Maseel (مـــاثـیــــــل ) Episode 50 by Noor Rajput

Maseel Episode 50 by noor rajjput

 

مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_50
نور_راجپوت

دھند میں پتھریلی روش پر چلنا جبکہ چاروں جانب نیچر ہی نیچر ہو اس کا ہمیشہ سے خواب تھا۔۔۔
وہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں قدم بڑھا رہی تھی۔۔۔ اچانک ہی اس نے خود کو اولڈ ٹاؤن ویلنسیا کی گلیوں میں پایا تھا۔۔۔ وہ اکثر برج سے اکیلے گزرتی تھی۔۔۔
اچانک حمیزہ کی چلانے کی آواز پر وہ پلٹی اور پھر جیسے ساکت رہ گئی۔۔۔ اسے یوں لگا جیسے وہ کسی اور دنیا میں آگئی ہو۔۔۔
اس سے کچھ فاصلے پر ایک بڑا سا درخت تھا جس کی شاخیں کافی گہری تھیں جو دور دور تک پھیلی تھیں۔۔۔درخت کے نیچے لکڑی کا گول بینچ بنا تھا اور بینچ کے چاروں جانب لوہے کی باڑ تھی۔۔۔ اور ایک چھوٹا دو فٹ کا داخلی دروازہ تھا جسے کھول کر درخت کے نیچے بنے سیٹنگ ایریا میں آرام سے بیٹھا جا سکتا تھا۔۔۔
حمیزہ اس درخت کے گرد بھاگ رہی تھی اور یاہو کے نعرے لگا رہی تھی۔۔ اس کی ہنسی اکیڈمی کے گراؤنڈ میں گونج رہی تھی۔۔۔ وہ تقریباً اکیڈمی کی عمارت کے قریب پہنچ چکی تھی۔۔
عمارت پانچ منزلا تھی اور باقی سارا گراؤنڈ تھا جو کسی جنگل سے کم نہیں لگتا تھا۔۔۔
عمارت کے اندر کیا کچھ تھا وہ اندر داخل ہوکر ہی پتا چل سکتا تھا۔۔ باہر دیکھنے سے لگتا تھا جیسے کوئی Castle جو اکیلا کھڑا ہو۔۔۔ خاموش اور پراسرار سا۔۔۔۔
عمارت کی ہر منزل پر بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں اور عمارت کا رنگ گرے اور براؤن تھا۔۔۔
ایسے لگتا تھا جیسے سحر پھونک دیا گیا ہو۔۔۔ درختوں سے پتے گرے ہوئے تھے۔۔۔ سوکھے پتے جو اوس پڑنے کے باعث گیلے ہوچکے تھے اور ایسی سڑکوں پر چلنا اس کا فیورٹ مشغلہ تھا۔۔۔
وہ جانے کتنی دیر یونہی کھڑی تھی۔۔۔اوس کی بوندوں نے اس کے چہرے کو بھیگا دیا تھا۔۔
اس کی پلکوں پر، اس کے ہونٹوں پر اور اس کے اسکارف پر وہ ننھی بوندیں موتیوں کی مانند چمک رہی تھیں۔
وہ کتنی دیر کھڑی تھی۔۔۔اسے احساس ہی نہیں تھا اس سے کچھ فاصلے پر حاد کھڑا تھا۔۔۔ وہ اسے یونہی سحرزدہ سا دیکھ رہا تھا جیسے وہ سامنے کے منظر کو۔۔۔۔
وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔۔۔خاکستری ٹراؤزر پینٹ پر سفید شرٹ پہنے جس کے کف کہنیوں سے ذرا نیچے تک فولڈ تھے۔۔۔
وہ اس کا استقبال کرنا چاہتا تھا اور جس تیزی سے وہ بھاگتے ہوئے یہاں پہنچا تھا اسے اپنے دل کی دھڑکن کانوں تک سنائی دے رہی تھی۔۔۔
اس کے بال جو ایک ترتیب سے سیٹ تھے ان پر اوس کی ننھی بوندیں پڑی تھیں۔۔۔اس کا چشمہ دھندلا گیا تھا۔۔
شاید ہی اس نے کبھی کسی چیز یا کسی انسان کو ٹھہر کر یوں فرصت سے دیکھا جیسے وہ اس وقت ایمان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
اچانک ابھرنے والے احساس پر ایمان چونک کر اس سحر سے نکلی اور جیسے ہی اس نے دائیں جانب وہ سٹپٹا گیا۔۔
”او ہائے۔۔۔السلام علیکم۔۔۔“ اس نے ایک دم اپنا چشمہ اتارا تھا۔۔۔ ایمان اسے اپنے قریب کھڑے دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ وہ کچھ بول ہی نہ پائی۔۔۔ اس کے سامنے حاد جبیل کھڑا تھا جو اب جان بوجھ کر اپنے چشمے کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا تاکہ اس ٹرانس سے نکل سکے۔۔۔وہ تو سلام کا جواب بھی نہ دے پائی۔۔۔
یہ وہی شخص تھا جسے بھیگنا نہیں پسند تھا جو بارش میں برساتی پہن کر گھومتا تھا۔۔۔جو ہیٹ سے اپنے بالوں کو کور کرتا تھا۔۔۔
وہ اب اس کے قریب کھڑا تھا۔۔
”میں آپ کو ویلکم کرنے آیا تھا۔۔۔“ وہ اب اس کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔ وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔ بےیقینی کی سی کیفیت تھی۔۔۔کیا واقعی وہ وہاں تھی؟ اس جگہ جہاں وہ ہمیشہ سے ہونا چاہتی تھی۔۔۔ اس کے قریب وہ شخص کھڑا تھا جسے اس نے سالوں اپنے آس پاس محسوس کیا تھا۔۔۔۔۔
وہی شخص جس سے تصور میں وہ بہت ساری باتیں کر لیتی تھی۔۔۔۔
”امید ہے آپ کو آنے میں کوئی مشکل نہیں پیش آئی ہوگی۔۔۔“ اس نے چشمے سمیت اپنے ہاتھوں کو دوبارہ پینٹ کی جیبوں میں ڈال لیا۔۔۔ وہ اس کی جانب متوجہ تھا پوری حسیات سے۔۔۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔۔۔ایک پیشہ ورانہ مسکراہٹ لیکن اس کی آنکھوں میں ایک الوہی سی چمک تھی۔۔۔
کب اس نے کسی کی آنکھوں کو اتنے غور سے دیکھا تھا جتنا وہ اس کی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
وہ بالکل اجنبیوں کی طرح مل رہے تھے۔۔۔وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے لیکن ان کا انٹریکشن ہمیشہ ہی کم ہوا تھا۔۔۔
دو ایسے اجنبی جو سالوں تک ایک دوسرے سے جڑے رہے ہوں۔۔۔
حاد کی نظرین اس کے اسکارف سے ہوتیں اب اس کی بائیں آنکھ کے بالکل کونے پر بنے اس سیاہ تل پر ٹھہر گئی تھیں۔۔۔
اس کی آنکھیں سیاہ تھیں۔۔۔ گہری سیاہ اور پلکیں لمبی تھیں اس وقت وہ اپنی پوری آنکھیں کھولے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”آپ ٹھیک ہیں۔۔۔؟؟“ وہ اسے یوں گم سم کھڑے دیکھ کر بولا تو چونک سی گئی۔۔۔۔ یہ احساس بہت عجیب سا تھا۔۔۔
جو سالوں پہلے یونیورسٹی کے پتھریلے بینچ پر بیٹھے آرجے کو ہوا تھا جب اس نے بارش میں حانم کی ٹھوڑی پر وہ عجیب سی چمک دیکھی تھی۔۔۔اس کی گلابی آنکھیں۔۔۔۔وہ رخ موڑ گیا تھا۔۔۔ جب اس نے پوچھا تھا ”روحوں کا جہان کونسا ہے؟؟“
یہ وہی احساس تھا۔۔۔ روح نے روح کو پہچان لیا تھا۔۔۔
اور اب نظریں ہٹانا مشکل ہوگیا تھا۔۔ وہ رخ موڑ کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔۔۔وہ اس کے بائیں جانب کھڑا تھا۔۔
دونوں اب حمیزہ کو دیکھ رہے تھے جو اس طلسماتی درخت کی تصویریں بنا رہی تھی۔
”آپ کی بہن ہے؟؟“ وہ اب پوچھ رہا تھا۔
”جی۔۔۔“
”میزو بس کرو آجاؤ اب ورنہ ٹھنڈ لگ جائے گی۔۔۔“ اس نے اونچی آواز میں پکارہ۔۔
”میزو؟؟ میزون دی آرٹسٹ۔۔؟؟ کیا یہ وہی ہے۔۔؟؟“
وہ اس سے ایسے پوچھ رہا تھا جیسے کچھ جانتا ہی نہ ہو۔
”جج۔۔جی۔۔۔“ وہ ہولے سے مسکرائی۔
”میں نے نام سے پہچان لیا۔۔۔ انوکھا نام ہے۔۔۔ اچھی اسکیچنگ کرتی ہے۔۔۔“
”لیکن مسٹر جبیل آپ تو انہیں چہرے سے بھی پہچانتے ہیں۔۔۔“ ایئربڈ سے اے آئی کی آواز ابھری اور اس نے اپنے لب آپس میں پیوست کیے۔
”تم خاموش رہو۔۔۔“ اس نے ہولے سے سرگوشی کی۔
” سوری مسٹر جبیل۔۔۔“
”یہ مجھے مروائے گی۔۔۔“ وہ زیرلب بڑبڑایا اور پھر ایئربڈ اتار کر جیب میں ڈال کیا۔
”آپ کو یہ آئیڈیا کہاں سے آیا۔۔۔؟؟ اس طرح کی دنیا بنانے کا۔۔۔“ وہ اب تک آس پاس کے نظاروں میں کھوئی تھی۔۔۔
حاد نے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔۔۔
اب وہ اسے کیسے بتاتا کہ بڑی وجہ وہی تھی۔۔۔ اسے نیچر پسند تھی۔۔۔اسے نیچر ہیل کرتی تھی۔۔اس نے اپنے آفس کو نیچر سے ریلیٹ کر رکھا تھا تو کیا وہ اس کے لیے اتنا نہیں کر سکتا تھا؟؟
اسء جیسے سب پتا تھا۔۔۔جیسے پہلے سے طے تھا کہ وہ یہاں آئے گی۔۔۔ جیسے یہ جگہ اسی کے لیے ہو؟؟
”آپ کو اچھا لگا؟؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”ہاں۔۔۔اچھا ہے۔۔۔ بہت خاموش۔۔۔ بالکل۔۔۔“
”بالکل آپ کی طرح۔۔۔“ وہ اب ناک کی سیدھ میں دیکھ رہا تھا۔ ایمان نے ذرا سا رخ موڑ کر اسے دیکھا۔۔۔۔اور پھر وہ بھی سامنے دیکھنے لگی۔
وہ اس پر غصہ کیوں نہیں تھی؟؟ اس سے نفرت کیوں محسوس نہیں ہورہی تھی؟؟؟ وجہ وہ جانتی تھی۔۔۔اگر ماضی میں وہ سب نہ ہوا ہوتا تو آج وہ Healer نہ ہوتی۔۔۔۔اس نے ہر دکھ درد اور زخم کو قبول کیا تھا۔۔۔
زخم۔۔۔ہمارے زخم وہ جگہ ہے جہاں سے روشنی ہمارے اندر داخل ہوتی ہے۔۔ اور اس نے اپنے زخموں سے روشنی کو اپنے اندر آنے دیا تھا۔۔۔اور اب وہ روشن تھی۔۔۔۔ وہ ہیلر تھی۔۔۔ اور یہ روشنی اس کے پہلو میں کھڑا وہ گرے آنکھوں اور سفید شرٹ والا شخص بخوبی دیکھ سکتا تھا۔
”آئی وش کہ میں اس جگہ پر ہمیشہ رہ سکوں۔۔۔“
”ایک سلفائیٹ کو سلفائیٹس اکیڈمی کے علاوہ کہاں رہ سکتا ہے؟؟“
وہ بولا تو ایمان بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔۔ لب پھڑپھڑاگئے۔۔۔وہ کچھ بول نہ پائی۔
”چلیں۔۔۔۔؟؟“ اس نے خاموشی کو توڑا تو ایمان نے اثبات میں سرہلایا۔۔۔ وہ دونوں اب پلٹ کر اندر جا رہے تھے۔
وہ ایک قدم آگے تھی اور وہ دانستہ پیچھے چل رہا تھا۔۔۔
حمیزہ نے انہیں اندر جاتے دیکھا اور پھر گہرے ہوتے اندھیرے کو۔۔۔وہ اپنا بیگ اٹھاتی ان کی جانب بھاگی۔
✿••✿••✿••✿
وہ ننگے پاؤں ریسٹ ہاؤس نے لان میں چل رہی تھی۔۔۔ٹھنڈی اور گیلی گھاس اس کے پاؤں کو فرحت بخش رہی تھی۔۔۔ تقریباً اسے دوسال ہونے والے تھے وہ جب سب سے یہاں تھی۔۔۔ وہ دن جب اسے اغواء کیا گیا تھا اس دن سے لے کر آج تک وہ قرآن اور سائنس اکیڈمی کے اس ریسٹ ایریا میں رہ رہی تھی جہاں حاد اسے چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔
فجر کا وقت گزر چکا تھا اور مشرق سے سورج کی ذرد روشنی آہستہ آہستہ طلوع ہورہی تھی۔۔۔وہ سادہ سے سوٹ میں تھی۔۔۔بال شانوں پر بکھرے تھے اور ایک گرم شال کو اس نے اپنے ارد گرد لپیٹ رکھا تھا اس کا ناک سرخ ہوچکا تھا۔۔۔
کوئی اسے دیکھتا تو ہرگز نہ پہچانتا تھا کہ وہ ہیزل دی سپر اسٹار تھی جس نے ہالی ووڈ میں ڈیبیوٹ کیا تھا اور آج وہ ایک گمناہی کی زندگی گزار رہی تھی۔۔۔وہ خود کو کھوج رہی تھی۔۔
وہ اسی اکیڈمی میں جاب کرتی تھی۔۔۔کسی ٹیچر یا اسکالر کی نہیں بلکہ عام سی۔۔۔ ایـڈمنسٹریشن کے کام دیکھتی تھی۔۔۔ اس نے یہاں آکر بہت کچھ سیکھا تھا اور یہیں اس سے عبدل آخری بار ملنے آیا تھا دوبارہ کبھی نہیں آیا۔۔۔
وہ اب اپنے محل کے ٹھنڈے فرش پر لیٹ کو آسمان کو نہیں تکتی تھی البتہ اب وہ ایسے صبح صبح اٹھ کر ننگے پاؤں گھومتی تھی۔۔۔۔اسے ٹھنـڈک آج بھی پسند تھی۔۔
اس اکیڈمی کو مرتضے نے سنبھال رکھا تھا وہ کبھی ریسٹ ہاؤس کے اس ایریا میں نہیں آیا تھا جہاں وہ رہتی تھی۔۔۔اس کی تنخواہ گزارے لائق تھی۔۔ وہ اب نہ برانڈڈ کپڑے پہنتی تھی اور نہ اس کا لائف اسٹائل پہلے جیسا تھا۔۔۔وہ محفوظ تھی اس کے لیے یہی کافی تھا۔۔۔۔
”مجھے لگا تھا میں قبر میں ہوں۔۔“
”قبر کے مناظر اس سے بھی خوفناک ہوتےہیں۔۔۔“
وہ آج تک حاد کا یہ جملہ نہیں بھول پائی تھی۔۔۔اور وہ حادثہ نہ ہوتا تو شاید اس کے اندر خوف بھی پیدا نہ ہوتا۔۔۔۔
اس کا گھرانہ مذہبی تھا۔۔ کائنات اس کی اکلوتی کزن شرعی پردہ کرتی تھی اور وہ اپنی ضد میں ماڈل بنی تھی۔
اسے اپنے فیملی کے سبھی لوگوں سے نفرت تھی اور سب سے زیادہ اپنے باپ سے۔۔۔ اس سے بدلا لینے کے لیے وہ ہر حد تک گئی تھی۔۔۔سب بھول گئی تھی۔۔۔۔یہاں تک کہ خدا کو بھی۔۔۔
لیکن خدا کسی کو نہیں بھولتا۔۔۔ وہ خاموشی سے سب دیکھتا ہے، سنتا ہے وہ سب جانتا ہے اور پھر صحیح وقت پر انسان کو اشارہ دیتا ہے کہ بس۔۔۔۔۔ بس اب پلٹ آ۔۔۔۔
”قبر کے مناظر اس سے بھی خوفناک ہوتے ہیں۔۔۔“
”کن کے لیے؟؟ کیا سب کے لیے۔۔۔؟؟“ وہ اکثر سوچتی تھی۔۔۔وہ اکیڈمی میں ہونے والے سیشنز لیتی تھی۔۔۔وہ اب خدا سے ڈرنے لگی تھی۔۔۔وہ اسے محسوس کرنے لگی تھی۔۔۔اپنے چاروں جانب۔۔۔ وہ اب اس سے باتیں کرتی تھیں۔۔
اس نے جس قدر دھوم مچائی تھی اب وہ اسی قدر خاموشی سے جی رہی تھی۔۔۔
سورج کی روشنی جب زیادہ ہوئی تو اکیڈمی کی عمارت کی جانب چل پڑی۔۔۔ راہداری میں ایک بڑا نوٹس بورڈ تھا جہاں کچھ اسٹوڈنٹس کی لسٹ لگی تھی جنہوں نے اپنے کورسز پورے کیے تھے۔۔۔
وہ اکـثر اس لسٹ کو چیک کرتی تھی اس پر لکھے دو نام ایسے تھے جنہیں وہ اپنی انگلی کی پوروں سے چھو کر محسوس کرتی تھی۔۔۔
سرفہرست نام تھا کائنات ملک۔۔۔۔
ہیزل کی آنکھوں میں اسے یاد کرتے اکثر پانی آجاتا تھا۔۔۔ وہ اس کی واحد سہیلی تھی جس نے اس کا ساتھ نبھایا تھا۔ وہ یہاں سے آتی تھی۔۔۔ یہاں کلاسز لیتی رہی تھی۔۔۔ یہ احساس خوش کن تھا۔۔۔
ناجانے وہ اب کہاں ہوگی۔۔۔؟؟
اور پھر کچھ نیچے اس کا نام تھا۔۔۔ام ایمان۔۔۔۔
جو کالم نگار تھی۔۔۔ جو عبدل کی ایمانے تھی۔
اس نے ایمان کے ساتھ بہت کم وقت گزارا تھا لیکن وہ اسے عزیز تھی کیونکہ وہ عبدل کو عزیز تھی۔
”آپ روز یہاں آتی ہیں۔۔۔“ وہ اپنے دھیان میں تھی جب عقب سے ابھرنے والی آواز پر پلٹ کر دیکھا۔۔ مرتضے اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔ یہاں کا سارا سسٹم اسی نے سنبھال رکھا تھا۔
”اچھا لگتا ہے۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
”اسی ویرانی میں آپ کو کیا اچھا لگتا ہے؟؟“ وہ حیران ہوا۔۔ وہ ہیزل کو کافی حد تک جان گیا تھا۔۔ اسے وہ لڑکی ہمیشہ حیران ہی کرتی تھی۔۔ اس کی کہانی عجیب تھی جس نے اپنی مرضی سے غلط راستے کو چنا۔۔ اسے کوئی روک نہیں پایا۔۔اور پھر ایک جھٹکے میں سب چھوڑ دیا۔۔۔
قائم رہنا سب سے مشکل کام ہے خاص کر تب جب آپ نے ایک لگژری لائف گزاری ہو۔۔۔ لیکن وہ قائم رہی تھی۔۔
وہ جس کے لاکھوں کڑوڑوں میں فین تھے مرتضے کو یہ جان کر حیرانی ہوئی تھی کہ اس کا کوئی دوست نہیں تھا۔۔۔ کوئی اس سے آج تک ملنے نہیں آتا تھا۔۔
کسی سے وہ ملنے نہیں گئی تھی۔۔۔ وہ دونوں اب لمبی راہداری کی طرف بڑھ گئے۔۔
”آپ کا کوئی دوست نہیں ہے؟؟ لڑکی یا لڑکا۔۔کوئی بھی نہیں۔۔؟؟“
”شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں کے دوست نہیں ہوتے۔۔۔“ وہ پھیکا سا مسکائی۔
”پھر بھی کوئی تو ہوگا جسے آپ کی پرواہ ہو۔۔۔“ وہ متجسس تھا۔۔۔۔ اور ہیزل کا دل جیسے سو ٹکڑوں میں بٹا تھا۔۔۔ وہ مسکرانا چاہتی تھی پر مسکرا نہیں پائی۔۔
”نہیں۔۔۔کوئی نہیں ہے۔۔۔“ وہ سر جھکائے چل رہی تھی۔ ایک شالی تھی جو اس کی پرواہ کرتی تھی اسے بھی ہیزل نے کسی اور ایکٹرس کے پاس بھیج دیا تھا تاکہ اس کا کام چلتا رہے۔۔
اس کے باپ سلطان ملک کو کبھی اس کی پرواہ نہیں تھی۔۔۔ اور ماں پیدا ہوتے ہی چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
اور عبدل۔۔۔۔ عبدل۔۔۔ وہ بھی تو ظالم تھا۔۔۔ وہ تو پلٹ کر نہیں آیا۔۔۔ شاید اس کی قسمت میں تنہائی لکھ دی گئی تھی۔
”سوری میرا مقصد آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا۔۔۔“ وہ اب شرمندہ تھا۔۔ ہر صبح وہ ہیزل کو ایسے ہی ننگے پاؤں چہل قدمی کرتے دیکھتا تھا۔۔ وہ سبز آنکھوں والی لڑکی جانے کیوں اتنی گمنامی کی زندگی جی رہی تھی۔۔
”آپ کو باہر نکلنا چاہیے۔۔۔ باہر گھوما پھرا کریں۔۔۔ اچھا محسوس ہوگا۔۔۔“
”میں تب تک نہیں جانا چاہتی جب تک لوگ اس چہرے کو مکمل طور پر بھول نہ جائیں۔۔۔“
”یعنی ساری عمر قید ہو کر رہنا چاہتی ہیں۔۔“ اس نے عجیب لہجے میں کہا تو ہیزل نے الجھی نگاہوں سے اسے دیکھا۔
”میرا مطلب اتنا خوبصورت چہرہ بھلا کون بھول سکتا ہے۔۔؟؟“
اور وہ بےساختہ مسکرادی۔۔ آج تک کسی نے ایسے تعریف نہیں کی تھی۔
”میں ساری عمر بھی ایسے رہ لوں گی۔۔۔ ویسے بھی باہر کی دنیا میں میرا اپنا کوئی نہیں۔۔۔“
وہ دونوں راہداری سے گزر کر اب واپس لان میں آگئے تھے۔۔
”آپ کو اپنی مدر کو ڈھونڈنا چاہیے۔۔۔“
اور ہیزل کے چہرے کے تاثرات بگڑ سے گئے۔۔۔نرمی کی جگہ سخت پن نے لے لی تھی۔۔۔۔
”ایسی عورت سے میرا کیا واسطہ جس نے پیدا ہوتے ہی چھوڑ دیا ہو۔۔۔“ اس کا لہجہ سخت تھا۔۔ مرتضے بس اسے دیکھ کر رہ گیا۔ وہ مزید کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن ہیزل کے سرد تاثرات نے اسے خاموش رہنے پر مجبور کردیا۔۔
کچھ دیر وہ یونہی گھومتے رہے اور پھر وہ ریسٹ ایریا کی جانب بڑھ گئی۔
✿••✿••✿••✿
”تم نے کبھی بتایا نہیں تمہارا ہینڈسم بھائی واپس آگیا ہے اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ ماثیل دی بت ساز ہے۔۔۔“
منحہ اپنے کمرے میں گھسی دائمہ سے فون پر بات کر رہی تھی۔ جب سے وہ ادھم سے مل کر آئی تھی یہی سوچ رہی تھی کہ اسے کہیں دیکھا تھا۔۔۔اور پھر اسے یاد کرنے پر یاد آگیا تھا اس نے اس کا ایوارڈ شو دیکھا تھا۔
”تم نے بھی تو نہیں بتایا کہ تمہارا بھائی جسے میں عبدل سمجھتی رہی ہوں وہ عبدل نہیں حاد ہے۔۔۔“
وہ تلخ لہجے میں بولی۔
”مجھے خود بہت بعد میں پتا چلا تھا اور ویسے بھی حاد بھیا صرف میرے نہیں تمہارے بھی تو کزن ہیں۔۔۔“
”ہاں تو ادھم بھائی تمہارا کزن نہیں ہے کیا۔۔۔؟؟“
ماہین حمدان، ام حانم اور ماہم۔۔۔ حمدان صاحب کی تین بیٹیوں تھیں اور ان آگے بچے الجھی ہوئی زندگی گزار رہے تھے۔۔۔اور شاید یہ الجھنیں جبیل خاندان کی وجہ سے تھیں۔
منحہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن خاموش رہی۔۔۔ وہ جانتی تھی دائمہ حاد سے محبت کرتی تھی اور وہ کچھ کہہ کر اس کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی۔
”تو تمہارا بھائی یہاں کیا کرنے آیا ہے؟؟“ وہ اب متجسس تھی۔
”چھ مہینے پہلے گئے تھے وہ ملتان سے۔۔۔ڈپریشن کا شکار تھے۔۔ ماما نے کہا تھا وہ باہر جائے گا تو ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔“
”ڈپریشن۔۔۔؟؟ لیکن کیوں۔۔؟؟“ وہ الجھی۔
”تم خود پوچھ لینا۔۔میں ابھی آفس کے لیے نکل رہی ہوں۔بابا اور نانا ابو ویٹ کر رہے ہوں گے رات کو بات ہوگی۔۔“
اس نے خدا حافظ کہتے فون بند کردیا تھا جبکہ منحہ بیڈ پر گر گئی تھی۔
”ماثیل۔۔۔ ادھم۔۔۔۔ادھم۔۔۔ماثیل۔۔۔“ کتاب پڑھتا وہ شخص بار بار نظروں کے سامنے آرہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ جیسے ہی حاد کے ساتھ عمارت میں داخل ہوئی تو حیران رہ گئی۔۔۔اسے لگا وہ کسی اور سیارے پر آگئی ہو۔۔۔ ایک بڑی سا ہال تھا جس میں ایک جانب سیڑھیاں اور ساتھ ہی لفٹ اوپر جا رہی تھی جبکہ دوسری جانب سولر سسٹم بنا تھا جو ہوا میں معلق تھا۔۔۔بڑے بڑے ستارے سیارے۔۔۔
وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔ باقی کمرے بنے تھے۔۔۔۔
”یہ ان کے لیے جنہیں کائنات میں دلچسپی ہے۔۔۔ جب وہ اسے یوں قریب سے دیکھیں گے تو یقیناً سوچیں گے کہ ان کا بنانے والا کون ہے۔۔۔ “
”واؤ۔۔۔۔“ حمیزہ وہاں پہنچ گئی تھی۔۔۔ اور اس کے منہ سے بےساختہ نکلا تھا۔ حاد اسے یوں حیران دیکھ کر ہولے سے مسکایا۔
”السلام علیکم۔۔“ پھر جیسے ہی اس کی نظر حاد پر پڑی وہ فوراً آگے بڑھتے بولی۔
”وعلیکم السلام۔۔۔“ اسے حمیزہ کی دلچسپی اچھی لگ رہی تھی۔
”آپ ٹی وی پر کم اور حقیقت میں زیادہ ہینڈسم لگتے ہیں۔۔“ اس کے یوں منہ پھاڑ کر تعریف کرنے پر ایمان نے پہلے چونک کر اور پھر گھور کر اسے دیکھا جو سفید یونیفارم پر بلیو کوٹ پہنے ہوئے تھی۔۔ بھاری بھرکم بیگ کندھے پر لٹک رہا تھا۔
”اور آپ کافی اچھی اسکیچنگ کرتی ہیں۔۔۔“ اس نے فوراً کہا۔۔ وہ حمیزہ سے اچھے تعلقات رکھنا چاہتا تھا۔۔
اب وہ انہیں ساتھ لے کر سامنے ہی بڑے دروازے والے کمرے میں گیا جو ایک بڑی سی لائبریری تھی جہاں آسٹرولوجی پر بہت ساری کتابیں تھیں۔۔۔
”یہ سب ان کے لیے جو کائنات سے خدا کی کھوج کرنا چاہتے ہیں۔۔۔“
پھر اس نے آہستہ آہستہ انہیں کافی کمرے اور ہال دکھائے۔۔۔ وہاں پورا ایک سسٹم تھا۔
انہوں نے وہاں پر کچھ اسٹوڈنٹس دیکھے تھے جو اوپری منزل پر تھے۔۔۔ ایمان نے جھانک کر ونڈو سے دیکھا تو اسے باہر گراؤنڈ میں کچھ اسٹوڈنٹس نظر آئے۔۔۔
شاید ان کے آنے کا یہی ٹائم تھا۔۔ پھر وہ لوگ کانفرنس روم میں آگئے۔۔۔حمیزہ گھوم پھر کر پوری اکیڈمی دیکھنا چاہتی تھی۔۔
کانفرنس روم میں ایک بڑا سا گول میز تھا اور کرسیاں رکھی تھیں۔۔ سامنے اسکرین تھی۔۔۔ جہاں ایک جانب سعد و دوسری جانب مرتضے نظر آرہا تھا۔
ایک ویلنسیا میں تھا اور ایک لاہور میں۔۔
”یہ مس ام ایمان ہیں۔۔۔“ اس نے دونوں سے تعارف کروایا جیسے وہ پہلی بار مل رہے ہوں۔ دونوں نے اسے سلام کیا تھا۔۔ وہ خاموشی سے ایک جانب بیٹھ گئی۔۔ دل تھا کہ دھک دھک کر کر رہا تھا۔۔
اتنے ذہین لوگوں میں اسے اپنا آپ بہت ادنی سا لگ رہا تھا۔
”میرا خیال سے اب وہ وقت آگیا ہے جب ہم اس اکیڈمی کا پروپر طریقے سے آغاز کریں۔۔۔“
وہ پروجیکٹر آن کیے کچھ سلائڈز کھولے اپنے پلان کے متعلق بتا رہا تھا۔۔
وہ سنتے سنتے اسے دیکھنے لگی۔۔۔اس کا جسم پہلے سے کسرتی لگ رہا تھا شاید وہ جم کر رہا تھا۔۔
”میں چاہتا ہوں نوجوان نسل اسلام کو خود اسٹڈی کرے۔انہیں اپنے مسائل کا پتا ہونا چاہیے۔۔ہم اس دور میں رہ رہے ہیں جہاں اسلام کو چاروں جانب سے خطرہ ہے اور ہماری نوجوان نسل جو بےخودی کی نیند سو رہی ہے اگر اب بھی نہ جاگی تو ہمارا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔۔ اسلام کا نہیں۔۔۔ہمارا۔۔۔ ہم۔۔۔ جو خود کو مسلمان کہتے ہیں۔۔۔“
اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے کہا۔
”کیا لگتا ہے آج کل کے اسٹوڈنٹس جو اپنا زیادہ تر وقت اسکرین پر گزارتے ہیں۔۔۔جنہیں جلد از جلد اپنے کمرے میں جانا ہوتا ہے تاکہ وہ فون کو پوری پرائیویسی کے ساتھ یوز کر سکیں۔۔۔وہ متوجہ ہوں گے؟؟ وہ یہ سب سیکھ پائیں گے؟؟“ مرتضے نے سوال کیا تھا۔
”پتا ہے میں اس اکیڈمی میں آنے والے بچوں سے فیس کیوں نہیں لے رہا؟؟“ اس نے سوالیہ نظروں سے دونوں کو دیکھا۔
”کیونکہ ان کا وقت جو وہ اپنی اسکرین کی بجائے یہاں آکر ہمیں دیں گے وہی سب سے بہتر فیس ہے۔۔۔“
وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا۔۔ میجورٹی ایسے اسٹوڈنٹس کی تھی جو مہنگی مہنگی یونیورسٹیوں سے نہیں پڑھ سکتے تھے۔۔۔جو مڈل کلاس سے تھے اور ذہین تھے۔۔۔جن کا باہر جا کر پڑھنے کا خواب خواب ہی رہ جاتا تھا۔۔ وہ ایسے نوجوانوں کے لیے یہ سب کر رہا تھا۔۔
”لیکن ہم کب تک یہ سب افورڈ کر پائیں گے؟؟“
سعد نے اگلا سوال کیا۔
”جب نہیں ہوگا تب مناسب فیس رکھ لیں گے۔۔۔“ اس کے ارادے نیک تھے۔۔۔ اور ایمان یہ سوچ رہی تھی جانے اس شخص نے کتنا پیسہ لگایا تھا ان دو اکیڈمیوں کو تیار کروانے میں۔۔۔اور اتنا پیسہ کہاں سے آیا تھا؟؟؟
” سید جبیل صاحب کا فون آیا تھا۔۔“
سعد نے جھجھکتے ہوئے بتایا۔
” کیا کہہ رہے تھے وہ؟؟“ حاد کے کان کھڑے ہوئے وہ پچھلے کافی دنوں سے ان کا فون نہیں اٹھا رہا تھا۔
” ایک منٹ۔۔“ سعد نے کہتے ہوئے فون نکالا اور پھر ریکارڈنگ آن کرکے موبائل اسکرین کے قریب کیا۔
”نواب صاحب میں تمہارے اکاؤنٹ فریز کروا رہا ہوں۔۔۔تم نے مجھے کنگال کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔۔ خبردار جو اب ایک پیسہ بھی لگایا۔۔۔تمہارے باپ نے نہیں کمایا یہ سب۔۔۔۔اگر مجھے پتا ہوتا تم اس ارادے سے پاکستان آئے ہو میں تمہیں آنے ہی نہیں دیتا۔۔“
سید جبیل کی غصے سے بھری آواز ابھری تھی۔
ایک وہی تو تھا جو سید جبیل کی ہاں میں ہاں ملاتا تھا اور اب وہ بھی اپنی مرضی کرنا شروع ہوگیا تھا۔۔۔وہ کافی بھڑکے ہوئے تھے۔۔
حاد نے خجالت سے اپنا کان کھجایا۔ جبکہ مرتضے اس کی تازہ تازہ ہوئی عزت افزائی پر اپنی مسکراہٹ چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”انہیں میں سنبھال لوں گا آپ لوگ باقی سب دیکھیں۔۔“ پھر وہ ایمان کی جانب متوجہ ہوا۔
”یقیناً آپ جان گئی ہوں گی کہ ہم نے سلفائٹس اکیڈمی کیوں بنائی ہے۔۔۔ کیا آپ ہماری ٹیم کا حصہ بنیں گی ہمیں ذہین لوگوں کی ضرورت ہے۔۔۔“ وہ پرامید نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ایمان سیدھی ہو کر بیٹھی۔۔
اسے یہاں آکر اچھا لگا تھا۔۔۔ آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں یہ سب ضروری تھا۔۔۔
توجہ۔۔۔ توجہ کھینچنا سب سے مشکل اور سب سے آسان کام ہے۔۔۔ عوام کی توجہ غلط کاموں کی طرف آسانی سے کھینچی جا سکتی ہے۔۔۔ سوشل میـڈیا پر وائرل آج کل مشکل نہیں تھا جبکہ ایک درست سمت کی جانب ، ایک صحیح راستے کی جانب نوجوان نسل کو متوجہ کرنا سب سے مشکل کام تھا۔۔
حاد نے اپنی زندگی کا کافی عرصہ لندن میں گزارا تھا اس ٹیکنالوجی کو بہت قریب سے دیکھا تھا اسی لیے وہ پروپر پلان کے ساتھ سب کر رہا تھا۔۔۔وہ جانتا تھا جب تک وہ الگ سوچ نہیں لائے گا وہ نوجوان نسل کو نہیں جگا پائے گا۔
”میں آپ لوگوں کی کیسے مدد کر سکتی ہوں۔۔۔؟؟“ وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
”یہ آپ کو مرتضے بتائیں گے۔۔“ اس نے مرتضے کی جانب اشارہ کیا اور خود میز کے دوسری جانب کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔۔۔ سامنے ہی میز پر وہ رکھا تھا۔۔۔ لکڑی کا پزل باکس۔۔۔ جس پر ایمان کی نظر ابھی پڑی تھی۔۔ وہ اس پزل کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
”آپ جو لکھتی ہیں ہم چاہتے ہیں آپ وہ بولیں۔۔۔ آج کل کی نوجوان نسل کتابوں سے بہت دور ہے۔۔۔کالمز اور ریسرچ پیپر پڑھنا تو دور کی بات ہے۔۔۔ تو جب آپ سوچتی ہیں۔۔۔جن سوالوں کے آپ جواب ڈھونڈتی ہیں ہم چاہتے ہیں آپ وہ سب بولیں۔۔اسٹوڈنٹس کو سنیں اور انہیں جواب دیں۔۔۔“
ایمان کے چہرے پر تفکر کی لکریں ابھریں۔
”لیکن میں کوئی اسپیکر یا اسکالر نہیں ہوں۔۔۔یہ میری فیلڈ نہیں ہے۔۔۔“
”لیکن آپ ہیلر تو ہیں نا۔۔۔؟؟“
سعد فوراً بول پڑا۔۔۔ شاید وہ سب مل کر اسے منانے کا ارادہ ٹھان کر آئے تھے۔
”آپ ذہنی طور پر بیمار لوگوں کو سنتی ہیں۔۔اور پھر انہیں سمجھاتی ہیں۔۔۔بس یہی تو کرنا ہے آپ کو۔۔۔“
”پر وہ ذہنی مریض ہیں نارمل لوگ نہیں۔۔۔“
”یہ سب بھی مریض ہیں۔۔۔ ہم۔۔۔ہم سب۔۔۔ہماری نوجوان نسل۔۔۔ہم سب مریض ہوچکے ہیں۔۔۔ ہم بھٹک چکے ہیں۔۔ اپنا مقصد بھول چکے ہیں۔۔ اور دن بدن گرتے جارہے ہیں۔۔۔ اور ہماری روح گھائل ہوچکی ہے۔۔۔ہماری نوجوان نسل کی روح بیمار ہے۔۔۔سب گھائل روح کے مریض ہیں۔۔۔ہمیں اس بیماری کو دور کرنا ہے۔۔۔ہمیں انہیں جگانا ہے۔۔۔ ان کی روح کو Heal کرنا ہے۔۔۔“
حاد ایک جھٹکے سے اٹھا تھا۔۔ پزل باکس ہاتھ میں تھامے اب وہ دائیں بائیں چل رہا تھا۔۔ اور اس کا ایک ایک لفظ سچا تھا۔
”تو کیا آپ ہمارا اس مشن میں ساتھ دیں گی۔۔۔“ وہ اب میز ہر دونوں ہاتھ ٹکائے تھوڑا سا جھک کر کھڑا تھا۔۔۔ اس کے بازوؤں کی رگیں ابھری ہوئی تھیں۔۔۔
ہاں وہ پکا جم کر رہا تھا۔
”لیکن میں ہاسپٹل جاتی ہوں۔۔۔میں ان لوگوں کو نہیں چھوٹ سکتی۔۔۔“
”نہیں ہم آپ کو ہاسپٹل چھوڑنے کا نہیں کہہ رہے۔۔۔بس تھوڑا وقت نکال لیں۔۔۔چاہے ہفتے میں دو دن۔۔۔“
وہ اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔ایمان کے چہرے پر اضطراب تھا۔۔۔وہ واضح دیکھ سکتا تھا۔۔وہ تھوڑی بےچین تھی۔
”مجھے سوچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے۔۔۔“
اور حاد کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔
”شیور۔۔۔“ وہ پیشہ ورانہ انداز میں مسکرایا۔ اور پھر ایک فائل اٹھا کر اس کے سامنے رکھی۔
”یہ آفر لیٹر ہے آپ کی جو بھی ڈیمانڈ ہے وہ آپ اسے سائن کرکے بنا کسی شش و پنج کے لکھ سکتی ہیں۔۔۔اگر آپ ہمیں جوائن کرنا چاہیں۔۔۔“
وہ اس کے پیشہ ورانہ انداز سے متاثر ہوئی تھی۔۔ کہیں سے نہیں لگ رہا تھا یہ دو گھنٹے پہلے والا حاد جبیل تھا۔
ایمان نے خاموشی سے فائل اٹھا لی۔۔
”ضرور۔۔۔“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
”اب مجھے جانا ہے۔۔۔“ وہ سنجیدگی سے بولی۔
”ٹھیک ہے۔۔۔“ حاد نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔۔وہ اپنا بیگ اٹھا کر فائل سمیت کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔
✿••✿••✿••✿
وہ فائل اٹھا کر نیچے آئی تو حمیزہ کو ڈھونڈنے لگی۔۔۔ رات کا اندھیرا کافی بڑھ چکا تھا۔۔۔سلمی بیگم کا اسے بار بار فون آرہا ہے۔
”جی امی!“ وہ فائل سینے سے لگائے آگے بڑھ رہی تھی اور اس کی نظریں حمیزہ کو ڈھونڈ رہی تھیں۔
”کہاں رہ گئی ہو تم دونوں۔۔؟؟ کب سے فون کر رہی ہوں۔۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔۔“ سلمی بیگم کی پریشان سی آواز ابھری۔
”بس میٹنگ سے ابھی فری ہوئی ہوں۔۔ کچھ دیر تک پہنچ جائیں گے گھر۔۔“ اس نے اپنی گردن کو دائیں بائیں گھما کر ریلیکس کرنا چاہا جو تھکن کے باعث درد کر رہی تھی۔
”ڈرائیور ہے نا۔۔۔؟؟“ انہوں نے فوراً پوچھا۔
”نہیں ڈرائیور کو میں نے بھیج دیا تھا۔۔ اسے ضروری کام تھا۔۔“
”تو اب تم دونوں اکیلے کیسے آؤ گی؟؟ باہر اتنی تیز دھند ہے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔“ سلمی بیگم کا دل گھبرا گیا تھا۔۔۔انہیں اسلام آباد آئے کافی مہینے ہوگئے تھے پر ابھی تک یہ شہر ان کے لیے انجان ہی تھا۔۔۔وہ یہاں ایڈجسٹ نہیں ہو پائیں تھیں۔
ایمان نے گلاس ونڈو کے پاس رکتے باہر دیکھا۔۔۔۔
باہر اسے کہرہ نظر آیا۔۔۔۔۔اور کچھ بھی نہیں۔۔۔ البتہ چاند پورا تھا جس کے باعث اندھیرا کم محسوس ہورہا تھا۔۔۔
”امی پریشان مت ہوں۔۔۔“ اس نے گلاس ونڈو پر پھونک ماری۔۔۔اور پھر انگلی سے سمائلی بنائی۔
وہ خود پریشان تھی لیکن ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔
”میں آپ کو تھوڑی دیر تک فون کرتی ہوں۔۔۔“ اس نے جلدی سے فون بند کیا۔۔۔اب وہ حمیزہ کو ڈھونڈنا جلد ڈھونڈنا چاہ رہی تھی۔
”کیا میں آپ لوگوں کو ڈراپ کردوں۔۔؟؟“ جانے کب وہ اس کے پیچھے آیا تھا۔۔ ایمان چونک گئی۔۔ وہ ڈر گئی تھی۔۔۔
وہ رات گئے گھر سے باہر نہیں نکلتی تھی۔۔۔اسے خوف آتا تھا۔
”نہیں وہ میں رائیڈ کروالوں گی۔۔“ اس نے فون کی جانب متوجہ ہوتے کہا۔
”یہ ایریا شہر سے تھوڑا باہر ہے۔۔جلدی کوئی رائیڈ نہیں ملے گی۔۔۔میں چھوڑ دیتا ہوں ویسے بھی مجھے اسی طرف جانا ہے۔۔“ وہ پوری سنجیدگی سے کہہ رہا تھا اور ایمان کو اس وقت یہی مناسب لگا۔۔۔
”وہ حمیزہ۔۔۔“
”وہ گراؤنڈ فلور پر لائبریری میں ہے میں نے سیکیورٹی کیمرہ چیک کیا ہے۔۔“
وہ اثبات میں سر ہلاتی سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔۔۔ جو چیز اس وقت وہ شدت سے محسوس کر سکتا تھا وہ تھا ایمان کا خوفزدہ ہونا۔۔۔۔
آخر وہ کیوں خوفزدہ تھی؟؟ وہ سمجھ نہیں پایا۔۔
اکیڈمی اب خالی نظر آرہی تھی۔۔۔اسٹوڈنٹس یا تو جاچکے تھے یا اندر تھے۔۔
اس نے حمیزہ کو لائبریری سے بلایا۔۔۔ وہ انہیں ساتھ لیے عمارت سے باہر نکل آیا۔۔۔۔
باہر نکلتے ہی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے ان کا اسقتبال کیاتھا۔
”آپی مجھے نیند آرہی ہے۔۔“ حمیزہ بھی بری طرح تھک گئی تھی۔
پارکنگ ایریا عمارت کی پچھلی جانب تھا۔ وہ انہیں وہیں چھوڑ کر گیا اور گاڑی لے آیا۔۔۔
اس نے حمیزہ کو پیچھے بٹھایا اور خود آگے بیٹھ گئی تاکہ حاد کو یہ نہ لگے کہ گھبرا رہی ہے۔
وہ اب اسٹرینگ وہیل کو گھماتے گاڑی کو گیٹ کی جانب لے جارہا تھا۔۔گارڈ نے گیٹ کھولا اور وہ گاڑی لے کر سڑک پر نکل آیا۔۔۔۔ ایمان نے کن انکھیوں سے اسے گاڑی چلاتے دیکھا تھا۔۔۔ اور پھر ایک گہرہ سانس لیا تھا۔۔۔ کیوں اسے اچھا لگ رہا تھا سب؟؟
وہ توجہ سے ڈرائیونگ کر رہا تھا گاڑی میں گہری خاموشی تھی۔۔۔حمیزہ شاید سوچکی تھی۔۔۔ وہ کتنی ہی دیر شیشے سے باہر دیکھتی رہی جہاں کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
اور پھر کچھ یاد آنے پر وہ اس نے گود میں رکھی فائل کو دیکھا۔۔۔اسے کھولا اور پڑھنے لگی۔۔ اس میں وہی سب لکھا تھا جو حاد نے بولا تھا۔۔
”آپ نے کہا میں اپنی مرضی سے سیلری ڈیمانڈ کر سکتی ہوں۔۔؟؟“ اس نے ذرا سا رخ موڑ کر حاد کو دیکھا۔
”جی بالکل۔۔۔“
”لیکن۔۔۔ آپ کی حالت فائنانشلی کافی خراب چل رہی ہے تو۔۔۔۔“ وہ بات ادھوری چھور گئی۔
حاد کی ابھرنے والی ہنسی بےساختہ تھی۔۔۔وہ کچھ دیر ہنستا رہا۔۔۔ ایمان کو شرمندگی نے آگھیرا۔۔۔ لیکن وہ حیران ہوئی تھی اس نے بھلا ہنسنا کب سیکھا تھا؟؟؟
”مس ام ایمان! میں حاد جبیل آپ کی سیلری افورڈ کر سکتا ہوں۔۔“ وہ مسکراہٹ روکنے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔
”آپ بےفکر ہوجائیں۔۔۔“ وہ اب محظوظ سا بیٹھا تھا۔
جبکہ ایمان نے دل ہی دل میں عہد کرلیا تھا وہ اب کوئی سوال نہیں پوچھے گی۔

14 Comments

  1. Is This is the last episode 🙁?

    ReplyDelete
  2. اتنا اچھا دماغ ما شاءاللہ
    اللہ تعالی مجھے بھی اپنی راہ میں قبول فرمائے
    آ مین ثم آمین

    ReplyDelete
  3. Mein na be aik book lekhe hain but kaise viral karo ?

    ReplyDelete
  4. Publish your book on urdu novel bank
    check out this link
    https://www.urdunovelbanks.com/p/novel-publishing-urdu-novel-bank.html

    ReplyDelete
  5. Tora sa rehtha hain

    ReplyDelete
  6. Google pher viral hoaga book maseel ke Tarha?

    ReplyDelete
  7. Contact on bankurdunovel@gmail.com
    We will Guide You.

    ReplyDelete
  8. Apki insta I'd hain?

    ReplyDelete
  9. https://www.instagram.com/urdunovelbank/

    ReplyDelete
  10. Novel acha but ubi b bhool bhalaiya hai , ub aik br sb clear kr de , k Rohan kdr hai, om e Hanim aur wo alaida q hai, Maheen aur hasham ka kia bna,

    ReplyDelete
  11. Buht lamba novel hota jarha h. Plz story short krdny es dfa kese ka dil khali nh rhy. Maseel ko uska Rab mil janaa chahiey. I think her character ko samjhna chaiey k Allah ke raza sey bare kuch b nhe. Sulphite ke trha maza nhe arha ab.. Plz writer do something jaldi khtm krien novel or but saaz ko toor dny. Best wishes for you

    ReplyDelete
  12. السلام علیکم! اس قسط کو پڑھ کر بہت اچھا لگا اور دل میں خواہش بھی پیدا ہوئی کہ کاش کوئی حاد سچ میں ہوتا اور وہ پاکستان کے لیے سچ میں یہ سب کرتا پر کہانی ہے یہ تو اور کہانی ہی رہے گی اور سچ میں آپ بہت اچھا لکھتی ہیں اللہ پاک آپ کو صحت اور زندگی دے آمین

    ReplyDelete
  13. Ye novel mujhe bohot achi lgti hai mujhe ise padh kr pta chla ki khas logo ko kaise pehchante h thanks miss noor rajpoot for this brilliant novel❤️✨

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post