے باعث آف لیتے نہیں دیکھا تھا۔۔۔یقیناً کوئی سیریس معاملہ تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ رات پورے آٹھ بجے گھر پہنچ گئی تھی۔ فریش ہوکر آئی تو سلمی بیگم نے اس کے لیے کھانا لگا دیا۔۔ اس کا دل نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ کھانے بیٹھ گئی۔۔ ابھی اس نے دو ہی نوالے لیے تھے جب چارجر پر لگا اس کا فون بجنے لگا۔۔
”آپی کوئی انجان نمبر ہے۔۔“ میزو نے اس کے پوچھنے پر دیکھ کر بتایا۔۔ فون پھر سے بجنے لگا۔ وہ فون اس کے پاس لے آئی۔
”ہیلو۔۔۔“ اس نے پانی کا گھونٹ بھرتے کہا۔
”اگر عورتیں چار جماعتیں پڑھ لکھ جائیں تو انہیں مردوں کے سر پر نہیں بیٹھنا چاہیے۔۔“ نفرت سے بھری آواز ابھری تھی۔
”سوری۔۔۔؟؟“ اسے لگا کوئی رانگ نمبر ہے۔
”عورت پاؤں کی جوتی ہی اچھی لگتی ہے میڈم صاحبہ۔۔“ اس بار اس کا دماغ بھک سے اڑا۔
”کیا بکواس کر رہے ہیں کون ہیں آپ؟؟“ اس کی آواز اتنی اونچی اور کڑک تھی کہ حمیزہ نے اپنا ہوم ورک چھوڑ کر اسے دیکھا جبکہ چائے بناتی سلمی بیگم بھی چونک سی گئی تھیں۔
”میری بیوی کو غلط پٹیاں پڑھانے والی تم ہی ہو نا۔۔۔ایک بات یاد رکھنا طلاق تو میں اسے نہیں دوں گا لیکن بخشوں گا تمہیں بھی نہیں۔۔۔“ کھٹاک سے فون بند ہوا جبکہ وہ حیرانی سے فون کو دیکھنے لگی۔
”کون تھا آپی؟؟“
”پتا نہیں کوئی رانگ نمبر تھا۔۔۔“ وہ مزید نہیں کھا سکی۔۔آج کل دل ایسے ہی عجیب سا ہورہا تھا۔۔ سردیاں تھیں دن جلدی ڈھل جاتے تھے اور راتیں لمبی تھیں۔۔ وہ آج کل خود کو ایکٹیو محسوس نہیں کر پارہی تھی۔ وہ اٹھی اور برتن اٹھا کر کچن میں لے گئی۔
”سب ٹھیک ہے؟؟“ سلمی بیگم نے فکرمندی سے پوچھا۔
”ہاں بس تھک سی گئی ہوں۔۔“ اس نے سنک میں ہاتھ دھوتے جواب دیا۔۔۔سلمی بیگم اسے ہی دیکھ رہی تھی وہ کافی الجھی ہوئی لگ رہی تھی۔۔وہ مسل مسل کر ہاتھ دھو رہی تھی اور دھوتی جارہی تھی۔
”ایمان۔۔۔“ انہوں نے اسے پکارہ۔
”جی۔۔۔“ وہ چونکی اور ٹیب بند کیا۔۔ اب وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔
”چائے لے لو۔۔۔“ سلمی بیگم نے اس کی کم چینی والی چائے جو تقریباً پھیکی تھی کپ میں نکال دی تھی۔
”میں صابن سے ہاتھ دھو آؤں۔۔۔“ وہ تیزی سے کچن سے نکل گئی۔۔ سلمی بیگم نے ایک گہرہ سانس لیا۔۔
کھانے سے پہلے بھی وہ ہاتھ دھو کر بیٹھی تھی۔۔۔پھر دھوئے تھے لیکن اس کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔۔۔
اسے عجیب سی بیماری تھی جو سلمی بیگم کی سمجھ سے باہر تھی۔۔وہ بار بار ہاتھ دھوتی تھی۔۔ کچن میں چائے بھی بنانے آتی تو ہر چیز کو چھونے کے بعد ہاتھ لازمی دھوتی چاہے اسے دس بار ہی کیوں نہ دھونے پڑیں۔۔ دھلے ہوئے برتنوں کو پھر سے دھو کر کھانا ڈالتی تھی۔۔ گیلے برتن کو ٹشو سے صاف کرتی اور پھر اس میں کچھ ڈالتی۔۔۔ اور جب وہ اسٹریس میں ہوتی تو یہ عادت زور پکڑ جاتی تھی۔
”پتا نہیں اس کا کیا بنے گا۔۔“ سلمی بیگم نے تاسف سے سوچا۔
✿••✿••✿••✿
اگلے دن وہ ہسپتال میں تھی جب اس نے ٹی وی پر نیوز سنی۔ ایک مشہور سیاست دان سے رپورٹرز سوال کر رہے تھے۔
”سنا ہے آپ کے بیٹے نے آپکی بہو پر کافی تشدد کیا ہے اور وہ اس وقت ہسپتال میں ہے اور آپکی بہو نے خلاع کا مطالبہ کیا ہے۔۔“ وہ چونک سی گئی۔۔۔
”جھوٹ ہے۔۔“
”آپ کی بہو کا کہنا ہے کہ آپ کا بیٹا ایک نشئی ہے جواری ہے اور بہت سارے غلط کاموں میں ملوث ہے۔۔۔وہ اس پر روز تشدد کرتا ہے اس لیے وہ خلاع چاہتی ہے۔۔“
”فضاء۔۔۔“ بےاختیار اسے اپنا سیشن یاد آیا تھا۔۔ وہ اس لڑکی کو نہیں جانتی تھی نہ اس نے فضا کا چہرہ دیکھا تھا لیکن یہ کہانی کافی ملتی جلتی تھی۔
”تو کیا رات کو آنے والی کال سچ تھی؟؟ کسی نے اسے ہی فون کیا تھا؟؟“ وہ ایک پل کو ڈر سی گئی لیکن اگلے ہی لمحے خوف اس سے دور بھاگ گیا۔۔ اسے اللہ پر بھروسہ تھا جو ہوگا یقیناً اس کے لیے بہتر ہی ہوگا۔۔ وہ سر جھٹک کر اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگئی لیکن اسے فضا کے لیے دل سے برا محسوس ہورہا تھا۔۔۔ ایسے مردوں کے ساتھ رہنا جو پڑھے لکھے جاہل ہوں، تہذیب یافتہ جانور سے کم نہیں ہوتے ، ان کے ساتھ رہنا کسی جہنم میں رہنے سے کم نہیں ہوتا۔۔۔
اسے بےاختیار عبداللہ شہاب یاد آیا تھا۔۔اپنا باپ۔۔۔ لیکن اس پل وہ ماضی کی کسی بری یاد سے جڑنا نہیں چاہتی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”تو تمہیں ماں کی یاد آہی گئی۔۔“ اسے اسکرین پر حانم کا چہرہ نظر آیا۔۔ کل رات سے ہی الجھا ہوا تھا اور بہترین حل تھا کہ وہ اس ہستی سے بات کرتا جس نے ہمیشہ اس کی ہمت بندھائی تھی۔
”مام۔۔۔ آپ جانتی ہیں آپ مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔۔“ وہ خفا ہوا جبکہ حانم مسکرا دی۔
”کیسی ہیں آپ؟؟“
”میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ کیا ہوا ہے؟؟“ وہ جانتی تھی اسے کہیں کوئی الجھن درپیش تھی۔
”مجھے تو کچھ نہیں ہوا۔۔ بس ویسے ہی دل کر رہا تھا آپ سے بات کرنے کو۔۔ “ وہ بڑا ہوگیا تھا لیکن اپنی ماں کے لیے وہ آج بھی چھوٹا سا حاد تھا۔
”اگر نہیں کچھ ہوا تو پھر بتاؤ شادی کب کر رہے ہو دائمہ سے۔۔۔؟؟“ وہ بھی اس کی ماں تھی جانتی تھی اس کی الجھن تک کیسے پہنچنا تھا۔
”میں نہیں کر سکتا آپ جانتی ہیں۔۔“
ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ خود سے ناراض ہو اور ایسا تب ہوتا تھا جب کوئی چیز اسے تنگ کرتی تھی۔
”کیوں۔۔؟؟“ ایک لفظی پوچھا گیا۔
”میں جو ہوں اور جن راستوں پر چل رہا ہوں، مجھے اپنی زندگی کا بھروسہ نہیں ہے۔۔ دائمہ اچھی لڑکی ہے اسے کوئی بھی اچھا لڑکا مل جائے گا۔۔ پر میں ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔“
”وہ تم سے محبت کرتی ہے۔۔۔“
”اس میں میری غلطی نہیں۔۔“
”کبھی شادی نہیں کرو گے؟؟“ اسے اب افسوس ہورہا تھا۔۔وہ اپنے بیٹے کو ساری زندگی اکیلے تو نہیں دیکھ سکتی تھی۔
”اور ایمانے کا کیا۔۔۔؟؟“
حاد کو سینے میں اپنا سانس اور دل دونوں رکتے محسوس ہوئے۔
وہ ہاتھ میں پزل باکس تھامے بیٹھا تھا۔۔۔اس کی نظریں پزل باکس پر جمی تھیں وہ حانم کو نہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔اس کا چشمہ تھوڑا نیچے ناک پر جمہ تھا اور بال پیشانی پر پڑے تھے۔۔۔وہ اپنے بالوں کو سیٹ رکھنے کا عادی تھا۔۔ یعنی کچھ تھا جو اسے پریشان کر رہا تھا۔ وہ کچھ بول ہی نہیں پایا۔ خاموشی کا وقفہ لمبا ہوگیا۔۔۔اس نے نظر اٹھا کر حانم کو نہیں دیکھا۔
”وہ بہت آگے جائے گی ان شاء اللہ۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پایا۔
”تو تم اس سے محبت نہیں کرتے؟؟“
”نہیں۔۔۔۔“ اس خشک ہوچکے لبوں پر زبان پھیرتے جواب دیا۔۔ گلے کی گلٹی ڈوب کر ابھری۔
”تو پھر وہ سب ہسپتال میں کیا تھا؟؟“
”میں بس اسے محفوظ رکھنا چاہتا تھا تاکہ اس کا علاج ٹھیک سے ہوجائے۔۔“
”جھوٹ بولنا کب سیکھا تم نے؟؟“
”مام۔۔۔“ وہ احتجاجاً چلایا۔
”چلو مان لیا تم سب سچ کہہ رہے ہو تو پھر مسئلہ کہاں آرہا ہے۔۔؟؟“ وہ اب تک اسے سمجھ نہیں پائی تھیں۔
”مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے میں اچھا مسلمان نہیں ہوں۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے میں ٹھیک سے اپنا فرض پورا نہیں کر پارہا۔۔“
”کس نے کہا تم اچھے مسلمان نہیں ہو؟؟“
”مجھے ایسا محسوس ہوا۔۔“
”پتا ہے جب ہم صحیح سمت میں جا رہے ہوں اور شیطان ہمیں روک نہ پائے تو اس کا کام کیا ہوتا ہے؟؟“
اس نے نظر اٹھا کر اپنی ماں کو دیکھا۔
”وسوسے ڈالنا۔۔۔ وہ ہمارے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے ہمیں بےسکون رکھتا ہے تاکہ تنگ آکر ہم راستہ بدل لیں۔۔۔“
وہ انہیں سنتا رہا۔
”تمہیں عبدل بننا پڑا۔۔تمہیں حاد کو چھپانا پڑا۔۔ تمہیں وہ کام کرنے پڑے جو حاد کبھی نہ کرتا۔۔ شاید اسی لیے تمہیں ایسا لگتا ہے۔۔“ وہ اب اسے پیار سے سمجھا رہی تھیں۔
” اور تم کتنے اچھے مسلمان ہو یہ مجھ سے بہتر کون جانتا ہے۔۔۔“ وہ اب اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔۔۔ ان کی آنکھوں میں حاد کے لیے محبت ہی محبت تھی۔
”حاد۔۔۔“ انہوں نے اسے پکارہ۔ وہ تمام حسیات سے ان کی جانب متوجہ ہوا۔
”اللہ تعالی ایسے ہی کسی شخص کو یہ رتبہ نہیں دیتا کہ نان مسلم اس کے پیچھے کلمہ پڑھیں۔۔۔ اس کے ہاتھ پر مسلمان ہوں۔۔۔“ اور حاد کا دل جیسے پگھل گیا تھا۔۔وہ کب بھولا تھا۔۔۔ اس کا دل جھک جاتا تھا اللہ کے حضور جب جب اسے یاد آتا تھا۔
”صرف انیس سال کے تھے تم جب النور میں سیشن کے دوران پہلی بار ایک ملحد کو تم نے کملہ پڑھایا تھا۔۔۔ پھر کیسے تم نے یہ سوچ لیا تم اچھے مسلمان نہیں ہو۔۔؟؟کیا اللہ نے یہ رتبہ تمہیں ایسے ہی دے دیا تھا؟؟ ہاں ہم پرفیکٹ نہیں ہیں۔۔۔ وہ بس اسلام ہے۔۔۔لیکن ہم کوشش کر سکتے ہیں باقی کون پرہیزگار ہے اور کون نہیں یہ فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں نا۔۔۔“
اور حاد کی ساری بےچینی ساری بےسکونی جیسے دور جا سوئی تھی۔ وہ اب مسکرا رہا تھا۔۔ ایک نیا عزم اس کے اندر بھر گیا تھا۔
”یو آر ڈوئنگ یور بیسٹ۔۔۔ اپنا سو فیصد دیتے رہو۔۔ ویسے بھی تم ہی کہتے ہو تم کوئی اسکالر نہیں ہو۔۔تمہارا مقصد کتنا بڑا ہے یہ تم جانتے ہو۔۔ بس اپنا کام جاری رکھو اور لوگوں کی باتوں پر کان مت دھرو۔۔“
وہ یہ سب باتیں جانتا تھا۔۔ سب اچھے سے جانتا تھا۔۔ ہمیشہ سیکھتا آیا تھا لیکن اپنی ماں کے منہ سے سننا اسے اچھا لگتا تھا۔۔ اس کی ہمت بندھتی تھی۔
”ایک بات اور۔۔۔“ ابھی کچھ باقی تھا۔حانم نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”کیا میرے جیسے انسان کو محبت کرنے کا حق ہے؟“ جواب وہ جانتا تھا لیکن پھر بھی پوچھنا چاہتا تھا۔
فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ!
حانم نے عربی میں جواب دیا۔
(اور عورتوں میں سے جو تمہیں پسند ہو نکاح کرلو) سورہ النساء
اسکرین بند ہوچکی تھی وہ اکیلا بیٹھا رہ گیا۔
”میں صرف لڑکیوں کا سیشن لوں گی۔۔“ اسے ایمان کی آواز سنائی دی۔
”اور ایسا کیوں؟؟“
”ہمیں اچھی اور دیندار ماؤں کی ضرورت ہے جو دین اور دنیا دونوں کو جانتی ہوں۔۔۔آج کی لڑکیاں کل کی مائیں ہوں گی۔۔۔مجھے انہی سے بات کرنی ہے۔۔۔“
اس نے ٹھیک کہا تھا۔۔۔ ایک ماں کیا کچھ کر سکتی ہے یہ وہ جانتا تھا۔۔۔اگر اس کی ماں ام حانم نہ ہوتی تو وہ کبھی حاد جبیل نہیں بن پاتا۔
اسے ایمان پر رشک آیا تھا جو وہ اس عمر میں یہ سب سمجھ گئی تھی۔
✿••✿••✿••✿
ہمارے خیالات تب بدلتے ہیں جب ہم غوروفکر کرتے ہیں۔ بنیاد یہی ہے جس کا اللہ نے متعدد بار کہا ہے۔۔ وہ اپنے سیشن کی لڑکیوں کو لے کر سولر سسٹم کے پاس آئی تھی۔ ضروری تھا کہ آغاز کیا جاتا سوچنے سے۔۔۔ غوروفکر سے۔۔
سولر سسٹم کے پیچھے جو دیوار تھی اس پر وہ ساری آیتیں لکھی تھیں جن میں اللہ پاک نے غوروفکر کا کہا تھا۔
وہ آیتیں عربی اور اردو ترجمے کے ساتھ لکھی تھیں۔
”ہم مسلمان ترقی کے لحاظ سے باقی دنیا سے اتنا پیچھے کیوں ہیں۔۔؟؟“ یہ کسی ایلیٹ کلاس کی لڑکی تھی جس کے سر پر دوپٹہ تک نہیں تھا یہ اس کے یونیفارم کا حصہ بھی نہیں تھا۔۔ ایمان کو تاسف ہوا۔۔۔ ہمارے جیسے غریب ملک نے مغربی تعلیمی نظام تو رائج کردیا تھا لیکن پھر بھی ہم زیرو پر ہی تھے۔۔ بہت سارے اسٹوڈنٹس ایسے تھے جو بس اڈوانچر کے لیے آئے تھے۔۔ لیکن اڈوانچر ہی سہی یقیناً جب وہ یہاں سے جاتے تو ان کی سوچ بدل جاتی۔۔۔اتنا اسے یقین تھا۔
”کیونکہ ہم نے مغرب کو لباس، ریلشن شپ اور خوراک کی حد تک اپنایا ہے۔۔۔ انہوں نے ہمیں یہ سب دے کر بدلے میں ہم سے غوروفکر چھین لیا ہے۔۔۔“
”کیا ہم لڑکیاں غوروفکر کر سکتی ہیں؟؟کیا اسلام اتنا ماڈرن ہے کہ وہ ہمیں اپنی سوچ میں آزادی دے۔۔؟؟“ ایک اور لڑکی نے سوال کیا تو وہ بےاختیار ہنس دی۔
”قرآن پاک میں اللہ نے انسان کو مخاطب کیا۔۔۔صرف مرد کو نہیں تو کیا آپ انسان نہیں ہیں؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔ پھر اس نے دیوار کی جانب اشارہ کیا اور وہاں لکھی چند آیتیں پڑھ کر سنائیں۔
”آپ کہہ دیں: میں تمہیں ایک ہی چیز کی نصیحت کرتا ہوں کہ: اللہ کیلیے تنہا یا دو، دو کھڑے ہو کر غور و فکر تو کرو۔“ سبأ: 46
”کیا وہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی سمیت اللہ تعالی کی تمام مخلوقات میں غور و فکر نہیں کرتے؟“ الأعراف: 185
”آپ کہہ دیں: آسمانوں اور زمین میں غور و فکر کرو کہ ان میں کیا کچھ ہے!“ يونس: 101
”آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، دن اور رات کے آنے جانے میں اہل دانش کیلیے نشانیاں ہیں۔ جو لوگ اٹھتے بیٹھتے اور اپنے پہلوؤں کے بل اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں، نیز آسمانوں اور زمین کی مخلوقات میں غور و فکر کرتے ہوئے (پکار اٹھتے ہیں) ہمارے پروردگار! یہ تو نے فضول پیدا نہیں کیا، تو ہر عیب سے پاک ہے ، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔۔۔“
آل عمران: 190-191
”میں جب اسٹوڈنٹ تھی اور سولر سسٹم کو دیکھتی تھی تو یہی سوچتی تھی کہ یہ کتنا بڑا ہے اور یہ سب بنانے والا کتنا بڑا ہوگا۔۔۔ میں کبھی کبھی خود کو آسمانوں کے پار بادلوں میں پاتی تھیں جہاں ہاتھ سے چھو کر ان سیاروں کو محسوس کرسکوں۔۔۔“ وہ ہولے سے مسکائی۔ لڑکیاں حیرت سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
”میں کبھی کبھی حیران ہوتی ہوں کہ میرے جیسے خواب کبھی کسی نے نہیں دیکھے۔۔؟؟ کیا کبھی کسی نے وہ محسوس نہیں کیا جو میں نے کیا ہے۔۔۔؟؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کو طلب نہ ہوئی ہو؟ کسی نے جستجو نہ کی ہو؟؟“
وہ اب حیران تھی۔
”میں جب چھوٹی تھی تو مام مجھے بزی رکھنے کے لیے فون دے دیتی تھیں۔۔۔ کبھی کارٹوں لگا کر، کبھی ٹی وی لگا دیتی تھیں۔۔ میرا زیادہ تر وقت انہی کے ساتھ گزرا ہے۔۔“
لڑکی کی بات سن کر ایمان کو افسوس ہوا۔
”ویل۔۔۔ آپ کو ٹیکنالوجی تک رسائی جلدی مل گئی تھی پھر آپ نے ٹیکانالوجی سے کیا سیکھا۔۔؟؟“ ایمان نے سوال کیا تو لڑکی خاموش ہوگئی۔۔ کوئی جواب تھا ہی نہیں۔۔
”ہمیں اگر کچھ دیا جاتا ہے تو اس کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ یہ مت سوچا کریں یہ میرا حق تھا مجھے مل گیا۔۔پتا ہے علم ہمیں دیا گیا تھا ہم مسلمانوں کو۔۔۔ہم نے اپنا حق سمجھ کر وصول کیا اور پھر بھول گئے۔۔بھول گئے کہ ہمیں کیوں عطا کیا گیا۔۔۔اور آج ہم نے اسے گنوا دیا۔۔“
”اب ہمیں کیا کرنا ہے؟؟“
”ایک نئی شروعات۔۔ آگے بڑھ کر اپنی زمہداری لینی ہے۔ایک مسلمہ ہونے کے ناطے۔۔ ایک عورت ہونے کے ناطے اور مستقبل کی ایک ماں ہونے کے ناطے۔۔ ہمیں اپنی زمہداری اٹھانی ہوگی۔۔“
اس کے گرد دائرے میں کھڑی لڑکیوں کو اپنے اندر ایک ہلچل سی مچتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔ کچھ تھا جو سوشل میـڈیا سے ہٹ کر تھا۔۔۔ کچھ تھا جو میوزک سے ہٹ کر تھا۔۔۔کچھ تھا جو ان کی ٹیپیکل زندگی سے ہٹ کر تھا لیکن اپنا وجود رکھتا تھا۔
”کیا یہ آسان ہوگا۔۔۔؟“
”کچھ بھی آسان نہیں ہوتا۔۔ آسان صرف پلیژر ہوتے ہیں۔۔“ اس نے ایک طائرانہ نظر سب پر ڈالی۔
”جہاں تک غور و فکر کی بات ہے اسکو مذہبی رہنماوں نے ایک دائرے تک محدود کر دیا ہے۔اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے اور ترقی کا عمل( فریڈم آف تھاٹ) کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا اہل یورپ نے بھی پادریوں، بادشاھوں، جاگیرداروں کا مذہبی سیاسی اور سماجی جبر کی دیواروں کو توڑ کر فکری آزادی کی فضا میں جدید دور کی ایجادات کو ممکن بنایا۔
علامہ اقبال نے ایسی صورت حال کے متعلق کہا ہے۔
افکار تازہ سے ھے جہان نو کی نوید۔
کہ سنگ و خشت سے ھوتے نہیں جہاں پیدا
اور ہم افکار تازہ کیلیے صدیوں سے اپنے دروازے بند کر کے مغرب کی غلامی پر مجبور ہو چکے ہیں اور قرآن کی اصل تعلیم کو بھول کر اسے فقط رسم، قسم اور ختم کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
آج کا سیشن اچھا رہا تھا اور جب کوئی کام اچھے سے ہوجاتا تھا تو وہ پرجوش ہوجاتی تھی۔۔ آج بارش نہیں تھی ٹھنڈ تو تھی لیکن اوس نہیں پڑ رہی تھی۔۔۔وہ چائے کا آڈر دیتی باہر آگئی۔۔ اسے حاد اس وقت ملا تھا جب وہ اکیڈمی آئی تھی اس کے بعد اس نے اب تک اسے نہیں دیکھا تھا۔۔
وہ ہولے ہولے قدم اٹھاتی درخت کے نیچے بنے سٹنگ ایریا کی جانب بڑھ رہی تھی وہ آج خالی تھا۔۔۔اسٹوڈنٹس نظر نہیں آرہے تھے یقیناً ان کا سیشن چل رہا ہوگا یا پھر حاد نے انہیں کسی کام پر لگایا ہوگا۔۔۔ وہ خاموشی سے آکر بینچ پر بیٹھ گئی۔۔۔یہاں سے اکیڈمی کا نظارہ اور بھی حسین لگتا تھا۔۔۔ وہ کتنی ہی دیر آنکھیں بند کیے درخت کی خوشبو کو محسوس کرتی تھی۔
وہ نیموفیلسٹ تھی۔ وہ شاید دنیا کی اکیلی لڑکی تھی جسے جنگلوں سے عشق تھا۔۔ اسے پودے، درخت اور پتے سب اپنی جانب کھینچتے تھے۔۔۔اسے پھولوں کی بجائے پتوں سے عشق تھا۔
”میڈم چائے۔۔۔“ آواز پر اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ اور پھر لڑکے سے چائے پکڑ لی۔ وہ شاید آفس بوائے کی جاب کر رہا تھا۔
”ایک منٹ رکیں۔۔ مجھے کہنا تھا میں چائے اسٹرونگ لیتی ہیں اور پھیکی۔۔۔“
”یہ چائے حاد صاحب نے بنائی ہے آپ پی کر دیکھ لیں۔۔۔“ وہ حیران ہوئی۔۔ اور پھر چائے کا ایک گھونٹ بھرا۔۔۔اس کا ذائقہ اتنا اچھا تھا کہ اسے سب اچھا لگنے لگا۔
”ٹھیک ہے آپ جائیں۔۔۔“
وہ چلا گیا جبکہ ایمان کو حیرت ہوئی۔۔ لیکن وہ اس کے پیچھے کی کہانی نہیں جانتی تھی۔
رات کو حاد کسی سلسلے میں اسٹاف روم میں گیا تھا اس نے وہاں چائے کا کپ دیکھا۔۔ شاید اسے اسٹاف اٹھانا بھول گیا تھا۔۔اسے حیرت ہوئی کیونکہ کپ میں چائے ویسی کی ویسی تھی۔۔
”وہ تو چائے کی شوقین ہے پھر پی کیوں نہیں۔۔۔؟؟“ اس نے کپ کو اٹھایا اور پھر جھجھکتے ہوئے ایک سپ لگایا اور وہ سمجھ گیا کہ کیا کمی تھی۔
چینی زیادہ تھی، دودھ کم تھا اور چائے کو اچھے سے پکایا نہیں گیا تھا۔۔۔وہ کپ اٹھا کر لے گیا اور اب اس نے اپنی کافی کے ساتھ اس کی چائے بنائی تھی۔
وہ کچھ دیر مزید بیٹھنا چاہتی تھی جب اس نے اسٹوڈنٹس کو باہر نکلتے دیکھا۔۔ اور پھر اس نے ایک لڑکی کو دیکھا۔۔۔وہ اسٹوڈنٹ یقیناً نہیں تھی۔۔۔
شلوار قیمص پر بڑی سی اونی شال لپیٹے وہ اسی کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔ وہ چلتے ہوئے ایمان کے قریب آئی۔
”کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں۔۔؟؟“ اس نے ایمان سے پوچھا۔
”شیور۔۔۔“ وہ بس مسکرا دی۔
”تم یہاں جاب کرتی ہو؟؟“ اس نے ایمان سے سوال کیا۔
”جی۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
”نام کیا ہے؟؟“ وہ ایسے سوال کر رہی تھی جیسے اس کا حق ہو۔
”ام ایمان۔۔۔“
اور ساتھ بیٹھی دائمہ چونک سی گئی۔۔ کیا یہی وہ لـڑکی تھی جسے حاد نے اپنی وائف کہا تھا۔۔؟؟ وہ یہاں کیا کر رہی تھی؟؟ اسے اپنے اندر الاؤ دہکتا محسوس ہوا۔۔
وہ شام میں ہی پہنچی تھی اور اسے یہ اکیڈمی بہت پسند آئی تھی۔ وہ یہاں کے سبھی اسٹاف سے ملی تھی۔۔۔وہ سب اس کو عزت دے رہے تھے کیونکہ وہ دائمہ جبیل تھی۔
”میں دائمہ ہوں۔۔۔دائمہ جبیل۔۔ ادھم جبیل عرف ماثیل کی بہن اور۔۔۔۔“
ایمان نے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔۔۔اس کی آنکھوں میں حیرت تھی۔۔۔ تبھی اس کے چہرے میں ادھم کی شبیہہ تھی۔
”اور۔۔۔۔۔“ اس کا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔
”حاد جبیل کی بچپن کی منگیتر۔۔۔۔“
ایک چھناکے کی آواز ابھری اور پریوں کے دیس کے کانچ کے خواب ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوئے۔۔۔ کرچیاں اب اس پر گررہی تھیں۔۔۔ کانچ چب رہا تھا۔۔۔جلن بڑھتی جارہی تھی۔۔۔
وہ کس ڈریم لینڈ میں رہ رہی تھی؟ کن خوابوں میں جی رہی تھی۔۔۔حقیقت خوفناک ہوا کرتی ہے۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔۔۔ دونوں ہی زخمی تھیں۔۔۔ دونوں کے دل ٹوٹ چکے تھے۔۔۔
ایمان نے کچھ کہنا چاہا پر کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ وہ بس ہولے سے مسکادی۔۔۔پھیکی سی ہنسی۔۔۔
اب وہ اتنی بھی کمزور نہیں تھی کہ سن کر صدمے میں چلی جاتی لیکن دل تو دکھا تھا نا۔۔
”ہونا بھی چاہیے۔۔۔ حاد جبیل جیسے مکمل شخص کے ساتھ آپ جیسی لڑکی ہی سوٹ کرتی ہے۔۔۔“ وہ اب اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ جبکہ دائمہ اسے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔وہ اس کے چہرے پر جو شکست دیکھناچاہتی تھی وہ وہاں تھی ہی نہیں۔۔ ہوتی بھی کیسے؟؟
”مجھے کام ہے تھوڑا۔۔۔پھر ملیں گے۔۔“
اس نے حاد کو اپنا تھوڑی سمجھا تھا۔ وہ اچھا لگتا تھا تو کیا ہوا۔۔۔؟؟؟ اچھا تو پھر کوئی بھی لگ جاتا ہے۔
وہ اب کپ اٹھائے اندر کی جانب بڑھ رہی تھی۔
”تو وہ شخص پہلے سے ہی کسی اور کا تھا۔۔۔؟؟“ وہ چلتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
”اس نے کبھی بتایا کیوں نہیں۔۔۔؟؟“ اس کا دماغ اب سوالوں کی بوچھاڑ کر رہا تھا۔
”یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔۔۔وہ مجھے کیوں بتائے گا۔۔۔؟؟“
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اندر داخل ہوگئی تھی جبکہ دائمہ کی نظروں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ آج دس منٹ پہلے ہی نکل آئی تھی۔ اس نے حاد کو انفارم نہیں کیا تھا اور نہ اس کا سامنا ہوا تھا۔
وہ اب گاڑی میں بیٹھی گھر کی جانب رواں تھی۔۔ اس نے تھک کر سیٹ سے گردن ٹکادی۔
نہیں اب اسے دوبارہ محبت نہیں کرنی تھی اور ایک ہی شخص سے تو ہرگز نہیں۔۔۔۔
وہ سوچ رہی تھی اور پھر اس کا فون بجنے لگا۔۔۔اس نے دیکھا تو حاد کی کال تھی۔ اس نے اپنے لبوں کو آپس میں پیوست کیا۔۔ وہ اسکرین کو دیکھتی رہی جب تک کہ اس پر ابھرنا والا نام دھندلا نہیں گیا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں میں نمی ابھر آئی تھی ناجانے کیوں۔۔۔۔؟؟
اس نے دوبارہ آنکھیں موندھ لیں۔۔۔فون پھر سے بجنا شروع ہوا۔
اس بار اس نے بنا دیکھے فون اٹھا کر کان سے لگایا۔
”السلام علیکم“ اس کے لہجے میں بھی نمی کی آمیزش تھی۔
”میں نے کہا تھا نا میں تمہیں نہیں بخشوں گا۔۔۔“ پھنکارتی سی آواز سنائی دی تھی۔ وہ کچھ نہ بولی۔
”تمہاری وجہ سے آج پہلی بار میرے خاندان میں کوئی طلاق ہوئی ہے۔۔۔میں نے کہا تھا۔۔۔میں نے کہا تھا۔۔۔۔“
اچانک ابھرنے والے زور دار ہارن پر اس کی آنکھ کھلی۔۔۔ دل میں ایک خوف سا ابھرا اور اس نے دیکھنا چاہا لیکن سامنے سے آتے ایک ٹرک نے ان کی گاڑی کو زوردار ٹکر ماری تھی۔۔۔ ایک دھماکہ ہوا۔۔۔ اور اسے اپنے وجود میں سر سے پاؤں تک گہری تکلیف کا احساس ہوا۔۔۔
اس نے بند ہوتی آنکھوں کو کھولا۔۔۔
وہ چشمہ لگائے، سفید شرٹ پہنے، ہاتھ میں چھاتہ لیے اس کے قریب کھڑا تھا۔۔۔
اس کی آنکھیں پھر سے بند ہوئیں۔۔۔ اس نے اپنی پوری قوت لگا کر انہیں پھر سے کھولنا چاہا۔
”میں دائمہ ہوں حاد جبیل کی بچپن کی منگیتر۔۔“
لیکن اس کی آنکھیں کھلنے سے انکاری ہوگئیں۔۔۔چاروں جانب اندھیرا چھانے لگا۔۔۔
”اللہ۔۔۔“ اس نے پکارنا چاہا پر اس کا دماغ گہرے اندھیروں میں گم ہوگیا۔۔۔
حق کا راستہ اتنا آسان نہیں تھا جتنا اس نے سوچ لیا تھا۔ ابھی تو اس نے پہلا قدم رکھا تھا جو مردوں کے معاشرے میں کسی سے برداشت نہیں ہوا تھا۔۔۔اور دوسرے قدم سے پہلے ہی اسے موت کے منہ میں پہنچادیا گیا تھا۔ کچھ فاصلے پر اس کا فون پڑا تھا جس کی اسکرین ٹوٹ پھوٹ چکی تھی لیکن وہ ابھی چل رہا تھا اور اس کی جلتی بجتی اسکرین پر حاد جبیل کا نام جگمگ کر رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
Dear Readers , New Episode (episode 54 ) has been uploaded .
Click On👉 Read...
good episode
ReplyDeletegud
DeleteUf outstanding....
ReplyDeletePlz next ep ka shidat sy wait rhy ga suspense main daal dia apny🥴😁😊
Glad You like it🥰, Next Episode will be uploaded soon, Inshallah , Stay tunned
DeletePlz ep jaldi upload kar dia Kary bohut wait karna parta hai plz plz and novel outstanding hai
ReplyDeletePlz next jldi upload kijye ga please 🥺
ReplyDelete👍
ReplyDeleteGreat job and an amazing novel 👍
ReplyDelete👍👍👍loving it
ReplyDeletekya friday ko nhi ai ga episode
ReplyDeleteyou did not talk about the last scene of ep 44
ReplyDeletewhat happened
Next part kb aye ga
ReplyDeleteplzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzzz miss noor rajpoot upload new ep v r w8ing
ReplyDeleteComing soon.....Be patience dear ,
Deletemiss noor rajpoot upload next ep v r w8ing
ReplyDeleteplease maseel ko iman sai mila dai
ReplyDeleteno eman suits with haad
ReplyDeleteEman always suits with haad
ReplyDeleteThe episode was amazing 😍
ReplyDeleteamazing
ReplyDeleteamazing
ReplyDeleteMaseel + Imaaan =🥺🥰🤞🤞plzzzzzzzzzzzzzz
ReplyDelete