Us bazar mein (اُس بازار میں) by Shorish kashmiri - PDF

Us bazar mein by shorish kashmiri - PDF

 

بقول شورش کاشمیری کے یہ کتاب لکھنے کے کئے انہوں نے چھ سو سے زائد طوائفوں سے بات چیت کی اور چار سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی

۔

اُس بازار میں۔۔۔۔ عورت کی جنس کے بیوپار کے اس روز وشب کا احوال ہے جسے بازار حسن ، ہیرا منڈی ، کنجر خانہ یا چکلہ جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے
۔
مرد کی جنس سے رغبت اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود حضرت انسان۔ آغا شورش قبل از تاریخ کے رومن اور یونانی معاشروں میں مرد کے عورتوں اور نوجوان لڑکوں سے جنسی روابط کو زیر بحث لانے سے بات شروع کر کے اس کے اسلامی ممالک میں پھیلاؤ اور مسلمان بادشاہوں اور نوابوں کے زیر سایہ اس کی باقاعدہ ایک ادارے اور کاروبار بنے تک کی تاریخ تک بات لے آتے ہیں
۔
۔
بقول مصنف یہ بازار جو اب صرف عورت کے جسم کی فروخت کا مرکز رہ گیا ہے ہمیشہ سے ایسا نہیں رہا۔کبھی یہ راگ ، موسیقی اور رقص کی محفلوں کا مرکز تھا جہاں اقبال اپنی امیراں ،آغا حشر اپنی مختار اور محمد علی جوہر جیسے موسیقی سے لطف کے لئے آیا کرتے تھے
۔
۔
جہاں آغا جی کی طوائفوں سے بات چیت کے دوران آپ کئ طوائفوں کی ذھانت اور بزلہ سنجی کی داد دیں گے وہیں انہیں ملاقاتوں کے دوران اس بازار کے راہئشیوں کی بودوباش، معاشرت، شادی بیاہ، مرن جیون ، مذھب کی ان کی زندگی میں اھمیت اور ایسے بہت سے ان سنے انجانے اور انجان گوشوں میں جا جھانکیں گے جو شاید اس سے پہلے آپ کی نظروں سے اوجھل تھے۔ عقل والوں کے لئے دو سو دس کے لگ بھگ صفحات کی حامل کتاب میں جگہ جگہ عبرت کے نمونے بھی ہیں۔۔۔جو چیخ چیخ کے ان گلیوں کی اصلیت دنیا پہ آشکار کئے جاتے ہیں
.
تارڑ صاحب اس کتاب بارے لکھتے ہیں۔۔۔ اُنہی زمانوں میں آغا صاحب کی کتاب ’’اُس بازار میں‘‘ شائع ہوئی جس میں ہیرا منڈی یا بازار حسن کے ذاتی مشاہدوں پر مبنی قصے تھے اگرچہ کچھ ناروا اور فحش نوعیت کے تھے اور یہ کتاب دنوں میں ایک بیسٹ سیلر ہو گئی۔ ہم نے اسے چوری چھپے پڑھا، بزرگوں سے نظر بچا کر پڑھا۔ ’’اُس بازار میں‘‘ اگر آج کے زمانوں میں شائع ہوتی تو حضرت شورش کب کے علماء کرام کے فائرنگ سکواڈ سے ہلاک ہو چکے ہوتے لیکن بدقسمتی سے وہ زمانے ذرا ’’روشن خیال‘‘ تھے۔ اس لیے شورش شہید نہ ہوئے۔۔
۔
۔
کافی اچھی کتاب ہے۔ اگر آپ نان فکشن پڑھتے ہیں تو اسے پڑھ لیں۔۔جہاں بہت کچھ جاننے کو ملے گا وہیں انسان کا یہ روپ بھی دیکھ لیں گے






Post a Comment (0)
Previous Post Next Post