"اماں! آپ مانیں یا نہ مانیں، ابا کا افیئر چل رہا ہے۔"
کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو بہت جلد آپ کے دل میں گھر کر لیتے ہیں. جیسے تقی لودھی
اس کی غلطیوں کے باوجود بھی آپ خود کو اسے پسندیدہ بنانے سے روک نہیں سکتے
اور یہ ناول پڑھ کر مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ تقی کی تعریف کروں یا آمنہ ریاض (مصنفہ) کی
ناول اتنا اچھا تھا کہ میں ایک دن میں پڑھ گئی. اسے چھوڑنے کا دل ہی نہیں کر رہا تھا. آمنہ ریاض کے میں نے دو ناول پڑھے ہیں اور دونوں ناول ہی اتنے حسین اور خوبصورتی سے لکھے گئے ہیں کہ آمنہ ریاض میری پسندیدہ لکھاریوں میں شامل ہو گئیں
"ماہِ تمام" ناول بنیادی طور پر ایک لڑکے اور لڑکی کی کہانی پر مشتمل ہے. جنہیں تقدیر نے بڑے انوکھے طریقے سے ملا دیا. تقی ایک جولی سا لڑکا ہے جس کی اپنے والد صاحب کے ساتھ زرا نہیں بنتی. بقول اس کے 'گھر والوں نے لودھی صاحب کی ساری باتوں کو مان کر انہیں سر پر چڑھا لیا ہے.' تقی کو اپنی خوبصورتی پر بڑا ناز ہے. اٹھتے بیٹھتے وہ زبردستی سب کو یہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ وہ کتنا حسین ہے
دوسری طرف شفا ہے جو معصوم سے رشتوں کا پاس رکھنے والی لڑکی ہے. مگر کہیں پر بھی 'سو کالڈ بیچاری ہیروئن' والی وائب نہیں دیتی. وہ معصوم ضرور ہے مگر جاہل نہیں. شفا کا کردار مجھے اس لحاظ سے بہت اچھا لگا. اس نے چھوڑ جانے والوں کی منتیں نہیں کیں. بلکہ اس کا اخلاق ایسا تھا کہ چھوڑنے والے پچھتانے لگے کہ کیا کھو دیا. (آپ کو نہیں لگتا کہ ہر لڑکی کو ایسا ہی ہونا چاہیئے؟)
ان دونوں کے علاوہ سمیر اور ثمر کی وجہ سے بھی کہانی کا مزہ دوبالا ہو گیا. دونوں کی نوک جھوک بہت مزے کی تھی. لیکن کہانی مسز لودھی مار گئیں. انتہائی شائستہ خاتون تھیں وہ. شفا کے ساتھ ان کے رویے نے دل جیت لیا
مجموعی طور پر کہانی بہت اچھی تھی. آپ کو لازمی پڑھنی چاہیے