اندرون لاہور میں رہنے والے پکے دیسی خاندان کی کہانی۔ جن کے غسل خانے کے باہر لمبی قطار بنی رہتی ہے۔ اور اندر موجود ہستی سے ہر تھوڑی دیر بعد دریافت کیا جاتا ہے۔
"جیوندا ایں کے مر گیا ایں"
اس خاندان میں ہر ورائٹی کا نمونہ پایا جاتا ہے۔ مثلا کھانستے دادا سے لے کر بچارے ندیم تک کی جس کی شادی نہیں کی جارہی۔ کئی کردار ہیں لیکن صرف ایک اور کا ذکر کروں گی، روبینہ۔ روبینہ پکی لاہوری ہے جس کا ر اور ڑ کا مسلئہ ہے۔ اور سب اس کے انداز بیان سے بڑا چڑتے ہیں۔ یہ میری پسندیدہ تھی پورے ناول میں۔
یہ چھوٹے سے ڈربے نما گھر میں رہنے والا خاندان اپنی زندگی کے بکھیڑوں میں الجھا تھا کہ ایک دن جرمنی پلٹ چاچو نازل ہوگئے (شاید جرمنی ہی تھا۔
امریکہ بھی ہوسکتا ہے)۔ سات سمندر پار سے واپس آنے والے چاچو کا پراسرار سا ماضی ہے۔ اور گھر بھر کی نئی پود ماضی کے بارے میں جاننا چاہتی ہے۔ لیکن انہیں لفٹ نہیں کروائی جارہی۔ کیا وہ چاچو کا ماضی جان پائیں گے؟ کیا ندیم کی شادی کر دی جائے گی؟ کیا دادا کی کھانسی کنٹرول کرنے کا نسخہ مل پائے گا؟ کیا روبینہ ر اور ڑ کا ڈھنگ سے استعمال کرپائے گی؟ یہ جاننے کے لیے یہ چھوٹا سا ناول پڑھنا پڑے گا۔
طنزومزاح سے بھرپور یہ چھوٹی سی کتاب کل ایک سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل ہے اور باآسانی ایک دو نشستوں میں پڑھی جاسکتی ہے۔ شروع میں شاید اتنی ہنسی نہ آئے لیکن جس طرح کہانی بلڈ اپ ہوتی جائے گی دو تین جگہوں پر قہقہے ضرور لگیں گے۔ شاندار قہقہے۔
سرورق پر ایک دوشیزہ کی تصویر کی کیا ضرورت تھی؟ مرغا بنا ہوتا یا لاہور کی کسی گلی کا منظر تو بہت اچھا لگتا۔ یہ کالی گھٹائوں والی حسینہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ چاچو کے آنے سے پہلے سب نے جو جو تیاریاں کیں تھیں وہ پڑھنے میں مزیدار تھیں۔ اورآل یہ پڑھنے میں اچھی تھی۔ آخری کے ٹوسٹ نے ناول کو چار چاند لگا دیے۔ ہلکی پھلکی پنجابی سے بھری۔ مجھے خاص مشکل نہیں ہوئی پنجابی سمجھنے میں۔ کومیڈی فیملی ناول ہے یہ اور پڑھنے میں مزیدار ہے۔