Kuch Ishq Main Rang e Junoon Bhi Tha - PDF

Kuch Ishq Main Rang e Junoon Bhi Tha - PDF

 


کچھ عشق میں رنگ جنوں بھی تھا ایک کھٹی میٹھی سی کہانی ہے ۔ یہ کہانی خاندان کے لوگوں کے درمیان اتار چڑھاؤ کی کہانی ہے۔کہانی اس بات کا مجموعہ ہے کہ ہر انسان کے رویے کی کوئی وجہ ہے ۔کہانی رشتوں کی خوبصورتی کی وضاحت کرتی ہے ۔کہانی انسانی جذبات پر مبنی ہے یعنی ایموشنز کو کور کرتی ہے۔کہانی کی تھیم ایسی ہے جس پر کم ہی کام ہوتا ہے وہ ہے میل وکٹمز۔

شیس ایک حادثے کا شکار ہوا ہے اور وہ حادثہ اسے سارہ سے ملاتا ہے اور پھر شیس کے لیے اس کی زندگی کا محور بن جاتی ہے۔سارہ کی بہن شیس کے بھائی شمس کی بیوی ہے اور جی سارہ اور شمس کا اٹ وٹے کا ویر ہے وہ بھی چھوٹا موٹا نہیں اچھا خاصہ۔شروع میں مجھے شمس پسند نہیں آیا پر جب آپ اسے سمجھ جاتے ہیں تو آپ کو اس سے پیار ہو جاتا ہے ۔شیس کے اور دو بھائی ہیں شارخ اور شان جو میں کہوں گی کہانی کی جان ہیں اور وہ سین کمال تھا جس میں وہ دونوں تھے۔مومی ان کی تایا زاد ہے اور نہایت لڑاکا لڑکی ہے۔

میرے لیے وہ لفظ ڈھونڈنا مشکل ہیں کہ جن سے میں یہ بتاؤ کہ یہ ناول مجھے کتنا پسند آیا۔کیا نہیں تھا اس کہانی میں ہنسی مزاح ،رونا دھونا ،لڑنا ،خاندان کی اہمیت اور محبت۔شارخ نے ہنسایا تو شیس اور سارہ کے لیے یہ دل ماتم کناں ہوا ۔شیس اور سارہ کا جو تعلق تھا وہ ہر چیز سے مبرا تھا۔ان کا ہر حال میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا دل موہ لینے والا تھا ۔سدرہ (شمس کی بیوی) کے لیے شیس اور اس کے بھائیوں کا شمس سے لڑ پڑنا بہت خوبصورت تھا ۔

کرداروں کی بات کروں تو ہر کردار مکمل تھا خوبصورت تھا۔سارہ جو غلط بات برداشت نہیں کرتی سدرہ جو ہر کسی کا خیال کرتی ہے شمس جو غصے کا تیز پر اندر سے ہیرا ہے ۔شیس جو دوسروں کو خوش رکھتا ہے۔شان ایک سپورٹو بھائی ہے شارخ جو ہر لڑکی سے فلرٹ کرتا ہے پر محبت صرف مومی سے۔اور جی مومی حق ہا کیا لڑکی ہے الٹے دماغ کی جذباتی لڑکی لیکن مجھے بہت پسند آئی۔ناول اس بات پر زور دیتا ہے کے ایک گھریلو لڑکی بھی مضبوط ہے۔

جو چیز مجھے ناپسند تھی وہ یہ کہ مومی کے کردار کا انڑرو بڑا عجیب ہے مجھے لگا شاید وہ پاگل ہے۔ کہیں کہیں یہ بھی سمجھ نہیں آئی کے کن سا ڈائیلاگ کس کردار کا ہے۔پورا ناول فاسٹ پیس ہے پر جہاں شیس ناراض ہوا وہ پارٹ طویل ہے ۔لیکن کہانی اس قدر پر لطف ہے کی یہ بات محسوس نہیں ہوتی ۔اینڈ والا ٹوسٹ غیر ضروری تھا اس کے بغیر بھی کہانی ختم ہو سکتی تھی۔




Post a Comment (0)
Previous Post Next Post