کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک انسان کی دوسرے انسان کے لیے ذاتی پسندیدگی یا ناپسندیدگی پورے خاندان کو بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔ انا، بغض اور عداوت میں انسان اتنا آگے چلا جاتا ہے کہ رشتوں کا تقدس اور احترام بھی بھول جاتا ہے۔ سارے رشتے پس پشت چلے جاتے ہیں اور یاد رہتا ہے تو صرف وہ شخص جو کہ پسندیدہ ہوتا ہے یا پھر ناپسندیدہ۔
یہ کہانی ہے عارش اور خرمن کی ، خرمن جو کہ اپنے سوتیلے بھائی کی ناپسندیدگی اور حسد کا شکار ہو کر کم عمری میں اپنے والدین سے بچھڑ جاتی ہے اور دو مہربان ہاتھوں میں پروان چڑھتی ہے ، مگر اپنی جڑوں سے کٹ جانے کا دکھ، لوگوں کی ملامت زدہ باتیں، طعن و تشنیع اور اس کے وجود سے متعلق اٹھنے والے طرح طرح کے سوال اس کے اندر اتنی تلخی اور سفاکی بھر دیتے ہیں جس کا نشانہ عارش بنتا رہتا ہے جو کہ اس سے محبت کا دعوے دار ہوتا ہے۔
یہ کہانی ہے عثمان اور بیلا کی، جو ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اسی پسندیدگی میں اپنے دوسرے خونی رشتوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔ جو یہ بھول جاتے ہیں کہ رشتے خون کے ہوں یا دل کے ایک جیسی قدروقیمت کے حامل ہوتے ہیں ۔ خونی رشتوں کو داؤ پر لگا کر بنائے جانے والے دل کے رشتے ہمیشہ ایک ان دیکھی کسک میں مبتلا رہتے ہیں ۔ان کی خوشیاں ادھوری رہتی ہے ۔ اور وہ ایک نامعلوم سا بوجھ اپنے دل پر محسوس کرتے رہتے ہیں۔
اس کہانی میں ناول کے تمام اجزاء پائے جاتے ہیں ۔ رومانس ہے ، لڑائی جھگڑا ہے ، مزاح ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جذبات کا ایک سیل رواں بھی ہے۔ جو کہ کب پڑھنے والے کی آنکھوں سے بھی بہنا شروع ہو جاتا ہے اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا۔
کردار نگاری بہت اچھی کی گئی ہے۔ ہر کردار خواہ وہ مرکزی ہو یا ضمنی بہت اچھا لکھا گیا ہے۔ مکالمے جاندار اور برجستہ ہیں۔ اگر آپ کوئی ہلکی پھلکی کتاب پڑھنا چاہتے ہیں تو اسے پڑھ لیں آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔