جو بھی پڑھنا چاہے یہ ناول پڑھ لے۔ اس میں ایسا ویسا کچھ نہیں جسے پڑھ کے کان لال اور آنکھیں شرم سے جھک سی جائیں۔ دلی کی تقریباً ہزار سالہ تاریخ کا بیان ہے۔ دلی میں حکمران مختلف حکمرانوں کی تاریخ اور ان کے کرتوتوں کے ساتھ ساتھ امیر خسرو اور ان کے مرشد نظامالدین اولیاء کی داستان بھی ہے۔۔ شاہ جہان آباد اور نیو دہلی کی تاریخ کو ایک نئے زاویئے۔۔
یعنی مزدور اور ٹھیکیدار کے زاویئے سے بھی بیان کیا گیا۔ میر تقی علی ۔۔میر تقی میر کیسے بنا اس کا بیان ہے تو ساتھ میں تیمور، نادر شاہ درانی ، احمد شاہ ابدالی اور انگریزوں کے ہاتھوں دلی کے اجڑنے بسنے کی دردناک داستان بیان بھی ہے۔۔۔ وہیں وقفے وقفے سے راوی اپنے مختلف معاشقوں اور بھاگ متی کے ساتھ اپنے نرم گرم تعلقات بھی بتاتا چلا جاتا ہے
ایک ناول جو آپ کو تاریخ کے اتنے ادوار کی سیر انتہائی دلچسپ انداز میں کرواتا ہے وہیں اگر آپ کی سوئی چند آہمم آہمم واقعات پہ اٹک جائے تو قصور کس کا ؟.. سچی بات اگر آپ خشونت سنگھ سے ایویں خشک سی تحریر کی امید لگا کر یہ کتاب پڑھنے لگےتو قصور آپ کا ۔۔مجھے تو ناول اور ان کا طرز تحریر انتہائی دلچسپ اور اچھا لگا۔۔۔۔سب پڑھ لیں۔۔ اور میری رائے مانیں تو کتاب یا ناول کو اس کے مواد اور کہانی کی بنیاد پہ جج کرنا سیکھیں نہ کہ چند ۔۔رومونوی سینز کی بنیاد پہ۔
Note: Urdu version of this book is only available in Hard Form
Read English Version Here