Maseel Episode 48 by Noor Rajput

 

Maseel novel episode 48

مـــاثـیــــــل (قصہ بُت سازوں کا)
قسط_نمبر_48
نور_راجپوت
”وہ صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک آفس ہوتی ہے، آفس کے بعد ہفتے میں چار دن وہ یونیورسٹی جاتی ہے۔ ایک دن وہ ڈاکٹر علوی کے کلینک پر سیشن لیتی ہے۔۔ باقی دو دن وہ گھر پر گزارتی ہے۔۔“
کمرے میں اس کی آواز گونج رہی تھی۔
”لگتا ہے کافی مصروف رہتی ہیں محترمہ۔۔۔“
وہ اسکرین پر نـظریں جمائے ہولے سے بڑبڑائے۔
”رات بارہ بجے کے بعد اس کے موبائل کی اسکرین آف ہوجاتی ہے۔اس کے بعد وہ فون یوز نہیں کرتی۔۔“ اسسٹنٹ اے آئی اسے پوری تفصیل دے رہی تھی۔
”اس کی پرائیویسی میں انٹرفیئر مت کرنا۔۔“ اس کا انداز حکمیہ تھا۔ چشمے کے پیچھے سے چمکتی گرے آنکھیں اسکرین پر جمی تھیں۔ وہ کوئی پریزنٹیشن تیار کر رہا تھا۔
”بالکل بھی نہیں۔۔آپ نے جو کام مجھے دیا ہے میں بس وہی کر رہی ہوں۔۔۔“
”گڈ۔۔“ اس کی بات سن کر وہ پھر سے بڑبڑایا۔
”از شی وزٹنگ اینی ہاسپٹل ریگولرلی؟؟ (کیا وہ کسی ہسپتال باقاعدگی سے جارہی ہے؟؟)“ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
”ہاں ڈاکٹر علوی کے۔۔۔“
”کیا وہ وہاں اپنے چیک اپ کے لیے جاتی ہے؟؟“ اس کی بھنویں سکڑ گئیں۔
”او نو۔۔۔ وہ اپنے چیک اپ کے لیے کسی بھی ہسپتال نہیں جارہی۔۔۔ وہ اب صحت یاب ہے۔۔۔“
یہ بات سن کر اس کے چہرے کے تنے مسلز جیسے ریلیکس ہوگئے۔
”ٹھیک ہے انہیں ای میل کردو۔۔۔ میری طرف سے۔۔۔ انہیں سلفائیٹس اکیڈمی کا بتاؤ اور کہو کہ ہم انہیں اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔۔“
آخر کار وہ وقت آہی گیا تھا۔۔۔ ایک سال۔۔ بارہ مہینے۔۔۔ تین سو پینسٹھ دن۔۔ آٹھ ہزار سات تو ساٹھ گھنٹے اور پانچ لاکھ پچیس ہزار چھ سو منٹ۔۔۔۔ اس نے انتظار کیا تھا۔۔۔اور پورا ایک سال وہ کبھی جان بوجھ کر یا انجانے میں اس کے سامنے نہیں گیا تھا۔۔ ہاں اسکرین پر نظر آگیا ہو تو وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔ ایک سال اس نے جبیل خاندان کو اس سے بہت دور رکھا تھا تاکہ وہ ٹھیک ہو سکے۔۔۔ اب وہ ٹھیک ہوچکی تھی۔۔۔ وہ اس کی توقعات سے بڑھ کر مضبوط بن چکی تھی۔۔۔اور یہی صحیح وقت تھا کہ اسے صحیح جگہ پر لایا جاتا۔۔۔۔ ایک سال بعد اس نے خود رابطہ کیا تھا۔۔۔
سلفائٹس اکیڈمی کے آنر ہونے کی ناطے سے۔۔ ناکہ حاد جبیل کے ناطے سے۔۔۔۔
اس نے پریزنٹیشن پر آخری نظر ڈالی اور شیٹ بند کرکے کرسی سے پشت ٹکادی۔
”مسٹر جبیل۔۔۔“ آواز پھر سے گونجی۔
”یہ نئے فریم والا چشمہ آپ پر کافی سوٹ کر رہا ہے۔۔۔“
وہ جو آنکھیں موندھے لیٹا تھا زیرلب مسکادیا۔ کھلی کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا اندر آرہی تھی۔۔۔۔ اور وہ اکیلا آنکھیں بند کیے مسکرا رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
وہ پیک اپ کر رہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی اور پھر اگلے ہی لمحے دروازہ جھٹکے سے کھل گیا۔
”آپی میں آگئی۔۔۔“ حمیزہ پرجوش سی کمرے میں داخل ہوئی۔ کندھے پر بیگ لٹکائے وہ سامنے ہی کھڑی تھی۔
سفید یونیفارم پہنے، اونچی پونی ٹیل کیے وہ مسکراتے چہرے سمیت وہاں تھی۔
”آفت۔۔۔“ ایمان زیرلب بڑبڑائی۔
”آج آپ نے یونیورسٹی نہیں جانا تو میں نے سوچا اکٹھے گھر چلتے ہیں۔۔۔“ وہ اپنی شال کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”ہاں بس پانچ منٹ ویٹ کرو پھر چلتے ہیں۔۔۔“ ایمان نے کہا تو حمیزہ گھوم پھر کر اس کا آفس دیکھنے لگی۔۔ وہ وہاں اکثر آتی رہتی تھی۔۔ اسکا کالج پاس ہی تھا اور جب اس کا دل کرتا تھا وہ ایمان کے پاس آجاتی تھی۔۔۔
”میں جب بھی اس کمرے کو دیکھتی ہوں ہر بار کچھ نیا محسوس ہوتا ہے۔۔“ وہ ایکویریم پر جھکی ہوئی تھی۔
”ہر بار یہ کمرہ ایک نئی کہانی سناتا ہے۔۔۔“ وہ آرٹسٹ تھی۔۔۔ میزون کے نام سے پیٹنگ کرتی تھی۔ اس کے اسکیچز کافی مشہور تھے۔
”تو اب کیا سنائی دے رہا ہے تمہیں۔۔۔؟؟“ ایمان نے ایک سرسری سی نظر اس پر ڈالتے پوچھا جو گہری نظروں سے پانی میں تیرتی مچھلیوں کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے ایکویریم کو ہاتھ سے چھوا۔۔۔ پھر وہ سیدھی ہوئی اور اس نے گلاس ونڈو سے باہر جھانک کر دیکھا۔۔۔ دن میں بارش ہوئی تھی اور اب باہر شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔۔۔ ونڈو پر بارش کے چند قطرے ابھی بھی نظر آرہے تھے۔ اس نے وندو کے گلاس کو ہاتھ سے چھوا۔۔۔۔ وہ جانے کیا محسوس کر رہی تھی۔۔۔پھر وہ شیلف کی جانب بڑھی۔۔۔ وہاں رکھی کیندل کو غور سے دیکھا۔۔۔
”کچھ محسوس ہورہا ہے۔۔۔“ وہ ایک ایک چیز کو غور سے دیکھ رہی تھی۔
”کیا۔۔۔؟؟“ ایمان نے لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن کرتے پوچھا۔
”درد۔۔۔۔ دکھ۔۔۔گہرا دکھ۔۔۔ جیسے کوئی رو کر گیا ہو۔۔۔“
اور لیپ ٹاپ کو بند کرتے اس کے ہاتھ جیسے ساکت ہوگئے۔۔۔ اس نے جھٹکے سے حمیزہ کو دیکھا۔۔۔ وہ ٹین ایج لڑکی تھی۔۔ لیکن وہ بہت حساس تھی۔۔۔ اس نے جو کچھ سہا تھا اس چھوٹی سی عمر میں ایمان اس سے واقف تھی۔۔۔وہ ہمیشہ اسے کہتی تھی۔
”میزو اپنی عمر میں رہو۔۔۔اسے جیو۔۔۔ اس سے بڑی مت بنو۔۔۔“
اور حمیزہ اس کی بات پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتی تھی۔۔۔ لیکن وہ چاہ کر بھی اپنے احساسات سے پیچھا نہیں چھڑا پاتی تھی۔ اور ابھی بھی اس نے ایمان کو حیران کر دیا تھا وہ تو کچھ بول ہی نہ پائی۔
”میرا خیال ہے مجھے آپ کے اس آفس کو پینٹ کرنا چاہیے۔۔۔“ اب وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔
”اور کتنی بار پینٹ کرو گی؟؟“ اس نے اپنا بیگ اٹھاتے پوچھا۔
”جب جب نئی کہانی ملی۔۔۔کچھ نیا محسوس ہوا تب تب۔۔۔“ وہ اب مسکرا رہی تھی۔۔ وہ اب بالکل نارمل تھی۔
”مس ام ایمان کیا آپ میزون دی آرٹسٹ کو اپنا آفس پینٹ کرنے دیں گی۔۔۔؟؟“ اس نے بڑے احترام اجازت چاہی۔
”ہرگز نہیں۔۔۔“ وہ انکار کرتی دروازے کی جانب بڑھی۔ حمیزہ تو اس کے انکار پر حیران ہی رہ گئی۔۔۔
”آپی۔۔۔“ وہ اس کے پیچھے لپکی۔
”نو نیور۔۔۔“ وہ دونوں اب لمبی راہداری میں چل رہی تھیں۔۔۔دونوں جانب آفسز بنے تھے۔ حمیزہ کو ہسپتال کا سارا اسٹاف جاننے لگا تھا۔۔ وہ چلبی سی لڑکی اکــثر وہاں آتی تھی۔۔ ایمان جب تنگ آکر اسے اپنے آفس سے نکال دیتی تو وہ باہر گھومنے لگتی۔۔۔
کسی نرس کو کوئی مفت مشورہ دیتی تو کسی صفائی والے کو ایک خاص پوز بنا کر جھاڑو لگانے کا کہتی۔۔۔
”دیکھیں میں بہت اچھے طریقے سے اجازت مانگ رہی ہوں۔۔۔“ وہ اب احتجاج کر رہی تھی۔
”اچھے طریقے سے میں تمہیں منع کرچکی ہوں۔۔۔“
”آرٹ انسان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔۔۔“
چند سالوں پہلے کہا گیا ماثیل کا جملہ اس کی سماعت سے بار بار ٹکرا رہا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی حمیزہ پوری طرح آرٹ میں کھو جائے۔۔۔ وہ جانتی تھی حمیزہ آرٹ سے دور نہیں رہ سکتی تھی بالکل ویسے ہی جیسے وہ لکھنے سے باز نہیں آسکتی تھی۔۔۔ لیکن وہ یہ بات جانتی حیمزہ کو سمجھانا چاہتی تھی کہ آرٹ کو زندگی کا ایک حصہ ہونا چاہیے پوری زندگی نہیں۔۔۔۔
”افلاطون کا کہنا تھا کہ آرٹ ہمارے جذبات سے کھیلتا ہے نہ کہ عقل سے۔ اور افلاطون کی نظر میں عقل انسانی روح میں سب سے اونچا درجہ رکھتی ہے اور اسے ہمیشہ انسان کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ ان کے خیال میں آرٹ ایک مسئلہ تھا کیونکہ یہ ہمارے جذباتی حصے کو نمو دیتا تھا۔ ان کو دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ان کی نظر میں آرٹ تصور کو اصل کر کے دکھانے کی کوشش کرتا تھا۔ اور ایسا کرنا سچ کی تلاش میں رکاوٹ تھا۔افلاطون اس بارے میں اس قدر شدید جذبات رکھتے تھے کہ وہ بڑے پیمانے پر سنسرشپ اور پابندیوں کے حق میں تھے۔۔۔“ وہ خاموش ہوگیا۔ اب اسکی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ پتا ہے افلاطون کی یہ آرٹ پر یہ پابندیاں کیا ظاہر کرتی ہیں۔۔۔“
وقت کی کتاب نے اپنے پنے تیزی سے پلٹے۔۔۔ایمان نے راہداری سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو ماثیل انسٹیٹیوٹ میں پایا تھا۔
”آرٹ طاقتور ہے۔۔۔!!“ ماثیل کی سرگوشی اسے اپنے بہت قریب سے سنائی دی یوں جیسے وہ اس کے قریب کھڑا ہو۔
”آپی۔۔۔“ حمیزہ کے احتجاجاً چلانے پر وہ جیسے ہوش میں آئی۔۔۔
”ہں۔۔ہاں۔۔۔“ وہ ٹھٹک کر رکی۔۔۔ نظریں دوڑائیں تو خود کو ہسپتال میں پایا۔۔۔۔ اس کی امجینیشن پاور بہت اسٹرونگ ہوگئی تھی۔۔۔وہ جیسے پل بھر میں کئی اور پہنچ جاتی تھی۔۔ اسے ماضی یاد تھا۔۔ بھولا نہیں تھا البتہ اسے ماضی ایفیکٹ نہیں کرتا تھا۔
”کہاں گم ہوجاتی ہیں آپ؟؟“ وہ اس کے پیچھے کھڑی تھی۔
”میں بس کچھ سوچ رہی تھی۔۔۔“ وہ خود پر قابو پوتے ہولے سے مسکرائی۔ حمیزہ فاصلہ ختم کرتے اس کے قریب آئی۔
”ایک شرط پر میں آپ کی بات مان سکتی ہوں۔۔ میں آپ کے آفس کو پینٹ نہیں کروں گی۔۔۔پر اس کے بدلے آپ کو مجھے کچھ بتانا ہوگا۔۔۔“ وہ دونوں اب پھر سے چلنے لگی تھیں۔
”انکل۔۔۔ میں نے آپ سے کہا تھا ڈانس کرتے ہوئے صفائی کیا کریں۔۔۔“ اس کی نظر ایک ورکر پر پڑی تھی۔۔ حمیزہ کی بات سن کر وہ ساٹھ سالا کمزور سا آدمی جھینپ گیا۔
”ارے آپ شرما رہے ہیں۔۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔۔۔ محسوس کریں کہ آپ کسی پہاڑ پر ہیں اور راستے سے پتھر ہٹا رہے ہیں۔۔ دیکھیں آپ کا کام کتنا آسان ہوجائے گا۔۔“
اس کی آواز پوری راہداری میں گونج رہی تھی۔
”میزو۔۔۔“ ایمان نے گہرا سانس لیتے اسے پکارہ۔
”چلیں چلیں بس ہوگیا۔۔۔“ وہ شرارت سے مسکراتی پھر سے چلنے لگی۔
”آپ کا اکاروس کے بارے میں کیا خیال ہے؟؟“ اچانک ہی اس نے سوال کیا۔
”لکھنے میں إکاروس ہے اور بولنے میں اکریس۔۔۔ جو کسی حد کو نہیں مانتا تھا۔۔۔“
وہ دونوں اب ہسپتال سے باہر نکل چکی تھیں۔۔ باہر ڈرائیور کھڑا تھا۔
”وہ جانتا تھا وہ اپنی حدود سے نکلا تو کیا نتیجہ ہوگا۔۔۔لیکن سورج کی تیز چمک نے اونچی اڑان پر مجبور کیا۔۔۔ وہ جانتا تھا واپسی کا سفر کیسا ہوگا۔۔۔وہ سب جانتا تھا۔۔۔ وہ اڑا۔۔۔اور پھر گر گیا۔۔۔ اور گرتے ہوئے وہ ہنس رہا تھا۔۔۔“
✿••✿••✿••✿
”تم لوگوں نے اس نئے اسٹوڈنٹ کو دیکھا۔۔۔ کیا نام ہے اس کا۔۔؟؟ ہاں عبدل۔۔ وہ لمبے بالوں والا۔۔۔ سنا ہے کل اس نے اپن کلاس کے لڑکے کا دانت توڑ دیا تھا۔۔۔ بڑا اٹیٹیوڈ ہے اس میں۔۔“
وہ ہائی اسکول میں نیا نیا داخل ہوا تھا۔۔ وہ ہائی اسکول کے پہلے سال میں تھا۔۔ پہلے ہی ہفتے میں وہ اپنی غصیلی طبیعت اور مار دھاڑ کی وجہ سے مشہور ہوگیا تھا۔۔ فائنل ایئر کے اسٹوڈنٹس اس کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔
وہ سب کلاس روم میں بیٹھے تھے۔۔۔ جبکہ ان کی نظریں ونڈو سے نظر آٹے گراؤنڈ پر جمی تھیں جہاں عبدل اپنی کلاس کے ساتھ فٹ بال کی پریکٹس کر رہا تھا۔۔ ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھا لڑکا عبدل کے ذکر پر چونک گیا۔
”ایسی بات ہے کیا؟؟“ ایک اچھے خاصے نوجوان لڑکے نے سیدھا ہوتے کہا۔۔ اس کی نظریں عبدل پر تھیں۔۔ وہ کافی پھرتیلا تھا۔۔۔۔ کھیلتے وقت اس کا چہرہ پسینے سے شرابور تھا۔۔۔اور دھوپ کی تمازت میں اس کی رنگت سرخ پڑ چکی تھی۔
”سنا ہے اسے پچھلے سکول سے نکال دیا گیا تھا۔۔اور اس نے یہاں آتے ہی اپنی دھاک بٹھادی۔۔“
”چلو چل کر دیکھ لیتے ہیں بچے کو۔۔۔“ یہ غالباً ان کا لیڈر تھا۔۔ جو خباثت سے آنکھ دباتا انہیں اشارہ کرتا کلاس روم سے باہر نکل گیا۔
کچھ فاصلے پر بیٹھے لڑکے نے افسوس سے سر ہلایا۔۔۔ کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کس آفت کو بلانے جا رہے تھے۔
جیسے ہی بریک ہوئی عبدل بھاگتا ہوا ویٹنگ ایریا کی جانب بڑھا۔
”گڈ شاٹ عبدل۔۔۔“ اس کا کوچ اس سے خوش تھا۔۔ اس نے سیٹی بجا کر عبدل کو داد دی۔ وہ بھاگتا ہوا جیسے ہی ویٹنگ ایریا تک پہنچا تو اسے بیگ نہیں دکھائی دیا۔
”اسے ڈھونڈ رہے ہو؟؟“ فائنل ایئر کے کچھ اسٹوڈنٹس اس کا بیگ تھامے کھڑے تھے۔ اس کی تیوری چڑھی۔
”سنا ہے بڑا گرم خون ہے تمہارا۔۔۔ ذرا ہم بھی تو دیکھیں۔۔۔“
ان کے لیڈر نے کہتے ہوئے بیگ کی زپ کھول کر الٹا کردیا۔۔۔ اس کا سامان نکل کر نیچے فرش پر گر گیا۔۔ عبدل نے جبڑے بھینچ کر انہیں دیکھا۔۔ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی اسکول میں اسے ایسے لڑکے ضرور مل جاتے تھے جو اپنی ٹیوننگ کروائے بنا باز نہیں آتے تھے۔
”میرا بیگ واپس کرو۔۔“ اس نے لہجے کو حد درجہ نارمل رکھنے کی کوشش کی۔
”ارے دیکھو تو ماماز بوائے لنچ لایا ہے۔۔“
ایک نے اس کا لنچ باکس اٹھایا۔
”اسے مت کھولنا۔۔۔اسے واپس رکھ دو۔۔۔“ وہ ان سے عمر، قد اور کلاس تینوں میں چھوٹا تھا لیکن اس کا انداز بالکل بھی ڈرا سہما نہیں تھا۔
”یہ تو ہم کھائیں گے۔۔۔ اور تمہارے سامنے کھائیں گے۔۔۔پھر تم سے بات کریں گے۔۔“ وہ اب اس کے لنچ باکس کو ہوا میں اچھال رہے تھے۔
”میں آخری بار کہہ رہا ہوں میرا باکس مجھے واپس کردو۔۔۔“ اس نے جیسے وارننگ دی۔
”نہیں تو۔۔۔؟؟ کیا کرلو گے۔۔۔؟؟“ ان میں سے لڑکا اس کی جانب بڑھا۔۔ باقی اس کے باکس سے کھیل رہے تھے۔
”سنا ہے تم نے اپنے کلاس فیلو کا دانت توڑ دیا ہے۔۔۔“ لڑکے نے قریب آکر اسے دھکا دیا۔۔ جبکہ عبدل کی نظریں ابھی بھی باس پر جمی تھیں۔
”ارے دیکھیں تو ماما نے کیا بنا کر دیا ہے۔۔“
باکس اب لیڈر کے ہاتھ میں تھا۔ جیسے ہی اس نے باکس کھولا وہ سب حیران رہ گئے۔۔۔باکس کے اندر سفید رنگ کا سفوف تھا۔۔۔چھوٹے چھوٹے پیکٹ تھے۔۔۔وہ چار لوگ تھے۔۔۔ایک عبدل کے پاس کھڑا تھا جبکہ باقی تین ہونق بنے اس ڈبے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ جس میں ڈرگز تھیں۔۔۔
کلک کی آواز پر وہ تینوں چونکے۔۔۔عبدل کے ہاتھ میں فون تھا۔۔وہ ان کی تصویر بنا چکا تھا۔۔
”تم اسکول میں ڈرگز لے کر گھوم رہے ہو۔۔۔؟؟“ باکس ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرگیا۔۔ کیونکہ وہ پکچر بنا چکا تھا۔
”میں نہیں تم لوگ۔۔۔ دیکھو۔۔۔“ اس نے مسکرا کر تصویر دکھائی۔
”یو بلڈی۔۔۔“ ان کا لیڈر اسے مارنے کو آگے بڑھا۔۔۔
”یہ غلطی مت کرنا ورنہ یہ تصویر پرنسپل کے آفس پہنچ جائے گی۔۔۔“ اس کا انداز سراسر آگ لگانے والا تھا۔
اس کی بات سن کر چوتھا لڑکا جو اس کے پاس کھڑا تھا اس نے آگے بڑھ کر عبدل کو مارنا چاہا۔
لیکن اپنے لیڈر کے اشارہ کرنے پر رک گیا۔
”آئندہ تم لوگ میرے راستے میں آئے تو اچھا نہیں ہوگا۔۔۔“ وہ اب جھک کر اپنا سامان بیگ میں ڈال رہا تھا۔
”میرے پاس اس تصویر کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔۔“ اس نے پراسرار لہجے میں کہا۔
”تمہیں تو دیکھ لیں گے ہم۔۔۔“ وہ اسے وارن کرتے تیزی سے وہاں سے نکلے۔
یہ ایک اپرکلاس اسکول تھا جس کی سیکیورٹی بہت ہائی تھی۔اس کے رولز کافی سخت تھے۔۔۔
”ایڈیٹس۔۔۔“ وہ اب باکس کو اپنے بیگ میں ڈال رہا تھا۔۔۔ یقیناً کسی سے بیٹ لگا کر وہ یہ ڈرگز لیے گھوم رہا تھا۔
”تو تم وہ واحد اسٹوڈنٹ ہو جو اپنے لنچ باکس میں ڈرگز لیے گھومتا ہے۔۔۔؟؟“ آواز پر وہ پلٹا نہیں۔۔۔ جانتا تھا اس کے عین پیچھے حاد کھڑا تھا۔ جو اس وقت یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔
”تمہیں کوئی مسئلہ؟؟“ وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور اس کی جانب مڑا۔ وہ دونوں جڑواں تھے لیکن حاد اس سے تین سال سینئر تھا۔
”میں تمہاری کمپلین کروں گا۔۔۔ یہ غلط ہے۔۔۔“ حاد نے اسے دھمکانا چاہا۔
”ہاہ۔۔۔ اور جیسے میں ڈر جاؤں گا۔۔۔“ عبدل نے قہقہہ لگایا۔
”برو۔۔۔اپنے کام سے کام رکھو۔۔“ وہ اسے کندھا مارتا آگے بڑھ گیا۔ اور حاد اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
ہاں وہ واحد لڑکا تھا جو لنچ باکس میں ڈرگز لے کر گھوم رہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
بیتا ایک سال اتنا آسان نہیں تھا۔۔ بلکہ مشکل ترین تھا۔۔۔وہ ہیلنگ پروسیس میں تھی۔۔ اکیلی بالکل اکیلی۔۔۔
اس نے ایک مہینہ خود کو گھر میں قید رکھا۔۔۔لیکن آخر کب تک؟؟ پھر اس نے جاب کی تلاش کی۔۔۔گھر میں بیٹھ کر کب تک کھا سکتے تھے وہ لوگ؟؟
وہ ذہنی اور جسمانی طور پر تباہ ہوئی تھی۔۔۔جاب اتنی جلدی نہیں ملنے والی تھی۔۔۔ لیکن اس نے کوشش کی۔۔پھر اسے ایک جاب مل گئی۔۔ بہت ساری کمپنیوں نے اسے صرف اس لیے ریجیکٹ کیا کیونکہ اس کے چہرے پر glow نہیں تھا۔۔۔یہ وہ کمپنیاں تھیں جہاں لڑکیوں کو انکا حسن دیکھ کر رکھا جاتا تھا۔۔۔
جہاں اسے جاب ملی تھی وہاں کام زیادہ تھا۔۔۔ یہ اس کے لیے اچھا تھا کیونکہ وہ دن بھر کام میں مصروف رہتی تھی۔۔۔ دو مہینے جاب کرتے گزرے تو اس نے خود پر بھی توجہ دی۔۔۔اس کی صحت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔۔۔وہ کچھ کھا نہیں پاتی تھی۔۔ اس کے اندر کچھ نہیں جاتا تھا۔
لیکن اس نے ایک اور جنگ لڑی۔۔۔
حمیزہ۔۔۔ آج بھی عجیب و غریب اسکیچز بناتی تھی۔۔۔ایمان کی حالت نے صرف ایمان کو ہی نہیں اسے بھی بری طرح متاثر کیا تھا۔۔۔اس نے ٹین ایج میں بہت کچھ جھیلا تھا۔۔ جب سے اسے یہ پتا چلا تھا کہ ایمان پاگل خانے میں تھی تب سے وہ مزید ڈسٹرب ہوگئی تھی۔۔۔اس کے اندر کے ڈیمنز اس پر حاوی ہوگئے تھے۔۔۔۔
وہ اکـثر رات ہو اٹھ کر چلانے لگتی۔۔۔ ہیلوسینیشن ہوتا تھا اسے اور یہ اتنا حقیقی تھا کہ کبھی کبھی ایمان کو لگتا تھا کہ وہ لوگ شاید کہرے سے کبھی نہ نکل پائیں۔۔ لیکن شروعات تو کرنی ہی تھی۔۔
حمیزہ کی طبیعت کا سن کر اس کی پھوپھو ان سے ملنے آئی تھی۔
”تمہیں پتا ہے عبداللہ بھائی کو اماں نے کتنی منتوں مرادوں سے مانگا تھا۔۔ اماں نے داتا دربار کے چکر لگائے تھے۔۔۔منتیں مانی تھیں۔۔۔لیکن پوری ہونے کے بعد ابا جی نے کبھی اماں کو وہاں جانے نہیں دیا۔۔۔ایسا کرو تم ایک بار بچی کو لے کر حاضری لگا آؤ۔۔۔۔ ہو نہ ہو یہ سب اسی وجہ سے ہورہا ہے۔۔۔“
پھوپھو کے منہ سے ایسی باتیں سن کر ایمان ساکت رہ گئی۔
پھوپھو تو چلی گئی اور اگلے دن سلمی بیگم جو کبھی کسی درگاہ پر نہیں گئی تھیں وہ اب جانے کو تیار تھیں۔
”آپ وہاں نہیں جائیں گی۔۔۔“
ایمان ان کے سامنے کھڑی تھی۔
”میں اپنی بچی کو ایسے نہیں دیکھ سکتی۔۔ منت مانی تھی اسے پورا نہیں کیا۔۔یہ سب اسی وجہ سے ہورہا ہے۔۔“
”امی خدا کا خوف کریں۔۔۔“ ایمان کا دل لرز اٹھا۔ ”یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔کیوں شرک کرنا چاہتی ہیں آپ۔۔۔“
”اللہ معاف کرے میں کونسا سجدہ کرنے جارہی ہوں بس ایک بار جانا ہے۔۔۔“ سلمی بیگم خفا ہوئیں۔
”یہ جس حاضری کی بات آپ کر رہی ہیں یہ اللہ کے در پر دی جاتی ہے۔۔۔اگر آپ کو لگتا ہے حمیزہ کو ایسا کوئی مسئلہ ہے تو روحانی علاج کرواسکتے ہیں۔۔لیکن یہ گناہ میں آپ کو نہیں کرنے دوں گی۔۔۔“
”جانے دو مجھے تم نہ جاؤ۔۔۔ مجھے جانے دو۔۔ بس ایک بار۔۔۔“
سلمی بیگم پکارتی رہ گئیں اور اس نے انہیں کمرے میں بند کرکے لاک کردیا۔۔
”آپ کی پکڑ نہیں ہوگی امی کیونکہ آپ کو علم نہیں لیکن اللہ مجھے پکڑے کا اور پوچھے گا تمہیں تو علم تھا۔۔تم تو جانتی تھی تم نے اپنی ماں کو کیوں جانے دیا۔۔۔؟؟“
وہ کمرے کے دروازے کے باہر زمین پر بیٹھی تھی۔۔۔دروازے سے ٹیک لگائے۔۔۔دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔۔
اندر سلمی بیگم اور حمیزہ تھیں۔
اسے کہیں سے تو شروعات کرنی ہی تھی نا۔۔۔تو اپنے گھر سے کیوں نہیں؟؟
اللہ کی صفات میں کسی کو شریک کرنا بھی شرک ہے۔۔۔اور وہ نہیں چاہتی تھی اس کی ماں انجانے میں ایسا کچھ کرجائے۔۔۔
معزز ہستیوں کا ادب اپنی جگہ لیکن یہ مان لینا کہ ان کی وجہ سے ہم پر کوئی آفات آتی ہیں یہ غلط تھا۔۔شرک تھا اور وہ یہ جانتی تھی۔۔۔
صبح سے شام اور پھر رات ہوگئی۔۔۔ وہ وہیں بیٹھی رہی۔۔۔
”حمیزہ کو علاج کی ضرورت ہے اماں۔۔۔ اسے ڈاکٹر کی ضروت ہے۔۔۔ہم نے جو کچھ سہا ہے وہ ہمارے ذہنوں سے بہت اوپر تھا۔۔ ہم سہہ نہیں پائے۔۔۔ اس لیے ایسا ہو رہا ہے۔۔۔میں ان اندھیروں سے واقف ہوں اماں۔۔۔۔۔ ان اندھیروں سے ہمیں خود ہی نکلنا ہے۔۔۔“ وہ کمرے کے باہر بیٹھی بول رہی تھی جیسے اندر سلمی بیگم اسے سن رہی ہو۔۔۔
اور پھر سلمی بیگم نے اس کی بات مان لی۔۔
اب اسے ہی سب ٹھیک کرنا تھا سب کچھ۔۔۔۔
وہ دروازے سے ٹیک لگائے یہ سوچ رہی تھی۔ اس نے پورا پلان بنایا۔۔۔ ایک دن میں اس کے پاس چوبیس گھنٹے تھے۔۔۔
اس نے سب سے پہلے حمیزہ کو تنہائی اور اکیلے پن سے نکالا جس کا وہ شکار رہی تھی۔۔
پڑھائی کا بہت پریشر تھا اس نے ایک سال اسکپ کرنے کو کہا۔۔ وہ اٹھ گھنٹے آفس میں گزارتی اور پھر واپس آکر حمیزہ کے ساتھ ایکٹیویٹیز کرتی۔۔۔
اس کے ساتھ ایکسرسائز کرتی۔۔۔ وہ اپنی دوائیں وقت پر لے رہی تھی۔۔۔وہ حمیزہ کو غور سے سنتی۔۔۔ سب کچھ جو جو وہ سوچتی تھی۔۔۔
اس نے اسے اپنے ڈیمنز سے لڑنا سکھایا۔۔۔
”جب تمہیں لگے تمہارے ڈیمنز تم پر حاوی ہو رہے ہیں تم ورزش کرو۔۔۔ فزیکل ایکٹیویٹی۔۔۔خود کو فٹ بناؤ تاکہ ان سے لڑ سکو۔۔۔“
اس نے میزو کو حاد جبیل کے لیکچرز کھول کر دیے جس میں اس نے میزون کی ڈیمن والی پینٹنگ کو استعمال کیا تھا۔۔
”دیکھو بڑے بڑے لوگ تمہیں جانتے ہیں۔۔تمہاری پینٹنگز کو۔۔۔ اپنے انہی ڈیمنز کو استعمال کرو۔۔۔“
ہمارے ذہن اور ہمارے جسم کو صحت مند رہنے کے لیے ایکسرسائز کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔ضروری نہیں کہ جم جوائن کیا جائے۔۔۔ اگر آپ اپنے جسم کو حرکت میں رکھتے ہیں ایک مقررہ وقت تک تو دماغ اچھے سے کام کرتا ہے۔۔
وہ خود پر اور اس پر پوی توجہ دے رہی تھی۔۔۔
اس نے اپنی ڈائٹ پر فوکس کیا۔۔۔ وہ اپنی اسکن کے لیے اسپیشلسٹ سے ملی پر اس سے زیادہ اس نے کھانے پر توجہ دی۔۔۔
جو ہم اندر لے کر جاتے ہیں وہ باہر نظر آتا ہے۔۔۔۔
وہ اب سلمی بیگم اور میزو کو لے کر پارک میں جاتی۔۔ ایل گھنٹہ واک کرواتی۔۔۔تازہ ہوا لیتی۔۔۔
کئی دفعہ جب حمیزہ کی حالت بگڑ جاتی تو اس کی ہمت ٹوٹنے لگتی تھی۔۔۔ وہ تھک جاتی اور کبھی کبھی رونے لگتی۔۔۔ اکیلے پن کا احساس شدت سے ہوتا تھا۔۔
ارمان آتا جاتا رہتا تھا لیکن ایمان کی اس کے ساتھ زیادی بےتکلفی نہیں تھی۔۔۔وہ ہر ویک اینڈ پر آتا تھا۔۔ وہ پڑھ کر رہا تھا اور اسکالرشپ کے لیے زیادہ محنت کر رہا تھا۔۔۔وہ اپنی طرف سے کوشش کرتا تھا کہ حمیزہ کو نارمل زندگی کی طرف لایا جائے۔۔
ایمان سے بس تھوڑی بہت بات ہوتی تھی۔۔۔ سلمی بیگم سے فون پر روز ہی بات کر لیتا تھا۔۔۔۔ایمان کسی مرد پر اتنی جلدی بھروسہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
چار مہینے گزر گئے تھے۔۔۔اس کی اپنی حالت کافی حد تک سدھر چکی تھی۔۔۔اس کے چہرے پر رونق واپس آرہی تھی اور اس کی وجہ محنت تھی۔۔۔ وہ جسمانی ورزش تھی جو اسٹریس کو مینج کرتی تھی۔
”آخر کہاں کمی آرہی ہے۔۔۔“ وہ صحن میں ٹہلتے سوچ رہی تھی کیونکہ حمیزہ ابھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئی تھی اور پھر اسے اچانک احساس ہوا۔۔۔
”روح کی بھی تو غذا ہوتی ہے نا۔۔“
وہ ساری غذاؤں پر دھیان دے رہی تھی تو یہ کیوں نہیں؟؟
اور پھر اسے سمجھ آگیا تھا اسے کیا کرنا تھا۔
✿••✿••✿••✿
کچھ لوگ بہت عجیب ہوتے ہیں اور کچھ عجیب تر۔۔۔
وہ جب تک پاکستان میں رہا جبیل خاندان کے لیے کوئی نہ کوئی مسئلہ بنتا ہی رہا۔۔
”میں چاہتی ہوں تم اب شادی کرلو ادھم۔۔۔“
ماہین نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا۔
”کم آن مام! مجھ سے کون شادی کرے گا۔۔۔؟؟“
وہ مضحکہ خیز انداز میں بولا۔۔۔ یوں جیسے اپنا ہی مزاق اڑا رہا ہو۔۔۔
جب ایمان نے ہی ریجیکٹ کردیا تھا تو پھر باقی کون لڑکی اس سے شادی پر مانتی۔۔۔
”تم ہاں تو کرو۔۔۔“
”آپ کیوں کسی لڑکی کی زندگی برباد کرنا چاہتی ہیں؟؟“
”سب ٹھیک بھی تو ہو سکتا ہے۔۔۔“ وہ امید سے بولی۔
”آپ چاہتی ہیں میں نارمل لوگوں کی زندگی جیوں۔۔۔ شادی کروں اور ایک نائن تو فائیو جاب کروں۔۔ صبح آفس جاؤں سارا دن کام کروں۔۔ واپسی پر اپنی وائف کے لیے پھول کر لے کر آؤں۔۔۔ اچھا سا ڈنر کروں۔۔۔اور پھر سوجاؤں۔۔اگلے دن آفس جاؤں۔۔۔ یہی روٹیں دہراؤں۔۔۔ بچے پیدا کروں انہیں بڑا کروں۔۔۔ بس یہی زندگی ہے؟؟ مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا۔۔۔ آئی کانٹ۔۔۔۔“
وہ یہ زندگی نہیں جی سکتا تھا۔۔۔اس نے شادی کا خواب دیکھا بھی تھا تو صرف ایمان کی وجہ سے۔۔۔وہ نہیں تھی تو پھر وہ کیوں جیتا یہ زندگی؟؟
”تو کب تک کمرے میں قید رہو گے؟؟“
”تو کیا کروں پھر؟؟ واپس چلا جاؤں؟؟ آپ مجھے واپس نہیں جانے دیتیں۔۔ یہ سوسائٹی میرے ٹائپ کی نہیں ہے۔۔۔ میں یہاں باہر نہیں نکل سکتا۔۔۔اپنی مرضی سے جی نہیں سکتا۔۔۔سانس نہیں لے سکتا۔۔۔ تو پھر میں کیا کروں۔۔۔؟؟“
وہ تلخ ہوا۔ ماہین نے اس کی بات سن کر گہرا سانس لیا۔
”لندن چلے جاؤ۔۔۔حانم کے پاس۔۔۔گھومنے پھرنے۔۔۔ دنیا گھومو پھرو۔۔۔ لیکن اس اندھیرے سے نکلو۔۔۔میں تمہیں یوں کمرے میں پڑا نہیں دیکھ سکتی۔۔“
وہ اپنی ماں کے کہنے پر آگیا تھا۔۔۔گھومنے پھرنے۔۔۔
لیکن وہ بدلنے والا تھوڑی تھا۔۔۔ ہاں اسے ایک فائدہ ہوا تھا کہ یہاں کوئی اسے تنگ کرنے والا نہیں تھا۔۔۔اس کی فوٹوز لے کر میڈیا پر ڈالنے والا نہیں تھا۔۔۔
وہ جانے کہاں کہاں پھرتا رہا تھا اور آخر میں وہ حانم سے ملنے گیا۔۔۔ اس کی چپقلش تھی بھی تو ان کے بیٹوں سے تھی۔۔۔ حانم کا وہ احترام کرتا تھا۔
”میں کل واپس چلا جاؤں گا۔۔۔“
وہ رشتوں میں بندھنے والا لڑکا نہیں تھا اور وہ فارمیلٹی بھی نہیں کرتا تھا۔
”جب تک دل کرے یہاں رہو۔۔۔“ وہ خوشدلی سے مسکرائی تھی۔ ادھم کو ان میں کسی کی شبیہہ نظر آئی۔۔۔ان کا بولنا اور بات کرنا اسے ایمان کی یاد دلا رہا تھا۔۔۔
”ام حانم ایسے ہی نہیں مل جاتی۔۔۔ام حانم کے لیے روحان جبیل بننا پڑتا ہے۔۔“
وہ ایمان کی زندگی سے نکل آیا تھا آخر کب تک زبردستی اس کے سر پر سوار رہتا۔۔۔ لیکن وہ نہیں گئی تھی۔۔۔۔ وہ جاتی ہی نہیں تھی۔۔۔!!
✿••✿••✿••✿
وہ رات گیارہ بجے بستر پر لیٹی تو نوٹیفیکشن بار میں ابھرنے والے ایک نوٹیفیکشن نے اس کی توجہ کھینچی۔۔۔
سلفائٹس اکیڈمی کی طرف سے ای میل تھی۔۔۔
وہ لوگ اس سے میٹنگ کرنا چاہتے تھے۔۔ وہ اسے اپنے پروجیکٹ کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔۔۔۔
کئی لمحے وہ بار بار اس میل کو پڑھتی رہی۔۔۔اور ہر بار اس کی نظر میل کے آخر میں لکھے ڈائریکٹر کے نام پر اٹک جاتی تھی۔۔۔
حاد جبیل۔۔۔۔۔
سلفائیٹس اکیڈمی کا وہ سن چکی تھی۔۔ اکــثر حمیزہ ان کے سیشن لیتی تھی۔۔۔ وہ حاد جبیل کی باتوں کر اکـثر ڈسکس کرتی رہتی تھی۔۔۔ اور ایمان کا تاثر ایسے ہی ہوتا تھا جیسے کسی انجان شخص کے بارے میں سن رہی ہو۔۔
اس نے بہت محنت کی تھی خود کو کھڑے کرنے میں۔۔۔۔بھیانک ماضی اب اسے توڑ نہیں سکتا تھا۔۔۔اور یہ سچ تھا حمیزہ کے ٹھیک ہونے میں پچاس فیصد ہاتھ حاد جبیل کے سیشنز کا تھا۔۔۔
روح کی غذا کے لیے ضروری تھا کہ کچھ ایسا کیا جاتا جس سے روح جڑی ہو۔۔۔
اور روح تو اللہ کا امر ہے۔۔۔ضروری تھا کہ اللہ کی طرف زیادہ رجوع کیا جاتا۔۔۔
”حاد جبیل کہتا ہے کہ سب سے زیادہ ضروری ہے دماغ کو اپنے کنٹرول میں رکھا جائے۔۔۔ وہ کہتا ہے دل اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا کہ دماغ۔۔۔۔ یہ ہمیں گہرے کہرے میں تنہا بھٹکنے کے لیے چھوڑ سکتا ہے اگر ہم اسے آزاد چھوڑ دیں اسے خود پر حاوی ہونے دیں۔۔۔“
وہ اگلے دن کے آفس پہننے والے کپڑے پریس کر رہی تھی جب اس نے حمیزہ کو بات کرتے سنا۔۔ وہ سلمی بیگم کو بتا رہی تھی۔
”اس لیے آپ الٹا سیدھا مت سوچا کریں۔۔۔اور آپی کی شادی جب ہونی ہوئی ہوجائے گی۔۔۔“
سلمی بیگم کو پھر سے اس کی شادی کی فکر ستانے لگی تھی۔۔ اور حمیزہ نے انہیں اپنی طرف سے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔۔
آج ہی تو ذکر ہوا تھا اس کا اور آج ہی اس کی ای میل بھی آگئی تھی۔۔۔
وہ سوچتی رہی کہ کیا کرے؟؟ وہ ہسپتال کو نہیں چھوڑ سکتی تھی۔۔۔اور اس کے علاوہ اس پاس وقت نہیں بچتا تھا۔۔ وہ سائیکولوکی پڑھ رہی تھی اس لیے یونیورسٹی جاتی تھی۔۔۔
اس کا شیڈول پہلے ہی ہیکٹک تھا۔۔۔
اس نے لیپ ٹاپ اوپن کیا۔۔۔ اور ایک پروفیشنل انداز میں اپنی مصروفیات کا بتا رہا معذرت کرلی۔۔۔
وہ اکیڈمی جوائن نہیں کر سکتی تھی۔ پھر اس نے لیپ ٹاپ بند کیا اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔۔۔ کچھ دیر نیند نہیں آئی۔۔۔فون یوز کیا۔۔۔ سلمی بیگم اور حمیزہ سوچکی تھیں۔۔۔ بالآخر وہ بھی کچھ دیر بعد تھکی ہونے کے باعث سوگئی۔
✿••✿••✿••✿
”ایمانے نے ہماری میل کا جواب دے دیا ہے۔۔۔“
حاد کے کان کھڑے ہوئے۔
”کیا کہہ رہی ہیں وہ؟؟“ اس نے خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کی۔
”وہ جوائن نہیں کر سکتیں۔۔۔“
وہ حیران ہوا۔۔
”اس کا مطلب اس نے انکار کردیا ہے؟؟“
”یس مسٹر جبیل۔۔۔ انہوں نے آپ کو انکار کردیا ہے۔۔۔“
حاد کو لگا جیسے وہ اسے چڑا رہی ہو۔
”اوکے میں دیکھ لیتا ہوں۔۔۔“ وہ اب میل باکس کھولے بیٹھا تھا۔ اس نے اپنی مصروفیات لکھی تھیں اور معذرت کی تھی۔
اس نے ایک آفیشل میٹنگ کی ریکویسٹ کی اور لیپ ٹاپ بند کردیا۔۔۔۔
جانے وہ اب کب جواب دینے والی تھی۔

7 Comments

  1. Noor Rajpoot♥️your Writings Are so Amazing.. i want to talk to you

    ReplyDelete
  2. AMAZING EPISODE
    THANKS MISS NOOR RAJPOOT

    ReplyDelete
  3. yeh Novel thora ajeeb hai yah to episodes iski sahi aye na mtlb zyda zyda , to samj me b aye ubi tk bhool bhailya si hai ,

    ReplyDelete
  4. Assalam o Alaikum Dear Admin, Aap kindly Maseel ki episodes thora jaldi jaldi likha karein ap ek month main ek episode deiti hai Wallah itna intizar nahi hota. Jazak Allah, Allah ap ke kaam main barkat dalein.

    ReplyDelete
  5. Bht achi episode thi next ka wait ha bss bht acha likhti ha ap

    ReplyDelete
  6. Amazing thi episode Bs next ka intazar ha 😍☺️☺️

    ReplyDelete
Post a Comment
Previous Post Next Post