دیکھن دکھن کا پردہ ہے ۔۔وہ جو ڈال ڈال، پات پات میں دکھتا ہے ، جو ذرے ذرے میں دکھتا ہے وہ نہیں چاہتا ہم اسے دیکھیں ، اس لیے اس نے ہمیں دیکھن دکھن کے چکر میں ڈال رکھا ہے کہ ہمارا دھیان ادھر لگا رہے اور ادھر نہ جائے۔۔۔اور جس کا دھیان دیکھن دکھن کے چکر سے نکل جائے اسے گیان ہوتا ہے۔۔۔۔
یہ کہانی ہے ایک بنواری کی جو کسی ایسی عورت کی تلاش میں ہے جو جیسی دکھتی ہو ویسی ہی اندر سے ہو۔ کیو نکہ عموماً عورت اپنے اندر کو ظاہر کرنے پر قادر نہیں ہوتی۔۔۔ اگر وہ رنج میں ہے تو بھی اسے ہونٹوں پر مسکان سجائے بیٹھنا ہی ہے۔ بنواری ایک جوتشی کے پاس آتا ہے جس کے پاس قسمت کا حال جاننے والی لڑکیوں کی ریل پیل رہتی ہے۔۔۔ ہر سمئے یہی سوال۔ ہمارا بیاہ کب ہو گا؟؟ کیا جو من میں بسا ہے اس سے میلن بھی ہو گا کہ نہیں ۔۔؟
جوتشی اس بات سے کشمکش کا شکار رہتا کہ یہ لڑکیاں جو آپس میں مل بیٹھیں تو شوخیاں ، ہنسن کھیڈن سب کریں۔۔۔ مگر تنہائی میں دکھ سے چور چور کیونکر ہوتی ہیں؟ یہ دیکھن اور دکھن کا چکر اس قدر نرالا کیوں ہے؟؟؟؟
بنواری کے دکھ کی تان بھی یہیں ٹوٹتی ہے کہ وہ اس لڑکی سے دل لگا بیٹھتا ہے جو کہ ناٹک میں خود کو کماری پیش کرتی ہے مگر درحقیقت تو وہ کچھ اور ہی نکلتی ہے ۔۔مرد کے ہاتھوں کا کھلونا۔۔اور تب سے طے کیے بیٹھا تھا کہ وہ ایسی لڑکی سے بیاہ کرے گا جس کا دیکھن اور دکھن اک جیسا ہو ۔ مگر جانے ایسا پاٹ کہاں ممکن ہے۔۔۔؟؟؟
بنواری کی کہانی کی شنوائی کے بعد جوتشی بھی اعتراف کر لیتا ہے کہ وہ چنداں قسمت کے حال کے بارے نہیں جانتا ۔۔وہ تو بس وہ سب بولے ہے جو یہ نمانیاں سننا حاہیں ہیں کیونکہ وہ بھی عورت ذات کے روپ سے اچھی طرح واقف تھا کہ شاید اس سمئے اسے عورت میں دیکھن اور دکھن ایک ہی رنگ میں لگے جیسے شربت جس میں پانی اور چینی آپس میں گھل جاویں۔
نوٹ: مفتی جی کے کیا کہنے! بات کی گہرائی میں وہ رمز بیان کرتے ہیں کہ جس سے آپ کسی سوچ میں نہیں پڑتے بلکہ آپ کا دل مفتی صاحب کے کہے گئے الفاظ کے ساتھ من و عن سہمت ہوئے جاتا ہے اور اگر بات عورت کی نفسیات پر ہو تو شاید ہی کوئی اور ادیب اس درجے کو پہنچا ہو جو وہ بات کہ سکے جو من کے اندر کہیں گھٹ گھٹ کہ تور ہے مگر 'کہی نا جائے'