Chand ko gul krian to hum janain by Usama Siddique - Review

( چاند کو گل کریں تو جانیں ) by Usama Siddique - Review

 

تو دوستو پیش خدمت ہے شاندار کتاب کا تبصرہ۔کچھ مصروفیات کے باعث ہم منظر عام سے پڑے رہے۔اور اسی دوران لگے ہاتھوں ہم تو نکل دیے دنیا کی سیر کرنے۔ارے ہاں ہاں ہم ہی ہیں وہ جو سیر و تفریح کے منصوبوں کا مزہ کرکرا کرتے ہیں۔پر یقین مانیے اس بار بھی ارادہ کچھ ایسا ہی تھا پر اسامہ صدیق صاحب نے ایسا ہونے نہ دیا اور ہمیں لے چلے سیر کروانے ۔پھر موہنجوڈارو ، ہڑپہ ، لاہور ، روہتاس ،ٹیکسلا، لکھنو، آگرہ میرٹھ، شیخوپورہ ، امرتسر کی سیر کا موقع ملا اور نا جانے کتنے ہی اور علاقے بھی لگے ہاتھوں دیکھ لئیے۔

پریشان مت ہوئیے کہ اتنی جگہیں ہم نے کیسے دیکھ لیں یہ دیکھیں ہم نے اس ناول "چاند کو گل کریں تو جانیں" کی بدولت۔بھئی کیا ہی اعلی ناول لکھا ہے اسامہ صدیق صاحب نے یہ ان کے انگریزی ناول کا ترجمہ ہے اور اس ترجمے کو چار چاند لگانے میں عاصم بخشی صاحب نے بھی کوئی کسر نہی چھوڑی۔تراجم شاذ و نادر ہی اصل کے ساتھ انصاف کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں مترجم نے کہانی کو ایک بالکل نئی جہت عطا کی ہے۔ اس ناول میں بہت گہری حکمت کو سمیٹا گیا ہے۔ دریا کو کوزے میں بند کیا گیا ہے یوں کہہ لیں۔ اس ناول نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم بہت سی ایسی باتیں سیکھ لیں جن سے ہم جی چرائے پھرتے ہیں۔اس ناول نے جو

 ہمیں کہانیاں سنائی اس نے ہمیں وقت اور عمر کے ساتھ ذہنی طور پر سفر کرنے میں مدد کی اور ہمیں بہت کچھ سکھایا۔

یہ سفر وادیِ سندھ کی قدیم تاریخ سے شروع ہوتا ہوا گندھارا کی تہذیب سے گزرتا، مغل سلطنت میں پڑاؤ ڈالتا اور پھر انگریز دورِ حکومت سے چلتا چلاتا اکیسویں صدی کے ابتدائی عشرے کے پاکستان کی کہانی بیان کرتا ہے اور بالآخر پاکستان کے مستقبل تک پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ناطق صاحب نے ٹھیک ہی کہا تھا اس ناول کے متعلق کہ ناول میں کہانیاں اپنی دانش کے تارو پود میں اس طرح باندھی گئی ہیں کہ جیسے جیسے انہیں پڑھتے جاتے ہیں دماغ کی گرہیں کھلتی جاتی ہیں۔

آپ نے بھی دماغ کی گرہیں کھولنی ہیں اور تاریخ سے بھی لگاؤ رکھتے ہیں تو یہ ناول ایک بہترین انتخاب ہوگا ۔
اس ناول کو مختلف (چھ) حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ہر ایک میں ایسے محسوس ہوتا کے کہ ایک بڑی کہانی کا بکھرا ہوا ٹکڑا ہے۔

پر وہ بکھرا ہو ٹکڑا ہی اپنے آپ میں ایک مکمل کہانی ہے۔ اس ناول کے تمام ابواب تاریخ، ماضی اور تقریباً حال مستقبل سے جڑی کہانیوں پر مشتمل ہیں۔
اصامہ صدیق نے اس ناول میں موجود جیسے کرداروں کو چنا ہے وہ ایسے کردار ہیں جو ہر زمانے میں ہی موجود رہے ہیں۔


PDF not available: This Novel is only available in BOOk Form.

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post