Maseel episode 52 by noor rajput

 

maseel episode 52 by noor rajput

مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_52
نور_راجپوت
سلفائیٹس اکیڈمی
”یہ تو یوٹیوب پر بھی ہوگا۔۔“ وہ اب فون میں سرچ کرنے لگی تھی جبکہ ایمان نے جھپٹ کر اسے فون چھینا۔
”کیا کر رہی ہو تم پاگل ہو؟؟“ وہ اب غصے سے اسے ڈپٹ رہی تھی۔
”لیکن آپی۔۔۔“ وہ احتجاجاً چلائی۔
”بیگ اٹھاؤ اور جاؤ یہاں سے۔۔۔ جب تک ہوم ورک نہیں ہوجاتا فون نہیں ملے گا۔۔“
حمیزہ تو اسے دیکھتی رہ گئی تھی جو ٹی وی بند کرکے اس کا فون بھی ساتھ لے گئی تھی۔
”چلو میزو جلدی جلدی ہوم ورک کرو۔۔۔ پھر عبدل کو بھی دیکھنا ہے۔۔“ اس پر ڈانٹ کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا بلکہ وہ مزید پرجوش ہوگئی تھی اور صوفے پر بیٹھی کتابوں پر جھکی اپنا کام کر رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
”مسٹر جبیل مس ام ایمان نے آفر لیٹر سائن کردیا ہے وہ سلفائٹس اکیڈمی جوائن کرنے کے لیے تیار ہیں۔۔“
کمرے میں گونجتی اس کی آواز پر حاد تیزی سے ٹائپ کرتے ہاتھ رکے۔۔ وہ اس وقت اپنے آفس نما کمرے میں تھا جو اکیڈمی میں بنوایا تھا۔۔۔ وہ ایک بڑے سے میز کے پیچھے رکھی کرسی پر بیٹھا تھا۔۔۔ چشمے کے پار سے جھانکتی گرے آنکھوں میں تھوڑی الجھن تھی۔۔ اس کے چاروں جانب اسکرینیں تھیں جنہیں وہ بار بار چیک کر رہا تھا۔
”اوپن دی میل۔۔۔“ وہ رک گیا۔۔ ٹھہر گیا۔۔۔اس نے کرسی سے ٹیک لگایا اور اس کے سامنے فضا میں ابھرتی اسکرینوں میں سے ایک پر ای میل باکس اوپن ہوا تھا۔
واقعی ایمان کی میل تھی۔۔اس نے آفر لیٹر سائن کرکے اٹیچ کردیا تھا۔۔ وہ حاد جو تھوڑی دیر پہلے اتنا مصروف تھا وہ اب سارے کام چھوڑ کر اس کی ایک ای میل دیکھ رہا تھا۔۔اور یوں دیکھ رہا تھا جیسے اور کوئی کام ہی نہ ہو۔
اچانک اس کی نظر سیلری ڈیمانڈ پر آکر رک گئی۔۔ وہ ٹھٹک گیا۔
”پک اینڈ ڈراپ سروس، چائے اینڈ Praying Room..“
بس یہی اس کی ڈیمانڈ تھی۔۔۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔۔ وہ بےساختہ مسکرایا۔
”مسٹر جبیل! مجھے آئیڈیا نہیں تھا کہ ان کی ڈیمانڈ اتنی کم ہوگی۔۔“ اے آئی آواز ابھی بھی گونج رہی تھی۔
”کیونکہ تم انسان نہیں ہو۔۔ بائے دا وے۔۔ آئیڈیا تو مجھے بھی نہیں تھا۔۔“
پتا نہیں کیوں وہ اتنی خوشی محسوس کر رہا تھا جیسے ام ایمان نے آفر لیٹر نہیں بلکہ نکاح نامہ سائن کردیا ہو۔ وہ کتنی ہی دیر بیٹھا رہا اور یونہی مسکراتا رہا۔
”مسٹر جبیل اب ہمیں کام شروع کرنا چاہیے۔۔۔“ اے آئی کی آواز پھر سے گونجی۔
”آئی نیڈ اے بریک۔۔۔“ وہ کرسی سے اٹھا۔
”لیکن مسٹر جبیل۔۔۔“
اس نے چشمہ اور داہنے کان میں لگا ایئر بڈ اتار کر میز پر رکھ دیا۔۔۔ اے آئی کی آواز دم توڑ گئی تھی۔۔ اس کے سامنے ابھرتی اسکرینیں غائب ہوچکی تھیں۔۔۔ سامنے میز پر صرف ایک لیپ ٹاپ رکھا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر وہ پزل باکس پڑا تھا۔۔ لکڑی کا پزل باکس جو ہمیشہ سے اس کے پاس تھا۔۔۔جو اس کے باپ نے اس کے لیے بنایا تھا۔۔۔۔ وہ اسے اٹھاتا دھیمی چال چلتا آفس سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
اس آفس کو دیکھ کر اب کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ وہ ایک ڈیٹا سائنٹسٹ کا آفس تھا۔
اکیڈمی تقریباً خالی تھی۔اکیڈمی کی بلڈنگ مستطیل تھی۔ یہاں سب سے اوپری فلور پر اس ایک جانب اس کا آفس تھا۔۔ یہ عمارت کے ایک کنارے پر تھا اس کے ساتھ دو اور کمرے تھے جو ابھی خالی تھی۔۔۔ جبکہ سامنے دوسرے کنارے پر باقی کچھ کمرے تھے جو ورکرز کے لیے تھے۔۔سویپر، گارڈ اور مالی۔۔ وہ یہیں رہتے تھے۔باقی درمیان میں سب خالی تھا بس ایک جگہ اسٹنگ ایریا تھا اور عمارت کے عین درمیان میں جنگلہ لگا ہوا تھا اور درمیان میں چھت نہیں تھی جہاں سے جھانک کر نیچلے فلور کا منظر باآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔۔ اس فلور کی دونوں جانب کی دیواریں گلاس کی تھیں۔۔۔ جن سے سورج کی روشنی چھن چھن کر اندر آتی تھی۔۔۔لیکن اس وقت باہر سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔
عمارت کے ہر فلور کی ڈیزائنگ الگ تھی۔ اس کے کمرے سے نکلنے کے بعد دروازہ آٹو میٹک لاک ہوچکا تھا۔۔ وہ اب ہاتھ میں پزل باکس تھامے سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔ اس کا ارادہ نیچے جا کر اپنے لیے کافی بنانے کا تھا۔۔۔۔ وہ اب سیڑھیوں سے اترتے سیٹی بجا رہا تھا اور اکیڈمی کی خالی عمارت میں سیٹی پر ابھرتی دھن گونج رہی تھی۔۔۔
"let it be let it be let it be known.."
✿••✿••✿••✿
”حاد کے اکاؤنٹ میں اب یہاں سے کوئی رقم ٹرانسفر نہیں ہوگی۔۔“ سید جبیل کا دائمہ کو فون آیا تھا۔۔ ضیاء جبیل او حمدان صاحب نے سالوں پہلے جو بزنس شروع کیا تھا ان کی پارٹنرشپ آج بھی چل رہی تھی اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کو بھی دائمہ دیکھ رہی تھی۔
”لیکن بابا۔۔۔“ اس نے کچھ کہنا چاہا۔
”پتا نہیں کن چکروں میں پڑ گیا ہے۔۔ اگر تم یہ جان جاؤ کہ اس نے عجیب و غریب سی اکیڈمی پر کتنا پیسہ لگایا ہے تو شاکڈ ہوجاؤ گی۔۔ بس آج کے بعد اسے ایک روپیہ نہیں ملے گا۔۔“ وہ خاموشی سے ان کے غصے کو سنتی رہی۔ وہ حاد سے کافی خفا لگ رہے تھے۔
”ہم ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔“ دائمہ نے گہرہ سانس لیتے بتایا۔
”کیوں؟؟ “ سید جبیل کی کنپٹی کی نسیں پھول گئیں۔
”آپ کو نہیں پتا نہیں لیکن وہ ہماری کمپنی میں اچھا انویسٹر ہے۔۔“
”اور یہ کب ہوا؟؟“
”جب سے وہ پاکستان آیا ہے۔۔“ دائمہ نے دھماکہ کیا تھا۔
”باپ کی طرح پورا پلانر ہے۔۔ مجال ہے جو کہیں سے بھی چوکا ہو۔۔۔ وہ اس کمپنی میں جو بھی ہو بس آج کے بعد اس کے اکاؤنٹ میں رقم نہیں جائے گی۔۔۔ باقی میں خود دیکھ لوں گا۔۔“ سید جبیل کھٹاک سے فون بند کرچکے تھے۔ دائمہ نے تاسف سے فون کو دیکھا۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد حاد کا نمبر ملایا۔۔
بیشک خاندان میں عمر میں ضیاء جبیل بڑے تھے لیکن سید حیدر جبیل کا دبدبہ زیادہ تھا۔ اور ان کی بات سے انحراف کرنا مطلب اپنے پاؤں پر کلہاڑی خود مارنے کے مترادف تھا۔
رنگ ہوتی رہی لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا۔
”کاش کبھی ایسا بھی ہو کہ میری پہلی کال پر تم فون اٹھا لو۔۔“ اس نے فون دیکھا اور کال بند کی۔۔۔پھر اس نے سعد کا نمبر ملایا۔۔۔ سال کے اس عرصے میں ایک وہی شخص تھا جس سے دائمہ کو حاد کی خبر ملتی رہتی تھی۔
وہ لاہور ہوتا تھا اور حاد اسلام آباد میں لیکن اسے حاد کے شیڈول کا پتا ہوتا تھا۔۔ اسی سے دائمہ کو یہ خبر ملی تھی کہ حاد اور ایمان کا نکاح نہیں ہوا تھا وہ سب حاد نے ایمان کے علاج کے لیے کیا تھا۔
اور پہلی ہی رنگ پر اس کا فون اٹھا لیا گیا۔۔۔۔ سعد کی مجال نہیں تھی کہ وہ اس کا فون اگنور کرتا۔۔۔ اور دائمہ اسے ایسے ٹریٹ کرتی تھی جیسے وہ حاد کا ٹیم میمبر نہیں بلکہ اس کا ملازم ہو جسے اس نے حاد کی جاسوسی کے لیے رکھا ہو۔۔۔
”السلام علیکم۔۔“ دوسری جانب سے نہایت ادب سے کہا گیا تھا۔ دائمہ جبیل سعد کے لیے قابل احترام تھی۔
”وعلیکم السلام۔۔ کیسے ہو سعد۔۔۔؟؟“ وہ دونوں تقریباً ہم عمر تھے اور دائمہ اسے نام سے بلاتی ہے۔
”میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں۔۔۔۔؟؟“ اسے آج بھی وہ بھیگی پلکوں والی لڑکی نہیں بھولی تھی۔۔۔۔ لاکھ خود کو سمجھایا لاکھ پہرے بٹھائے لیکن اس کا فون آتے ہی دل الگ ہی لے پر دھڑکنا شروع کر دیتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے احساس نہیں تھا۔۔ اس نے بہت کوشش کی تھی اور ابھی بھی کر رہا تھا۔۔ وہ اس کے محسن کی منگیتر تھی۔۔جبیل خاندان سے تھی۔۔۔اس کا تصور بھی چاند جیسا تھا۔۔ لیکن انسان کو چاہیے ہی چاند ہوتا ہے۔
”ہاں میں بھی ٹھیک ہوں۔۔ یہ بتاؤ حاد کب آرہے ہیں لاہور؟؟“ وہ فوراً مطلب کی بات پر آئی۔
”ابھی تو ایسا کوئی ارادہ نہیں ان کا۔۔۔“ اس نے تحمل سے جواب دیا۔
”اور ایسا کیوں ہے؟؟؟“
”کیونکہ اکیڈمی کا پراپر آغاز ہوچکا ہے۔۔۔وہ اسٹاف ہائر کر رہے ہیں۔۔۔ اسپیکرز لا رہے ہیں۔۔“
”لڑکیاں بھی ہیں ان کی ٹیم میں۔۔۔؟؟“ دائمہ کا دل بھی اسی رفتار سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ سعد نے ہونٹ آپس میں پیوست کیے۔ عجیب پاگل سی لڑکی تھی جانتی بھی تھی کہ وہ جس کے پیچھے بھاگ رہی تھی وہ بس ایک سراب تھا۔۔ لیکن پھر بھی تھکتی نہیں تھی۔
”آف کورس۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پایا۔
”اچھا۔۔۔“ اس نے اچھا کو لمبا کھینچا۔۔۔ دل ڈوب سا گیا تھا۔۔ ”وہ میری کال نہیں اٹھارہے انہیں بتا دیجیے گا کہ ان کے دادا جی کافی خفا ہیں۔۔۔ انہیں کال کرلیں۔۔۔“
وہ فون بند کرچکی تھی اور وہ فون کو دیکھ کر رہ گیا۔۔۔
”پاگل۔۔۔“ وہ ہولے سے بڑبڑایا اور پھر اپنے کام کی جانب متوجہ ہوگیا۔
✿••✿••✿••✿
آج سنـڈے تھا اور کل سے ایمان کا سلفائیٹس اکیڈمی میں پہلا دن تھا۔۔ وہ اپنے پورے ہفتے کے کپڑے پریس کرکے رکھ رہی تھی۔۔ اس کی روٹین مزید ہیکٹک ہونے والی تھی۔۔۔وہ ڈاکٹر علوی کے کلینک کو خیرآباد کہہ چکی تھی۔۔ اور ہسپتال کی ٹائمنگ اس نے آٹھ سے تین کروا لی تھی۔ تین بجے وہ گھر آتی اور پھر دو دن یونیورسٹی اور تین دن اس نے اکیڈمی کو دینے کا سوچا تھا۔۔ باقی کے دو دن اس کے اپنے تھے۔۔۔وہ اسے اپنی فیملی کے ساتھ گزارتی تھی۔
حمیزہ اس کے بیڈ پر لیٹی تھی۔۔۔ اس نے جب سے عبدل کا شو دیکھا تھا وہ بس اسی کے بارے میں پوچھتی رہتی تھی۔۔ ایمان اپنے کپڑے الماری میں ہینگ کر رہی تھی جب اس کا اگلا سوال آیا۔
”ایک بات تو بتائیں آپی۔۔۔ کیا عبدل یونیورسٹی میں بھی ایسا ہی تھا جیسا وہ اسکرین پر ہوتا ہے۔۔ کہیں شوخ، کہیں بولڈ تو کہیں لگتا ہے جیسے بہت درد میں ہو۔۔۔“
ہینگر لٹکاتے اس کے ہاتھ ایک پل کو رکے۔ اسے غصیلہ عبدل یاد آیا جو بہت بدنام تھا۔۔ جو کہیں بار لڑائی جھگڑے کی وجہ سے جیل کا چکا تھا اور جس سے یونیورسٹی میں سب ڈرتے تھے۔
”نہیں۔۔۔“ اس نے ایک لفظی جواب دیا اور بیڈ پر رکھا دوسرا ڈریس اٹھایا۔
”وہ آپ کے ساتھ کیسا تھا؟؟“
وقت جیسے تیزی سے پلٹا۔۔۔ وہ اب بینچ پر بیٹھی تھی اور وہ جھکا ہوا تھا۔
”تم بروکن اینجل نہیں ہو یاد رکھنا۔۔۔“
”وہ اس کے لیے شفیق سا تھا۔۔ مہربان۔۔۔ صرف اس کے لیے۔۔“
”اچھا تھا۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔ حمیزہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔
”آپی۔۔ آپ کو اس سے محبت کیوں نہیں ہوئی۔۔۔؟؟“ وہ اب اشتیاق بھری نظروں سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی جبکہ ایمان نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”کیا وہ اتنی بڑی ہوچکی تھی کہ اپنی بہن سے ایسے سوال کرتی۔۔۔؟؟“
”میرا مطلب اتنا اچھا تو ہے وہ۔۔۔اور آپ کو وہ سارے گفٹس دیے جو آپ کو چاہیے تھے۔۔ وہ کیرنگ بھی تھا تو پھر کیوں نہیں ہوئی آپ کو اس سے محبت۔۔۔؟؟؟“ وہ جاننے کو بےتاب تھی۔۔ ایمان نے ہینگر واپس بیڈ پر رکھا۔
”میں وہاں پڑھنے گئی تھی۔۔۔عشق محبت کرنے نہیں۔۔۔“ وہ اس کی جانب بڑھی اور بازو سے پکڑ کر اسے اپنے بیـڈ سے نیچے اتارا۔۔۔ ابھی تو اسے ماثیل کی کہانی نہیں پتا تھی جانے وہ کیا کرتی۔
”چلو نکلو میرے کمرے سے۔۔۔بہت سر کھا لیا تم نے میرا۔۔“ وہ اب اسے کھینچتے ہوئے دروازے کی جانب لے جارہی تھی۔
”پلیز آپی جواب تو دے دیں۔۔“ اس نے الماری کا پٹ مضبوطی سے پکڑ لیا تاکہ ایمان سے باہر نہ نکال سکے۔
”تم جاتی ہو یا میں بلاؤں امی کو۔۔۔“ وہ اب اسے کھینچ رہی تھی۔ حمیزہ نے الماری کا کھلا ہوا پٹ چھوڑا۔۔ ایمان سے دروازے تک لائی اور باہر نکال دیا۔
”جاؤ چائے بنا کر لاؤ۔۔۔“ وہ دروازہ بند کرنے ہی لگی تھی کہ حمیزہ نے اپنا بازو اندر کرکے اسے دروازہ بند کرنے سے روکا۔
”بس آخری سوال۔۔۔“
اور ایمان نے گہرہ سانس لے کر خود پر ضبط کیا۔
”بہت ڈھیٹ ہو تم۔۔۔“
حمیزہ نے اپنی بتیسی دکھائی اور پھر جھٹ سے بولی۔
”آپ کو کبھی کسی سے محبت نہیں ہوئی۔۔۔؟؟“ اس کا بازو اندر ہی تھا مبادہ کہیں وہ دروازہ ہی بند نہ کردے۔
”گیٹ آؤٹ۔۔۔ “ اس نے اس کا بازو نکالتے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی۔
”پلیز آپی۔۔ پلیز۔۔۔۔“ وہ منتوں پر اتر آئی تھی۔
”جب صحیح شخص ملے گا میں پھر سے محبت کرلوں گی۔ پر ابھی مجھے سکون چاہیے۔۔۔“ اس نے کھٹاک سے دروازہ حمیزہ کے منہ پر بند کیا۔
”ہائیں۔۔یہ کیا تھا؟؟ پھر سے محبت؟؟؟“ وہ دروازے کو دیکھتی بڑبڑائی۔
”آپی۔۔۔۔“ اب اس نے اونچی آواز میں باہر سے پکارہ۔ دماغ میں کھلبلی سی مچ گئی تھی۔
”میزو گیٹ آؤٹ۔۔۔۔“ ایمان کی جھنجھلائی آواز سنائی دی اور برے منہ بناتی کچن کی جانب بڑھ گئی۔
✿••✿••✿••✿
”ہم اسٹوڈنٹس ہیں۔۔۔اور مسقتبل کو لے کر بہت پریشان ہیں۔۔۔اور پریکٹیکلی ہم یہ کیسے سیکھ سکتے ہیں جب ہماری لائف میں کوئی حادثہ ہو کوئی تبدیلی آئے تو اسے قبول کریں۔۔۔ اپنے خوف پر کیسے قابو پائیں۔۔۔۔“
حاد نے لڑکے کا سوال سنتے گلاس ونڈو سے باہر جھانکا۔۔۔آج صبح سے ہی بادل چھائے تھے اور دوپہر کے بعد ہلکی ہلکی بارش شروع ہوچکی تھی۔
وہ سمینار ہال میں تھے اور اس وقت اس کے سامنے صرف اسٹوڈنٹس بیٹھے تھے۔۔۔کچھ کا پہلا دن تھا اور کچھ پہلے سے آرہے تھے۔۔ لڑکے ایک جانب بیٹھے تھے اور لڑکیاں دوسری جانب۔۔۔ لڑکیوں کی تعداد کم تھی لڑکوں کے مقابلے میں۔۔
اس نے اپنے سامنے بیٹھے اسٹوڈنٹس میں ایک خوف محسوس کیا تھا۔
”ہم سکول جاتے ہیں، کالج اور یونیورسٹی۔۔۔ وقت گزر رہا ہے۔۔کلاسیں گزرتی جارہی ہیں اور ہم بڑے ہورہے ہیں۔۔ بظاہر سب ٹھیک ہے لیکن کوئی ڈائریکشن نہیں ہے۔۔کچھ مسنگ ہے۔۔۔کسی چیز کی کمی ہے۔۔ایک خالی پن ہے۔۔ہمارے اندر ہمارے ارد گرد جو ختم نہیں ہوتا۔۔۔ ایسی صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔۔؟؟“
پہلی رو میں بیٹھی لڑکی نے اپنا سوال ایڈ کیا تھا۔ اس نے غور سے دونوں کے سوال سنے اور پھر بولنا شروع کیا۔
”آپ لوگ جب آئے تو بارش نہیں تھی ابھی ہورہی ہے۔۔ ابھی ہورہی ہے حالانکہ یہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے پھر بھی آپ میں سے کتنے لوگ خوفزہ ہیں۔۔؟؟“
اس نے گلاس ونڈو کے پاس کھڑے ہوتے ہال میں نظر دوڑائی۔ ایک دو لڑکیوں نے ہاتھ کھڑے کیے۔
”کیوں۔۔۔؟؟“
”کیونکہ یہ پاکستان ہے۔۔۔اگر زیادہ بارش ہوئی تو رائیڈ ملنا مشکل ہوجائے گی اور کبھی لوکل سفر کیا نہیں۔۔ مطلب کسی لوکل گاڑی میں بیٹھنا۔۔۔تو مشکل ہے“
لڑکی نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔
”ہمم۔۔۔“ وہ اب چلتا ہوا اسٹیج کی جانب آیا۔
”کبھی اس خوف پر قابو پانے کی کوشش کی ہے؟؟کہنا یقیناً آسان ہے لیکن کرنا مشکل۔ زندگی میں اچھی چیزیں کبھی آسان نہیں ہوتیں، کچھ بھی آسان نہیں ہوتا۔۔انسان کا دماغ دو چیزیں یعنی تبدیلی اوراس سے پیدا ہونے والی عدم یقینی (uncertainty) کو شدید ناپسند کرتا ہے۔۔۔ہمیں تبدیلی پسند نہیں آتی کیونکہ اس کے نتائج اکثر آسان نہیں ہوتے۔۔۔ اس لیے تو بحثیت قوم بحثیت امت مسلمہ ہم سوئے ہیں۔۔ جیسا چل رہا ہے چلتا رہے۔۔۔ہمیں تبدیلی ناگوار گزرتی ہے۔۔۔ اینڈ ایم ہیپی کہ آپ لوگوں میں کسی نے ہی صحیح لیکن اس ادھورے پن کو محسوس کیا۔۔۔“
اس نے سب پر طائرانہ نظر ڈالی۔
”ہم کوئی بھی الگ کام کرنے سے پہلے ڈرتے ہیں اور نتائج سے ڈرتے ہیں جیسے ابھی انہوں نے ابھی کہا کہ ہم فیوچر سے خوفزدہ ہیں۔۔۔“ اس نے لڑکے کی جانب اشارہ کیا جس نے سوال کیا تھا۔
”ہمیں کسی بھی کام کے نتائج سے نہیں بلکہ اس بات سے خوفزدہ ہونا چاہیے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟ ہم کتناپیچھے ہیں۔۔۔ صرف سوچ میں ہی بلکہ ٹیکنالوجی اور باقی سبھی شعبوں میں ہم پیچھے ہیں۔۔۔ اور جس فیوچر کو لے کر ہم خوفزدہ ہیں کہ ہمارہ کیا ہوگا ہماری اگلی نسل کا کیا ہوگا اگر ہم ایسے ہی سوتے رہے اور کوئی قدم نہ اٹھایا تو فیوچر میں ہم ہوں گے ہی نہیں۔۔۔“
سب سانس روکے اسے سن رہے تھے۔
”میں نے یہ اکیڈمی بنائی ہے اگر میں ڈرتا ہی رہتا کہ پتا نہیں کیا ہوگا؟ لوگ اسے قبول کر پائیں گے یا نہیں۔۔ اسٹوڈنٹس کچھ سیکھیں گے یا نہیں تو آج آپ اور میں یہاں نہیں ہوتے۔۔“ وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا۔۔ چاہے بہت سے لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا تھا لیکن کسی تو پہلا قدم لینا ہی تھا نا۔۔۔ تو خود ہی کیوں نہیں؟؟
”اسٹائک کہتا ہے انسان فطرتاً ایسی چیزوں کی طرف جھکتا ہے جو اسکی زندگی کو بہتر بناتے ہیں، جیسا کہ اچھا کھانا، دولت، اچھے دوست اور ہمسفر، جو کہ ہر گز غلط نہیں، کیونکہ اگر انسان بہتر سے بہترین کی تلاش میں نہ ہوتا تو آج ہم اس ڈیجیٹل انقلاب تک نہ پہنچتے۔ لیکن ہمیں یہ سب کھو دینے کا ڈر لازمی ہوتا ہے آپ اپنے کچھ منصوبوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں لیکن مستقبل کی سوچ آپ کو روکے رکھتی ہے، چونکہ ہم مستقبل کو قابو نہیں کرسکتے تبھی اسے سوچ کر ہلکان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ تو قدم اٹھائیں۔۔۔ صحیح قدم، صحیح سمت میں۔۔۔ ڈرے رہے تو سوتے رہ جائیں گے۔۔۔ کوئی ہمیں بچانے نہیں آئے گا۔۔۔کوئی حکمران کوئی سیاستدان کوئی مسیحا۔۔۔کوئی ہمارا لیڈر نہیں بنے گا۔۔۔ ہمیں خود کو خود ہی لیڈ کرنا ہے۔۔۔“
وہ پل بھر کو رکا۔
”سینیکا کو جانتے ہیں آپ لوگ؟؟ قدیم رومن فلاسفر۔۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسکا تعلق اشرافیہ طبقہ سے تھا، ایک امیر آدمی کے لیے سب سے بڑا خوف دولت کا چھن جانا ہے، سینیکا کبھی کبھار سوکھی روٹی پانی کے ساتھ کھاتا اور زمین پر سوتا اور خود سے کہتا کہ کیا یہی وہ زندگی ہے جس کا خوف مجھے ہر وقت پریشان رکھتا ہے، اسے جی کر دیکھتے ہیں کہ اس میں کس حد تک تکلیف ہے۔
ہم اکثر پوچھتے ہیں کہ یہ کروں گا تو کیا ملے؟ یوں ہوگا تو کیا ہوگا؟ یہ سوالات یقیناً غلط نہیں لیکن ان سوالات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا آپ کو اپنے مقصد کی جانب اپنا سو فیصد دینے سے روک سکتا ہے، کیونکہ نتائج کی ضرورت سے زیادہ پرواہ آپ کی کریٹوٹی اور پروڈکٹوٹی کو نقصان دیتی ہے، آپ کی قیمتی انرجی تقسیم ہوجاتی ہے اور وہ بھی ایسے سوالات پر جو آپ کے مکمل اختیار میں بھی نہیں۔۔اگر آپکو کوئی چیز پریشان، فضول، خوف دیتی ہے تو زندگی میں ایک بار اس کو آزمائیں۔۔ کیا پتا آپ کچھ نیا کر جائیں۔۔۔
رائیڈ نہ ملنے کے ڈر سے آپ یہ محسوس ہی نہیں کر پائیں گی کہ یہ بارش کتنی حسین ہے۔۔۔کبھی ایک بار کسی لوکل آٹو میں جا کر دیکھیں۔۔ اپنے خوف کا سامنا کریں یہ پھر ہی کم ہوگا۔۔۔ بیٹھے بٹھائے نہیں۔۔!!
✿••✿••✿••✿
اس کی ورکشاپ ختم ہوئی اور پاکستان واپس آگئی۔۔ لیکن وہ خود کو کہیں چھوڑ آئی تھی۔۔۔ وہیں ادھم جبیل کے پہلو میں۔۔۔ کافی کا سپ لیتے خفا خفا سے ادھم جبیل کے پاس۔۔
اس کا اب دل نہیں لگ رہا تھا۔۔ وہ ہاسپٹل میں بھی کھوئی کھوئی رہی۔۔
”کیا ہوا منحے؟ جب سے آئی ہو چپ چپ ہو“ وہ ہاسپٹل کے کیفے ٹیریا میں بیٹھے تھے جب اس کی کولیگ سارہ نے پوچھا کسے فوڈ پوائزننگ ہوئی تھی۔ وہ اس کی بات سن کر مسکرادی۔
”کوئی مل گیا کیا لندن میں؟؟“ وہ اب شرارت سے پوچھ رہی تھی۔
”ایک عجیب سا انسان ملا۔۔“ اس نے ہولے سے کہا۔
”کب کہاں کون؟؟ اور تم بتایا نہیں۔۔“
”میرا کزن ہے یار۔۔ پہلی بار ملی ہوں خود آنی کے گھر پر۔۔“
”تم اپنے ہی کزن سے پہلی بار ملی ہو؟؟ کانٹ بلیو۔۔“ وہ حیران تھی۔
”ایسا ہی ہے۔۔۔“
”تو کیسا لگا کزن؟؟“ وہ اب شرارت سے پوچھ رہی تھی۔ منحہ مسکرادی۔
”تمہاری مسکراہٹ مجھے کچھ کچھ کہہ رہی ہے۔۔“
”میری مسکراہٹ پر مت جاؤ۔۔۔اس نے کہا ہے دوستی سے آگے کچھ نہیں۔۔۔“ وہ افسردگی سے بولی۔
”ارے سب یہی کہتے ہیں۔۔۔ڈونٹ وری جتنی تم پیاری ہو یقیناً وہ بھی اپنا دل ہار جائے گا۔۔ “
”وہ پہلے ہی کسی اور پر ہار چکا ہے۔۔“
”اوہ۔۔ کوئی بات نہیں۔۔تم سے مل کر انسان کے سینے میں دو دل دھڑکنے لگ جائیں۔۔“
منحہ بےاختیار ہنس دی۔ لیکن وہ اندر سے کہیں افسردہ تھی۔۔۔ وہ نہیں جانتی تھی یہ کونسا راستہ تھا پر اس کا چلنے کو دل کر رہا تھا۔۔۔اور وہ چاہ کر بھی ادھم کے خیال سے پیچھا نہیں چھڑا پا رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
پونے چار بجے اسے ڈرائیور لینے پہنچ گیا تھا۔۔ وہ جلدی سے تیار ہوتی نیچے آئی۔
”آپی۔۔۔یہ چھاتہ تو لیتی جائیں۔۔“ باہر ہوتی رم جھم کی بدولت حمیزہ نے اس کی ونڈو سے اس کا فیورٹ چھاتہ نیچے پھینکا تھا جسے اٹھاتے وہ تیزی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اور اب گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں تھی۔
عجیب سی پرجوشی تھی جسے بیان نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن وہ محسوس کر سکتی تھی۔۔۔ بیس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد وہ اکیڈمی کے سامنے کھڑی تھی۔۔ مسمرائز کرتا اس جگہ کا حسن دیکھنے لائق تھا۔
وہ گارڈز کو سلام کرتی اندر داخل ہوگئی۔۔۔وہ درخت وہیں تھا اور ذرد پتے چاروں جانب بکھرے پڑے تھے۔۔البتہ آج گراؤنڈ میں اسٹوڈنٹس نظر آرہے تھے۔۔ بلڈنگ کی کھڑکیوں میں کھڑے، درخت کے نیچے بیٹھے اور گھومتے پھرتے۔۔۔وہ اپنے سفید اونی کوٹ میں تھی اور اسکارف کو اس نے اچھے سے چہرے کے گرد لپیٹا ہوا تھا۔ وہ اتنی خوش تھی کہ اپنا چھاتہ گاڑی میں ہی بھول آئی۔۔۔
پتھریلی روش پر چلتی وہ تیزی سے اندر جارہی تھی اور پھر رک گئی۔۔ اسی جگہ پر جہاں پہلے رکی۔۔۔وہ پلٹی اور پلٹ کر اس درخت کو دیکھنے لگی۔۔ اگر وہاں اسٹوڈنٹس کو نہ ہوتے تو وہ لازمی وہاں جاتی۔۔۔ پتھریلی روش کے دونوں جانب پودے لگے تھے۔۔ اور ان کے پتوں پر بارش کے قطرے چمک رہے تھے۔۔۔وہ جھکی اور ان بھیگے پتوں کو اپنے فون میں قید کرنے لگی۔۔۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی میں اس کا اسکارف پھر سے بھیگ رہا تھا۔۔
دو سے تین منٹ گزر گئے۔۔یہاں تک کہ اس نے آسمان سے برستی بارش کو بھی قید کرلیا۔۔۔اور چونکی جب اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔۔۔وہ تیزی سے پلٹی اور پھر اپنے قریب کھڑے شخص سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔۔
حاد جبیل ایک سفید ٹرانسپرنٹ پلاسٹک کا چھاتہ لیے اس کے بہت قریب کھڑا تھا۔۔
”ویلکم ہوم۔۔۔“ اس نے اپنے اور ایمان کو بھیگنے سے بچانے کے لیے ایک ہاتھ میں چھاتہ پکڑا ہوا تھا جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ پینٹ کی جیب میں تھا۔۔۔
ایمان نے ایک نظر اوپر دیکھا۔۔۔گلاس جیسے ٹرانسپرینٹ چھاتے پر پڑتی بارش کی بوندیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔۔۔ وہ ٹیل گرین لوز پینٹ پہنے ہوئے تھا جبکہ آف وائٹ فل سلیوز ٹی شرٹ میں شفاف صاف سا حاد دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ چشمے سے جھانکتی اس کی گرے آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔۔وہ اور بھی کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔ اس کے گلے کا Adam Apple ڈوب کر ابھرا۔۔
”جب صحیح شخص ملے گا میں پھر سے محبت کرلوں گی۔۔۔“ اسے اپنا کہا گیا جملہ یاد آیا۔۔۔
”پھر سے وہی شخص کیوں۔۔۔؟؟“ وہ اسے دیکھتے گہری سوچ کا شکار تھی۔
”مس ایمان۔۔۔۔“ وہ اسے پکار رہا تھا۔
”میں نے پوچھا آنے میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا۔۔؟؟“ وہ پوچھ رہا تھا۔۔۔اس کے چہرے پر شفیق سی مسکان تھی۔
”نن۔۔۔نہیں۔۔۔“ وہ اب بھی چھاتہ تانے کھڑا تھا۔
”میں خود ہی آجاتی آپ کب تک مجھے ویلکم کرتے رہیں گے۔۔؟؟“ وہ اب نظریں چراگئی تھیں۔۔۔ وہ اب اپنے شوز کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جانے کیوں اس کا دل اداس ہوگیا تھا۔۔۔
پھر سے وہی شخص کیوں؟؟؟ ایک ہی سوال چاروں جانب گونجنے لگا تھا۔
”آپ جب جب آئیں گی۔۔۔“ وہ سنجیدہ تھا۔۔۔ایمان نے نظریں نہیں اٹھائیں۔۔۔ اور وہ اسے الجھی ہوئی لگ رہی تھی۔۔۔ لیکن سمجھ نہیں پارہا تھا کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔
”چلیں۔۔۔؟؟“ اسے بت بنے دیکھ کر حاد نے کہا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر چل پڑی۔
”یہ کون ہے؟؟ جس کو حاد جبیل خود لینے آئے۔۔؟؟“
”ہوگی ان کی کوئی خاص مہمان۔۔۔“ دوسری منزل کی کھڑکی میں کھڑی لڑکیوں نے سرگوشیاں کی تھیں۔
ام ایمان کو آج اکیڈمی میں کافی رونق نظر آئی تھی۔ اسے دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے واقعی کوئی ادارہ ہو۔۔ اس نے اندر کافی اسٹوڈنٹس کو لکھتے پڑھتے اور ڈسکشن کرتے دیکھا تھا لیکن یہ روایتی طریقے سے ہٹ کر تھا۔۔۔ موٹی موٹی جلدوں والی پرانی کتابیں کھولے اسٹوڈنٹس ان پر جھکے ہوئے تھے۔
”میں نے کہا تھا نا۔۔ میں نے کہا تھا نا یہ قرآن پاک میں پہلے سے لکھا ہوا ہے۔۔۔“
وہ ایک گروپ کے پاس سے گزری جہاں لڑکی خوشی سے چلا کر باقیوں کو کچھ بتارہی تھی جیسے اس نے کوئی گہرہ راز پا لیا ہو۔
کچھ دیر بعد وہ اس کا وہاں کے سبھی اسٹوڈنٹس تعارف کروارہا تھا۔۔
”یہ مس ام ایمان ہیں۔۔یہ کیا کرتی ہیں آپ لوگ خود جان جائیں گے۔۔۔ کبھی خود کو ہیل کرنا چاہیں تو ان سے مل سکتے ہیں۔۔“ اس نے انوکھا تعارف کروایا تھا۔۔ وہ مسکرا کر سب کو دیکھتی رہی اور خاص کر اسے۔
میں کیسے مان لوں زمیں زادہ ہے وہ
وجود اُس کا آسمان سے ملتا ہے۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
یہ ایک بڑے سیاستدان کی مشہور حویلی تھی جس کے ماسٹر بیڈ روم سے چیخوں کی آواز ابھر رہی تھی۔
”طلاق مانگتی ہے مجھ سے تیری اتنی ہمت؟؟“ مرد نے اپنی بیوی کو بالوں سے پکڑا اور ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔۔ وہ اس پر بہت تشدد کر چکا تھا۔۔ لڑکی کا ہونٹ پھٹ چکا تھا اس کی پیشانی اور آنکھ پر نشان پڑ چکے تھے۔
”بول کس نے سکھایا ہے تمہیں؟؟ کہاں سے آئی اتنی ہمت؟؟“ اس نے اب لڑکی کو جھٹکا دیا اور پھر نیچے پٹخ دیا۔۔ لڑکی نے اپنی چیخوں پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن وہ درد سے بلبلا اٹھی۔۔وہ اب اس پر جھکا لاتوں سے اسے مار رہا تھا۔
”مجھ سے طلاق مانگتی ہے۔۔“ مرد کا بس نہیں چل رہا تھاوہ اسے ٹکڑوں میں کاٹ دیتا۔ پھر اس نے رک کر لڑکی کو دوبارہ بالوں سے پکڑا۔
”کس نے سکھایا تمہیں؟؟“ وہ غضبناک لہجے میں پوچھ رہا تھا۔
”میں ایک شرابی، جواری اور زانی کے ساتھ نہیں رہ سکتی جسے اللہ کا ذرا بھی خوف نہ ہو اور جو اس سے نہ ڈرتا ہو۔۔“
یہ فضا تھی جس نے ڈاکٹر علوی کے کلینک پر ایمان کے سامنے اپنا مسئلہ رکھا تھا۔۔ وہ ایسا پہلے سے ہی چاہتی تھی لیکن ڈرتی تھی۔۔۔اپنے شوہر سے۔۔ پر اس روز اسے اللہ سے زیادہ ڈر لگا۔۔۔ اسے اس روز ہمت بھی ملی کہ وہ اس شخص کو صرف اللہ کی رضا کی خاطر چھوڑ رہی تھی۔۔ وہ کسی مرد کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی جو روز زنا کرکے آتا ہو اور پھر بیوی پر تشدد کرتا ہو۔
”اللہ یاد آگیا اب تمہیں۔۔ہاں۔۔۔ شادی سے پہلے جب میرے ساتھ گھومتی پھرتی تھی تب اللہ کدھر تھا۔۔۔“ اس نے ایک اور زناٹے دار تھپڑ مارا۔۔۔
ہمارا مسئلہ یہی ہے۔۔ہم اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر اگر اللہ کے راستے پر چلنا بھی چاہیں تو کم ظرف لوگ ہمیں ٹانگ سے پکڑ کر کھینچتے ہیں اور ہم منہ کے بل گر جاتے ہیں۔
”مجھے جانے دو پلیز۔۔۔اگر آپ خود کو نہیں بدل سکتے تو مجھے جانے دیں۔۔“ وہ زمین پر پڑی بڑبڑارہی تھی۔
”نہیں جا سکتی تم یہاں سے۔۔۔ صرف تمہارا جنازہ جائے گا۔۔“ اس نے فضا کو گردن سے پکڑ کر اٹھایا اور پھر اس کا سر زور سے زمین پر دے مارا۔۔۔ بلبلاتی فضا ساکت ہوگئی۔۔۔ اور وہ اسے وہیں چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
اسے پکا یقین تھا کہ فضا کا کسی اور کے ساتھ چکر چل رہا تھا تبھی اس نے خلاع کی بات کی تھی۔
وہ جاننا چاہتا تھا اس کی بیوی کہاں کہاں جاتی رہی ہے اور کس کس سے ملتی رہی ہے۔۔۔وہ ہر اس شخص کو جان سے مار دینا چاہتا تھا جس نے اس کی بیوی کا برین واش کیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
ایمان اپنا آفس دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ یہ سب سے اوپری فلور پر حاد کے بالکل ساتھ والا کمرہ تھا اور اس کے باہر بورڈ پر دی ہیلر لکھا ہوا تھا۔۔۔وہ اس نام کو پڑھ کر مسکرا دی۔
”مجھے امید ہے آپ کو یہ پسند آئے گا۔۔“ اس نے دروازہ کھولا اور ایمان کو پہلے اندر داخل ہونے کا اشارہ کیا۔۔ جیسے وہ اندر داخل ہوئی تو حیران رہ گئی۔ ایسا لگا وہ کسی جادوئی دروازے سے صدیوں پیچھے آگئی ہو۔۔
پورا کمرہ ونٹیج چیزوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ وہاں رکھے میز کرسیاں، شیلف کتابیں اور شو پیس ہر چیز۔۔۔یہاں تک کہ میز پر رکھا فون بھی کافی پرانا تھا۔۔
وہ حیرانی سے سب دیکھنے لگی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی جبکہ حاد سینے پر بازو جمائے اسے ہی دیکھ رہا تھا اس کی شرٹ پر بائیں جانب سینے کے مقام پر آرجے لکھا تھا۔۔۔یقیناً وہ شرٹ آرجے برانـڈ کی تھی۔
”یہ سب آپ نے کیا۔۔۔ لیکن کیوں۔۔۔؟؟“
تم کو تاریخ سے دلچسپی ہے، سُن کر میں نے
گھر کے اِک کمرے کو یونان بنا رکھا ہے۔۔۔۔!!
اس کیوں کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ ہوتا بھی کیسے۔۔۔وہ خود نہیں جانتا تھا اس نے کیسے کیا تھا پر وہاں رکھی چیز انمول تھی۔۔۔بیش قیمتی جو اس نے خود ڈھونڈی تھی۔
”کیوں کیا آپ نے یہ سب۔۔؟؟“ وہ اب اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔
”یہ میری دنیا ہے۔۔۔میں چاہتا ہوں یہاں موجود ہر شخص اسے ویسا ہی پائے جیسے اس نے چاہا ہو۔۔“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے بولا۔۔۔ ایمان کچھ بول ہی نہ پائی۔
”آپ کے ٹیبل پر کچھ شیٹس پڑی ہیں آپ انہیں چیک کرلیں۔۔۔ سیشنز کو ڈیوائڈ کرنا ہے آپ دیکھ لیں کیسے کرنا ہے۔۔ مجھے ابھی کام ہے بعد میں ملتے ہیں۔۔۔“ وہ جانے کے لیے پلٹا۔
”اور ہاں۔۔ انٹرکام پر آپ کسی بھی وقت چائے آڈر کرسکتی ہیں اور ساتھ والا روم پرے روم ہے آپ جب چاہیں جا سکتی ہیں۔۔“ وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گیا اور وہ وہیں کھـڑی رہ گئی تھی۔ کچھ دیر تک وہ چیزوں کو دیکھتی رہی اور پھر کام شروع کردیا۔۔وہ ٹائم ٹیبل کو اپنے اور حاد کے شیڈول کے حساب سے ترتیب دے رہی تھی۔۔ آج اس کا ہسپتال میں بھی کافی بزی دن رہا تھا اور اس وقت وہ تھک گئی تھی۔نیند اس پر حاوی ہورہی تھی۔ اسے چائے کی طلب ہوئی تو اس نے انٹرکام پر بیل دی۔۔
”مجھے ایک چائے چاہیے۔۔“ اس نے کہا۔
”آپ کے روم میں لے آؤں یا اسٹاف روم میں، جہاں مسٹر حاد اپنی کافی وغیرہ لیتے ہیں۔۔۔؟؟“ وہ بیٹھے بیٹھے تھک گئی تھی اس لیے اسٹاف روم کا پوچھ کر وہ کمرے سے نکل آئی اور پھر سیڑھیاں اترتی نچلی منزل پر آئی۔۔۔اب ہر کمرے کے باہر بورڈ لگا تھا۔۔اسے اسٹاف روم نظر آگیا۔۔۔وہ دروازہ کھولتے اندر داخل ہوئی۔۔۔ یہ کمرہ کافی کھلا اور صاف ستھرا تھا۔۔۔ بڑا سا میز تھا جسکے چاروں جانب کرسیاں رکھی تھیں۔۔۔ وہ کافی تھک گئی تھی ایک کرسی پر بیٹھ کر فون یوز کرنے لگی۔
اچانک ایک ویڈیو سامنے آئی تھی اور اس کے میوزک نے اسے رکنے پر مجبور کیا۔۔۔ اس نے موبائل کو میز پر رکھا۔۔۔ اس کے ہاتھ جھولی میں رکھے تھے۔۔۔وہ اس قدر تھک گئی تھی کہ اس نے موبائل کے قریب میز پر سر رکھا اور آنکھیں بند کردیں۔۔ ہاتھ میں چھاتہ پکڑے حاد اس کے تصور کے پردے پر لہرایا۔
یہ درد ہے تو کیا
یہ عشق کی تلاش ہے۔۔۔
موبائل پر ابھرتا میوزک کمرے میں گونج رہا تھا۔۔۔اس کے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔ وہ کب سوئی کچھ پتا ہی نہیں چلا۔۔۔۔جب انسان ذہنی جسمانی طور پر تھکا ہو تو اسے سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔۔۔اور اس نے خود کو اتنا بزی کرلیا تھا کہ جب وہ تھک ہار کر رات کو سونے لیٹتی تھی تو اسے کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔۔۔ کسی کا خیال نہیں آتا تھا۔۔ کوئی نفرت بھرا کوئی محبت بھرا۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔ اور اس وقت وہ تھکی ہوئی تھی۔۔۔
کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور حاد اندر آیا اور جیسے ہی اس کی نظر سامنے میز پر سر رکھے سوتی ایمان پر پڑی وہ ٹھٹک گیا۔۔۔ وہ خود تھکا ہوا تھا اور اپنی کافی لینے آیا تھا۔۔۔ پہلے اس نے سوچا وہ پلٹ جائے پر اس کے قدم انکاری ہوگئے۔۔ وہ دھیمے قدم اٹھاتا اس کے قریب آیا۔۔۔اور میز کے دوسری جانب بیٹھ گیا۔۔۔ ایمان گہری نیند میں تھی اور وہ اسے اٹھانا نہیں چاہتا تھا۔۔۔
وہاں جہاں تو ہی میرا لباس ہے۔۔
اس نے اپنی داہنی بازو میز پر رکھی اور جھکتے ہوئے سر بازو پر رکھ دیا۔
وہاں جہاں تیری ہی بس تلاش ہے۔۔
وہ اب اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ ”ایمانے۔۔۔۔“ اس نے دھیرے سے سرگوشی کی۔
کیا تھا ایسا اس لڑکی میں جو وہ سالوں بندھا رہا۔۔ سالوں گزر گئے تھے۔
وہاں جہاں تجھی پر ختم آس ہے۔۔
وہیں شروع وہیں پہ دفن جان ہے۔۔
اسے اپنی پلکوں پر گہرا بوجھ محسوس ہوا۔۔۔اس نے ہولے سے آنکھیں بند کیں۔۔۔ ایک دو تین لمحے گزرے اس نے ایمان کی موجودگی کو محسوس کرنا چاہا اور پھر اسے پتا ہی نہیں چلا غنودگی کیسے اس پر طاری ہوئی۔۔۔۔ اسے اپنے آس پاس سکون ہی سکون محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔۔ یہ شاید پہلی بار تھا وہ یوں اپنی ماں کے علاوہ کسی انسان کی موجودگی میں ایسے سویا ہو۔۔۔۔!!

9 Comments

  1. Amazing
    Next episode kab ay ge

    ReplyDelete
    Replies
    1. Next Episode will be uploaded within a week

      Delete
  2. بہت اچھی تھی یہ قست مزہ آ گیا ہے سچ میں 😌😌🙂

    ReplyDelete
  3. Last scene❤️❤️❤️❤️

    ReplyDelete
  4. amazing no words to explain

    ReplyDelete
  5. Awsm episode...last scene is just🩵🩵so pure and beautiful....

    ReplyDelete
  6. Assalam o alaikum!! Miss Noor Rajput ur writings in novel form literally compel me to think, to question myself,so we want u to make these type of stuff more for us I m in love with ur novels ,May Allah help you and increase ur knowledge ameen!!

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post