Undlas Mein Ajnabi by (مستنصر حسین تارڑ) - PDF

 

Undlas Mein Ajnabi by Mustansar Hussain Tarar

مستنصر حسین تارڑ اپنی کتاب "اندلس میں اجنبی" میں لکھتے ہیں:

"میں بستر پر بیٹھ کر سوچنے لگا کہ آج صرف ایک دن میں میں نے ہسپانیہ کے کتنے روپ دیکھ ڈالے۔ صبح میں سان سباستیان میں تھا۔ بارش اور دھند۔ پھر بلند پیرانیز آئے۔ ہری بھری وادیاں۔ چمکیلے دریا اور برف پوش چوٹیاں۔ اس کے بعد قشتالیہ کی صحرائی وسعتوں میں سے گزر ہوا۔ گرد آلود سناٹے اور بیابانی۔۔۔ اور اب ثوریا۔



ثوریا!۔۔۔ دو پہاڑوں کے درمیان اور نیلے آسمان تلے پھیلا ہوا ایک سوتا جاگتا شہر جو اپنے گرد و نواح کے جغرافیائی خد و خال میں کچھ ایسا رچ بس گیا ہے جیسے اس کے سرخ چھتوں والے مکان، تنگ گلیاں اور بازار انسانی ہاتھوں کے تعمیر کردہ نہیں بلکہ زمین میں سے خود بخود اگ آئے ہیں، پھوٹ پڑے ہیں۔ "

"زندگی کا سفر بھی تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے، کبھی دھند میں لپٹے منظر جہاں کچھ بھی واضح نظر نہیں آ پاتا لیکن وہ کب ختم ہوتے ہیں اور ہری بھری وادیوں کا سکون نصیب ہوتا ہے معلوم ہی نہیں ہوتا اور وہاں حفاظت کے بلند پہاڑ ہمیں منجمند کرنے والی ہواؤں سے بچا لیتے ہیں۔
مگر یہ ایک مسافت ہے، مسلسل مسافت۔ جہاں سناٹے بھی آن وارد ہوتے ہیں اور بیاباں میں تنہا انسان بس ارد گرد بکھرے غبار کے باوجود نا چاہتے ہوئے بھی چلنا نہیں چھوڑتا۔



یہ ریاضتیں اور محنتیں رائیگاں کبھی نہیں جاتیں۔ مقام ایسے بھی آتے ہیں جب آسانیاں یوں پھوٹ پڑتی ہیں جیسے ثوریا شہر۔ الجھنیں گرہوں کی طرح جکڑتی ہیں، ذہن مفلوج ہونے کی حد تک ٹھہر جاتا ہے مگر۔۔ اس سفرِ مسلسل کی خاص بات یہی تو یہ جمود کا شکار نہیں ہوتا بلکہ یہ تو تغیر کا نام ہے۔ یہاں بدلاؤ لکھ دیا گیا ہے۔

 and Heraclitus said: “There is nothing permanent except change.”




Post a Comment (0)
Previous Post Next Post