Maseel Episode 51 by Noor Rajput

 

Maseel novel episode 51 by noor rajput

مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_51
نور_راجپوت
حاد نے گاڑی اس بلڈنگ کے سامنے لاکر روک دی جس میں ایمان کا اپارٹمنٹ تھا۔۔ باقی کا پورا راستہ خاموشی سے کٹا تھا۔۔ اس نے ایمان کی موجودگی کو اس شدت سے محسوس کیا تھا کہ بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
”کس فلور پر ہے آپ کا اپارٹمنٹ؟؟“ وہ ایسے پوچھ رہا تھا جیسے جانتا ہی نہ ہو۔
”سیکنڈ۔۔۔“ ایمان نے ہولے سے جواب دیا۔۔ اس نے گردن موڑ کر پیچھا دیکھا تو حمیزہ سوچکی تھی۔
”میں اوپر تک آؤں۔۔؟؟“
”نہیں تھینک یو سو مچ۔۔۔“ اب وہ حمیزہ کو آوازیں دے رہی تھی۔
”میزو اٹھ جاؤ۔۔“ لیکن وہ نہ اٹھی۔۔ حاد جلدی سے گاڑی سے اترا اور اس کی جانب آ کر دروازہ کھول دیا تاکہ وہ آسانی سے باہر نکل کر اسے اٹھا سکے۔۔ ایمان تو اس کی اس حرکت پر ساکت رہ گئی۔ اس نے حاد کی طرف دیکھا جس نے شرٹ کے اوپر کچھ نہیں پہن رکھا تھا، نہ کوئی موٹا کوٹ نہ کوئی ہڈی۔۔۔ وہ ویسے ہی کھڑا تھا دروازہ کھولے۔۔ وہ تیزی سے باہر نکل آئی۔
حاد نے پیچھے کا دروازہ کھولا تو ایمان نے جھکتے ہوئے حمیزہ کو کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔
”اٹھ جاؤ ہم پہنچ گئے ہیں۔۔“ حمیزہ نے آدھی کھلی اور آدھی بند آنکھوں سے اسے دیکھا اور پھر ایمان کا سہارا لیتی باہر نکل آئی۔ ایمان اس کا بازو تھامے کھڑی تھی تاکہ وہ گر نہ جائے۔۔۔ اس کا بیگ گاڑی کے اندر ہی تھا۔۔۔حاد نے فرنٹ سیٹ سے اس کا شولڈر بیگ نکالا جو گہرے بھورے رنگ کا تھا اور اسے پکڑایا۔
”آپ سے مل کر اچھا لگا۔۔۔“ وہ پیشہ ورانہ انداز میں کہہ رہا تھا۔ ایمان بس مسکرا کر رہ گئی۔
”آپ کا اپارٹمنٹ یہاں سے کتنا دور ہے؟؟“ وہ اسے الجھی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔ کیا اسے سردی نہیں لگتی۔۔۔ پھر اس نے مروتاً پوچھ لیا۔
”یہاں سے تو قریب ہی ہے البتہ مجھے ابھی واپس اکیڈمی جانا ہے۔۔“ وہ پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔۔ اس کی بات سن کر ایمان کی آنکھیں پھیل گئیں۔
”کیا آپ وہاں رہتے ہیں۔۔۔؟؟“
”ہاں۔۔ جب سے سٹارٹ کیا ہے وہیں سوتا ہوں زیادہ تر۔۔“
”اکیلے۔۔۔؟؟“
”ہاں۔۔۔اکیلے۔۔۔“
”ٹھیک ہے پھر آپ کو جانا چاہیے۔۔ کافی وقت ہوگیا ہے۔۔“
حمیزہ ہولے ہولے کچھ بڑبڑا رہی تھی۔۔ وہ جلدی سے گھر پہنچ کر سونا چاہتی تھی۔
”آپ جائیں پہلے۔۔۔“ اس نے اشارہ کیا تو ایمان اپنا اور حمیزہ کا بیگ تھامتی اسے پکڑ کر داخلی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔۔ پارکنگ ایریا نیچے تھا اس لیے بلڈنگ کے باہر زیادہ رش نہیں تھا۔۔ ویسے بھی اتنی سردی ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں دبکے پڑے تھے۔۔۔
وہ وہیں کھڑا رہا۔۔۔ داخلی دروازے پر گارڈ بیٹھا تھا۔۔۔ جب وہ اندر داخل ہوگئی تو اس گاڑی کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا۔
”انکل آج لفٹ اوپن کردیں۔۔۔“ اس نے گارڈ سے کہا۔۔ دروازے کے پاس ہی لفٹ اور سیڑھیاں اوپر جاتی تھیں۔۔ وہ لفٹ نہیں استعمال کرتی تھی۔۔ وجہ اس کا دم گھٹتا تھا۔۔ اسے فوبیا تھا اور دوسرا وہ سیڑھیوں کو اس لیے استعمال کرتی تھی تاکہ ایکٹیو رہ سکے۔
گاڑد نے جلدی سے لفٹ اوپن کی اور اس نے اندر داخل ہوتے سیکنڈ فلوڑ کا بٹن دبایا۔۔۔ حمیزہ اب اس کے اوپر ڈھے گئی تھی۔
”ویسے تو تم سوتی نہیں ہو بارہ بجے تک بھی اور آج اتنی جلدی سوگئی۔۔۔“ وہ اب اسے دیکھ کر بڑبڑارہی تھی۔
”میزو آنکھیں کھولو یار۔۔ پانچ کلو کا تو تمہارا بیگ ہے۔۔۔“ لفٹ کھلی اور وہ اسے پکڑے اپنے اپارٹمنٹ تک آئی۔۔ بیل دینے پر سلمی بیگم نے دروازہ کھولا۔۔
”کہاں رہ گئی تھی تم دونوں۔۔۔ میں کب سے فون کر رہی ہوں۔۔“ سلمی بیگم کو جیسے سکون کا سانس آیا تھا۔۔ اس نے حمیزہ کو لاؤنج میں صوفے پر بٹھایا جو اب آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”امی ابھی ساڑھے آٹھ بجے ہیں۔۔ بس میٹنگ کی وجہ سے لیٹ ہوگئی۔۔۔“ اس نے صوفے پر بیٹھتے گہرا سانس لیا۔۔ سب سے پہلے اپنا وزنی کوٹ اتارا۔ حمیزہ اب جھکی ہوئی اپنے شوز اتار رہی تھی۔
”اتنے سکون کی نیند کبھی نہیں آئی مجھے۔۔۔“ وہ مندھی مندھی آنکھوں سے بولی۔
”ڈرامہ کوئین۔۔“ ایمان اسے دیکھ کر بڑبڑائی۔
”کھانا لگاؤں۔۔۔؟؟“ سلمی بیگم نے فوراً پوچھا۔
”ہاں میں بس چینج کرکے آتی ہوں۔۔۔“ وہ اپنا بیگ اور کوٹ اٹھاتی کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
”ہوگئی نیند پوری۔۔؟؟“ سلمی بیگم نے انگڑائی لیتی حمیزہ سے پوچھا۔۔۔
”ارے یار مومی۔۔ کیا بتاؤں آپ کو کتنا مزہ آیا۔۔۔ اتنی خوبصورت جگہ تھی۔۔۔ ویسے تو اسلام آباد پورا ہی خوبصورت ہے لیکن سچی وہ ویسی ہی جگہ تھی جیسی آپی اور مجھے پسند ہے۔۔“ اس نے یونیفارم کے اوپر سے اپنا بلیو کوٹ اتارا۔۔۔اور صوفے پر ہی لیٹ گئی۔
”اب اٹھ جاؤ ہاتھ منہ دھو لو، میں کھانا لگا رہی ہوں۔۔۔ “ سلمی بیگم اسے تاکید کرتی کچن کی جانب چلی گئیں۔ جبکہ وہ آنکھیں موندھے انہی نظاروں میں کھوئی تھی۔ ایمان اپنے کمرے میں آئی اس نے اپنا کوٹ ہینگ کیا اور جھک کر شوز اتارنے لگی۔۔
اچانک اس کا فون بجنے لگا۔۔ اس نے دیکھا تو کوئی انجان نمبر تھا۔۔
”ہیلو۔۔۔“ اس نے فون اٹھاتے کان سے لگایا۔
”پہنچ گئیں آپ۔۔۔؟؟“ حاد کی آواز ابھری۔
”جج۔۔جی۔۔۔“ وہ حیران ہوئی۔
”ٹھیک ہے اب میں بھی چلتا ہوں۔۔۔“
ایمان کی آنکھیں پھیلیں۔۔۔ تو کیا وہ نیچے ہی کھڑا تھا۔۔ وہ جلدی سے ونڈو کی جانب بڑھی۔۔ ذرا سا پردہ سرکا کر دیکھا تو وہ اپنی گاڑی ریورس کررہا تھا۔۔۔
"have a good night.."
فون بند ہوچکا تھا جبکہ وہ فون کو حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔
”جنٹل مین۔۔۔“ وہ ہولے سے مسکرادی اور پھر فون واپس بیڈ پر رکھ دیا۔۔ دوبارہ ونڈو سے جھانکا تو اس کی گاڑی نظروں سے اوجھل ہوچکی تھی۔
”کیا وہ اکیلا وہاں رہتا ہے۔۔۔؟؟ کیا اسے ڈر نہیں لگتا۔۔؟؟“
وہ جھرجھری سی لے کر رہ گئی۔
✿••✿••✿••✿
وہ تیار ہو کر نیچے آئی تو اسے حانم کی آواز سنائی دی۔
”کہیں جا رہے ہو؟؟“ شاید وہ ادھم سے پوچھ رہی تھیں۔
”تھوڑا بور ہوگیا تھا سوچا کافی پی آتا ہوں اور آتے ہوئے کچھ کتابیں لے آؤں گا۔۔“ وہ دونوں لاؤنج میں تھے۔
”ٹھیک ہے لیکن ڈنر گھر پر ہی کرنا۔۔۔ زوئی کھانا بنا رہی ہیں۔۔“
”آنی۔۔۔“ منحہ نے سیڑھیاں اترتے انہیں پکارہ۔
وہ گرم سیاہ فراک پر بھورے رنگ کا کوٹ پہنے ہوئی تھی۔سر پر اونی کیپ تھی۔
”وہ میں کچھ کام سے باہر جارہی ہوں کچھ دیر تک واپس آجاؤں گی۔۔۔“ اس کی ورکشاپ جلد ہی ختم ہونے والی تھی اس کے کولیگز نے آؤٹنگ کا پلان بنایا تھا۔
حانم نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا۔۔۔ ٹخنوں سے ذرا اوپر تک آتی فراک اس پر اونی جیکٹ نما کوٹ، بالوں کو فولڈ کرکے اوپر کیپ لی گئی تھی جب کہ پاؤں لانگ بوٹس میں قید تھے۔ وہ اچھی لگ رہی تھی۔۔
”چھ بج رہے ہیں۔۔۔آٹھ بجے تک واپس آنا ہے۔۔“
ان کی بات سن کر منحہ مسکرا دی۔
”میں پہلے کبھی لیٹ آئی ہوں۔۔۔؟؟“ اس نے قریب آتے حانم کے گال پر پیار کیا۔ وہ اسے اپنی ماں سے زیادہ عزیز تھی۔ ادھم نے یہ منظر دیکھتے اپنا مفلر اٹھا کر کانوں کے گرد لپیٹا۔۔۔ باہر ٹھنـڈ تھی اسے فلو جلدی ہوتا تھا اور سردیوں میں زیادہ تر استھما کا اشو بڑھ جاتا تھا۔
”ایسا کرو ادھم تم منحہ کے ساتھ چلے جاؤ۔۔ یہ تمہیں ڈراپ کردے گی۔۔“ اس نے ادھم سے کہا۔
منحہ نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا اور پھر اثبات میں سر ہلادیا۔۔
”میں چلا جاؤں گا۔۔۔ویسے بھی میں کسی ایک جگہ نہیں جاؤں گا۔۔ جانے کہاں کہاں بھٹکوں گا تو۔۔“
”مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔۔“ وہ فوراً اس کی بات کاٹتے بولی۔
”اوکے خیریت سے جاؤ۔۔۔“ وہ دونوں سے کہتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
”چلیں۔۔۔؟؟“ ادھم نے اسے دیکھتے کہا۔ منحہ ہاتھ میں چھوٹا سا شولڈر بیگ تھامے کھڑی تھی جسے اس نے چلتے ہوئے کندھے پر لٹکالیا۔
وہ دونوں باہر لان میں آگئے تھے۔۔ باہر کافی سردی تھی۔۔
ادھم نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔۔ کچھ نظر نہیں آیا۔۔ اس کا ناک سرخ ہونا شروع ہوگیا تھا۔۔وہ سردی نہیں سہہ پاتا تھا۔۔ منحہ گیراج سے گاڑی نکال رہی تھی۔۔
وہ گاڑی نکالتی اس تک لائی۔
”آئیں مسٹر ماثیل میں آپ کو لفٹ دیتی ہوں۔۔۔“ وہ شیشہ نیچے کرتے ہوئے مسکرائی تو وہ سامنے سے گزرتا دوسری جانب آکر بیٹھ گیا۔
گاڑی اب پتھریلی سڑک پر سست روی سے بہہ رہی تھی۔
”تو کہاں جانا ہے آپ کو؟؟“
”کسی کافی شاپ پر۔۔۔جہاں بکس بھی ہوں۔۔“ وہ سامنے دیکھتے گویا ہوا اور اپنے ہاتھوں کو رگڑ کر انرجی پیدا کی۔۔۔ منحہ نے ہیٹر آن کردیا۔
”بکس تو حانم آنی کی لائبریری میں کافی زیادہ ہیں۔۔ آپ وہاں سے پڑھ سکتے ہیں۔۔“
”وہ بکس میرے ٹائپ کی نہیں۔۔ اور دوسرا میں باہر بیٹھ کر پڑھنا چاہتا ہوں۔۔“
”تاکہ کوئی لڑکی آپ کو کتاب پڑھتے دیکھے اور دل ہار جائے۔۔“ اس نے شرارت سے کہا تو وہ مسکرادیا۔
”نہیں اب ایسی کوئی خواہش نہیں ہے۔۔۔“
”آپ کو نہیں ہوگی لیکن یہاں کی عورتیں مشرقی مردوں پر جلد عاشق ہوتی ہیں۔۔۔اور وہ بھی کتابیں پڑھنے والے مرد۔۔۔“
وہ اب بیک مرر میں دیکھتے ہوئے بولی۔
”اور مشرقی عورتوں کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔؟؟ کیا انہیں کتابیں پڑھنے والے مرد پسند ہیں۔۔۔؟؟“
منحہ کا دل اچھل کر حلق میں آیا۔۔۔ کیا پوچھ رہا تھا وہ۔۔ وہ بھی اس لڑکی سے جس نے اسے پہلی بار کتاب پڑھتے دیکھا تھا اور پھر نظریں ہٹانا ذرا مشکل ہوگیا تھا۔
”یہ ڈیپنڈ کرتا ہے۔ ایسے مرد انہی لڑکیوں کو پسند آتے ہیں جو خود کتابیں پڑھتی ہوں۔۔“ اس نے سنجیدہ لہجے میں بتایا۔
”پھر بھی میں اسے پسند نہیں آیا۔۔ وہ تو خود لکھتی تھی۔۔“ اس نے اذیت سے آنکھیں موندھیں۔۔۔ ایمان کا سراپا تصور کے پردے پر لہرایا تھا۔ وہ اب سیٹ سے پشت ٹکائے بیٹھا تھا۔
وہ دھیان سے گاڑی چلارہی تھی جب اس کا فون بجنے لگا۔اس نے فون اٹھاتے اسپیکر پر ڈالا۔
”ہائے مِنحہ۔۔۔آج کا پلان کینسل کرنا پڑے گا سارہ کو فوڈ پوائزن ہوگیا ہے ہم ہاسپٹل جا رہے ہیں۔۔“ اس کے کولیگ نے اطلاع کرتے فون بند کردیا۔۔۔ اور منحہ کو عجیب سے احساس نے آگھیرا تھا۔۔ ابھی وہ شدید خواہش کر رہی تھی کہ اسے ساتھ بیٹھے شخص کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع مل جائے۔۔ اور شاید قدرت نے اس کی سن لی تھی۔۔ اس نے گاڑی ایک جانب روکتے اس کی جانب دیکھا۔۔ وہ ویسے ہی آنکھیں موندھے بیٹھا تھا۔
”میرا پلان کینسل ہوگیا ہے تو اب آپ کو کہاں ڈراپ کروں۔۔؟؟“
ادھم نے آنکھیں کھولیں اور ونڈ اسکرین سے دیکھا۔
”یہاں سے میں واک کرلوں گا۔۔ تھینک یو سو مچ۔۔۔“ وہ کہتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگا اور پھر اچانک رک گیا۔
”تو مطلب آپ اب واپس جائیں گی۔۔۔“ اس نے منحہ کی تیاری پر جیسے چوٹ کی۔۔ اور وہ پھیکا سا ہنس دی۔
”میں آپ کو کمپنی دے سکتی ہوں۔۔۔“ اس نے آفر پیش کی۔
”میں کافی بورنگ سا بندہ ہوں تم بھی بور ہوجاؤ گی۔۔“ وہ اس سے چھوٹی تھی اور وہ اسے مزید آپ آپ نہیں بلا سکتا تھا۔
”مجھے بورنگ لوگ پسند ہیں۔۔۔“ اس نے کہتے ہوئے گاڑی سائیڈ پر لگائی اور باہر نکل کر لاک کردی۔ کچھ فاصلے پر مارکیٹ تھی جہاں ٹیورسٹ کا رش لگا ہوا تھا۔۔ وہاں گاڑی الاؤ نہیں تھی۔۔۔
وہ دونوں اب پیدل چل رہے تھے۔
”تو تم ڈرماٹولوجسٹ کیوں بنی؟؟“ اس نے سوال کیا۔
”پتا نہیں۔۔۔شاید مجھے یہی بننا تھا۔۔۔“ وہ ساتھ چلتے بتارہی تھی۔۔۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور منحہ کا ناک سرخ پڑچکا تھا۔۔۔ سڑک کے دونوں جانب زرد روشنیاں جل رہی تھیں۔۔۔لوگ آجارہے تھے۔۔۔ ان سے کچھ فاصلے پر ٹاور برج تھا جس پر کافی رش تھا۔۔۔ روشنیاں اتنی تیز تھیں کہ دونوں کی رنگت دمک رہی تھی۔
”مشرقی لڑکیاں اتنی مشکل کیوں ہوتی ہیں ان سے کچھ بھی پوچھو تو جواب ہوتا ہے "پتا نہیں۔۔" عجیب۔۔۔“
اسکا انداز ایسا تھا کہ منحہ ٹھہر گئی اور پھر ہنس دی۔
”اتنی بھی مشکل نہیں ہوتیں ہم، بس سمجھنے کے لیے دماغ کی نہیں دل کی ضرورت ہوتی ہے۔۔“ وہ بولی تو ادھم نے ٹھہر کر اسے دیکھا۔ اس کا چہرہ شفاف اور رنگت گلابی مائل تھی کچھ سردی کی وجہ سے ناک سرخ ہوگیا تھا۔۔ اس کے ہونٹوں پر لگا گلوز چمک رہا تھا۔۔ اس کے بال آگے سے بینگز میں کٹے ہوئے تھے جو آگے سے اس کی آنکھوں کو چھو رہے تھے اور باقی کیپ میں چھپ گئے تھے۔۔۔اس کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی تھیں جو ہنستے ہوئے اور چھوٹی ہوجاتی تھیں۔ نازک سا سراپا تھا بلاشبہ وہ خوبصورت تھی۔
”سو۔۔۔ آر یو سنگل۔۔؟؟“ غیر متوقع سوال تھا۔ وہ کچھ بول نہ پائی۔
”آپ کو کیا لگتا ہے۔۔؟؟“ وہ دونوں پھر سے چلنے لگے تھے۔
”آج کے دور میں کوئی بھی سنگل نہیں ہوتا۔۔۔“ وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا۔
”اچھا تو پھر آپ نے اب تک شادی کیوں نہیں کی؟؟ یا کرنے والے ہیں۔۔۔“
”میں تو ریجیکٹڈ ہوں۔۔۔“ اس کے لہجے میں اذیت ہی اذیت تھی۔۔۔ وہ ٹھہر گئی۔۔
”ایسے شخص کو کون ریجیکٹ کر سکتا تھا؟؟ تو کیا یہی وجہ تھی اس کے ڈپریشن کی۔۔۔؟؟“ وہ سوچنے لگی۔
”ہر بیڈ لک۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی پائی۔ ”پر آپ کو کوئی کیوں ریجیکٹ کرے گا۔۔؟؟“ وہ اب دونوں اب ایک کافی شاپ کے سامنے تھے۔۔۔ اس نے دو کافی آڈر کی۔۔ اندر جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔ منحہ کو یوں اس کے ساتھ چلنا اچھا لگ رہا تھا۔
”میں اس کے ٹائپ کا نہیں تھا۔۔“
”اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ کو ریجیکٹ کردے۔۔“ اسے اب افسوس ہورہا تھا۔۔ ادھم نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اسے منحہ معصوم لگی تھی۔۔ ایمان کی طرح۔۔۔
”اگر اس کی جگہ تم ہوتی تو تم بھی ایسا ہی کرتی۔۔“ وہ ہولے سے مسکایا۔
”اور میں ایسا کیوں کرتی۔۔؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”ایک بےروزگار، جواری اور نشئی سے کون شادی کرنا چاہے گا۔۔۔؟؟“ ماثیل نے تلخ لہجے میں کہا تو منحہ خاموش ہوگئی۔۔۔اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ وہ بس اسے دیکھ رہی تھی جو کافی شاپ میں بیٹھے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔۔ بس دیکھ رہا تھا ذہن تو جانے کہاں اٹکا تھا۔
”یہ سب تو وقت کے ساتھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔۔“ وہ جانے خود کو تسلی دے رہی تھی یا اسے۔
”میں تمہیں کسی پاگل خانے میں نظر آئی تو اس کی وجہ تم ہوگے۔۔“ اس کی سماعت سے ایمان کے الفاظ ٹکرائے۔ آخری بار اسے پاگل خانے میں ہی تو دیکھا تھا۔ اسے اپنا سانس سینے میں اٹکتا محسوس ہوا۔ اس نے گردن اوپر کرکے آسمان کو دیکھا اور منہ کھول کر سانس لینے کی کوشش کی۔ اس کے چہرے پر گہری اذیت تھی۔۔۔اس نے یہ سال کیسے گزارا تھا صرف وہی جانتا تھا۔۔ چھ ماہ تک تو وہ شدید ڈپریشن میں رہا۔ گھر میں ہی قید رہتا۔ گلٹ اتنا زیادہ تھا کہ وہ بیمار پڑھ گیا۔ اسے ٹائیفائڈ ہوگیا تھا جو مشکل سے ٹھیک ہوا تھا۔ کتنی بار سوچا کہ ہسپتال جا کر اسے مل کر آئے اسے دیکھ آئے۔ لیکن ہمت ہی نہیں ہوئی۔ پھر چھ ماہ پہلے وہ پاکستان پھر سے چھوڑ آیا۔ جانے کہاں کہاں پھرتا رہا۔ اور اب آخر میں یہاں آیا تھا۔
”ایک مذہبی لڑکی ایسے شخص سے شادی نہیں کر سکتی جس کی اس کے خدا سے لڑائی ہو۔۔“
منحہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ وہ اتنا تو جانتی تھی کہ ادھم نے مذہبی وجوہات کی بات بنا کر گھر چھوڑا تھا۔۔
تو کیا وہ آج بھی ایسا تھا۔
کافی والے کافی کے دو گلاس پکڑائے۔ ماثیل نے اپنا والٹ نکالنے کی کوشش کی۔
”یہ کافی میری طرف سے۔۔“ منحہ نے فٹافٹ بیگ سے پیسے نکال کر کافی والے کو پیسے دیے اور اپنا گلاس تھام لیا۔۔۔ ڈسپوزیبل گلاس گرم تھا جسے اس نے ٹشو کی مدد سے پکڑا۔۔ وہ دونوں پھر سے چلنے لگی۔ گرم کافی کی حدت ہاتھوں کو سکون پہچانے لگی تھی۔
”خدا کو نہیں مانتے آپ۔۔؟؟“ وہ الجھ گئی تھی۔
”مانتا ہوں تبھی تو لڑائی ہے۔۔ نہیں مانتا ہوتا تو لڑائی کیسی؟؟“ وہ پھیکا سا ہنس دیا اور پھر کافی کا سپ لیا۔
”کبھی لڑائی ختم کرنے کی کوشش نہیں کی؟؟“
وہ دونوں اب برج پر پہنچ چکے تھے۔ نیچے سے گزرتے دریائے ٹیمز کے شور کی آواز صاف سنائی دے رہی۔
”کی تھی۔۔۔پر شاید وہ نہیں کرنا چاہتا۔۔۔“
”ایسا کیوں لگتا ہے آپ کو؟؟“ کتنی الجھی شخصیت تھی اس کی۔ وہ کافی کا سپ لیتے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ کافی سے نکلتی بھاپ منظر کو مزید حسین بنا رہی تھی۔
”کیونکہ وہ مجھے درد دیتا ہے۔ مجھے Suffer کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔۔“
منحہ ہولے سے ہنس دی۔ اس پل اسے ادھم معصوم لگا تھا جو اپنے ہی خدا سے شکواں کناں تھا۔
”پتا ہے ذہین اور انٹلیکچوئل لوگ کبھی درد سے باہر نہیں نکل سکتے۔ انہیں Suffer کرنا پڑتا ہے۔“ وہ اب دریا کو دیکھتے بولی۔ ادھم نے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔۔ وہ اتنی بھی عام لڑکی نہیں تھی جتنی وہ سوچ رہا تھا۔ وہ اب اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا تاکہ وہ اسے اپنی بات کی ایکسپلینشن دے۔
”پتا ہے میری ایک کلاس فیلو تھی سکول میں، وہ کافی عجیب تھی۔ باقیوں سے الگ اور خاموش۔ ٹیچرز کہتے تھے وہ ایک دن کچھ الگ کرے گی۔ اسکول کے بعد ہم الگ ہوگئے۔ میں دوسرے کالج میں چلی گئی اور اس نے بینش کے ساتھ کسی اور کالج میں ایڈمیشن لے لیا۔“ وہ بینش کو نہیں جانتا تھا لیکن سن رہا تھا۔
”ایک سال پہلے میری اس سے ملاقات ہوئی۔ جس ہاسپٹل میں میں جاب کرتی ہوں وہ وہاں آئی۔ میں اسے پہچان نہ پائی۔ وہ بینش کی بیسٹ فرینڈ تھی کالج میں البتہ میں اس سے کبھی زیادہ بات نہیں کر پائی تھی۔ اس کی شخصیت ریزرو سی تھی لیکن وہ مجھے اچھی لگتی تھی۔پھر میں نے سنا وہ ابروڈ چلی گئی پڑھنے۔ اور ایک سال پہلے جب میں نے اسے دیکھا تو میں شاکڈ ہوگئی۔ وہ اپنے اسکن ٹریٹمنٹ کے لیے آئی تھی۔ صرف اسکن ہی نہیں اس کی اوورآل ہیلتھ بہت خراب تھی۔ میں نے اس کی میڈیکل ہسٹری چیک کی تو مجھے یقین نہیں ہوا۔ اس نے اپنی زندگی کے چھ مہینے اسائلم میں گزارے تھے۔ مینٹل اسائلم۔۔۔“ وہ خاموش ہوگئی۔ ادھم اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ اتنی ذہین لڑکی کبھی پاگل بھی ہوگی۔ اور پھر مجھے یقین ہوگیا کہ ذہین اور انٹلیکچوئل لوگوں کو نارمل لوگوں سے زیادہ سہنا پڑتا ہے۔۔۔“ وہ خاموش ہوگئی۔
”تو کیا اس لڑکی نے خدا سے لڑائی نہیں کی؟؟“ وہ اب پوچھ رہا تھا۔ وہ مسکرادی۔
”اگر وہ لڑائی ہی کرتی رہ جاتی تو ٹھیک کیسے ہوتی؟؟ اور Healer کیسے بنتی؟؟“ اس نے چمکتی آنکھوں سے الٹا سوال کیا۔
”اب وہ اسی پاگل خانے میں ایک ہیلر کی جاب کرتی ہے۔ لوگ اسے ہیلر کے نام سے بلاتے ہیں۔۔“
”آہ۔۔۔ پتا نہیں لوگ کیسے کر لیتے ہیں۔۔۔“
وہ بڑبڑایا۔
”اتنا مشکل نہیں ہے۔۔ بس کوشش کرنی چاہیے۔۔۔“ وہ اب مسکرا رہی تھی۔۔ وہ ایک زندہ دل لڑکی تھی۔ جو زندگی کو اس حق سے جی رہی تھی جس سے جینے کا حق تھا۔
”تو۔۔۔ تم نے نہیں بتایا۔۔ تم کیوں سنگل ہو؟؟“
وہ اب بات بدلنا چاہتا تھا ایمان کا خیال پھر سے ابھر آیا تھا۔
”آپ کو کیا لگتا ہے جس لڑکی کا بھائی حاد جبیل ہو اس کو کوئی عام لڑکا پسند آ سکتا ہے؟؟ میرے اسٹینڈرڈ کافی ہائی ہیں مسٹر ماثیل۔۔۔“ وہ پوری دلکشی سے ہنس دی تھی۔
”ہیل۔۔۔نو۔۔۔“ اس نے برا سا منہ بنایا تھا۔۔ ”یہ سراسر ظلم ہے۔۔“ وہ کافی کا سپ لیتے بولا۔
”کس کے ساتھ۔۔۔؟؟“ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”اس لڑکے کے ساتھ جسے تم پسند آؤ گی۔۔“
”وہ میرے اسٹینڈرڈ کا ہوگا تو میں اس کے ساتھ ظلم نہیں کروں گی۔۔“
”محبت اسٹینـڈرڈ نہیں دیکھتی ڈاکٹر صاحبہ۔۔۔ یہ آناً فاناً ہوتی ہے۔۔“
منحہ کا دل ڈوب کر ابھرا اور مسکراہٹ سمٹ گئی۔ اس نے ادھم کے چہرے سے نظریں ہٹالی تھیں۔
”آپ نے کچھ بکس لینی تھیں۔۔؟؟“ وہ اب موضوع بدلنا چاہ رہی تھی۔
”چلو چلتے ہیں۔۔۔“ وہ دونوں آدھا گھنٹہ چلتے رہنے کے بعد ایک بک شاپ پر پہنچے تھے۔۔ آدھے گھنٹے میں کافی باتیں ہوئی تھیں۔۔۔ ادھم نے کچھ کتابیں لیں جیسے ہی وہ دونوں شاپ سے باہر نکلے تو باہر اڑتے روئی کے گالوں کو دیکھ کر منحہ ساکت رہ گئی۔۔ تیز ہوا کے ساتھ برف باری شروع ہوگئی تھی۔
”واؤ۔۔۔“ اس نے گھوم کر روئی کے گالوں کو اپنے ہاتھوں پر محسوس کیا۔۔ وہ اسے دیکھ رہا تھا اور اس کی حرکتوں پر ہنس رہا تھا۔
”لندن کی پہلی اسنو فال۔۔۔۔ آپ کو پتا ہے کہا جاتا ہے پہلی اسنو فال کافی اسپیشل ہوتی ہے۔۔ لوگ اس دن اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔۔“ وہ اب دونوں ہاتھوں کو جوڑے برف کے گالوں کو ان پر گرتا محسوس کر رہی تھی۔
”میں ایسی کتابی باتوں پر یقین کم ہی کرتا ہوں۔۔۔“
منحہ کا ابھرنے والا قہقہہ بےاختیار تھا۔
”پھر بھی کتابیں پڑھتے ہیں اور محبت پر یقین رکھتے ہیں۔امیزنگ“ وہ اپنی ہنسی پر قابو پاتے بولی۔
اس نے فون نکال کر ٹائم دیکھا۔۔
”آئی تھنک اب ہمیں چلنا چاہیے۔۔“ وہ بس اب اپنے کمرے میں جانا چاہتا تھا اس سے زیادہ وقت باہر گزارنا اسے مشکل لگتا تھا۔
”ٹھیک ہے لیکن اس سے پہلے مجھے کچھ کہنا ہے۔۔“ وہ قدم بڑھا کر عین اس کے سامنے آئی۔
”ویسے میں زیادہ دوست نہیں بناتی اور عجیب و غریب لوگوں سے دوستی بھی نہیں کرتی پر پھر بھی۔۔ کیا اب ہم اچھے دوست بن سکتے ہیں۔۔“ اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔۔ ادھم کے لیے یہ غیر متوقع تھا۔
دوست۔۔۔۔ اسے شنایا یاد آئی۔۔۔ شنایا کی دوستی اس کی محبت میں بےوفائی کا سبب بنی تھی۔۔ وہ انکار کر دینا چاہتا تھا لیکن سامنے کھڑی لڑکی کی آنکھوں میں جو جگنو جل اٹھے تھے اسے بجھانے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔
”ٹھیک ہے لیکن دوستی سے آگے کچھ مت سوچنا۔۔۔“
اس نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔۔ ایک سایہ سا منحہ کے چہرے سے ہوتا ہوا گزر گیا۔۔ لیکن وہ مسکرا دی۔
”ڈونٹ وری۔۔۔ ڈاکٹر منحہ کے پاس اس سے زیادہ سوچنے کا وقت ہے بھی نہیں۔۔“ وہ دونوں اب واپسی کی جانب گامزن تھے۔۔۔۔ انکے پیچھے روئی کے گالے سفید قالین بچھاتے جا رہے تھے۔
✿••✿••✿••✿
ڈاکٹر علوی سے اس کی ملاقات ہسپتال میں ہوئی تھی وہ وہاں دورے پر آئے تھے جب اس نے ایک مریضہ کے کمرے میں ایمان کو بولتے سنا۔۔۔ اور اس نے تب ایمان کو اپنے کلینک پر ہفتے میں دو بار سیشن کی آفر کی تھی۔
وہ یہاں آنے لگی۔۔ یہاں تھیراپی کے لیے آنے والی زیادہ تر لڑکیاں تھیں۔۔ ہر عمر کی۔۔۔ سنگل، کمیٹڈ اور شادی شدہ۔۔۔
آج بھی اس کا سیشن تھا۔۔ دو دن ہوگئے تھے اس نے ابھی تک حاد سے کوئی کنٹیکٹ نہیں کیا اور نہ ابھی تک آفر کے بارے میں سوچا تھا۔۔۔ اور نہ ہی حاد نے اسے دوبارہ فون کیا تھا۔۔۔ پہلے اس کے سیشن میں صرف تھیراپی لینے والی لڑکیاں ہی ہوتی تھیں لیکن پھر آہستہ آہستہ اور عورتیں آنے لگیں۔۔ اس کے الفاظ حوصلہ دیتے تھے، مرہم رکھتے تھے اور سوچنے اور عمل کرنے پر مجبور کرتے تھے۔۔
اب ایک اچھی خاصی تعداد وہاں موجود تھی۔ یہاں زیادہ تر موجود خواتین اپنے دماغ میں جلتی جنگ سے تنگ آچکی تھیں۔۔۔ دل و دماغ کی جنگ۔۔۔ صحیح اور غلط کی جنگ۔۔۔
وہ سامنے اسٹیج پر موجود تھی۔۔ اس نے ہال میں نظر دوڑائی تو وہاں ہر طرح کی عوام تھی۔۔۔ امیر غریب، ماڈرن اسٹائلش اور شرعی پردا کرنے والی۔۔ سب بیٹھی تھیں۔ اسے ان لڑکیوں میں سدرہ بھی نظر آئی۔۔ وہ نہ صرف انہیں سنتی تھی بلکہ انہیں لاجک سے ہیل کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ ہال میں ہیٹر کی گرمائش تھی۔۔۔وہاں کوئی مرد نہیں تھا۔۔۔کوئی کیمرہ مین اور کوئی ریکارڈنگ نہیں ہوتی تھی۔۔
وہ اب اسٹیج پر کھڑی تھی۔۔ آسمانی رنگ کی ٹراؤزر نما لوز پینٹ اور گہرے نیلے رنگ کا کھدر کرتا جس میں سفید چھوٹے چھوٹے پھول بنے ہوئے اور پیروں میں اسنیکرز تھے۔۔ جبکہ سر پر ہم رنگ اسکارف تھا اور بال اونچی پونی ٹیل میں قید تھے جب وہ گردن کو ہلاتی تو اکـثر بال اس کے اسکارف سے نکل کنـدھوں کو چھوتے تھے۔۔ سفید رنگ کا لانگ اوور کوٹ جو اس کے سائز سے ڈبل تھا وہ ان کپڑوں میں کافی کمفرٹیبل تھی۔۔ اس کا چہرہ شفاف تھا اور برقی قمقموں میں چمک رہا تھا۔۔ہونٹوں پر لپ اسٹک لگی ہوئی تھی۔ اس کی سیاہ آنکھوں کی چمک اسے حسین بناتی تھی۔
وہ فریش سی ان کے سامنے تھی۔
”کیسا گزرا آپ لوگوں کا پچھلا ہفتہ؟؟“ وہ اب اسٹیج سے اتر کر سیڑھیوں پر بیٹھ گئی تھی اس کے سامنے دھری کرسیوں پر اس کی جیسی ہی لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ وہ اسٹیج پر رکھے ڈائز سے ایک چھوٹی سی لکڑی کی ٹوکری اٹھا لائی تھی جس میں کچھ پرچیاں تھیں۔۔ وہ لڑکیاں جو سب کے سامنے اپنے مسائل ڈسکس نہیں کر سکتی تھیں انہوں نے لکھ دیا تھا۔ اس نے پہلی پرچی کو اٹھایا اور پڑھنا شروع کیا۔
”پچھلا ہفتہ ٹھیک گزرا۔۔ میں نے پلانز بنائے لیکن میں عمل نہیں کر پائی۔۔ میرا دل نہیں کرتا کچھ کرنے کو۔۔۔ کمرے سے باہر نکلنے کو۔۔ بہت کچھ سوچتی ہوں کہ سب کروں گی لیکن نہیں ہوتا۔۔ سوشل میڈیا دیکھتی ہوں تاکہ لوگوں سے انسپائر ہو سکوں پر الٹا سب کچھ برا لگنے لگ جاتا ہے اپنا آپ ہیچ لگتا ہے۔۔۔سدرہ۔۔“
وہ ہولے سے مسکرادی۔۔ یہ مسکراہٹ طنزیہ تھی۔
”تم اب بیمار نہیں ہو سدرہ۔۔۔ یہ سستی ہے۔۔۔ اپنے Failures کو نفسیاتی بیماری کا نام دے کر خود کو دلاسہ دینا بند کردو۔۔“
پھر اس اس پرچی کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور ٹوکری میں پھینک دیے۔۔۔۔ اس کا یہ انداز کمال تھا۔۔۔
”آخر کب تک ہم اپنے ناکامیوں کو نفسیاتی الجھنوں کے سر ڈالتے رہیں گے؟؟ ہاں۔۔۔؟؟؟ کس سے بھاگ رہے ہیں ہم۔۔؟؟ حقیقت کا سامنا کیوں نہیں کرتے۔۔۔“ اس کی آواز ناچاہتے ہوئے بھی بلند ہوئی تھی۔
”کبھی آئینے میں خود کو غور سے دیکھا ہے؟؟؟ خود کا حسن دیکھنے کے لیے نہیں۔۔۔ اسکن کہاں سے خراب ہے۔۔ رنگ کہاں سے پھیکا ہے۔۔ میک اپ کہاں سے سیٹ نہیں ہے لپ اسٹک کا کونسا شیڈ سوٹ کرے گا۔۔؟؟ یہ سب دیکھنے کے لیے۔۔ کبھی خود کو دیکھنے کے لیے آئینے دیکھا ہے؟؟ اگر نہیں تو پھر آج دیکھیں۔۔ لازمی دیکھیں۔۔۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہوں چند لمحے۔۔۔ آئینے میں نظر آتے عکس کی آنکھوں میں دیکھیں۔۔ دیکھتے رہیں۔۔ ایک دو دن چار منٹ۔۔۔۔ اگر تم خود کو دیکھنا چاہو گے۔۔۔ اپنے اندر کو۔۔۔ تم خوفزدہ ہوجاؤ گے۔۔۔ وہ آئینہ صرف حسن نہیں دکھاتا۔۔ ہماری روح پر پڑے داغ دکھاتا ہے۔۔۔ ہمارے اندر کے اس ڈیمن کو دکھاتا ہے جو ہم پر ہنس رہا ہوتا ہے جب ہم اپنے Failures کو چھپانے کی خاطر خود کو ذہنی بیمار سمجھ لیتے ہیں۔۔۔۔کیونکہ وہ ایسا ہی چاہتا ہے۔۔“ اس نے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور دونوں ہاتھوں کی پہلی دو انگلیوں کو کھولا اور بند کیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور واپس اسٹیج پر گئی وہاں اس نے ڈائز پر ٹوکری رکھی سامنے دیکھا۔۔
”پاکستان میں ذہنی بیماری کے اتنے بھی کیسز نہیں ہیں جتنے ہم نے بنا لیے ہیں۔۔ ہم خود سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم بیمار ہیں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ ہاں ہم بیمار ہیں۔۔۔اپنی سوچ کے۔۔۔ ہم کاہل ہیں۔۔۔کاہل۔۔۔“
اس نے دوسری پرچی اٹھائی۔
”کیا آپ حاد جبیل کو جانتی ہیں۔۔۔؟؟“ ایک لڑکی نے پوچھا تھا۔۔۔ ایمان نے اسے دیکھا۔
”وہ کہتے ہیں آج کی نوجوان نسل روح کی بیمار ہے، مریض ہے۔۔ ایسا کیوں ہے۔۔۔؟؟“
”ہم جو نہیں ہوتے وہ بننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری روح بےچین بےتاب ہوجاتی ہے۔۔۔وہ تڑخنے تڑپنے لگتی ہے۔۔ بار بار احساس دلاتی ہے۔۔ کہتی ہے کہ یہ سب نہ کرو۔۔ اور ہم نہیں سنتے۔۔ ہم وہی کام کرتے ہیں وہی گناہ کرتے ہیں۔۔ پریٹینڈ کرتے ہیں کہ یہ بہترین ہے تب ہم اپنی روح کو بیمار کرچکے ہوتے ہیں اور پھر ہم کہتے ہیں یہ بےچینیاں کیسی؟؟ مجھے سکون کیوں نہیں ہے؟؟ جس کام کے لیے روح بنی ہی نہیں وہ بار بار کریں گے تو سکون کہاں سے آئے گا؟؟“
اب وہ دوسری پرچی کھول چکی تھی۔
”میری عمر پچیس سال ہے۔۔ میرا شوہر جانے مانے سیاستدان کا بیٹا ہے۔۔ میری شادی دھوم دھام سے ہوئی تھی۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے میرا ایک چار سال کا بیٹا ہے لیکن میرا شوہر برے کاموں میں ملوث ہے۔۔۔وہ شراب پیتا ہے۔۔ اور۔۔۔اور۔۔۔ زنا بھی کرتا ہے اور جب وہ میرے قریب آتا ہے تو مجھے گھن آتی ہے اس سے۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں۔۔۔وہ مجھے کسی کزن تک سے بات نہیں کرنے دیتا۔۔۔ شک کرتا ہے۔۔ میں ایک زانی کے ساتھ کیسے رہوں۔۔؟؟ کیسے خود کو اس دلدل سے نکالوں۔۔۔ میری ذہنی حالت خراب ہوچکی ہے۔ ۔مجھے میرا شوہر پاگل کہتا ہے۔۔۔میرے سسرال والے مجھ سے ناخوش ہیں اب۔۔۔ میں خود کو ریلیکس کرنے کے لیے تھیراپی لیتی ہوں۔۔۔ دوائیاں لیتی ہوں لیکن فرق نہیں پڑ رہا۔۔مجھے کیا کرنا چاہیے۔۔؟؟؟“ فضاء
اس نے پرچی واپس رکھ دی۔۔۔ایک گہرا سانس لیا اور پھر خاموشی سے اپنے جوتوں کو دیکھنے لگی۔۔۔ وہ اپنے داہنے شوز کو اسٹیج پر رگڑ رہی تھی۔ شاید اسے کچھ یاد آگیا تھا۔
”اس میں غلطی ہماری ہے۔۔۔ہم عورتوں کی۔۔۔ یہ ہمارا زوال ہے۔۔۔ ہماری جاہلیت ہے۔۔۔ ہمیں لگتا ہے محبت سب کچھ ہے۔ حسن مال و دولت سب کچھ ہے۔۔ اور پھر مردوں کے معاشرے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔۔۔؟؟ کیوں نہیں پوچھتے ہم جب کوئی لڑکا ہم سے شادی کرنا چاہتا ہے تو کیوں نہیں پوچھتے اس سے کہ کیوں کر رہے ہو مجھ سے نکاح کیا دیکھا ہے مجھ میں؟؟“
اس کا دل سسک اٹھا تھا۔۔ اس نے بھی اپنی ماں کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے اس نے اپنی ماں کے پسند کے لڑکے سے شادی کی تھی۔۔۔ نتیجہ کیا نکلا تھا وہ جانتی تھی۔۔
پوائنٹ یہ نہیں ہے کہ شادی والدین کی مرضی سے ہو یا اپنی مرضی سے؟؟ پوائنٹ یہ ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس مرد سے یہ سوال کیوں نہیں کرتے ہم کہ مجھ سے نکاح کیوں کر رہے ہو؟؟“
حدیث مبارکہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
”عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے، اس کے مال، حسب نسب، حسن، اور دین کی وجہ سے اور پھر فرمایا کہ دین والی کو ترجیح دو۔۔۔“
”ہمارا زوال ہے کہ ہم عورتیں تو کیا ہمارے مرد بھی نکاح کے وقت یہ نہیں دیکھتے، دین والی کو ترجیح نہیں دیتے۔۔ آج کل کی سوکالڈ محبت جو چند مہینے سے زیادہ نہیں چلتی وہ ہمیں اندھا کر دیتی ہے اور چند مہینے بعد ہمیں اپنے پارٹنر کی ساری برائیاں پتا چل جاتی ہیں۔۔ اور پھر سب ختم ہوجاتا ہے۔۔“
وہ اب اسٹیج کے درمیان میں آکر کھڑی ہوگئی۔
”جب تک ہم عورتیں دین والیاں نہیں ہوں گی تو کیسے اپنے گھر کو سنبھال پائیں گی؟ کیسے بیٹوں کو سکھا پائیں گی کہ مسلمان مرد کیسا ہوتا ہے۔۔ جب تک ہمیں خود پتا نہیں ہوگا تب تک کچھ نہیں ہوگا۔۔۔اور پھر یہ چلتا رہے گا۔۔ ہم ایک جیسے مرد پیدا کرتی رہیں گی۔۔اور پھر ایک جانور بننے کے لیے معاشرے میں چھوڑ دیں گی۔۔ ماں بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔۔ پہلے تو ہمیں ہی انہیں سکھانا ہے۔۔۔ ماحول بعد میں آتا ہے پھر کوئی بھٹک جائے تو بعد کی بات ہے پہلے ہمیں اپنا تو فرض پورا کرنا ہے نا۔۔۔؟؟“
اس نے سوالیہ نظروں سے سب کو دیکھا۔
”پتا ہے کوئی کتنا نیک ہے کتنا بد ہے یہ ہم طے نہیں کر سکتے۔۔ یہ اللہ اور اس کا معاملہ ہے اگر کوئی شادی سے پہلے گناہوں میں ملوث تھا اور پھر توبہ کرلے تو اسے ضرور اپناؤ لیکن جو باز نہ آئے اللہ کے احکام کو ٹالتا رہے۔۔۔ جو اس سے نہ ڈرے پھر بھی آپ اس سے شادی کریں صرف اس لیے کہ آپ کو اس شخص سے محبت ہے تو یہ آپ کی غلطی ہے۔۔۔جو اپنے اللہ سے نہیں ڈرتا اس کے نزدیک آپ کی کیا اوقات؟؟؟“
”لیکن کچھ لوگ واقعی سدھر جاتے ہیں۔۔ وہ سب چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔“ کسی نے کہا تھا۔
”میں ان کی بات نہیں کر رہی۔۔۔ میں ان لوگوں کی بات کر رہی ہوں جنہیں اپنے گناہوں پر شرمندگی تک نہیں ہوتی۔۔ جو ہمیشہ ایسے ہی رہتے ہیں اور یہ سب کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔۔۔ تو مس فضاء آپ نے پوچھا تھا اپنے شوہر سے کہ وہ آپ سے شادی کیوں کر رہے ہیں۔۔۔؟؟
چلیں چھوڑیں کیا آپ جانتی تھیں کہ وہ پہلے بھی ایسے تھے۔۔۔شراب اور زنا کرنے والے؟؟ اگر نہیں تو آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے۔۔اگر آپ کو اب پتا چلا ہے تو اب آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ ایکشن لیں۔۔ انہیں سمجھائیں۔۔ اگر نہیں سمجھتے تو پھر آپ پر ڈیپنڈ کرتا ہے۔۔۔ شوہر کی ہر بات ماننے کا حکم ہے سوائے اس کے جو اللہ کی نافرمانی میں آئے۔۔۔اسی لیے اللہ نے اسلام میں طلاق کو حلال قرار دیا ہے۔۔۔ باقی یہ آپ کا اور آپ کے اللہ کا معاملہ ہے آپ اسے جوابدہ ہیں۔۔۔ آپ وہ کریں جو حکم دیا گیا ہے۔۔“
بات کے آخر تک وہ فیصلہ کرچکی تھی کہ اسے سلفائٹس اکیـڈمی کو جوائن کرنا تھا۔۔۔ نوجوان نسل۔۔۔جو ہمارا سرمایا ہیں۔۔۔شروعات انہی سے کرنی تھی۔۔۔ اور حاد جبیل یہ بہت پہلے سمجھ گیا تھا۔
✿••✿••✿••✿
رات کے ساڑھے نو بجے کا وقت تھا وہ آئینے کے سامنے کھڑی چہرے پر موئسچرائز لگا رہی تھی۔۔ بالوں کو ہیئربینڈ لگا کر اچھے سے فولڈ کیا گیا تھا تاکہ وہ اسکن کیئر کر سکے جب اچانک ابھرنے والی حمیزہ کی آواز پر وہ باہر کی جانب بھاگی۔۔۔
”آپی۔۔۔ آپی جلدی آئیں۔۔۔“ وہ اسے زور زور سے پکارہی تھی۔
وہ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی اپنا ہوم ورک کر رہی تھی اور دوپونیاں ڈالی ہوئی تھیں۔۔۔ ایمان کو دیکھتے اس نے جلدی سے ٹی وی کا والیوم بڑھایا۔۔۔۔اسکرین پر کوئی ریکارڈیڈ شو چل رہا تھا۔۔۔
اسکرین پر وہ نظر آرہا تھا۔۔۔عبدل۔۔۔ کسی بینڈ کے ساتھ اس کی collaboration تھی۔۔۔۔
سیاہ سلک کی شرٹ پہنے جس کے بٹن آگے سے کھلے ہوئے تھے وہ اسکرین پر نظر آرہا تھا۔۔ کیمرہ مین نے اسے فوکس کیا ہوا تھا۔۔۔ اس کے کف فولڈیڈ تھے۔۔۔ اس کے بازوؤں کے ٹیٹو نمایاں تھے اور ہاتھ میں مائیک پکڑے اس کے ہاتھوں کی رگیں ابھری ہوئی تھیں۔۔ بال پونی میں قید تھے جبکہ ایک کان اور ہونٹ کے کنارے پر موتی چمک رہا تھا۔۔
Let it let it let it be gone
Hold on don't go..
وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
Touchin' and Teasin' me, tellin' me no
but this time I need to feel you...
وہ ہاتھ کو گھماتے اسٹیج پر آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ اس کا انداز بالکل راک اسٹار والا تھا۔ بینڈ کے باقی لوگ بھی تھے پر اس سے نظریں نہیں ہٹ رہی تھیں۔
Ride it, we are alone
Ride it, Just lose control...
آنکھوں کے ساتھ ساتھ اب اس کا منہ بھی حیرت سے کھل گیا تھا۔۔۔۔ وہ کب اتنا بولڈ ہوا تھا۔۔۔؟؟؟
(Ride it, ride it) Come touch my soul
(Ride it, ride it) Let me feel you...
اس کی آنکھوں کو کیپچر کیا گیا۔۔۔گرے آنکھیں۔۔۔ایمان کو لگا جیسے وہ اسے ہی دیکھ رہا ہو۔۔۔ اس کے اندر تک سنسناہٹ پھیل گئی۔ وہ گاتا ہوا واپس چلا گیا۔۔۔۔
سونگ ختم ہوا اور بریک آگئی۔۔۔
”او مائے گاڈ۔۔۔او مائے گاڈ۔۔۔ کوئی پنکھا چلا دو یار۔۔۔افف گرمی۔۔“
حمیزہ نے اپنی نوٹ بک اٹھا کر خود کو ہوا جھولی۔ جبکہ ایمان تو ابھی تک صدمے کی سی حالت میں کھڑی تھی۔
”یہ عبدل تھا نا۔۔ آپی۔۔۔“ حمیزہ نے آکر اسے جھنجھوڑا۔
”یہ آپ کے ساتھ تھا یونیورسٹی میں۔۔۔؟؟او مائے گاڈ کیسے ہینڈل کیا آپ نے اس بندے کی ہاٹ نیس کو۔۔۔؟؟“
وہ دائیں بائیں چکر لگانے لگی۔۔اس کی دونوں پونیاں ہل رہی تھیں۔۔ جب ایمان ہونق بنی اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ آج کی جنریشن کی ٹین ایج لڑکی تھی جن کی زبان میں کسی وجیہہ مرد کی تعریف ایسے ہی جاتی تھی۔
”ماما ادھر آئیں آپ کو کچھ دکھاتی ہوں۔۔“ اس نے سلمی بیگم کو پکارہ۔۔
”یہ تو یوٹیوب پر بھی ہوگا۔۔“ وہ اب فون میں سرچ کرنے لگی تھی جبکہ ایمان نے جھپٹ کر اس سے فون چھینا۔

5 Comments

  1. A very wonderful episode

    ReplyDelete
  2. Awesome episode but Kya ye sulphite academy such main hain?

    ReplyDelete
  3. Iski episode kitny din baad aati hai?

    ReplyDelete
  4. Almost Within one or two weeks

    ReplyDelete
  5. Wonderful novel, such a thriller book

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post