ناول:- ٹرین ٹو پاکستان
مصنف:- خوشونت سنگھ
خوشونت سنگھ بھارت کے ایک مشہور مصنف،تاریخ دان، اور نقاد کی حیثیت رکھتے تھے۔ ویسے تو تعلیم اور عمل کے میدان ان کے ہاں قانون سیاست اور صحافت تھے لیکن وجہ شہرت ادب میں طبع آزمائی ہی ثابت ہوئی۔
میرا خوشونت سے تعارف ان کے ناول “دلی” سے ہوا جو کہ کچھ خوش مزہ نہیں تھا۔ دلی جیسی تخلیق شاید ان کی سیکولر طبیعت کی عکاس تھی۔
ٹرین ٹو پاکستان “انیس سو سینتالیس” کے سقوط،خون کے دھبوں سے سیاہ ہو چکی سرزمین اور ان سیاہ خونی دھبوں سے جھلکتے عوامی اور سماجی جذبات کا عکس بن کر خوشونت کے قلم سے صفحہ قرطاس پہ رونما ہوا ہے۔ خوشونت نے تقسیم کے دل دہلا دینے والے واقعات کا دیدہ دلیری سے مشاہدہ کیا ہے اور ان واقعات کو انہی نعشوں کی خونی سیاہی سے لکھ کر قاری تک پہنچایا ہے جن کو کٹتے ،مرتے اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
ٹرین ٹو پاکستان ایک ایسے خیالی گاؤں (منو ماجرا)میں پیش آنے والے خونی واقعہ کی کہانی ہے ۔ جس میں حالات ، جذبات ، واقعات ، سیاست ، نفرت اور غم و اندوہِ عشق کی داستان رقم کی گئی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک سکھ بدمعاش لڑکا جگا ہے۔ جگا عشق کی سولی پہ لٹکتے ہوئے بھی محبتوں کے چراغ روشن کرنے والا ایک دلیر اور روایتی مرد ہے۔ اور اپنی معشوقہ جو کہ مسلم لڑکی نوراں ہے سے والہانہ عشق و محبت کے جذبات میں سرشار پوری دنیا کے ظالموں سے اکیلا لڑ بھڑتا ہے۔ دوسری طرف منو ماجرا گاؤں کی روایات وہاں بسنے والے لوگ جو کہ سکھ اور مسلمان ہیں۔ ان کی آپسی محبت اور ان کی اپنی زمین سے مشترکہ محبت اور وارفتگی کے جذبات کہانی کی دل سوزی میں اضافہ کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔
یہ ناول کوئی خوشونت جیسا ہی درد دل رکھنے والا شخص لکھ سکتا تھا۔ جو اپنی مٹی سے محبت میں جہاں اس نے پہلی بار آنکھیں کھولی تھیں اپنی راکھ کو دفن کرنے کی نصیحت کر کے اس دارفانی سے کوچ کر گیا اور پھر حالات کی ناسازی کی بدولت اس کی نعش کو وہیں ہندوستان میں جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ لیکن اس راکھ کا وہ حصہ جو اس کے دل والی جگہ نمودار ہوا تھا اسے سنبھال کر ٹرین کے ذریعے پاکستان اس کے آبائی گاؤں “ہڈالی” بھیج دیا گیا۔ اور جہاں پہلی بار اس کا دل دھڑکا تھا اس راکھ کو وہیں دفن کر دیا گیا۔ یوں خوشونت کے ناول “ٹرین ٹو پاکستان” کا اختتام لکھا گیا۔
۔
ناول کی ترتیب بہت شاندار ہے۔یاسر جواد نے ترجمہ کرتے ہوئے کوئی نا انصافی نہیں کی،ایک ایک منظر کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے