کہانیاں کیسی بھی ہوں، بس ان کا اختتام گہرے الفاظ میں ہونا چاہیئے. ایسے الفاظ جو اپنے پیچھے ایک فکر چھوڑ جائیں. اور کوئی شک نہیں کہ اس کتاب کی ہر کہانی ایسے ہی الفاظ پر ختم ہوتی تھی
یہ کتاب پانچ کہانیوں کا مجموعہ ہے
پہلی کہانی،
"لڑک لڑی پیا لار کرے" یہ سندھی زبان کا فقرہ ہے جس کا انتہائی حسین مطلب ہے. یہ چھوٹا سا ناول تین اہم کرداروں کے گرد گھومتا ہے. اور انہی کا ماضی بھی دکھایا جاتا ہے. کہانی کا تھیم عورت ہے. کہ نہ تو ہر عورت غلط ہوتی ہے اور نہ ہی ہر عورت ٹھیک ہوتی ہے. جہاں اس کہانی میں باغی اور سرکش لڑکی کو دکھایا گیا ہے وہیں اچھی لڑکی کو بھی دکھایا. جسے اپنی ساری ریاضتوں کا صلہ مل جاتا ہے
اور سب سے مزے کا کردار زاویار کا تھا. کوئی شک نہیں کہ وہ پکا سچا مسلمان تھا، جو چار شادیوں والے حکم پر عمل کرنا چاہتا تھا. (اس کی اس کہانی پر تو میری ہنسی ہی چھوٹ گئی تھی.)
اور کوئی شک نہیں کہ دلاور کی پرسنیلٹی قابلِ داد تھی
اس ناول میں بس ایک پوائنٹ جو مجھے ٹھیک نہیں لگا وہ ماضی کی کہانی کو جلدی گزارنے والا. مطلب ایسا لگتا ہے جیسے کوئی ہمیں سنا رہا ہو. ڈائیلاگ ڈلیوری نہیں ہوتی. اکثر لوگ اس طرز کو بہت پسند بھی کرتے ہیں کہ جلدی ناول ختم ہو جاتا ہے. مگر ذاتی طور پر مجھے لمبے لمبے مکالمے پسند ہوتے ہیں
اس کے علاوہ پورا ناول حسین تھا
دوسری کہانی تھی
"پلکوں کی چھاؤں میں"
کہانی پڑھتے ہوئے تو ایسا لگتا تھا کہ ہم واقعی پرانے زمانے کے سندھ میں چلے گئے ہیں. حالانکہ میں نے سندھ نہیں دیکھا ہوا. مگر پھر بھی ایک وائب تھی اس کہانی میں. اور جہاں پر کہانی پلٹا کھاتی ہے
بھئی!!!!!! حالات بدل گئے، جذبات بدل گئے. ایک بندہ اس میں ایسا تھا کہ وہ ایک دو جگہ پر مجھے کھٹک گیا اور مجھے غصہ آئے کہ اسے ہیرو کیوں بنایا ہوا؟ مطلب ہر کوئی اسے اچھا سمجھ رہا اور جب وہ ولن ڈکلیر ہوا تو مانو دل کو سکون آ گیا. مگر آخر تک کوئی بھی اس کے بارے میں جان نہیں پایا. بختاور اور اس کی بیٹی پر بے طرح ترس بھی آیا. مگر آخر پر جو الفاظ تھگ نا وہ بس دل جیت گئے. شارٹ ناولز پڑھتے ہوئے اپن کبھی دکھی نہیں ہوا مگر اس ناول نے واقعی دکھی کر دیا. الفاظ ہی ایسے تھے یار