Maseel Episode 49 by noor rajput

 

Maseel episode 49 by noor rajput

مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا) Sulphite_2
قسط_نمبر_49
نور_راجپوت
The Healer
وہ اگلا پورا دن سوچتی رہی کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ اس نے حاد جبیل کی ای میل کا جواب نہیں دیا تھا۔
وہ ایک اچھی جاب کر رہی تھی۔ اسے ہسپتال کی جانب سے فلیٹ بھی ملا تھا اور ڈرائیور اسے لینے اور چھوڑنے بھی آتا تھا۔۔۔ بار بار اس کے ذہن میں جو نام کلک ہو رہا تھا وہ حاد جبیل تھا۔۔۔
اس بار وہ شخص اس سے اصلی روپ میں مل رہا تھا۔۔۔
نہ عبدل بن کر آیا تھا، نہ مسٹر گرے اور نہ ہی حشام جبیل۔۔۔
وہ حاد جبیل تھا اور اسی روپ میں اس نے رابطہ کیا تھا۔۔ وہ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی آتش دان میں جلتی لکڑیوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ اسلام آباد کا موسم کافی سرد تھا۔ ایک سال باقیوں کے لیے جلدی گزر گیا تھا لیکن اس نے اس ایک سال میں خود کو دوبارہ بنایا تھا۔۔۔
وہ نہ کوئی ڈاکٹر تھی نہ سائیکولوجسٹ اور نہ کوئی سائیکاٹرسٹ۔۔۔ وہ تو بس لوگوں کو سمجھنے کی خاطر یونیورسٹی سے سائکولوجی کا ایک ڈپلامہ کر رہی تھی تاکہ زیادہ اچھے سے لوگوں کو سمجھ سکے۔۔۔
ہسپتال والوں نے اسے ایک نام دیا تھا۔۔ایک انوکھا نام۔۔۔ ہیلر۔۔۔ The Healer
اسے آج بھی وہ دن یاد تھا جب اسے ہسپتال سے گئے پورے دس مہینے ہوگئے تھے۔۔۔
ان دس مہینوں میں اس نے خود کو کھڑا کرلیا تھا۔۔ وہ جاب کر رہی تھی۔۔۔ حمیزہ کی حالت بھی اب ٹھیک تھی۔۔
اچانک اسے ہسپتال سے فون آیا تھا۔۔ وہ اسکا ایک رینڈم چیک اپ کرنا چاہتے تھے۔۔۔
وہ اکیلی مریضہ تھی جس نے سب سے پہلے ری کور کیا تھا اور اتنے کم عرصے میں وہ بالکل نارمل ہو کر دوبادہ جاب کر رہی تھی۔۔۔۔ وہ اسے چیک اپ کے لیے بلا رہے تھے۔۔۔ شاید کچھ ضروری باتیں بھی کرنی ہوں۔۔۔
وہ ایک پل کے لیے ڈر گئی تھی۔۔۔ گھبرا گئی تھی۔۔ پاگل خانے دوبارہ نہیں جانا چاہتی تھی۔۔۔۔
وہ انکار کر دینا چاہتی تھی لیکن پھر اسے اپنی ہی بات یاد آئی جو وہ حمیزہ سے کہتی تھی۔۔۔
”یوز یور ڈیمنز۔۔۔ اپنے ڈیمنز کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرو۔۔۔“
اور یہ خوف ہی تو اس کا ڈیمن تھا۔۔ وہ ہمیشہ سے پاگل ہونے سے ڈرتی تھی۔۔۔اور اس کے ڈیمن اس پر حاوی ہوئے تھے۔۔۔وہ پاگل بھی ہوئی تھی۔۔۔ پر اب نہیں۔۔۔
اس نے ایک گہرا سانس لیا اور خود کو تیار کرلیا۔۔۔وہ ہسپتال لازمی جائے گی۔۔۔
اس نے ان اندھیروں کو دیکھا تھا تو کیوں نا اب ان اندھیروں کو استعمال کیا جاتا؟؟
وہ ہسپتال کے آنر کے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔ وہ ایک ماہر نفسیات تھا جس نے کئی ملکوں کے دورے کیے تھے کئی تجربے کیے تھے اسے چالیس سال کا تجربہ تھا اور پھر انہوں نے سوچ سمجھ کر اس ہسپتال کی بنیاد رکھی تھی اور یہاں علاج بھی روایتی طریقوں سے ہٹ کر کیا جاتا تھا۔
”کانگریچولیشنز۔۔۔ آپ یہاں سے ٹھیک ہو کر جانے والی سب سے پہلی مریضہ ہیں جس نے اتنی جلدی ری کور کیا تھا اور جو ایک نارمل لائف جی رہی ہے۔۔۔“ وہ خوشگوار لہجے میں کہہ رہے تھے۔ ایمان نے اس کی بات سن کر انہیں یوں دیکھا جیسے اس نے کچھ غلط کہہ دیا ہو۔
”نارمل لائـف۔۔۔؟؟ آپ کے نزدیک نارمل لائف کسے کہتے ہیں ڈاکٹر صاحب۔۔۔؟؟“
”جب آپ روٹین کے سارے کام کرتے ہوں اور ایک اچھی زندگی گزارتے ہوں۔۔۔“
وہ ان کی بات سن کر ہنس دی۔
”ابنارمل لائف جینے والے بھی روٹین کے سبھی ٹاسک کرتے ہیں۔ پرابلم ڈیلی ٹاسک نہ کرنے سے ظاہر نہیں ہوتی۔۔۔پرابلم یہاں ہوتی ہے۔۔۔ جو کسی کو نظر نہیں آتی۔۔۔“
اس نے شہادت کی انگلی سے اپنے دماغ کی جانب اشارہ کیا۔
”یہاں جو چل رہا ہوتا ہے وہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔۔it Sucks..“
”لگتا ہے اتنی عمر میں آپ نے کافی کچھ سیکھ لیا ہے۔۔۔“
وہ اس سے متاثر نظر آئے۔
”جب کہرے کے پار کوئی آپ کی مدد کو نہیں آتا تب آپ بہت کچھ سمجھ جاتے ہیں۔۔۔“
”ویل۔۔۔ مجھے خوشی ہوئی سن کر کہ ایک لڑکی جس نے کم عمری میں اتنا کچھ سہا ہو وہ اتنی جلدی خود مختار ہوجائے۔۔۔ لیکن یہاں میں نے آپ کو ایک خاص مقصد کے لیے بلایا ہے۔۔ “
اس نے چونک کر ڈاکٹر کو دیکھا۔
”میں آپ کو کسی سے ملوانا چاہتا ہوں۔۔۔“
وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھے۔۔ ایمان ان کے پیچھے تھی۔۔ اب وہ راہدادی میں چل رہے تھے۔۔۔ایمان کو اپنا دل تیزی سے دھڑکتا محسوس ہوا۔۔۔
اسی راہداری کے کسی ایک کمرے میں اسے باندھ کر رکھا جاتا تھا۔۔۔ اس کا دل کیا وہ بھاگ جائے۔۔۔
اس کا خوف پھر سے حاوی ہو رہا تھا۔۔ لیکن وہ چلتی رہی۔۔۔
”اپنے ڈیمنز سے مت ڈرو۔۔ اپنے ڈیمنز سے مت ڈرو۔۔“
وہ دل ہی دل میں دہرا رہی تھی۔ اچانک وہ رک گئی۔۔۔
سامنے ہی وہ کمرہ تھا جہاں اس نے اپنی زندگی کے چھ ماہ گزارے تھے۔۔۔ اکیلے۔۔۔ کہرے کے پار۔۔۔۔
اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔۔۔ گلاس ونڈو سے کمرے کا منظر نظر آرہا تھا۔۔۔ اندر ایک لڑکی تھی۔۔۔ اس نے ڈاکٹر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔
”میں چاہتا ہوں آپ ان سے بات کریں۔۔۔“ ان کی نظروں میں التجا تھی۔
کمرے کا دروازہ بٹن دبانے کے باعث کھل گیا۔۔۔ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔
اس دروازے کے پار کہرہ تھا۔۔ جہاں سے وہ نکل آئی تھی۔۔۔
تو اسے وہاں کیوں جانا تھا؟؟؟
”تم نے کہرے کے اس پار کی دنیا دیکھی ہے نا۔۔ہاں تم نے دیکھی ہے۔۔ میں پچھلے پندرہ سالوں سے کہرے کے اس پار اکیلی تھی۔۔۔قید تھی۔۔ کوئی میری مدد کو نہیں آیا۔۔۔“
ایمانے رابرٹ کی باتیں چاروں جانب گردش کرنے لگی۔۔۔اس نے گھبرا کر آس پاس دیکھا۔۔۔
”میری اپنی بیٹی مجھ سے نفرت کرتی تھی۔۔۔اور پھر۔۔۔۔ میں اس کہرے میں کہیں گم ہوگئی۔۔ جس کے پار گہرا اندھیرا تھا۔۔۔کوئی نہیں آیا۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔تم آئی۔۔ تم آئی ایمانے۔۔۔۔“
تو کیا یہ کسی مقصد کے تحت ہوا تھا۔۔ اس کا کُہرے میں قید ہونا۔۔۔اندھیروں کو دیکھنا۔۔۔ اس کا پاگل ہونا۔۔۔۔؟؟
خدایا۔۔۔۔
بہت سارے سوال اردگرد گردش کرنے لگے تھے۔۔۔ اسے اپنے دل دھڑکنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔۔
”کیا قدرت اسے کوئی پیغام دے رہی تھی؟ کوئی اشارہ کر رہی تھی؟؟ یا اسے یہاں تک لا کر اشارہ دیا گیا تھا؟؟؟
کیا یہ سب پہلے سے طے تھا۔۔
کمرے کی دیواروں کا رنگ سبز تھا۔۔ پیڑ پتوں جیسا۔۔ سبز رنگ آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے کیوں کہ یہ نیچر کا رنگ ہے۔
سامنے ایک بیڈ تھا اور ایک لڑکی کرسی پر بیٹھی تھی۔۔۔دروازے کی جانب اس کی پشت تھی وہ دیوار سے لگی کچھ بنا رہی تھی شاید وہ دیوار پر اسکیچنگ کر رہی تھی۔
کیا یہ اس کا مقصد تھا؟؟ ایک اور مقصد؟؟ کُہرے کے پار بھٹکتے لوگوں کی مدد کرنا؟؟ ہاتھ بڑھا کر انہیں وہاں سے نکالنا۔۔۔؟؟
اس نے گہرہ سانس لیا اور قدم بڑھا کر کمرے میں داخل ہوگئی۔۔۔ پیچھے دروازہ بند ہوچکا تھا۔
✿••✿••✿••✿
”آپی۔۔۔ آپی۔۔۔“ وہ جانے جہاں کھوئی ہوئی تھی جب میزو نے اسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔ وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔
”یہ پارسل آیا ہے آپ کے لیے۔۔۔۔“
اس نے میز پر رکھے بڑے سے باکس کی جانب اشارہ کیا۔ ایمان نے حیرت سے باکس کو دیکھا۔
”کون دے کر گیا ہے؟؟“ وہ حیرانی سے پوچھنے لگی۔
”آفکورس ایک رائیڈر۔۔۔“
”لیکن میں نے تو کچھ نہیں منگوایا۔۔۔“ وہ اب الجھی اور اس باکس کو دیکھنے لگی۔
”اس باکس پر آپ کا ہی نام لکھا ہے۔۔“
واقعی اس کا نام پتہ موجود تھا۔۔ نمبر بھی اس کا تھا۔ اس کی پیشانی پر لکیریں ابھریں۔
اس نے باکس کو کھولنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں کھلا۔۔پھر وہ صوفے سے اٹھی اور کٹر ڈھونڈنے گئی۔
میزو دوبارہ سلمی بیگم کے پاس کچن میں چلی گئی تھی۔۔ رات کے کھانے کی خوشبو لاؤنج تک آرہی تھی۔
اس نے باکس کو کھولنا شروع کیا۔ اندر ایک بڑی پینٹنگ تھی اور ایک کارڈ تھا جس پر کچھ لکھا تھا۔۔ اس نے جیسے ہی کارڈ کھولا تو وہ بےساختہ پڑھتی گئی۔۔
”کیا تم نے اس لڑکی کو دیکھا؟؟
وہ جسکے کوٹ کے پیچھے بڑا سا اینجل لکھا تھا،
جس کے چھاتہ پر دی سلفائیٹ لکھا تھا،
جس کے بیگ پر آرجے نام کا ایک ٹیـڈی بیئر لٹکا تھا،
وہ جس کے بائیں بوٹ کی بائیں جانب دی مون لکھا تھا،
وہ جس نے آرجے برینڈ کی بریسلٹ پہن رکھی تھی،
وہ جس کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا اور اس پر بروکن اینجل لکھا تھا،
وہ جس کے موبائل کا کور سیاہ تھا اور اس پر ڈونٹ ٹچ مائے فون برومائڈز لکھا تھا،
وہ لڑکی جو کالم لکھتی تھی؟
کیا کسی نے ایمان بنت عبداللہ کو دیکھا ہے؟؟؟
میں عبدل جبیل اسے برسوں سے ڈھونڈ رہا ہوں۔۔۔؟؟“
آخری لائن پڑھتے ہی کارڈ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گرگیا۔۔۔ وہ ساکت بیٹھی رہ گئی۔۔۔۔
”عبدل۔۔۔“ وہ زیرلب بڑبڑائی۔۔ کتنی ہی بار اس کا خیال آیا تھا۔۔ اسے یہ ساری چیزیں دینے والا بھی عبدل ہی تھا۔۔
وہ اکـثر سوچتی تھی کہ سب آگے بڑھ گئے ہوں گے۔۔۔ ماضی اسے بھولا تو نہیں تھا۔۔۔اسے یاد تو سب تھا پر اسے لگتا تھا سب اپنی زندگی جی رہے ہوں گے۔۔۔سب موو آن کر گئے ہوں گے۔۔۔جیسے وہ ایک نئی زندگی جی رہی تھی۔
عبدل۔۔۔کتنا ظالم تھا وہ۔۔۔۔ اس کا خیال آیا بھی تو کب؟؟
اب کیوں آیا تھا۔۔۔۔؟؟؟ ماضی سے جڑا وہ واحد شخص تھا جس کا خیال اس کی آنکھوں میں نمی لے آیا تھا۔۔۔ وہ واحد شخص جس نے حاد کو اسی لیے مارا تھا کہ اس نے ایمانے کو تکیلف دی تھی۔۔۔
وہ پلکیں جھپک کر اپنے آنسوؤں کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرنے لگی۔
”تم بہت ظالم ہو۔۔۔“ اس نے کارڈ اٹھا کر اسے دیکھتے کہا۔۔۔
بڑی سی پینٹنگ میز پر رکھی تھی۔ اور اس پر کور چڑھا ہوا تھا۔
”واؤ۔۔۔ یہ کس نے بھیجا۔۔۔؟؟“
حمیزہ نے کارڈ اٹھاتے پوچھا۔۔۔جانے وہ کب وہاں پہنچ گئی تھی۔
”او مائے گاڈ آپی۔۔۔یہ وہی سنگر ہے؟؟ عبدل دی راک اسٹار۔۔ عبدل دی فالن اینجل؟؟ آپ کا یونی میٹ؟؟؟“
ایمان نے اسے بہت کچھ شیئر کیا تھا اور بہت کچھ چھپایا بھی تھا۔۔
”پتا ہے لوگ اسے فالن اینجل کے نام سے جانتے ہیں۔۔۔فالن اینجل دی راک اسٹار۔۔۔ بہت اچھا گاتا ہے۔۔۔“
وہ عبدل کی فین لگتی تھی۔
”جلدی کھولیں نا پینٹنگ۔۔۔“
وہ اب دونوں کور اتار رہی تھیں۔۔۔ اتارنے کے بعد انہوں پینٹنگ کو میز پر رکھ دیا۔۔ یہ ایک بڑا سا پورٹریٹ تھا۔۔۔
عجیب سی تصویر تھی۔ ایک بےبی کاٹ تھا جس میں چھوٹی سی بچی لیٹی تھی اور کاٹ کے دونوں جانب دو بچے کھڑے تھے۔۔
”شی از مائن۔۔۔“
”نو شی از مائن۔۔۔“
وہ بچی کے لیے لڑ رہے تھے۔۔۔ اور کاٹ میں لیٹی بچی کے سر پر نام لکھا تھا۔۔ ایمانے۔۔۔
”یہ بھلا کیا ہے؟؟“ وہ دونوں اس پورٹریٹ کو دیکھنے لگی۔۔۔ کچھ سمجھ نہ آیا۔۔
”آجاؤ کھانا لگ گیا ہے۔۔۔“ سلمی بیگم انہیں بلانے آئیں تو دونوں کو میز پر جھکے دیکھ کر ان کی جانب بڑھیں۔
”امی آپی کو کسی نے یہ پورٹریٹ بھیجا ہے۔۔۔ لیکن سمجھ نہیں آتا اس کا مطلب کیا ہے؟؟“
سلمی بیگم نے غور سے اس پورٹریٹ کو دیکھا اور پھر جیسے ایک جھماکہ سا ہوا۔۔
”یہ تصویر۔۔۔“ وہ تیزی سے میز کی جانب بڑھیں۔
”یہ تو وہی بچے ہیں۔۔۔“ وہ اب حیرانی اسے دیکھ رہی تھیں۔
”کون ہیں یہ؟؟“ ایمان نے حیرت سے پوچھا۔
”یہ بچی تم ہو ایمان اور یہ دونوں۔۔۔یہ دونوں بچے جڑواں تھے۔۔ اپنی کزن سے ملنے آئے تھے۔۔ یہ تمہارے لیے آپس میں لڑے تھے۔۔۔“ اور پھر سلمی بیگم نے پورا واقعہ سنادیا۔۔
ایمان خاموش بیٹھی تھی۔۔۔وہ حیران بھی تھی اور پریشان بھی۔۔۔۔
”ایمانے کا خیال رکھیے گا یہ بہت خاص ہے۔۔ میری مام کی طرح۔۔۔“
”ان میں سے ایک بچے نے کہا تھا اور پھر دوبارہ کبھی میں نے انہیں نہیں دیکھا۔۔۔“
وہ پورا قصہ سنا کر چلی گئیں۔۔
اور ایمان خاموشی سے پورٹریٹ کو گھورتی رہی۔۔۔
”تم سب جانتے تھے۔۔۔تم جانتے تھے میں ایمانے ہوں۔۔۔ پھر بھی تم نے مجھ سے جھوٹ بولا۔۔۔“
اس نے تصور میں عبدل سے شکوہ کیا اور پھر دونوں چیزیں اٹھا کر اپنی الماری میں رکھ دیں۔
✿••✿••✿••✿
وہ صوفے پر بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا جب کوئی دبے پاؤں آیا اور پیچھے سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔۔۔وہ کچھ نہ بولا۔۔۔ لیکن تھوڑا حیران ہوا۔۔
یہاں ایسا کوئی نہیں تھا جو اس سے اتنا فرینک تھا۔۔
حانم ایک ملازمہ کے ساتھ رہتی تھی۔۔۔ وہ چھ مہینے باہر گزارنے کے بعد اس سے ملنے آیا تھا وہ جو اس کی خالا بھی تھی اور چچی بھی۔۔۔حاد اور عبدل دونوں میں سے کوئی یہاں نہیں تھا۔۔۔
”گیس کریں۔۔۔۔“ اس کے کان کے قریب سرگوشی ابھری۔
”سوری میں نہیں جانتا۔۔۔“ وہ بول پڑا۔۔۔اور کسی نے جھٹکے سے اپنے ہاتھ ہٹائے۔۔۔
اس نے پلٹ کر دیکھا تو کچھ فاصلے پر ایک خوبصورت سی لڑکی کھڑی تھی۔۔اس نے سفید اوور آل پہنا ہوا تھا۔۔
”ہائے۔۔۔“ وہ مسکرایا۔
”آپ کون ہیں۔۔۔؟ آنی کدھر ہیں۔۔“ وہ گھبرا گئی تھی۔
”آنی۔۔۔آنی؟؟“ وہ انہیں آوازیں دینے لگی۔
”وہ مارکیٹ گئی ہیں۔۔۔“ وہ اسے چلاتے دیکھ کر فوراً بولا۔
”میں ادھم ہوں۔۔۔ادھم جبیل۔۔۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
لڑکی نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔۔۔
”واٹ؟؟“ وہ اسے یوں تکتا پا کر فوراً بولا۔
”آپ ادھم ہیں؟؟ ادھم جبیل؟؟ ماہین آنی کا بیٹا جو گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔؟؟“
شاید وہ اس کے نام سے واقف تھی۔
”ہاں۔۔۔میں ہی ہوں ادھم۔۔۔“ اس نے کندھے اچکا کر کہا اور جھک کر صوفے سے کتاب اٹھائی۔
”سوری مجھے لگا حاد بھائی ہیں۔۔۔وہی آتے ہیں یہاں۔۔۔“ وہ اب شرمندہ تھی۔
”اٹس اوکے۔۔۔“ وہ نرمی سے بولا اور دوبارہ اپنی کتاب کی طرف متوجہ ہوگیا۔
اسے یہاں آئے دو ہی دن ہوئے تھے۔۔۔جہاں تک اس کے علم میں تھا حانم اور روحان کی کوئی بیٹی نہیں تھی تو پھر یہ کون تھی؟؟ وہ تھوڑا الجھا لیکن پھر سے کتاب کی جانب متوجہ ہوگیا۔
”میں منحہ ہوں۔۔۔منحہ حارث۔۔۔ ماہم کی بیٹی۔۔۔ آپ سے میرا ڈبل رشتہ ہے لیکن پہلی بار آپ سے مل رہی ہوں۔۔۔“
وہ اب صوفے پر آکر بیٹھ گئی تھی۔
منحہ دراصل حانم کی چھوٹی بہن ماہم اور حارث کی بیٹی تھی۔۔۔ وہ ایک ڈرماٹولوجسٹ تھی اور کسی ورکشاپ کے سلسلے میں لندن آئی تھی۔۔ پچھلے دو دنوں سے وہ شہر سے باہر گئی تھی۔۔۔آج ہی واپس آئی تھی۔
دائمہ اور وہ دونوں بیسٹ فرینڈز تھیں۔۔۔ دائمہ سے وہ ادھم کا سن چکی تھی لیکن بچپن میں اسے دیکھا تھا آج جب سالوں بعد دیکھا تو پہچانا ہی نہیں۔۔۔
”میں خود بہت سارے رشتےداروں سے پہلی بار مل رہا ہوں۔۔۔“ اس نے کتاب سے نظریں نہیں ہٹائیں۔ وہ اپنے ننھیال کی فیملی سے کافی دور تھا۔۔ کبھی آنا جانا ہوا ہی نہیں۔۔۔
”میں نے بہت کم مردوں کو کتابیں پڑھتے دیکھا ہے۔۔۔“
وہ اسے دیکھ رہی تھی۔۔ اسے اچھا لگ رہا تھا۔۔۔
”اور میں نے بہت ساری لڑکیوں کو اپنی جانب یوں گھورتے پایا ہے۔۔۔“ وہ بولا تو منحہ سٹپٹا کر رخ موڑ گئی۔۔۔۔
پھر وہ بنا کچھ کہے اٹھی اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے اوپر چلی گئی۔
”آنی کو مجھے بتانا چاہیے تھا۔۔۔بلکہ میں نے بھی تو آنی کو نہیں بتایا۔۔۔“
وہ اب بےچینی سے کمرے میں ٹہل رہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس کے قریب آئی اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔ لڑکی ہاتھ میں چاک پکڑے ہیجانی کیفیت میں دیوار پر اسکیچ بنا رہی تھی۔۔ ایمان نے غور کیا تو وہ ایک کپل تھا۔۔ اور ان کے ساتھ ایک چھوٹی سی بچی۔۔۔ دیوار پر جگہ جگہ عجیب سے اسکیچز تھے۔۔۔
ایک جگہ گاڑی الٹی پڑی تھی۔۔۔ ایک جگہ بچی اکیلی تھی۔۔ ماں باپ مرے ہوئے تھے۔۔۔
لڑکی کا نام باریشہ تھا اور وہ ہسپتال کے آنر کی نواسی تھی اکلوتی نواسی۔۔ ان کی اکلوتی بیٹی اور داماد کا روڈ ایکسڈنٹ میں انتقال ہوچکا تھا۔۔۔
باریشہ نے بچپن میں یہ حادثہ دیکھا تھا اس نے اپنی ساری عمر باہر گزاری تھی۔۔۔
وہ باغی لڑکی تھی اور اپنے نانا کی کم ہی سنتی تھی۔
وہ امریکا سے پڑھی تھی وہاں غلط کمپنی میں پڑ کر اسے ڈرگز کی لت لگ چکی تھی۔
اس نے دیوار پر اب اسکیچ بنایا تھا ایک اکیلی لڑکی۔۔ ڈری سہمی دیوار کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔۔۔
باریشہ نے ایمان کی موجودگی محسوس کرلی تھی لیکن اس نے اس کی جانب نہیں دیکھا۔۔۔
”ہم سب اکیلے ہیں۔۔۔ کُہرے کے اِس پار اور اُس پار۔۔۔“ وہ بولی تو لڑکی کے حرکت کرتے ہاتھ رکے۔
”ہم اکیلے آئے تھے اور اکیلے ہی جانا ہے۔۔۔“
وہ ڈرگز لے کر گاڑی چلا رہی تھی۔۔ اچانک ایکسڈنٹ ہوا اور ان کا ایک کلاس فیلو کومے میں تھا۔۔۔تب سے باریشہ کی حالت مزید بگڑ گئی تھی۔۔۔ اسے علاج کے لیے بھیجا گیا تھا۔
”ہم سب کسی نہ کسی گلٹ میں جی رہے ہیں۔۔۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے گلٹ کی ذمہداری نہیں لیتے۔۔۔۔ “
لڑکی نے اس بار چونک کر اسے دیکھا۔
”پاگل ہونا آسان ہوتا ہے اور سامنا کرنا مشکل۔۔۔“
باریشہ اب بھنویں سکیڑے اسے دیکھنے لگی۔
”تمہارے یوں پاگل ہونے سے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔۔ نہ وقت واپس پلٹے گا۔۔ نہ یہ ایکسڈنٹ رک سکتا ہے اور نہ یہ۔۔۔“ اس نے دیوار پر بنے دونوں اسکیچز پر انگلی رکھ کر کہا۔
”اور تم ہمیشہ ایسے ہی رہو گی کوئی تمہاری مدد کو نہیں آئے گا اگر تم نے خود اپنی مدد نہیں کی۔۔۔“
اس نے اب تازہ تازہ بنائے اسکیچ پر انگلی رکھی۔
”تم بزدل ہو۔۔۔“
لڑکی نے اس بار کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا۔
”میں یہاں آئی ہی کیوں ہوں۔۔۔“
وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ لڑکی ویسے ہی بیٹھی رہی۔۔۔
”دس ماہ پہلے میں اس کمرے میں تھی۔۔۔ لیکن میں نے آگے بڑھ کر اپنی زمہ داری لی۔۔۔“ وہ دروازے کے قریب پہنچ کر رکی۔
لڑکی نے اس بات چیئر گھما کر اس کی جانب رخ کیا۔۔۔وہ خود وہیل چیئر پر تھی۔۔۔ حادثے میں اس کا اپنا نقصان ہوا تھا۔۔۔آواز پر ایمان نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔
وہ کرسی پر بیٹھی تھی۔۔ اکیلی۔۔۔۔ وہ چل نہیں سکتی تھی۔۔۔اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔۔۔
جانے کیوں جب ہم طاقت ور ہوتے ہیں تو اللہ کو بھول جاتے ہیں؟؟؟
”انسان اپنے ساتھ خود ظلم کرتے ہیں۔۔۔۔ وہ اپنی تباہی خود چنتے ہیں۔۔۔اور پھر سارے الزام خدا پر ڈال دیتے ہیں۔۔“
ایمان نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑتے کہا۔
”جانتی ہو میں آج تمہاری جگہ کیوں نہیں ہوں؟؟ کیونکہ میں نے خدا پر الزام نہیں ڈالا۔۔ میں نے آگے بڑھ کر اپنی زمہ داری لی۔۔۔ میں چاہتی ہوں تم آگے بڑھ کر اپنی زمہ داری لو۔۔۔“
یہ پہلا کیس تھا جو ایمان نے ہینڈل کیا تھا۔۔۔آنر نے اسے جاب آفر کی تھی۔۔
اور آج وہ اس ہسپتال میں ایڈمن کی زمہ داری کے ساتھ ساتھ ایک ہیلر کی زمہ داری بھی نبھا رہی تھی۔۔۔
وہ روزانہ تقریباً سبھی پیشنٹس سے ملتی تھی۔۔ ان سے باتیں کرتی ان کی سنتی تھی۔۔۔
ہسپتال کے ماحول میں کافی بدلاؤ آیا تھا کیونکہ وہاں اب ایک Healer موجود تھی۔
✿••✿••✿••✿
کھانے کے بعد چائے کا دور چلا تو حمیزہ نے ٹی وی آن کردیا۔۔۔ کوئی ٹاک شو چل رہا تھا جہاں مذہبی اور سماجی شخصیات بیٹھی تھیں۔ ہوسٹ نے لائیو کسی مشہور شخصیت کو لیا تھا۔۔
”ہمارے ساتھ موجود ہیں ینگ ٹیلنٹ حاد جبیل۔۔۔نوجوان نسل کے راہنما۔۔۔ آئیے ان سے کچھ سوالات کرتے ہیں۔۔۔“
وہ چائے پیتے پیتے چونک گئی۔
”امی یہ دیکھو حاد جبیل۔۔۔یہ وہی ہیں جن کی باتیں میں آپ کو سناتی ہوں۔۔۔“
وہ اسے دیکھ رہی تھی جانے کتنے دنوں مہینوں بعد کچھ یاد نہیں تھا۔۔۔ دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔
وہ ازلی حلیے میں تھا۔۔۔ایک دم فٹ اور صاف شفاف۔۔۔
کچھ دیر ڈسکشن ہوتی رہی۔۔۔ بات مذہب پر آئی تو ایک سکالر بول پڑے۔۔
”یہ کیا بتائیں گے مذہب کے بارے میں۔۔ خود باہر سے پڑھ کر آئے ہیں۔۔ اسلام کا رخ بدل دیا ہے اس نے۔۔۔جانے نوجوان نسل کو کونسا اسلام دکھا رہے ہیں۔۔۔ میری سب سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی اسلام کو اسلام ہی رہنے دیں۔۔۔“ وہ سکالر حاد سے کافی خفا لگ رہا تھا۔۔۔
اس کی بات سن کر اسکرین پر ابھرتا حاد ہولے سے مسکرادیا۔۔۔ اس کی مسکراہٹ کتنی دلکش تھی۔۔۔ وہ چشمہ لگائے بیٹھا تھا۔۔ اس نے شو کو اپنے آفس سے ہی لائیو جوائن کیا تھا۔۔ شرٹ کے کف فولڈ تھے جو کہنیوں سے ذرا نیچے تھے۔۔۔ وہ دونوں ہاتھوں کو جوڑے ان پر ٹھوڑی ٹکائے بیٹھا تھا اور مسکرا رہا تھا۔۔۔ وہ بہت کم مسکراتا تھا۔۔۔ پھر آج کیوں؟؟
ایمان کو حیرانی ہوئی۔۔
”مولانا صاحب۔۔۔ میں باہر سے باہر کی نہیں بلکہ اسلام کی پڑھائی کرکے آیا ہوں۔۔صرف دین نہیں ادیان کی۔۔۔ میں نے پی ایچ ڈی کی ہے theology میں۔۔۔ اور میں کوئی راہنما نہیں ہوں اور نہ اسکالر ہوں۔۔میں بس ایسا فلیٹ فارم بنا رہوں جہاں نوجوان نسل دین کو بنا کسی رکاوٹ کے جان سکے۔۔۔ انہیں تعلیمی اداروں میں جو نہیں سکھایا جارہا میں وہ سکھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔“
اس نے تحمل سے جواب دیا۔
”اچھا مسٹر حاد جبیل آپ سے ایک سوال ہے۔۔ آپ نے شروع میں ایک اسپیشل اسکول بنانے کا کہا تھا اب آپ نے لاہور اور اسلام آباد میں سلفائیٹس اکیڈمی کے نام سے ادارے بنائے ہیں ان کا کیا کام ہے؟؟ اور ان کو بنانے کی وجہ؟؟“ ہوسٹ نے سوال پوچھا۔
”جیسے ابھی مولانا صاحب نے کہا کہ میں باہر سے پڑھ کر آیا ہوں۔۔۔ بیسیکلی جب میں یہاں آیا تو مجھے یہاں کا تعلیمی نظام اس لیول کا نہیں لگا جہاں ہم مسلمان بچوں کو پریزنٹ دنیا کا رخ دکھا سکیں۔۔ ہماری نوجوان نسل نے انگریزوں سے سب کچھ سیکھ لیا ہے ان کا کلچر اپنا لیا ہے لیکن یہاں تالا لگا لیا ہے۔۔۔“ اس نے کنپٹی کی جانب اشارہ کیا۔
”وہ اسکول کالج یونیورسٹی جا تو رہے ہیں لیکن صرف ڈگری لینے۔۔۔ دین تو دور ہے یہاں پر دنیا کو فیس کرنا بھی نہیں سکھایا جاتا۔۔ بس ایک مقصد ہے امیر بننا ہے۔۔۔ اسٹینڈرڈ کی لائـف جینی ہے۔۔۔۔اور کچھ نہیں رہ گیا ہے۔۔۔میں نے جو اکیڈمی بنائی ہے میں وہاں دین اور دنیا دونوں کو ایک الگ طریقے سے لے کر چلنا چاہتا ہوں۔۔ اور اس ادارے کا نام سلفائیٹس اکیڈمی صرف اسی لیے ہے کہ اسے صرف وہی لوگ جوائن کریں گے جو سلفائیٹس ہوں گے۔۔۔ جنہیں سوچ کی فکر ہوگی۔۔۔جنہیں احساس ہوگا۔۔۔جنہیں کھوج کرنی ہے۔۔۔ دنیا کی۔۔۔ اپنی۔۔۔خدا کی۔۔۔ جنہیں کائنات کو تسخیر کرنا ہے۔۔۔اور وہ سب لوگ جو عام لوگوں کی دنیا میں پھنس چکے ہیں۔۔۔جنہیں ایک الگ جہاں بنانا ہے۔۔۔۔میں سب کو دعوت دیتا ہوں۔۔ آپ اسے جوائن کر سکتے ہیں۔۔۔۔ اپنے سکول کالج اور یونیورسٹی کے بعد آپ یہاں آ سکتے ہیں۔۔۔ یہ آپ کے لیے ہے اگر آپ سلفائیٹ ہیں۔۔۔“ وہ کیمرے پر نظریں گاڑھے ہوئے تھے۔۔۔اس کی گرے آنکھوں میں انوکھی چمک تھی۔۔۔۔ایمان کو اپنا دل تیزی سے دھڑکتا محسوس ہوا۔۔۔جیسے وہ اسے ہی بلا رہا ہو۔۔۔۔ جیسے اسے ہی پیغام دیا جا رہا ہو۔
✿••✿••✿••✿
اگلی صبح وہ دونوں پرنسپل کے آفس میں تھے۔۔۔ حاد ایک جانب خاموش کھڑا تھا جبکہ عبدل اسے کھاجانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔
”میں نے تمہیں منع کیا تھا نا کہ اسکول میں ڈرگز لے کر مت گھومو۔۔۔“
عبدل باز نہیں آیا تھا اور حاد چپ بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھا اس لیے اس نے پرنسپل کے آفس اس کی کمپلین کردی تھی۔
اب عبدل اسے یوں گھور رہا تھا جیسے کچا چبا جائے گا۔
اس کی تلاشی لینے پر کچھ نہیں ملا تھا۔ لیکن پرنسپل جانتی تھی حاد جھوٹ نہیں بولتا تھا۔
”ہم ایسے اسٹوڈنٹس کو اپنے اسکول میں نہیں رکھ سکتے جو رولز کو فالو نہ کریں۔۔۔“ وہ اب حاد سے مخاطب تھی۔
”اب ایسا نہیں ہوگا۔۔۔“
وہ Guardian بھی خود ہی بن گیا تھا۔ پرنسپل نے عبدل کو وارننگ دے کر چھوڑ دیا تھا اور اپنے پیرنٹس کو لانے کا کہا تھا۔۔ حاد نے معذرت کی تھی اور یقین دلایا تھا نیکسٹ ایسا نہیں ہوگا۔
وہ دونوں اکٹھے ہی آفس سے باہر نکلے تھے۔۔۔عبدل ایک لفظ نہیں بولا تھا۔۔۔ کچھ دور چلنے کے بعد عبدل نے گھما کر اسے لات ماری۔۔۔
حاد لڑکھڑا گیا۔۔۔ اس کے جبڑے بھنچ گئے۔۔۔وہ جانتا تھا یہ تو ہوگا۔۔
”اب مل گیا تمہیں سکون؟؟“ وہ غصے سے چلایا۔
”میں نے تمہیں وارننگ دی تھی کہ یہ غلط ہے۔۔۔ مت کرو۔۔۔“
”وہ صرف ایک شرط تھی۔۔۔تمہیں کیا تکلیف ہے مجھ سے۔۔۔“ عبدل غصے سے چلایا۔۔۔اس کا دل کر رہا تھا حاد کا گلا دبادے۔
”تمہاری جگہ کوئی بھی ہوتا تو میں ایسا ہی کرتا۔۔۔“ وہ کسی لکڑی کی طرح سیدھا کھڑا تھا۔۔ سرد سپاٹ تاثرات سے عاری چہرہ۔
”لیکن میں کوئی نہیں ہوں۔۔“ عبدل نے تاسف سے کہا۔
”رولز آر رولز۔۔۔ وہ سب کے لیے سیم ہوتے ہیں۔۔۔“ وہ ویسے ہی کھڑا رہا۔
”کاش ڈیڈ کی جگہ تم چلے جاتے، تم مرجاتے اور کبھی واپس نہ آتے۔۔۔“ وہ اس کے قریب آیا اور نفرت آمیز لہجے میں اس کے کان کے قریب سرگوشی کی۔
حاد کا دل ڈوب کر ابھرا۔۔۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں سکڑیں اور پھیلیں۔۔۔لیکن چہرہ ویسا ہی رہا۔۔۔ سردسپاٹ سا۔۔۔۔
”آئی ہیٹ یو۔۔۔“ وہ غصے سے کہتا پلٹ گیا۔۔۔اب وہ تیز بھاگ رہا تھا اور آہستہ آہستہ اس کی نظروں سے دور ہوتا گیا۔
✿••✿••✿••✿
”میں نے تمہیں کہا تھا نا میری میٹنگ ہے۔۔تم گھر چلی جانا۔۔۔“ حمیزہ پھر سے وہاں موجود تھی۔۔۔حاد کی باتیں سننے کے بعد اس نے ای میل کا ریپلائے کردیا تھا اور آج شام پانچ بجے میٹنگ رکھی تھی۔۔۔چار بج چکے تھے۔۔۔وہ بس نکلنے لگی تھی کہ حمیزہ وہاں پہنچ گئی۔
”مجھے بھی وہاں ایڈمیشن لینا ہے اور مجھے حاد جبیل سے بھی ملنا ہے۔۔۔“ اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔۔ ایمان اسے منع نہیں کر پائی۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں گاڑی میں بیٹھی تھیں۔۔۔ اور گاڑی کا رخ اس ادارے کی جانب تھا جس کی بنیاد حاد جبیل نے رکھی تھی۔۔۔
گاڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔۔۔ہوا میں خنکی تھی اور دھند پڑنا شروع ہوگئی تھی۔
وہ تیزی سے پیچھے چھوٹتے نظاروں کو دیکھ رہی تھی جب تھک گئی تو آنکھیں موندھ لیں۔۔۔
اس کی زندگی بہت تیز چلی تھی۔۔۔ غیر متوقع موڑ آئے تھے۔۔۔وہ خود نہیں جانتی تھی وہ کہاں جارہی تھی لیکن اس نے سب اللہ پر چھوڑ دیا تھا۔۔۔
تخلیق کی ندی میں بہنا یہی ہوتا ہے کہ اللہ پر توکل کیا جائے۔۔۔۔ یقین رکھا جائے کہ وہ جو کرتا ہے بہترین کرتا ہے اور صحیح نیت سے کوشش کی جائے۔۔۔اپنا سو فیصد دیا جائے اور رزلٹ اللہ کے حوالے کر دیا جائے۔۔۔
اور اب وہ ایسے ہی کرتی تھی۔۔۔آہستہ آہستہ اس کی زندگی جہاں ڈگر پر آگئی تھی وہیں عجیب و غریب موڑ لے رہی تھی جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔
وہ کبھی کبھی لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے عزت دیکھ کر ڈر جاتی تھی۔۔۔ اللہ نے لوگوں کے دلوں میں جانے اس کا کیا مقام ڈال دیا تھا۔۔ ڈاکٹر علوی ایک جانا مانا ماہر نفسیات تھا اور جس ہسپتال میں وہ کام کرتی تھی اس کے مالک کا دوست بھی تھا۔۔۔ وہ ہفتے میں ایک بار وہاں سیشن لینے جاتی تھی جہاں خاص طور پر لڑکیاں تھیراپی کے لیے آتی تھیں۔۔۔
وہ سب اسے کسی دوسری دنیا سے آئی مخلوق سمجھنے لگے تھے۔۔۔ وہ کہتے تھے ”اس کے الفاظ مرہم کا کام کرتے ہیں“ہیں تبھی اس کو ہیلر کا نام دے دیا گیا تھا۔۔۔
ہسپتال کا پورا عملہ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔۔۔۔
کیا ہوا تھا اگر وہ اسے اس کی چاہت نہیں ملی تھی، کیا ہوا اگر اسے ماثیل دی بت ساز نے ”پیسے لے کر محبت کرنے والی لڑکی“ کہا تھا۔۔۔کیا ہوا تھا اگر اسے طلاق ہوگئی تھی۔۔اور کیا ہوا تھا اگر اس کی ماں نے اسے بےایمان کہا تھا۔۔۔ کیا ہوا تھا اگر وہ پاگل ہوگئی تھی۔۔۔ کیا ہوا تھا اگر یہ سب ہوا تھا۔۔۔۔
اس سب کے بدلے میں جو اسے ملا تھا وہ سو گنا زیادہ تھا۔۔۔وہ ایک اچھے اپارٹمنٹ میں رہ رہی تھی۔۔۔ ماں کا خیال رکھ رہی تھی۔۔۔اپنا کما رہی تھی۔۔۔ ایک اچھی زندگی گزار رہی تھی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر اسے ہیلر کہا گیا تھا۔۔۔۔ وہ لوگوں کے زخم بھرتی تھی۔۔۔۔وہ انہیں کُہروں سے کھینج لانے کا ہنر رکھتی تھی۔۔۔
اور ایسا اس لیے ہوا تھا کہ اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر زمہ داری لی تھی۔۔۔۔
بس انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر خدا اس کو آزما رہا ہے تو ضرور کچھ نہ کچھ عطا کرنا ہوگا۔۔۔
کیونکہ یہ دنیا کسی کہانی سے کم نہیں ہے۔۔۔اور مشکل رول بڑے کرداروں کو ہی ملتے ہیں۔۔۔۔۔
جتنا بڑا کردار ہوگا اتنا ہی مشکل اس کا رول ہوگا۔
✿••✿••✿••✿
اکیڈمی کی عمارت کافی اونچائی پر بنی تھی۔۔یہ نسبتاً پرسکون جگہ تھی آبادی سے تھوڑا دور۔۔۔۔
”میڈم کتنا ٹائم لگے گا میری وائف کی طبیعت خراب ہے مجھے ذرا جلدی پہنچنا ہے گھر۔۔۔“ ڈرائیور ذرا پریشان تھا۔
”آپ چلے جائیں ہم خود آجائیں گے۔۔۔“ ایمان نے اسے جانے کا کہا۔۔۔گاڑد نے گیٹ کھول دیا اور دونوں اندر داخل ہوگئیں۔
”واؤ۔۔“ حمیزہ نے اندر داخل ہوتے ہی چلا کر کہا۔ دور دور تک سبزہ ہی سبزہ تھا۔۔۔ کافی بڑا گراؤنڈ تھا۔۔۔درخت ہی درخت لگے تھا۔۔۔ دیوار زیادہ اونچی نہیں تھی البتہ سیکیورٹی سخت تھی۔۔۔چاروں جانب پہاڑ نظر آرہے تھے اور کافی فاصلے پر اکیڈمی کی عمارت نـظر آرہی تھی۔
”میں ادھر ہی ہوں آپ جائیں میٹنگ کریں۔۔۔“
وہ گھومتے ہوئے بولی تو ایمان اسے وہیں چھوڑ کر گارڈ کو اس کا دھیان رکھنے کی ہدایت کرتے عمارت کی جانب بڑھ گئی۔۔۔
وہ مسٹرڈ کلر کا کھدر کا موٹا سوٹ پہنے ہوئے تھی۔۔۔ لمبی قمیص اور کھلا ٹراؤذر۔۔۔ ہم رنگ اسکارف تھا۔۔ پاؤں اسنکیرز میں قید تھے اور اسکن اوور کوٹ پہنے ہوئے وہ بیگ تھامے پتھریلی روش پر چلتی جارہی تھی جو دھند پڑھنے کے باعث گیلی ہوچکی تھی۔۔۔
ایک شروعات کی تھی اس نے سالوں پہلے ماثیل انسٹیٹیوٹ جوائن کرکے۔۔۔
اور آج پھر وہ ایک انسٹیٹیوٹ آئی تھی۔۔۔ ایک نئی شروعات ہونے جارہی تھی۔۔۔
پہاڑوں کی فضا میں ایک عجب سا شور تھا۔۔ جیسے ہوائیں سرگوشیاں کر رہی ہوں۔۔۔ کسی داستاں کے آغاز کی۔۔۔
سامنے ہی عمارت کی سب سے اوپری منزل پر وہ اپنے آفس میں تھا۔۔۔ آئینے کے سامنے کھڑا وہ اپنی شرٹ کے بٹن بند کر رہا تھا۔۔۔
”مسٹر جبیل وہ آگئی ہے۔۔۔!!“
کمرے میں آواز گونجی اور اسے اپنے سینے میں دل رکتا ہوا محسوس ہوا تھا۔

6 Comments

  1. Maseel novel complete kb ho ga

    ReplyDelete
  2. Maseel ki next episode kb tk aaye gi?

    ReplyDelete
  3. Dear Readers, Maseel Episode 50 has been uploaded

    ReplyDelete
  4. ا اتنا اعلی دماغ ماشاءاللہ اللہ تعالی مجھے بھی اپنی رحمت قبول فرمائے امین ثم امین اپ کو پتہ ہے کہ

    ReplyDelete
  5. ا اتنا اعلی دماغ ماشاءاللہ اللہ تعالی مجھے بھی اپنی رحمت قبول فرمائے امین ثم امین اپ کو پتہ ہے کہ

    ReplyDelete
  6. Its really a best novel

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post