دوستو اس کتاب پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے یہ بتائیں کیا آپ نے یہ سنا ہے
ہاسے دا مڑاسا نا بن جائے۔
اگر یہ سنا ہے تو آپ میرے لکھے ہوئے کو سمجھ پائیں گے۔ اگر نہیں سنا تو میرے لکھے ہوئے کو شاہی طریقے سے نظر انداز کر دیجیئے گا۔
وہ انوار احمد نے کتاب کے شروع میں اپنی شادی خانہ آبادی کے کچھ حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔ جسے پڑھ کر ایک ہی جملہ رہ رہ کے میری زبان پر آتا تھا
" یہ تو ہاسے کا مڑاسا بن گیا ہے جی "
خیر جن کو سمجھ آگئی ہے وہ داد دیں۔ جن کو سمجھ نہیں آئی وہ اگلی مثال ملاحظہ فرمائیں ۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ مصنف نے اپنی شادی کی کچھ دکھی داستان قارئین کے گوش گزار کی ہے۔اس داستان کو پڑھ کہ بندہ پھر یہی کہہ سکتا ہے:
ایک شادی ،ایک زندگی ، پانی میں گئی، پانی میں گئی۔
چھپاک چھپاک چھپاک چھپاک ۔
میں نے اس کتاب کو اس کے سر ورق اور عنوان کی وجہ سے خریدا تھا ۔ جیسے یہ دونوں خوبصورت ہیں ویسے ہی یہ کتاب بھی ایک اچھی کتاب ہے ۔ مختلف شخصیات کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ صاحب کتاب نے اپنے ان اساتذہ کے بارے میں لکھا ہے جنہوں نے مصنف کو پروان چڑھایا ہے۔ یہ پڑھ کے ایک لمحے کے لئیے خیال آیا کیوں نا میں بھی اپنی یونیورسٹی کی زندگی کے بارے میں لکھوں اور کچھ اساتذہ کے بارے میں لکھوں۔
پھر اگلے ہی لمحے یہ خیال ہوا ہو گیا کہ بھئی ابھی رسک نہیں لینے کا ابھی اپنی کانووکیشن رہتی ہے۔
پھر انوار احمد نے اپنے کچھ دوستوں کے متعلق لکھا ہے بھئی کیا ہی دوست ملے تھے مصنف کو۔ نہیں مطلب ایسے کیسے مل گئے تھے اچھے دوست ۔ دوست تو ہمیں بھی اچھے ملے بس الف کے بعد و نے کام خراب کردیا۔ (اوچھے)
مصنف کو اچھے دوست ملے پھر اتنے اچھے کہ ان پر کتاب لکھ دی گئی ۔اچھے دوست ملنا واقع ہی نعمت ہے۔ شکر الحمدللہ کچھ اچھے لوگوں کا شمار تو ہمارے حلقہ احباب میں بھی ہوتا ہے۔ بس مزید اچھائی کر لیں تا کہ میں بھی کتاب لکھ سکوں۔
کتاب کا شمار تو خاکوں میں ہوتا ہے مگر کہیں کہیں لگتا ہے کہ یہ خاکوں سے کم کہانیوں کی کتاب ہے۔مگر خیر جو بھی ہے کتاب بہر کیف اچھی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کی کتاب ایک اچھی یادوں پرمبنی کتاب ہو سکتی کیونکہ خاکہ نگاری کا اسلوب اس میں خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
محمد حسین لکھتے ہیں
“خاکہ نگاری ادب کی ایک صنف ہے جس میں شخصیتوں کی تصویریں اس طرح براہ راست کھینچی جاتی ہیں کہ ان کے ظاہر اور باطن دونوں قاری کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پڑھنے والے نے نہ صرف قلمی چہرہ دیکھا ہے بلکہ خود شخصیت کو دیکھا بھالا ہو”
This Novel is only available in Hard Form.